امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

محمد (ص)یورپ کی نظر میں (حصہ چہارم )

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


اس زمانے میں یورپ میں ہیروپرستی ہرطرف رائج تھی اورمعاشرےپر اس کے گہرے اثرات تھے جرمن ادیب گوئيٹہ نے سترہ سو بہتر میں ایک ڈرامہ لکھا جس کا نام "محومت" تھا اس کے ایک حصے کا عنوان "ترانہ محومت "ہے
۔انہوں نے محمد(ص) کو ایسے بے کران دریا سے تشبیہ دی ہے جس کی عظمت میں ہمیشہ اضافہ ہوتارہتا ہے اورجو انسانوں کو اپنے ساتھ ابدی منزل کی طرف لے جاتا ہے انہوں نے بڑے اشتیاق سے محمد(ص) کو نجات بخش الھام کا سرچشمہ مان لیا تھا ۔محمد (ص) کےبارے میں ان کی نظم پڑھنے والے کو تعجب میں ڈال دیتی ہے اس نظم میں حضرت علی و فاطمہ علیھما السلام اورزید بن حارثہ کو روح پیغمبری کے سہارے جس نے ان کا احاطہ کیا ہوا ہے بے کراں دریا ( رسول اکرم ص) کا مشاھدہ کرتے ہوے بتایاگيا ہے۔گوئيٹہ کہتے ہیں کہ محمد وہ غیر معمولی انسان ہیں جنہوں نے اپنی کتاب قرآن کو ابدی میراث کے طورپر چھوڑا ہے ۔گوئيٹہ کی یہ نظم ظہور نپولین سے بیس سال قبل لکھی گئي تھی تاہم اسی فکر کا نمونہ قراردی جاسکتی ہے جو آہستہ آہستہ ہیروپررستی کی طرف بڑھ رہی تھی ۔
ایک راھبہ کیرولین فن گوندرود Karolin von Gunderodeنے ایک نظم "بیابان میں محومت کے خواب "کے عنوان سے کہی اس نظم میں وہ محمد(ص) کو نہایت عظیم اور غیرمعمولی صفات کا حامل شخص قراردیتی ہیں وہ اپنی اس نظم میں محمد (ص) پر نزول وحی کے تجربے کو حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کے رازونیاز اور آئين زرتشت میں عناصر اربعہ کے تصورکے ساتھ ملاکر پیش کرتی ہیں ان کی اس تصویر میں محمد (ص) مکاشفہ کے حصول کی کوشش کرتے ہیں اپنے ضمیر کی آواز سننے کی سعی کرتے ہیں اور ان کے عقیدے کے مطابق خالق کی روح جو ان کے ضمیر میں نہاں ہے اسے حاضر کرنے کی کوشش میں ہیں ۔اس شاعر نے محمد (ص) پر نزول وحی کے تصور کو ادیبانہ اور خیالی اندازمیں بیان کرنے کی کوشش کی ہے البتہ ان امور کی طرف اسلامی روایات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔محمد (ص) ایسے عالم میں جبکہ مکاشفہ کی کوشش کررہے ہیں ناگھان حیرانی کی حالت میں نیند سے بیدارہوتے ہیں آپ کا وجود یک گونہ خوف اور حیرانی میں ڈوباہوا ہوتاہے کہ اچانک آسمان سے ایک آوازسنائي دیتی ہے وہ تعجب سے بلند آواز میں کہتے ہیں "اب سے میرے راستے میں کوئي شئي رکاوٹ نہیں بن سکتی اس کے بعد نورالھی میری ھدایت کرے گا اس طرح سے کہ میری رفتاو گفتار جاوداں بن جاے گي" ۔
یورپ کے مشہور مصنفین میں کارلایل کا نام سرفہرست ہے ہیروپرستی ان ہی کے نام سے معنون ہے ان ضمن میں ان کی کتاب "ہیروازم درتاریخ "نہایت مشہور ہے انہوں نے ایک کتاب محمد (ص) کے بارے میں بھی لکھی ہے اس کتاب میں وہ رسول اللہ(ص) کی تعریف کرتے ہوئے انہیں تاریخ بشریت کا ممتازہیرو قراردیتے ہیں کارلايل کا خیال ہے کہ ہیرو عالم روحانیت اور عالم مادہ میں یک گونہ رابطے کا حامل ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہیرو الھام غیبی کے سہارے قوموں کی ھدایت کرکے عظیم کامیابیاں حاصل کرتے ہیں ان کی نظر میں ہیرو ایک بابصیرت دواندیش غیب کا علم رکھنے والا اور عوام کو حقیقت سے آشنا کرنے والانیز تاریخ بنانے والا شخص ہے ۔کارلایل گوئيٹہ کے مرید تھے اور عرفان اسلامی سے ان کے والہانہ عشق سے سخت متاثر تھے بنابریں یہ کہا جاسکتا ہےکہ انہوں نے محمد (ص) کی شخصیت کی تصویر کشی میں اسی راہ پرقدم رکھا جس پر گوئیٹہ گامزن تھے وہ اپنی دوسری تقریر "پیغمبر کے روپ میں ہیرو "میں محمد (ص) کے بارےمیں کہتے ہیں کہ "اس شخص نے اپنے کلام کے ذریعے ان بارہ صدیوں سے زیادہ کے عرصے میں ایک سو اسی ملین افراد کی ھدایت کی اس وقت محمد کے پیرو کاروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوچکا ہے اور وہ صرف محمد کے کلام پر ہی اعتقاد و یقین رکھتے ہیں چاہے وہ کچھ بھی ہو۔
یورپ کی تاریخ میں قرون وسطی سے ليکر آج تک یہ پہلی مرتبہ تھا کہ محمد (ص) کو اتنی جرات اورصراحت کے ساتھ بزرگان تاریخ کی صف میں شمار کیا جارہا تھا ایسے بزرگ لوگ جو اپنے نظریات اور کردارکی وجہ سے تاریخ میں جاودان بن گئے ہیں کارلائل نے اس زمانے میں یورپ کے اس نظریے کو کہ محمومت کا دین محض مکاری اورحماقت پر مبنی ہے ایک بے بنیاد خیال اور تصورقراردے کر مستردکیا انہوں نے کہا کہ محمد (ص) کو شاعر یا پیغمبر کہا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی باتیں کسی معمولی انسان کی باتیں نہیں ہیں ان باتوں کا سرچشمہ حقائق اشیاء کاباطن ہے اور محمد (ص) نے انہی حقائق کےہمراہ زندگي گذاری ہے۔ اسکےباوجود کارلائل احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ ہم نے محمد کو تسلیم کیا ہے لیکن سب سے بڑے پیغمبر کے عنوان سے نہیں، انہیں کسی بھی طرح سب سے اہم پیغمبر قرارنہیں دیا جاسکتا لیکن میں انہیں ایک سچا پیغمبر مانتا ہوں ہمارا یہ رائج نظریہ کہ محومت مکار اوردھوکہ بازتھے غلط اور بے بنیاد نظریہ ہے ۔کارلائل محمد (ص) کے خلاف یورپ کے الزامات کے بارےمیں کہتے ہیں کہ یہ مغربی دنیا کے مٹھی بھر توہین آمیز الزامات اور دشنام تراشی ہے جسکی محمد(ص) کی طرف نسبت دی گئي ہے وہ کہتے ہیں کہ محمد (ص) کی زندگي میں آغازسے انجام تک کسی طرح کا تضاد دیکھنے کو نہیں ملتا ۔کارلائل کہتے ہیں کہ محمد(ص) نے زندگي کے آخری لمحے تک بے راہ روی، خود پسندی جاہ طلبی اور بے انصافی کے خلاف جنگ کی ،محمد (ص) نے وحشی پن اور بربریت کا خاتمہ کرنے کے لۓ مدنی و اخلاقی قوانین وضع کۓ اور لاقانونیت اور افراتفری کا ازالہ کرنے کے لئے انتظامی قوانین اور تہذیبی اصول مقررکۓ ان کا کہنا ہےکہ محومت کی شہوت پرستی کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا گيا ہے لیکن یہ محض الزامات ہیں بلکہ برعکس محمومت پرہیزگار زاھد تھے اور جنہوں نےہر معاملے میں افراط کو مستردکیا ہے ۔
یہ بعض دلائل کا نمونہ تھا جو اسکاٹ لینڈ کے اس جری مصنف نےیورپ کی مسموم فضامیں محمد (ص) کے دفاع میں لکھے ہیں ان کی کتاب کی اشاعت کےبعد بہت سے لوگوں نے ان پر شدید تنقید کی اور انہیں عیسائیت سے خیانت کرنے والا قراردیا۔
ہیروپرستی پرمبنی کارلائل کے نظریات نے نئي نسل پر گہرے اثرات چھوڑے۔
نطشے مافوق الفظرت انسان کے قائل تھے تاہم یہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے کہ بزرگ ہستیوں کی خدا ھدایت کرتا ہے کیونکہ ان کی نظرمیں خدامرچکا تھا ان کے خیال میں بزرگ ہستیوں کی طاقت ان کی باطنی تبدیلیوں کا اثر تھی جسے وہ صرع سے تعبیر کرتے تھے البتہ اس صرع اور قرون وسطی کی صرع میں زمین و آسمان کا فرق ہے یہ صرع ایک طرح کادماغی اور باطنی فعل وانفعال ہے کہ جس کے سہارے انسان دوسروں سے ممتازہوجاتاہے ۔
 

نویں فصل :لذت پرستی اورقساوت کے بارے میں خیال پردازی
محمد(ص) و اسلام انیسویں صدی میں یورپ میں ۔

انیسویں صدی میں نپولین نے مصر پرحملہ کیا وہ مصر سے شام اور یوروشلیم جانا چاھتے تھے اور وہاں سے قسطنطنیہ سے ہوتے ہوۓ یورپ واپس جانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔مصر پرنپولین کا یہ حملہ عالم اسلام پر یورپ کی دوسری یلغار تھی جو اب زیادہ طاقتور ہوچکا تھا لیکن نپولین اس مھم میں کامیاب نہ ہوسکا اور اسے شکست ہوئي اسی صدی میں سلطنت عثمانیہ کا زوال شروع ہوا جو کبھی یورپ کی سب سے بڑی دشمن اور عالم اسلام میں سب سے بڑی حکومت سمجھی جاتی تھی۔اسی صدی میں یورپ کے بعض ملکوں نے دنیاکے مختلف علاقوں خاص طورسے عالم اسلام پر قبضہ کرنے کے لۓ سامراجی کوششیں شروع کیں۔انیسویں صدی کی یہ اہم ترین تبدیلیاں ہیں اس زمانے میں یورپ کو اس بات کا انتظار تھاکہ حکومت عثمانی کے ٹکڑے ہوں اور وہ فوجی طاقت سے یا اپنی حمایت کے تحت اسلامی ملکوں پر قبضہ کرلے لیکن یورپ کی یہ آرزو پہلی جنگ عظیم تک پوری نہ ہوسکی ۔
انیسویں صدی میں اب حالات بدل چکے تھے پہلی ہجری سے دسویں صدی ہجری تک کا عالم اسلام پوری طرح تبدیل ہوچکا تھا اب یورپ نے سائنس کی روشنی میں ترقی کرلی تھی اور عالم اسلام جو کبھی علم ودانش کا گہوارہ سمجھاجاتاتھا اب پسماندہ کہلانے لگا تھا ان حالات میں یورپ کا یہ احساس ختم ہوچکاتھا کہ اسلام ان کا سب سے بڑادشمن ہے بلکہ یورپیوں کو اسلام شناسی کا شوق ہوچکاتھا جو معاصر تاریخ میں باب استشراق کے اضافے کا باعث بنا۔انیسویں صدی میں عالم اسلام کی سیر وسیاحت کرنے والے افراد کو ہم پہلے مستشرقین قراردیے سکتے ہیں جنہوں نے نزدیک سے عالم اسلام کا مشاھدہ کرکے مسلمانوں کے حالات تحریرکۓ ہیں ان تحریروں میں اسلامی مظاہر کو بیان کرنے کےلۓ رومانی زبان استعمال کی گئي ہے اور بڑی حدتک مبالغے سےبھی کام لیا گيا ہے بہرحال ہمیں یہ تصور نہیں کرنا چاہیے کہ غلط تعبیروں اور الزامات کا سلسلہ ختم ہوچکا تھا۔ساوتی "وقایع نامہ سید"نامی کتاب کےترجمے کے مقدمے میں لکھتےہیں کہ "محمد (ص) کی ایک بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کو تعدد ازواج کا شو‍ق اورترغیب دلائي تھی ان کا کہنا ہےکہ یہ روش معاشرے پرتسلط جاری رکھنے اور ماضی کے آداب کو باقی رکھنے کی ایک روش ہے ۔
قابل ذکر ہے جنسی مسائل کے بارےمیں مغرب کی ذھنیت کا ایک حصہ وہ تصورات ہیں جو مغرب نے عثمانی درباروں کے حرمسراوں کےبارے میں قائم کررکھے تھے ،عثمانی حرمسراوں کےبارے میں مغرب کا یہ تصور تھا کہ ان میں بے شمار عورتین لڑکیاں اور لڑکے رہا کرتے تھے یہان تک کے یہ تصورات بھی ملتے ہیں کہ عثمانیوں نے زمین پر جنت کی شکل میں بڑے بڑے محل بنارکھےتھے جن میں ہرطرح کی آسائش کا سامان تھا ۔اسی طرح کی تصویر منتسکیو نے ایرانی خطوط میں پیش کی ہے لیکن سیاحوں نے اس تصور کو مستردکیا ہے ۔تئوفی گوتیہ Theophile Goutierنے اٹھارہ سو ترپن میں لکھا تھا کہ "اگر کسی کو مسلمان مرد اور اس کی بیویوں کے درمیان پاۓ جانے والے احترام متانت اور پاکدامنی کی اطلاع ہوتووہ ان تمام شہوت پرستی کی خیال پردازیوں اورر ان افسانوی باتوں سے دستبردارہوجاۓ گا جو اٹھارویں صدی کے ہمارے مصنفین نے گڑھی ہیں ۔
اس کے باوجود یورپ میں محمد (ص) اورمسلمانوں کو شہوت پرست قراردیا جاتارہا بلکہ یہ امر محمد(ص) ومسلمین کے بارےمیں یورپی ذھنیت کا بنیادی رکن تھا اس کا ایک نمونہ برطانوی شاعر لارڈ بائرون کی نظم "بہشت محمدی "ہے ان اشعارمیں وہ کہتے ہیں کہ اس بہشت کا تعلق مردوں سے ہے اور عورتوں کے لۓ اسمیں کوئي جگہ نہیں ہے یہ وہی خیال ہے جو قرون وسطی میں بھی پیش کیا گيا تھا اور ہم نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔اس کے علاوہ قرآن میں پیش کی گئي جنت کی تصویر جس میں حوروں اورشراب طہور کی بات کی گئي ہے رومانی شاعروں کے لۓ ایک اچھاموضوع بن گيا تھا اور معمول کے مطابق تحریف و خیال پردازی کا شکار ہوگياتھااور یہ خیالات مخاطبین کے ذھن میں نقش ہوگۓ تھےگوئٹیہ اسی طرح کا ایک شاعر ہے حافظ شیراز کا چاھنے والا جس نے بہشت محمدی کے بارے میں بے شمار نظمیں کہی ہیں ۔
بعض لوگوں کے لۓ یہ خیالات خوشی کا باعث بھی تھے ھاینریش ھاینہ جو خود جنسی بے راہ روی میں گرفتار تھا اسلامی مشرق کو بزعم خویش جنسی آزادی کی بناپر عیسائي مغرب پرترجیح دیتا تھا وہ کہتا تھا کہ مغربی دنیا تاریک اور مقدس مآب ہے بنابریں ان دونون تصورات میں اعتدال کہیں نہیں پایا جاتا بلکہ یہ افراط کا شکار ہیں اس افراط کا سبب محمد(ص) کی حقیقی جنت سے ناواقف اور جہالت کا شکار ہوناتھا ۔ھاینہ نے قرآن کےجرمن ترجمے کا مطالعہ کیا لیکن اسے قرآن میں صرف اپنی پسند کی چیزوں یعنی حور وقصوراور تعدد زوجات کے بارے میں بیان کۓ گۓ امورکے علاوہ اور کچھ نہ مل سکا ۔ھاینہ نے منصور نام کے عاشق اور اس کی معشوقہ سلیمہ کی داستان لکھی ہے یہ داستان اسپین میں گذرتی ہے جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابیں تنازعہ کا سبب رہتاہے داستان کے آخر میں وہ عاشق ومعشوق کا وصال بیان کرتا ہے اورمعشوقہ اس موقع پر سوچتی ہےکہ وہ جنت میں ہے گویا وہ یہ یقین کرلیتی ہےکہ محمد (ص) نے بہشت کے بارےمیں ساری باتیں سچ سچ بیان کی تھیں ۔ھاینہ نے اٹھارہ سو چوبیس میں لکھا تھا کہ "میں یہ اعتراف کرتاہوں کہ اے مکے کے بزرگ پیغمبرتم سب سے بڑے شاعرہو اور تمہارا قرآن جسے میں صرف جرمن ترجمے کے ذریعے سمجھ سکتا ہوں اتنی آسانی سے میرے ذھن سےمحونہیں ہوسکے گا "۔
ویکٹر ہوگو نے اٹھارہ سو انتیس میں ایک نظم لکھی جسمیں انہوں نے افراط سے کام لیتے ہوئے اھل مشرق کو شہوت پرست اور وحشی بتایا ہے یہ مسلمانوں کی غیر حقیقی اور بعید ازواقعیت تصویر ہے اس نظم میں انہوں نے حرمسراوں دوشیزاوں اورعطر و گلاب کی باتیں کی ہیں یہاں پر حرمسراوں کا تصور عثمانی حرمسراوں کے بارےمیں یورپ کے تصورکے عین مطابق ہے یعنی ایسے حرمسرا کہ جن کی دیواریں چھے ہزار کٹے ہوے سروں سے بنائي گئي ہیں یہاں پر ایک کٹا ہواسرگفتگو کرتاہوا دکھائي دیتا ہے یہ سر ایک شاعر اوریونانی فوجی کی زبان سے جومسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوچکا ہے بیک وقت بات کرتا ہے ۔اس نظم سےظاہر ہوتا ہے کہ یورپ کے خلاف ترکوں کی جنگوں سے یورپی ذھن کس قدر متاثر تھا اس زمانے میں یونان کی آزادی ان لوگوں کی سب سے بڑی آرزو تھی جو عثمانی حکومت کی تباہی کے خواہاں تھے ۔
اس زمانے کا یورپ جو کلیسا کی رھبانیت کے شکنجے سے خود کو آزاد کرارہاتھا اسلام کاتجزیہ کرتے ہوے سرگردان نظر آتا ہے اس سرگردانی کی وجہ یہ ہےکہ وہ سمجھ رہا ہے کہ اسلام نے انسان کے دنیوی امور کوپورا کرنے کامکمل انتظام کیاہے اورا ان ہی امور کو شہوت پرستی کے الزامات کے طور پرپیش کرنا چاھتا تھا ۔
مثال کے طورپر گيبون نے سلطنت روم کے انحطاط اور سقوط پر اپنی کتاب میں محمد (ص) کی مختصر تاریخ بیان کی ہے وہ محمد(ص) کو دھوکہ بازاور مکار قراردیتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ امر حیات انسانی کی بہبود اور استحکام کےلۓ ضروری ہے کیونکہ عیسائيت میں یہ امر موجود نہیں ہے ۔یہاں پر ہم دیکھتےہیں کہ قرون وسطی کے تصورات انیسویں صدی میں بھی پاے جاتے ہیں ۔
ولیم موئير محومت کی زندگي پر اپنی چارجلدی کتاب میں مکہ اورمدینہ کی زندگي کا فرق بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مدینے میں حالات بدل گئے تھے وہاں دنیوی طاقت جاہ طلبی اور خواہشات نفسانی تیزی سے رسول کی زندگي کے اعلی اھداف میں شامل ہوگئيں اور یہ ساری چیزیں دنیوی روشوں سے ہاتھ آتی ہیں اور وحی سیاسی اقدامات کی توجیہ کرنے کے لۓ نازل ہوتی تھی ۔وہ اس بات پر اعتراض کرتے ہيں کہ خدا نے محمد (ص) کو کس بناپر بے شمار عوروتوں سے شادی کرنے کی اجازت دی تھی۔
اسی طرح کے مطالب خاص طور سے بہشت محمد (ص) کے بارے میں واشنگٹن ایروینگ کی کتاب میں ملتے ہیں ۔یہ کتاب "زندگانی محمد کے عنوان سے لندن میں اٹھارہ سو اکاون میں شایع ہوئي ۔
ایلویس اسپرنگر Alois Sprenger نے مذکورہ بالا افراد کے برخلاف "محمد کی زندگي اورتعلیمات "نامی اپنی کتاب میں یورپ کے اس الزام کو مسترد کیا ہےکہ محمد (ص) بندہ تن تھے انہوں نے لکھا ہےکہ مجھے اپنی تحقیقات سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہےکہ اسلام نہ انتقام کی غرض سے نہ نفسانی خواہشات کی وجہ سے نہ کسی ایک فرد کی خواہش کی بناپربلکہ وقت کی ضرورت کی بناپر وجود میں آیا۔میں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہےکہ محمد کوئي ہیرو نہیں جیسا کہ کارلائل سمجھتے ہيں اور نہ کسی اھریمنی طاقت کے الہ کار ہیں۔
تورآندرہ نے انیس سو اٹھارہ میں شخصیت محمد (ص) نامی کتاب میں لکھا کہ محمد (ص) ایک سچے دینی اور سماجی مصلح تھے جنہوں نے جزیرہ عرب کو جاھلیت سے نجات دی اور اپنی قوم کو نئي طرزپر فکر کرنے کی تعلیم دی ۔
مارگولیوث نے بھی انیس سو پانچ میں محمد (ص) کی زندگي پرایک کتاب لکھی ان کا مقصد محمد کی ذات کو یورپی مصنفین کے الزامات سے منزہ کرناتھا جوان مصنفین نے گذشتہ صدیوں میں ان پر لگاے تھے وہ حضرت خدیجہ کے بعد آپ کی متعدد شادیوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یورپی مصنفین نے ان شادیوں کو غیر معمولی شہوت کا نتیجہ قراردیا ہے جبکہ ایسا لگتا ہےکہ ان شادیوں کا سبب نیک محرکات ہیں وہ لکھتے ہیں کہ محمد کی کئي شادیاں سیاسی محرکات کی بناپرتھیں پیغمبر اپنے پیرووں اور مشیروں کو خود سے زیادہ سے زیادہ نزدیک کرنے کا اشتیاق رکھتے تھے بے شک عمر و ابوبکر کی بیٹیوں سے شادی کرنے کا ان کامقصد یہی تھا۔اس قدر مثبت ذھنیت کے باوجود مارگولیوث بھی قرون وسطی کی ذھنیت سے بچ نہ سکے اور محمد پر فریبکاری سمیت دیگرالزامات لگاے ۔اس طرح کے الزامات کم نہیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ انیسویں صدی کا یورپ جسے عقلیت پسندی کا بڑادعوی ہے ہرگزقرون وسطی کی ذھنیت سے خود کو نجات نہیں دے سکا ہے ۔اسی صدی میں ہمیں "کرنھیل سے قاہرہ کبیر تک "نامی کتابیں بھی دیکھنے کوملتی ہیں جن میں اسلام ومحمد(ص) کی تصویر کو بری طرح مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے اس کتاب میں اسلام کو بے رحم اور عقل مخالف دین قراردیا گيا ہے جس کی بنیاد ایک ھوس پرست نے رکھی تھی ۔


صلیبی جنگوں اور جھاد کی طرف بازگشت ۔
عثمانی سلطنت کے خاتمے کے موقع پر اسلام ۔

عثمانی حکومت کے خاتمے سے یورپ کی دیرینہ آرزوبرآئي اگر اس سلسلے میں یورپ نے ایک صدی تک خاموشی اختیار کررکھی تھی تووہ روس کے اثرورسوخ کو روکنے کےلئے تھی انیس سو سترہ میں جب جنرل ایلن بیت المقدس پہنچا تو اس نے کہا کہ اب صلیبی جنگيں ختم ہوئي ہیں اس کے تین سال بعد یعنی انیس سو بیس میں جب فرانسیسی افواج نے دمشق پر قبضہ کیا تو فرانسیسی کمانڈر صلاح الدین ایوبی کی قبر پر جاکر ان سے مخاطب ہوکر کہتا ہےکہ صلاح الدین ہم آگئے ۔یورپی فوجی کسی زمانے میں مسلمانون کو عیسائيت کے بہانے مارتے تھے اب انہیں جدید تہذیب وتمدن اور استعمار کے بہانے قتل کررہے تھے اب یورپیوں کو نام نھاد جدید تہذیب وتمدن کا بھی غرورہوچکا تھااور وہ عالم اسلام کو مزید حقیر وپست اور پسماندہ سمجھنے لگے تھے ۔لارڈ کرامر جو مصرمیں برطانیہ کے پہلے کونسلر جنرل تھے اپنی کتاب "ماڈرن مصر"میں کہتے ہیں کہ اسلام اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپنی اصلاح و احیا کے لۓ اقدام کرسکے انہوں نے مسلمانوں کو سادہ لوح بچکانہ منطق اور جدت عمل کی صلاحیتوں سے عاری قراردیا گرچہ ان کے درخشان ماضی کی طرف بھی اشارہ کیا ۔
اسلام پر نام نھاد مشرقی استبداد کی ھمراہی کا الزام لگانا مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آزاد معاشرے اور مدینہ فاضلہ کےسلسلے میں قرآنی تعلیمات کےتمام تجربوں کو نظراندازکرنےکےمترادف ہے ۔یورپ بیسویں صدی میں ہمہ گیر کامیابیوں سلطنت عثمانی کے زوال نیز اسلامی دنیا کے سیاسی اور مالی و اقتصادی ذحائر پر قبضہ کرنے کی وجہ سے سخت غرور وتکبر میں گرفتارہوگيا تھا اس کے نتیجے میں یورپ ایک ظالم سامراجی طاقت مجرم، حریص اور کشت وخون کا دلدادہ بن کر سامنے آیاجس نے اپنا سامراجی تسلط قائم رکھنے کے لۓ صلیبی جنگوں کی شدت پسند روشیں اختیارکیں ۔مغربی سامراج کی جانب سے مسلمان قوموں کو سرکوب کرنے کا شدید ترین اقدام اسرائیل کی تاسیس تھی جو انیس سو سترہ میں بالفور اعلامیہ کےبعد وجود میں آئی اور اس کے بعد سے یورپ خاص طورسے برطانیہ نے اس کی حمایت جاری رکھی ۔اسی زمانے میں یورپ نے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایسا اختلاف ڈالا کہ جسکی مثال پوری تاریخ میں نہیں ملتی کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں صدر اسلام کے علاوہ یہودیوں اور مسلمانوں کےاختلافات کی کوئي اور مثال سامنے نہیں ہے ۔اور یہ اس وقت کی بات ہے جب صدر اسلام میں یہودی جزیرۃ العرب چھوڑکرچلے گئے تھے اس کے علاوہ یہودیوں اورمسلمانوں میں کسی طرح کا اختلاف نہیں تھا یہاں تک کہ مشرقی عیسائي بھی مسلمانوں کےساتھ پرامن زندگي گذرارہے تھے اور انہوں نے صلیبی جنگوں کے دوران یورپی عیسائيوں کا استقبال نہیں کیاتھا لیکن بیسویں صدی میں صیہونی حکومت (اسرائيل ) کی تاسیس سے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیاں نۓ سرے سے کشمکش پیداہوگئي اور اس کا اصل سبب مغربی سامراج تھا ۔بہرحال صیہونی حکومت کے وجود میں آنے سے مغرب کی حمایت یافتہ صیہونی تحریک اور مسلمانوں کے درمیان طولانی جنگ کی بنیاد رکھ دی گئي جو آج تک جاری ہے یہ جنگ دیگر میدانوں میں بھی پھیل چکی ہے جسمیں ثقافتی میدان خاص طورسے اسلام اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک قابل ذکر ہیں۔
مغربی سامراج کی جانب سے اسرائيل کی تاسیس اور صلیبی جنگوں کے شروع کئے جانے کے رد عمل میں مسلمانوں نے بھی جھاد اور دفاع مقدس کا سہارا لیا اس طرح دنیا ایک بارپھر صلیبی بحران کا شکار ہوگئي ۔



گیارھویں فصل :تکریم تاتحریف
محمد (ص) بیسویں صدی میں ۔

یورپ نے بیسویں صدی میں اسلام و محمد(ص) کامقابلہ کرنے کےلئے سلمان رشدی مرتد کا سہارالیا جواس کے ماتھے پرکلنک کا ٹیکہ بن گيا ۔آزادی بیان کے بہانے سلمان رشدی مرتد کے دفاع میں مغرب کے موقف سے واضح ہوجاتا ہےکہ مغرب کے اسلام مخالف موقف میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ایک مشرقی مرتد جس نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی اس کی جانب سے مغرب کی زبان میں اسلام و پیغمبر اسلام(ص) کی توہین مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت تھی۔
بیسویں صدی عیسوی میں ایک نہایت اہم بات جو سامنے آئي وہ بعض مغربی سیاحوں اور دانشوروں کااسلام کی طرف رجحان اور اسلام لے آنا تھا۔ریلکہ نامی سیاح نے انیس سو دس میں مصر وتونس کا سفرکرنے سے بہت پہلے ہی اسلام کی طرف اپنے رجحان کا اظہار کردیا تھا انیس سو سات میں جب ان کی اھلیہ مصر کی سیر کرکے واپس آئيں تو اپنے ھمراہ مصوری کےاھم آثار لائيں اور اسی سال ریلکہ نے "ندائے محمد"کے عنوان سے ایک نظم کہی اس نظم میں انہوں نے محمد (ص) امی اورپاک طینت بادیہ نشین قراردیا ہے جن کو فرشتہ وحی نے شہود ذات احدیت تک پہنچایا ہے ان کے اشعار بعثت کے بارےمیں مسلمانوں کے اشعار کی طرح ہیں ۔جب ریلکہ نے خود مصر اور الجزائر کا دورہ کیا تواپنی بیوی کے نام خطوط میں اسلام سے اپنی دلچسپی، محبت اور رجحان کا اظہار کیا ۔انہوں نے انیس سوبارہ میں دوبارہ بغور قرآن کا مطالعہ کیا اور اسپین میں ایک مسجد کو کلیسامیں بدلے جانے پر شہزادی تاکسیس کو ایک دردبھرا خط لکھا جسمیں عقیدہ توحید کی بناپر اسلام کی تعریف کی ۔انہوں نے لکھا کہ اسلام میں بنیادی عقیدہ توحید کا ہے جبکہ عسیائيت خدا کو خوبصورت کیک کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے ۔اس کے کچھ دنوں بعد وہ عیسایت سے مکمل طرح سے بیزار نظر آنے لگے ۔ان کے ایک خط میں ملتا ہےکہ "میں اس وقت قرآن کا مطالعہ کررہاہوں قرآن کا لہجہ اسی سے خاص اور بے مثال ہے اور یہ آواز میرے سارے وجود میں سرایت کرگئي ہے ۔محمد بلافصل اور مظہر حقیقت ہیں وہ ایک دریا کی مانند ہیں جو پہاڑوں سے نکل کر خداے یکتا کی طرف جاتاہے ایسا خدا جس سے ہرصبح حیرت انگیز طرز پر ہمکلام ہواجاسکتا ہے اور اس کے لۓ مسیح نام کے کسی ٹیلی فون رابطے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔
ریلکہ نے انیس سو بیس میں لکھاہے کہ میں نے ایک زمانے میں قرآن حفظ کرنے کی کوشش کی اس کام میں میں نے کوئي خاص پیشرفت نہیں کی تاہم جوبات میرے سمجھ میں آئي وہ یہ تھی کہ قرآن پڑھنے سے انسان کو ایسی توانائي حاصل ہوتی ہے جس سے اسے آسمانوں اور خداکی بارگاہ کا راستہ ملتا ہے ایسا خدا جو لایزال ہے ۔
محمد (ص) کے بارےمیں انجام پانے والے سنجیدہ علمی کاموں میں شہرہ آفاق اسلام شناس آن ماری شیمل کی کتاب ہے محترمہ آن ماری شیمل کو اسلامی عرفان سے بہت زیادہ دلچسپی تھی انہوں نے محمد(ص)کےبارےمیں مغربی طرزفکر پرتنقید کرتے ہوے عرفان اسلامی کے ذریعے انہیں پہچنوانےکی کوشش کی ۔آن ماری شیمل نے اپنی کتاب' دین اسلام کے عرفانی پہلووں "میں لکھا ہےکہ مغرب میں جوبھی اسلام پر تحقیقات کرتا ہے محمد (ص) کےبارے میں یورپ کی روایتی تصویر سے آشنا ہوتا ہے جو نفرت اور دشمنی کی صدیوں میں بنائي گئي تھی اور عالم عیسائيت میں جس کا رواج تھا لیکن اس کے باوجود محمد (ص) کی ٹھوس عرفانی اور معنوی صفات کودیکھ کر جنہیں اھل تصوف نے ان کی طرف منسوب کیا ہے حیران وششدررہ جاتا ہے ۔یہ وہ شخصیت ہے جسے ایک عام یورپی باشندہ مکار سیاست دان شہوت پرست اور اگر بہت زیادہ خوش فہمی میں گرفتار ہوکر سوچیں تو ایک بدعت گذار سمجھتاہے جس نے عیسائیت میں بدعتیں پھیلائي ہیں وہ لکھتی ہیں کہ محمد(ص) و اسلام کے بارے میں جدید ترین تحقیقات میں جہاں محمد (ص)کی صداقت اور مذھبی نظریات پر تاکید کی گئي ہے محمد کی نسبت ان کے پیرووں کے عشق عرفانی کی تصویر کشی نہیں کی گئ ہے ۔
قابل ذکرہے جدید یورپ میں محمد کو پہچاننے کی سنجیدہ کوششیں کی جارہی ہیں اور جدید محققین معتدل فضامیں یہ کام کررہے ہیں انہیں قرون وسطی کے غیر منطقی روے پر افسوس بھی ہے اوروہ منطقی روش سے اس اسلام وپیغمبر (ص) کی ذات کا جائزہ لے رہے ہیں امید کہ ان کے لئے حقیقت واضح ہوگي اور وہ اس حقیقت کے ساے میں دوسروں کےلئے بھی مفید واقع ہونگے ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک