حکومت علوی کی خصوصیات
- شائع
-
- مؤلف:
- آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي (حفظہ اللہ)
- ذرائع:
- کتاب: شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام
حکومت علوی کی خصوصیات:
امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی زندگی پر توجہ کرنا حقیقتاً اس مہینہ کی اہم برکتوں میں سے ایک بہت با اہمیت برکت ہے لوگوں کو کبھی یہ توفیق حاصل نہیں ہو پاتی کہ مختلف زاویہ سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی زندگی کا جائزہ لے سکیں اور انکی زندگی کا مطالعہ کر سکیں، چاہے وہ کوئی عام آدمی ہو یا پھر خطبائ واعظین ہو، خصوصاً اسلامی مملکت کے ذمہ داران تو آج سب سے زیادہ آپکو پہچانتے اور آپکی معرفت کے نیازمند ہیں اور یہ موقع دیگر مہینوں میں بہت کم ہی نصیب ہوتا ہے، جس کی جو بھی ذمہ داری ہو۔اوپر سے نیچے تک تمام عہد داران مملکت اسلامی آج ہر زاویہ اور ہر پہلو سے علی علیہ السلام کی زندگی اور انکی شخصیت کو پہچاننے کیلئے سراپا محتاج ہیں۔
مختلف روایات کے مطابق آنجناب کی عمر شریف،۵۸ سال سے لیکر،۶۰ ۶۳ اور ۶۵ سال تک ذکر ہوئی ہے لیکن ۶۳ سال مشہور ہے (یعنی وہی نبی گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا سن و سال) مگر اکثر و بیشتر اسلامی معارف جو آپکی زبان مبارک سے صادر ہوئے ہیں انکا تعلق آپکی چار سال اور نو ۹ماہ یا دس۱۰ ماہ کی ظاہری خلافت میں سے ہے کہ یہ خود اپنی جگہ ایک حیرت و استعجاب کا مقام ہے ، جسقدر انسان باریک بینی سے کام لیتا ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی دیومالائی داستان پیش ہو رہی ہو۔آپکی زندگی کے مختلف پہلو کہ جس کا تعلق آپ کی پانچ سالہ ظاہری حکومت سے ہے اس کی تصویر کشی ایک عام ذہن کے لئے نا ممکن ہے ۔
ذرا آپ طول تاریخ میں نظر اٹھا کر دیکھیں ایک حکومت اور حاکم کا کیا کردار رہا ہے اور لوگوں کا اس کے بارے میں کیا تصور ہے؟
ایک حاکم کے لیے مطلق العنانی، شمشیر بدست ہونا ،من مانی کرنا اور جو بھی دنیا کی لذّات ہیں اس سے استفادہ کرنا اسکا ایک حق سمجھا جاتا رہا ہے مصلحت اندیش، سیاست بازی، اور غیر واقع عمل کا لوگ اس سے انتظار رکھتے ہیں اور اگر وہ اسکے برخلاف کوئی عمل انجام دے تو لوگوں کو تعجب ہوتا رہے کیونکہ حکومتیں اسی طرح سے عمل کرتی رہی ہیں اور اسکے بارے میں ایک غلط تصور قائم ہو چکا ہے۔مگر امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت وہ حکومت ہے جو ان ساری باتوں کو یکسر غلط ثابت کر دیتی ہے اور حکومت کے ان سارے باطل تصورات کو منسوخ کر دیتی ہے ۔
البتہ مکرر آپ نے یہ اظہار فرمایا ہے کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا ادنیٰ سا حصہ ہے، امیرالمومنین علیہ السلام کے زہد کے بارے میں وہ راوی یوں کہتا ہے ، کہ میں نے دیکھا وہ بزرگوار خشک روٹی اپنے گھٹنوں سے توڑ کر تناول فرما رہے ہیں، عرض کیا یا امیرالمومنین علیہ السلام ! آپ اپنے آپ کو کیوں اسقدر زحمت میں ڈالتے ہیں؟تو آپ نے بحالت گریہ ارشاد فرمایا: میرے والد قربان جائیں اس ذات والی صفات پر جس نے ساری عمر دوران حکومت اپنے شکم کو گہیوں کی روٹی سے پر نہیں کیا اور مراد ذات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔یہ ہے امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی اور نبی گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے آپ کی شاگردی کی منزل بہرصورت آپ کی حکومت کے سلسلہ سے جو کچھ بھی تاریخ میں ہے وہ ایک حیرت انگیز شئی ہے۔اور اگر ان چند سالوں میں آپ کی زندگی کچھ زیادہ نمایاں ہوئی ہے تو اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ دشمنوں نے آپ کے بارے میں جان بوجھ کر عیب جوئی اور تہمت و الزام تراشی سے کام لیا ہے اور انھیں عیوب والزامات میں سے آپکے فضائل نکل کر سامنے آگئے ہیں اور بہت سے حقائق آشکار ہوئے ہیں۔میں آج چند جملے ان بزّرگوار کی حیات طیبہ کے بارے میں بحیثیت ایک حاکم کے پیش کرنا چاہتا ہوں، البتہ سب سے پہلے مجھے خود آپ کی زندگی سے سبق لینا چاہیے اور اسکے بعد سارے عہدے داران مملکت کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے اور دیگر حضرات اور ایک عام انسان کو بھی بہت کچھ سیکھنے اور سبق لینے کی ضرورت ہے۔
آپکی حکومت کی پہلی خصوصیت:
اگر ہم امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومتی زندگی کی خصوصیات ’’یعنی علی علیہ السلام بحیثیت ایک حاکم‘‘ پیش نظر رکھیں تو چند اہم خصوصیتیں آپ کی اس زندگی میں نظر آتی ہیں۔
نمبر ۱۔حق کی راہ میں اٹل ہو جانا۔ اگر اس خصوصیت کو سب سے اہم نہ بھی مانیں پھر بھی آپکی حیات میں کم از کم ایک نمایاں خصوصیت ضرور ہے آپکی حکومت مین پہلی چیز جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ حق کو پہچاننے اور اسکے تعین کے بعد، کوئی چیز بھی حق پر عمل کرنے سے آپ کے راستے میںرکاوٹ نہیں بن سکتی ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے آپ کے بارے میں فرمایا تھا:
’’ردخشن فی ذات الله ‘‘(۱)
یعنی آپ کی ذات ایسی ہے کہ راہ حق میں آپ کے لئے کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی،جس جگہ حق کا تعین ہو گیا کسی کی پرواہ کئے بغیر اسپر عمل کرتے ہیں ۔
آپ امیرالمومنین علیہ السلام کی ساری زندگی اٹھا کے دیکھیں گے تویہی ایک صفت ہر جگہ کارفرما دیکھائی دیگی،حق کے لئے اٹل ہو جانا، مسند خلافت پر بیٹھتے ہی آپکی یہی صفت دکھائی دیگی یعنی جب حکومت بنام خدا، برائے خدا اور احکام الہیجاری کرنے کے لئے قائم ہوئی تو پھر اس راستے میں کسی مصلحت و مفاد کے بغیر کام کرنا ہے یہ وہ منطق اور اصول ہے کہ جس کو امیرالمومنین علیہ السلام اپنی حکومت میں حتی الامکان رائج کرتے ہیں۔ آپ اگر دشمنان علی بن ابی طالب علیہ السلام کو ملاحظہ کریں تو معلوم ہوگا آپ کی یہ صلاحیت اور حق پر اٹل ہو جانا کس قدراہم ہے۔
حضرت کا تین طرح کے لوگوں سے مقابلہ:
امیرالمومنین علیہ السلام نے تین قسم کے لوگوں سے مقابلے کئے
نمبر۱ ۔مارقین یعنی( دین سے نکل جانے والے)
نمبر۲۔ ناکثین یعنی (بیعت کر کے توڑ دینے والے)
۳۔قاسطین یعنی(ظلم کرنے والے)
اسمیں سے ایک گروہ اہل شام سے تھا یعنی اصحاب معاویہ و عمر بن عاص وغیرہ کہ جس میں کچھ تو وہ تھے جو نسبتاً مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک طولانی مدت بھی گذار چکے تھے اور کچھ جدید الاسلام تھے، نو مسلم تھے یعنی زمانہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو۲ یا تین۳ سال گذار ے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کازیادہ حصہ نہیں دیکھا بلکہ زیادہ تر آپ کے بعد زندگی کے حصے گذارے، اور کچھ ایسے بھی تھے جو گروہ شام ہی میں رہ کر بھی اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شمار ہونے لگے تھے اور یہ سیاسی، مالی، اور امکانات و وسائل کے اعتبار سے کچھ قوی اور با حیثیت لوگ تھے اور حضرت کے مد مقابل میں تھے لیکن حضرت نے اس سب کے باوجود ان کا کوئی پاس و لحاظ نہیں کیا تھا۔
البتہ ایسا بھی نہیں تھا کہ حضرت تنہا حاکم شام کو ہی فاسق سمجھتے تھے اور اس سے جنگ کرنے کے لئے تیار تھے نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بہت سے ایسے حکام اور بھی تھے جو ایمان کے لحاظ سے ضعیف تھے اور آپ کی حکومت سے قبل کہیں نہ کہیں کے حاکم تھے امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں بھی وہ اپنے منصب پر باقی رہے جیسے زیادبن ربیہ ظاھراً یہ شخص امیرالمومنین علیہ السلام کی حاکمیت سے قبل اسی فارس اور کرمان میں حاکم تھا اور حضرت کے زمانے میں بھی حاکم رہا تھا اور جب امام حسن علیہ السلام حاکم وقت ہوئے اسوقت بھی یہ اپنی جگہ برقرار رہا اور بعد میں جا کر معاویہ سے مل گیا لہذا آپ کے لیے اصل مسئلہ ظلم و جور تھا اور مسلمانوں کی روشِ زندگی میں تبدیلی ایجاد کرنا تھا اور اسلامی خدوخال کو معین کر کے نئی اور بھلی شکل دینے کا مسئلہ تھا اسلئے امیرالمومنین علیہ السلام ظلم و ستم کے مقابل ڈٹ گئے اور آپ اس راستے میں کسی بھی مقام ومنصب والے سے متاثر نہیں ہوئے آپ کے سامنے اس سے بھی بڑی ایک مشکل، اصحاب جمل تھے کہ جس میں ایک فرد مسلمانوں کے نزدیک محترم المقام ام المومنین عائشہ بھی شامل ہیں اور قدیم مسلمانوں میں سے پیغمبر کے دو بزرگ صحابہ طلحہ و زبیر جو پہلے امیرالمومنین علیہ السلام کے دوستوں میںشمار ہوتے تھے۔اور ان میں سے بعض رشتہ دار بھی تھے جیسے زبیر جو امیرالمومنین علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا پھوپھی زاد بھائی بھی ہے آپ کے مدمقابل جنگ کیلئے کھڑے تھے اور دوسری جانب امیرالمومنین علیہ السلام تھے مگر یہاں پر بھی آپ نے اپنے شرعی فر یضے پر عمل کیا اور اسی راہ میں اقدام فرمایا۔
جب میں اپنے زمانے میں اسی میزان کو سامنے رکھ کر بت شکن خمینی (رح)کی زندگی کا مطالعہ کرتا ہوں تو پھر مجھے آپکی زندگی بھی انھیں بزرگوں کی زندگی کا عکس نظر آتی ہے، طریقہ وہی روش وہی کسی کو نظر میں رکھے بغیر عمل کرنا امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کے مطابق آپ کی بھی زندگی تھی۔ علی علیہ السلام کوئی سنگدل انسان نہیں تھے ان سے زیادہ رحم دل، ان سے زیادہ دقیق القلب، گریہ و زاری کرنے والا مگر انکے لئے جو معاشرے میں پسماندہ تھے جن کا حق مارا گیا تھا)اور کون ہو سکتا ہے۔ مگر جہاں پرحق کوچیلنج کیا جارہا ہو، امیرالمومنین علیہ السلام وہاں اٹل ہو جاتے ہیں جس کی تاریخ میں نظیر تلاش کرنا ناممکن ہے۔
مسئلہ ولایت میں گمراہ گروہ:
حقیقتاً امیرالمومنین علیہ السلام ایک بڑی مشکل سے دوچار تھے اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جنگ میں دشمن کے مقابلے میں صف آرائیاں احزاب گروہ وغیرہ بالکل واضح تھے ایک طرف کفر تو دوسری طرف ایمان، ایک طرف مشرک تو دوسری طرف توحید والے تھے ،شرک بالکل واضح تھا اگر کچھ منافقین تھے بھی تو وہ جانے پہچانے تھے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماپنے عصر کے منافقین کو پہچانتے تھے ، جو منافقین مدینہ میں تھے، جو مدینہ سے بھاگ کر مکہ چلے گئے
’’فمالکم فی المنافقین فئیتن واللہ ارکسھم بما کسبوا۔( نساء۸۸)‘‘
مختلف رنگ و روپ کے منافقین حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے زمانے میں بھی تھے لیکن ایک چھوٹی سی بھی غلطی کرتے تو اسکے بارے میں آیت اتر کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتی تھی اور حقائق کھل کر سامنے آجاتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمبیان کرتے اور لوگ غلطی کو سمجھ جاتے تھے مگر امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں ایک بڑی مشکل ایسے لوگوں کا مد مقابل آجانا ہے جو علی الظاہر مسلمان ہیں، اسلامی بھیس میں ہیں مگر دین کے بنیادی ترین مسئلے میں گمراہی کا شکار ہیں یعنی خود یہی لوگ جو امیرالمومنین علیہ السلام کے مد مقابل جنگ و جدال کے لئے آتے ہیں
ولایت دین کا بنیادی ترین مسئلہ:
دین کا بنیادی ترین مسئلہ،ولایت ہے کیونکہ ولایت توحید کی نشانی اور اسی کا پرتو ہے ، ولایت یعنی حکومت؛ اسلامی معاشرے میں حکومت ؛اصل میں خدا کا حق ہے جسے وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کرتا ہے اور پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے ولّی مومنین تک پہنچاتا ہے اور وہ لوگ اس نکتے میں شک و تردید کا شکار تھے ان کے افکار میں انحراف و کجی پائی جاتی تھی، اگرچہ وہ لوگ لمبے لمبے سجدے بھی کرتے تھے!
مگر حقیقت کونہیں سمجھتے تھے وہی لوگ جو ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کو نہیں سمجھ رہے تھے جنگ صفین میں امیرالمومنین علیہ السلام سے روگرداں ہو کر خراسان اور دیگر علاقوں میں بحیثیت نگہبان و پاسبان وطن ہو گئے اور جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لی یہ لوگ پوری پوری رات سجدے کیا کرتے یا کئی گھنٹے سجدہ ریز رہتے تھے مگر اسکا فائدہ کیا تھا جب وہ امیرالمومنین علیہ السلام(حاکم وقت) کو نہ پہچان سکے، صحیح راہ یعنی توحید و ولایت کا راستہ‘‘ نہ سمجھے اور سب کچھ چھوڑ کر سجد وںمیں لگ جائے! ایسے سجدہ کی کیا قیمت ہوگی۔
ولایت کے باب میں جو روایات وارد ہوئیں ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے، ایسے لوگ جو ساری عمر عبادتیں کرتے ہیں مگر ولی خدا کو نہیں پہچانتے اور اپنی زندگی اس کی انگلی کے اشارے پر نہیں چلاتے اس کے فرمان کے مطابق نہیں عمل کرتے تو تمام عبادتیں بے فائدہ اور بے ارزش ہے!
’’ولم یعرف ولایة ولّی الله فیوالیه ویکون جمیع اعماله برلالله ‘‘(۱)
آخر یہ کیسی عبادت ہے؟ امیرالمومنین علیہ السلام کا کچھ اس طرح کے لوگوں سے سروکار تھا۔
جس ہاتھ کو کاٹ دینا چاہیے:
امیرا لمومنین علیہ السلام نے یہ عجیب و غریب جملہ ارشاد فرمایاہے
’’ایهاالنّاس ان احقّ الناس بهذا الآمراقواهم علیه واعلمهم بامرالله فیه فان شغب شاغب استعب ‘‘(۲)
جس راستے کو میں نے اختیار کیا ہے اگر کوئی شخص اس سے منحرف ہو جائے اورفتنہ و فساد برپا کرے تو میں پہلے اسے نصیحت کروں گا تا کہ اپنے اس عمل سے رک جائے،لیکن اگر اس نے اس سے انکار کیا تو پھر اس کا فیصلہ میری تلوار کریگی ’’فان ابی قوتل ‘‘(۳)
اسی خطبہ میں فرماتے ہیں ،
’’الا وانی اقاتل رجلین ‘‘(۴)
آگاہ ہو جاو میں دو قسم کے لوگوں سے جنگ کروںگا ایک تو وہ شخص جو کسی چیز جیسے (مال) حق،مقام وغیرہ،کا حق دار نہیں ہے مگر اسے ہتھیانا چاہتا ہے دوسرے وہ آدمی کہ جو اپنی ذمہ داری کو نبھانے میں ٹال مٹول کرتا ہے مثلاً جہاد کرنا اس کا فرض ہے مگر وہ نہیں کرتا یا کسی کو کسی کا حق یا مال ادا کرنا چاہیے اور وہ ادا نہیں کرتا یا مسلمانوں کے ایسے اجتماعی امور جن میں شریک ہونا چاہیے اور وہ شریک نہیں ہوتا
’’اجلاّ ادعی مالیس له و اخر منع الذی علیه ‘‘(۵)
آپ پوری قوت سے فرما رہے تھے
’’وقد فتح یاب الحرب بینکم و بین اهل القبلة ولا یحمل هذا العلم الا اهل البصر و البصّر ‘‘(۶)
یاد رکھو تمہارے اور اھل قبلہ کے درمیان جنگ کا دروازہ کھل گیا ہے۔
پیغمبر(ص) کے زمانے میں کب یہ موقع پیش آیا تھا؟
عمار یاسر جنگ صفین میں ایک دفعہ متوجہ ہوئے کہ جیسے لشکر میں کچھ سرگوشیاں ہو رہی ہے جلدی سے خود کو وہاں پہنچا یا معلوم ہواکہ کسی نے آکر سپاہیوں کے درمیان یہ وسوسہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کن لوگوں کے مقابلہ کے لئے آئے ہو جو نماز پڑھتے ہیں ان کے مقابلے کے لیے، جو خود مسلمانوںہیں ان سے لڑنے آئے ہو! آپ کو یاد ہوگاایران عراق جنگ میں بھی ایسے نمونے دیکھنے کو ملے ہیں جس وقت ہمارے سپاہی دشمن پر حملہ کر کے انہیں اسیر کرکے لاتے تھے تو ان کی جیبوں میں تسبیح و سجدہ گاہ ہوتی تھی، اس لئے کہ یہ لوگ شیعہ تھے کہ جن کو طاغوت صدام نے اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا تھا۔ یاد رکھیں یہ مسلمان اس وقت تک قیمت رکھتا ہے جب تک خدا کے ارادہ سے اسی کے راستہ میں قدم اٹھائے اگر یہی ہاتھ شیطان کے ارادے سے آگے بڑھے تو پھر اسے کاٹ دینا چاہیے ، اور امیرالمومنین علیہ السلام نے اس چیز کو بہت اچھی طرح تشخیص دیا تھا۔
عمار یاسر فتنوں کو برملہ کرنے والے:
بہرحال معرکہ صفین میں کئی بار سپاہیوں کے درمیان یہی وسوسہ پیدا کیا گیا اور میرے خیال میں عمار یاسر تھے جنہوں نے ہر بار اس فتنہ کو برملہ کیا اورعمار کہہ رہے تھے اسطرح خطاب کر کے کہ جھگڑا نہ کرو بلکہ حقیقت کو پہچانو یہ پرچم جو تمہارے سامنے نظر آرہا ہے میں نے دیکھا ہے یہی پرچم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں آیا تھا اور جو لوگ اس پرچم تلے اس وقت نظر آرہے ہیں اس وقت بھی یہی لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی جنگ کرنے آئے تھے اور پھر ’’امیرالمومنین علیہ السلام کے پرچم کی طرف‘‘ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا میںنے ایک اور علم بھی دیکھا ہے جو اس پرچم کے مدمقابل تھا اور اسی کے نیچے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ شخص یعنی امیرالمومنین علیہ السلام کھڑے ہوئے تھے ، تو آخر کیوں پہچاننے میں غلطی کر رہے ہو؟ کیوں حقیقت کو پہچاننے کی کوشش نہیں کرتے ؟
اس خطاب سے عماّر کی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے، بصیرت ایک نہایت اہم شئی ہے،میں نے تاریخ کو کھنگالالیکن یہ کردار مجھے فقط عمار ہی کا دکھائی دیا ، عمار جن جن مواقع پر حقائق سے پردہ اٹھانے کے لئے پہنچے ہیں میں نے اسے کہیں لکھاہے جو اس وقت میرے ہاتھ میں نہیں کہ میں آپکے سامنے پیش کر سکوں۔خداوند کریم نے اس مرد کو زمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے امیرالمومنین علیہ السلام کے دور کے لئے ذخیرہ کر کے رکھا تھا کہ وہ اس دوران حقائق کو سب کے سامنے آشکار کریں اور ظلمت کا پردہ چاک کر کے نور کی طرف لوگوں کی رہنمائی کریں۔