امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے خاندانی طرز زندگی کے پہلو

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے خاندانی طرز زندگی  کے پہلو
* سادہ جہیزیہ اور مہریہ

در دوران پس از ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےبعد، اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی عمرمبارک کے ابتدائی سالوں میں، علی‌بن‌ ابی‌طالب علیه‌الصّلاةوالسّلام کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک  ہوتی ہیں،  توآپ علیہا السلام کا مہر اور جہیز یہ بھی  معمولی تھے؛ جسے آپ سب جانتے ہیں کہ دنیائے اسلام کےپہلے نمبر کی  عظیم بیٹی نے کتنی سادگی کے ساتھ اپنی شادی کی ہیں۔
۱۳۷۱/۰۹/۲۵
* گھریلو اور شوہر داری کا نمونہ
ایک وقت انسان سوچتا ہے کہ بیوی ہونا، یعنی انسان کچن میں کھانا پکائے، کمرے کو صاف ستھرا اور سلیقے سے رکھے، اور پھر توشَک خانَہ میں کمبل یاتوشَک کو پرانی طرز پربچھائےتاکہ جب شوہرنامدار ڈیوٹی،کام یا دکان وغیرہ سے واپس آئے تو وہ آرام  کر سکے!
شوہرداری فقط اسی پر منحصر نہیں ہے۔بلکہ  آپ دیکھیں کہ فاطمه زهرا ءسلام‌الله‌علیها کی حقیقی شوہرداری کیسی تھی۔
 ان دس سالوں میں جو پیغمبر مدینہ میں موجود تھے، تقریباً نو سال حضرت زهرا و حضرت امیرالمؤمنین علیهماالسّلام ایک دوسرے کے ساتھ ایک بہترین میاں بیوی کےاعلی نمونے کے طور پررہے۔ ان نو سالوں میں، چھوٹے بڑےتقریباً ساٹھ جنگوں کا ذکر ملتا ہے۔ جن میں زیادہ تر امیرالمؤمنین علیہ السلام بذات خود شریک تھے۔
اب آپ دیکھیں، وہ ایک ایسی صنف نسواں سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون  ہیں جو گھر میں بیٹھی ہیں اور ان کا شوہر مسلسل محاذجنگ پر مصروفِ جہاد ہو! اور اگر وہ ہستی محاذ پر نہ ہو تو جنگی محاذ کمزور پڑ جائے!-
آپ ملاحظہ کیجئےگا کہ یہ محاذ کتنا اہم تھا جو اس  ہستی پر منحصر ہے –
دوسری طرف زندگی کی حالت بھی اتنی اچھی نہیں ہے؛ وہی چیزیں جو ہم نے سن رکھی ہیں:
﴿ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ‎إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴾‏
ترجمہ: اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (وہ ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری۔(٨-۹ -سورة الانسان )
(تفسیر الکوثر میں علامہ شیخ محسن صاحب اس آیہ مجیدہ کے بارے میں رَقَم طَراز ہے:اہل بیت علیہم السلام کی شان میں جو فضائل ان آیات میں بیان ہوئے ہیں، سب اس موقع پر بیان ہوئے، جب اہل بیت علیہم السلام نے ایثار و قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کرتے ہوئے مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلایا۔ اس سے ہمیں ایک درس یہ ملتا ہے کہ اللہ کو غریب پروری کس قدر پسند ہے۔ اسی لیے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت میں غریب پروری سرفہرست نظر آتی ہے۔ چنانچہ آیہ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ۔۔۔۔ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان بھی اسی غریب پروری کے موقع پر کیا ہے اور اس سورہ کی آیت 20 میں یکایک رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خطاب کر کے فرمایا: ”اور آپ جہاں بھی نگاہ ڈالیں گے، بڑی نعمت اور عظیم سلطنت نظر آئے گی۔“ جنت میں اہل بیت علیہم السلام کی سلطنت کو اللہ نے عظیم فرمایا تو اس سلطنت کی عظمت کا کسی کو کیا اندازہ ہو سکتا ہے، جسے اللہ نے عظیم کہا ہے۔)
 یعنی حقیقت میں ان کی زندگی بالکل ایک غریبانہ اور فقیرانہ گزر رہی تھی؛ جبکہ آپ علیہاالسلام ایک اسلامی مملکت کے سربراہ و رہنما اور ایک عظیم پیغمبر کی اکلوتی بیٹی ہیں، اور ان میں ایک قسم کی احساس ِ ذمہ داری اوراحساس ِمسؤولیت بھی ہے۔اس وقت دیکھیں انسان کتنا مضبوط  روحیہ اورذہن کا مالک ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے شریک حیات  کی مکمل سپورٹ کرسکیں؛ اس کے لئے لازمی ہے کہ اس انسان کےدل کو اہل و عیال کے وسوسوں اور زندگی دیگر مشکلات سے خالی رکھیں، اس ہستی کودلاسہ اور حوصلہ دے؛ بچوں کی وہ تربیت کو دیکھیں کہ جس طرح ان کی اپنی تربیت ہوچکی ہیں۔
اب آپ کہیں کہ امام حسن مجتبی اور امام حسین علیهما السّلام توخود امام تھے اور ان دونوں کی تو طینت میں ہی امامت تھی، لیکن جناب سیدہ زینب علیهاالسلام تو امام نہیں تھیں۔آپ جانتے ہیں کہ جناب  فاطمه زهرا سلام‌الله‌علیها نے اس خاتون  کی اسی نو سال کے دوران تربیت کی تھی۔پھر آپ علیہا السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد زیادہ مدت اس دنیا میں نہیں رہیں۔
اس طرح کی گھریلو زندگی اورشوہرداری  کے اعلی نمونہ قرار پائی اور  خاندانی زندگی کا مرکز بنی کہ رہتی دنیا تک ، تاریخ میں ایک عظیم آئیڈیل خاتون اور رول ماڈل  کے طور پر ثابت کردیا۔ کیا یہ سب چیزیں ایک کمسن اور  نوجوان لڑکی، ایک گھریلو خاتون یا جو  امورخانه‌داری کے متلاشی ہیں، ایک مثال اور رول ماڈل نہیں بن سکتی؟۔ ۱۳۷۷/۰۲/۰۷
* تربیت امام حسن اور امام حسین (علیهما‌السّلام)
زیارتِ امام رضا علیه‌ السّلام... میں پڑھتے ہےکہ:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ زَوْجَةِ وَلِيِّكَ وَ أُمِّ السِّبْطَيْنِ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ سَيِّدَيْ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ۔۔۔«۔۔۔اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ سِبْطَيْ نَبِيِّكَ وَ سَيِّدَيْ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ۔۔۔»
ان جملات میں "سِبْطَین"

(یعنی دونوں نواسے، مراد : رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں نواسے، یعنی حضرت امام حسن اور امام حسین سلام اللہ علیہماہیں)، ان کی والدہ گرامی یہی بزرگوارہستی  ہیں؛ اسی پاک دامن ،ماں جیسی ہستی نے  تربیت  کی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمارےلئے نمونہ ومثال اور اسوہ  و رول ماڈٖل کے طور پر پیش کرسکیں ۔  ۱۳۹۵/۰۱/۱۱
* امیرالمؤمنین (علیه السلام)کی خوشنودی کا باعث
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فاطمه زهرا ءسلام‌الله‌علیها کے بارے میں ارشاد فرمایا:
قـالَ عَلِـىٌّ عليه السلام فى حَديـثٍ...: ـ فَوَاللّهِ ـ ما اَغْضَبْتُها وَ لا اَكْرَهْتُها عَلى اَمْرٍ حَتى قَبَضَهَا اللّه ُ عَزَّوَجَلَّ اِلَيْهِ وَ لا اَغْضَبَتْنى وَلا عَصَتْ لى اَمْرا. وَلَقَدْ كُنْتُ اَنْظُرُ اِلَيْها فَتَنْكَشِفُ عَنِّى الْهُمُومُ وَ الأَحْزانُ (كشف الغمة ج1: 363-بحار الأنور،علامة المجلسي،ج،۴۳ص،134)
(حضرت علی علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا:

"خدا کی قسم، میں نے کبھی فاطمہ علیہا السلام کو غصے نہیں دلایا اور نہ ہی کسی ایسے کام پر مجبور کیا جو اسے پسند نہ ہو، یہاں تک کہ پروردگار عالم نے اسےاس دنیا سے اٹھا لیا۔ اور فاطمہ علیہا السلام نے بھی نہ  مجھے کبھی غصےدلایا اور نہ ہی کبھی میرے حکم سےسرپیچی اور انکار کیا۔ جب بھی میں اسے دیکھتا، میرے دل کی پریشانیاں اور غم دور ہو جاتےتھے۔"
مترجم:انسانی زندگی ایک مدنی الطبع  اورمشترک زندگی ہے،یعنی گھر اور خاندان کی خوشی کا راز دو طرفہ محبت اور سمجھ بوجھ کا نام ہے۔ شوہر ، بیوی اور بچے سب ایک دوسرے کے دکھ درود اور خوشیوں کا "«شريك» اورساتھی" ہونا چاہیے اور بے جا توقّعات کےذریعے ایک دوسرے کو تکلیف اور پریشانی کا باعث نہیں بننا چاہیے، بلکہ انہیں ایک دوسرے کا سہارا، انس و شادی اور خوشی کا باعث بننا چاہیے۔) یعنی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نےاپنی پوری زندگی میں  نہ کبھی مجھ "علی" کو غصہ دلایا اور نہ ہی کبھی میرے حکم کی مخالفت۔ جیسے کہ اسلام  کا دستور ہے اسی طرح فاطمه زهرا سلام الله علیها اپنی عظمت و جلالت اور عظیم مقام کے باوجود،بیت الشرف کے ماحول میں ایک بیوی اور ایک عورت ہیں؛  ۱۳۷۱/۰۹/۲۵
* انتخابِ الهی  پرخوش ہونا
حضرت فاطمه زهرا سلام‌اللَّه‌علیها نے ان دوسرے تمام خواستگاروں میں سے ایک  پاک دامن جوان کا انتخاب فرمایا جو"پاکباز" زاہد، اورپارسا‏ کا انتخاب کیا۔ جس نے[یعنی:امیرالمؤمنین علیه‌الصّلاةوالسّلام]  ہر چیز کو خدا کے راستے میں قربان کر چکا تھا] اورجو ہمیشہ میدان جہاد میں رہتا تھا۔
یہ کوئی مذاق تو نہیں!
جبکہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اسلام کے حاکم مقتدر اور عظیم سربراہ وہنما کی دخترِ نیک اختر(اکلوتی بیٹی) تھیں؛ ان کے پاس اتنے سارے خواستگار ہیں؛ ان میں سے کچھ دولت مند ہیں، تو کچھ معروف شخصیت کے حامل افراد بھی ہیں۔ لیکن پروردگار عالم نے ان سب میں سے" علی" کے لئے "فاطمہ "کو شریک حیات منتخب فرمایا اور دوسری طرف فاطمہ بھی خدا کی اس پسند سے راضی اور خوش تھیں۔ پھر، انہوں نے اس طرح سے امیرالمؤمنین علیه‌الصّلاةوالسّلام کے ساتھ زندگی بسر کی کہ خود امیرالمؤمنین علیہ السّلام بھی ان سے پوری وجود سے راضی تھے۔ 

وہ الفاظ جو اس عظیم خاتوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں امیرالمؤمنین علیه‌الصّلاةوالسّلام سے کہے، اس بات کی عکاسی کرتے ہیں...کہ انہوں نے صبر کیا؛ اپنےفرزندوں کی تربیت کی؛ حقِ‌ّ ولایت کے مکمل دفاع میں بہادری سے کھڑی رئیں؛ اس راہ میں جو صعوبتیں اور تکالیف و مشکلات برداشت کیں، اس کے بعد پھر بڑی خوش دلی کے ساتھ شہادتِ عظمی  کا استقبال کیا۔ یہ ہستی فاطمه زهرا سلام‌اللَّه‌علیها ہیں۔ ۱۳۷۳/۰۹/۰۳

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک