امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

میں شیعہ کیسے ہوا؟

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

میں شیعہ کیسے ہوا؟

علامہ تیجانی سماوی نے اپنی کتاب "ثم اھدیت " میں لکھا ہےکہ:

اسباب تشیع
جن اسباب کی بنا پر میں شیعہ ہوا ہوں وہ تو بہت ہیں ، اس مختصر سے رسالہ میں ان سب کے تحریر کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔ صرف بعض اسباب کاذکر کرتاہوں ۔
(1):- خلافت پر نص
چونکہ اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے میں نے قسم کھالی تھی کہ انھیں چیزوں پر اعتماد کروں گا جو فریقین (سنی وشیعہ)کے نزدیک معتمد ہوں اور جس کو کسی ایک فرقہ نے لکھا ہے اس کو چھوڑ دوں گا ۔اسی اصول پر میں نے ابو بکر اور علی میں سے کس کو کس پر فضیلت ہے " کے مسئلہ پر بحث کی اور یہ کہ خلافت علی کے لئے نص موجود ہے جیسا کہ شیعہ حضرات کا دعوی ہے یا خلافت کا مسئلہ انتخاب وشوری پر موقوف ہےجیسا کہ اہل سنت والجماعت کا دعوی ہے ۔
جو یائے حق اگر اپنے کو تمام تعصبات سے الگ کرکے صرف حقیقت کو تلاش کریگا تو اس کو حضرت علی کی خلافت پر نص مل جائے گی ،جیسے نبی کریم کا ارشاد ہے " من کنت مولاہ فعلی مولاہ " جب آنحضرت حجۃ الوداع سے واپس آرہے تھے تو اس حدیث کو ارشاد فرمایا تھا اور اس ارشاد کے بعد یا باقاعدہ مبارکبادی کی رسم ادا کی گئی اورخود ابو بکر وعمر نے حضرت علی کو ان الفاظ سے تہنیت پیش کی :- ابو طالب کے فرزند مبارک ہو مبارک تم تمام مومنین ومومنات کے مولا ہوگئے (1)
--------------
(1):- مسند احمد بن حنبل ج 4 ص 281 ، سر العالمین للغزالی ص 12 ،تذکرۃ الخواص (ابن جوزی) ص 29 ،الریاض النضرہ (طبری )ج 2 ص 169، کنز العمال ج 6 ص 397 ، البدایۃ والنھایہ (ابن کثیر) ج 5 ص 212 ،تاریخ ابن عساکر ج 2 ص 50 ،تفسیر رازی ج 2 ص 63 ،الحاوی للفتاوی (سیوطی ) ج 1 ص 112

اس حدیث پر سنی شیعہ سب کاا جماع ہے اس بحث میں میں صرف اہل سنت کی کتابوں کا حوالہ دے رہا ہوں وہ بھی سب نہیں بلکہ جتنا میں نے ذکر کیا ہے اس کا کئی گنا چھوڑدیا ہے اگر کوئی مزید تفصیل چاہتا ہے تو وہ علامہ امینی کی"الغدیر" کا مطالعہ کرے جس کی اب تک 13 جلدیں چھپ چکی ہیں ۔ اس کتاب میں مصنف نے صرف ان راویوں کا ذکر کیا ہے جو اہل سنت والجماعت  کے یہاں ثابت ہیں ۔ اب رہی یہ بات کہ سقیفہ میں ابو بکر کے انتخاب پر اجماع ہوگیا تھا اور اس کے بعد مسجد میں ان کی بیعت کی گئی تو یہ صرف دعوی ہی دعوی ہے اس پر دلیل نہیں ہے ۔ کیونکہ جب حضرت علی ،حضرت عباس ، تمام بنی ہاشم ، اسامہ بن زید ، سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری ، مقداد بن اسود ، عمار یاسر، حذیفہ یمانی ، خزیمہ بن ثابت ، ابو بریدہ الاسلمی ، البراء بن عازب ،ابی ابن کعب ، سہل بن حنیف ،سعد بن عبادہ ، ابو ایوب انصاری ،جابر بن عبداللہ انصاری  ،خالد بن سعید اور ان کے علاوہ بہت سے صحابہ نے بیعت سے انکار کیا (1)۔ تو خدا کے بندو! اب اجماع کہاں رہا؟ حالانکہ اگر صرف حضرت علی ہی بیعت نہ کرتے  تو یہی بات اجماع پر طعن کے لئے کافی تھی ۔ کیونکہ بالفرض اگر رسول اکرم کی طرف سے علی کے لئے نص نہیں تھی تو خلافت کے تنہا کنڈیٹ تو بہر حال  وہ تھے ۔
حضرت ابو بکر کی بیعت کسی مشورہ کے ہوئی ہے بلکہ لوگ متوجہ ہی نہیں تھے خصوصا  اہل حل وعقد کو پتہ ہی نہیں چلا کہ بیعت ہوگئی  جیسا کہ علمائے مسلمین کہتے ہیں کیونکہ لوگ تو رسول کی تجہیز وتکفین میں مشغول تھے ، صورت حال یہ ہوئی کہ مدینہ والوں کو دفعۃ اپنے نبی کے مرنے کی اطلاع ہوئی اور وہ
--------------
(1):-طبری ،ابن اثیر ، تاریخ الخلفاء ، تاریخ الخمیس ، استیعاب ، بلکہ جن لوگوں نے بھی ابو بکر کی بیعت کا ذکر کیا ہے ۔

لوگ ابھی رونے پیٹنے ہی میں تھے ، کہ لوگوں سے زبردستی بیعت لے لی گئی (1)۔ اور اس زبردستی کا ثبوت اس واقعہ سے بھی ملتا ہے کہ لوگوں نے حضرت فاطمہ کے گھر کو جلا دینے کی دھمکی بھی دی  کہ بیعت نہ کرنے والے نہ نکلے تو ہم اس گھر کو آگ لگا دیں گے ۔۔۔ پھرآپ ہی بتائیے ایسی صورت میں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ ابو بکر کی بیعت لوگوں کے مشورہ اور اجماع سے ہوئی ہے ؟
خود حضرت عمر کا فرمان ہے : ابو بکر کی بیعت بغیر سوچے سمجھے عمل میں آگئی ہے خدا نے مسلمانوں کو اس کے شر سے بچالیا  اب اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو قتل کردو ۔ (دوسری روایت میں ہے ) جو اس قسم کی بیعت کے لئے دعوت دے اس کو قتل کردو ! پس معلوم ہوا کہ نہ تو ابو بکر کی بیعت (صحیح )ہوئی ہے اور نہ لوگوں کی جنھوں نے ان کی بیعت کی ہے (2)
اسی بیعت کے لئے حضرت علی فرماتے ہیں: خدا کی قسم ابو قحافہ کے بیٹے (ابو بکر) نے زبردستی کھینچ تان کر خلافت کی قمیص پہنی ہے حالانکہ ابو بکر جانتے ہیں خلافت کیلئے میں ایسا ہی ہوں جیسے وہ لوہا جس کے چاروں طرف چکی کا پاٹ گھومتا  رہتا ہے ،مجھ سے سیلاب (علم )جاری ہوتا ہے اور میرے بلندی (مرتبہ )تک پرندے پرواز نہیں کرسکتے (3)
قبلیہ ،انصار ےک سردار سعد بن عبادہ بیان کرتے ہیں : سقیفہ کے دن ابو بکر وعمر نے انصار پر ہجوم کرلیا ۔ میں نے بڑی کوشش کی ان کو خلافت سے روک دوں اور دور رکھوں لیکن مریض ہونے کی وجہ سے میں ان کا مقابلہ نہ کرسکا ! اورج ب انصار نے ابو بکر کی بیعت کرلی تو سعد نے کہا : خدا کی قسم میں کبھی تمہاری بیعت نہ کرو ں گا  ،یہاں تک کہ میرے ترکش میں جتنے تیر ہیں سب  تم پر نہ چلادوں اور اپنے نیزوں کی انیوں کو تمہارے خون سے خضاب نہ کردوں اور جب تک میرے ہاتھوں کی طاقت باقی ہے اس وقت تک تم تلوار سے حملہ نہ کروں اور اپنے خاندان  وقبیلے کے ساتھ تم سے جنگ نہ کروں خدا کی قسم اگر انسانوں کے ساتھ جن بھی تمہارے شریک ہوجائیں تب بھی تمہاری بیعت نہ کروں گا یہاں تک کہ اپنے خدا کے سامنے پیش ہوں
--------------
(1):- تاریخ الخلفاء (ابن قتیبہ )ج 1 ص 81
(2):صحیح بخاری ج 4 ص 127
(3):- شرح نہج البلاغہ (محمد عبدہ) ج 1 ص 34 خطبہ شقشقیہ  

چنانچہ جناب سعد نہ تو ان کی جماعت میں شریک ہوتے تھے نہ ان کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے ۔نہ ان کے ساتھ حج کرتے تھے (یہ بھی احتمال عبارت ہے کہ نہ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے مترجم) اور سعد کو کچھ مددگار مل گئے ہوتے تو ان سے جنگ سے پیچھے نہ ہٹتے اور اگر کوئی ان سے  ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرنے پر بیعت کرتا تو یہ باقاعدہ جنگ کرتے جناب سعد اپنے اسی حال پر باقی رہے یہاں تک کہ شام میں زمانہ ،خلافت عمر میں وفات پائی (1)
٭ جب خود بقول عمر "جنھوں نے اس بیعت کے ارکان مضبوط کئے تھے "یہ ایک ناگہانی بیعت تھی ۔جس کے شر سے خدا نے مسلمانوں کو بچالیا ۔اور اس بیعت کی وجہ سے مسلمانوں کا کیا حال ہوگیا ۔
٭ جب یہ خلافت بقول حضرت علی جو اس کے شرعی مالک تھے " تقمص تھی یعنی ابوبکر نے اپنے جسم پر اس قمیص کو کھینچ تان کر فٹ کرلیا تھا ۔
٭جب یہ خلافت بقول سعد بن عبادہ جنھوں نے مرتے دم تک ان لوگوں کے ساتھ جمعہ وجماعت چھوڑ دی تھی " ظلم تھی ۔
٭ جب یہ خلا فت کی بیعت غیر شرعی تھی کیونکہ اکابر صحابہ اورخصوصا نبی کے چچا نے اس سے کنارہ کشی کی تھی ، تو پھر ابو بکر کی خلافت کی صحت پر کون سی دلیل ہے ؟ ۔۔۔۔ صحیح جواب تو یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔۔۔۔ لہذا اس سلسلہ میں شیعوں ہی کا قول درست ہے کیونکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک بھی حضرت علی کی خلافت پر نص موجود ہے ۔ البتہ انھوں نے صحابہ کی عزت وآبرو بچانے کے لئے اس نص کی تاویل کی ہے ۔ اس لئے انصاف پسند عادل شخص کے لئے نص کو قبول کرنیکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے خصوصا اگر اس واقعہ کے متعلقات کا علم ہوجائے (2)
2:-فاطمہ کا ابو بکر سے اختلاف
--------------
(1):- تاریخ الخلفاء ،ج 1 ص 171
(2):- ملاحظہ فرمائیے ۔ السقیفہ والخلافۃ (عبدالفتاح ) سقیفہ (محمد رضا مظفر )

فریقین کےیہاں یہ موضوع بھی متفق علیہ ہے ! اگر چہ کوئی منصف وعاقل ا س کا اعتراف نہ بھی کرے کہ ابو بکر نے جناب سیدہ پر ظلم کیا ہے ۔ تب بھی ابو بکر کی غلطی مانے بغیر چارہ نہیں ہے ۔ کیونکہ جوشخص بھی اس المناک داستان کو پڑھیگا۔ اس کو علم الیقین  ہوگا کہ  ابو بکر نے جان بوجھ کر جناب زہرا کو اذیت دی ہے اور ان کوجھٹلا یا ہے ۔ تاکہ معصومہ حدیث غدیر وغیرہ سے اپنے  شوہر کے استحقاق خلافت پر استدلال نہ کرسکیں ۔(کیونکہ اگر آج ابوبکر فدک میں جناب معصومہ کوسچا مان لیتے  تو کل شوہر کی خلافت کے دعوی پر بھی سچا ماننا پڑتا  اس لئے جان بوجھ کر بنت رسول کو جھوٹا کہا گیا ہے مترجم )
اور اس بات پر بہت سے قرائن بھی موجود ہیں ۔ مثلا مورخین نے لکھا ہے ۔جناب فاطمہ خود انصار کی مجلسوں میں جاکر اپنے ابن عم کی نصرت وبیعت کے لئے لوگوں کو بلاتی تھیں اور لوگ کہدیا کرتے تھے ۔ بنت رسول اب تو ہم نے اس شخص (ابو بکر )کی بیعت کر لی ہے اگر آپ کے شوہر ابو بکر سے پہلے ہمارے پاس آجاتے  تو ہم علی کےعلاوہ کسی کی بیعت نہ کرتے ،اور حضرت علی فرماتے تھے ، کیا میں رسول  (ص) کے جنازہ کو  گھر میں چھوڑ دیتا ۔کفن ودفن نہ کرتا؟ لوگوں سے اپنی سلطنت وحکومت کی خواہش کرتا ؟ اورجناب فاطمہ ان لوگوں کے جواب میں کہتی تھیں: ابو الحسن نے وہی کیا جو ان کو کرنا چاہیے تھا ! ان لوگوں نے جو کچھ کیا ان سے خدا سمجھے گا (1)۔
اگر ابو بکر نے یہ سب غلطی یا اشتباہ کی وجہ سے کیا ہوتا تو جناب فاطمہ سمجھا کر مطمئن کردیتیں ۔ لیکن وہ اتنا ناراض تھیں کہ مرتے مرتے مرگیئں مگر ان دونوں سے بات بھی نہیں کی کیونکہ ابو بکر نے ہر مرتبہ آپ کے دعوی کو رد کردیا تھا ۔ نہ آپ کی نہ حضرت علی (ع) کی کسی کی بھی گواہی قبول نہیں کی ان تمام باتوں کی وجہ سے جناب معصومہ اتنا ناراض تھیں کہ اپنے شوہر کو وصیت کردیا تھا ۔ مجھے رات کو چپکے سے دفن کردینا  اور ان لوگوں کو میرے جنازے پر نہ آنے دینا (2)۔
اب جب کہ بات رات کو دفن کرنے کی آگئی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ میں جب بھی مدینہ گیا تو بڑی
--------------
(1):- تاریخ الخلفا(ابن قتیبہ)ج 1 ص 19 ،۔شرح نہج البلاغہ (معتزلی )بیعت ابی بکر
(2):- بخاری ج 2 ص 26 ،مسلم ج 2 ص 72" باب لا نورث ما ترکنا ہ صدقۃ "

کوشش اس بات کے لئے کی کہ کچھ حقیقتوں کا پتہ چلا سکوں ،چنانچہ میں نے درج ذیل نتائج کا انکشاف کیا ہے ملاحظہ فرمائیے :
(1):- جناب فاطمہ کی قبر مجہول ہے کوئی نہیں جانتا کہاں ہے؟ بعض کا خیال ہے "حجرہ نبویہ میں ہے " بعض کا نظریہ  ہے کہ حجرہ نبی کےمقابلہ میں جو آپ کا گھر تھا ۔ اسی میں دفن ہیں کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جنت البقیع " میں اہل بیت کی قبروں کے بیچ  میں ہے لیکن صحیح جگہ کی تشخیص یہ لوگ بھی نہیں کرسکے ۔۔۔ اس سے میں اس نتیجہ پر پہونچا  کہ جناب فاطمہ کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی ہر نسل یہ سوال کرے آخر کیا بات ہے کہ جناب  فاطمہ نے اپنے شوہر کو وصیت کی کہ ان کو رات کی تاریکی میں چپکے سے دفن کردیا جائے اور ان لوگوں میں سے کوئی آپ کے جنازے پر نہ آئے ! اس طرح ممکن ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے مسلمان کو بعض چونکا دینے والے حقائق کا پتہ چل جائے ۔
(2):- دوسرا نتیجہ میں نے یہ نکالا کہ عثّمان بن عفان کے قبر کی زیارت کرنے والے کو کافی مسافت طے کرنے کے بعد بقیع کےآخر میں ایک دیوار کے نیچے جا کر قبر ملتی ہے اس کے بر خلاف اغلب صحابہ بقیع میں داخل  ہونے کے بعد ہی ان  کی قبریں مل جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ مالک بن انس جو تبع تابعین سے ہیں ۔ اور ایک مشہور مذہب (مالکی) کے سربراہ ہیں ان کی قبر  ازواج رسول کے قریب ہی ہے اور اس سے مورخین کی یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ عثمان کو" حش کوکب" میں دفن کیا گیا ہے ۔ حش کوکب یہودیوں کی زمین ہے جب مسلمانوں نے عثمان کو بقیع  رسول میں دفن نہیں ہونے دیا تو ان کے ورثا نے مجبورا حش کوکب میں دفن کیا ۔( پہونچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا )
پھر معاویہ تخت خلافت پر بیٹھا  تو  اس نے یہودیوں سے اس زمین کوخرید کر بقیع میں شامل کردیا تاکہ عثمان کی قبر بھی بقیع میں کہی جانے لگی ۔جو شخص بھی بقیع کی زیارت کرے گا اسپر یہ حقیقت واضح ہوجائیگی ۔
مجھے تو سب سے زیادہ تعجب اس پر ہے کہ جناب رسولخدا سے ملحق ہونے والی سب سے پہلی شخصیت جناب فاطمہ کی ہے کیونکہ سب سے زیادہ فاصلہ جو بتایا جاتا ہے وہ چھ مہینہ کا ہے لیکن وہ اپنے باپ کے پہلو میں دفن نہیں ہوسکیں پس جب جناب فاطمہ اپنے باپ کے پہلو میں دفن نہ ہوسکیں حالانکہ آپ نے وصیت کردی تھی کہ

مجھے چپکے سے دفن کردیا جائے تو اگر امام حسن انپے جد کے پہلو میں دفن نہ ہوسکیں  تو تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ جب امام حسین اپنے بھائی امام حسن (ع) کا جنازہ لے کر آئے  کہ پہلوئے رسول میں دفن کر دیا جائے تو ام المومنین عائشہ اس کو روکنے کے لئے خچر پر سوار ہوکر آئیں اورچیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں : میرے گھر میں اس کو دفن نہ کرو جس کو میں دوست نہیں رکھتی  اس منع کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی امیہ اور بنی ہاشم صف باندھ کر کھڑے ہوگئے اور ایک دوسرے پر حملے کیلئے آمادہ ہوگئے ۔ لیکن امام حسین (ع) نے وصیت کردی تھی کہ میرے سلسلہ میں ذرہ برابر بھی خون نہ بہایا جائے اسی موقع پر ابن عباس نے اپنے مشہور اشعار کہے
تجمّلت تبعّلت  ولو عشت تفیلت ----- لک التسع من الثمن وفی الکل تصرفت
تم اونٹ پر  بیٹھ چکی  ہو (جنگی  جمل کی طرف اشارہ ہے ) اور(آج ) خچر پر بیٹھی ہو (امام حسن کا جنازہ روکنے کے لئے عائشہ خچر پر بیٹھ کر آئی تھیں ) اگر تم زندہ  رہ گئیں تو ہاتھی پر بھی بیٹھوگی ۔ تمہارا حصہ تو 1/8 میں سے 1/9  ہے مگر تم نے پورے میں تصرف کرلیا (1)خوفناک  حقائق میں سے ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے  اس گھر میں بیوی کا حصہ ہے پھر پورے گھرپر عائشہ  کو کیا حق تھا کہ وہ منع کرتیں ؟اورجب نبی کا کوئی وارث ہی نہیں ہوتا جیسا کہ ابو بکر نے کہا اور اسی بنیاد پر جناب فاطمہ کا حق نہیں دیا تو پھر ابو بکر کی بیٹی کو نبی کی میراث کیسے مل رہی ہے ؟ کیا قرآن میں ایسی کوئی آیت ہے جو یہ بتاتی ہو کہ بیٹی کو میراث نہیں ملتی  مگر بیوی کو ملتی ہے ؟ یا سیاست  نے ہر چیز کو الٹ پلٹ دیا تھا بیٹی کو کچھ نہ دے کر بیوی کو سب کچھ دیدیا گیا ؟بعض مورخین نے یہاں پر ایک دلچسپ قصہ لکھا ہے اور چونکہ وہ میراث سے متعلق ہے اس لئے اس کا ذکر کر دینا مناسب ہے ۔ابن ابی الحدید معتزلی نہج البلاغہ کی شرح میں فرماتے ہیں :
--------------
(1):- شوہر کے ترکہ میں بیوی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے جب شوہر صاحب اولاد ہو اور رسول خدا کی نو بیویاں تھیں تو ترکہ جو آٹھواں حصہ  ملتا  اس میں تمام بیویاں  شریک ہوتیں یعنی آٹھویں حصہ کا ہر ایک کو 1/9 ملتا تو عائشہ کا حق صرف 1/9 ہے مگر انھوں نے پورے قبضہ جمالیا (مترجم)

حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں عائشہ وحفصہ عثمان کے پاس آئیں وار ان سے کہا رسول خدا کی میراث ہم دونوں میں تقسیم کردیجئے ۔عثمان ٹیک لگائے بیٹھے تھے یہ سنتے ہی ٹھیک سے بیٹھ گئے اور عائشہ کو مخاطب کرتے ہوئے بولے : اور یہ جو بیٹھی ہیں دونوں ایک اعرابی کو لے کر آئیں جو اپنے پیشاب سے طہارت کرتاہے اور تم دونوں نے گواہی دی کہ رسول خدا نے فرمایا : ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے ! اب اگر واقعا رسول کسی کو وارث  نہیں بناتے (یعنی رسول کا کوئی وارث نہیں ہوتا )تو تم دونوں رسول کے بعد کیا مانگنے آئی ہو؟ اگر رسول کا وارث  ہوتا تو تم لوگوں نے فاطمہ کو ان کے حق سے کیوں روکا ، عائشہ اپنا سامنہ  لے کر رہ گئیں اور وہاں سے غصّہ کی حالت  میں نکلیں ۔اور فرمایا نعثل کو قتل کردو یہ تو کافر ہوگیا ہے ۔(1)
3:- علی کی پیروی اولی ہے
میرے شیعہ ہونے اور آباء اجدا کے مذہب کوچھوڑ نے کا ایک سبب حضرت علی (ع) اور ابوبکر کے درمیان عقلی ونقلی دلیلوں سے موازنہ کرنا ہے ۔ میں اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میں صرف اسی اجماع کو قابل بھروسہ سمجھتا ہوں جس پر سنی و شیعہ دونوں متفق ہوں ۔ اس اعتبار سے جب میں نے فریقین کی کتابوں کی کھنگا لا تویہ دیکھا کہ صرف علی بن ابیطالب کی خلافت پر اجماع ہے سنی وشیعہ دونوں ان مصادر  کی بنا پر جو دونوں کے یہاں ہیں حضرت علی کی امامت  پر متفق ہیں اور حضرت ابو بکر کی خلافت کو صرف سنی مسلمان ہی تسلیم کرتے ہیں حضرت ابو بکر  کی خلافت کے بارے میں حضرت عمر کا قول ہم پہلے نقل کرآئے ہیں ۔
بہت سے حضرت علی کے فضائل ومناقب جسکو شیعہ ذکر کرتے ہیں ان کی سند ہے ان کا حقیقی وجود ہے ۔
--------------
(1):- شرح اب ابی الحدید ج 6 ص 22 ۔222

اور اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے اور اتنے زیادہ طریقوں سے ثابت ہے کہ شک کی وہاں تک رسائی ہی نہیں ہے ۔حضرت علی کے فضائل کو صحابہ کی ایک جم غفیر نے نقل کیا ہے ۔ احمد بن حنبل تو کہتے ہیں ۔ جتنے فضائل حضرت علی کے آئے ہیں کسی صحابی کے لئے نہیں آئے ہیں (1) قاضی اسماعیل نسائی ،ابو علی نیشا پوری کہتے ہیں ، جتنی اچھی سندوں کے ساتھ حضرت علی کے مناقب وارد ہوئے ہیں کسی بھی صحابی کے لئے نہیں وارد ہوئے ہیں (2)۔
آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ بنی امیہ نے مشرق سے لے کر مغرب تک کے لوگوں کو حضرت پر لعنت کرنے ان پر سب وشتم کرنے ، ان کی فضیلت کاذکر نہ کرنے پر مجبور  کر رکھا تھا ۔ حدیہ تھی کہ کسی کو اجازت نہ تھی کہ علی نام رکھے ۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حضرت علی کے اتنے فضائل ومناقب مذکور ہیں ، اسی لئے امام شافعی کہتے ہیں ،مجھے اس شخص پر بہت زیادہ تعجب  ہے جس کے فضائل دشمنوں نے حسد کی وجہ سے دوستوں نے خوف کی وجہ سے چھپائے لیکن پھر بھی اتنے زیادہ فضائل مذکور ہیں جن سے مشرق ومغرب پر ہیں ،
اسی طرح میں نے حضرت ابو بکر کے سلسلہ میں بھی فریقین کی کتابوں کو چھان مارا لیکن خود اہل سنت والجماعت جو حضرت ابو بکر کو حضرت علی پر ترجیح دیتے ہیں ان کے یہاں بھی حضرت علی کے فضائل کے برابر فضیلت والی حدیثیں نہیں ملیں ۔ اس کے علاوہ ابو بکر کے فضائل کی جو روایتیں موجود بھی ہیں اور تاریخی کتابوں میں یا تو ان کی بیٹی عائشہ سے ہیں جس کا موقف حضرت علی کےساتھ کیا تھا ؟ دنیا جانتی ہے اس لئے انھوں نے اپنے باپ کو اونچا ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگی صرف کردی اورفرضی روایتوں سے فضیلت ثابت کرنی چاہی ہے اور یا ابو بکر کی فضیلت کی روایات عبداللہ بن عمر سے منقول  ہیں یہ حضرت بھی حضرت علی کے جانی دشمنوں میں تھے ان کا عالم یہ تھا کہ ساری دنیا نے حضرت علی کی بیعت کر لی تھیں مگر آپ نے حضرت
-------------
 (1):- المستدرک علی الصحیحین (حاکم) ج 3 ص 107 مناقب (خوارزمی)ص 3، 19 تاریخ الخلفاء ص 168 ،الصواعق المحرقہ لابن حجر الہیثمی ص 72 ،تاریخ ابن عساکر ج2 ص 63 ،شواہد التنزیل (حسکانی) ج1 ص 19
(2):- الریاض النضرۃ (طبری)ج 2 ص 282 ، صواعق محرقہ (ابن حجر )ص 118

علی کی بیعت نہیں کی ۔۔۔۔ اس کے بر خلاف آپ نے یزید ملعون کی بیعت اس کے ہاتھوں پر نہیں پاؤں پکڑ کے کی ہے تفصیل کے لئے تاریخی کتابیں پڑھئے (مترجم) ۔۔۔۔ اور آپ (عبداللہ بن عمر) فرمایا کرتے تھے رسول خدا کے بعد افضل الناس ابوبکر تھے ، ان کے بعد عمر ان کے بعد عثمان تھے اس کے بعد کسی کو فضیلت نہیں ہے سب ہی برابر کے ہیں (1)
آپ نے توجہ فرمائی اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت علی بازاری لوگوں کے برابر تھے حضرت علی کے لئے نہ کوئی فضل تھا ، نہ فضیلت ! آخر یہ عبداللہ کس دنیا میں رہتے تھے ان کو تو ان حقائق کا پتہ ہی نہیں جن کو اعلام امت اور ائمہ امت  ائمہ امت نے تحریر کیا ہے کہ حسن سندوں کے ساتھ جتنی فضیلت کی روایات علی کے لئے ہیں کسی صحابی کے لئے نہیں ہیں ۔ کیا عبداللہ بن عمر نے حضرت علی کی ایک بھی فضیلت نہیں سنی تھی ؟ اجی سنی بھی تھی اور یاد بھی تھی لیکن سیاست کی دنیا عجیب ہوتی ہے ۔(خرد کا نام جنوں رکھ دیا کا خرد+ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے )
عائشہ وعبداللہ بن عمر کے علاوہ جن لوگوں نے ابو بکر کی فضیلت بیان کی ہے ان کے اسمائے گرامی پرھئے ! عمرو بن العاص ،ابو ہریرہ ،عروۃ ،عکرمہ ، وغیرہ ہیں ، اور تاریخ کا بیان ہے کہ یہ سب حضرت علی کے دشمن تھے اور ان سے کبھی تو ہتھیاروں سے جنگ کرتے تھے کبھی دسیسہ کاری سے ،اوریہ بھی نہ ہو تو حضرت علی کے دشمنوں کے لئے فرضی حدیثیں جعل کیا کرتے تھے ،امام احمد بن حنبل کہتے ہیں حضرت علی کے بہت زیادہ دشمن تھے دشمنوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح علی میں کوئی عیب تلاش کرلیں مگر ناکامیاب رہے تو یہ لوگ حضرت علی کے اس دشمن کے پاس آگئے جس نے حضرت علی سے حرب وقتال کیا تھا  اور اپنی مکاریوں کی بنا پر اس کی تعریفیں کرنے لگے ،(2)۔لیکن خدا کا اعلان ہے : انهم یکیدون کیدا واکید کیدا فمهل الکافرین امهلهم رویدا (3)بیشک یہ کفار اپنی تدبیر کررہے ہیں اور میں اپنی تد بیر کررہا ہوں اس لئے کافروں کو مہلت دو پس ان کو تھوڑی
--------------
(1):- صحیح بخاری ج 2 ص 202
(2):- فتح الباری شرح صحیح بخاری ج 7 ص 83 تاریخ الخلفاء (سیوطی ) ص 199 صواعق المحرقہ (ابن حجر)ص 125
(3):- پ 30 س 87 آیت 15،16،17

سی مہلت دو ۔
یقینا پروردگار عالم کا معجزہ ہے کہ مسلسل چھ سوسال حضرت علی اورآل علی کی مخالف حکومت کے بعد بھی حضرت علی کے فضائل موجود ہیں ، میں چھ سوسال کہہ رہا ہوں کہ بنی عباس بھی بغض حسد، ظلم قتل اہل بیت کے سلسلہ میں اپنے اسلاف بنی امیہ سے کم نہیں تھے ، بلکہ دو ہاتھ آگے ہی تھے ،ابو فراس ہمدانی ان کےمیں کہتا ہے
ما نال منهم بنو حرب وان عظمت     تلک الجرائر الادون نیلکم
کم غدرة لکم فی الدین واضحة      وکم دم لرسول الله عندکم
انتم له شیعة فیما ترون وفی       اظفار کم من بنیه الطاهرین
(ترجمہ):- بنی امیہ نے آل محمد (ص) کو بہت ستایا ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ ے ، اے بنی عباس ! بنی امیہ کے مظالم آل محمد پر چاہے جتنے زیادہ ہوں تم سے پھر بھی  کم ہیں ،تم نے دین کے بارے میں ان کے ساتھ کتنی ہی مرتبہ  صاف صاف غداری کی ۔تمہارے بہائے ہوئے کتنے خون کا قصاص رسول خدا کے پاس  ہے ۔ بظاہر تم اپنے کو آل محمد کا شیعہ کہتے ہو لیکن محمد کی اولاد طاہرین کا خون تمہارے ناخنوں  میں اب تک ہے ۔۔۔۔ ان تمام تاریکیوں کے باوجود جب ایسی حدیثیں علی کی فضیلت میں ہیں تویہ صرف خدا کا کرم ہے اور اس کی حجت بالغہ ہے ۔
ابو بکر باوجودیکہ خلیفہ اول تھے ، اور اتنا اثر ونفوذ رکھتے تھے اور اموی سلاطین باوجود دیکہ ابو بکر ،عمر، عثمان کے حق ہیں روایت کرنے والوں کا منہ موتیوں سے بھردیتے تھے ان کے لئے مخصوص عطیہ ورشوت معین کی جاچکی تھی اور اس کے باوجود کہ ابوبکر کے لئے فضائل ومناقب کی جعلی حدیثوں کی بھر مار کر دی گئی تھی ۔ اور ان  سے تاریخ کے صفحات سیاہ کردیئے گئے تھے ۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود "حضرت علی کی شان میں واقعی فضیلت کی جو احادیث ہیں ان کا عشر عشیر بھی ابو بکر کے لئے نہیں ہے اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ملاحظہ  فرمائیے کیا ابو بکر کی شان میں نقل کی جانی والی روایات کی اگر تحریر کی جائے تو تاریخ نے جوان کے تنا قضات لکھے ہیں ان کے ساتھ یہ روایات جمع ہی نہیں ہوسکتیں اور نہ عقل وشرع ان کو قبول کرسکتی ہے

حدیث" لوزن ایمان ابی بکر بایمان امتی لرجح ایمان ابی بکر " کے سلسلہ میں حقیر پہلے بھی بحث کرچکا ہے لیکن مزید سنئے ۔
٭ اگر رسول خدا کو معلوم ہوتا کہ ابوبکر کاایمان اس وجہ کا ہے تو اسامہ بن زید کی سرکردگی میں ابو بکر کو قرار نہ دیتے ،
٭اگر رسولخدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو ابوبکر کے لئے گواہی دینے سے انکار نہ کرتے بلکہ جس طرح شہدائے احد کیلئے گواہی دی تھی ان کے لئے بھی گواہی دیتے اور یہ نہ فرماتے کہ مجھے نہیں معلوم میرے بعد تم کیا کیا کروگے ؟ جس پر ابو بکر بہت روئے تھے (1)۔
٭اگررسول خدا کو معلوم ہوتاکہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو علی کو بھیج کر ان سے سورہ براءت کی تبلیغ کوروک نہ دیتے (2)
٭ اگر رسول خدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے توخیبر میں علم دینے کے لئے نہ فرماتے : کل میں ایسے شخص کو علم دوں گا جو خدا ورسول کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا اور رسول اس کو دوست رکھتے ہوں  گے کرار ہوگا غیر فرار ہوگا خدا نے اس کے دل کا امتحان لے لیا ہوگا اس کے بعد حضرت علی کو علم دیا ابوبکر کو نہیں دیا (3) بلکہ اگر خدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے یا یہ کہ ابو بکر کا ایمان پوری امت  محمد کے ایمان سے زیادہ ہے تو جس وقت انھوں نے نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند کی تھی خدا ان کے اعمال  کے حبط کردیئے جانے کی دھمکی نہ دیتا (4)۔
٭ اگرعلی  اور ان کے پیرو کار وں  کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو یہ لوگ کبھی بھی ابو بکر کی بیعت سے انکار نہ کرتے
٭ اگر فاطمہ کو ایمان ابو بکر کا وزن معلوم ہوتا تو غضبناک نہ ہوتیں ان سے بات چیت نہ بند کرتیں ان کے سلام کاجواب دیتیں ان کے لئے ہر نماز کے بعد بدعا نہ کرتیں ، ان کو اپنے جنازہ
-------------
(1):- موطاء  امام مالک ج 1 ص 307 مغازی واقدی ص 310
(2):- مسند احمد ج 4 ص 339 ، مسند احمد ج 2 ص 319مستدرک حاکم ج 3 ص 51  
(3):- صحیح مسلم باب فضائل علی ابن ابی طالب
(4):- بخاری ج 4 ص 184

شریک نہ ہونے  دینے کی وصیت کی (1)
٭ خودابو بکر کو اپنے ایمان کی اس بلندی کا علم ہوتا تو چاہے فاطمہ کے گھر میں لوگ جنگ ہی کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے ہوتے اور دروازہ بند کر لئے ہوتے جب بھی یہ فاطمہ کے گھر کو کھلوانے  کی کوشش نہ کرتے ، فجاوۃ السلمی کو آگ میں جلایا نہ ہوتا ، سقیفہ میں قلادۃ بیعت عمر یا ابو عبیدہ کے گردن میں ڈال دیا ہوتا (2) ۔ اور اگر ابو بکر  کا ایمان اتنا وزنی ہوتا جو پوری امت کے ایمان پر بھاری ہوتا تو اپنی عمر کےآخری لمحات میں فاطمہ کے ساتھ جو اقدامات کئے ہیں ان پر فجاءۃ السلمی کے جلانے پر اور خلافت کا عہدہ سنبھالنے پر نادم وپشیمان نہ ہوتے اسی طرح یہ تمنا نہ کرتے کا ش میں مینگنی ہوتا ، کاش میں بال ہوتا ، کاش میں بشر نہ ہوتا ، شوچئے  کیا ایسے شخص کا ایمان پوری امت اسلامیہ کے برابر ہوسکتا ہے ؟ نہیں ! چہ جائیکہ  پوری ملت اسلامیہ پر بھاری ہو۔ اب آئیے اس حدیث کو لیجئے ۔"لو کنت متخذ خلیلا لاتخذت  ابابکر خلیلا " اگرمیں کسی کو خلیل بنا تا تو ابو بکر ہی کو خلیل بناتا ۔۔۔۔۔ یہ بھی پہلی حدیث کی طرح بوگس ہے ۔ ہجرت سے پہلے مکہ میں جب "مواخاۃ صغری" رسول  نے قراردی ہے اور ہجرت کے بعد مدینہ میں جب آنحضرت نے انصار ومہاجرین  میں مواخات قراردی ہے جس کو "مواخاۃ کبری" کہا جاتا ہے ، اس دونوں میں ابو بکر  کہاں چلے گئے تھے ؟ رسول خدا نے ان کو کیوں اپنا بھائی نہیں بنایا ؟ دونوں موقعوں پر رسول اکرم نے حضرت علی ہی کو کیوں اپنا بھائی قراردیا ؟ اور فرمایا : اے علی تم دنیا وآخرت  میں میرے بھائی ہو (3)۔ ابو بکر کو کیوں محروم قرار دیا ؟ نہ آخرت کا بھائی نہ آخرت کا خلیل کچھ بھی تو نہ بنایا ۔ میں اس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا ۔ بس انھیں دوحدیثوں  پر اکتفا کرتاہوں جو کتب اہل سنت والجماعت میں موجود ہیں ۔ رہے شیعہ تو وہ ان حدیثوں کو بالکل مانتے ہی نہیں
--------------
(1):- الامامۃ والسیاسۃ ج 1 ص 14 ،رسائل الحاحظ ص 301 ،اعلام النساء ج 3 ص 1215
(2):- تاریخ طبری ج 4 ص 52، الامامۃ والسیاسۃ ج 1 ص 181 ،تاریخ مسعودی ج 1 ص 414
(3):- تذکرۃ الخواص (ابن جوزی) ص 23 تاریخ دمشق (ابن عساکر) ج 1 ص107  ،المناقب (خوارزمی) ص 7 ،فصول المہمہ(ابن صباغ) ص 21

اور بہت مضبوط دلیلیں  پیش کرتے ہیں کہ یہ حدیثیں ابو بکر کے مرنے کے بعد وضع کی گئی ہیں
یہ تو فضائل  کا قصہ ہے اب اگر ہم فریقین کی کتابوں میں حضرت علی کی برائیوں کی تلاش کریں تو سعی بسیار کے بعد بھی ایک برائی بھی آپ کو نہ ملے گی ۔ البتہ حضرت علی (ع) کے علاوہ دوسروں کی برائیوں کی بھرمار آپ کو اہل سنت کی صحاح ،کتب سیر ، کتب تاریخ میں ملے گی ۔
اس طرح فریقین کا اجماع صرف  حضرت علی (ع) کے لئے مخصوص ہے جیسا کہ تاریخ بھی کہتی ہے کہ صحیح بیعت صرف حضرت علی (ع) کے لئے ہوئی ہے ۔کیونکہ علی بیعت لینے سے انکار کررہے تھے مہاجرین وانصار نے اصرار کرکے بیعت کی ہے چند انگلیوں پر گنے جانے والے افراد نے بیعت نہیں کی تو آپ نے ان کو بیعت پر مجبور بھی نہیں کیا   حالانکہ بقول عمر ابو بکر بیعت ناگہانی تھی ،خدا نے  مسلمانوں کو اس کے شر سے بچالیا ۔۔۔ابو بکر نے اپنی بیعت نہ کرنے والوں کو قتل کرادیا بیعت پر مجبور کیا مترجم ۔۔۔۔۔ اور عمر کی خلافت اس وصیت کے پیش نظر تھی جو ابو بکر نے عمر کیلئے کی تھی ، اور عثمان کی بیعت تو ایک تاریخی مضحکہ خیزی تھی ،کیونکہ عمر نے چھ آدمیوں کو خلافت کا کنڈیڈیٹ اپنی طرف سے معین کرکے ان کے لئے لازم قرار دیدیا تھا ، کہ یہ چھ حضرات اپنے میں کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرلیں ۔ اگر چار  کی رائے  ایک طرف ہو اور دو کی ایک طرف تو دو کو قتل کردو  اور اگر تین تین ہوں تو جس تین کے ساتھ عبدالرحمن بن عوف ہوں اس کی بات مان لو اور اگر ایک معین وقت گزرجائے اور یہ لوگ کسی پر اتفاق نہ کر پائیں تو ان چھ  کےچھ کو قتل کردو ۔ یہ قصہ طویل بھی ہے اور عجیب بھی ۔
مختصر یہ ہے کہ عبدالرحمان بن عوف نے حضرت علی کو منتخب کیا اور ان سے کہا شرط یہ ہے کہ آپ مسلمانوں میں حکم خدا وسنت رسول  وسیرت شیخین (ابو بکر وعمر) کے مطابق حکم کریں گے ۔ حضرت علی نےسیرت شیخین کی شرط کو قبول نہیں کیا ۔ مگر عثمان نے قبول کرلیا اس لئے وہ خلیفہ بنادیئے گئے ۔ حضرت علی شوری سے باہر چلے گئے ۔ اورآپ کو نتیجہ پہلے ہی سے معلوم تھا ۔آپ نے اس کاذکر اپنے مشہور خطبہ شقشقیہ میں بھی کیا ہے ۔
حضرت علی کے بعد معاویہ تخت خلافت پر بیٹھے انھوں نے خلافت کو ملوکیت سےبدل دیا ۔

جس پر بنی امیہ یکے بعد دیگرے حکومت کرتے رہے ،بنی امیہ کے بعد خلافت کی گیند بنی عباس کے پالے میں چلی گئی ۔اس کے بعد پھرخلیفہ وہ شخص ہوتا تھا جس کو موجودہ خلیفہ نامزد کر جائے ۔ یا جو طاقت وقہر وغلبہ سے سلطنت چھین لے ۔ اور پھر اسلامی تاریخ میں صحیح(1) بیعت کا وجود ہی ختم ہوگیا ۔ یہاں تک کہ کمال اتاترک ،نے خلافت اسلامیہ کےتابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی اور اس پورے دورمیں صحیح بیعت صرف علی (ع) کے لئے ہی ہوئی تھی ۔
--------------
(1):- صحیح بیعت سے مراد وہ بیعت ہے جو ناگہانی نہ ہو اور لوگ خود بخود بیعت کریں کسی کو مجبور نہ کیا جائے

(4)
احادیث حضرت علی (ع) کی اطاعت کو واجب بتاتی ہیں
جن حدیثوں نے میری گردن پکڑ کر حضرت علی کی اقتدا پر مجبو رکردیا وہ وہی حدیثیں ہیں جن کو علمائے اہل سنت نے اپنی صحاح میں نقل کیا ہے ۔ اور ان کے صحیح ہونے کی تاکید کی ہے اور شیعوں کے یہاں تو الی ماشااللہ احادیث ہیں جو حضرت علی کے لئے نص ہیں ۔ لیکن میں اپنی عادت کے مطابق صرف انھیں احادیث پر اعتماد کروں گا ۔ ۔اور انھیں سے استدلال کروں گا جو فریقین کے یہاں متفق علیھا ہوں ، انھیں سے چند یہ ہیں
(1) :- "حدیث مدینہ " " انا مدینة العلم وعلی بابها " (1)
رسول  خدا(ص) کے بعد تشخیص قیادت کے سلسلے میں یہ حدیث ہی کافی ہے کیونکہ جاہل کے مقابلہ میں عالم کی اتباع کی جاتی ہے خود ارشاد رب العزت ہے "قل هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون(پ 23 س 39 (زمر) آیت 9)۔اے رسو ل تم پوچھو تو بھلا کہیں جاننے والے اور نہ جاننے والے لوگ برابر  ہوسکتے ہیں ؟ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے " قُلْ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ يَهِدِّيَ إِلاَّ أَن يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (پ 11 س10 (یونس) آیت 35) ۔ تو جو شخص دین کی راہ دکھاتا ہے کیا وہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کے حکم کی پیروی  کی جائے یا وہ شخص جو دوسرے کی ہدایت تو درکنار ( خود جب تک دوسرا اس کو راہ رنہ دکھائے نہیں پاتا ) تو تم کو کیا  ہوگیا ہے تم کیسے حکم لگاتے ہو ؟
ظاہر سی بات ہے عالم ہدایت کرتا ہے اور جاہل ہدایت کی جاتی ہے ، جاہل دوسروں سے کہیں زیادہ ہدایت کا محتاج ہوا کرتا ہے ۔
--------------
(1):- مستدرک حاکم ج 3 ص 127 ،تاریخ ابن کثیر ج 7 ص 258 ، مناقب (احمد بن حنبل )

اس سلسلے میں تاریخ کا متفقہ بیان  ہے کہ حضرت علی(ع) مطلقا تمام صحابہ سے زیادہ عالم تھے اور اصحاب امہات المسائل میں حضرت علی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ، لیکن حضرت علی نے کسی صحابی کی طرف کبھی بھی رجوع نہیں فرمایا اس کے برخلاف  ابو بکر کہا کر تے تھے "لا ابقانی الله لمعضلة لیس لها ابو الحسن " (خدانے مجھے کسی ایسی مشکل کے لئے زندہ نہ رکھے  جس کے (حل )کیلئے حضرت علی نہ ہوں ) اور عمر بار بار کہتے تھے : لولا علی لهلک عمر" اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔حبر الامۃ ابن عباس کہا کرتے تھے ۔ میرا اور تمام اصحاب محمد کا علم حضرت علی کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلہ میں ایک قطرہ (2)خود حضرت علی فرمایا کرتے تھے ۔ میرے مرنے سے پہلے (جو چاہو) مجھ سے پوچھ لو ۔ خدا کی قسم اگر تم قیامت تک ہونے والی کسی چیز کے بارے میں پوچھو گے تو اس کو بھی بتا دوں گا  ۔ مجھ سے قرآن کے بارے میں پوچھو ۔خدا کی قسم قرآن کی کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ یہ رات میں اتری ہے یا دن میں  پہاڑ پر اتری یا ہموار زمین پر (3)۔اور ادھر ابوبکر کا یہ عالم تھا کہ جب ان سے "ابّ" کے معنی پوچھے گئے جو اس آیت میں ہے ۔وفاکهة وابّا متاعا لکم ولانعامکم (پ 30 س80 (عبس) آیت 20،21،22) ۔اور میو ے اورچارا (یہ سب کچھ )تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے فائدے کے لئے (بنایا) تو اس کے جواب میں کہنے لگے ۔ کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرےگا اور کون سی زمین مجھے اٹھا ئےگی اگر میں کہوں کہ کتاب خدا  میں ایسی آیت ہے جس کے معنی میں نہیں جانتا ۔۔۔اور عمر کہتے تھے ،: عمر سے زیادہ ہر شخص فقہ جانتا ہے انتہا یہ ہے کہ پردہ میں بیٹھنے والیاں بھی ،" حضرت عمر  سے ایک آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو عمر نے پہلے تو اس کو ڈانٹا پھر درہ لے کر اس پر پل پڑے اور اتنا مارا کہ وہ لہو لہان ہوگیا کہنے لگے ایسی چیزوں کے بارےمیں نہ پوچھا کرو کہ اگر ظاہر ہوجائیں  تو تم کو برا لگے (4)۔
--------------
(1):- استیعاب ج 3 ص 39 ،مناقب (خوارزمی )ص 48، ریاض النفرۃ ج 2 ص 124
(2):- حوالہ سابق
(3):- الریاض النفرۃ (محب الدین) ج 2 ص 198 ، تاریخ الخلفاء (سیوطی) ص 124 ،اتقان ج 2 ص 219 ،فتح الباری ج 8 ص 485 ،تہذیب ج 7 ص 328
(4):- سنن دارمی ج 1 ص 54 ،تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 232 ،در منثور ج 6 ص111

بے چارے سائل نے کلالۃ کے معنی پوچھ لئے تھے ۔
طبری نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عمر کہتے تھے ۔ اگر مجھے "کلالۃ " کے معنی معلوم ہوتے تو یہ بات میرے نزدیک شام کے قصروں سے زیادہ محبوب تھی ۔۔۔ ابن ماجہ نے بی سنن میں عمر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ موصوف فرماتے تھے : تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر رسول اللہ (ص) نے ان کو بیان کردیا ہوتا تو مجھے دنیا وما فیھا سے زیادہ سے محبوب ہوتیں " کلالۃ ، ربا ، خلافت ،
سبحان اللہ ! ناممکن ہے کہ رسول خدا نے ان چیزوں کو بیان نہ کیا ہو ۔
(2):- "حدیث منزلت " " یا علی انت منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی "
 اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی بس یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا !
اس حدیث سے حضرت علی کی وزارت (ولایت) وصیات ،خلافت صریحی طور سے ثابت ہوتی ہے جیسا کہ صاحبان عقل کے نزدیک یہ بات مخفی نہیں ہے ۔ جب جناب موسی میقات رب کے لئے گئے تھے تو ان کی عدم موجودگی میں جناب ہارون آپ کے وزیر ،وصی ،خلیفہ تھے یہی چیز حضرت علی کیلئے بھی ثابت ہے ، اس حدیث سے دو باتیں اور بھی ثابت ہوتی ہیں ۔
(1):- حضرت ہارون کی طرح حضرت علی(ع) حضرت رسول (ص) کی تمام خصوصیات کے نبوت کے علاوہ حامل تھے ۔
(2):- حضرت علی(ع) رسولخدا (ص) کے علاوہ آپ کے تمام اصحاب سے افضل وبرتر تھے ۔
(3):- "حدیث غدیر" " من کنت مولاه فهذا علی مولاه اللهم وآل من والاه وعاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله وادر الحق معه حیث مادار :!"

جس لوگوں کا عقیدہ  ہے کہ ابو بکر ،عمر ،عثمان اس شخص پر فضیلت رکھتے ہیں ،جس کو رسول خدانے اپنے بعد مومنین کا ولی بنا یا ہے ،ان لوگوں کے خیال باطل کو باطل کرنے کے لئے صرف یہ حدیث اکیلی ہی کافی ہے ۔اور جن لوگوں نے صحابہ کا بھرم رکھنے کے لئے سا حدیث میں لفظ "مولی" کی تاویل کی ہے اس سے مراد "محب اور ناصر" ہے ان کی تاویل بے اعتبار ہے کیونکہ جس اصلی معنی کا رسول  نے ارادہ کیا تھا  اس معنی سے اس کو موڑنا ہے ۔کیونکہ شدید گرمی میں جب رسول خدا نے کھڑے ہوکر فرمایا ۔ کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہو کہ میں مومنین کے نفوس پر مومنین سے زیادہ اولویت رکھتا ہوں ،تو سب نے کہا بیشک یا رسول اللہ ! تب آپ نے فرمایا " من کنت مولاہ الخ " یعنی جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں ،خدا یا جو علی کو دوست رکھے تو بھی اس کو دوست رکھ ۔ اور جو علی سے دشمنی رکھےتو بھ اس کو دوشمن رکھ ، جو علی کی مدد کرے تو اس کی مدد کر جو علی کی مدد نہ کرے تو بھی اس کی مدد نہ کر "جدھر علی مڑیں اسی طرف حق کو موڑدیے !
یہ نص صریح ہے کہ حضور  حضرت علی کو اپنی امت پر خلیفہ بنارہے ہیں ، ہر عقلمند اسی مطلب کو قبول کریگا اور دور از کار تاویلوں کوترک کرےگا ۔ رسول کا احترام صحابہ کے احترام سے کہیں زیادہ ہے اس لئے کہ اگر یہ مان لیاجائے کہ صرف یہ بتانے کے لئے کہ علی ناصر ہیں اور محب ہیں آنحضرت نے چلچلاتی دوپہر میں جس کی گرمی ناقابل برداشت تھی صرف اتنا کہنے کیلئے اکٹھا کیا تھا تو یہ رسول کامذاق اڑانا ہے ان کو (معاذاللہ) احمق ثابت کرتا ہے اس کے علاوہ جو محفل مبارکباد منعقد کی گئی تھی اس کی کیا تاویل کی جائیگی ؟ بھلا اتنی سی بات کیلئے ایسی محفل تبریک کی کیا ضرورت تھی ؟ جس میں سب سے پہلے امہات المومنین نے مبارک باد پیش کی پھر ابو بکر وعمر آکر بولے ،۔مبارک ہو مبارک ابوطالب کے فرزند تم تمام مومنین ومومنات کےمولا ہوگئے آگر خلافت وامامت مراد نہ ہوتی تو رسول یہ سب نہ کرتے نہ محفل سجتی نہ مبارک باد پیش کی جاتی ؟
واقعہ اور تاریخ دونوں تاویل کرنے والوں کو جھٹلاتے ہیں ارشاد خدا ہے ۔ وان فریقا منهم لیکتمون الحق وهم یعلمون (پ 3 س 2 (بقره ) آیت 146) اور ان میں ایسے بھی ہیں جو دیدہ ودانستہ حق بات کو چھپاتے ہیں ۔

(4)"حدیث تبلیغ""علی منی وانا منه ولا یودی عنی الا انا او علی (1)۔
"علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ،میری طرف سے اس کی تبلیغ میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا "
یہ حدیث بھی ایسی ہے جس میں صاحب رسالت نے وضاحت کردی کہ میری طرف سے پہونچانے کی اہلیت صرف علی کے اندر ہے ، رسول نےحج اکبر کے موقعہ پر ابو بکر کو سورہ برائت دیکر بھیج دیا تھا پھر جبرئیل کے آنے کے بعدآنحضرت نے حضرت علی کو بھیج  کر یہ کام ان کے سپرد کردیا اور ابوبکر کو واپس بلالیا اس وقت فرمایا تھا " لا یودی عنی الا اناوعلی " اور ابو بکر روتے ہوئے واپس آئے تھے ۔ اور آکر پوچھا یا رسول اللہ کیا میرے بارےمیں  کچھ نازل ہوا ہے ؟ تو فرمایا خدانے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یا خود پہونچاوں یا پھر علی پہونچا ئیں اسی طرح ایک دوسرے مناسب موقع پر فرمایا : اے علی تم میرے بعد امت جن چیزوں میں اختلاف کرے گی اس کو بیان کرنے والے ہو(2)۔
جب  رسول خدا کی طرف سے صرف حضرت علی تبلیغ  کرسکترے ہیں اور اختلاف امت کی وہی ر سول کے بعد وضاحت  کرسکتے ہیں تو جن لوگوں کو "اب" یا "کلالة" کے معنی تک نہ معلوم ہوں ان کے ان کو حضرت علی پر کیوں کر مقدم کرسکتے ہیں ؟ خدا کی قسم یہ وہ مصیبت ہے جس میں امہ مسلمہ گرفتار ہے اور اسی لئے یہ امت ان فرائض کو نہیں پورا کر سکتی جس کو خدا نے اس کے سپرد کیا تھا ، اس میں خدا یا رسول یا علی کی کوتاہی ہیں ہے بلکہ اس میں سراسر ان لوگوں کی خطا وکوتاہی ہے جنھوں نے نافرمانی کی اور دین الہی میں تبدیلی کردی ، ارشاد خدا ہے :
--------------
(1):-سنن ابن ماجہ ج 1 ص 44 ،خصائص النسائی ص 20 ،صحیح الترمذی ج 5 ص 300 ،جامع الاصول (ابن کثیر ) ج 9 ص 471 ،الجامع الصغیر (سیوطی) ج 2 ص 56
(2):- تاریخ دمشق (ابن عساکر) ج 2 ص 488، کنوز الحقائق (مناوی) 203 ،کنز العمال ج 5 ،ص 33

واذا قیل لهم تعالوا الی ما انزل الله والی الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیه آباءنا اولوکان آباءهم لا یعلمون شیئا ولا یهتدون (پ 7 س 5 (مائده ) آیت 104)
ترجمہ :- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو(قرآن) خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ (اور جو کچھ کہیں اس کو سنو اور مانو) تو کہتے ہیں کہ ہم نے جس (رنگ) میں اپنے باپ دادا کو پایا وہی ہمارے لئے کافی ہے (کیا یہ لوگ لکیر کے فقیر ہی رہیں گے ) اگر چہ ان کے باپ دادا (چاہے ) کچھ نہ جانتے ہوں اور نہ ہدایت یافتہ ہوں ۔
(5):- "حدیث الدّار یوم الانذار" " رسولخدا(ص) نے حضرت علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :" ان هذا اخی ووصیی وخلیفتی فاسمعوا له واطیعو"(1)
یہ (علی) میرا بھائی ہے اور میرا وصی ہے اور میرے جانشین ہے لہذا اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو!
یہ حدیث بھی ان صحیح حدیثوں میں سے ہے جس کو موخین نے ابتدا ئے بعثت میں لکھا ہے اور رسول خدا (ص) کے معجزات میں شمار کیا ہے ،لیکن برا ہوسیاست کا جس نے حقائق بدل دیئے اور واقعات کو ملیامٹ کردیا اور یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں  ہے کیونکہ وہ تو تاریک دورتھا ،آج عصر نور میں بھی یہی حرکت کی جارہی ہے ،محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب حیات محمدی میں اس حدیث کو مکمل طور سے لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ،"طبع اول سنہ 1354 ھ  کا صفحہ 104 لیکن اس کتاب کا جب دوسرا ایڈیشن اور اس کے بعد والے ایڈیشنز چھپتے ہیں تو اس میں (وصی ،خلیفتی من بعدی) کا لفظ حذف کردیا جاتا ہے   اسی طرح تفسیر طبری کے ج 19 ص 121 سے "وصیتی وخلیفتی "
--------------
(1):- تاریخ طبری ج 2 ص 219 ،تاریخ ابن اثیر ج 2 ص 62 ،السیرۃ الحلبیہ ج 1 ص 311 ،شواہد التنزیل ج 1 ص 371 کنزل العمال ص 15 ،تاریخ ابن عساکر ج 1 ص 85 ،تفسیر الخازن (علاء الدین ) ج 3 ص 371 حیات محمد (ہیکل )چاپ اول باب وانذر عشیرتک الاقربین

کو کاٹ کر ا س کی جگہ ان ھذا اخی وکذا کذا لکھا دیا جاتا ہے ،مگر ان تحریف کرنے والوں کو پتہ نہیں ہے کہ طبری نے اپنی تاریخ کے ج 2 ص 219 پر پوری حدیث لکھی ہے دیکھئے یہ لوگ کس طرح تحریف کرتے ہیں اور یہ نور خدا کو بجھانا چاہتے ہیں مگر واللہ متم نورہ ۔۔۔۔۔ اس بحث کے درمیان حقیقت حال کے واضح ہوجانے کے لئے میں نے (حیات محمد) کا پہلا ایڈیشن ڈھونڈ ھنا شروع کیا اور سعی بسیار وزحمت کثیر وخرچ کثیر کے بعد بمصداق جویندہ یا بندہ " وہ نسخہ مجھے مل ہی گیا ۔اور اہم بات یہ ہے کہ واقعا یہ تحریف ہے اور اس سے میرے اس یقین کو مزید تقویت ملی ہے  اہل سوء کی ساری کوشش اس بات کے لئے ہے کہ وہ سچے واقعات اور ثابت حقائق کو مٹادیں تاکہ ان کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کوئی قوی دلیل نہ پہونچ سکے ،
لیکن منصف مزاج حق کامتلاشی جب اس قسم کی تحریفات کو دیکھے گا تو ان سے اور دور ہوجائے گا اور اس کو یقین ہوجائے گا کہ یہ لوگ معجزہ  کرنے دسیسہ کاری کرنے ،حقائق کو بدلنے کیلئے ہر قیمت دینے  کو تیار ہیں ۔ اور انھوں نے ایسے قلم خرید لئے ہیں اور ان کے لئے القاب اور اسناد کی بھر مار اسی طرح کردی  ہے جس طرح مال ودولت سے ان کو چھکا دیا ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اہل قلم ان صحابہ کی آبرو بچانے کے لئے جو رسول کے بعد الٹے پاؤں پھر گئے تھے ۔ اور جنھوں نے حق کو باطل سے بدل دیا تھا ۔ ہر طرح دفاع کریں چاہے شیعوں کو گالی دینا پڑے ان کوکافر کہنا پڑے " كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ" پ 1 س 2 (بقره ) آیت 118
ترجمہ :- اسی طرح انھیں کی سی باتیں وہ لوگ بھی کرچکے ہیں جو ان سے پہلے تھے ۔ ان سب کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کو تو اپنی نشانیاں صاف طورسے دکھاچکے ۔

"وہ صحیح حدیثیں جو اہل بیت کی اتباع کو واجب بتاتی ہیں "
(1):-" حدیث ثقلین" رسول خدا (ص ) کا ارشاد ہے " یا ایها النا‎س ! انی ترکت فیکم ماان اخذتم به لن تضلو کتاب الله وعترتی اهلبیتی " لوگو میں تم میں ایسی چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو گمراہ نہ ہوگے اور وہ خدا کی کتاب اور میری عترت (یعنی ) میرے اہل بیت  ہیں  اور اس طرح بھی فرمایا " یوشک ان یاتی رسول ربی  وانی تارک فیکم الثقلین اولهما کتاب الله فیه الهدی والنور واهلبیتی اذکر کم الله اهلبیتی اذکر کم الله اهلبیتی (1)۔
قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آجائے  اور یمں لبیک کہوں ، میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزوں کوچھوڑ رہاہوں پہلی چیز قرآن ہے جس میں ہدایت ونور ہے اور( دوسری چیز) میرے اہلبیت ہیں الخ۔
 اس حدیث میں پہلے ہم خوب غوروفکر کرتے ہیں جس کو صحاح اہل سنت والجماعت میں ذکر کیا ہے  تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ صرف شیعہ حضرات ہی ثقلین (قرآن وعترت ) کی پیروی کرتے ہیں اور اہل سنت حضرت عمر کی اتباع "حسبنا کتاب اللہ" میں کرتے ہیں کاش کتاب اللہ ہی پر عمل کرتے اور اس کی تاویل اپنی خواہشات کے مطابق نہ کرتے ،جب خود حضرت عمر کتاب اللہ میں کلالۃ اورآیت تمیم کا مطلب نہیں جانتے تھے بلکہ مزید دیگر احکام کو نہیں جانتے تھے تو جو لوگ ان کے بعد دنیا میں پیدا ہوئے  ہیں اوربغیر کسی اجتہاد کےبا لنصوص قرآنیہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کرکے عمر کی تقلید کرتے ہیں وہ بے چارے قرآن کو کیا سمجھیں گے ؟
--------------
(1):- صحیح مسلم باب فضائل علی ج 5 ص 122 صحیح ترمذی ج 5 ص 328  ،مستدرک الحاکم ج 2 ص 148 ،مسند امام احمد بن حنبل ج 3 ص 17

فطری بات ہے کہ اہل سنت اپنے یہاں کی روایت" ترکت فیکم کتا ب الله وسنتی " میں تم میں دوچیزیں چھوڑرہا ہوں قرآن اور اپنی سنت " سے ہماری رد کرنے کی کوشش کریں گے ۔ لیکن یہ حدیث اگر صحیح ہے (اگرچہ باعتبار معنی درست ہے) تو حدیث سابق میں جو لفظ عترت آئی ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ عترت کی طرف رجوع کرو تاکہ وہ میری سنت بیان کریں ، یا یہ ہے کہ جب رجوع کرو گے تو وہ حضرات صحیح احادیث بیان کریں گے کیونکہ وہ کذب سے مبراہیں اور خدا نے آیت تطہیر کے ذریعہ ان کی عصمت پر مہر کردی ہے ، دوسرے یہ بھی احتمال ہے کہ وہ حضرات معانی ومقاصد کو بیان کریں گے کیونکہ تنہا قرآن ہدایت کیلئے کافی نہیں ہے ،کیونکہ کتنے ہی گمراہ فرقے ہیں کہ وہ بھی قرآن سے استدلال کرتے ہیں ، جیسا کہ یہ بات رسول خدا سے بھی اس وقت مروی ہے جب آپ نے فرمایا  : بہت سے قرآن کی تلاوت کرنے والے ایسے ہیں بھی ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے ، قرآن تو خاموش ہے اس میں جتنے احتمال چاہو پیدا کرو ۔ قرآن میں محکم متشابہ بھی ہے جس کا علم صرف راسخون فی العلم ہی کو ہے اس لئے تعبیر قرآنی کی بنا پر انھیں کی طرف قرآن فہمی کیلئے رجوع کرنا ہوگا یا تعبیر نبوی کی بنا پر اہلبیت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا ۔ (راسخون فی العلم سے مراد اہل بیت ہیں مترجم) اس لئے شیعہ حضرات تمام چیزوں میں ائمہ معصومین ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اجتہاد کرتے ہیں اوراجتہاد صرف وہاں کرتے ہیں جہاں معصوم کی نص موجود نہ ہو ۔اور ہم لوگ (سنی ) خواہ تفسیر قرآن ہو یا اثبات سنت کا مسئلہ ہویا تفسیر کا مقصد ہو سب ہی میں صحابہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور صحابہ کے حالات ان کے کردار ،ان کے استنباط ،ان کا اپنی رائے سے اجتہاد ( اور وہ بھی نصوص صریحہ کے مقابلہ میں ) ان سب کا علم آپ کو ہے ہی قرآنی نصوص کے مقابلہ میں صحابہ کے سینکڑوں ذاتی اجتہاد ہیں اس لئے ان کی طرف رجوع کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے ۔ جب بھی ہم اپنے علماء سے پوچھتے ہیں آپ کس کی سنت کی پیروی کرتے ہیں ؟ تو فورا جواب دیتے ہیں رسول خدا کی سنت کی لیکن یہ حقیقت کے خلاف ہے اس لئے کہ اہل سنت نے خود رسول اللہ سے روایت  کی ہے کہ پیغمبر نے فرمایا : تمہارے اوپر واجب ہے کہ میری سنت کی پیروی کرو میرے بعد والے
--------------
(1):- صحیح مسلم ، نسائی ، ابن مابہ ، ابی داوؤد وغیرہ نے اس مشہور حدیث کے اپنے اپنے یہاں لکھا ہے

خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرو اس پر بہت مضبوطی سے عمل کرو ۔ لہذا جس سنت پر یہ حضرات عمل کرتے ہیں وہ سنت رسول نہیں   بلکہ وہ زیادہ تر سنت خلفاء ہے بلکہ سنت رسول بھی خلفاء ہی کے حوالہ سے منقول ہے (تو در حقیقت وہ بھی سنت خلفاء ہی ہے)(اور اگر سنت رسول فرض بھی کر لیا جائے تو بقول اہلسنت سنت رسول ہے ہی نہیں تو پھر پیروی کیسی )کیونکہ اہلسنت کی صحاح میں روایت ہے کہ رسول خدا  نے لوگوں کی اپنی سنت نقل کرنے سے روک دیا تھا ، کہ کہیں وہ قرآن سے خلط ملط نہ ہوجائے اور ابو بکر وعمر اپنی خلافت کے اوائل میں اس پر سختی سے کاربند بھی تھے ۔ تو سنت منقول ہی نہ ہوسکی ،تو اس کی پیروی کیسی ؟ لہذا ترکت فیکم سنتی (1):- رہی کہاں جو حجت ہوتی ۔ اس بحث میں جو مثالیں میں نے ذکر کی ہیں (جو نہیں ذکر کی ہیں ان کی تعداد کئی گنا زیادہ  ہے ) وہی اس حدیث کے بطلان کے لئے کافی ہیں کیونکہ سنت خلفاء (ابو بکر وعمر وعثمان ) سنت رسول کی ضد ہے جیسا کہ آپ نے خود ہی محسوس کرلیا ہوگا ۔رسول خدا کے انتقال کے بعد ہی سب سے پہلی حدیث (یا سیرت خلیفہ) جو پیش کی گئی اور جس کو اہل سنت والجماعت اور مورخین سبھی نے لکھا ہے وہ :نحن معاشر الانبیاء لانورث ما ترکناہ صدقۃ " والی حدیث ہے ، جس سے ابو بکر نے استدلال کیا تھا ، اور جناب فاطمہ نے اس حدیث کی تکذیب کی تھی اور اس کو باطل قرار دیا تھا ، اور ابو بکر کے مقابلہ میں احتجاج کرتے ہوئے فرمایا تھا ،میرے باپ کسی بھی طرح قرآن کے خلاف کہہ ہی نہیں سکتے جب کہ قرآن یہ کہتاہے :- یوصیکم الله فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثین "(2)۔
خدا تمہاری اولاد کے حق میں تم سے وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔ اوریہ آیت سب کے لئے ہے انبیاء یا غیر انبیاء تو میرے باپ اس کے خلاف کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ اسی طرح جناب فاطمہ نے اس آیت سے بھی " وورث سلیمان داوؤد (پ 19 س 27 (نمل)اول علم وحکمت جائداد منقولہ
----------
(1):-کتاب اللہ وعترتی تو ہے لیکن سنتی کی لفظ صحاح ستہ میں سے کسی میں نہیں آیا ہے اس حدیث کو لفظ سنتی کے ساتھ مالک ابن انس اپنی کتاب موطاء ،میں تحریر کیا ہے مرسل نقل کیا ہے مسند کرکے نہیں لکھا ہے طبری وابن ہشام  وغیرہ نے مالک ہی سے لیا ہے اور مالک کی طرح مرسل  نقل کیا ہے ۔
(2):- پ 4 س4 (نساء)آیت 11

وغیر منقولہ سے میں) سلیمان داؤد کے وارث ہوئے ! استدلال فرمایا ، اور اس آیت سےبھی احتجاج کیا : فهب لی من لدنک ولیا یرثنی ویرث من آل یعقوب واجعله رب رضیا (پ 16 س 19 (مریم)آیت 65) ترجمہ :- پس تو اپنی گوبارگاہ سے مجھے ایک جانشین (فرزند) عطا فرما جو میری اور یعقوب کی نسل کی میراث کا مالک ہو اوراے میرے پرورد دگار اس کو اپنا پسنددیدہ بنا ۔
دوسرا حادثہ بھی ابو بکر کا ہے جو ان سے قریب ترین شخص تھا وہ حادثہ اسی کے ساتھ پیش آیا یہ واقعہ ابو بکر کی ابتدا ئے خلافت میں پیش آیا تھا اور مورخین اہل سنت نے اس کو لکھا ہے واقعہ یہ تھا کہ کچھ لوگوں نے زکات  دینے سے انکار کردیا تھا ابو بکر کافیصلہ تھا کہ ان سے جنگ کرکے ان کو قتل کیا جائے لیکن عمر اسکے مخالف تھے ، وہ کہتے تھے ان سے قتال نہ کرو میں نے خود رسولخدا کو فرماتے ہوئے سنا ہے ، مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ نہ کہیں اور جو اس کو کہے اس کا مال  اس کا خون محفوظ ہے اس کا حساب اللہ پر ہے ۔
مسلم نے اپنی صحیح میں لکھا ہے ، رسول اللہ نے جب خیبر میں علم علی کے حوالہ کیا تو علی نے پوچھا میں ان لوگوں سےکسی چیز پر قتال کروں ؟آنحضرت نے فرمایا :- جب تک لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ نہ کہیں اور جب اس کا اقرار کرلیں تو تمہارے لئے ان کا خون بہانا ،اور مال لوٹنا نا جائز ہے مگر یہ کہ وہ حق ہو اور اس کا حساب خدا کے اوپر ہے (1)۔ لیکن ابوبکر اس حدیث سے قانع نہیں ہوئے اور کہنے لگے ۔خدا کی قسم جو نمازوزکات میں فرق ڈالے گا میں اس سے جنگ کروں گا ،اس لئے کہ زکات حق المال ہے ،اس طرح کہا تھا : خدا کی قسم لوگ رسول اللہ کو جو دیا کرتے تھے اگر کسی نے اس میں سے ایک اونٹ باندھنے کی رسی بھی نہ دی تو میں  اس سے جنگ کروں گا ۔ابو بکر کی اس بات سے عمرقانع ہوگئے اور فرمایا :میں نے ابوبکر کو اس پر مصر دیکھا یہاں تک کہ خدا نے میرے لئے بھی شرح صدر کردیا ،مجھے معلوم نہیں کہ جو لوگ خدا کی مخالفت کررہے ہوں خدا کس طرح ان کا شرح صدر کردیتا ہے ؟ چونکہ قرآن میں خدا نے اس آیت کے ذریعہ مسلمانوں سے قتال حرام قراردیا ہے ،آیت یہ ہے
--------------
(1):- صحیح مسلم ج 8 ص51 کتاب الایمان

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَتَبَيَّنُواْ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِناً تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُواْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيراً"پ 5 (نساء )آیت 94)ترجمہ:- اے ایماندارو جب تم خدا کی راہ میں (جہاد کرنے کو) سفر کرو تو(کسی کے قتل کرنے میں جلدی نہ کرو بلکہ ) اچھی طرح چانچ لیا کرو اور جو شخص (اظہار اسلام کی غرض سے) تمہیں سلام کرے تو تم بے سوچے سمجھے  نہ کہدیا کرو کہ تو ایماندار نہیں ہے (اس سے تو ظاہر ہوتاہے ) کہ تم(فقط) دنیاوی اثاثہ کی تمنا رکھتے ہو ( کہ اسی بہانہ قتل کرکے لوٹ لو اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر یہی ہے ) تو خدا کے یہاں بہت سی غنمیتیں  ہیں ( مسلمانو) پہلے تم خود بھی تو ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا کہ (بے کھٹکے مسلمان ہوگئے )غرض خوب چھان بین کرلیا کرو بیشک خدا تمہارے ہر کام سے خبردار ہے ۔۔۔۔ اس لئے مسلمانوں سے قتال کے جواز کے لئے یہ تاویل کی گئی ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے ابو بکر کو زکات دینے سے انکار کیا تھا وہ وجوب زکات کے منکر نہیں تھے ،بلکہ اس لئے دیر کی تھی کہ معاملہ واضح ہوجائے ۔ شیعہ حضرات کہتے ہیں زکات نہ دینے والے لوگوں میں سے کچھ لوگوں میں سے کچھ لوگ رسول خدا کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک تھے ، انھوں نے حضرت علی کی خلافت پر نص کو سماعت کیا تھا ، اس لئے جب (خلاف توقع ) ابو بکر کے خلیفہ ہونے کی خبر پہونچی تویہ لوگ بھونچکا رہ گئے اور زکات میں ذرا تاخیر  کی تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے لیکن ابوبکر نے ان کو قتل کرنے کا بھونچکارہ گئے اور زکات میں ذرا تاخیر کی تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے ، لیکن ابوبکر  نے ان کو قتل کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ بات دب جائے اور میں چونکہ نہ شیعوں کے قول سے استدلا کرتا ہوں نہ اجتجاج اس لئے اس قصہ کو ان لوگوں کے لئے چھوڑ دیتا ہوں جو اس میں دقت نظر سے تحقیق کرنا چاہیں ۔لیکن اتنی بات ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ آنحضرت کے زمانہ میں ثعلبہ نےآکر کہا خدا کے رسول (ص) میرے لیے دعا کردیں کہ خدا مجھے مالدار کردے اور بہت اصرار کیا اللہ سے معاہدہ کیا کہ وہ صدقہ دیا کرے گا بہر حال پیغمبر نے اس کے لئے دعا کی اور وہ اتنا مالدار ہوگیا کہ اطراف مدینہ مین اس کے اونٹوں ، بھیڑوں کی گنجائش نہ رہی تو وہ مدینہ سے دورچلا گیا اور نماز جمعہ میں حاضر ی بھی نہیں دے پاتا تھا ، پھر جب پیغمبر اسلام نے زکات کی وصول تحصیل کرنے والوں کو اس کے پاس زکات کے لئے بھیجا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ تو جزیہ

یا مثل جزیہ  ہے اور زکات نہیں دی  لیکن رسول خدا نے نہ تو اس سے قتال کیا نہ حکم قتال ، ویا ،،،، البتہ قرآن کی آیت آئی :" وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُواْ بِهِ وَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ" (پ 10 س 9 (توبه ) آیت 75 ،76)
ترجمہ:- اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو خدا سے قول وقرار کرچکے تھے کہ اگر اپنے فضل وکرم سے (کچھ مال ) دے گا  تو ہم ضرور خیرات کیا کرینگے اور نیکو کار بندے ہوجائیں گے تو جب خدا نے اپنے فضل وکرم سے انھیں عطا فرمایا تو لگے  اس میں بخل کرنے اور کتراکے منہ پھیرنے ! ۔۔۔۔۔نزول آیت کے بعد ثعلبہ روتا ہوا خدمت رسول میں آیا کہا میری زکات قبول کرلیں تو رسول خدا نے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔اب اگر ابو بکر وعمر سنت رسول کی پیروی کرتے ہیں تو یہ مخالفت کیسی؟ اور محض زکات نہ دینے پر بیگناہ مسلمانوں کا خون بہانا کیسا ؟ ابو بکر کی طرف سے عذر پیش کرنے والے اور ان کے غلط فعل کی تاویل کرنے والے زکات حق مال ہے اس کے روک لینے پر قتل کرنا جائز ہے ثعلبہ کے قصہ کے بعد کیا تاویل کرینگے ؟
اس نے بھی جزیہ سمجھ کر روک لیا تھا لیکن رسول نے قتال کا حکم نہیں دیا ثعلبہ کے قصہ نے نہ ابو بکر کیلئے تاویل کی گنجائش چھوڑی ہے اور نہ ان کے ماننے والوں کیلئے ۔
اور کون جانتا ہے کہ ابو بکر نے عمر کو اس طرح مطمئن نہ کیا ہوگا کہ زکات نہ دینے والوں کا قتل اس لئے ضروری ہے کہ وہ غدیر والے واقعہ کو پیش کرکے عذر کررہے ہیں کہیں تمام اسلامی شہروں میں یہ بات پھیل نہ جائے بس اسی کے بعد خدا نے عمر کے لئے بھی شرح صدر کردیا کہ ان کا قتل کرنا جائز ہے کیونکہ یہی عمر ہیں جب انکار بیعت کرنے والے بیت فاطمہ میں جاکر بیٹھ رہے تو انھوں نے دھمکی دی اگر نکل کر بیعت ابوبکر نہیں کرتے تو میں اس گھر میں آگ لگادوں گا ۔
تیسرا حادثہ جو ابو بکر کی ابتدا ئے خلافت میں پیش آیا ۔ اور عمر وابوبکر میں اختلاف رائے پیدا ہوا اور ابو بکر نے نصوص قرآنی ونصوص نبوی من مانی تاویل کی وہ خالد بن ولید کا قصہ ہے جنھوں نے مالک بن نویرہ کو تڑپا تڑپا کے قتل کیا اور اسی رات مالک کی بیوی سے ارتکاب زنا کیا ۔ حضرت عمر نے خالد سے کہا : اے دشمن خدا تونے ایک مسلمان کو قتل کیا پھر اس کی بیوی سے زنا کیا ۔خدا کی قسم میں تجھے پتھروں سے رجم کروں گا (یعنی پتھر مار

مار ڈالوں گا )(1)۔
لیکن ابو بکر نے خالد کا دفاع کیا اور کہا : اے عمر اس کو چھوڑدو اس نے تاویل کی اور اس تاویل میں غلطی کی اب خالد کے بارے میں اپنی زبان بند رکھو!
یہ ایک اور رسوائی ہے اور وہ بھی ایک اتنے بڑے صحابی کے لئے جس کا ہم احترام وتقدس سے ذکر کرتے ہیں جس کا لقب "سیف اللہ" ہے اور مصیبت یہ ہے کہ تاریخ نے اس کو بھی اپنے دامن میں محفوظ رکھا ہے ۔
 میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خالد بن ولید جیسے صحابی کے بارے میں کیا کہوں جس نے ایک ایسے جلیل القدر  صحابی کو جو بنی یربوع کا سردار فتوت ،کرم وشجاعت میں ضرب المثل تھا یعنی مالک بن نویرۃ اس کو قتل کردیا مورخین کا بیان ہے کہ خالد نے مالک بن نویرہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ غداری کی کیونکہ جب ان لوگوں نے ہتھیار رکھ دیئے اور نماز جماعت پڑھی تو دفعۃ خالد کے ساتھیوں نے ان کو رسیوں میں جکڑ دیا ۔ ان قیدیوں میں لیلی بنت المنھال مالک کی بیوی بھی تھی اور وہ عرب کی خوبصورت ترین عورتوں میں تھی ،کہا جاتا ہے اس سے زیادہ خوبصورت عورت دیکھی نہیں گئی ۔ خالداس کو دیکھتے ہی بے چین ہوگیا ۔مالک نے خالد سے کہا کہ تم ہمیں ابوبکر کے پاس بھیج دو !  وہ جو چاہیں گے میرے حق میں فیصلہ کرینگے ، عبداللہ بن عمر اور ابو قتادہ انصاری نے بھی خالد سے شدید اصرار کیا کہ مالک کو ابو بکر کے پاس بھیج دو لیکن خالد نے کسی  کی نہ سنی اور بولے :- اگر میں اس کو قتل نہ کروں تو خدا مجھے معاف نہ کرے! اس وقت مالک اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا اسی نے مجھے قتل کرایا ۔ خالد نے حکم دیا اور مالک  کے سروتن میں جدائی ڈال دی گئی ۔خالد نے مالک کی بیوی لیلی کو اپنے قبضہ میں کیا اور اسی رات اس سے منہ کالا کیا  (2)-
--------------
(1):- تاریخ طبری ج 3 ص280، تاریخ ابی الفداء ج 1 ص 110، الاصابۃ فی معرفۃ الصحابہ ج 3 ص 236
(2):- تاریخ ابی الفداء ج ص 158 ،تاریخ یعقوبی ج 2 ص 110 ،تاریخ اب السخہ بر حاشیہ کامل ج 11 ص 114 وفیات الاعیان ج 6 ص 14

میں صحابہ کرام کے بارے میں کیا کہوں جو خواہشات نفس کی تکلمیل کیلئے بے گناہ مسلمانوں کوقتل کرتے ہیں ،محرفات الہی کو مباح قرار دیتے ہیں ، فروج کو اپنے لئے حلال کرلیتے ہیں حالانکہ خدا نے حرام قرار دیا ہے ۔ اسلام کےاندر جس عورت کا شوہر مرجائے وہ عد پورا کئے بغیر نہیں کرسکتی لیکن خالد کا خدا  خواہش نفس تھی ، اس کی نظر میں مالک اور ان کے ساتھیوں کو تڑپا تڑپا کر ظلما وعدوانا قتل کرنا  پھر وعدہ کا خیال کے ، بغیر مالک کی بیوی سے زنا کرنا کوئی بات ہی تھی ۔ عبداللہ بن عمر نے گواہی دی کہ یہ لوگ مسلمان ہیں مگر خالد کی نظر میں اس کی کوئی قیمت نہ تھی ابو قتادہ انصاری خالد کے ان افعال قبیحہ پر شدید غضبناک ہوگئے  اور فورا مدینہ واپس چلے آئے ،اور قسم کھائی کہ اس لشکر میں رہ کرجنگ نہ کروں گا جس کا سردار خالد ہو(1)۔
اس سلسلہ میں استاد محمد حسین ہیکل اپنی کتاب "الصدیق ابو بکر" میں عمر کی رائے ودلیل اس معاملہ میں " کے  زیر عنوان جو اعتراف ہے وہی لئے کافی ہے ۔ چنانچہ ہیکل تحریر کرتے ہیں :
لیکن عمر ۔۔۔جو کاٹ دار عدل کی مثال تھے ۔۔۔۔ کی رائے یہ تھی کہ خالد نے ایک مسلمان پر تعدی کی ہے اور انقضائے وعدہ کے پہلے اس کی بیوی سے منہ کالا کیا ہے اس لئے کسی بھی لشکر کی سرداری کے لائق نہیں ہے ۔ اس کا ہٹا نا ضروری ہے تاکہ وہ دوبارہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھا سکے جس سے امور مسلمین فاسد ہوجائیں اور عربوں  کے درمیان  مسلمانوں کی وقعت گھٹ  جائے اور مالک کی بیوی لیلی کے ساتھ جو اس نے زنا کیا ہے اس پر سزا دیئے بغیر اس کو چھوڑا نہ جائے !!!!!
اگر یہ بات مال لی جائے کہ خالد نے مالک کے سلسلہ میں تاویل کرنے میں غلطی کی ،اگر چہ حضرت عمر  اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے " تو لیلی کے ساتھ جو منہ کالا کیا اس پر حد کا جاری کیاجانا ضروری تھا ۔ یہ عذر نہیں پیش کیا جاسکتا کہ وہ " سیف اللہ" تھے اور ایسے قائد تھے کہ جدھر کا رخ کرتے تھے نصرت وکامیابی ان کے ہمرکاب ہوتی تھی کیونکہ  اگر یہ عذر قابل قبول ہوجائے تو پھر خالد وامثال خالد کے  لئے کھلی چھوٹ ہوجائے گی ، اور مسلمانوں کے لئے بد ترین مثال قائم ہوجائے گی ۔ اسی لئے عمر برابر سزا
--------------
(1):- تاریخ طبری ج 2 ص 280 ،تاریخ یعقوبی ج ص 110 ، تاریخ ابی الفداء ،اصابہ ج 3 ص 326

دئے جانے پر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ ابو بکر نےخالد کو بلا کر تو بیخ کی (1)۔
کیا میں اس استاد ہیکل اور ان جیسے دوسرے علما ء جو کرامت صحابہ بچانے کے لئے چالاکی سے کا م لیتے ہیں سے پوچھ سکتا ہوں ،کہ ابو بکر نے خالد پر حد کیوں جاری نہیں کی ؟ اورجب بقول ہیکل صاحب عمر العدل الصارم تھے تو صرف لشکر کی قیادت ہی سے الگ کرنے پر کیوں اصرارتھا " حد شرعی جاری کرنے پر کیوں نہ اصرار کیا ؟ کیا ان لوگوں نے قرآن کا احترام کرکے حدود جاری کیں؟ استغفراللہ ! یہ تو سیاست ہے اور ابھی آپ سیاست کو کیا سمجھیں یہ تو حقائق کو بدل دیتی ہے عجیب چیز کو خلق کرتی ہے ۔ آیات قرآنی کو دیوار پر ماردیتی ہے ۔
کیا میں اپنے علمائے کرام سے سوال کرسکتاہوں کہو انھوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ایک شریف عورت نے چوری کی ۔ اسامہ اس کی سفارش کرنے کے لئے رسولخدا (ص) کے پاس گئے ، سفارش کرتے ہی رسول خدا برس پڑے اور غصہ میں فرمایا تجھ پر وائے ہو کیا حد الہی کے سلسلہ میں سفارش کرنے آئے ہو؟ اگر فاطمہ نے بھی سفارش بھی چوری کی ہوتی تو میں ان کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا ! تم سے پہلے والے اسی لئے ہلاک ہوئے کہ جب شریف چوری کرتا تھا تو چھوڑ دیتے تھے اورجب کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اس پر حد جاری کرتے تھے ۔ پھر اس واقعہ کے بعد بےگناہ مسلمانوں کے قتل پر اور اسی رات ان کی بیویوں سے ہمبستری کرنے پرکیوں صحابہ کرام خاموش رہتے تھے ؟ حالانکہ شوہر کے مرنے سے بیوی پر غم کے پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں ۔ پھر بھی اس کو نہ بخشنا کون سی شرافت ہے اسی کو کہتے ہین "مرے پر سو درے" کاش یہ علماء صحابہ کے ان اقدامات سے شرم وحیا محسوس کرکے ہی خاموش رہتے ، لیکن ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جھوٹی باتیں بنا کر خالد کے جھوٹے فضائل ومحاسن بیان کرکے خالد کو سیف اللہ کالقب  دیکر اس کے فعل کے جواز کے لئے چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں ۔
میرا ایک دوست مزا ق کرنے اور مطلب کو دوسری طرف لیجانے میں ماہر تھا اس نے مجھے ایک مرتبہ دہشت زدہ کردیا قصہ یہ ہوا کہ میں اپنے زمانہ جاہلیت میں ایک مرتبہ خالد کے فضائل بیان کر
-------------
(1):- "الصدیق ابو بکر"(ہیکل) ص 151

رہا تھا ، میں نے بیان کرتے کرتے کہا خالد ہی سیف الله لمسلول(خدا کی کھینجی ہوئی تلوار) ہیں اس نے بر جستہ کہا : جی نہیں وہ سیف الشیطان المشلول ہیں( شیطان کی کند تلوار ہیں) اس وقت مجھے یہ بات بہت عجیب لگی ، لیکن جب بحث کے بعد خدا نے میری بصیرت کھول دی اور تخت خلافت پر زبردستی بیٹھنے والوں کی قدروقیمت مجھے معلوم ہوگئی اور اس کی تحقیق ہوگئی کہ یہی لوگ احکام الہی کو بدلنے والے حدود الہی کو معطل کرنے والے تھے تو میرا تعجب دور ہوگیا ۔خود رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں خالد کا ایک قصہ مشہور ہے ، رسول اسلام نے خالد کو بنی خذیمہ کی طرف دعوت اسلام کے لئے بھیجا لیکن ان سے قتال کرنے کو نہیں فرمایا : بنی خزیمہ اچھی طرح سے اسلمنا نہیں کہہ پائے  صبانا صبانا کہتے رہے ( ہم اسلام کی طرف مائل  ہیں ) خالد نے ان کو قتل کرنا اور گرفتار کرنا شروع کردیا  قیدیوں کو ساتھیوں کے حوالہ کرکے حکم دیدیا کہ ان کو قتل کردو ۔ لیکن بعض نے قتل کرنے سے انکار کردیا کہ یہ لوگ مسلمان ہوچکے ہیں  اب ان کا قتل جائز نہیں ہے ۔جب یہ لوگ واپس آئے تو رسول خدا سے پورا قصہ بتایا تو آنحضرت نے دومرتبہ فرمایا : پالنے والے خالد نے جو کچھ کیا ہے  میں اس سے بری ہوں (1)۔ اس کے بعد حضرت علی کو کافی مال دیکر بنی خزیمہ کے پاس بھیجا آپ نے مقتولین کی دیت ادا کی جو مال تباہ ہوگیا تھا اس کا عوض دیا انتہا یہ ہے کہ کتے کی بھی قیمت ادا کی اور رسول خدا رو بقبلہ ہاتھویں کو اٹھا کر کھڑے ہوئے ہاتھوں کو اتنا بلند کیا کہ بغل کے نیجپے کا حصہ دکھائی دینے لگا اور فرمایا :" خدا یا میں خالد کے اقدام سے بری ہوں اس جملہ کو تین مرتبہ فرمایا (2)۔کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اب اصحاب  کی عدالت کہاں گئی ؟ جب خالد بن ولید جو ہمارے بزرگ ترین صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اور ہم ان کو سیف اللہ کہتے ہیں تو کیا خدا کی تلوار اس لئے ہے کہ اسے بے گناہوں اور مسلمانوں کے اوپر اٹھایا جائے ، اسمیں صریحی طور سے تناقض ہے کیونکہ ایک طرف توخد ا قتل نفس سے روکتا ہے فحشاء ومنکر ،بغی کے ارتکاب سے منع کرتا ہے لیکن (دوسری طرف )حضرت خالد جو سیف اللہ ہیں وہ بغاوت کرکے مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں ان کے خو ن ومال  کو رائگان کردیتے
--------------
(1):- صحیح بخاری ج 4 ص باب اذا قضی الحاکم بجور فہو رد
(2):- سیرۃ ابن ہشام ج 4 ص 53 طبقات ابن سعد اسد الغایۃ ج 3 ص 102

ہیں ،عورتوں وبچوں کو قیدی بنالتے ہیں ۔۔۔ یقینا یہ خدا پر بہتان ہے ۔ پروردگار تو اس سے بلند وبرتر ہے ۔ معبود تو نے زمین وآسمان اور ان کے درمیان کی چیزوں کو باطل نہیں پیدا کیا یہ تو کافروں کا خیال ہے ۔ ابو بکر جو خلیفۃ المسلمین تھے ان کے لئے یہ کیسے جائز ہوگیا کہ اتنے بڑے بڑے جرائم کو سن کو خاموش رہیں ؟ یہی نہیں بلکہ عمر کو آمادہ کریں کہ خالد کے خلاف زبان کو روک لو کیا واقعا ابو بکر اس پر قانع ہوگئے تھے کہ خالد نے تاویل میں غلطی کی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہر مجرم ہتک حرمت کرکے تاویل کرلیا کریگا ۔
لیکن میں کسی قیمت پر یہ نہیں مان سکتا کہ ابو بکر  خالد کے معاملہ میں تاویل کے قائل تھے ۔ خالد وہ شخص ہے جس کو عمر نے (دشمن خدا کے لقب سے نوزا  ،۔اور عمر کی رائے تھی کہ خالد کو قتل کرنا واجب ہے کیونکہ اس نے ایک مسلمان کو بے گناہ قتل کیا ہے یا پھر اس کو رجم کیا جانا ضروری ہے کیونکہ اس نے مالک کی بیوی لیلی سے زنا کیا ہے لیکن  ان میں سے کچھ بھی نہ ہو ا بلکہ خالد نے عمر کے مقابلہ میں میدان جیت لیا تھا ۔ کیونکہ ان سےباتوں کے باوجود ابو بکر خالد کے حمایتی بن گئے اور ابو بکر دوسروں کے بہ نسبت خالد کی حقیقت سے زیادہ واقف تھے ۔۔۔۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس رسوا کن واقعہ کے بعد پھر ابو بکر نے خالد کو یمامہ بھیج یدا وہاں پہونچ کر خالد کو پھر فتح نصیب ہوئی اور وہاں بھی خالد نے ایک عورت سے منہ کالا کیا ، جیسے لیلی سے کیا تھا ۔ اور ابھی  نہ تو مسلمانوں کا خون خشک ہوپایا تھا نہ مسیلمہ کے پیروکار وں کا کہ خالد نے پھر یہی گل کھلا یا اس مرتبہ ابوبکر نے خالد کو اس سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کی جتنی لیلی کے مسئلہ میں کرچکے تھے (1)
ظاہر سی بات ہے کہ یہ دوسری عورت بھی شوہر دار ہی تھی جس کے شوہر کو قتل کرکے خالد نے اس کے ساتھ منہ کالا کیا تھا جس طرح مالک کی زوجہ  لیلی سے کرچکے تھے ، ورنہ ابوبکر اس مرتبہ اتنی زیادہ ڈانٹ ڈپٹ نہ کرتے ،
اس کے علاوہ مورخین نے اس خط کی عبارت بھی نقل کی ہے جو ابو بکر نے خالد کو لکھا تھا اس میں تھا اے ام خالد کے بیٹے تو برابر عورتوں سے منہ کالا کرتا ہے حالانکہ تیرے گھر کے سامنے بارہ سو مسلمانوں کا خون
--------------
(1):- "الصدیق ابوبکر" ص 151 اور اس کے بعد

ابھی خشک بھی نہیں ہوپایا (1)۔خالد نے جب خط پڑھا توکہا یہ اسی اعسر(بنیہتے)(2) کا کام ہے ،یعنی عمربن خطاب کا ان تمام اسباب کی بنا پر میں اس قسم کے اصحاب سے نفرت کرنے لگا ، اور ان کے ان پیروکاروں سے بھی نفرت کرنے لگا  جو ہر صحابی کے نام کے آگے رضی اللہ عنہ لگاتے ہیں اور ان (علماء) سے بھی نفرت کرنے لگا جو بڑی دلیری کے ساتھ ایسے اصحاب کا دفاع کرتے ہیں ، اور نصوص کی تاویل کرتے ہیں اورابو بکر ، عمر ، عثمان ، خالد بن ولید ، معاویہ ، عمر وعاص جیسے لوگوں کے افعال کو صحیح ثابت کنے کیلئے جعلی روایات نقل کرتے ہیں ۔۔۔۔ پالنے والے میں توبہ واستغفار کرتاہوں ،معبود میں ان لوگوں سے بیزاری اختیار کرتاہوں اور ان کے ان تمام اقوال وافعال سے بیزاری اختیار کرتا ہوں ، جن کے ذریعے انھوں نے تیرے احکام کی مخالفت کی تیرے حرمات کو مباح کیا ، اورتیرے حدود سے تجاوز کرگئے ، اور ان کے جان بوجھ کر پیروکاروں ،ماننے والوں ،محبت کرنے والوں سےبھی نفرت کرتاہوں ، میرے مالک پہلے جب میں جاہل تھا تو ان سے محبت کرتا تھا تو میری غلطی کو معاف کردے حالانکہ تیرے رسول نے کہہ دیا ہے ۔جاہل اپنے جہالت کی وجہ سے معذور نہیں سمجھا جا یئگا ۔خداوندا! ہمارے بزرگوں نے ہم کو راستہ سے بھٹکا دیا تھا ۔ حقیقت کو ہم سے مخفی کردیا تھا پچھلے پاؤں کفر کی طرف پلٹ جانے والے صحابہ کو تیرے رسول کے بعد افضل الحق بتارکھا تھا ، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے آباء واجداد امویوں اور ان کے بعد عباسیوں کی دھوکہ دہی کے شکار ہوگئے تھے ، پروردگار ان کو ہم کو بخش دے تو رازہائے سربستہ اور دل میں چھپی باتوں تک سے واقف ہے ہمارے بزرگ ان صحابہ کا جو احترام واکرام کرتے تھے اور ان سے جو محبت کرتے تھے وہ اس حسن نیت کی بنا پر تھا کہ یہ لوگ تیرے رسول کے انصار اور تیرے رسول کے چاہنے والے تھے ، اے میرے آقا ! تو خوب جانتا ہے کہ ہمارے آباء واجداد اور ہم عترت طاہرہ یعنی ان ائمہ سے محبت کرتے ہیں جن سے تونے اذھاب رجس کیا ہے اور ان کو پاک کرنے کی طرح پاک کردیا ہے جن کے سید وسردار سید المسلمین ، امیرالمومنین ، قائد الغراء المحجلین ،امام المتقین حضرت علی ابن ابیطالب ہیں
--------------
(1):- تاریخ طبری ج 2 ص 254 ، تاریخ خمیس ج 3 ص 243
(2):- بائیں ہاتھ سے کام کرنے والا

خداوند ا مجھے انھیں ائمہ معصومین کے شیعوں میں ، اور ان کی جہل ولایت سے تمسک کرنے والوں میں ، ان کے راستہ پر چلنے والوں میں سے قرار دے اور ان لوگوں میں سے قرار دے جو ان کی کشتی پر سوار ہونے والے ہیں ، اور ان کے عروۃ الوثقی سے متمسک رہنے والے ہیں اور ان کے عتبات عالیات میں داخل ہونے والے ہیں ، ان کی محبت ومودت کے راستہ پرچلنے والے ہیں ، اور ان کے اقوال واعمال کرنے والے ہیں ۔ان کے فضل وبخشش کاشکریہ ادا کرنے والے ہیں ۔
خدا وندا مجھے انھیں کے زمرے میں محشور کر۔ کیونکہ تیرے نبی (صلواتک علیہ وعلی آلہ) نے فرمایا ہے : انسان جس کو دوست رکھتا ہے اسی کے ساتھ محشور ہوگا ۔
(2) "حدیث سفینۃ " "انما مثل اهل بیتی اهلبتی فیکم مثل سفینة نوح فی قومه من رکبها نجی ومن تخلف عنها غرق "(1)
رسول خدا نے فرمایا : " میرے اہل بیت کی مثال تمہارے درمیان میں کشتی نوح کی طرح ہے قوم نوح میں جو اس پر سوار ہوا نجات پاگیا جو الگ رہا وہ ڈوب گیا ۔
دوسری حدیث میں اس طرح ہے :" انما مثل اھل بیتی فیکم مثل باب حطۃ فی بنی اسرائیل من دخلہ غفرلہ (2)
میرے اہل بیت کی مثال تمہارے درمیان میں ایسی ہی ہے جیسے بنی اسرائیل میں باب حطّہ کی جواب اس میں داخل ہوا ہو بخشا گیا ۔
ابن حجر نے صواعق محرقہ میں اس حدیث کو لکھ کر فرمایا ہے کہ کشتی سے اس لئے تشبیہ دی گئی ہے کہ جو ان سے محبت رکھے اور ان کی عظمت کرے خدا کی نعمت کا شکریہ ادا کرے اور علمائے اہلبیت کی ہدایت
--------------
(1):- مستدرک ج 3 ص 151 ،تلخیص الذہبی ، ینابیع المودۃ ص 30 ، 37 صواعق محرقہ ص 184 ،224 ،تاریخ الخلفاء جامع صغیر ،اسعاف الراغبین ،
(2):- مجمع الزوائد (الہیثمی ) ج 9 ص 168

پر عمل کرے وہ مخالفتوں کی ظلمتوں سے نجات پاجائے گا ۔ اورجو ان کی مخالفت کرے گا وہ کفران نعمت کے سمندر میں ڈوب جائے گا ۔ اور طغیان کے جنگلوں میں ہلاک ہوجائے گا ۔ اورباب حطہ سے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے اس باب میں تواضع کے ساتھ داخل ہونے کو سبب مغفرت قراردیا ہے ، باب حطہ سے مراد یا تو باب اریحا " ہےیا بیت المقدس ہے ۔ اور اس امت کے لئے اہلبیت کی محبت کو سبب مغفرت قراردیا ہے ۔
کاش میں ابن حجر سے پوچھتا کہ کیا آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو سفینہ پر سوار ہوئے اور دروازے میں داخل ہوئے ، اور علماء کی ہدایت پر عمل پیرا ہوئے یا ان لوگوں میں سے ہیں جو کہتے کچھ میں کرتے کچھ ہیں ۔ اور عقیدہ کچھ رکھتے ہیں اور کام کچھ کرتے ہیں ، اور ایسے تو بہت سے نابینا وظالم علماء ہیں کہ جب میں ان سے سوال کرتا اور احتجاج کرتاہوں تو فورا جواب دیتے ہیں ہم اہل بیت سے اور حضرت علی سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہیں ۔ ہم اہل بیت کا احترام کرتے ہیں کوئی ایسا نہیں ہے جو اہل بیت کے فضائل کا انکار کرتاہو۔ جی ہاں ! وہ زبان سے ایسی بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتی اور یا پھر یہ حضرات احترام وتقدیر تو اہل بیت کا کرتے ہیں لیکن اقتداوتقلید دشمنان اہل بیت وقاتلان اہل بیت ومخالفین اہلبیت کی کرتے ہیں ۔ اوریا پھر یہ لوگ اہل بیت کو جانتے ہی نہیں کیونکہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ اہل بیت کون ہیں ؟ تویہ فورا جواب دیتے ہیں کہ وہ ازواج پیغمبر ہیں جن  خدا نے رجس کو دور کردیا ہے ، اورا س پہیلی کو میرے لئے ایک شخص نے حل کردیا جب میں نے اس سے یہی سوال پوچھا تو اس نے کہا: اہل سنت والجماعت سب کے سب اہل بیت کی اقتدا کرتے ہیں ، مجھے اس کے کہنے پر بہت تعجب ہوا میں نے کہا بھائی یہ کیسے ؟ اس نے کہا :رسول خدا نے  فرمایا ہے نصف دین تو تم حمیرا (عائشہ ) سے حاصل کرو لہذا ہم نے نصف دین اہل بیت (یعنی عائشہ) سے حاصل کیا ! دیکھا آپ نے یہ اہل بیت کسکو سمجھتے ہیں ؟ اسی بنیاد پر ان کے اس کلام کو ہم اہل بیت کا احترام کرتے ہیں " اس مطلب پر حمل کرنا چاہئیے لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ بارہ اماموں کو جانتے ہیں ؟ تو وہ سوائے حضرت علی

امام حسن ، امام حسین کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ، اور امامت حسنین(ع) کی بھی نہیں مانتے ہیں ، یہ تو صرف معاویہ بن ابی سفیان جیسے لوگوں کا احترام کرتے ہیں جیسے عمروعاص ، حالانکہ معاویہ وہ شخص ہے جس نے امام حسن کو زہر سے شہید کرایا ہے اور یہ لوگ اس کو " کاتب الوحی " کہتے ہیں ۔
درحقیقت یہی تناقض ہے یہی خلط وتلبیس ہے اسی کو حق کو باطل میں مخلوط کردینا کہتے ہیں روشنی کو تاریکی کے غلاف میں بند کردینا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مومن کے دل میں شیطان ورحمان دونوں کی محبت جمع ہوجائے ؟ خداوند عالم کا ارشاد ہے :"     لَا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءهُمْ أَوْ أَبْنَاءهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ "(پ 28 س 58 (مجادله ) آیت 22)
ترجمہ:-جو لوگ خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ پاؤگے ۔اگر چہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ (کیوں نہ ) ہوں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان کو ثابت کردیا ہے اور خاص اپنے نور سے ان کی تائید کی ہے اور ان کو ( بہشت کے ) ان( ہرے بھرے)باغوں میں داخل کریگا  جس کے  کے نیچے نہریں جاری ہیں ،(اور وہ ) ہمیشہ اس میں رہیں گے ، خدا ان سے راضی اور وہ خدا سے خوش سے خوشی ، یہی خدا کا گروہ ہے سن رکھو کہ خدا ہی کے گروہ کے لوگ دلی مراد پائیں گے
دوسری جگہ ارشاد ہوتاہے :" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاء تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءكُم مِّنَ الْحَقِّ " (پ28 س 60 (ممتحنه)آیت 1)
ترجمہ:- اے ایماندارو! اگر تم جہاد کرنے میں میری راہ میں اور میری خوشنودی کی تمنا میں (گھر سے ) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم ان کے پاس دوستی کا پیغام بھیجتے ہو اور جو (دین)

 حق تمہارے پاس آیا اس سے  وہ لوگ انکار کرتے ہیں
(3)" حدیث سرور" " قال رسول الله : من سرّه ان یحیا حیاتی ویموت مماتی ویسکن جنة عدن غرسها ربی فلیوال علیا من بعدی والیول ولیه ولیقتدر باهل بیتی من بعدی فانهم عترتی خلقوا من طینتی ورزقوا فهمی وعلمی فویل للکمکذبین بفضلهم من امتی القاطعین فیهم صلتی الا انا لهم الله سقاعتی (1)"
ترجمہ:-جس کو یہ بات پسند ہو کہ میری جیسی زندگی بسر کرے اور میری موت مرے اور اس جنت عدن میں رہے جس کو میرے رب نے لگایا ہے تومیرے بعد علی اور ان کے دوستوں کے دوست رکھے اور میرے اہل بیت کی پیروی  کرےکیونکہ وہ میری طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور میرا ہی علم وفہم ان کو عطا کیا گیا ہے ۔ میری امت کے جو  ان کے فضل کا انکار کرتے ہیں اور مجھ سے رشتہ داری کو قطع کرتے ہیں  ان پر ویل ہو اور ان کو میری شفاعت خدا نصیب نہ کرے  ۔
یہ حدیث بھی ان صریحی حدیثوں کی طرح ہے جس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے اور مسلمان کو مجبور کرتی ہے بلکہ اس کی ساری دلیلوں کو کاٹ دیتی ہے جب کوئی علی کو دوست نہیں رکھے گا اور عترت رسول کی پیروی نہیں کرے گا تو رسول کی شفاعت سے محروم ر ہے گا ۔
میں یہاں پر ایک بات کی طرف اشارہ کرتا چلوں کہ جب میں نے یہ بحث شروع کی تو ابتدا میں اس حدیث کی صحت میں مجھے شک تھا کیونکہ اس حدیث میں علی اور اہل بیت کی مخالفت کرنے والے کو ایسی تہدید و دھمکی دی گئی ہے کہ میں اس کے بعد ابن حجر عسقلانی کا یہ قول پڑھا میں عرض کرتا ہوں اس حدیث کے روایوں میں یحی بن یعلی المحاربی ہے جو لغو اور بیکار آدمی ہے ! تو مسئلہ آسان ہوگیا اور میرے ذہن میں جو بعض
--------------
(1):- مستدرک ج 3 ص 128 الجامع الکبیر (طبرانی )اصابۃ (ابن حجر عسقلانی )کنز العمال ج 6 ص 155 ،ینابیع المودۃ ص 149 ،حلیۃ الاولیاء ج 1 ص 86 تاریخ ابن عساکر ج 2 ص 95

باتیں اس حدیث کے متعلق تھیں وہ سب رفع ہوگئیں ،کیونکہ میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ یہی یحی بن یعلی المحاربی ہی اس حدیث کا گڑھنے والا ہے اور یہ ثقہ نہیں ہے ۔ لیکن خدا کی مرضی تھی کہ مجھے پوری حقیقت پر مطلع کردے چنانچہ ایک روز میں " ابراہیم الجہیان " کے مقالات میں "عقائدی مناقشات"(1) پڑھ رہا تھا اس وقت حقیقت واضح ہوگئی ۔
قصہ یہ ہوا  کہ اس میں لکھا تھا  یحیی بن یعلی المحاربی ان معتبر ترین لوگوں میں تھے جن پر بخاری ومسلم نے اعتماد کیا ہے چنانچہ میں بخاری ومسلم کو الٹ پلٹ کر پڑھنے لگا تودیکھا کہ بخاری نے سیری جلد کے ص 31 پر غزوہ حدیبیہ کےباب میں منجملہ حدیثوں کے ایک یہ بھی لکھی ہے اور مسلم نے پانچویں جلد ص 119 پر باب الحدود کے اندر اس کا ذکر کیا ہے اور ذہبی ۔۔جو اس سلسلہ میں بہت سخت تھے ۔۔۔نے ان کے مراسیل کی توثیق کی ہے اور دیگر ائمہ جرح وتعدیل نے بھی اس کا شمار(ثقات) میں کیا ہے اور شیخان (بخاری ومسلم) نے اس سے احتجاج واستدلال بھی کیا ہے تو پھر آخر اس فریب کاری دھوکہ وہی اورحقائق کو بدلنے اور ایسے شخص کے بارے میں طعن کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ اہل صحاح نے اس سے استلال کیا ہے کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ اس نے اظہار حقیقت کردیا ہے یعنی اہل بیت کی اقتدا کے وجوب کاذکر کردیا ہے ، اسی لئے ابن حجر اس کی تضعیف وتوہین پر اتر آئے حالانکہ ابن حجر کے ذہن سے یہ بات نکل گئی کہ ان کے علاوہ بھی بڑے زبردست قسم کے علما ء ہیں جوان کی ہر چھوٹی بڑی لغزش کا حساب رکھیں گے اور ان کی جہالت وتعصب کے پردے کو چاک کرکے رہیں گے کیونکہ وہ لوگ نور نبوت سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور اہلبیت کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں ،
اس کے بعد میں اس بات کو جان گیا کہ ہمارے علماء کی پوری کوشش حقیقت کو چھپانے کی ہوتی ہے تاکہ ان کے پیرومرشد اصحاب کرام اور خلفاء کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے اسی لئے یہ لوگ کبھی تو صحیح حدیثوں کی تاویل کرتے ہیں اور ان کو دوسرے معانی پر حمل کرتے ہیں اس کی مثال یہ ہے کہ حدیث من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ " میں مولی کے معنی کو اولی کے بجائے محب وناصر کے معنی میں کردیتے ہیں
--------------
(1):- مناقشات عقائدیۃ فی مقالات ابراہیم الجہبان ص 29

علمائے اہل سنت اس حدیث کی صحت کے قائل ہیں مگر مولی کے معنی میں تاویل کرنا واجب جانتے ہیں ک مولی سے مراد محب اور ناصری ہیں اور یہ تاویل صرف ابو بکر ،عمر عثمان  کی خلافت  کو صحیح ثابت کرنے کیلئے کرتے ہیں اگر یہ تاویل نہ کریں تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سب سے اولی ثابت ہوں گے بلکہ اس میں دیگر خرابیوں کے علاوہ سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ تمام ان اصحاب کا مع الذکر کے فاسق ہونا لازم آتا ہے جنھوں نے ابو بکر کی بیعت کی تھی ،یہ ان علمائے اہل سنت والجماعت کا قول ہے جو ٹیونس میں رہتے ہیں اور جب میں نے ان سے کہا کہ رسول خدا نے خطبہ اور حدیث سے پہلے جب اصحاب سے پوچھ لیا کہ کیا میں تمہاری نفسوں پر تم سے زیادہ اولی نہیں ہوں اور سب نے کہا : ہاں 1 تب اس کے بعد نبی کا یہ حدیث بیان کرنا قرینہ ہے مولی بمعنی اولی بالتصرف کے ہے تو ان لوگوں نے جواب دیا یہ اضافہ شیعوں نے کیا ہے پھر جب میں نے ان سے سوال کیا کہ یہ بات عقل میں آتی ہے  کہ لاکھوں آدمیوں کو شدید گرمی میں روک کر صرف اتنا بتانا مقصود تھا کہ جس کا میں محب وناصر ہوں علی بھی اس کے محب وناصر ہیں ؟ تو وہ لوگ لاجواب ہوگئے اورخاموش ہوگئے ۔
اور کبھی ان تمام حدیثوں کو جھوٹی کہتے ہیں ان کے مذہب کے خلاف ہوں ۔ چاہے ان کی صحاح ومسانید میں وہ حدیثیں موجود بھی ہوں ، اس کی مثال یہ حدیث ہے ،: الخلفاء من بعدی اثناعشر کلھم من قریش " میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے اوروہ سب کے سب قریش سے ہوں گے ۔ اور ایک روایت میں ہے (کلھم من بنی ہاشم )وہ سب کے سب بنی ہاشم سے ہوں گے اس حدیث کو بخاری ومسلم کے ساتھ تمام اہل سنت  والجماعت کے صحاح والوں نے نقل کیا ہے لیکن اس کے باجود یہ یہ لوگ اس کو جھٹلا تے ہیں اور ان بارہ اماموں کو نہیں مانتے جو اہل بیت سے ہیں جن کو شیعہ امام مانتے ہیں ۔بلکہ اہل سنت حضرات اس میں کہ چاروں خلفائے راشدین کو شمار کرتے ہیں اور کچھ لوگ خلفائے راشدین کے ساتھ عمر بن عبدالعزیز کو بھی شمار کرتے ہیں تو اس طرح تعداد پانچ ہوجاتی ہے اور پھر ٹہر جاتے ہیں آگے نہیں بڑھتے اور معاویہ ،یزید ،مروان بن الحکم ، مروان کی اولاد کو خلفائے راشدین میں شمار نہین کرتے  اور یہ صحیح کرتے کرتے ہیں لیکن 12   کی تعداد پوری نہیں ہوپاتی ۔بلکہ ایک پہیلی ہو کر رہ جاتی ہے

اور ایسی پہیلی جس کا حل نہیں ہے مگر یہ کہ شیعوں والی بات مال لیں ۔اور کبھی حدیث کا آدھا حصہ یا 2/3 حصہ ہی حذف کردیتے ہیں تاکہ اس کو بدلا جاسکے اور اس کی مثال یہ حدیث ہے " ان هذا اخی ووصیی وخلیفتی من بعدی فاسعمواله واطیعوا! " اس حدیث کو آنحضرت نے حضرت علی کی گردن پکڑ کر فرمایا تھا ، اس حدیث کو طبری نے اپنی تاریخ میں ۔ ابن اثیر نے اپنی کامل میں لکھا ہے اسی طرح کنزل العمال میں مسند احمد بن حنبل میں بھی ہے ، سیرۃ حلبیہ اور ابن عساکر میں بھی ہے لیکن طبری کی جو تفسیر چھپی ہے اس کی ج 19 ص 121 میں پوری حدیث نہیں لکھی ہے بلکہ اس کے نام معانی کو حذف کردیا ہے اور اس کی جگہ ان هذا اخی و کذا کذا !! تحریر ہے حالانکہ یہ لوگ اس سے غافل ہیں کہ طبری نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کو مکمل لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ج 2 ص 319 ۔۔ 321 یہ ہے علی امانت ؟ شاید اس بیچارے عالم کو کوئی حیلہ ہاتھ نہیں آیا جس سے حدیث کوجھٹلاسکے اوریہ حدیث رسول خدا کے بعد حضرت علی خلافت پر نص ہے اس لئے اس نے نصوص کوچھپا نے کی کوشش کی اور اس کو کذا وکذا سے بدل دیا اس بیچارے کو یہ خیال ہوا کہ اگر اس نے اپنی آنکھ بند کرلی تو سورج کی روشنی بھی چھپ جائے گی یا اس نے یہ سوچا کہ کذاکذا لکھ کر قارئین کو قانع کردےگا نہیں نہین ایسا نہیں ہوسکتا ۔
اور کبھی ثقہ ترین روایوں کو مشکوک بنا نے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں کیونکہ ان راویوں نے ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جو ان لوگوں کی من پسند نہیں ہیں ۔جیسے ان لوگوں نے یحیی بن یعلی المحاربی کو مطعون قراردیا ہے حالانکہ وہ ان معتبر روایوں میں ہے جس سے بخاری ومسلم نے اپنی اپنی صحیح میں احتجاج کیا ہے ۔ لیکن ابن حجر عسقلانی ن ےاس کے بارے میں خدشہ کیا ہے اور کہا ہے یہ ایک واہیات آدمی  قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ اس نے حدیث "موالات " کو نقل کیا ہے جس میں جس میں رسول خدا نے اپنے تمام اصحاب کو یہ حکم دیا ہے کہ میرے بعد سب کے سب حضرت علی اور اہل بیت سے موالات کریں ۔ لیکن یہ حدیث ابن حجر اور ان کے ہم خیال لوگوں کو پسند نہیں آئی جس کا مقصد حقائق کو مٹانا ہے حالانکہ معاویہ نے حقائق کو چھپانے کے لئے اپنے تمام سونے چاندی کے ڈھیر کو صرف کردیا تھا ، لیکن ناکامیاب رہا تھا

تو پھر بیچارے ابن حجر راویوں میں خدشہ کرکے کیونکر چھپا سکتے ہیں ؟ معاویہ کے پاس تو حول وطول سلطنت وطاقت جاہ ومرتبہ سب کچھ  تھا مگر وہ بری طرح ناکامیاب ہوگیا اور زمانہ نے اس کو تاریخ کے دبیز پردوں میں چھپا دیا ۔البتہ حضرت علی (ع) کا نور مرور ایام کےساتھ روشن سے روشن تر ہوتا گیا ۔ تو ابن حجر جیسے لوگوں کیلئے بھلا کہاں ممکن ہے کہ معتبر راویوں کے ساتھ میں خدشہ پیدا کرکے اہلبیت کی حقیقت کو مشکوک بنادیں ؟ نورخدا کا بجھا دینا ناممکن بات ہے ۔
اور کبھی حدیث کو پہلے ایڈیشن میں چھاپتے ہیں اور( پھر جب غلطی پر متنبہ ہوتے ہیں تو ) دوسرے ایڈیشنوں میں بغیر کسی اشارہ کے اس لئے حذف کیا جارہا ہے حذف کرتے ہیں  لیکن تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں لوگ اس کو تلاش کرہی لیتے ہیں ۔ اس کی مثال محمد حسین ہیکل کی کتاب "حیات محمد (ص)" کا پہلا ایڈیشن ہے اس کے ص 104 پر وانذر عشیرتک الاقربین " کے ضمن میں مورخین کی طرح  قصہ تحریر کرکے آخر میں لکھتے ہیں ۔: رسول خدا نے فرمایا " یہ میرا بھائی ہے تمہارے درمیان میرا خلیفہ ووصی ہے ۔۔۔۔۔!لیکن بعد والے ایڈیشنوں میں بغیر کسی اشارہ قریب یا بعید کے حدیث کے اس فقرہ کو حذف کردیا ۔اگر چہ محمد جواد مغنیہ نے ۔۔۔اور وہی اس کے ذمہ دار بھی ہیں ۔۔۔ اپنی کتاب "الشیعة فی المیزان" میں اس حادثہ کو نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ محمد حسین ہیکل نے اس فقرہ کو یعنی یہ میرا بھائی تمہارے درمیان  میرا وصی وخلیفہ ہے ) ہزاروں گنیاں لیکر حذف کردیا ہے اور چونکہ ہیکل نے نہ تو اس خبر کی تکذیب کی ہے اور نہ ہی اس جملہ کوحذف کرنے کی کوئی علت بیان کی ہے اس لئے اس سے شیخ محمد جواد مغنیہ کی وسیع اطلاع اور سچائی کی تصدیق ہوتی ہے ۔
اس کے علاوہ میں ان جیسے لوگوں کیلئے  ہوں جو تھوڑی سی پونجی کی خاطر آیات الہی کو بیچ ڈالتے ہیں :خدا سے ڈرو سچی بات کہو ،اور خدا کے اس فرمان کو یاد رکھو " إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَـئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ "(پ 2 س 2(بقره ) آیت 159) ۔ترجمہ:- بیشک جو لوگ (ہماری) ان روشن دلیلوں اور ہدایتوں کو جنھیں ہم نے نازل کیا ہے اس کے بعد چھپاتے ہیں ، جب کہ ہم کتاب (توریت ) میں لوگوں کے سامنے

صاف صاف بیان کرچکے تو یہی لوگ ہیں جن پر خدا بھی لعنت کرتاہے اور لعنت کرنے بھی لعنت کرتے ہیں اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے " إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً أُولَـئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"(پ 2 س 2(بقره)آیت 174) بیشک جو لوگ ان باتوں کو جو خدا نے کتاب میں نازل کی ہیں چھپاتے اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت (دنیوی نفع) لے لیتے ہیں یہ لوگ بس انگاروں سے اپنے پیٹ بھرتے ہیں اور قیامت کے دن ان سے بات تک تو کرےگا نہیں اورنہ انھیں (گناہوں سے) پاک کرے گا اور انھیں کے لئے دردناک عذاب ہے ! بس کیا یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں توبہ کریں گے ؟ اور حق کا اعتراف کرینگے ؟ اگر یہ لوگ ایسا کریں تو ہوسکتا ہے وقت گزر جانے سے پہلے خدا ان کی توبہ قبول کرلے ۔
بحث وتمحیص کے بعد یہ بات میرے اوپر بھی ثابت ہوچکی ہے اور میں اپنے دعوی پر مضبوط دلیل رکھتا ہوں  کا ش یہ لوگ ان صحابہ کو بچانے کی کوشش نہ کرتے جو الٹے پاؤں کفر کی طرف چلے گئے تھے ، اسی غلطی کی وجہ سے ان کے اقوال میں تناقض ہے اور ان کی باتیں تاریخ سے متناقض ہیں ا ے کاش یہ لوگ حق ہی کی پیروی کرتے خواہ وہ کتنا ہی کڑوا ہوتا اگر وہ ایسا کرتے تو خود ان کو بھی راحت نصیب ہوتی اور دوسروں ک و بھی زحمت نہ ہوتی اور اس متفرق امت کو متحد کرنے میں ایک کار نمایاں انجام دیتے  ، جب صحابہ اولین احادیث نبویہ کے نقل کرنے میں غیر ثقہ ہوں ، اور جوچیزیں ان کی خواہشات کے مطابق نہ ہوں ان کو باطل قراردیدیں خصوصا اگرو ہ حدیثیں وفات رسول کے وقت کی وصیتیں ہوں چنانچہ آپ ملاحظہ فرمائیں بخاری و مسلم دونوں نے لکھا ہے " رسول خدا نے مرتے وقت تین چیزوں کی وصیت فرمائی تھی ۔
(1):- مشرکین کو جزیرہ العرب سے نکال دو (2):- وفود کی اسی طرح آنے کی اجازت دو جس طرح میں اجازت دیتا تھا ۔ روای صاحب فرماتے ہیں ، تیسری چیز میں بھول گیا (1)۔۔۔ تو کیا یہ بات عقل میں آنے
--------------
(1):- بخاری ج 1 ص 121 ،باب جوائز الوفد من کتاب الجہاد والسیر ، صحیح مسلم ج 5 ص 75 کتاب الوصیہ

والی ہے کہ جو صحابہ موجود تھے اور انھوں نے رسول کی تینوں وصیتیں سنی تھیں وہ صرف تیسری ہی وصیت کو بھول گئے ؟ حالانکہ یہ لوگ صرف ایک مرتبہ سنکر لمبے لمبے قصیدے یاد کرلیتے تھے اس کو نہیں بھولتے تھے توکیسے مان لیا جائے کہ اس کو بھول گئے ؟ ہر گز نہیں یہ بھولے نہیں تھے (اور نہ اتنا بھولے تھے ) بلکہ سیاست نے ان کو بھلا دینے پر مجبور کیا تھا ۔۔۔۔ اصحاب کے مضحکہ خیز چیزیہ بھی ہے اور یقینا پہلی وصیت حضرت علی کے خلیفہ بنانے کی تھی جس کو راوی نے بھلا دیا ہے ۔
حالانکہ  جویائے حق کو چھپانے کے باوجود وصیت کی خوشبو پہونچ ہی جاتی ہے چنانچہ بخاری نے کتاب الوصایا اور مسلم نے کتاب الوصیہ میں نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ عائشہ کے سامنے ذکر کیا گیا کہ نبی نے علی کے لئے وصیت فرمائی تھی(1) (آپ نے دیکھا اگر وصیت نہیں تھی تو عائشہ کے سامنے اس کا  ذکر کیسے ہوا ؟ مترجم) آپ خود ہی ملاحظہ فرمائیے کہ خدا اپنے نور کو کس طرح ظاہر کرتا ہے  چاہے ظالم کتنا چھپائیں ، میں اپنی بات کی طرف پھر پلٹتا ہوں ، کہ جب ایسے ایسے صحابہ رسول اکرم کی وصیت نقل کرنے میں غیر معتبر ہیں تو بے چارے تابعین وتبع تابعین کی کیا ملامت کیجائے ۔
اور جب ام المومنین عائشہ ذکر علی کو برداشت نہیں کرسکتی تھیں اور نہ ہی کسی قیمت پر حضرت علی کاذکر خیر پسند کرتی تھیں جیسا کہ ابن سعد نے اپنی طبقات میں (2) اور بخاری نے اپنی صحیح میں ۔۔۔باب مرض النبی ووفاتہ میں ۔۔۔۔ تحریر کیا ہے اور جب ام المومنین عائشہ حضرت علی کی موت کی خبر سن کر سجدہ شکر ادا کرتی ہوں تو پھر ان سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ حضرت علی کیلئے وصیت رسول کا ذکر کریں گی ؟ ام المومنین عائشہ کیلئے ہر خاص وعام جانتا ہے کہ یہ حضرت علی سے بغض رکھتی تھیں اون ان سے عداوت رکھتی تھیں (نہ صرف حضرت علی سے )بلکہ علی واولاد علی (ع) اور اہل بیت مصطفی سےبہت زیادہ عداوت رکھتی تھیں ۔۔۔  
لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم
--------------
(1):- صحیح بخاری ج 3 ص 68 باب مرض النبی ووفاتہ ،صحیح مسلم ج 2 ص 14 کتاب الوصیہ
(2):- طبقات ابن سعد ، القسم الثانی من الجزاف ص 29

نصوص کے مقابلہ میں اجتہاد
اس تحقیق و تفتیش کرے دوران میں اس نتیجہ پر پہونچا کہ امت مسلمہ پر سب سے بڑی مصیبت جو پڑی ، وہ اصحاب کرام کا نصوص صریحہ  کے مقابلہ میں اجتھاد  کرنا ہے " اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حدود خدا پائمال ہوئے سنت رسول (ص) مٹ گئی صحابہ کے بعد پیدا ہونے والے ائمہ اور علما صحابہ کے اجتہاد پر قیاس کرنے لگے اور انتہا یہ ہوگئی کہ بعض اوقات اگر صحابہ کا فعل سنت نبوی بلکہ نص قرآنی سے ٹکرا گیا تو یہ لوگ اصحاب کے فعل کو حجت مانتے تھے اور سنت رسول ونص قرآنی کوچھوڑ دیتے تھے ،آپ اس کو مبالغہ نہ سمجھیں اسی کتاب میں عرض کرچکا ہوں کہ قرآن میں تمیم کے لئے نص صریح موجود ہونے اور سنت رسول مین اس کے ثابت ہونے کے باوجود اصحاب نے خود رائی سے کام لیا اور کہدیا کہ اگر پانی نہ ملے تو نماز چھوڑ دو اور عبداللہ بن عمر نے اس اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کیلئے ایک علت بیان کردی جس کو ہم اسی کتاب میں کسی دوسری جگہ ذکر کرچکے ہیں
اصحاب میں میں جس نے سب سے پہلے باب اجتہاد  کو پاٹوں پاٹ کھولا ہے وہ خلیفہ ثانی ہیں جنھوں  نے وفات رسول کے بعد قرآنی نصوص کے مقابلہ میں اپنی رائے استعمال فرمائی ہے چنانچہ قرآن نے مستحقین زکات کی آٹھ قسموں میں ایک قسم مولفۃ القلوب کی رکھی ہے لیکن حضرت عمر نے مولفۃ القلوب کا حصہ یہ کہہ کر ختم کردیا کہ ہم کو تمہاری ضرورت نہیں ہے "
اور نصوص نبوی کے مقابلہ میں اجتہاد اتنے زیادہ کئے ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ حضرت  تو خود پیغمبر (ص) کی زندگی میں کئی مرتبہ آپ ہی سے ٹکرائے گئے تھے صلح حدیبیہ اور مرض الموت میں قلم ودوات کا نہ دینا اورحسبنا کتاب اللہ کہدینے کا تذکرہ میں اسی کتاب میں کرچکا ہوں ۔ لیکن یہاں پر ایک دوسرا واقعہ نقل کرنا چاہتا ہوں ، اور شاید اس سے عمر کی نفسیات  کا مزید اندازہ ہوسکے کہ اس شخص نے جیسے طے کر رکھا تھا ، کہ سر کار رسالت سے مجادلہ ،معارضہ ،مناقشہ ضرور کروں گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ رسولخدا (ص) نے ابو ہریرہ کو یہ کہہ کر

بھیجا کہ تمہاری ملاقات جس شخص سے ہو اور اس کو دیکھو کہ (زبان سے )لا الہ الا اللہ کہہ رہا ہو اور دل سے اس کا یقین بھی رکھتا ہو تو تم اس کو جنت کی بشارت دیدو ۔ ابو ہریرہ نکلے اور (اتفاق سے )عمر سے ملاقات ہوگئی ۔ عمر نے پورا واقعہ سن کر ان کو روکا کہ یہ نہ کرو اور اتنی دھنائی کی کہ ابو ہریرہ چوتڑوں کے بھل زمین پر گر پڑے اور پھر روتے ہوئے رسول خدا(ص) کی خدمت میں پہونچے اور پورا ماجرا سنایا ۔رسول (ص) نے عمر سے کہا  تم نے یہ کیوں کیا ؟ عمر نے کہا " کیا آپ نے اس کو بھیجا تھا کہ جو شخص دل سے یقین رکھتے ہوئے زبان سے لا الہ الا اللہ کہے اس کویہ جنت کی بشارت دیدے ؟ رسول (ص) نے فرمایا : ہاں ! عمر نے کہا ایسا مت کیجئے مجھے ڈر ہے لوگ صرف لا الہ الا اللہ ہی پر بھروسہ کرنے لگے گے ! اور حضرت عمر کے صاحبزادے کو یہ خطرہ تھا کہیں لوگ تمیم پر بھروسہ نہ کرلیں اس لئے وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے : احتلام کے بعد پانی نہ ملے تو نماز چھوڑ دیا کرو ۔۔کاش یہ لوگ نصوص کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے اپنے عظیم اجتہاد سے اس کو بد لنے کی کوشش نہ کرتے جس کے نتیجہ میں شریعت کو مٹادیا ،حرمات الہی کو بیکار کردیا ، امت مسلمہ کو متعدد مذاہب ،مخلتف آراء اور فرقوں میں بانٹ دیا ۔
عمر کی متعدد مقامات پر رسول اور سنت رسول کی مخالفت کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ رسول کو معصوم نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک عادی انسان سمجھتے تھے جو کبھی غلطی کرتا ہے اور کبھی حق تک پہونچ جاتا ہے اور یہیں سے اہل سنت والجماعت کے علماء کا یہ عقیدہ ہوگیا کہ رسول اللہ صرف تبلیغ قرآن میں معصوم تھے اس کے علاوہ دیگر امور میں دیگر انسانوں کی طرح خطا کرتے تھے اور اس عقیدہ پر دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے کئی مرتبہ ان کی رائے کی غلطی کی اصلاح کی ۔
جب رسول (ص) کا یہ عالم تھا ۔۔۔جیسا کہ بعض جاہل لوگ روایت کرتے ہیں ۔۔۔کہ آپ اپنے گھر میں چت لیٹے ہوئے تھے ۔ اور شیطان کی بانسری سن ر ہے تھے اور عورتیں دف بجارہی تھیں اور شیطان کھیل رہا تھا کہ اتنے میں عمر گھر میں داخل ہوئے (ان کو دیکھتے ہی ) شیطان بھاگا اور جلدی جلدی عورتوں نے دفوں کو اپنے اپنے چوتڑوں کے نیچے چھپالیا ، تو رسول خدا نے فرمایا : اے عمر جب شیطان تم کو دیکھتا ہے کہ تم ایک گھاٹی سے جارہے ہو تو وہ دوسری گھاٹی سے راستہ طے کرتا ہے تو پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے

کہ دین کے معاملات میں عمر اپنی ذاتی رائے رکھتے ہوں اور اپنے کو اس قابل سمجھتے ہوں کہ سیاسی امور میں بلکہ دینی امور میں بھی رسول خدا سے معارضہ کرسکیں جیسا کہ ابو ہریرہ کا واقعہ شاہد ہے ۔
نصوص کے مقابلہ میں ذاتی رائے کے استعمال کرنے اور اجتہاد کرنے کے نظر یہ سے صحابہ کے اندر ایک مخصوص جماعت پیدا ہوگئی  تھی جس کی قیادت  عمربن خطاب کرتے تھے ۔ اور یہی وہ جماعت تھی جس نے واقعہ قرطاس پر حضرت عمر کی بھرپور تائید کی تھی ،حالانکہ عمر کی رائے نص صریح کے مقابلہ میں تھی ، اور اسی سے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ اس جماعت نے نص غدیر کو ایک سیکند کے لئے بھی قبول نہیں کیا تھا ، جس میں رسول خدا نے حضرت علی (ع) کو خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے نامزد کیا تھا ، اور یہ لوگ موقعہ کی تلاش میں تھے چنانچہ وفات نبی کے بعد یہ موقعہ ان کو مل گیا اور سقیفہ کے اندر ابو بکر کا انتخاب اسی نظریہ اجتہاد کا نتیجہ تھا ۔ اورجب ان کی حکومت مضبوط ہوگئی اورخلافت کے سلسلہ میں لوگوں نے رسول کے نصوص  کو فراموش کردیا ان لوگوں نے ہر چیز میں اجتہاد کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ کتاب خدا بھی ان کے زد سےنہ بچ سکی اور انھوں نے حدود الہی کو معطل کرنا احکام الہی کو مبدل کرنا شروع کردیا ، اسی کے نتیجہ میں حضرت علی (ع) کا حق غصب  کرلینے کے بعد جناب فاطمہ (س) کا تکلیف دہ مسئلہ پیش آیا اور اس کے بعد مانعین زکات کا مسئلہ درپیش ہوا یہ سب نصوص کے مقابلہ میں اجتھاد کا نتیجہ تھا ۔ اور پھر عمر کی خلافت اسی اجتہاد کاحتمی نتیجہ تھی ، کیونکہ ابو بکر نے اپنی ذاتی رائے استعمال کرکے اس شوری کو بھی ختم کردیا جس کے سہارے اپنی خلافت کی صحت پر استدلال کرتے تھے ، اورجب جب عمر تخت خلافت پر بیٹھے تو انھوں نے مٹی کو اور بھی گیلا کردیا جس چیز کو خدا اور رسول (ص) نے حرام (1) قراردیا تھا انھوں نے اس کو حلال کردیا اور جس کو خدا اور رسول نے حلال قراردیا تھا اس کو حرام کردیا (2)
اور جب حضرت عثمان کا دور آیا تو انھوں نے حدکردی اور اپنے سے پہلے والوں سے چار قد م آگے
--------------
(1):- جیسے ایک ہی وقت میں تین طلاق کا جائز کردینا ملاحظہ وہ صحیح مسلم باب الطلاق الثلاث ،سنن ابی داود ج 1ص 344
(2):- جیسے متعہ الحج اور متعۃ النساء کو حرام کردینا ملاحظہ ہو صحیح مسلم کتاب الحج ،صحیح بخاری کتاب الحج باب التمتع

ہی چلے گئے ،سیاسی ودینی زندگی میں انھوں نے اجتہاد ات کے وہ کرشمے دکھائے کہ ان کے خلاف عام بغاوت ہوگئی اور اس اجتہاد کی قمیت  زندگی دے کرچکائی
اور پھر جب حضرت علی (ع) کا دور آیا تو لوگوں کو سنت رسول کی طرف اور قرآن کی طرف پلٹانے میں بڑی زحمتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ آپ نے چاہا کہ ان بد عتوں کوختم کردیا جائے جو دین میں داخل کر دی گئی ہیں ، لیکن بعض لوگوں نے چیخنا شروع کردیا "واسنۃ عمراہ" (ہائے عمر کی سنت ختم کی جارہی ہے) مجھے یقین ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ جن لوگوں نے حضرت علی کی مخالفت کی اور ان سے امادہ پیکار ہوئے اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ لوگوں کو صحیح راستہ پر لانا چاہتے تھے اور ان نصوص صحیحہ کا پیرو بنانا چاہتے تھے اور ایک چوتھائی صدی تک دین میں جن بدعتوں کا اضافہ کیاگیا تھا اور جو اجتہادات کئے گئے تھے ان کا خاتمہ کردینا چاہتے تھے ا س لئے لوگوں نے مخالفت شروع کردی، کیونکہ لوگوں نے عموما اور دنیا پرستوں نے خصوصا اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس لئے یہ لوگ مال خدا کو ذاتی جائداد بنانے اور اللہ کے بندوں کوغلام بنانے سونے چاندی کاڈھیر لگانے کمزوروں کے معمولی حقوق تک نہ دینے کے عادی ہوچکے تھے ،
ہم نے یہ دیکھا کہ مستکبرین ہر زمانہ میں خود رائی کی طرف مائل تھے اور اس کیلئے ڈنکا پیٹتے تھے تاکہ ہر طریقہ سے اپنا الو سیدھا کریں ۔لیکن نصوص ۔۔۔خواہ وہ قرآنی ہوں یا رسول کی ہوں ۔۔۔۔ ان کے اور ان کے مقاصد کے درمیان پہاڑ بن کر حائل ہوجاتے تھے ۔
اس کے علاوہ ہر عصر ومصر میں ایسے اجتھاد کے انصار ومددگار بھی پیدا ہوجاتے ہیں بلکہ مستضعفین بھی ایسے اجتہاد کو پسند کرتے ہیں ، کیونکہ اس میں سہولت وآسانی ہے اور نص میں پابندی وعدم حریت ہوتی ہے اس لئے سیاسی حضرات اس کو "حکم ثیو قراطی"یعنی خدائی حکم کہتے ہیں اور اجتہاد میں کسی قسم کی قید وبند نہیں ہوتی اسمیں حریت ہوتی ہے اس لئے اس کو "حکم دیمقراطی" یعنی جمہوری کہتے ہیں ۔ پس سقیفہ میں جمع ہونے والےحضرات نے "حکومت ثیوقراطیہ " کو جس کی بنیاد رسول اسلام نے نصوص قرآنی پر رکھی تھی ، حکومت دیمقراطیہ سے بدل دیا ،جس میں پبلک جس کو مناسب سمجھے اس کو قائد چن لے حالانکہ صحابہ کلمہ

دیمقراطیہ کو تو جانتے ہی نہ تھے کیونکہ یہ عربی نہیں ہے اس کی جکہ نظام شوری کو جانتے وپہچانتے تھے (1)۔ آج جو لوگ نصی خلافت کو نہیں مانتے وہ نظام دیمقراطی کے علمبردار ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں سب سے پہلے اسلام نے اس نظام کو جاری کیا ہے ۔ یہی لوگ اجتہاد وتجدید کے نعرے لگاتے ہیں اور یہ لوگ بڑی حد تک مغربی نظام سے قریب ہیں ، اسی لئے مغربی حکومتیں ان لوگوں کی بڑی تعریفیں کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ درحقیقت یہی لوگ ترقی پسند مسلمان ہیں ۔
لیکن شیعہ حضرات حکومت ثیوقراطیہ کے قائل ہیں ( یعنی خدائی حکومت کے) اور یہ لوگ نص کے مقابلے میں اجتہاد کو قبول نہیں کرتے ۔ یہ لوگ حکومت ا لہی اور حکومت شورائی میں فرق کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک شوری کا نصوص سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اجتہاد وشوری صرف ان مقامات پر قابل قبول ہے جہاں پر قرآن یا رسول کی نص موجود نہ ہو ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جس خدا نے محمد (ص) کو رسول بنا کر بھیجا اسی نے ان کو حکم دیا "وشاورھم فی الامر "(پ 4 س 3 (آل عمران) آیت 159) اور ان سے (حسب دستور سابق)کا م کاج میں مشورہ کرلیا کرو۔۔۔۔لیکن جہاں تک قیادت بشر (امامت وخلافت )کا سوال ہے اس میں خدا کا حکم ہے " وربکم یخلق ما یشاء ویختار ما کان لهم الخیرة "( پ 20س 28 (قصص) آیت 68) اور تمہار پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور( جسے چاہتا ہے ) منتخب کرتا ہے اور یہ انتخاب لوگوں کے اختیار میں نہیں ہے ۔ پس شیعہ چونکہ رسول خدا کے بعد حضرت علی کی امامت کے قائل ہیں اس لئے وہ نص سے تمسک کرتے ہیں اور اگر وہ صحابہ پر طعن کرتے ہیں تو صرف صحابہ پر جنھوں نے نص کو چھوڑ کر ذاتی رائے پر عمل کرنا شروع کردیا ، اور اس طرح حکم خدا اور رسول  کو ضائع وبرباد کردیا اور اسلام میں اتنا بڑا شگاف پیدا کردیا جو آج تک پر نہ ہوسکا ۔ اور اسی لئے مغربی حکومتیں اور ان کے مفکرین شیعوں کو ناپسند کرتے ہیں اور ان کو متعصب ورجعت پسند کہتے ہیں ۔ کیونکہ شیعہ قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں جو قرآن چور کے ہاتھ کاٹنے کا زانی کو رجم کرنے کا جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیتا ہے اور یہ ساری باتیں ان کی نظر میں
--------------
(1):-ویسے واقعہ یہ ہے کہ جمہوری نظام پر بھی انتخاب نہیں کیا گیا کیونکہ جن لوگوں نے ابوبکر کو چنا تھا وہ کسی بھی طرح عوام کے نمائندے نہ تھے

جنگی پن اور بربریت ہیں ۔
اس بحث کے درمیان میں بات کو اچھی طرح سمجھ گیا ، کہ دوسری صدی ہجری سے اجتہاد کا دروازہ سنیوں نے کیوں بند کردیا اس لئے کہ اسی اختہاد نے امت مسلمہ کو مصائب ،پریشانیوں ،ایسی خونی جنگوں میں مبتلا کردیا  جس نے ہر خشک وتر کو تباہ کردیا ، اسی اجتہاد نے اس خیر امت کو ایسی پست قوم میں مبتلا کردیا ۔ جس میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے ۔جس پر قبائل نظام کی حکمرانی ہے جو اسلام سے پھر جاہلیت کیطرف پلٹ چکی ہے ۔البتہ شیعوں کے یہاں جب تک نصوص موجود ہیں اجتہاد کادروازہ بھی کھلا ہے کسی کو ان نصو ص میں تبدیلی کاحق نہیں ہے اور اس سلسلہ میں شیعوں کی سب سے زیادہ مدد ان بارہ اماموں نے کی ہے جو اپنے جد (رسول خدا ) کے علوم کے وارث تھے کیونکہ ان تمام ائمہ کی روش ایک تھی ،اور ان کہنا تھا : دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں خدا نے حکم نہ دیا ہو اور رسول نے اس کو بیان نہ کیا ہو (یعنی ان کے یہاں ذاتی راۓ کی گنجائش نہیں ہے)۔اور میں اس بات کو بی سمجھ گیا کہ جب اہل سنت والجماعت نے ان اصحاب کی اقتدا ء کی جو ایسے مجتہد تھے ۔ کہ جنھوں نے احادیث نبوی کو قلمبند کرنے سے روک دیا تھا ۔ تو غیاب نصوص کی صورت میں یہ لوگ رائے ،قیاس ، استصحاب پر عمل کرنے کیلئے مجبور ہوگئے ۔اور ان تمام باتوں سے یہ بھی سمجھ گیا کہ شیعہ علی بن ابی طالب ہی سے وابستہ رہے جو باب مدینۃ العلم تھے " اورجو لوگوں سے کہا کرتے تھے ۔ مجھ سے ہر چیز کے بارے میں پوچھ سکتے ہوکیونکہ رسول خدا نے مجھے علم کے ہزار بات تعلیم کردیئے ہیں اور ایک ایک باب سے ہزار ہزار بات میرے اوپر کھل گئے ہیں (1)۔اور غیر شیعہ معاویہ ابن ابی سفیان سے چپک گئے جس کوسنت نبوی کا علم ہی نہیں تھا اگر تھا بھی تو بہت ہی کم ۔ اور یہی معاویہ جو باغی گروہ کا لیڈر تھا حضرت علی (ع) کی وفات کے بعد مومنین کا امیر بن بیٹھا اور دین خدا میں اپنی رائے پر اتنا زیادہ عمل کیا کہ اس کے پیشرو اس سے کہیں پیچھے رہ گئے اور اہلسنت حضرات فرماتے ہیں معاویہ کاتب وحی تھا ۔ اور علمائے مجتہدین میں سے تھا میری سمجھ میں بات نہیں آئی کہ جس نے امام حسن سید شباب اہل الجنہ کو
--------------
(1):- تاریخ دمشق ج 2 ص484 حالات حضرت علی ،مقتل الحسین (خوارزمی )ج 1 ص 38 ،الغدیر (امینی)ج 3 ص 120

زہر سے قتل کرایا ہو یہ لوگ اس کو کیونکر مجتہد مانتے ہیں ؟ شاید اس کا بھی جواب یہ لوگ دیں کہ یہ بھی اس کا اجتہاد تھا اس نے اجتہاد کیا مگر اس میں غلطی ہوگئی ۔۔۔۔
نہ معلوم یہ لوگ اس شخص کو کیونکر مجتہد کہتے ہیں جس نے امت سے ظلم وجبر کے ذریعہ اپنے لئے پھر اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کیلئے بیعت لی اور نظام شوری کو شہنشاہی میں بدل دیا ؟ جس شخص نے لوگوں کو حضرت علی اور ذریت مصطفی پر منبروں سے لعنت کرنے پر مجبور کیا ہو اور یہ سنت سئیہ ساٹھ سال تک جاری  رکھی ہو اس کو یہ لوگ کیونکر مجتہد تسلیم کرکے ایک اجر کا مستحق قراردیتے ہیں ؟ اور اس کو کاتب الوحی کس طرح کہتے ہیں؟ ۔۔۔کیونکہ رسول اللہ پر 23 سال تک وحی نازل ہوتی رہی اس 23 سال میں 11 سال تک معاویہ مشرک رہا اور رسول خدا فتح مکہ کےبعد مکہ میں اقامت پذیر نہیں ہوئے اور معاویہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا اس کے بعد کوئی ایسی روایت مجھے نہیں ملی کہ معاویہ نے مدینہ میں سکونت کی ہو پھر معاویہ کسی طرح کاتب وحی ہوگیا ؟ لا حول ولا قوة الا با الله العلی العظیم
میں وہی پرانا سوال پھر دہراتاہوں کہ دونوں میں سے کون حق پر تھا اور کون باطل پر تھے ۔ اوریا پھر معاویہ اور اس کے پیروکار ظالم تھے اور باطل پر تھے حالانکہ رسول  خدا نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کردیا تھا ، اگرچہ بعض سنی جو  مدعی سنت ہیں اس میں کج بحثی کرتے ہیں اور مجھ پر بحث کے دوران اور معاویہ کا دفاع کرنے والے حضرات سے گفت وشنید کرنے کے بعد یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ معاویہ اور اس کے پیروکار سنت رسول کے بہر حال پیرو نہیں تھے خصوصا اگر کوئی ان کے حالات پر مطلع ہوجائے تو اسے بھی اس کا یقین ہوجائے گا کیونکہ یہ لوگ شیعیان علی سے بغض رکھتے ہیں،۔ عاشور ہ کے دن عید مناتے ہیں ، جن اصحاب نے رسول  خدا کو ان کی زندگی میں اذیت پہونچا کران کی زندگی اجیرن کردی تھی ، ان کا دفاع کرتے ہیں ان کی غلطیوں کو سراہتے ہیں ، ان کے اعمال کوجائز قراردیتے کی کوشش کرتے ہیں ۔
بھائی یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ حضرت علی اور اہلبیت کو بھی دوست رکھیں اور ان کے دشمنوں اور قاتلوں کو رضی اللہ بھی کہتے رہیں ؟ کیایہ ہوسکتا ہے کہ آپ خدا اور رسول کو بھی دوست رکھیں اورجو لوگ

خدا اور رسول (ص) کے احکام کوبدل دیتے ہیں اور احکام الہی میں اپنی رائے سے اجتہاد وتاویل کرتے ہیں انکا بھی دفاع کریں ؟
جو شخص رسول اللہ کا احترام نہ کریں بلکہ ان پر ہذیان کا اتہام لگائے آپ لوگ کیسے اس کا احترام کرتےہیں ؟ جو لوگوں کو اموی یا عباسی حکومت نے اپنے سیاسی اغراض کے پیش نظر امام بنایا ہو اس کی تو آپ لوگ تقلید کرتے ہیں ؟ اور جن  کے اسماء(1)۔ اور تعداد (2) تک کو رسول اللہ نے معین کرکے بتادیا ہو ان کو آپ چھوڑ دیتے ہیں ؟ آخر یہ کون سی عقلمندی ہے ؟ جو شخص نبی کی صحیح معرفت نہ رکھتا ہو اس کی تو تقلید کیجائے اورجو باب مدینۃ العلم ہو اور بمنزلئ ہارون ہوا سکو چھوڑ دیا جائے
--------------
(1):-صحیح بخاری ج 4 ص 164 ،مسلم ص 119 فی باب الناس تبع لقریش
(2):- ینا بیع المودۃ

اہل سنت والجماعت کی اصطلاح  کا موجد؟
میں نے تاریخ میں بہت ڈھونڈ ھا لیکن مجھے صرف اتنا ملا کہ جس سال معاویہ تخت حکومت پر بیٹھا سب نے مشفق ہو کر اس سال کا نام " عام الجماعت " رکھ دیا ۔واقعہ یہ ہے کہ عثمان کے قتل کئے جاسے کے بعد امت دوحصوں میں بٹ گئی (1) شیعیان علی (2) پیروان معاویہ اور جب حضرت علی شہید کردیئے گئے اور معاویہ نے امام حسن صلح کرلی اور معاویہ امیر المومنین بن گیا تو اس سال کا نام " عام الجماعۃ " رکھا گیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہل سنت والجماعت وہ جماعت ہے جو سنت معاویہ کی پیروی کرتی ہے اور معاویہ پر اجتماع کرتی ، اس کا مطلب رسول اللہ کی پیروی کرنے والی جماعت نہیں اسلئے ماننا پڑیگا کہ اہلبیت رسول ہی اپنے جد کی سنت کوسب سے زیادہ جاننے والے ہیں نہ یہ طلقاء ! اس لئے کہ گھر والے ہی گھر کی بات کو زیادہ جانتے ہیں اور مکہ والے ہی مکہ کی گھاٹیوں کو سب سے زیادہ جانتے ہیں ، لیکن ہم نے ائمہ اثنا عشر کی مخالفت کی جن کے رسول خدا نے نص کردی تھی ، اور بارہ اماموں کے دشمنوں کی ہم نے پیروی شروع کردی ۔
اور اس حدیث کے اعتراف کے باوجود جس میں رسول خدا نے بارہ12 خلیفہ کاذکر فرمایا ہے اور کہا ہے یہ سب کے سب قریش سے ہوں گے ۔ہم جب بھی خلفاء کا شمار کرتے ہیں ۔ چوتھے خلیفہ پرآکر ٹھہر جاتے ہیں ۔ اور شاید معاویہ نے ہم لوگوں کانام جو اہل سنت والجماعت رکھا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت علی وار اہل بیت کے لئے اس نے جو لعنت کی سنت جاری کی ہے اس پر لوگ مجتمع ہوجائیں اور معاویہ کی یہ سنت 60 سال تک جاری رہی عمربن عبدالعزیز کے علاوہ کوئی اس کو ختم نہیں کرسکا اسی لئے بعض مورخین کا بیان ہے کہ عبدالعزیز اگر چہ خود بھی اموی تھا لیکن بنی امیہ نے اس کے قتل کا پلان آپسی مشورہ سے تیار کرلیا تھا ، کیونکہ (اس نے سنت (یعنی حضرت علی پر لعنت ) کو ختم کردیا تھا

اے میرے خاندان والو! اے میرے گھر والو ہم کو تعصب چھوڑ کر حق کو تلاش کرنا چاہیئے ۔کیونکہ ہم بنی عباس کے بھینٹ چڑھائے ہوئے ہیں ہم بزرگوں کے جمود فکری کے شکار ہوئے ہیں ہم تو معاویہ ،عمر وعاص ،مغیرہ بن شعبہ جیسے چالاک ومکار لوگوں کی مکاری وچالبازی کے شکار ہوئے ہیں ۔۔۔ اپنی حقیقی اسلامی تاریخ کو تلاش کرو تاکہ روشن حقائق تک ہماری رسائی ہوسکے ۔خدا اس کا دہرا اجر دےگا ۔ہوسکتا ہے تمہارے ہی ذریعہ سے خدا ورسول اسلام کے بعد مصائب میں گرفتار امت مسلمہ کے افتراق کو اتفاق سے بدل دے یہ امت 73 فرقوں میں بٹ چکی ہے ممکن ہے تمہاری وجہ سے پھر ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردے ۔
آؤ آؤ ہم سب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور اتباع اہلبیت کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوکر امت مسلمہ کو متحد کرسکیں ۔ اہل بیت رسول وہ ہیں جن کی اتباع کا حکم رسول خدا نے ہم کو دیا ہے اور فرمایا ہے ، اہل بیت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے ۔ اور ان سے پیچھے بھی نہ رہ جانا ورنہ ہلاکت تمہار ا مقدر بن جائے گی ۔ ان کو تعلیم دینے کی کوشش نہ کرنا یہ تم سب سے زیادہ عالم ہیں (1)
اگر ہم ایسا کریں گے تو خدا اپنی ناراضگی اور اپنے غضب کو ہم سے اٹھالے گا ۔اور خوف کے بعد ہمارے لئے امن قرار دے گا اور ہم کو زمین پر متمکن بنادےگا اور ہم کو زمین پر خلیفہ بنادےگا اور ہمارے لئے اپنے ولی الامام المھدی (عج) کو ظاہر کردے گا۔ جن کیلئے رسول اللہ (ص) نے ہم سے وعدہ کیا ہے ، وہ ظاہر ہو کر دنیا کو عدل ،انصاف سے اسی طرح پر کردیں گے جس طرح ہو پہلے ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ۔ اور انھیں کے ذریعہ پوری زمین میں خدا اپنے نور کو مکمل کرےگا ۔
--------------
(1):- الدر المنثور (سیوطی) ج 2 ص 60 اسد الغابہ ج 3 ص 127 الصوعق المحرقہ (ابن حجر) ص 148،226 ،ینا بیع المودۃ ص 41 و355 کنز العمال ج 1ص 168 مجمع الزوائد ج 9 ص 163

مناظرہ کی دعوت
یہ تبدیلی میری روحانی سعادت کا سبب بنی کیونکہ میں نے نئے مذہب کے انکشاف یا اسلام حقیقی تک رسائی کی وجہ سے ضمیر کی راحت ودل کی فرحت کا احساس کیا اور خوشبو ں نے مجھے گھیر لیا اور خدا کی نعمت ہدایت ورشاد سے سرشار ہوگیا اور اب میرے دل میں جو خیالات تھے ان کے چھپانے پر میں کسی طرح قادر نہیں تھا ۔ چنانچہ میں نے اپنے دل میں کہا بمفاد آیۃ "واما بنعمۃ ربک فحدث " اپنے دل کی بات کا لوگوں سے بیان کرنا ضروری ہے اور یہ نعمت ایمان  توبہت بڑی نعمت ہے دنیا وآخرت میں نعمت کبری کہلانے کی یہی مستحق ہے نیز حق بات نہ کہنے والا گونگا شیطان ہے اور حق کےبعد تو گمراہی کے سواکچھ نہیں ہے ان سب باتوں کو سوچتے ہوئے اظہار کرنا ضروری سمجھا اور جس بات نس اس حقیقت کو نشر کرنے کیلئے میرے شعور کو مزید یقین وپختگی بخشی وہ اہل سنت والجماعت کی اہل بیت سے دور تھی ، میں نے سوچا ہوسکتا ہے تاریخ نے ان کے ذہنوں پر جو حال بچھا رکھا ہے وہ پردہ اٹھ جائے اوریہ لوگ بھی حق کی پیروی کنے لگیں یہ میری شخصی وذاتی رائے تھی ۔ "کذالک کنتم من قبل  فمن الله علیکم "(پ 5 س 4 (نساء ) آیة 94 )(مسلمانو) پہلے تم خود بھی تو ایسے ہی تھے پھر خدانے تم پر احسان کیا (کہ تم بے کھٹکے مسلمان ہوگئے )
چنانچہ معہد میں جو چاراساتذہ میرے ساتھ کام کرتے تھے میں نے ان کو دعوت دی ، ان میں سے دوتو دینی تربیت دیتے تھے ، اور تیسرا زبان عربی کا استاد تھا اور چوتھا اسلامی فلسفہ کا استاد تھا اور یہ چاروں قفصہ کے نہیں تھے ، بلکہ ٹیونس ،جمال سوسہ  کے رہنے والے تھے میں نے ان لوگوں سے کہا آپ لوگ اس عظیم موضوع پر مجھ سے بحث کیجئے میں نے انپر ہی ظاہر کیا تھا کہ میں بعض چیزوں کو سمجھ نہیں پایا ہوں اور اس سلسلہ میں بہت مضطرب وپریشان ہوں اس لئے آپ حضرات میری رہنمائی فرمائیں ۔سب نے

وعدہ کرلیا کہ چھٹی کےبعد میرے گھر پر آئیں گے میں نے ان کو کتاب "المراجعات"پڑھنے کو دیا کہ اس کتاب کا مولف عجیب وغریب باتوں کا دعوی کرتا ہے ان میں سے تین نے تو کتاب کو بہت پسند کیا ۔ لیکن چوتھے نے چارپانچ نشستوں کے بعد یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کرلی ، مغرب چاند پر کمند ڈال رہا ہے اورآپ لوگ ابھی تک خلافت اسلامیہ کےچکر میں الجھے ہیں ۔
ہم نے ایک ماہ کے اندر ابھی کتاب ختم بھی نہیں کی تھی کہ وہ تینوں شیعہ ہوگئے ، اس سلسلہ میں میں نے بھی حقیقت تک پہونچنے میں ان کی بڑی مدد کی کیونکہ دوران تحقیق میری معلومات کا فی وسیع ہوگئی تھیں اور میں ہدایت کامزہ چکھ چکا تھا ، اس کے بعد میں نے عادت بنائی کہ ہر مرتبہ قفصہ کے دوستوں میں سے اور مسجد میں دروس کہنے کہ وجہ سے لوگ مجھ سے رابطہ رکھتے تھے ان میں سے صوفیت کے رشتہ  کی بنا پر جن لوگوں سے تعلقات استوار تھے ان میں سے اور بعض ان شاگردوں میں سے جو ہمہ وقت مجھ سے اتصال رکھتے تھے ،ان میں  سے کسی نہ کسی ایک کو بلاتا رہتا تھا اور تبلیغ کرتا رہتا تھااور ابھی ایک سال ہی گزر ا تھا کہ ہماری تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ۔ ہم اہلبیت کو اور ان کے دوستوں کو دوست رکھتے تھے ، اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے تھے عیدوں میں خوشی مناتے تھے اور عاشورہ کو غم مناتے تھے مجلس کرتے تھے ، جب میں نے قفصہ میں پہلی مرتبہ محفل عید غدیر منعقد کی تو اسی کی مناسبت سے سب سے پہلا خط اپنے شیعہ ہوجانے کا السید الخوئی اور السید محمد باقر الصدر کو تحریر کیا اور میرا معاملہ خاص وعام کے نزدیک مشہور ہوچکا تھا کہ میں شیعہ  ہوگیا ہوں ، اور آل رسول کے تشیع کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہوں اور پھر اسی کے ساتھ ساتھ میرے خلاف اتہامات والزمات کا سلسلہ بڑے زور وشور سے شروع ہوگیا ۔ مثلا میں اسرائیل کا جاسوس ہوں میرا کام ہی یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے دین کے معاملہ میں مشکوک بنادوں ،یا مثلا میں صحابہ کو گالیاں دیتا ہوں یا میں بہت بڑا فتنہ پرداز ہوں وغیرہ وغیرہ ۔
دارالسلطنت ٹیونس میں میں نے اپنے دوستوں راشد الغنوشی اور بعد الفتاح مورو سے اتصال پیدا کیا ان دونوں سے بڑی سخت بحث ہوئی ۔ ایک دن عبدالفتاح کے گھر بات کرتے ہوئے میں نے کہا مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے اوپر اپنی کتابوں کا پڑھنا ،تاریخوں کا مطالعہ کرنا واجب ہے

اور میں نے بطور مثال کہا جیسے بخاری میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کو نہ عقل قبول کرتی ہے نہ دین قبول کرتا ہے بس اتنا کہنا تھا کہ دونوں بھڑک اٹھے ،آپ کون ہیں بخاری پر تنقید کرنے والے ؟ اس کے بعد میں نے بہت کوشش کی کہ ان کو قانع کرکے پھر سے بحث کا سلسلہ شروع کروں لیکن ان لوگوں نے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کرلی : اگر تم شیعہ ہوگئے ہو تو ہم تو کسی قیمت پر شیعہ نہ ہوں گے ہمارے پاس اس سے زیادہ اہم کام ہیں ، ہم کو اس حکومت کا مقابلہ کرنا ہے جو اسلام پر عمل نہیں کرتی میں نے کہا اس سے کیا فائدہ ہوگا ؟ جب اقتدار تمہارے ہاتھ میں آجائے گا اور تم خود اسلام کی حقیقت کو نہ پہچانتے ہوگے تو اس سے بھی زیادہ کروگے ،مختصر یہ کہ ملاقات کا خاتمہ نفرت پر ہوا ۔
اس کے بعد تو ہمارے خلاف شدید قسم کے پروپیگنڈے شروع ہوگئے اور اس میں اخوان المسلمین کے وہ لوگ بھی شریک ہوگئے جو اسلامی تحریک کے رخ کو نہیں پہچانتے تھے چنانچہ متوسط قسم کے طبقہ میں انھوں نے میرے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ یہ شخص حکومت کا ایجینٹ ہے اور مسلمانوں کو ان کے دین میں مشکوک بنانا چاہتا ہے تاکہ مسلمان جو حکومت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں اس سے غافل ہوجائیں ۔
اخوان المسلمین میں کام کرنے والے جوان اور صوفیت کاپرچار کرنے والے بوڑھے رفتہ رفتہ ہم سے الگ ہوگئے اورہم خود اپنے شہروں میں قبیلہ میں ، رشتہ داروں میں ، دوستوں میں اجنبی ہوکر رہ گئے اور یہ زمانہ بڑا سخت ہمارے اوپر گزرا ،لیکن خداوند عالم نے ہم کو ان کے بدلے میں  ان سے اچھے لوگ دیدئیے چنانچہ دوسرے دوسرے شہروں سے جوان آنے لگے اور مجھ سے حقیقت کےبارے میں سوال کرنےلگے اور میں اپنی حد بھر انتہا سے زیادہ کوشش کرکے ان کم مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا چنانچہ دارالسلطنت قیراوان ،سوسہ ، سید بو زید کے بہت سے جوان شیعہ ہوگئے اور میں اپنی گرمیوں کی تعطیلات منانے کیلئے عراق جاتے ہوئے یورپ سے بھی گزرا جہاں اپنے بعض دوستوں سے ملاقات کی جو فرانس یا ہا لینڈ میں تھے اور ان سے جب اس موضوع پر بات کی توہ لوگ بھی شیعہ ہوگئے ، الحمد لله علی ذلک
جب میں نے نجف اشرف جاکر سید محمد باقر الصدر کے گھر میں ان سے ملاقات کی اور اس جگہ کچھ دیگر علماء

بھی تھے تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور سید صدر نے مجھے آگے بڑھا کر سب سے متعارف کرانا شروع کیا کہ یہ ٹیونس میں تشیع کے بیج ہیں اور اسی کے ساتھ انھوں نے بتایا کہ جب ان کا پہلا خط عید غدیر کی محفل کے سلسلے میں میرے پاس آیا تو میں اتنا متاثر ہو ا کہ بیساختہ میری آنکھوں سےآنسو بہنے لگے تب میں نے ان سے شکایت کی کہ میرے خلاف پروپیگنڈے کئے جارہے ہیں اور مجھے گوشہ نشینی اختیار کرنی پڑگئی ہے اور یہ باتیں اب میرے برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہیں !
اس وقت سید نے اپنے کلام کے درمیان فرمایا : بھائی یہ زحمتیں تو تم کو برداشت کرنی ہوگی کیونکہ اہل بیت کا راستہ بہت دشوار وسخت ہے ایک شخص نے پیغمبر (ص) کے پاس آکر کہا میں آپ کو دوست رکھتا ہوں تو آنحضرت نے فرمایا " تم کو کثرت ابتلاء کی بشارت دیتا ہوں ،پھر اس نے کہا میں آپ کے ابن عم علی ابن ابی طالب(ع)  سے بھی محبت کرتاہون تو رسول(ص) نے کہا" میں تجھ کو کثرت اعداء کی بشارت دیتاہوں ، پھر اس نے کہا ! میں حسن وحسین کوبھی دوست رکھتا ہوں تو فرمایا " پھر فقر اور کثرت بلاء کے لئے تیار ہوجاؤ ، ہم نے دعوت حق کے سلسلہ میں کیا پیش کیا ہے ؟ امام حسین علیہ السلام کو دیکھو انھوں نے دعوت حق کی قیمت اپنی ، اپنے اہل وعیال کی، ذریت وخاندان کی ، اصحاب وانصار کی قربانی پیش کرکے ادا کی ہے اور مرور زمانہ کے ساتھ شیعوں ن ےجو قربانیاں دی ہیں ،اور آج تک دیتے چلے آرہے ہیں ان کے مقابلہ میں ہم نے کیا کیا ؟ برادر اس قسم کی پریشانیوں اور راہ حق میں قربانی کی مشقت کاتحمل کرو ، اگر تمہارے ذریعہ سے ای آدمی ہدایت یافتہ ہوجائے تویہ تمہارے لئے دنیا ومافیھا سے بہتر ہے ،
اسی طرح سید نے مجھے نصیحت کی کہ گوشہ نشینی اختیار نہ کرو اورحکم دیا کہ برادران اہل سنت کے قریب رہو چاہے وہ تم سے کتنے ہی دور ہونے کی کوشش کریں تم ان سے قربت اختیار کرو ۔ نیز مجھے حکم دیا کہ ان کے ساتھ نماز جماعت پڑھوں تا کہ قطع تعلق نہ ہونے پائے کیونکہ یہ لوگ اپنے بزرگوں اور واہیات تاریخ کے قربان گاہ پر بھینٹ چرھادیے گئے ہیں ۔ اور لوگ جس سے واقف نہیں ہوتے اس کے دشمن تو ہوتے ہی ہیں

اسی طرح تقریبا السید الخوئی نے بھی مجھے نصیحت فرمائی اور سید محمد علی طباطبائی الحکیم نے بھی اسی قسم کی نصیحت کی اور برابر اپنے متعدد خطوط میں اس قسم کی نصیحتیں تحریر کرتے رہے جس کا اثر ہمارے نئے شیعہ بھائیوں پر بہت ہوا ، اس کے بعد مختلف مواقع پر نجف اشرف اور علمائے نجف کی زیارت سے مشرف ہوتا رہا اور میں نے اپنی جگہ طے کر لیا تھا کہ ہرقیمت پر ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں نجف اشرف میں گزارا کرونگا اور سید محم باقر الصدر کے دروس میں شرکت کیا کروں گا کیونکہ اس کے دروس سے میں سے کافی استفادہ کیاتھا ۔اسی طرح یہ بھی طے کر لیا تھا کہ بارہ اماموں کی زیارت بھی کروں گا چنانچہ خدانے میری تمنا پوری کردی ،یہاں تک کہ میں امام رضا کی زیارت سے بھی مشرف ہوا جن کامزار ایران  کے ایک شہر مشہد میں ہے  جو روس کی سرحدوں سے قریب ہے وہاں بھی میں نے بڑے علماء سے ملاقات کی اور استفادہ کیا ، سید خوئی جن کی میں تقلید کرتاہوں انھوں نے خمس وزکاۃ میں تصرف کا وکالتنامہ بھی دیا تاکہ اس سے شیعہ ہونے والے مسلمانوں کی کتابوں وغیرہ  سے مدد کرتا رہوں اور میں نے ایک عظیم کتابخانہ بنا یا جس میں وہ اہم کتابیں  بہر حال جمع کردیں جن کی ضرورت بحث کے وقت ہوتی ہے اس میں سنی وشیعہ دونوں کی کتابیں موجود ہیں اس کا نام " مکتبۃ اہل البیت (ع)" ہے اس سے بہت لوگوں نے استفادہ کیا ہے ،خداوند عالم نے میری خوشی کو دگنا اور میری سعادت کو اس وقت دگنا کردیا جب تقریبا پندرہ سال پہلے میں  نے شہر قفصہ کے حاکم سے خواہش کی کہ جس سڑک پر میں رہتا ہوں اس کا نام " شارع الاما م علی " رکھ دیا جائے اور اس نے قبول کرلیا لہذا میں اس کا شکر گزار ہوں یہ حاکم حضرت علی طرف بہت جھکاؤ رکھتا ہے میں نے اس کو بطور تحفہ "المراجعات" بھی دی ۔خدا اس کو جزائے خیر دے اور اس کی تمنا پوری کرے لیکن بعض حاسدوں نے ا س بورڈ کو ہٹاناچاہا مگر خدانے ان کو ناکامیاب بنادیا ، اور اب دنیا کے ہر گوشہ سے میرے پاس جوخطوط آتے ہیں ان کے پتہ پر "شارع امام علی" لکھا ہوتا ہے اس مبارک نام سے ہمارے قدیم شہر کو بہت برکت عطا کی ، ائمہ معصومین او رعلمائے نجف کی نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے دیگر مسلمان بھائیوں سے عمدا قربت پیدا کرتا ہوں ، انھیں کے ساتھ جماعت پرھتا ہوں جس سے کھینچاؤ میں کافی کمی آگئی ہے اور جوانوں کو اپنی نماز وضو ،عقائد کے سلسلہ میں جب وہ سوال کر تے ہیں تو کافی حد تک مطمئن کردیتا ہوں ۔

حق کی جیت
جنوب ٹیونس کے کسی دیہات میں ایک شادی میں چند عورتیں آپس میں گفتگو کررہی تھیں کہ فلاں شخص کی بیوی جس کا یہ نام ہے وہ ۔۔۔۔۔اور ان عورتوں کے بیچ میں ایک بیٹھی ہوئی بوڑھی عورت ان کی گفتگو سن رہی تھی کہ فلاں کے ساتھ فلاں  کی لڑکی  کی شادی ہوگئی تو اس کو بہت تعجب ہوا ۔ عورتوں نے اس بوڑھی عورت سے پوچھا کہ تم کو اس پر تعجب کیوں ہورہا ہے؟ اس نے کہا میں نے دونوں کو دودھ پلایا ہے وہ آپس میں بہن بھائی ہیں ، پس پھر کیا تھا عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے ذکر کیا اور جب مردوں نے تحقیق کی تو بات صحیح ثابت ہوئی ،لڑکی کے والد نے بھی اعتراف کیا اور لڑکے کے والد نے بھی کہا کہ  اس بڑھیا نے دودھ پلایا ہے پھر تو دونوں قبیلوں میں قیامت آگئی اور وہ لاٹھی چلی کہ خدا کی پناہ ہر ایک دوسرے پر الزام لگارہا تھا کہ اس حادثہ کا سبب دوسرا ہے ، اور اب ان پر قیامت آئےگی خدا کا قہر نازل ہوگا ، مشکل اور اس لئے بھی بڑھ گئی تھی کہ شادی کو دس سال ہوچکے  تھے اور تین بچے  بھی پیدا ہوچکے تھے آخر  ان کا کیا ہوگا ۔ عورت تو سنتے ہی اپنے  باپ کے گھر بھاگ گئی۔ اور کھانا پینا چھوڑ دیا  ،خودکشی پر آمادہ ہوگئی کیونکہ وہ یہ صدمہ نہیں برداشت کرسکی کہ اس نے اپنے بھائی سے شادی کرلی اور اس سے بچے بھی پیدا ہوگئے اور اس کو ذرہ برابر خبربھی نہ تھی  مارپیٹ  میں  دونوں طرف کے لوگ زخمی  ہوگئے خدا خدا کرکے ایک شیخ قبیلہ کے بیج بچاؤ  کرنے پر لڑائی ختم ہوئی اور اس شیخ نے دونوں کو نصیحت کی کہ اس سلسلہ میں علماء سے رجو ع کرو ہوسکتا ہے وہ لوگ کوئی ایسا فتوی  دیدیں جس سے مسئلہ کا حل مل جائے ۔ اب یہ لوگ آس پاس کے بڑے بڑے شہروں میں جا جا کر علماء سے سوال کرتے  لیکن جب بھی کسی عالم سے ملاقات کرکے پورا قصہ سناتے تو وہ فورا شادی کو حرام کہہ دیتا اور میاں بیوی  میں علیحدگی کرانے کا حکم دیتا کہ ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے سے جدا کر دو ، ایک غلام آزاد کرو ۔ دومہینے کا مسلسل روزہ رکھو اسی قسم کے دیگر فتاوی سے پالا پڑتا ،

ہوتے ہوتے یہ لوگ قفصہ بھی پہونچے وہاں کے علما نے بھی وہی جواب دیا کیونکہ مالکی فرقہ کے یہاں ایک قطرہ دودھ پینے سے نشر حرمت ہوجاتی ہے اس لئے کہ امام مالک کا فتوی یہی ہے کیونکہ امام مالک دودھ کا قیاس شراب پر کرتے ہیں جیسے اگر کوئی چیز ایسی ہو کہ اس کے زیادہ مقدار استعمال کرنے سے نشہ پیدا ہوجاتا ہو تو اس چیز کی قلیل مقدار بھی حرام ہوجائےگی ، لہذا ایک قطرہ دودھ بھی نشر حرمت  کا سبب ہوگا لیکن یہاں پر ایک شخص نے ان لوگون کو تنہائی میں چپکے سے میرا پتہ بتایا اور کہا: اس معاملہ میں تم لوگ تیجانی سے سوال کرو وہ ہرمذہب کو بہت اچھی طرح جانتا ہے میں نے خود دیکھا ہے کہ اس نے ان علماء سے کئی مرتبہ بحث ومناظرہ کیا  اور ہر مرتبہ سب کو شکست دے دی۔
یہ باتیں مجھے شوہر نے اسو وقت بتائیں جب میں نے ان لوگوں کو اپنے کتب خانہ میں لے گیا اور انھوں نے پورا واقعہ شروع سے آخر تک تفصیل کے ساتھ مجھے بتایا اور اس نے کہا مولانا : میری بیوی خود کشی پر آمادہ ہے میرے بچے آوارہ ہورہے ہیں ، میرے پاس اس قضیہ کا کوئی حل نہیں ہے ، لوگوں نے آپ کا پتہ بتایا اور یہاں آکر جب میں نے اتنی کتابیں دیکھیں تو خوش ہوگیا کہ میرا مسئلہ حل ہوجائے گا کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی کتابیں کہیں نہیں دیکھیں۔
میں نے پہلے تو قہو ہ پیش کیا پھر پوچھا کہ تمہاری بیوی نے کتنی مرتبہ اس عورت کا دودھ پیا تھا اس نے کہا یہ تو میں نہیں جانتا لیکن میری بیوی نے دو یا تین مرتبہ دودھ پیا ہے اور اس کے باپ نے بھی یہی بتایا ہے کہ وہ دو تین مرتبہ اپنی بیٹی کو اس بڑھیا کے پاس دودھ پلانے کیلئے لےگیا تھا ، اس پر میں نے کہا اگر یہ بات صحیح ہے تو شادی درست ہے ۔ وہ بیچارہ دوڑ کر میرے قدموں پر گر پڑا کبھی میرا سر چومتا کبھی میرا ہاتھ چومتا اور کہتا جات خدا آپ کو نیکی عطا کرے آپ نے میرے لئے سکو ن کا دروازہ کھول دیااور  پھر جلدی سے اٹھ کر بھاگا نہ مجھ سے سوال کیا وار نہ قہوہ ہی ختم کیا اور نہ مجھ سے دلیل پوچھی جانے کے لئے اجازت لی تاکہ جلدی سے اپنی بیوی اور بچوں اور قبیلہ والوں کو یہ خبر سنائے ،
لیکن وہ دوسرے دن ساتھ آدمیوں کو لے کر میرے پاس آیا اور سب کو میرے سامنے کرتے ہوئے ہر ایک کا تعارف کرانے لگا ۔یہ میرے والد ہیں ، یہ میری زوجہ کے والد ہیں ، یہ دیہات کے سردار ہیں ۔ یہ امام جمعہ

جماعت ہیں ۔ یہ دینی مرشد ہیں ، یہ شیخ عشیرہ ہیں ، یہ مدیر مدرسہ ہیں یہ سب کے سب میرے پاس رضاعت کے مسئلہ کے سلسلہ میں آئے تھے کہ آپ نے اس کو کیونکر حل فرمایا ؟ میں سب کو کتب خانہ میں لیکر آیا اور مجھے امید تھی کہ یہ سب مجھ سے جھگڑا کرینگے ، میں نے سب  کو قہوہ پیش کیا اور مرحبا کہا : ان لوگوں نے کہا ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ جب رضاعت کو قرآن نے حرام کیا ہے تو آپ نے کیسے اس کو حلال کردیا؟ اور رسول نے فرمایا ہے : جو چیزیں نسب سے حرام ہوتی ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہوجاتی ہیں اور امام مالک نے بھی حرام قراردیا ہے !
میں :- میرے بزرگ آپ آٹھ آدمی ہیں اور میں اکیلا ہوں اگر میں سب سے بحث کروں تو شاید سب کو قانع نہ کرپاؤں  اور سارا وقت بحث ومناظرہ کے نذر ہوجائے اس لئے آپ اپنے میں سے ایک کو منتخب کرلیں وہ مجھ سے مناظرہ کرے اورآپ سب حکم ہوجائیں ،آپ کا فیصلہ دونوں کو تسلیم کرنا ہوگا ۔ سب نے  میری تجویز پسند کیا اور مرشد دینی کا انتخاب اس لئے ہوا کہ وہ سب سے زیادہ اعلم واقدر (قدرت رکھتے)ہیں۔
مرشد:- جس چیز کو خدا ورسول وائمہ نے حرام قراردیا ہے آپ نے کس دلیل سے اسکو حلال قراردیا ہے ؟
میں :- اعوذ باللہ ! بھلا میں ایسا کرسکتا ہوں ؟ قصہ یہ ہے کہ خدانے رضاعت کی آیت کومجمل اتارا ہے اس کی تفصیل نہیں بیان کی ہے بلکہ تفصیل رسول کے حوالہ کردی ہے اور انھوں نے کیف وکم کے ساتھ مقصد کو واضح کردیا ہے ۔
مرشد:- امام مالک ایک قطرہ سےبھی نشر حرمت کے قائل ہیں ۔
میں :- جی ہاں ! میں جانتا ہوں لیکن امام مالک تمام مسلمانوں کیلئے حجت نہیں ہیں ورنہ آپ دوسرےائمہ کو کیا کہیں گے ؟
مرشد :- خدا ان تمام ائمہ سے راضی اور ان کو بھی راضی کرے یہ سب کے سب رسول خدا کی بات کہتے ہیں
میں :- آپ خد ا کے سامنے کون سی حجت پیش کریں گے اس بات پر کہ آپ امام مالک کی تقلید کرتے ہیں اور ان کی رائے نص رسول کے خلاف ہوتی ہے  ؟
مرشد:- انھوں نے حیرت سے کہا سبحان اللہ !

میں  یہ نہیں مان سکتا کہ امام مالک جو امام دارالہجرہ ہیں وہ نصوص نبویہ کی مخالفت کرتے ہیں  حاضرین کو بھی تعجب ہوا تھا اور انھوں نے میری اس جراءت کو بہت ہی عجیب وغریب سمجھا کیونکہ مجھ سے پہلے کسی نے ایسا ریمارک امام مالک پر نہیں کیا تھا میں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کیا امام مالک کا شمار صحابہ میں ہوتا ہے؟
مرشد:- مرشد نے کہا  نہیں !
میں :- میں نے کہا  کیا ان کا شمار تابعین میں ہوتا ہے ؟
مرشد:- کہا ! نہیں بلکہ وہ تبع تابعین میں سے ہیں ۔
میں :- میں نے پھر کہا حضرت علی اور امام مالک میں کون زیادہ قریب ہے ؟
مرشد:- حضرت علی کیونکہ وخلفائے راشدین میں سے ہیں !حاضرین یمں سے ایک صاحب بولے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ باب مدینۃ العلم ہیں ، میں نے کہا :پھر آپ نے باب مدینۃ العلم کو چھوڑ کر ایسے شخص کی تقلید کیوں  کی جواز صحابہ میں سے ہے نہ تابعین میں سے  بلکہ جس کی ولادت فتنہ کے بعد ار لشکر یزید کے ذریعہ مدینۃ رسول  کے تاراج ہونے کے بعد ہوئی ہے یزید کے لشکر والوں  نے جو کچھ کرنا تھا کیا ،بہترین صحابہ کو قتل کردیا ، ہتک حرمت الہی کی خود ساختہ بدعت جاری کرکے سنت رسول کو بدل دیا ، اب آپ خود ہی سوچئے ان تمام حالات کے بعد ان ائمہ سے انسان کیونکر مطمئن ہوسکتا ہے ۔جو ظالم حکومت کے منظور نظر تھے اور حکومت کی مرضی ےک مطابق فتوی دیا کرتے تھے ۔
ایک شخص:- اتنے میں ایک شخص بولا : میں نے سنا ہے آپ شیعہ ہوگئے ہیں اور حضرت علی کی عبادت کرتے ہیں ؟ اتنا سنتے ہی اس کے بغل میں بیٹھے ہوئے آدمی نے اس کو ایسا گھونسا مارا جس سے اس کو کافی تکلیف پہنچی اور کہاچپ ہوجا ؤ تم کو شرم نہیں آتی  کہ ایسے فاضل شخص کے بارے میں ایسی بات کرتے ہو، میں نے بہت سے علما ء کو دیکھا ہے لیکن ابی تک میں نے کسی عالم کے پاس اتنا بڑا کتابخانہ نہیں دیکھا ، یہ شخص جو بات بھی کہہ رہا ہے بہت اعتماد وبھروسے اور اطمینان سے کہہ رہا ہے ۔میں :- میں نے فورا اس کو جواب دیا جی ہاں ! یہ صحیح ہے کہ میں شیعہ ہوں ،لیکن شیعہ حضرت علی کی پرستش نہیں کرتے بلکہ وہ امام مالک کے عوض حضرت علی کی تقلید کرتے ہیں جنکو آپ لوگ بھی باب مدینۃ العلم

کہتے ہیں ۔
مرشد:- کیاحضرعلی ایک عورت سے دوبچوں کی رضاعت کےبعد دونوں کی آپس میں شادی کو حلال کہتے ہیں ؟
میں :- نہیں ایسا تو نہیں کہتے لیکن وہ فرماتے ہیں : جب رضاعت پندرہ مرتبہ ہوا ہو اور بچہ ہر مرتبہ سیر ہوکر پئے اور پندرہ مرتبہ متواتر  پئے  درمیان میں کسی دوسری عورت کا دودھ نہ پئے  تو حرام ہے  ۔ پھر اتنا دودھ  پیئے کہ اس سے گوشت وپوست اگ آیئں  اتنا کہتے ہی زوجہ کے باپ کا چہرہ کھل اٹھا اور اس نے فورا کہا : الحمداللہ!
میری بیٹی نے تو صرف دو یاتین مرتبہ دودھ پیا ہے اور حضرت علی کے اس قول سے ہم ہلاکت سے بچ سکتے ہیں ان کا قول ہمارے لئے رحمت ہے ہم تو مایوس ہوچکے تھے ۔
مرشد:- اس پر دلیل پیش کیجئے تاکہ ہم مطمئن ہوسکیں ،میں نے السید الخوئی کی منھاج الصالحین پیس کردی اس نے خود باب رضاعت سب کو پڑھ کر سنا یا  وہ لوگ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے خصوصا شوہر  تو بہت ہی خوش تھا ۔ کیونکہ اس کو دڑ تھا کہ شاید میرے پاس کوئی ایسی دلیل نہ ہو جو ان کو مطمئن کرسکے ، ان لوگوں نے مجھ سے عاریتا کتاب مانگی تاکہ دیہات والوں کے سامنے حجت پیش کرسکیں میں نے کتاب دیدیا اور وہ لوگ مجھ سے رخصت ہوکر دعا دیتے ہوئے اور معذرت کرتے ہوئے چلے گئے میرے گھر سے نکلتے ہی میرا ایک دشمن ان لوگوں سے ملا اور ان لوگوں کو لیکر بعض علماۓ سوء کے پاس چلا گیا  ،بس پھر کیا تھا ، سبھوں نے ان لوگوں کوڈرانا شروع کردیا کہ میں اسرائیل کا ایجنٹ ہوں  اور منھاج الصالحین گمراہ کن کتاب ہے ،اہل عراق سب اہل کفر ونفاق ہیں ، شیعہ مجوسی ہیں یہ لوگ بہنوں سے نکاح جائز سمجھتے ہیں اس لئے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے جو میں نے نکاح کو جائز قرار دیا ہے اسی قسم کے پروپیگنڈے کرنے لگے اور ان لوگوں کواتنا ڈرایا کہ دوپھر پلٹ گئے اور مطمئن ہوجانے کے بعد منقلب ہوگئے اور شوہر کو مجبور یا کہ قفصہ کے ابتدائی عدالت کے محمکہ طلاق میں اس قضیہ کو پیش کرے پھر رئیس محمکہ نے کہا آپ لوگ دار السلطنت جائیں اور مفتی الجمہوریہ سے ملیں تاکہ وہ مسئلہ کا حل تلاش کریں ،چنانچہ شوہر ٹیونس گیا اور ایک ماہ وہاں

 قیام پذیر رہا تب مفتی صاحب سے ملاقات ہو پائی اور شروع سے لے کر آخر تک اس نے پورا قصہ مفتی صاحب کو سنا ڈالا ، مفتی صاحب نے پو چھا وہ کون سے علما ء جنھوں نے اس شادی کو حلال بتایا  ہے اور صحیح کہا ہے ،شوہر نے کہا سب نے ہی حرام بتایا ہے صرف ایک شخص تیجانی سماوی ہے جوحلال کہتا ہے مفتی صاحب نے میرا نام لکھ لیا اور شوہر سے کہا : تم واپس جاؤ میں عنقریب قفصہ کے رئیس محکمہ کو خط لکھوں گا ۔
پھر مفتی الجمہوریہ کاخط آیا اور شوہر کے وکیل کومطلع کیاگیا اس وکیل نے شوہر کو مطلع کردیا کہ مفتی جمہوریہ نے اس شادی کو حرام قراردے دیا ہے ،یہ سارا قصہ مجھ سے شوہر آکر بتایا جو بہت کمزور ہوچکا تھا تھکن کے آثار اس کے چہرے سے ظاہر  تھے اس نے مجھ سے بہت معذرت کی کہ میری  وجہ سے آپ کوبڑی پریشانی ہوئی ۔ میں نے اس کے جذبات کو سمجھ کر اس کا شکریہ ادا کیا اور مجھے بہت زیادہ تعجب ہوا کہ مفتی جمہوریہ نے اس عقد کو باطل کردیا ، میں نے شوہر سے کہاتم مجھے وہ خط لاکر دو جو مفتی جمہوریہ نے محکہمہ کو لکھا ہے تاکہ میں ٹیونس کے اخباروں میں اس کو شائع کراؤں  اور لوگوں کو بتاؤں  کہ مفتی الجمہوریہ  اسلامی مذاہب سے ناواقف ہے اور رضاعت کے بارے میں علماء کا کیا فقہی اختلاف ہے اس کو وہ نہیں جانتا لیکن شوہر نے کہا مجھے تو پورے حالات معلوم ہوسکتے  خط کا لانا تو بہت دشوار ہے یہ کہہ کر وہ میرے پاس سے چلا گیا ۔
چند دنوں بعد رئیس محکمہ کا ایک حکم میرے پاس آیا کہ تم وہ کتابیں  اور دلیلیں  لیکر میرے پاس حاضر  ہو اور ثابت کرو کہ وہ شادی کیون کر باطل نہیں ہے؟ میں نے پہلے ہی سے چند مدارک جمع  کررکھے تھے  اور ہر کتاب میں رضاعت  کی بحث کے اندر ایک نشانی رکھ دی  تھی تاکہ میں آسانی ہوچنانچہ میں تاریخ معین پر ٹھیک وقت پر عدالت پہنچ گیا ۔ کاتب الرئیس نے میرا استقبال کیا کاور مجھے رئیس کے کمرہ میں پہونچادیا دفعۃ میں نے وہاں محمکمہ ابتدائیہ کے رئیس ،محکمہ ناحیہ  ےک رئیس ،جمہور کے وکیل کو دیکھا اور ان کے ساتھ تین ارکار کو دیکھا سب کے سب قضاوت کے مخصوص لباس میں تھے معلوم یہ ہورہا تھا جیسے  یہ لوگ کسی قانونی  جلسہ میں شرکت کیلئے آئے ہو ۔اور پھر میری نظر کمرے کے آخر میں پڑی تو دیکھا ایک گوشہ

میں شوہر بھی بیٹھا ہوا ہے ۔ میں نے پہنچتے ہی سب پر سلام کیا سب ہی میری طرف بڑی ترچھی نظروں سے دیکھ رہے تھے بلکہ حقارت کی نظر سے دیکھ رہے تھے جب میں بیٹھ گیا تورئیس نے بڑے سخت لہجہ یمں مجھ سے کہا : کیا تم تیجانی سماوی ہو؟ میں نے کہا جی ہاں !
رئیس:- کیا تم نے اس شادی کے مسئلہ میں جواز کا فتوی دیا ہے ؟
میں :- میں مفتی نہیں  ہوں لیکن ائمہ نے اور علما ئے مسلمین نے اس شادی کی حلیت وصحت کا فتوی دیا ہے
رئیس:- اسی لئے ہم نے آپ کو بلایا ہے اور آپ اس وقت ملزم ہیں اگر آپ نے اپنے دعوی کو دلیل سےثابت نہ کیا تو ہم آپ کو قید کردیں گے اور آپ یہاں سے سیدھے قید خانہ جائیں گے  اس وقت میں سمجھا کہ سردست تو میں ملزم کے کٹہرے میں ہوں اس وجہ سے نہیں کہ میں نے ایک قضیہ میں فتوی دیا ہے بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ تھی کہ بعض علمائے سو ء نے ان احکام سے چغل خوری کی تھی کہ میں صاحب فتنہ ہوں صحابہ کو گالیاں دیتاہوں ۔ شیعیت کی ترویج کرتاہوں اور رئیس محکمہ نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر دو گواہ اس کے خلاف پیش کردو تو میں اس کو جیل میں سڑادوں گا اسی کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمین والوں نے اس فتوی کو حضرت عثمان کا کرتا بنایا لیا تھا ۔اور ہر خاص وعام تک یہ خبر پہونچادی تھی کہ میں بھائی بہن کے نکاح کو جائز سمجھتاہوں ،اور شیعوں کا یہی عقیدہ ہے یہ باتیں مجھے پہلے سے معلوم تھی کہ لیکن جب رئیس محکمہ نے مجھے قید کی دھمکی دی تو مجھے یقین ہوگیا اور اب میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں  رہ گیا تھا کہ میں چلینچ کرکے بہادری کے ساتھ اپنا دفاع کروں ،۔میں :- چنانچہ میں نے کہا: کیا میں بغیر کسی خوف کے صراحت کے سا تھ گفتگو کرسکتاہوں ؟
رئیس:- ہاں تم گفتگو کرسکتے ہو کیونکہ تمہارا کوئی وکیل نہیں ہے ،
میں سب سے پہلے تو میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں میں نے اپنے کو بعنوان مفتی نہیں پیش کیا ہے ۔لڑکی کا یہ شوہر آپ کے سامنے موجود ہے آپ اس سے پوچھ سکتے ہیں ۔یہی شخص میرے پاس آیا میرے دروازے کوکھٹکھٹایا  مجھ سے سوال کیا اس لئے میرا فریضہ تھا جو میں جانتا ہوں اس کو بتادوں میں نے اس سے پہلے ہی پوچھا تھا کہ کتنی مرتبہ دودھ پیا ہے ؟ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی بیوی نے صرف دو ،تین

مرتبہ دودھ پیا ہے تب میں نے اس کو اسلام کا مسئلہ بتادیا ۔
رئیس :- اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اسلام کو جانتے ہیں اور ہم لوگ جاہل ہیں ،۔
میں :- استغفراللہ! میرایہ مطلب نہیں ہے چونکہ یہاں کا ہر شخص امام مالک کا فتوی جانتا ہے اس کے آگے کچھ نہیں اور میں نے چونکہ تمام مذاھب کو کھنگا لاہے اس لئے اس مشکل کا حل مجھے مل گیا ۔
رئیس : آپ حل کہاں سے ملا؟
میں :- جناب عالی ہر چیز سے پہلے  کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں ؟
میں :-مذاہب اسلامیہ کے بارے میں جناب کا کیا خیال ہے ؟
رئیس:- سب کے سب صحیح ہیں اور سب رسول خدا سے تمسک کرتے ہیں ان کے اختلاف بھی رحمت ہے ،
میں :- پھر توآپ اس بیچارے پر رحم کیجئے (شوہر کی طرف اشارہ تھا) کیونکہ دوماہ سے زیادہ ہوگیا یہ اپنے بیوی بچوں سےجد ا ہے او ربعض اسلامی مذہب میں اس کا حل موجود ہے ۔
رئیس:- (غصہ سے)دلیل پیش کرو ۔ہم نے تم کو اپنا دفاع کرنے کی اجازت دی تھی تم دوسروں کی وکالت کرنے لگے ،میں نے اپنے بیگ سے سید خوئی کی "منهاج الصالحین " نکالی اور کہا یہ مذہب اہلبیت ہے اور اس میں قطعی دلیل  موجود ہے اس نے میری  باٹ کاٹتے ہوئے کہا : اہلبیت کے مذبہت کوچھوڑو نہ ہم اس کو جانتے ہیں نہ اس پر ہمارا عقیدہ ہے ۔
مجھے پہلے ہی سے اس کی توقع تھی اس لئے اہل سنت کے مدارک ومصادر بھی لیکر آیا تھا ، اور اپنی استعداد کے مطابق اس کی ترتیب بھی دی تھی پہلے درجہ میں بخاری کورکھا تھا پھر صحیح مسلم اس بعد محمود شلتوت کی کتاب" الفتاوی " اور پھر ابن رشد کی "هدایت المجتهد ونهایة المقتصد" رکھی تھی تفسیر میں اب جوزی کی تزاد المسیر فی علم التفسیر اور دیگر اہلسنت کے مصادر تھے جب رئیس نے  السید الخوئی کی کتاب دیکھنے سے انکار کردیا تو میں نے پوچھا آپ کس کتب پر بروسہ کریں گے ؟
رئیس:-بخاری ! میں نے بخاری نکال کر معین صفحہ کو کھول کر کہا لیجئے بسم اللہ پڑھئے !

رئیس :-نہیں نہیں تم ہی پڑھو! میں نے پڑھنا شروع کیا : فلاں نے فلاں اور انھوں نے ام المومنین عائشہ سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتی ہیں : رسول خدا نے انتقال کیالیکن پانچ رضعات یا اس سے زیادہ پر نشر حرمت کیا تھا ۔
رئیس نے مجھ سے کتا ب لیکر خود پڑھا پھراپنے پہلو میں بیٹھے وکیل جمہوریہ کودیا اس نے پڑھ کر اپنے بعد والے کو دیا ۔انتی دیرمیں میں صحیح مسلم نکال چکا تھا ، اور اسی حدیث کو اس میں بھی دکھایا اسے بعد شیخ ازہر کی کتاب الفتاوی کھولی انھوں نے مسئلہ رضاعت میں ائمہ کے اختلافات کاذکر کا ہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ پندرہ مرتبہ پینے نے نشرحرمت ہوتی ہے اوربعض نےکہا ہے کہ سات مرتبہ سے نشرحرمت ہوجاتی ہے بعض نے پانچ سے اوپر کہا ہے سوائے امام مالک کے کہ جنہوں نے نص کی مخالفت کی ہے ۔ اور ایک قطرہ کو بھی ناشر حرمت مانا ہے اس کے بعد شیخ شلتوت فرماتے ہیں : میں بیچ والے قول کو مانتاہوں یعنی سات مرتبہ یا اس سے زیادہ پیے ،جب رئیس محمکہ ان تمام اقوال پر مطلع ہوا تو بولا :- بس کافی ہے اس کے بعد شوہر سے کہا ابھی جاؤ اوراپنی بیوی کے والد(خسر) کو لاؤ تاکہ وہ میرے سامنے گواہی دے کہ اس سے دویاتین مرتبہ ہی پیاہے اور ہوسکتا ہے تم آج ہی اپنی بیوی کو گھر لے جاؤ ۔
بے چارہ شوہر تو خوشی کے مارے اڑاجارہا تھا ،وکیل جمہوریہ اورباقی ارکان نے اپنے اپنے مشاغل کا حوالہ دے کر معذرت چاہتے ہوے جانے کی اجازت مانگی اور رئیس نے سب کو اجازت دیدی ۔ پھر جب تنہائی ہوئی تو میری طرف معذرت چاہتے ہوئے متوجہ ہوا اور کہنے لگا : استاد مجھے معاف کردو لوگوں نے آپ کے بارے میں مجھے غلطی میں مبتلا کردیا تھا ، اور آپ کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کہی تھیں ۔ اب مجھے پتہ چلا کہ وہ سب آپ سے حسد کرتے ہیں اور وہ لوگ مغرض ہیں شرپسند ہیں ،
خوشی کے مارے میرا دل اڑنے لگا کہ اتنی جلدی اتنی بڑی تبدیلی ! میں نے کہا شکر خدا ہے کہ اس نے میری کامیابی آپ کے ہاتھوں میں معین کی رئیس نے کہا میں نے سنا ہے کہ اپ کے پاس بڑا کتابخانہ ہے؟ کا میں دمیری کی "حیاۃ الحیوان الکبری"موجود ہے ؟

میں :- جی ہاں موجود ہے ۔
رئیس :- کیا آپ مجھے چند دنوں کے لئے بطو ر عاریت اس کو دے سکتے ہیں ؟ میں سال سے اس کتاب کی تلاش میں ہوں ،
میں :-جی ہاں! آپ جب چاہیں میں پیش کردوں ۔
رئیس:- کیا آپ کے پاس اتنا وقت ہے کہ کبھی میں آپ کے مکتبہ میں آکر آپ سے گفتگو کرسکوں اور استفادہ کرسکوں ؟
میں :-استغفراللہ! میں آپ سے استفادہ کروں گا آپ آزروئے سن وقدرومنزلت مجھ سے کہیں بلند ہیں میرے پاس ہفتہ میں چار دن فرصت ہی فرصت ہے میں آپ کے چشم وابروکے اشارہ پر کام کروں کا ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر ہفتہ میں شنبہ کے دن اجتماع طے پایا ،کیونکہ اس دن رئیس کے پاس محکمہ کے جلسے نہیں ہوتے اس کے بعد مجھ سے کہا کہ میرے پاس بخاری ،مسلم، کتاب الفتاوی چھوڑ جائیے تاکہ میں عین عبارت نقل کرسکوں ،اس کے بعد بذات خود مجھے اپنے دفتر کر دروازے تک رخصت کرنے کیلئے آئے اور میں نے خدا کی اس  دی ہوئی کامیابی ہر اس کی حمد کرتاہوا چلا  حالانکہ جب میں داخل ہوا تھا تو خوفزدہ تھا ،مجھے جیل کی دھمکی دی گئی تھی اور جب نکلا ہوں تو رئیس محمکہ میرا جگری دوست بن چکا تھا  میرا احترام کرنے لگا تھا ،میرے ساتھ نشست وبرخاست کرنا چاہتا تھا تاکہ مجھ سے استفادہ کرے یہ صرف اہلبیت کے راستہ پرچلنے کی برکت ہے جو بھی اہل بیت (ع) سے متمسک ہو وہ کبھی ناکامیاب نہیں ہوا اور جس نے ان کی پناہ حاصل کرنی چاہی وہ مامون ہوگیا ۔
لڑکی کے شوہر نے اپنے دیہات میں پورا قصہ نقل کردیا اور پھر تو آس پاس کے تمام دیہاتوں میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی بیوی اپنے شوہر کے گھر گئی اور قصہ شادی کے جواز پر تمام ہوا ۔ اور لوگ میرے بارے میں کہنے لگے یہ شخص سب سے بڑا عالم ہے حتی مفتی الجمہوریہ سے بھی زیادہ عالم ہے پھر ایک دن شوہر ایک لمبی سی کار لے کر میرے گھر آیا اور مجھے اور میرے اہل وعیال سب

کو اپنے دیہات چلنے کی دعوت دی کہ اہل قریہ آپ کی آمد کے منتظر ہیں اور استقبال کے لئے تیار ہیں اور خوشی منانے کے لئے تین بچھڑے کاٹیں گے ۔لیکن قفصہ میں اپنی مشغولیت کی وجہ سے میں نے معذرت کر لی اور کہا انشااللہ آؤں گا ۔
رئیس محکمہ نے بھی اپنے دوستوں سے پورا قصہ نقل کیا اور یہ بات مشہور ہوگئی اور خدا نے مکاروں کی مکاری ختم کردی پھر بعض لوگ معذرت کیلئے آئے ،کچھ لوگ ان میں شیعہ ہوگئے یہ تو خدا کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے وہ عظیم فضل والا ہے ،
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین وصلی الله علی سیدنا محمد و آله الطیبین الطاهرین
تما م شد شب سہ شنبہ 8 بجے شب بتاریخ 29 جنوری سنہ 1990 ء مطابق 2 رجب المرجب سنہ 1410ھ
قم المقدسہ

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=363&view=download&format=pdf

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک