انتظارکے آثار اورنتائج
انتظارکے آثار اورنتائج
جو فرائض اور ذمداریان اسے پہلے فصل میں منتظرین کے ذکر ہوئیں اگ ان ذمداریون پر ہم سب درست عمل کریں تو ضرور عقیدث انتظار کا ریشہ ہمارے فردی اور اجتماعی زندگی میں سر سبز ہو گا اور آہستہ آہستہ اس عمل اور کوشش کے ماسب نتائج اور اثرات سماج میں زندگی کے مختلف پہلو میں عصر ظہور سے پہلے ہی رونما ہونگے- اب ہم انھیں نتائج میں سے بعض کہ کی طرف مختصر اشارہ کریں گے
۱ : مستقبل کی امید -
انتظار کے مثبت فردی نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ عقیدہ انتظار او ر ہر فرد منتظر کے دل میں مستقبل کے لئے امید پیدا کردیتا ہے ،اور نہی اپنے مستقبل سے امید اس شخص کے فردی اور اجتماعی سطح پر مختلف قسم کے جدوجہد،کوشش اور حرکتوں میں ایک عظیم کردار ادا کرتی ہے - اورشاید انتظار کے اسی فردی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوۓ معصومین نے منجی عالم امام عصر کے ظہور کے انتظار پر تاکید اور اسے اپنے وصیت ونصیحتوں کا مرکز قرار دیا ہو
جسیا کہ امرمومنین علیہ السلام انتظار کے بارے میں فرماتے ہیںں کہ انتظار انتظار محتوب خدا ہو اور اسکے نتائج میں سے خدا کے رحمتوں کا اس شخص پر نازل ہوتا ہے –
و انتظروا الفرج و لا تیأسوا من روح الله فان أحب الأعمال الی الله عز و جل انتظار الفرج ما دام علیه العبد المؤمن توکلوا علی الله عزوجل (۱) ”
فرج ظہور کے انتظار کرو،اور رحمت خدا سے کبھی نا امید مت ہو جاؤ ،بے شک خدا کے نزدیک سب سے بہتر عمل انتظار فرج ہے جب تک بندہ مومن خدا پر اپنا توکل رکھے :
اسی طرح انتظار ہر طرح کے نا امیدی ،افسردگی اور عاجزی سے رہائی کا بہترین ذریعہ ہے کہ جسکےے آج کی (بقول )ترقی یافتہ اقوام دوچار ہیں ،کہا جاتاہے ایک رسرچ کے مطابق دنیا کے ۹۰ لوگ مختلف قسم کے ناامیدی افسردگی و...جیسی نفسیاتی بیماریون سےرنج بھر رہیں -
اور اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوے امام امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
عَنْ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : أَفْضَلُ اَلْعِبَادَةِ اِنْتِظَارُ اَلْفَرَجِ (۲)
فرج بہت بڑا کام اور بزرگترین رہائی ہے-
۲: فردی اور اجتماعی اصلاح :
منجملہ نتائج انتظارمی سے ایک دوسرا نتیجہ اور اثر جو فردی اور اجتماعی دونوں سطح پر نمایاں ہوتا ہے وہ فردی سطح پر نفس کی اصلا ح اور خود کوناپسد عادات واخلاق سے پاک کرکے اچھے اور نیک عادت واخلاق حسنیہ سے زینت بخشنا ہے -چونکہ ایک واقعی منتظر خدا اور ولی خدا کو ہمیشہ حاصر ناظردیکھتا ہے اور ہمیشہ اس کو شش میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے عمل وکردار کے ذریعے انکی تقرب اوررضایت حاصل کرۓ -
اور اجتماعی سطح پر وہ نہ صرف خود صالح ہوتا ہے بکہ معاشرۓ کی اصلاح کے درپے ہوتا ہے اور ہمیشہ مصلح کل کے ظہور کے لئے زمینہ فراہم کرنے کی فکر میں ہوتا ہے ،اور چونکہ اسے یقین ہے کہ آخر کار اس طمین کا مالک وحاکم خدا کے صالح بندے ہونگے اور قدرت پلٹ کر صاحب قدرت کے ہاتھ آے گی تو اصلاح کی راہ میں پیش آنے والی شواریوں سختیوں کےسامنے کبھی دل نہیں ٹوٹا اور نہ ظالمون طاغوتیون کے مقابلہ کرنےمیں خوف وحراس اسکے دل میں بیٹھا دیتا ہے ،اور اسےدل میں ہمیشہ یہ تمنا ،عمل میں یہ اثراور زبان پر یہ دعا ہو گی -
اللَّهُمَّ إِنَّا نَرْغَبُ إِلَيْكَ فِی دَوْلَةٍ كَرِیمَةٍ تُعِزُّ بِهَا الْإِسْلَامَ وَ أَهْلَهُ وَ تُذِلُّ بِهَا النِّفَاقَ وَ أَهْلَهُ وَ تَجْعَلُنَا فِیهَا مِنَ الدُّعَاةِ إِلَی طَاعَتِكَ وَ الْقَادَةِ فِی سَبِیلِكَ وَ تَرْزُقُنَا بِهَا كَرَامَةَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ (۳)
پروردگارا ہم تیرے طرف دولت کریمہ کی رغبت رکھتے ہیں جس کے ذریعے اسلام اور اسلام والے عزت پائیں اور نفاق واھل نفاق ذلیل ہو جائیں اور ہم کو اس حکومت حق میں اپنی اطاعت کی طرف بلانے والا قرار دے، اور اپنی راستے کی طرف دعوت دینے والا قرار دے اور ہمیں اس میں دنیا و اخرت دونوں کی کرامت دے-
۳: بقاۓ مذہب تشیع -
کتب اھل البیت کو اپنے ظلم وجور سے بھر پور تاریخ میں زوال وانقراض سے نجات دینے اور بچا کر رکھنے کا سب سے بڑا عامل عقیدہانتظار رہا ہے ،تاریخ اسلام اس بات پر گواہ ہے کی صدر اسلام سے آج تک کو ئی اور اسلامی گروہ یا مکتب مکتب اھل بیت جیسے مظلوم اور مغلوب مقہور واقع نیں ہوا ہے بنی امیہ کے دور سے لے کر آج تک خاندان نبوت سے محبت ان سے مودت رکھنے اور ظالم فاجر حکمرانوں کے سامنے سر نہ جھکنے کی جرم میں ہر طرح کی محرومیت ،بربریت ،جلاوطنی اور ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑا اور ہر دور میں ظالم حکمرانوں کے قتل وغارت کا نشانہ بنا رہے اب اس حالت میں اگر امام زمانہ کے ظہور اور انتظار فرج اپنا سحر انگیز اثر نہ دکھایا ہوتا تو کب سے مکتب اھل بیت صفحہ ھستی سے مٹ چکا ہوتا یا کم سے کم اتنی ترقی اور رشد نہ کر لیتے ،بے شک پیروان مکتب اہل بیت نے سب کچھ کھونا تحمل کیا لیکن ایک دن کے لئے ظالم حکمرانوں کے سامنے سر تسلیم خم ہونے اور دست بیعت کو پھلانے مو کبھی گوارا نہ کیا (هیهات من الذلّة )کو کبھی قبول نہیں کیا ،اور یہ سب عقیدہ انتظار کا کرشمہ ہے
بے شک مکتب اہل بیت علیہم السلام کی بقا کے مخفیانہ رازوں میں سے اہم ترین راز یہی روح انتظار اور عقیدہ انتظار ہے جو ہر شیعہ مؤمن کے تن ومن میں زندگی وکامیابی کی امید پھونگتی ہے چونکہ جس قوم اور معاشرے کی ہر فردپر منحی بشریت کے انتظار کی حالت حاکم ہو تو خواہ نہخواہ وہ معاشرہ حرکت میں ہوتی ہے اور ہمیشہ جون وتون اصلاح کی طرف قدم اٹھے رہتی ہیں جو خود دین ومذہب کی بقا کا سب بنتی ہے اور اس حقیقت کا اعتراف بعض معربی دانشورں اور محققین نے بھی کی ہے اور انھوں نے اس عقیدے کو اپنے استکباری سلطہ جمانے کی راہ میں سب سے بڑا مانع شمار کیا ہے جسکا تذکرہ پہلے بھی (ضرورت انتظار کے بحث میں ) ہوا ہے-
اور نظریہ انتظار اور امام زمانہ کے وجود پر عقیدے کی اہمیت پر ورشنی ڈالٹے ہوۓ فروفیسر ہانری کربن (جرمن کے معصر فلاسفر جنہوں نے ایک مدت تک علامہ طباطبائی کے ساتھ مختلف موضوعات پر خطوکتابت کا سلسلہ جاری رکھا پھر آخرمیں شیعہ ہو گے ) فرانس کے مشھور یونیورسیٹی سوربین میں ادیان کے متعلق جو کانفرنس ہواتھا اس میں انھوں نے کہا تھا کہ تمام ادیان اور مذاہب جھانی کے درمیان صرف کتب تشیع ایک ایسا مکتب ہے جو جاویدانگی رکھتا ہے اور اس میں استمرار کی قابلیت ہے لہذا یہ مکتب دوسروں کے لئے بھی قابل پیشکش ہے چونکہ انکا عقیدہ ہے کہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ کبھی قطع نہیں ہو سکھتا بلکہ انسان کامل جو اس روۓ زمین پر خدا کا نمائندہ ،وواسطہ فیض اور ولی مطلق ہیں خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ ہیں اور کبھی زمیں ان سے خالی نہیں ہوتی ہے اوریہ وہی شخص ہیں جس کے آمد کے انتظارمیں سب بیٹھے ہوۓ ہیں(۴)
اورتاریخ اسلام میں آج تک اہل بیت اطہار کے مانے والوں نے ظالم اور غاصب حکمرانوں کے خلاف جتنے بھی تحریکین چلائی ہیں تو ان تمام تحریکوں کا ریشہ عقیدہ انتظارمیں ہے جیسا کہ پیڑوشفکی (مورخ وسابق روسی علوم کا ماہر اور ایران شناس )اس بارے میں کہتا ہے :مہدی کے انتظار میں آنکھیں بچھاۓ رکھنا ایران کے تیرویں صدی ہجری کی عوامی تحریکوں کے عقائد میں شامل ہے اور یہ عقیدہ چودھوین صدی کے تحریکون میں پہلے سے زیادہ کردار ادا کرتے ہےۓ دیکھنے میں آیا - اور آیندہ بھی اُمید ہے امت مسلمہ پہلے سے زیادہ بیدار اور متحد ہو جائیں اور اپنے دینی تحریکوں میں شدت ارو تعمیم دے دی جاۓ انشاء اﷲ عصر ظہور قریب ہو گا –
____________________
(۱)صدوق: الخصال ج ۲ ص ۶۱۶
(۲) کمال الدین ج : ۱ ص : ۳۲۰
افضل العبادة انتظار الفرج(فرائد السمطین،حموی جوینی،ج ۲،ص ۳۳۵) «سب سے عظیم عبادت، انتظار ظهور امام زمان( عج)ہے...
...رام قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليه و سلّم أفضل العبادة انتظار الفرج.(ینابیع المودة،قندوزی،ج ۳،ص ۳۹۷)
... قال رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم أفضل العبادة انتظار الفرج، أي انتظار الفرج بظهور المهدي( سلام اللّه عليه). ...
غایة المرام و حجة الخصام في تعیین الإمام من طریق الخاص و العام،بحرانی،ج ۷،ص ۲۸۷)
قال رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله أفضل العبادة انتظار الفرج: ۔... احياء علوم الدين ،غزالی،ج ۱،ص ۶۶۲
...قال: سلوا اللّه من فضله فانّه يحبّ ان يسأل، و أفضل العبادة انتظار الفرج، (تفسیر المراغي،مراغی،ج ۵،ص ۲۴)
«فضل خدا کے بارءے میں پوچھو تو اس سوال کے جواب میں کہےگا:سب سے عظیم عبادت، انتظار ظهور امام زمان( عج)ہے...
... اللّه من فضله، فاللّه يحب أن يسأل، و إن من أفضل العبادة انتظار الفرج»التفسیر المظهري،پانیپتی،ج ۸،ص ۲۷۰
...سلوا اللّه من فضله فان اللّه يحب ان يسأل و أفضل العبادة انتظار الفرج( رواه الترمذي و قال هذا حديث غريب و عن ابى هريرة...)(التفسیر الحدیث،دروزه،ج ۶،ص ۳۱۷)
...من فضله فإنّ اللّه عزّ و جلّ يحبّ أن يسأل. و أفضل العبادة انتظار الفرج». و حديث رواه الشيخان و أبو داود و الترمذي عن أبي... (الکشف و البیان المعروف تفسیر الثعلبي،ثعلبی،ج ۳،ص ۳۰۰)
...سلوا اللّه من فضله فإنه يحبّ أن يسأل و أن من أفضل العبادة انتظار الفرج».(روح المعاني في تفسیر القرآن العظیم و السبع المثاني،الوسی،ج ۳،ص ۲۱ )
(۳)کلینی: اصول کافی ،ج۳ ،ص ۴۲۴ -
(۴) جوادی آملی : امام مہدی موجود وموعود،ص ۱۰۶ -