امام منتظَر کی منتظر، اطاعت اور تجدید بیعت
امام منتظَر کی منتظر، اطاعت اور تجدید بیعت
منتظرین کی ایک عظیم ذمداری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھنا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں
الف: امام منتظَر کی اطاعت اور تجدید بیعت -
امام زمانہ کی محبت کے منجملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک حضرت کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا ہے چاہے کہ اسکا امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں پرمطلع اوراسکے رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں، اچھے اور نیک کامون کو یکھ کر انکے دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے برے اور ناشائستہ کامون کو دیکھ کر انکو دکھ ہو جاتاہے ،اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا و رسول کی رضا ہے اور انکے کسی پر ناراضگی خدا و رسول کی ناراضگی اسکے درپے ہے ،اور میرا ہر نیک عمل ہر اچھا کردار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کے نسبت میرا احساس مسؤلیت انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا اور یہ بھی جاننا چاہے کہ اما م زمانہ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کے مکمل پیروی میں حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت یا معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھ سکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عرتون کا ضرت المثل ہے
(وانت عاصیُ ُ انّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ )
یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جب جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی اطاعت گزار ہوتا ہے
اسلئے صادق آل محمد فرماتے ہیں :
مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ (۱)
جو شخص چاہتے ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں یے ہو جاۓ تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات ہقل ہوۓ ہیں :
“اللهم انّی اُجدد له فی صبیحة یوم هذا وما عشت فی أیامی “
خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں میں سے قرار دۓ
بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہار کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومین کی اطاعت حمایت اور انسے محبت کا وعدہ ہے
چنانچہ خود امام زنانہ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :
“و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم الا ما یتصل بنا مما نکرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوکیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم (۲) “
اگر ہمارے شیعہ اﷲ تعالی انہیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارا احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتا :
اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوگی ،اور ہمیں شیعون سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کے کردار نے پوشیدہ کر رکھّا ہے جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ کافی ہے
پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات ےاضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار کے چاہنے والوں سے جس چیز کے وفا کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت اطاعت حمایت اورمحبت ہے
اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے مانے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور کے شرائط میں سے ایک اہم شرط بھی ہے
اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین فرماتے ہیں :
“اعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولکنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم واسرافهم علی انفسهم (۳)
جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگون کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں انکی زیارت سے محروم کر دۓ گا -
پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ایک اوراہم ذمداری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے اوریہی شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی
ب: امام منتظر کی یاد
امام زمانہ عجل اﷲ فجرہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں ایجاد کرنے اور اسے رشد دینے کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طدف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور پر یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح کو ایک چیز کی طرف متوجہ کریں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو سکے
اسی طرح اگر آپ نے اما زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ روحی کشش کو ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد ظرف کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ اور جب شرائط پائی جاتی ہیں تو اسکا اثر خواہ نخواہ ہو گا اور رایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتا ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھون کیں دو وقت ایک صبح اور دوسرے رات کے وقت حضرت بقیۃ اﷲ اعظم کی طرف توجہ کریں معصومین نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہد کے پڑہنے دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑہنے کا حکم دیا ہے
السلام علیک فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی (۴)
سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا اُجالا پھیل جاۓ اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص ان طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام کی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکیا جاۓ گا(۵)
اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین کے تجدید بیعت کرتےہیں-
-------
(۱) مجلسی بحار انوار ،ج۵۲ ،ص ۱۴۰ -
(۲) طبرسی - الاحتجاج ج : ۲ ص : ۴۹۹ -
(۳) نعمانی :الغیبة ،باب ۱۰ ،ص ۱۴۱ -
(۴) پیام اما زمانہ :ص ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہ کے متعلق تقریر کا ایک حصہ -
(۵) مجلسی :ج ۱۰۲ ،ص ۱۱۱ -مصباح الزائر ص ۲۳۵ -