امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے متعلق گفتگو
- شائع
-
- مؤلف:
- آیت اللہ العظميٰ سید علی سیستانی مدظلہ العالی
- ذرائع:
- آسان مسائل (حصہ چہارم) جلد ۴
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے متعلق گفتگو
میرے والد نے فر مایا: تم نے بہت سے احکام شرعیہ کو جان لیا ہے کہ جن کی تم کو ضرورت تھی اور بہت سی چیزوں کو جان لیا ہے ۔اب تم نے خدا وندعالم کے بعض احکام کو جان لیا ہے اور ان کے واجبات کی بھی حسب ضرورت تم پر وضاحت ہو گئی ہے اور ان کے بعض محرمات (حرام چیزوں) کو بھی یاد کر لیا ہے ۔اب میں تمہارے سامنے وہ چیز بیان کر تا ہوں کہ جس کو اس سے پہلے بیان نہیں کیا گیا۔
اس وقت تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم ماضی کی تمام سختیوں کو یاد کرو۔ آج تم اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرو ، اور اپنے دل کی گہرائی سے حزن و ملال اور حیرت کے ساتھ پر ور د گار کی بار گا ہ میں یوں عرض کرو “۔
الهی اعلم انک کلفتی ،ولکنی لا اعلم بما ذا کلفتنی“
”پالنے والے میں جانتا ہوں کہ تو نے مجھے مکلف بنا دیا ہے ۔ لیکن میں یہ نہیں جانتا ہوں کہ تو نے مجھے کس چیز کا مکلف بنایا ہے “۔
پا لنے والے؛مجھ پر ضروری ہے کہ میں جان لوں کہ تو نے کس چیز کو مجھ پر حلال کیا تا کہ میں اس کو انجام دوں ۔ اور کس چیز کو تو نے حرام قراردیا ہے، تا کہ میں اس سے پرہیز کروں۔
اس وقت تمہیں جان لینا چاہیے، تمہارے ہم عمر یا تم سے بڑے لوگ بہت زیادہ ہیں جو پڑھ رہے ہیں ، وہ مدت سے تمہارے ساتھ رہتے ہیں اور تمہاری تمام مشکلات ومصائب میں وہ تمہارے شا نہ بشانہ رہے ہیں۔ اورتم خدا کی بارگاہ میں عرض کرو ، کہ اے خدایا !
فقہ اسلامی کی کتابوں کے مطالب کو جیسا تو چاہتا ہے میرے اوپر روشن اور آ شکار بنا دے اور میری مدد فر ما،تا کہ میں ان کو تیری مرضی کے مطابق سمجھ سکوں ۔فعلا جن چیزوں کا سیکھنا ضروری تھا وہ تم سیکھ چکے، اور کچھ احکام فقہ کا تم نے ذخیرہ کر لیا ہے۔ اب تم کو قرآن مجید کے اس قول کے مطابق ان پر عمل کر نا چا ہئے۔
(ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف وینهون عن المنکر و اولئک هم المفلحون)
”اور تم میں سے کچھ لوگ ہوں جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں اور اچھی باتوں کا حکم کریں اور بری باتوں سے روکیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“پس تم بھی لوگوں کو نیکی کی طرف دعوت دو اور انھیں اچھائی کا حکم دو اور برائی سے رو کو۔
سوال: والد صاحب میں کس چیز کا حکم کروں اور کس چیز سے منع کروں؟
جواب: جس نیکی اور اچھائی کو تم جانتے ہو اس کا حکم کرو اور جس کو تم برائی سمجھتے ہو اس سے روکو۔
سوال: لیکن ابا جان ؛ مجھے دو سرے لوگوں سے کیا مطلب جو شخص برائی کر رہا ہے میرا اس سے کیا تعلق ہے۔کہ میں اس کو ترک کر نے کا حکم دوں،میں کیوں لوگوں کے معاملات میں مدا خلت کروں ، اور ان کو نیکی اور اچھا ئی کا حکم کروں ، اور برائیوں سے روکوں، میں خود اچھا کام انجام دوں اور برائی سے ا پنے آپ کوروکوں کیا یہ کافی نہیں ہے؟
جواب: اے بیٹا !
آج کے بعد ایسی بات نہ کہنا اور دو بارہ اس کی تکرار نہ کرنا ۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کچھ مراتب میں واجب کفائی ہیں اور اگر کسی نے بھی امر با لمعروف و نہی عن المنکر کے فرائض کو انجام نہ دیا مثلانہ میں نے، نہ تم نے اور نہ ہمارے علاوہ کسی اور نے ، تو ہم سب کے سب گناہ گار ہوں گے اور خدا وندعالم کے غضب اور اس کی ناراض گی کا باعث بنیں گے، اور اگر ہم میں سے کسی ایک نے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام دے دیا تو پھر تمام لوگوں سے اس کا وجوب ساقط ہو جائے گا کیا تم نے خدا کے اس قول میں غور نہیں کیا؟
( ولتکن منکم امةً یّدعون الی الخیرو یا مرون بالمعروف وینهون عن المنکر واولئک هم المفلحون)
” تم میں سے کچھ لوگ ہوں جو لوگو ں کو نیکی کی طرف بلائیں اور انہیں اچھی باتوں کا حکم دیں اور بری باتوں سے روکیں یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“ یہ آیت پہلے بیان ہو چکی ہے، کیا تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کو نہیں سنا کہ وہ ارشاد فر ماتے ہیں:
لاتزال امتی بخیر ماامر وابالمعروف ، ونهواعن المنکر وتعاونوا علی البر الخ“
”جب تک میری امت اچھائی اور نیکی کا حکم کرے گی اور برا ئی سے رو کے گی اور نیکی پر ایک دوسرے کی مدد کرے گی اس وقت تک میری امت سے خیر ختم نہیں ہو گا ۔ اورجب وہ یہ کام ترک کر دے گی تو اس سے بر کتیں اٹھالی جائیں گی اور ان میں سے بعض کو بعض پر مسلط کردیا جائے گا۔ اور ان کا زمین اور آسمان میں کوئی مدد گار نہ ہو گا“ کیا تم نے امام علی علیہ السلام کا یہ قول نہیں پڑھا:
” لاتترکو الامربالمعروف والنهی عن المنکر فیولی علیکم شرارکم ثم تد عون فلا یستجاب لکم“؟
”امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا ورنہ بد کار لوگ تم پر حاکم ہوجائیں گے۔ پھر تم ان کو بلاؤ گے تو وہ تمہاری آوا زپر لبیک نہ کہیں گے“ ”امام جعفر صادق علیہ السلام نے نے فر مایا:
” ان الامر بالمعروف والنهی عن المنکر سبیل الانبیاء ، ومنهاج الصلحاء فریضة عظیمة بها تقام الفراض ، وتامن المذاهب ، وتحل المکا سب وترد المظالم، وتعمرالا رض، وینتصف من الاعداء ویستقیم الامر “
” امر بالمعروف ونہی عن المنکر انبیاء اور صالحین کا راستہ ہے ، یہ ایک ایسا عظیم فریضہ ہے کہ جس کے ذریعہ واجبات ادا ہوتے ہیں اور نیک راہیں محفوظ ، اور کارو بار حلال ، مظالم دور ہوتے ہیں ، زمینیں آباد ، دشمنوں سے انصاف اور مشکلات حل ہوتے ہیں“
اور نیز آپ ہی کا یہ ارشاد ہے:
” الامر بالمعروف والنهی عن المنکر خلقان من خلق الله، فمن نصر هما اعزه الله ومن خذ لهما خذله الله “
” امر بالمعروف ونہی عن المنکر دو مخلوق خدا ہیں ، جو شخص ان دو نو ں کی مدد کرے گا تو خدا اسے عزت عطا کرے گا اور جو ان کو ذلیل ورسوا کرے گا تو خدا اس کو ذلیل ورسوا کرےگا “
” کلکم راع کلکم مسؤ ول عن رعیته
” تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے گر وہ اور جماعت کا نگہبان اور ذمہ دار ہے “
ہاں میں نے پڑھا ہے ؛
پس اس بنا پر تم بھی اپنی جماعت اور گر وہ کے ذمہ دار ہو، جو شخص ذمہ دار اور نگہبان ہوتا ہے اس کی ذمہ داریوں اور واجبات وحقوق میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یا تم ان سب چیزوں کے بدلے یہ کہہ سکتے ہو کہ میں یہ فضول کام کیوں کرو ں میں کسی کے معاملات میں مدا خلت کیوں کروں یہ میرے لیے زیبا نہیں ۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کوئی فضول چیز نہیں ہیں اور یہ دونوں کسی کے معا ملہ میں مدا خلت بھی نہیں ، یہ تمہاری شان کے خلاف نہیں ، بلکہ تمہاری شان کے عین مطابق ہیں۔ پس جس ذات نے تم پر نماز ، روزہ،حج اور خمس کو واجب کیا ہے اسی نے تم پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو واجب قرار دیاہے۔
سوال: لیکن میں کوئی مولوی نہیں ہوں کہ جو امر بامعروف ونہی عن المنکر کروں؟
جواب: کس نے تم سے کہا کہ امر بالعروف ونہی عن المنکر صرف مولوی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔امر بالمعروف ونہی عن المنکر دو ایسے واجبات ہیں جو تمہارے اوپر میرے اوپر مولوی صاحب پر، طالب علم، استاد،تاجر، مزدور، ملازم ، فوجی ، ماتحت، مالدار،غریب ، عورت اور مرد سب پر واجب ہیں۔
سوال: آپ کو میں نے فر ماتے ہوئے سناہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کچھ مراتب واجب کفائی ہیں پس کیا ان دونوں کے کچھ مراتب واجب عینی بھی ہیں ۔ جیسے وجوب نماز یومیہ کہ جو واجب عینی ہے؟
جواب: ہاں ان دونوں کے کچھ مراتب واجب عینی بھی ہیں، اور وہ ایسے شخص سے فعلی وقولی اعتبار سے نارضایتی کے اظہار کا مرتبہ ہے۔
جو واجب کو ترک کرتا ہے اور حرام کو انجام دیتا ہے ۔ کیا تم تک امیرالمنین علی علیہ السلام کا یہ قول نہیں پہنچا کہ جس میں آپ نے فر مایا :
” امرنا رسول الله صل الله علیه وآله وسلم ان نلقی اهل المعاصی بو جوه مکفهرة“
” امیرا لمو منین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ جب ہم اہل معاصی ( گناہ کر نے والو ں) سے ملیں تو ترش روئی کے ساتھ ملیں۔“ یعنی ہم سب کے اوپر واجب ہے کہ جو شخص گناہ کا مر تکب ہوتا ہے اس سے نا پسندگی اور ناراضگی کا اظہار کریں۔