خلافت کا معاویہ کی طرف چلاجانا اور پھر موروثی سلطنت میں تبدیل ھوجانا
حضرت علی علیہ السلام کی شھادت کے بعد آپ کی وصیت اور عوام کی بیعت کے مطابق حضرت امام حسن(ع) نے خلافت سنبھالی جو بارہ امامی شیعوں کے دوسرے امام ھیں۔
اس بیعت سے معاویہ کا چین وسکون غارت ھوگیاتھا۔ اس نے عراق پر چڑھائی کردی جو اس زمانے میں خلافت کا مرکز تھااور حضرت امام حسن(ع) کے خلا ف اعلان جنگ کردیا ۔
معاویہ نے مختلف فریبوں ، حیلوں اوربھانوں سے نیزبھت زیادہ مال و دولت خر چ کرکے آھستہ آھستہ امام حسن بن علی(ع) کے طرفداروں اور اصحاب کو اپنے ساتھ ملالیا تھا اورآخر کار امام حسن(ع) کو مجبور کردیا کہ صلح کے عنوان سے خلافت کو معاویہ کے حوالے کردیں اور امام حسن بن علی(ع) نے بھی اس شرط پر کہ معاویہ کی وفات کے بعدخلافت دوبارہ انھیںواپس لوٹا دی جائے اور ساتھ ھی ان کے دوستوں اور پیروکاروں پر بھی کسی قسم کا جبر وتشدد یا ظلم نہ ھو ،خلافت معاویہ کے سپرد کردی تھی ۔ (۱)
۴۰ ھ میں معاویہ نے خلافت پر قبضہ کرلیا اور فورا ً عراق آیا ۔ اس نے اپنے خطبوں میں لوگوں کو متنبہ کیا او رکھا : ”میں تمھارے ساتھ نماز ، روزہ کے لئے جنگ نھیں کررھا تھا بلکہ میں چاھتا تھا کہ تم پر حکومت کروں اور اب میں اپنے مقصد میں کامیاب ھوگیاھوں “(۲)
اور پھر کھا : ”میں نے حسن کے ساتھ جو معاھدہ کیا تھا وہ اب باطل اور منسوخ ھوچکا ھے “ (تاری طبری ج ۴، ص ۱۲۴) اور دوسری تمام تاریخی کتابیں۔
معاویہ نے اپنے خطبے میں اشارہ کیا کہ وہ سیاست کو دین سے الگ کردے گا اوراس طرح دینی قوانین کے بارے میں بھی کوئی ضمانت نھیں دے گا ۔ البتہ یہ واضح ھے کہ ایسی حکومت ، سلطنت اور بادشاھت ھے نہ کہ خلافت یا پیغمبر اکرم کی جانشینی ۔یھی وجہ ھے کہ بعض لوگ جو معاویہ کے پاس پھنچے تھے اور اس کے دربار میں رسائی حاصل کرسکے تھے ، انھوں نے بادشاہ کی طرح اس کو سلام کیا تھا (۳)۔ وہ خود بھی بعض خصوصی مجالس میں اپنی حکومت کو خصوصی ملوکیت اور بادشاھی سے تعبیر کیا کرتا تھا (۴)۔ اگرچہ وہ عام او ر ظاھری طور پر لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو خلیفہ ھی کھا کرتاتھا لیکن وہ بادشاھت یاسلطنت جوزور اور طاقت کے بل بوتے پرقائم ھو اس میں وراثت خو د بخود آجاتی ھے اور آخر کار اس نے اپنی نیت او رخواھش کوعملی جامہ پھنایا اور اپنے بیٹے یزید کو جو ایک نھایت ھی لاابالی ، آوارہ اور عیاش شخص تھا، جسے ذرہ برابر بھی دینی شعور نہ تھا اور نہ ھی کوئی مذھبی شخصیت رکھتا تھا ، اپنا جانشین اورولی عھد بنایا (۵)۔جس نے اپنی حکومت اور سلطنت کے دوران اس قدر شرمناک حوادث اور واقعا ت کو جنم دیا کہ قیامت تک تاریخ اس پر شرمندہ رھے گی ۔
معاویہ اپنے بیانات میں ھمیشہ اشارہ کیا کرتا تھا کہ وہ کبھی امام حسن کو دوبارہ خلیفہ نھیں بننے دے گا۔ خلافت کے بارے میں اپنے مرنے سے پھلے اس کے دماغ میں کچھ اور ھی خیال تھااور یہ وھی خیال تھا جس کے ذریعے اس نے امام حسن(ع) کوزھر دے کر شھید کرادیا تھا (۶)اور اس طرح اپنے بیٹے یزید کے لئے راستہ ھموار کردیا تھا ۔ معاویہ نے اپنے معاھدے کی خلاف ورزی کرکے عوام کوسمجھادیا تھا کہ وہ کبھی بھی اھلبیت(ع) کے شیعوں کو امن وامان کے ماحول میں زندگی گزارنے کی اجازت نھیں دیگاکہ پھلے کی طرح اپنی دینی سرگرمیاں جاری رکہ سکیں اور آخر کار اس نے اپنے خیالات کو عملی جامہ پھناھی دیا۔
اس نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی اھلبیت(ع) کی تعریف اور شان میں کوئی حدیث بیان کرے گا اس کے جان ومال کی حفاظت کی کوئی ضمانت نھیں دی جائے گی ۔ (۷)اسی طرح اس نے حکم دیاکہ جو شخص تمام اصحاب رسول او رخلفاء کی تعریف میںکوئی حدیث بیان کرےگا اس کو بے حد انعام واکرام سے نوازا جائے گا ۔اس حکم کے نتیجے میں صحابہ کی شان میں بھت زیادہ احادیث گھڑھ لی گئیں ۔(۸) اس نے حکم دیا کہ تمام اسلامی ممالک میں منبروں پر خطبوں کے دوران علی(ع) پر شب وستم کیاجائے گا ( یہ حکم اموی خلیفہ عمربن عبد العزیز ۹۹۔ ۱۰۱ ھجری قمری کے زمانے تک جاری رھا )اس نے اپنے مددگاروں اور پیروکاروں کی مدد اور کوشش کے ذریعے جن میں بعض اصحاب رسول بھی تھے ، حضرت علی(ع) کے شیعوں اورمخصوص پیروکاروں کو شھیدکروادیاتھا ۔ان میں سے بعض کے سروں کو نیزوں پر چڑھا کر شھروں میں پھرایا تھا ۔ وہ عام شیعوں کو جھاں کھیں بھی دیکھتاتھا تکلیفیں ، آزار او ر شکنجے دیا کرتا تھا۔ ان کو تلقین وتاکید کی جاتی تھی کہ وہ حضرت علی(ع) کی پیروی کرنے سے باز رھیں اور جو شخص اس حکم کو قبول نہ کرتا اس کوقتل کردیا جاتاتھا ۔ (۹)
حوالہ