عقل کی خلقت، اہمیت اور مراتب قرآن و حدیث کی روشنی میں
عقل کی خلقت، اہمیت اور مراتب قرآن و حدیث کی روشنی میں
چکیدہ:
عقل انسا ن کےپاس نعمت الٰہی ہے جس کا بشریت کی تاریخ میں بہترین نظام زندگی اور معاشرہ سازی میں کلیدی کردار ہے۔ خداوند عالم نےاس کی جبلت میں حیاء، عظمت، شرافت ، اطاعت اور تسلیم و رضا کو ودیعت کیااور انسان کےلیے دلیل ، حجت ، نجات دہندہ اور راہنما کےطور پر پیش کیا جس کا ہم زندگی کےمختلف امور میں بغور مشاہدہ کرتے ہیں محققین نےاس کےبارے مختلف موضوعات اور نئے نئے پہلؤں سےخامہ فرسائی کی ہے ۔اس مقالہ میں ان سب کا احصاء ممکن نہیں لہذا بقدر وسعت کتاب اللہ اور اخبار معصومین کی روشنی میں عقل کی خلقت، اہمیت اور مراتب کےمتعلق چند گزارشات قارئین کی خدمت پیش کرنےکی سعی کی گئی ہے۔
کلیدی الفاظ:عقل، تخلیق، اہمیت، مراتب
مقدمہ:
عقل کی خلقت تاریخ کائنات کا وہ عظیم ترین سانحہ ہے جس کی اہمیت خود انسان سےبھی کہیں زیادہ ہے ۔اس بغیر دیگر نعمات و فیوضات الٰہیہ کا ادراک و شعور ممکن نہیں۔ یہ عقل ہی کا کمال ہے جواس مشت خاک کو سراپا نور فرشتوں سےاعلیٰ و ارفع بناتی ہے جبکہ اس کی مخالفت کرنےوالے پستیوں کی دلدل میں دھنسےچلے جاتے ہیں اور اسفل سافلین کا مصداق ٹھہرتےہیں۔ بشر اس دنیا میں واحد مخلوق ہے جس کو خداوندعالم نےعقل اور خواہش جیسی کئی متضاد صفات سےمرکب کیا گویا کہ کرہ ارض پر سب سےبڑا عجوبہ اور خدا کی نشانی ٹھہرایا ۔ لیکن اس کی ارزش عقل کےمطابق قرار دی کیونکہ یہ خود آگاہی اور خدا شناسی کا منبع ہےاس کےذریعے انسان مخلوق خداسےتعلق اور خالق سےارتباط مضبوط کرتا ہےاسی سےدین خداوندی کی پہچان، حق و باطل میں تمییز، رہن سہن کےآداب، بود وباش کےسلیقے، دوست اور دشمن میں فرق ، مشکلات اور اندھیروں میں راہنمائی اورگمراہی کی تیرگیوں میں نور کا اجالاتلاش کرتا ہے خدا کی طرف سےبرہان قاطع بھی یہی ہے۔ آفرینش عقل کےبعد آزمائش میں فتح مندی پر انعام و اکرام سےنوازا اسےمعیار ثواب وجزاء، سب سےباعزت ، باشرف، بلند مرتبہ عزیز اور محبوب ترین مخلوق قرار دیا۔ اس پہ مستزاد یہ کہ اسےفقط معصوم ملائکہ اور اشرف المخلوقات کےلیے خاص کیا اس کےمختلف درجات بنائے اور سب سےاعلیٰ مرتبہ اپنی پسندیدہ ترین مخلوق انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کےلیے چنا ۔ پس اتنی عظیم مخلوق کافہم انسان کی فکری بساط سےباہر ہے لہذا عقل حقیقت اور اہمیت کو سمجھنےکےلیے خالق عقل اورمعصومینؑ کےکلام کا سہارا لیتے ہوئے کچھ معروضات سپر د قلم کریں گے۔
عقل کےلغوی معنیٰ:
لفظ عقل اپنےمشتقات اور مختلف تعبیرات جیسےاولی الباب،اولنھیٰ،افئدۃ،قلب،فؤاد وغیرہ کےساتھ کئی بار قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔لغت میں اس کےچار معانی بیان کیے گئے ہیں۔
1۔عقل کی جمع عقول ہے جس کےمعنیٰ منع کرنےاور روکنےکےہیں اس کی ضد حمق ہے۔
(1ابن منظور، محمد بن مکرم ،لسان العرب ، ج9 ،بیروت، دار احیاء التراث ،طبع اول، ص326)
حدیث نبویؐ ہے:
رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله : إنَّ العَقلَ عِقالٌ مِنَ الجَهلِ ، و النَّفسَ مِثلُ أخبَثِ الدَّوابِّ ، فإن لَم تُعقَلْ حارَت ۔"
(نوری، میرزا حسین ،مستدرک الوسائل، باب وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجھل ، قم،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، طبع ثالث، ح12762- تحف العقول : 15)
بے شک عقل جہالت ونادانی سےبچاتی ہے"۔
2۔دیت کےمعنیٰ میں بھی استعمال ہوا ہے۔
( جزری،مبارک بن محمد ابن اثیر،النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر،ج3، بیروت، دارالکتب العلمیہ ، طبع ثانی ، ص252، ابن فارس،احمد بن فارس زکریا،معجم مقاییس اللغۃ ،ج4،دار الفکر،طبع اول ،ص69)
امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث مبارکہ ہے:
إنّ المرأة تعاقل الرجل إلى ثلث الدية ۔۔
( صدوق، محمد بن علی بابویہ ،من لا یحضرہ الفقیہ، ج4 ،موسسہ اعلمی مطبوعات ، طبع اول ،ح5239- وسائل الشیعة 29: 352، کتاب الدیات، ابواب دیات الاعضاء، باب44، ح1، ط آل البیت)
" عورت، مرد کی دیت کےایک تہائی حصے تک دیت میں ساتھ رہتی ہے" ۔
3۔جوہری کہتے ہیں: العَقْل: الحصن،و جمعه عُقُول ۔
(فراہیدی ،عبدالرحمن خلیل بن احمد، کتاب العین ، ج1 ، بیروت، موسسہ اعلمی مطبوعات ، طبع اول ،ص160،159،ابن فارس،احمد بن فارس زکریا،معجم مقاییس اللغۃ ، ج4 ،بیروت،دار الفکر،طبع اول، ص70)
" جس کےمعنیٰ قلعہ کےہیں اس کی جمع عقول ہے ۔"اور جہل کی ضد ہے
4۔علامہ راغب اصفہانی مفردات میں دو معنیٰ بیان کرتے ہیں ۔ "عقل وہ قوت ہے جوعلم کو قبول کرنےکےلیے آمادہ رہتی ہے"۔
( اصفہانی،علامہ راغب،مفردات الفاظ القرآن، دمشق ، دارالقلم ، طبع اول،ص578)
دوسرا معنیٰ خود رکنا اور دوسرے کو روکےرکھنا ، باز رکھنا کےہیں جیسے
" أصل العقل البعير بالعقال " (اصفہانی،علامہ راغب،مفردات الفاظ القرآن، دمشق ، دارالقلم ، طبع اول،ص578)
اونٹ کو رسی باندھ کر روکےرکھنا"۔
بظاہران تمام معانی کی بازگشت روکنےاور منع کرنےکی طرف معلوم ہوتی ہے چونکہ عقل انسان کو خواہشات نفسانی اور ہوا وہوس سےروکتی ہے اس طرح دیت بھی مزید خونریزی اور قتل و غارت سےمحفوظ رکھتی ہے قلعہ دشمنوں سےحفاظت کےلیے بہترین پناہ ہے۔ اگرچہ عقل ہلاکت و سرگردانی سےبچاتی ہے۔لیکن اس کےلغوی معانی، اصطلاحی اور عرفی مفہوم کےساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ اس لیے مفسرین حضرات بھی جب قرآن و حدیث میں عقل کی بات کرتے ہیں تو لغوی معنی کےدرپے نہیں ہوتے بلکہ عرفی اور اصطلاحی معنی سمجھ ، فہم ، شعور اور خرد وغیرہ کےمتعلق گفتگو کرتے ہیں۔
اصطلاحی تعریف:
ائمؑہ نےعقل کی تعریف کرتے ہوئے اسےعبادت الٰہی کا زریعہ اور خزائن جنت کی کلید قرار دیا ایک اور جگہ امام علؑی نےفرمایا:
قالَ السّائِلُ: يا مَولاىَ وَمَا العَقلُ؟ قالَ عليه السلام: العَقلُ جَوهرٌ دَرّاكٌ، مُحيطٌ بِالأَشياءِ مِن جَميعِ جِهاتِها، عارِفٌ بِالشَّى ءِ قَبلَ كَونِهِ فَهُوَ عِلَّةُ المَوجوداتِ ونِهايَةُ المَطالِبِ
(شہری، محمدی رے،عقل وجہالت قرآن وحدیث کی روشنی میں، لاہور ،معراج کمپنی ،طبع اول، ص27- كلمات مكنونه ، فيض كاشانى : ص 76 ، اتحاد عاقل به معقول : ص 12 )
سائل نےعرض کی : مولا عقل کیا ہے؟
فرمایا:" عقل درک کرنےوالا جوہر ہےجوتمام تر جہات سےاحاطہ کرتا ہے اور چیزوں کی ان کی آفرینش سےپہلے پہچان لیتا ہے موجودات کےوجود کا سبب اور امیدوں کی انتہاء ہے "۔
عقل کا کردار چونکہ تمام علوم و فنون میں ناگزیرہے لہذا ان کےماہرین نےاپنےفن کےمطابق اس کی تعریفات کی ہیں چند ایک درج ذیل ہیں۔
المشهور ان العقل الذى هو مناط التكليف هو العلم بوجوب الواجبات و استحاله المستحيلات لان العقل لو لم يكن من قبل العلوم، لصح انفكاك احدهما عن الاخر، لكنه محال لاستحاله ان يوجد عاقل لا يعلم شيئا البته، او عالم بجميع الاشياء، و لا يكون عاقلا، ثم ليس هو علما بالمحسوسات لحصوله فى البهائم و المجانين، فهو اذن علم بالامور الكليه و ليس ذلك من العلوم النظريه لانها مشروطه بالعقل. (رازی،فخر الدین محمد بن عمر،محصل افکار المتقدمین والمتاخرین من الفلاسفۃ والمتکلمین، مطبعہ حسینیہ مصریہ،طبع اول، ص،72- شرح نهج البلاغه - نسخه متنی،قطب الدین کیدری)
"عقل تکلیف کا معیار ہے جو واجبات کےوجوب اور ناممکنات کےمحال ہونےکا علم ہے"۔
خواجہ نصیر الدین طوسی عقل کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:
"الشئ الذی وجوده مدرکا"۔
(طوسی، خواجہ نصیر الدین ،تلخیص المحصل معروف بہ نقد المحصل، تہران ،ناشر موسسہ مطالعات اسلامی دانشگاہ ،ص 522)
"وہ شئے جس کےذریعے چیزوں کو درک کیا جا تا ہےاور یہ ادراک ذاتی ہوتا ہے"۔
"والعقل هو ما افاد العلم بموجباته "
( ماوردی، علی بن محمد ، اعلام النبوۃ ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ ، طبع اولیٰ، ص07)
" جس کےذریعے حاصل ہونےوالے علم کےاثرات مرتب ہوتے ہیں"۔
"هو العلم بخفیات الامور التی لا یوصل الیها الا بالاستدلال والنظر" ۔
(ماوردی، علی بن محمد ، اعلام النبوۃ ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ ، طبع اولیٰ، ص07)
" وہ اشیاءجنہیں استدلال اور فکر کےبغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا ان مخفی چیزوں کا علم حاصل کرنی والی قوت عقل کہلاتی ہے"۔
مذکورہ بالا تعریفات میں سےخواجہ نصیر الدین طوسی کی تعریف زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہےکیونکہ ابتداء میں مذکور امامؑ کےفرمان سےبھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
خلقت عقل:
عقل کی خلقت کےبارے میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں۔
عقل مخلوق اول:
روایات معصومین علیہم السلام میں روحانی مخلوقات میں سےسب سےپہلے جسےخلعت آفرینش پہنایا گیا عقل ہے اس بارے میں متعدد احادیث ہیں جن میں سےقابل ملاحظہ ہیں۔ایک طولانی حدیث کی ابتداء میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا:
«قال رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله: إنّ اللّه تعالى لمّا خلق العقل من نور مخزون مكنون في سابق علمه الذي لم يطّلع عليه أحد من خلقه۔۔۔
( نوری، میرزا حسین ، مستدرک الوسائل، باب وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجھل ، قم،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، طبع ثالث ، ح12745)
اللہ تعالیٰ نےعقل کو چھپے ہوئے اور پوشیدہ نور سےپیدا کیاجو پہلے سےخداوند عالم کےعلم میں تھاجس کا کسی نبی مرسل اور نہ ہی مقرب فرشتے کو علم تھا۔سماعۃ بن مھران کی امام جعفر صادق علیہ السلام سےروایت ہے جس میں آپ نےعقل و جہل کےلشکروں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :
الإمامُ الصّادقُ عليه السلام : إنَّ اللّه َ جلَّ ثَناؤهُ خَلَقَ العَقلَ،وهُوَ أوَّلُ خَلقٍ خَلَقَهُ مِنَ الرُّوحانيّينَ عَن يَمينِ العَرشِ مِن نورِهِ
(رےشہری، محمد،میزان الحکمت، بیروت، دار احیاء التراث العربی، طبع اول ،ح13306)
اللہ تعالیٰ نےعقل کو پیدا کیا اور عقل روحانی مخلوقات میں سےسب سےپہلی مخلوق تھی جسےخدا نےاپنےنور سےعرش کےدائیں جانب پیدا کیا۔
علامہ مجلسی پہلی حدیث کےبارےمیں رقم طراز ہیں۔
"یہاں نور سےمراد شاید کمالات اوراخلاق الہٰی کا ظہور ہویعنی اللہ تعالیٰ نےعقل میں ان چیزوں کو ودیعت کردیا ہے جہاں بھی عقل ہوگی اس میں یہ لازمی ہونگی یہ پھر حدیث میں من علت بیان کرنےکےلیے ہے یعنی اللہ نےعقل کو ان اشیاء کےادراک کےلیے پیدا کیا ہے تاکہ انسان عقل کےاستعمال سےیہ چیزیں حاصل کر لے"۔
(مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار ،ج1 ، بیروت، موسسہ الوفا ، طبع ثانی ،ص98)
لیکن یہاں نور سےمراد خود نور خداہونا زیادہ بہترمعلوم ہوتا ہےکیونکہ روایت کا آخری جملہ بھی اس پر دلیل ہے کہ اللہ نےعقل کو اپنےنور سےپیدا کیا ۔پس عقل ہی خدا وند عالم کی پہلی مخلوق ٹھہری۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے۔
عنه صلى الله عليه و آله : أوَّلُ ما خَلَقَ اللّه ُ العقَلُ
(احسائی، محمد بن علی، عوالی الئالی العزیہ ،باب فی الاحادیث المتعلقۃ بالعلم ،قم،مطبعہ سید الشھداء ، ح 141)
اللہ تعالیٰ نےسب سےپہلے عقل کو خلق فرمایا۔نیز اس حدیث کا "سب سےپہلے اللہ نےمیرے نور کو خلق کیا" کےساتھ بھی اس کا کوئی تضاد نہیں کیونکہ نور سےمراد عقل پیغمبر اکرمؐ ہے۔
محبوب پرودگار:
خداوندعالم نےاس کائنات میں انواع و اقسام کی مرئی اور غیر مرئی مخلوقات پیدا کیں مگر عقل اور انسان کو امتیازی اور بلند رتبہ عطا کیا انسان کی خلقت پر ذات باری تعالیٰ نےخود کو احسن الخالقین اور بابرکت قرار دیا جبکہ عقل کی خلقت پر اسےتمام تر مخلوقات میں سےسب سےزیادہ پسندیدہ قرار دیا ۔ صاحبان عقل کی اپنی خاص نگاہ رحمت سےتائید فرمائی اور اپنےمحبوں میں اس کی تکمیل کا وعدہ فرمایا۔ محمد بن مسلم امام محمد باقر محمد علیہ السلام سےروایت کرتے ہیں
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اَللَّهُ اَلْعَقْلَ اِسْتَنْطَقَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ ثُمَّ قَالَ وَ عِزَّتِي وَ جَلاَلِي مَا خَلَقْتُ خَلْقاً هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْكَ وَ لاَ أَكْمَلْتُكَ إِلاَّ فِيمَنْ أُحِبُّ أَمَا إِنِّي إِيَّاكَ آمُرُ وَ إِيَّاكَ أَنْهَى وَ إِيَّاكَ أُعَاقِبُ وَ إِيَّاكَ أُثِيبُ .
(کلینی، محمد بن یعقوب، اصول االکافی، کتاب عقل و جہل ،قم،دارلعرفان ،طبع اول، ح 01)
مجھے اپنی عزت و جلالت کی قسم! میں کسی مخلوق کو پیدا نہیں کیا جو تجھ سےزیادہ میرے نزدیک پسندیدہ ہو تجھے کامل طور پر فقط اسےعطا کروں گا جو مجھ سےمحبت کرتا ہوگا۔
کسی بھی چیز سےمحبت کےکچھ تقاضے ہوتے ہیں جب وہ تقاضے اور توقعات پوری نہ ہوں تو اس سےمحبت ممکن نہیں لہذا اس سےیہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عقل نےذات کردِگارکےان تمام تقاضوں کو پورا کیا جن کی عقل سےتوقع رکھی گئی تھی تب محبوبیت کےدرجے پر فائز ہوئی ۔ بعض دیگر احادیث میں یہ مطلب مختلف عبارت اور الفاظ کےساتھ بیان کیا گیا ہے کہ عقل نےجب خدا وندعالم کےحکم کےسامنےسر تسلیم خم کیا تو اللہ نےاسےانعام سےنوازااور محبوب کبریاقرار دیا۔
آزمائش اور میثاق:
سماعہ بن مھران ایک طویل حدیث کےضمن میں امام جعفر صادق علیہ السلام سےنقل کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نےعقل خلق کی اور اطاعت کےذریعے اس کا امتحان لیا تو کامیاب ہوگئ خدا وند عالم نےفرمایا:
۔۔۔ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ فَقَالَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لَهُ خَلَقْتُكَ خَلْقاً عَظِيماً۔۔
(کلینی،محمد بن یعقوب، اصول الکافی، کتاب العقل والجہل ،قم،دار العرفان ، طبع اول، ح14- المحاسن , جلد۱ , صفحه۱۹۶)
بے شک میں نےتمہیں سب سےعظیم پیدا کیا۔پروردگار عالم نےتمام چیزوں کو یکساں مقام نہیں دیا ،ان میں رتبے اور مقام کےلحاظ سےفرق ضرور رکھا حتی کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو بھی ایک جیسا رتبہ عطا نہیں فرمایا بلکہ
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ(البقره ۲۵۳)
کےتحت فوقیت و برتری بخشی اس طرح عقل کو بھی پیدائش کےوقت ہی عظیم مرتبے کی نوید سنائی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےمروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نےعقل کو خطاب کیا:
أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ قَالاَ: لَمَّا خَلَقَ اَللَّهُ اَلْعَقْلَ قَالَ لَهُ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ فَقَالَ وَ عِزَّتِي وَ جَلاَلِي مَا خَلَقْتُ خَلْقاً أَحْسَنَ مِنْكَ إِيَّاكَ آمُرُ وَ إِيَّاكَ أَنْهَى وَ إِيَّاكَ أُثِيبُ وَ إِيَّاكَ أُعَاقِبُ
(حر عاملی،محمد بن حسن، فصول المہمہ فی اصول الائمہ، ج1 باب ان اللہ ما خلق خلقا۔۔،موسسہ معارف اسلامی امام رضا، طبع اول، ح11- المحاسن , جلد۱ , صفحه۱۹۲)
"میں نےعقل سےزیادہ بہترین، اطاعت گزار،بلند مرتبہ،صاحب شرف اور عزیز ترین مخلوق پیدا نہیں کی "۔درج بالا احادیث میں عقل سےوقت خلقت اہم ترین پیمان کا تذکرہ ہورہا ہے جس کی بنیاد عظیم، باشرف، باکرامت اوراعلیٰ و ارفع قرار دینےپر استوار ہے۔ کیونکہ عقل ہی وہ مخلوق ہے جسےپیدا کرتے ہی فورا آزمایا گیا اور اپنی آزمائش میں مکمل کامیاب ہوئی۔
عزت اور کرامت:
اللہ تعالیٰ نےعقل کو عزت و کرامت کا تاج پہنایا اور اسےاپنےمکرم اور محترم بندوں میں کامل کرنےکا وعدہ فرمایا کیونکہ عقل خود بھی سب سےزیادہ محترم مخلوق تھی۔ جیسےامام جعفر صادق علیہ السلام سےمروی ہے:
وَ قَالَ اَلصَّادِقُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ : إِنَّ اَللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَمَّا خَلَقَ اَلْعَقْلَ قَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ فَقَالَ وَ عِزَّتِي وَ جَلاَلِي مَا خَلَقْتُ خَلْقاً أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْكَ أُؤَيِّدُ مَنْ أَحْبَبْتُهُ بِكَ
(مفید،محمد بن محمد ،الاختصاص، باب العقل والجہل ، منشورات جماعۃ المدرسین ، ص244- الإختصاص , جلد۱ , صفحه۲۴۴)
خدا وندعالم نےعقل سےارشاد فرمایا: میں نےتجھ سےزیادہ عزیز ترین کوئی مخلوق پیدا نہیں کی پس جو تجھ سےمحبت کرے گا میں بھی اس کی تائید کروں گا۔ حدیث قدسی میں وارد ہے کہ اللہ تعالی نےعقل کا امتحان لینےکا بعد فرمایا:
۔۔فَقَالَ لَهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى: مَا خَلَقْتُ خَلْقاً هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْكَ وَ لاَ أَكْرَمَ عَلَيَّ مِنْكَ، ۔۔۔
(مجلسی،محمد باقر،بحارالانوار ،باب حقیقۃ العقل و کیفیتہ وبدو خلقہ ، بیروت، موسسہ الوفا ، طبع ثانی ، ح09- التشريف بالمنن في التعريف بالفتن , جلد۱ , صفحه۲۱۸ )
"میں نےکوئی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی جو میرے نزدیک تجھ سےزیادہ باکرامت ہو"۔
عزت و تکریم کوئی ایسی چیز نہیں جسےزبردستی ممکن بنایا جاسکےبلکہ یہ ایک وجدانی کیفیت کا نام اور ایک معیار کا تصور ہے پس جن میں وہ معیار اور کیفیت ہوں گی اس کی عزت و احترام کرنےپر مجبور کریں گی۔پس جب اللہ تعالیٰ نےعقل میں بھی وہ انگیزہ پایا جو قابل احترام و تحسین تھا تو قسمیں اٹھا کر کہا کہ میں نےعقل کو اپنی باقی تمام تر مخلوقات پر کرامت بخشی اور عزو شرف کا تاج پہنایاہے۔ کیونکہ یہ مشکلات میں ہمنوا، راہنما اور حکم پر مطیع و فرمانبردارہے کسی قسم کا تردد کرنےوالی نہیں پس اللہ تعالیٰ نےآزمائش اور اس میں کامیابی کی وجہ سےیہ کمال بخشا ۔
اطاعت و فرمانبرداری :
جلیل القدر راویوں پر مشتمل حدیث امام محمد باقر علیہ السلام سےمنقول ہے:
الإمامُ الباقرُ عليه السلام : لَمّا خَلَقَ اللّه ُ العَقلَ قالَ لَهُ : أقبِلْ فَأقبَلَ ، ثُمَّ قالَ لَهُ : أدبِرْ فَأدبَرَ ، فقالَ : و عِزَّتي و جَلالي ما خَلَقتُ خَلقا أحسَنَ مِنكَ .(۱)، إيّاكَ آمُرُ و إيّاكَ أنهى ، و إيّاكَ اُثيبُ و إيّاكَ اُعاقِبُ . ۲-
(۱- في نقل : أعزّ منك . و في نقل أكرم عليَّ منك . و في نقل : ما خلقت خلقا هو أحبّ إليَّ منك . و في نقل : ما خلقت خلقا أحسن منك ، و لا أطوع لي منك ، و لا أرفع منك ، و لا أشرف منك و لا أعزّ منك . و في نقل : فقال جلّ و عزّ : خلقتك خلقا عظيما و كرّمتك على جميع خلقي . و في نقل : ما خلقت خلقا أعظم منك ، و لا أطوع منك.
۲- الكافي : 1/26/26.)
(کلینی،محمد بن یعقوب، اصول الکافی، کتاب العقل والجہل ،قم،دار العرفان ،طبع اول، ح01،14)
"اللہ تعالیٰ نےجب عقل کو خلق کیا تو اسےقوت گویائی عطا کی اور فرمایا کہ آگے چلی جا تو وہ آگے آگئی پھر حکم دیا کہ پیچھے چلی جا تو وہ پیچھے چلی تو اللہ تعالیٰ نےفرمایا مجھے اپنےعز و جلال کی قسم میں نےتجھ سےزیادہ محبوب کوئی چیز پیدا نہیں کی"۔عقل میں ایک اہم ترین عنصر اطاعت اور فرمانبرداری کا ہے جس کی وجہ سےاللہ تعالیٰ نےعقل کو باقی تمام تر کمالات اور نعمتوں سےنوازا کیونکہ عقل ہی ہے جو انسان کو تسلیم و رضا سکھاتی ہے مخلوق سےخالق تک پہنچاتی ہے ۔ ذات احدیت کی معرفت اور حق و باطل کےمابین تمیز کرنا سمجھاتی ہے۔ اس عنوان پرکئی ایک اخبار موجود ہیں جن میں عقل کو اطوع یعنی خدا کی سب سےزیادہ تابع اور فرمانبردار مخلوق قرار دیا ہے۔عقل سےیہ محبت در حقیقت اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کےسبب تھی جبکہ مقابل میں جہل کو خلق کیا اور اس کا امتحان لیا اس نےنافرمانی کی تو اللہ نےاس پر لعنت کی۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا عقل کو خدا وندعالم نےجتنی خوبیوں اور انعامات عطا کیے ان کےپس پردہ یہی عامل کارفرما تھا ۔
عقل کی اہمیت:
قرآن مجید میں
افلا تعقلون ، لقوم یعقلون، لاولی الباب ، اولی النھٰی
جیسےالفاظ کےساتھ بارہا خطاب ہوا ہے اور تواتر معنوی کی حد تک اخبار ائمؑہ عقل کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔نظام زندگی کا دارو مدار انسان کی عقل پر ہے جس کےذریعے اپنےامور کی تدبیر ، لوگوں سےمیل جول کےآداب اور صانع حقیقی کی معرفت حاصل ہوتی ہے عقل حقائق تک رسائی ، معارف اور احکام کےا دراک کا سرچشمہ اور پروردیگار عالم کی نعمت عظمیٰ ہے ۔امام جعفر صادق علیہ السلام سےروایت ہے
الإمامُ الصّادقُ عليه السلام : إذا أرادَ اللّه ُ أن يُزيلَ مِن عَبدٍ نِعمَةً كانَ أوَّلُ ما يُغَيِّرُ مِنهُ عَقلَهُ
(نوری، میرزا حسین ، مستدرک الوسائل، ج11 باب وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجھل ، قم،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ،طبع ثالث، ح12757- الاختصاص : 245.)
"جب اللہ تعالیٰ اپنےبندے سےکسی نعمت کو چھیننےکا ارادہ کرتا ہے تو سب سےپہلے اس کی عقل زائل کردیتا ہے"۔ کلام الہٰی میں عقل کےبارے میں دو قسم کی آیات ہیں ایک وہ جن میں صاحبان عقل کی کی مدح و ستائش کی گئی ہے جبکہ کافی ساری آیات میں بے عقلوں کی مذمت موجود ہے۔عقل کی عظمت کےلیے اتنا کافی ہے کہ جب کسی کی طرف اس کی نسبت دی جائے تو خوش ہوجاتا ہے اور اس کےعدم کی نسبت سےناراحتی کا احساس کرتا ہے۔
وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ(یونس-۱۰۰)
"جو لوگ عقل سےکام نہیں لیتے اللہ انہیں پلیدگی میں مبتلا کردیتا ہے"۔
مفسرین نےیہاں پلیدگی سےمراد شک و تردد لیا ہے جس کےسبب انسان توہمات اور خیالات کی دنیا میں سرگرداں رہتا ہے ، کوئی محکم فیصلہ کرسکتا نہ ہی کوئی کام پایہ تکمیل تک انجام دے سکتا ہے۔ گویا دنیوی و اخروی زندگی میں کامیابی و کامرانی میں عقل کا مرکزی کردار ہے۔ اگرچہ عقل کی اہمیت و ضرورت زندگی کےہر شعبے میں روز روشن کی طرح عیاں ہے جن میں سےچند ایک پہلؤں کوقرطاس کےسپرد کریں گے۔
نجات اور کامیابی کی ضامن:
ارشاد ربانی ہے:
وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ(ملك-۱۰)
اور وہ کہیں گے:اگر ہم سنتے یا عقل سےکام لیتے تو ہم جہنمیوں میں نہ ہوتے۔
کرہ ارض پر انسان کسی بھی خطے یا مذہب سےتعلق رکھتا ہو حتی کہ لادین ہی ہو سب کااپنی کامیابی کےلئے دن رات کوشاں رہنا مشترک ہے۔ مگراپنےمقاصد میں کامران وہی ہوسکتا ہے جو ان کےبارےمیں زیادہ سےزیادہ سوچ سکتا ہو یہ قوت تفکر انسان کو عقل عطا کرتی ہے۔آیہ مجیدہ میں بھی ناکام اور مراد لوگوں کی آخری خواہش کو بیان کیاگیا ہے جنہوں نےضرورت کےوقت نجات دہندہ عقل کو پس پشت ڈال دیا اور اس کی مخالفت پر بعد میں پچھتا رہے ہیں جیسا کہ حدیث نبویؐ میں ہے:
رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله : اِستَرشِدوا العَقلَ تَرشُدوا، و لا تَعصوهُ فتَندَموا
(نوری، میرزا حسین ، مستدرک الوسائل، ج11 باب وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجھل ، قم،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، طبع ثالث ،ح12752- كنز الفوائد : 2/31.)
"عقل سےراہمنائی طلب کرو تو تمہیں ہدایت دے گا اس کی نافرمانی نہ کرنا وگرنہ پشیمان رہو گے"۔
ایک شہرہ آفاق مقولہ ہے" جس کےپاس خود کچھ نہ ہو وہ دوسروں کو کیسےعطا کر سکتا ہے" حدیث میں عقل سےراہنمائی اور اس کی پیروی کی کا حکم دیا گیا ہے گویا کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے عقل پہلے سےامتحان سےگزر کر کامیاب ہوچکی ہپے لہذا اب جو بھی اس کو مرشد و ہادی بنائے گا یہ اسےنجات اور فلاح دے گی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
وَ قَالَ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: مَا اِسْتَوْدَعَ اَللَّهُ عَبْداً عَقْلاً إِلاَّ اِسْتَنْقَذَهُ بِهِ يَوْماً (حلوانی،حسین بن محمد ،نزھۃ الناظر وتنبیہ الخاطر، باب من کلام رسول اللہ ،قم، مدرسہ امام مہدیؑ ، طبع اول ،ح57- نزهة الناظر و تنبیه الخاطر , الجزء۱ , الصفحة۲۲)
"اللہ تعالیٰ نےکسی بندے کو عقل عطا نہیں کی حتی کہ اسےایک دن نجات دلادے گی"۔
برہان قاطع:
امام موسیٰ بن جعفر علیہما السلام سےروایت ہے:
فِي أُصُولِ اَلْكَافِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا رَفَعَهُ عَنْ هِشَامِ بْنِ اَلْحَكَمِ قَالَ قَالَ لِي أَبُو اَلْحَسَنِ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ : يَا هِشَامُ إِنَّ لِلَّهِ عَلَى اَلنَّاسِ حُجَّتَيْنِ حُجَّةً ظَاهِرَةً وَ حُجَّةً بَاطِنَةً، فَأَمَّا اَلظَّاهِرَةُ فَالرُّسُلُ وَ اَلْأَنْبِيَاءُ وَ اَلْأَئِمَّةُ عَلَيْهِمُ اَلسَّلاَمُ ، وَ أَمَّا اَلْبَاطِنَةُ فَالْعُقُولُ.
(حرعاملی، محمد بن حسن ،وسائل الشیعہ، با ب وجوب طاعۃ العقل والجہل ، قم، موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ،طبع رابع ،ح 20291- تفسير نور الثقلين , جلد۱ , صفحه۷۷۶)
"اے ہشام! لوگوں پر خدا کی طرف سےدو حجت قسم کی حجت ہیں ایک ظاہری اور درسری باطنی انبیاء ، رسول اور ائمہ حجت ظاہری ہیں جبکہ عقل حجت باطنی ہے"۔
دلیل و برھان کی اہمیت کسی زمانےمیں کم نہیں ہوئی بلکہ روز بروز عیاں ہوتی رہی ہے جدید علمی اور سائنسی پیشرفت کےدور میں دلیل و منطق کی ضرورت اور زیادہ آشکار ہوگئی ہے۔ انسان تمام تر دلائل کی توجیہ کرسکتاہے مگر عقل کےسامنےبے بس نظر آتا ہے شاید اسی وجہ سےخداوند عالم نےعقل کو انسان کےلیے حجت اور دلیل قرار دیاہے۔ قرآن مجید میں متعدد بار توحید کےمتعلق فرمایا: کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ یعنی عقل ہی خدا کےراستے کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے ۔اس کےعلاوہ بھی روایات ہیں جن میں عقل کو انبیاء و رسل کےہمراہ حجت قرار دیا ہے۔ہر دور میں لوگوں پر خدا کی طرف سےحجت اس سماج کی تہذیب، ثقافت اور تمدن کےمطابق رہی ہے جس معاشرے میں لوگوں کےاذہان میں غالبی عنصر موجود تھا اللہ تعالیٰ نےاسی کو درجہ کمال کےساتھ ان پر حجت قرار دیا جیسی حضرت کےدور میں سحر، حضرت کےزمانےمیں طب اور آپؐ کےعصر میں بلاغت تھی جبکہ دور حاضر میں جہاں علم کی قدرو قیمت میں ترقی آئی ہے عقل و شعور کی منزلت بڑھنےلگی تو خدا نےاس کو راہنما بنا دیا۔ ابن سکیت کی امام علی رضا علیہ السلام سےروایت کا آخری حصہ ہے۔ابن سکیت نےسوال کیا کہ آج کل پھر مخلوق پر حجت کیا ہے تو امام نےفرمایا:
الكافي : قالَ ابنُ السِّكّيتِ لأبي الحَسنِ عليه السلام : تَاللّه ِ ما رَأيتُ مِثلَكَ قَطُّ ، فَما الحُجَّةُ عَلَى الخَلقِ اليَومَ ؟
فقالَ : العَقلُ ، يُعرَفُ بِهِ الصّادِقُ عَلَى اللّه ِ فيُصَدِّقُهُ ، و الكاذِبُ عَلَى اللّه ِ فيُكَذِّبُهُ ، فقالَ ابنُ السِّكّيتِ : هذا وَ اللّه ِ هُوَ الجَوابُ
(کلینی، محمد بن یعقوب، اصول الکافی، کتاب عقل و جہل ، قم دارلعرفان ،طبع اول ،ح20- الكافي : 1/25/20.)
اس زمانےمیں عقل حجت ہے ۔جس کےذریعے اللہ کی طرف سےسچ گوئی کرنےوالا پہچانا جاتاہےاور عقل اس کی تصدیق کرتی ہے۔
دوسرے مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام سےمروی ہے:
عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: حُجَّةُ اَللَّهِ عَلَى اَلْعِبَادِ اَلنَّبِيُّ وَ اَلْحُجَّةُ فِيمَا بَيْنَ اَلْعِبَادِ وَ بَيْنَ اَللَّهِ اَلْعَقْلُ
(کاشانی، محمد محسن فیض، الوافی، باب العقل والجہل ،قم،عطر عترت ،طبع اولیٰ ،ح24- الکافي , جلد۱ , صفحه۲۵)
"نبی خدا کی طرف سےبندوں پر حجت ہے اور اللہ اور بندوں کےدرمیان حجت عقل ہے"۔ انبیاء انسانوں کو خدا شناسی اور اعتقاد کےبعد ہدایت اور نجات کی طرف لے جاتے ہیں لیکن خود خدا شناسی اور انبیاء کی معرفت اور برحق ہونےکےلیے کسی ایسےہادی اور دلیل کی ضرورت ہے جو ہمیں خدا شناسی اور اس کےانبیاء کی صداقت کی طرف راہنمائی کرے اور وہ ہادی و دلیل عقل ہے اسی لیےاللہ نےبندوں اور خدا کےمابین عقل کو حجت قرار دیا ہے اور یہی عقل ہی قیامت کےروز خدا کی سےبندوں پر حجت ہوگی جس کےزریعے ایمان و عقیدے کی باز پرس ہوگی ۔
جزاء اور سزاکی کسوٹی:
عقل وہ نعمت ہے جس سےدوسری مخلوقات سےانسان کی حیثیت ممتاز اور جداگانہ ہوجاتی ہے ۔ چونکہ احکام و دساتیر الٰہیہ کا مکلف صاحب عقل کوقرار دیا اور بے عقل کو مرفوع القلم شمار کیا ہے لہذا نیکی اور معصیت کی انجام دہی پر ثواب و عقاب کا معیار بھی عقل ہے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سےروایت ہے:
عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : إِذَا بَلَغَكُمْ عَنْ رَجُلٍ حُسْنُ حَالٍ فَانْظُرُوا فِي حُسْنِ عَقْلِهِ فَإِنَّمَا يُجَازَى بِعَقْلِهِ
(کاشانی، محمد محسن فیض، الوافی، ج1 باب، العقل والجہل ، قم ،عطر عترت ،طبع اولیٰ ،ح13- الکافي , جلد۱ , صفحه۱۲)
"جب تمہارے پاس کسی شخص کےاچھے حال کی خبر پہنچے تو اس کی عقل کو دیکھو کیونکہ لوگوں کو ا ن کےعقلوں کےمطابق جزاء و سزا دی جائے گی"۔
دوسری روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سےمنقول ہے:
عن الباقر عليه السلام : إنَّما يُداقُّ اللّه ُ العِبادَ في الحِسابِ يَومَ القِيامَةِ عَلى قَدرِ ما آتاهُم مِنَ العُقولِ في الدّني
(برقی،احمدبن محمدخالد،المحاسن، مجمع عالمی اہل بیت، طبع ثالث ،ح614- الكافي : 1/11/7.)
"اللہ تعالیٰ روز قیامت بندوں اتنا ہی محاسبہ کرے جتنی ان کو عقل دی ہوگی"۔انسان کو ثواب و عقاب اس کےعقیدے اور نیت کےحساب سےملے گا اعمال کی کثرت و قلت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں جیسا کہ مقصد تخلیق انسان میں عبادت یعنی معرفت قرار دیا ہے جس کا منبع اور زریعہ عقل و خرد ہے کیونکہ ہر شخص اپنی عقل کےمطابق تعقل و تدبر کرتا اور عرفان حاصل کرتا ہے بغیر علم و شعور کےانجام دیا جانےوالا عمل انسان کےلیے وبال جان بھی بن سکتا ہے جبکہ ہوش و خرد کےفیصلےتقدیر ساز ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اعمال کا ترازو انسان کی عقل کو قرار دیا ہے اور قرآن حکیم میں بار بار غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے آخرت میں ثواب و عقاب میں اس عقل کا اہم اور مرکزی کردار ہونا فقط دینی احکام کےساتھ خاص نہیں بلکہ یہ رویہ ہمیں سماج میں بھی یہ دیکھنےکو ملتا ہے ۔
راہنمائے زندگی:
امام علی علیہ السلام نےفرمایا:
«الامام علی«ع»: العقل أقوی أساس»
(مفید،محمد بن محمد ،الاختصاص، باب العقل والجہل، منشورات جماعۃ المدرسین ،ص244)
"سب سےمضبوط بنیاد عقل ہے"۔نشیب و فراز ہماری زندگیوں کا حصہ ہیں کامیابی ملی ہے تو ناکامی بھی مقدر بن سکتی ہے ،بیماری ہے تو تندرست بھی ہوسکتا ہے آج حاکم ہیں تو کل محکوم بھی بنیں گے غرض ہر طرح کی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں مگر ان دگرگوں حالات و واقعات میں انسان کو صبرو استقامت اوراستقلال و پامردی کےساتھ کھڑے ہونا عقل سکھاتی ہے کیونکہ عقل جتنی مضبوط ہوگی قوت فیصلہ اتنی محکم ہوگی اور حالات سےمقابلہ کرنا آسان گا۔خداوندعالم نےاپنی نعمات کا شمار کیا اور انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ اس میں صاحبان عقل کےلیے نشانیاں ہیں اس سےسبق ملتا ہے کہ فقط نظر اور دیکھنا کافی نہیں بلکہ ان نشانیوں سےخدا اور اس کی باقی مخلوق کی حقیقت تک رسائی ناگزیر ہے اوریہ باریابی کرانےوالاجوہر عقل ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:
كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ(روم-۲۸)
"عقل رکھنےوالوں کےلیے ہم اسی طرح نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں"۔مزید وضاحت کےلیے امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس حدیث کا ذکر بھی فائدہ سےخالی نہیں جس میں آپ نےفرمایا:
الإمامُ الصّادقُ عليه السلام : العَقلُ دَليلُ المُؤمِنِ
(کلینی، محمد بن یعقوب،اصول الکافی، کتاب عقل و جہل ، قم ،دارلعرفان ،طبع اول ،ح24- الكافي : 1/25/24.)
"عقل مومن کی راہنما ہے"۔
راہنما کا کام فقط راستہ بتانا نہیں ہوتا بلکہ انسان کو منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں یعنی کامیابی سےہمکنار کراتے ہیں پھر عقل کو مومن کی راہنماقرار قرار دیا ہے جن کو قرآن فتحیاب کہا گیا ہے یعنی عقل بامراد اور فتح مند لوگوں کی پیشرو ہے ۔ جبکہ بعض احادیث میں ہے کہ مومن کی فراست سےبچو کیونکہ یہ نور خدا سےدیکھتا ہےاس سےمعلوم ہوتا ہے کہ نور خدا سےمراد وہی عقل ہے کیونکہ خلقت عقل گزر چکا ہے کہ اللہ نےعقل کو اپنےنور سےپیدا کیا پھر اس کو مومن کےلیے راہنما قرار دیا تاکہ وہ الٰہی نظر رکھے یعنی دور اندیشی اور بصیرت کی نگاہ سےدیکھے جوکہ حقیقی راہنما ہوتی ہے۔
عقل،سرچشمہ فیوضات الٰہی:
امام علی علیہ السلام سےروایت ہے:
قَالَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ : هَبَطَ جَبْرَئِيلُ عَلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ يَا آدَمُ إِنِّي أُمِرْتُ أُخَيِّرُكَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلاَثٍ فَاخْتَرْ وَاحِدَةً وَ دَعِ اِثْنَتَيْنِ فَقَالَ لَهُ آدَمُ وَ أَمَّا اَلثَّلاَثُ يَا جَبْرَئِيلُ قَالَ اَلْعَقْلُ وَ اَلْحَيَاءُ وَ اَلدِّينُ قَالَ آدَمُ فَإِنِّي اِخْتَرْتُ اَلْعَقْلَ قَالَ جَبْرَئِيلُ لِلْحَيَاءِ وَ اَلدِّينِ اِنْصَرِفَا فَقَالاَ يَا جَبْرَئِيلُ إِنَّا أُمِرْنَا أَنْ نَكُونَ مَعَ اَلْعَقْلِ حَيْثُ كَانَ قَالَ فَشَأْنَكُمَا وَ عَرَجَ.
( کلینی، محمد بن یعقوب،اصول الکافی، کتاب عقل و جہل ، قم ،دارلعرفان ،طبع اول ،ح02- روضة الواعظین , جلد۱ , صفحه۳)
"جبرائیل امین ،حضرت آدمؑ کےپاس آئے اور عرض کی! مجھے حکم دیا گیا کہ آپ کو تین چیزوں میں ایک کےلینےکا اختیاردوں پس اپنےلیے کوئی ایک چن لیجیئے آدمؑ نےپوچھا وہ تین کیا ہیں۔ جبرائیل نےکہا عقل حیاء اور دین ۔ آدم نےکہا میں نےعقل کو لے لیا تو جبرائیل نےحیاء اور دین سےکہا کہ تم دونوں عقل کو چھوڑ کرواپس جاؤ انہوں نےکہا اے جبرائیل ہمارے لیے حکم ہے کہ عقل کےہمراہ رہیں وہ جہاں بھی ہوپھر جبرائیل نےکہا تمہارا مقام و مرتبہ یہی ہے اور آسمان کی طرف چلے گئے"۔
اللہ تعالیٰ نےبنی آدم پر ان گنت احسانات کیے جہاں اس کی مادی ضروریات کو پورا کرنےکےلیے محبت کےساتھ رشتے بنائے وہاں اس کی سماجی و معنوی ضرورتوں کےپیش نظر آئین زندگی اور دستوربندگی عطا کیااور اسےاپنا پسندیدہ دین قرار دیا جس کی اساس شرم و حیاء پر رکھی ۔ روایات معصومینؑ کا مستفاد ہے کہ جس کےپاس حیاء نہیں اس کا دین بھی نہیں۔ لیکن ان نعمتوں کا منبع عقل قرار دیا کیونکہ عقل کےبغیر ان کا حصول ممکن نہیں تھا اس لیے کہ عقل ہی دین مبین کی طرف رشد و ہدایت کرتا ہے شرم حیاء کا احساس دلاتا ہے جبکہ بے حیاء اور لاابالی قسم کےشخص کو کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اسےکیا کہا جارہا ہے یا وہ کیا کہہ رہا ہے کیونکہ اسےبرائی اور اچھائی کا شعور نہیں رہتا۔نعمات خداوندی چاہے دین ہو، احکام ہوں یا معرفت سب کےحصول کا محور عقل ہے اور اس کی مرکزیت کا اندازہ حدیث نبویؐ سےکیا جاسکتا ہے:
"وَ رُوِيَ عَنِ اِبْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ : أَسَاسُ اَلدِّينِ بُنِيَ عَلَى اَلْعَقْلِ وَ فُرِضَتِ اَلْفَرَائِضُ عَلَى اَلْعَقْلِ وَ رَبُّنَا يُعْرَفُ بِالْعَقْلِ وَ يُتَوَسَّلُ إِلَيْهِ بِالْعَقْلِ وَ اَلْعَاقِلُ أَقْرَبُ إِلَى رَبِّهِ مِنْ جَمِيعِ اَلْمُجْتَهِدِينَ بِغَيْرِ عَقْلٍ وَ لَمِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ بِرِّ اَلْعَاقِلِ أَفْضَلُ مِنْ جِهَادِ اَلْجَاهِلِ أَلْفَ عَامٍ.
(نوری، میرزا حسین ، مستدرک الوسائل، باب وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجھل ، قم،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، طبع ثالث ،ح12756- روضة الواعظین , جلد۱ , صفحه۴ )
"دین کی بنیاد عقل پر قائم ہے، فرائض کو بھی عقل کی بناء پر واجب کیا ہے،صانع حقیقی کی معرفت اور اس تک پہنچنےکا وسیلہ بھی عقل ہے نیز عقلمند دیگر کوشش کرنےوالوں کی نسبت عقل کی وجہ سےخدا کےزیادہ قریب ہوتا ہے"۔
دین کی ابتداء اس کی معرفت ہے اس کا بنیادی سرچشمہ عقل ہے کیونکہ خدا وندعالم نےاکثر قرآن مجید میں جہاں اپنےوجود و وحدانیت کی بات ہے وہاں صاحبان عقل کو مخاطب کیا ہے جب کہ اس کا انکار کرنےوالوں کےضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور بے عقل قرار دیا ہے پس جس دین کی ابتداء اور اساس کا سمجھنا بھی عقل پر موقوف ہو تو اس کی عمارت بغیر عقل کےکیسےقائم رہ سکتی ہے۔
انسان کی قدر و قیمت :
امام جعفر صادق علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں :
وَ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: سَيِّدُ اَلْأَعْمَالِ فِي اَلدَّارَيْنِ اَلْعَقْلُ وَ لِكُلِّ شَيْءٍ دِعَامَةٌ وَ دِعَامَةُ اَلْمُؤْمِنِ عَقْلُهُ فَبِقَدْرِ عَقْلِهِ تَكُونُ عِبَادَتُهُ لِرَبِّهِ.
(مجلسی،محمد باقر، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام ، ج1 ، ص،۹۶ بیروت، موسسہ الوفا ، طبع ثانی )
"دونوں جہانوں میں بہترین عمل عقل کا ہے ہر چیز کا کوئی ستون ہوتا ہے اورمومن کا ستون اس کی عقل ہے "۔
روایات میں اہل بیؑت اور عقل دونوں کےبارے سید و سرادر کےالفاظ استعمال ہوئےہیں یعنی ذوات مقدسہ میں جیسےاہل بیؑت کو سیادت و سرداری کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح اعمال میں سےعقل کےزریعے انجام دیے جانےوالے عمل کو برتری حاصل ہے۔
دوسرا یہ کہ امام نےانسان کی وقعت میں عقل کو مرکزی حیثیت دی ہے جس طرح ستون کےبغیر عمارت منہدم اور بے قیمت ہوجاتی ہے اس طرح بغیر عقل کےانسان کی بھی کوئی ارزش نہیں رہتی۔بشر کی وقعت اس میں پائے جانےوالے کمال سےاندازہ ہوتی ہے جتنا باہنر اور باصلاحیت ہوگا مستقبل کےلیے اتنےحوالے رقم کرے گا اوربہترین آثار چھوڑے گاجو اس کےمقام و منزلت کےعکاس ہوں گے جبکہ مشت خاکی میں پایاجانا والا یہ کمال اور ہنر عقل ہے جیسےامیر المومنین علیہ السلام کا فرمان ہے:
الإمامُ عليٌّ عليه السلام : العُقولُ أئمَّةُ الأفكارِ، و الأفكارُ أئمَّةُ القُلوبِ، و القُلوبُ أئمَّةُ الحَواسِّ، و الحَواسُّ أئمَّةُ الأعضاءِ
(کراجکی،محمد بن علی،کنز الفوائد، ج1، بیروت ،دارالضواء ، ص200- بحار الأنوار : 1/96/40)
"عقلیں فکروں کی امام اور راہنما ہوتی ہیں "۔تمام کاموں کےپس منظر میں فکر کاریگر ہوتی ہے جس کی نگرانی عقل کرتی ہے پس عقل جتنی اعلیٰ اور بلند ہوگی وہ فکر اور اس سےانجام پانےوالا کام بھی اتنا ہی عالی اور ممتاز ہوگا ۔ جبکہ بے عقل کی ہلاکت سہل انگیز ہے ۔
خدا شناسی میں عقل کا کردار:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ(شعراء-۲۸)
"موسیٰ نےکہا: مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کےدرمیان ہے کا رب ہے اگر تم عقل رکھتے ہو "۔
قرآن کریم میں خداکی شناخت کےلیے ہمیشہ صاحبان عقل کو خطاب کی گیاہے اور عقلی براہین بیان پیش کیے ہیں۔ آیہ مجیدہ میں عقل کوخدا شناسی کےلیے لابد اور ضروری قرار دیا ہے۔ یہ خدا کی معرفت کا ذریعہ اور اس تک رسائی کاوسیلہ ہے ۔ انسان جب انفس و آفاق میں نگاہ کرتا ہے تو ہزاروں عجائبات کا مشاہدہ کرتا ہے عقل ان میں غور و فکر کرتی ہے ان اشیاء کی علت اور سبب تلاش کرنےکی کوشش کرتی ہے اور بالآخر اس کی تمام خوبیوں ، خامیوں حتی کہ صانع کو پہچان لیتی ہے پس زمین وآسمان کےمابین تمام موجودات، نہروں اور دریاؤں کا مخصوص سمت میں بنا، سمندر میں کشتیوں کا چلنا، موسموں کا وقت پر بدلتے رہنا، چاند اور سورج کا مقررہ وقت پر طلوع و غروب ہونا جب اتنےمنظم نظام کو آنکھ دیکھتی ہے تو عقل کو اس کےناظم کی طرف کھٹکا ضرور محسوس کرتی ہے بے چینی اور اضطراب محسوس کرتی ہے اس کی حقیقت معلوم کرکےسکون اور اطمئنان کرتی ہے۔اس بابت محدث نوری نےایک حکایت نقل کی ہے کہ اہل نجران میں سےایک نصرانی مدینہ میں آیا جس کےپاس فن خطابت، وقار اور ہیبت بہت زیادہ تھی ( لوگوں نےمرعوب ہو کرکہا) یا رسولؐ اللہ ! یہ نصرانی مرد کتناعقلمند ہے آپؐ سےنےاس کی زجر توبیخ کی اور فرمایا:
خاموش ہو جاؤ عقل مند وہ ہے جو اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرے اور اس کی اطاعت کرے۔
(نوری، میرزا حسین ، مستدرک الوسائل، ج11 باب وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجھل ، قم،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، طبع ثالث ،ح12764)
شفاعت کنندہ:
جس طرح عقل کوانبیاء کےساتھ حجت باطنی قرار دیا تھا بعینہ اسےحق شفاعت کی اجازت دی گئی ہے حضور اکرم ؐ سےایک طولانی حدیث میں ذکر ہےکہ عقل نےجب ایک ہزار سال سجدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نےفرمایا اپنا سر اوپر کرو اور جو مانگو عطا کروں گااور جس کی سفارش کرو گے قبول کروں گا پس عقل نےسر اٹھایا اور کہا: معبود! مجھے جس کےلیے پیدا کیا ہے اس کی شفاعت کا سوال کرتی ہوں:
…فخرّ العقل ساجدا ألف عام، فقال الربّ تبارك و تعالى: ارفع رأسك و سل تعطى و اشفع تشفّع، فرفع رأسه و قال: إلهي، أسألك أن تشفعني فيمن خلقتني فيه و زيّنته بي؛ فقال اللّه تعالى لملائكته: أشهدكم أنّني قد شفّعته فيمن خلقته و…
(نوری، میرزا حسین ، مستدرک الوسائل، ج11 باب وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجھل ، قم،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ،طبع ثالث ،ح12745- غرر الأخبار و درر الآثار في مناقب أبي الائمة الأطهار علي علیه السلام , جلد۱ , صفحه۳۳۹)
" خدا وندعالم نےملائکہ سےکہا : تم گواہ رہنا جس مخلوق میں عقل جو بناوں گا اس کا اسےحق شفاعت دیا ہے"۔
مراتب عقل:
پروردیگار عالم نےکرہ ارض پر گوناگوں مخلوقات کو لباس آفرینش پہنایا ان میں سےانسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا اس کی ہدایت کےلیے بندوبست کیا انہیں میں سےرسول مبعوث کیے اور باطن میں عقل جیسی نعمت بخشی جو ہمیشہ انسان کو صراط مستقیم پر گامزن رہنےکی ہدایت کرتی رہتی ہے ۔ جس طرح ان رسولوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اورمختلف درجات پر فائز کیا اس طرح عقل کےبھی مراتب و درجات تشکیل دیے اور مخلوقات کی حیثیت اور بساط کےلحاظ ان میں تقسیم کی حتی کہ خود انبیاء میں بھی عقل کےمراتب ہیں اور ان میں سب سےاشرف اور عقل کل کا درجہ حضرت محمدؐ کو عطا کیا ۔جبکہ دیگر لوگوں میں بھی عقلی تفاوت رتبہ بندی موجود ہے جس پر دلیل اسحاق ابن عما رکی یہ روایت ہے۔
روای نےامام جعفر صادقؑ سےعرض کی میرے پاس ایک شخص آیا میں نےاس سےتھوڑی سےبات کی جبکہ اس نےمکمل سمجھ لی ، اس طرح ایک اور آدمی آیا میں نےگفتگو کی جب بات مکمل ہوگئی تو اس نےمیری ساری باتیں مجھے سنائیں پھر ایک اور شخص آیا جس سےمیں نےکلام کیا تو اس نےمجھے کہا دوبارہ سمجھائیں۔
امامؑ نےفرمایا اے اسحاق جانتے ہو یا کس وجہ سےہے ؟ میں عرض کیا نہیں۔
آپؑ نےفرمایا: پہلا شخص جس نےپہلے ہی مکمل بات سمجھ لی تھی اس کی عقل اس کےنطفے کےساتھ خلق ہوئی جبکہ دوسرے شخص کی عقل اس کی ماں کےشکم میں پیدا ہوئی تیسرا وہ ہے جسےبڑ اہونےکےبعد عقل ملی۔
(کلینی، محمد بن یعقوب، اصول الکافی، کتاب عقل و جہل ، قم ،دارلعرفان ،ح27)
فلسفی مراتب:
علامہ طباطبائی رقم طراز ہیں کہ فلسفیوں نےعقل کو چار مراتب میں تقسیم کیا ہے:
"عقل ھیولانی""عقل بالملکہ" "عقل بالفعل "اور "عقل مستفاد"دجبکہ علامہ مازندرانی مزید دو کا اضافہ کرتے ہیں عقل فعال اور عقل مجرد
(مازندرانی،محمد صالح،شرح اصول الکافی، ج1،بیروت،داراحیاءالتراث العربی ،طبع اول ،ص 66)
انسان کا نفس تمام معقولات سےخالی ہوتا ہے یہ عقل کا پہلا مرتبہ ہے اور اسے"عقل ھیولانی" کہتے ہیں ،پھر نفس بدیہی تصورات اور تصدیقات کا ادراک کرتا ہے اسے"عقل بالملکہ" کا نام دیا ہے اور یہ دوسرا مرتبہ ہے تیسرے میں "عقل بالفعل" ہے جس میں بدیہات سےنظریات میں غور فکر کرتا ہے اور نتیجہ نکالتا ہے پھر بدیہی اور استنباطی طریقوں سےحاصل ہونےوالے نتائج کو عالم وارض و سماء کےحقائق کےساتھ ملاتا ہے یہ چوتھا مرتبہ ہے جسے"عقل مستفاد "کہتے ہیں۔
( طباطبائی،علامہ سید محمد حسین،نھایۃ الحکمۃ، قم ،موسسہ نشر اسلامی ، طبع اول،ص307-306)
قرآن وسنت کی روشنی میں:
انسان پتھر کی طرح نہیں ہے کہ جیسےپیدا ہوا اسی حالت میں ہی فنا ہوگا بلکہ نشونمااور پرورش کی استعداد رکھتا ہےاپنی زندگی کےمراحل گزارتا ہے بچپن، لڑکپن، جوانی، بوڑھاپا اور اذل عمر تک کا سفرتک کا سفر طے کرتا ہے۔ ان تمام تبدیلیوں میں میں اس کےعقلی رشد و بلوغ بھی یکساں نہیں رہتا بلکہ بڑھوتری اور فرسودگی کی زد میں رہتا ہے۔اگرچہ مراتب عقل مختلف پہلؤں سےبیان کیے گئے ہیں ان سب کا ذکر اس مختصر مقالے میں ممکن نہیں لہذا ادوار حیات کےلحاظ سےعقل کےمدارج درج ذیل ہیں۔
سمجھ بوجھ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ(نور-۵۸)
"وہ بچے جو ابھی تک بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے"۔
یہ عقل کا پہلا مرتبہ ہے مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں حلم سےمراد ایسےبچے ہیں جو بالغ تو نہ ہوئے ہوں مگر اچھے برے کی تمیز کرنا جانتے ہوں یعنی ممیزہو۔
بچے کا ذہن پہلے خالی البال ہوتا ہےوقت گزرنےکےساتھ ساتھ وہ مختلف لوگوں کی باتیں سنتا ہے ان کےبارے میں سوچتا ہے اس طرح غیر ارادی اور لاشعوری طور پر اس کی ذہنی تربیت ہوتی رہتی ہے جس سےاچھائیوں ا ور برائیوں کی سمجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے اور اپنےنفع و نقصان کو پہچاننےلگتا ہے ۔یہ مرحلہ تقریبا چودہ سال کی عمر تک مکمل ہوجاتا ہے ۔
اہم تاریخی موڑ:
خدا وند عالم نےیتیموں کےاموال کا حکم بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ (نساء-۶)
"اگر تم ان میں رشد عقلی پاؤ تو ان کےاموال ان کےحوالے کردو"۔
ادوار عقل میں سےیہ اہم ترین اور تقدیر ساز مرحلہ ہے اس مرحلے میں انسان پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں وہ بچپن کی آزادی سےنکل کر کچھ احساسات کا بوجھ محسوس کرنےلگتا ہے تکالیف شرعیہ اور مالی معاملات اس کےحوالے ہوجاتے ہیں اس لیے قرآن مجید نےبھی پہلے آزمانےکی بات ہے اور بلوغ کےساتھ عقل کی پختگی شرط قرار دیا ہے کیونکہ یہ انسان کےرشد کی اساس ہے جس پر عقلی ارتقاء استوار ہوتا ہے۔بعض روایات میں اٹھارہ برس کی عمر بیان ہوا ہےکہ یہ مرحلہ اٹھارہ برس کی عمر میں ہوتا ہے جس میں جسم تنو مند اورعقل بالغ ہونےلگتا ہے۔سورہ قصص میں یہ مرحلہ حضرت موسیٰ ؑ کےبارے میں بھی ذکر ہوا ہے۔
عقل کی بالیدگی:
عقلی نشونما کا آغاز اگرچہ بچپن سےہی ہوتا ہے مگر اس کا استحکام شباب کےزمانےمیں ہوتا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نےفرمایا:
۔۔ويستكمل طوله في أربع وعشرين سنة ، ويستكمل عقله في ثمان وعشرين سنة ، فما كان بعد ذلك فإنما هو بالتجارب۔۔۔
(رےشہری، محمد،،میزان الحکمۃ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، طبع اول، ح13611- مستدرك الوسائل: ١ / ٨٥ / ٤٤)
"مرد کی عقل اٹھائیس سال کی عمر میں کامل ہوتی ہے اور اس کےبعد وہ تجربات حاصل کرتا ہے"۔
جوانی زندگی کا سنہری ترین وقت شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں جسمانی اور اعصابی طور پر مضبوط ہوتا ہے کام کی سنگینی کےباوجود کم تھکتا ہے سوچ وبچار کی صلاحیت بھی اس کےبدن کی طرح راسخ ہوتی ہے۔ عقل کےاس مرتبے کی اہمیت اس وجہ سےبھی زیادہ ہے کیونکہ انسان کی فکر کےساتھ اس کےتجربات بھی ساتھ دینا شروع کردیتے ہیں یوں وہ ان دو نوں قوتوں سےکےگٹھ جوڑ سےمحکم فیصلے کرتا ہے۔ بعض روایت میں میں اٹھائیس کی بجائے پینتیس سال بیان کی گئی ہے یعنی اٹھائیس یا پینتیس سال کی عمر تک انسان کےعقل کےبل بوتے پر فیصلے کرتا ہے اور نطام زندگی چلاتا ہے اس کےبعد اس کا رشد عملی تکامل سےکام لینا شروع کردیتا ہے اور تجربات کی دنیا میں وارد ہوجاتا ہے پھر وہ اپنی عقل کےزریعے حاصل شدہ تجربات کی روشنی میں اپنےامور کی تدبیر کرتا ہے۔
عقل کا شباب:
مخلوقات میں سےانسان ویسےبھی سب سےالگ مقام کی حامل ہے پھر عقل اس سےبھی جدا حیثیت رکھتا ہے انسان کےتمام اعضاء و جوراح عمر کےساتھ ساتھ کمزور اور ناتواں ہونا شروع ہوجاتے ہیں حتی کہ ساٹھ سال تک سہارے کی ضرورت بھی پڑتی ہے مگر عقل اس عمر میں شباب کو پہنچتی ہے اٹھائیس یا پینتیس سالہ تکمیل کےکےبعد جب مسلسل تجربات سےگزرتی ہے تو تو اپنےجوبن اور عروج پر نظر آتی ہے ۔امام جعفر صادق علیہ السلام سےمروی ہے:
الإمامُ الصّادقُ عليه السلام : يَزيدُ عَقلُ الرَّجُلِ بَعدَ الأربَعينَ إلى خَمسينَ و سِتّينَ ، ثُمَّ يَنقُصُ عَقلُهُ بَعدَ ذلكَ
(مفید،محمد بن محمد ،الاختصاص، باب العقل والجہل، قم ،منشورات جماعۃ المدرسین ،قدیمی طبع ،ص244)
"مرد کی عقل میں چالیس سال کےبعد پچاس ، ساٹھ کی عمر تک زیادہ ہوتی ہے اس کےبعد کم ہونا شروع ہوجاتی ہے"۔مشاہدات و تجربات ہماری زندگیوں میں نہایت اہم کردار اد اکرتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں اس بیس سال کی عمر میں بڑی کاریگر ثابت ہوتی ہیں اس لیے انسان خود جب بڑھاپے کی حالت میں پہنچتا ہے تو اس کی عقل جوان اور مضبوط ہوتی ہے اسی لیے امام علی علیہ السلام نےفرمایا:
قالَ امیرُ المومنین (علیهالسّلام): «رَأْیُ الشیخ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ جَلَدِ الغُلامِ»
(سید رضی،محمد بن حسین،نہج البلاغہ،مترجم علامہ مفتی جعفر حسین، اسلام آباد،مرکزافکار اسلامی ،حکمت 86- نهج البلاغه فیض، ص 1114)
"بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سےزیادہ پسند ہے"۔ اس وجہ سےکہ اس عمر میں عقول کامل اور جوانی کی حالت میں ہوتی ہیں "۔
عقلی فرسودگی:
عقلی فرسودگی کےبارے میں قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ(یس-۶۸)
"اور جسےہم لمبی زندگی دیتے ہیں اسےخلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ،کیا وہ عقل سےکام نہیں لیتے؟ "
عمر کےڈھلنےسےجس طرح جسمانی طور پر کمزوری کا غلبے کےساتھ ساتھ روحانی اور عقلی طور پر بھی نسیان اور بھول چوک کےپردے عقل پر پڑنےلگتے ہیں اپنےبچپن کی سی حرکتیں آجاتی ہیں بلکل معمولی باتوں پر خوش اور ناراض ہونےلگتا ہےتھوڑی سی تکلیف پہنچے تو کراہتا ہےگویا کہ بچوں کی سی عادات و اطوار کو اپنا لیتا ہے۔ جیسا کہ سورہ حج میں پروردگار عالم کا ارشاد ہے۔
وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا (نحل-۷۰)
"اور تم میں سےکوئی نکمی عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ وہ جاننےکےبعد بھی کچھ نہ جانے"۔
یہ انسانی زندگی کا مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے جس میں جوانی کی طاقت کےبعد عاجزی و ناتوانی کا مشاہدہ کرتا ہے جس میں انسان کا دماغ کمزور یاداشت کم اور حافظہ محو ہوجاتا ہے ۔ امین الاسلام علامہ طبرسیؒ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ "یہ مرحلہ انتہائی دشوار گزار اور پست ہوتا ہے بلکہ حقیر گھٹیا اور خوف میں گھرا ہوتا ہے کیونکہ اس عمر کو پہنچنےوالا کسی صحت اور قوت کا امیدوار نہیں ہوتا بلکہ موت کا انتظار کررہا ہوتا ہے جبکہ عہد طفولیت میں انسان عقلی طور پر اوج کمال کی امید لگائے بیٹھا ہوتا ہے ۔اس کی عقل کی حالت یہ ہوتی ہے کہ نہ مزید کچھ علم سیکھ سکتا ہے اور نہ ہی سیکھے ہوئے کی حفاظت کر سکتا ہے اس کا خرد اور شعور معدوم ہوجاتا ہے یا اس سےعلم آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے پس جو کچھ اس کےعلم میں تھا کچھ باقی نہیں رہتا''۔( طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج07 ، بیروت، دار المرتضی ،طبع اول، ص94)
عقل کامل:
یہ سب سےجدا اور عقل کا کامل ترین مرتبہ ہے جس کو اللہ تعالی نےاپنےچنےہوئے بندگان کےلیے خاص کیا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کےبارے میں ہے کہ:
وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ(الانبياء-۵۱)
" اور بتحقیق ہم نےابراہیم کوپہلے ہی سےعقل کامل عطا کی"۔
حضرت ابراہیم کو حقائق تک رسائی ، حقیقت بینی اور فہم دیایعنی ان کےبعد بھی کچھ انبیاء کو عقل کامل بخشی جیسا کہ رسول اکرمؐ سےمروی ہے:
۔۔۔ و لا بَعَثَ اللّه ُ نَبِيّا و لا رَسولاً حَتّى يَستَكمِلَ العَقلَ ، و يَكونَ عَقلُهُ أفضَلَ مِن جَميعِ عُقولِ اُمَّتِهِ ، ۔۔
(کلینی، محمد بن یعقوب، اصول الکافی، کتاب عقل و جہل ،قم،دارلعرفان ، طبع اول ،ح11الكافي : 1/12/11)
"اللہ تعالیٰ نےکسی نبی و رسول کو کامل عقل دیے بغیر مبعوث نہیں کیا اور نبی یا رسول کی عقل باقی تمام امت کی عقلوں سےافضل ہوتی ہے"۔
دیگر بعض روایات سےبھی یہ ظاہر ہے کہ عقل کا یہ رتبہ فقط انبیاء اور خصوصا پیغمبر اکرمؐ کےلیے مخصوص تھا جیسےاحادیث میں ہے کہ رسول اکرمؐ لوگوں سےاپنی کنہ عقل سےگفتگو نہیں کرتے تھے بلکہ انبیاء لوگوں کی عقل کےمطابق ان سےبات چیت کرتے تھے یا لوگوں میں جس کا اخلاق سب سےزیادہ پسندیدہ ہو وہ کامل ترین عقل والا ہے یہ انبیاء علیہم السلام و ائمہ علیہم السلام ہی ہیں جو کنہ عقل رکھتے تھے اور اخلاق کےاعلیٰ ترین مراتب پر فائز تھے جن کی زندگی اسوہ حسنہ اور باعث تکمیل مکارم اخلاق تھی جس کےسبب عقل کا درجہ کمال عطا ہوا۔
خلاصہ:
درج بالا ابحاث سےیہ نتیجہ نکلتا ہے عقل سرمایہ حیات انسان ہے جس کی ضرورت تمام شعبہ ہائے زندگی میں عیاں ہے دنیا میں خوشحالی اور نجات اخروی اس کی مرہون منت ہے۔ اسی سےمشکلات کی گرہ کھلتی ہے ، علم و عمل کےدریچے وا ہوتے ہیں، انسان کی عظمت اور وقعت کا میزان اور تقرب الٰہی کا زریعہ اور وسیلہ ہےنیز عقل کی کمی و زیادتی کےحیات بشر پر دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دنیوی و اخروی کامیابی میں اس کا وافر حصہ ہے۔
تحریر:محمد حسنین امام
جامعۃالکوثر اسلام آباد
hasnainimam@gmail.com