حضرت علیاکبرعلیہالسلام کی عمر کے بارے میں صحیح نظریہ کیا ہے؟
- شائع
-
- مؤلف:
- ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
- ذرائع:
- ماخوذ ا سایٹ مرکز ملی پاسخ گوئی بہ سوالات دینی
سوال:
حضرت علیاکبرعلیہالسلام کی عمر کے بارے میں صحیح نظریہ کیا ہے؟
کیا آپ علیہ السلام کے بیوی اور بچے بھی تھے؟ قدیم منابع میں کیا کہا گیا ہے؟
جواب: مآخذ میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کی عمر اور خاندان
علی اکبر علیہ السلام کی ولادت کی صحیح تاریخ (دن اور مہینہ) کے بارے میں، جو اب 11 شعبان کے نام سے مشہور ہے، قدیمی منابع اور ذرائع میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اکثر شیعوں کے منابع میں حضرت علیاکبر علیہالسلام کو امام حسین علیہالسلام کا بڑا بیٹا سمجھا جاتا ہے اور ان کی والدہ لیلی بنت ابی مرہ تھیں۔ آپ علیہ السلام نے عاشورا کے دن بنی ہاشم کے پہلے فرد کی حیثیت سے میدان میں قدم رکھا اور بہادری و شجاعت کا مظاہرہ کرنے کے بعد عمر سعد کی فوج کے سپاہیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے، اور عاشورا کے واقعہ میں بنی ہاشم کے پہلے شہید کےطور پر جانا جاتا ہے۔
علیاکبر علیہالسلام کی ولادت کی صحیح تاریخ (دن اور مہینہ) کے بارے میں جو آج 11 شعبان مانا جاتا ہے، قدیمی منابع اور کتب میں کوئی ثبوت یا دلیل نہیں ہے۔ یہاں تک کہ بعد میں مرحوم مقرم (رح)نے ان کی ولادت کو 11 شعبان 33 ہجری قرار دیا۔ (1) مگر ان کے سالِ ولادت کے بارے میں ہمیشہ دو آراء اور نظریے موجود ہیں۔
پہلا نظر یہ ہے کہ کچھ لوگوں جیسے ابوالفرج اصفہانی اور مرحوم ابن ادریس حلی نے لکھا ہے کہ آپ علیہ السلام عثمان صاحب کے دور خلافت میں پیدا ہوئے۔ (2)
ابن اثم کوفی نے لکھاہیں کہ آپ علیہ السلام اسی سال 35 ہجری میں پیدا ہوئے تھے، جو کہ عثمان ساحب کے قتل کا سال ہے، تو کربلا میں ان کی عمر 25 سال سے زیادہ رہی ہوگی؛ جیسا کہ بہت سے لوگوں نے ان کی عمر 27 سال تک بتائی ہے۔ (3)
دوسری جانب بہت سے مورخین اور محدثین کا خیال ہے کہ وہ امیرالمؤمنین علیہالسلام کی خلافت کے بعد پیدا ہوئے اور کربلا میں تقریباً 18 سال کے جوان تھے۔
ابن اعثم کوفی لکھتے ہیں: "علی بن الحسین علیہالسلام کا روز عاشورا 18 سال تھا"۔ (4)
ابن شہرآشوب بھی لکھتے ہیں: "علیاکبر علیہالسلام کی عمر کربلا میں 18 سال تھی اور کچھ لوگوں نے انہیں 25 سال کا بتایا ہے"(5) اسی طرح شیخ مفید(رح) نے آپ علیہ السلام کی عمر کو «بضع عَشْرَهَ سَنَه»کے طور پر بیان کیا۔ (6)
"بضع" اس تعداد کو کہتے ہیں جو 3 سے 9 کے درمیان ہو۔ (7) لہذا، شیخ مفید(رح) آپ علیہ السلام کی عمر 13 سے 19 سال کے درمیان مانتے ہیں۔
ایک جگہ جہاں یہ نظریاتی اختلافات ظاہر ہوتے ہیں؛ وہ ہے ان کی شہرت کو «علیاکبر» کے نام سے بیان کرنا اور ان کی عمر کا اپنے بھائی امام سجاد علیہالسلام کے ساتھ موازنہ کرنا۔ امام سجاد علیہالسلام کی عمر کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ وہ 38 ہجری میں پیدا ہوئے؛ جیسا کہ شیخ مفید(رح) بھی اسی سال کو ان کی پیدائش کا سال مانتے ہیں۔ (8)
اسی طرح 36 اور 37 ہجری کو بھی ان کی پیدائش کےسال کے طور پر لکھا گیا ہے؛ لیکن علامہ مرحوم مجلسی(رح) اس بارے میں لکھتے ہیں: «علی بن حسین علیہالسلام کی پیدائش ان کے جد امجد حضرت علی بن ابیطالب علیہالسلام کے خلافت کے زمانے میں یقینی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے»۔ (9)
لہذا، ان اقوال کی روشنی میں، امام سجاد علیہالسلام کربلا میں تقریباً 24 سال کے تھے۔ لہذا اگر علیاکبر علیہالسلام کی عمر ان کے بھائی سے زیادہ ہے تو ان کی پیدائش کا وقت اسی دور میں آتا ہے جب عثمان صاحب کی خلافت تھی اور ان کی شہادت کے وقت ان کی عمر 25 سال سے زیادہ تھی۔
اس بارے میں جناب ابن ادریس(رح) اور شہید اول (رح)نے شیخ مفید (رح)کی نظر کو قبول نہیں کیا اور آپ علیہ السلام کو عمر میں بڑے کے طور پر متعارف کرا دیا۔ (10)
ابن ادریس لکھتے ہیں: «یہ سب مصنفین، دانشمندان اور نسل شناسان اور قیافہ شناس حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ :
"علیاکبر علیہ السلام امام سجاد علیہالسلام سے بڑے تھے اور وہ اس بارے میں دوسروں کی نسبت زیادہ آگاہ ہیں»۔ (11)
مزید یہ کہ جو شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ عثمان صاحب کے دور خلافت میں پیدا ہوئے، وہ مرحوم ابن ادریس (رح)کا نظریہ ہے کہ انہوں نے دلیل کے طور پر کہا ہے: «علی بن الحسین علیہالسلام نے اپنے جد امجدامیرالمؤمنین علیہالسلام سے روایت نقل کی»۔ (12)
لیکن موجدہ منابع میں اس روایت کی طرف اشارہ نہیں ملتی ہے
علیاکبر علیہالسلام کو امام سجاد علیہالسلام سے بڑے ہونے کے شواہد میں سے ایک خود امام سجاد علیہالسلام کا یہ تصریح ہے کہ وہ بڑے ہیں۔
چنانچہ ایک بار عبیدالله بن زیاد کے سامنے اور ایک بار یزید کے سامنے جب ان سے پوچھا گیا کہ:
کیا علی بن حسین علیہالسلام کو (کربلاء میں)قتل نہیں کیا گیا؟
تو امام سجاد علیہ السلام نے جواب میں فرمایا تھا: « وہ میرا ایک بڑا بھائی تھا جس کا نام علی تھا انہیں لوگوں نےقتل کیا»۔ (13)
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ جملہ جو سیدالشهداعلیهالسلام نے علی اکبر علیہ السلام کی شہادت کے وقت فرمایا تھا؛
فَلَمَّا لَمْ يَبْقَ مَعَهُ سِوَى أَهْلِ بَيْتِهِ خَرَجَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ علیه السلام وَ كَانَ مِنْ أَصْبَحِ النَّاسِ وَجْهاً وَ أَحْسَنِهِمْ خُلُقاً فَاسْتَأْذَنَ أَبَاهُ فِي الْقِتَالِ فَأَذِنَ لَهُ ثُمَ نَظَرَ إِلَيْهِ نَظَرَ آيِسٍ مِنْهُ وَ أَرْخَى عَيْنَهُ وَ بَكَى ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اشْهَدْ فَقَدْ بَرَزَ إِلَيْهِمْ غُلَامٌ أَشْبَهُ النَّاسِ خَلْقاً وَ خُلُقاً وَ مَنْطِقاً بِرَسُولِكَ وَ كُنَّا إِذَا اشْتَقْنَا إِلَى نَبِيِّكَ نَظَرْنَا إِلَيْهِ فَصَاحَ وَ قَالَ يَا ابْنَ سَعْدٍ قَطَعَ اللَّهُ رَحِمَكَ كَمَا قَطَعْتَ رَحِمِي فَتَقَدَّمَ نَحْوَ الْقَوْمِ فَقَاتَلَ قِتَالًا شَدِيداً وَ قَتَلَ جَمْعاً كَثِيراً ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِيهِ وَ قَالَ يَا أَبَتِ الْعَطَشُ قَدْ قَتَلَنِي وَ ثِقْلُ الْحَدِيدِ قَدْ أَجْهَدَنِي فَهَلْ إِلَى شَرْبَةٍ مِنَ الْمَاءِ سَبِيلٌ فَبَكَى الْحُسَيْنُ علیه السلام وَ قَالَ وَا غَوْثَاهْ يَا بُنَيَّ قَاتِلْ قَلِيلًا فَمَا أَسْرَعَ مَا تَلْقَى جَدَّكَ مُحَمَّداً ص فَيَسْقِيَكَ بِكَأْسِهِ الْأَوْفَى شَرْبَةً لَا تَظْمَأُ بَعْدَهَا أَبَداً فَرَجَعَ إِلَى مَوْقِفِ النُّزَّالِ وَ قَاتَلَ أَعْظَمَ الْقِتَالِ فَرَمَاهُ مُنْقِذُ بْنُ مُرَّةَ الْعَبْدِيُّ لَعَنَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِسَهْمٍ فَصَرَعَهُ فَنَادَى يَا أَبَتَاهْ عَلَيْكَ السَّلَامُ هَذَا جَدِّي يُقْرِؤُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ عَجِّلِ الْقَدُومَ عَلَيْنَا ثُمَّ شَهَقَ شَهْقَةً فَمَاتَ فَجَاءَ الْحُسَيْنُ حَتَّى وَقَفَ عَلَيْهِ وَ وَضَعَ خَدَّهُ عَلَى خَدِّهِ وَ قَالَ قَتَلَ اللَّهُ قَوْماً قَتَلُوكَ مَا أَجْرَأَهُمْ عَلَى اللَّهِ وَ عَلَى انْتِهَاكِ حُرْمَةِ الرَّسُولِ عَلَى الدُّنْيَا بَعْدَكَ الْعَفَاءُ. قَالَ الرَّاوِي: وَ خَرَجَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيٍّ تُنَادِي يَا حَبِيبَاهْ يَا ابْنَ أَخَاهْ وَ جَاءَتْ فَأَكَبَّتْ عَلَيْهِ فَجَاءَ الْحُسَيْنُ فَأَخَذَهَا وَ رَدَّهَا إِلَى النِّسَاءِ (14)
یہ ظاہر کرتا ہے کہ علی اکبر علیہ السلام کی عمر 25 سال کے قریب تھی، 27 سال کے نہیں؛ کیونکہ "غلام" کا لفظ اس نوجوان کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کی اوپر کی ہونٹ اور چہرے کے بال مکمل نہ ہوں(یعنی نوجوان)۔ (15)
اس کے باوجود یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ لفظ ضروری نہیں کہ ایسے نوجوان کو ہی کہا جائے، جیسے کہ ازہری کہتے ہیں:
"میں نے عرب سے سنا کہ جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس کو" غلام" کہتے ہیں اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ بوڑھے مردوں کو بھی "غلام" کہتے ہیں"
یا فیومی لکھتے ہیں: "بوڑھے آدمی پر بھی مجازاً" غلام" کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پہلے "غلام" رہا ہے"۔ (16)
لہٰذا، اگرچہ "غلام" کا حقیقی مطلب نوجوان کا بھی ہوتا ہے، لیکن والد کی جانب سے اپنے نوجوان بیٹے کے لئے اس لفظ کا استعمال مجازی اور ایک طبعی اور فطری ہے اور اس جملے سے ہم ان کی عمر کو 20 سال سے کم نہیں سمجھ سکتے۔
ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ بہت سے شواہد اورمنابع اس بات کی تصدیق میں موجود ہیں کہ یہ لفظ جوان مردوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ (17)
نتیجہ:
حضرت علی اکبر علیہ السلام کی پیدائش کا صحیح تاریخ کسی قدیمی اور پرانے ماخذ میں ذکر نہیں ہوا؛
لیکن کچھ مؤرخین اور نویسندگان نے ان کی پیدائش کا سال خلافت عثمان صاحب کے دور سے متعلق لکھا گیا ہے، ان میں سے مشہور شیعہ علماء میں مرحوم ابن ادریس حلی(رح) ہیں۔
دوسری طرف کچھ گروہ سمجھتے ہیں کہ حضرت علی اکبر علیہ السلام کی عمر کربلا میں 20 سال سے کم تھی، اور اس بات کو سب سے زیادہ تسلیم کرنے والے مرحوم شیخ مفید(رح) ہیں۔
دلائل میں سے ایک جو مرحوم ابن ادریس حلی کے قول کو تقویت دیتی ہیں، وہ شواہد ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ علی اکبر علیہ السلام، امام سجاد علیہ السلام سے بڑے تھے؛
جیسا کہ خود امام سجاد علیہ السلام نے یہ تصریح کی ہے کہ وہ بڑے تھے۔
اس بات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے کہ امام سجاد علیہ السلام حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دور خلافت میں پیدا ہوئے ہیں اور کربلا میں تقریباً 24 سال کے تھے؛ تو اس لئے حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شہادت کے وقت عمر 25 سال سے زیادہ تھی۔
مزید جاننے کےلئے مطالعہ کیجئے:
سحاب رحمت (تاریخ و سوگنامه سیدالشهدا علیهالسلام) تحریر: عباس اسماعیلی یزدی.
حوالہ جات:
1. مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین علیهالسلام، بیروت، مؤسسه الخراسان للمطبوعات، 1426 ق، ص 267.
2. مقاتل الطالبیین، اصفهانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، انتشارات دارالمعرفه، بیروت، بیتا، ص 87. ولد علی بن الحسین علیهالسلام هذا فی إماره عثمان، حلی، محمد بن منصور بن احمد بن إدریس، کتاب السرائر، مؤسّسه النشر الإسلامی، بیجا، مؤسسه النشر الإسلامی، چاپ دوم، ١٤١٠، ص 655.
3. مقرم، مقتل الحسین علیهالسلام، ص 267.
4. ثم تقدم من بعده علی بن الحسین بن علی رضیاللهعنه و هو یومئذ ابن ثمانی عشره سنه، کوفی، ابن اعثم، الفتوح، بیروت، دارالأضواء، چاپ اول، 1411 ق، ج5، ص 114.
5. مازندرانی، ابن شهرآشوب، المناقب آل ابیطالب، قم، علامه، 1379 ق، ج4، ص 109.
6. مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الإرشاد فی معرفه حجج الله على العباد، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، 1413 ق، ج2، ص 106.
7. بِضْعَ سِنِینَ؛ قال الفراء: البِضْع ما بین الثلاثه إِلى ما دون العشره، ابن منظور، لسان العرب، بیروت، انتشارات دار صادر، بیروت، چاپ سوم، 1414 ق، ج8، ص 15.
8. و کان مولد علی بن الحسین علیهالسلام بالمدینه سنه ثمان و ثلاثین من الهجره، مفید، الارشاد، ج ۲، ص ۱۳۷.
9. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار الجامعه لدرر أخبار الأئمه الأطهار، تهران، اسلامیه، چاپ دوم، 1363 ش، ج.۴۶، ص ۱۰.
10. شهید اول، محمد بن مکی، الدروس الشریعه فی فقه الامامیه، مشهد، مجمع البحوث الاسلامیه، 1417 ق، ج 2، ص 16.
11. حلی، کتاب السرائر، ج ۱، صص ۶۵۶-۶۵۵.
12. وقد روی ذلک عن جده علی بن أبی طالب علیهالسلام، همان، ج 1، ص 655.
13. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، بیروت، انتشارات دارالتراث، چاپ دوم، 1387 ق، ج11، ص 630؛ اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص 120.
14. لهوف، سید بن طاوس، ص113 - کوفی، الفتوح، ج 5، ص 114.
15. الشابُّ الذی بلغَ خروج لِحْیته و طَرَّ شاربه و لم تبد لحیته، ابن منظور، لسان العرب، ج 3، ص 400.
16. فیومى، احمد بن محمد، المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر، قم، انتشارات موسسه دارالهجره، چاپ دوم، 1414 ق، ج 5، ص 119.
17. مانند تعبیر قرآن از جوانان بهشتی به غلمان،﴿وَیَطُوفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ کَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَکْنُونٌ ﴾؛ سورهی طور، آیه 24.