امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

محمد (ص)یورپ کی نظر میں (حصہ سوم )

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


بسم اللہ الرحمن الرحیم


یورپ میں محمد کا دفاع کرنے والوں میں سب سے پہلے شخص سیمون آکلی کی ہے جنہوں نے "ساراسنوں کی تاریخ "کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ۔دوسری شخصیت جارج سیل کی ہے جنہوں نے سترہ سو چونتیس میں قرآن کا ترجمہ
شایع کیا ۔ان دونوں نے دانشوروں کا دعوی تھا کہ وہ تعصب اور دیگراغراض و مقاصد سے بالا ترہوکر اسلام اور محمد (ص) کی زندگي کا جائزہ لینا چاہتے ہیں لیکن یورپ میں محمد (ص) کے لۓ دھوکہ باز اور مکار کا لقب اس قدر رررائج ہوچکا تھا کہ آکلی اپنی کتاب میں آخر تک "محمومت ماہر مکار "کی تعبیر استعمال کرتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ فاتح مسلمانوں اور مغلوب قوموں کے ساتھ ان کے رویے کی بے حد تعریف کرتا ہے ۔آکلی نے سترہ سو سترہ میں حضرت علی علیہ السلام کے کلمات قصار کا بھی ترجمہ کیا اور آپ کے علم و دانش کا اعتراف کیا وہ لکھتا ہے کہ تھوڑابہت علم جو یورپیوں کے پاس ہے اس کا سرچشمہ سرزمیں مشرق ہے ۔۔۔۔۔جب ساری دنیاوحشی پن اور بربریت کا شکار تھی عربوں نے اپنی فتوحات سے دوبارہ یورپ میں علم ودانش کا چراغ روشن کیا۔
جارج سیل نے قرآن کا ترجمہ کرنے کے بعد محمد (ص) کی زندگي اور اسلامی عقائد پر ایک کتاب لکھی ۔یہ کتاب لکھنے کے بعد ان پر یورپ کے مختلف حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات ہونے لگے اور ان پر آدھا مسلمان ہونے کا الزام لگا یا جانے لگا انہوں نے اسی کتاب میں اپنے دفاع میں ایک بیان شامل کیا جسمیں لکھتے ہیں کہ "محمد اور ان کے قرآن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوۓ میں نےیہ جائز نہ سمجھا کہ توھین آمیز،شرمناک اورادب سے عاری عبارتوں کا استعمال کروں بلکہ میں نے یہ ضروری سمجھا کہ محمد اور قرآن کےساتھ ادب سے پیش آوں "البتہ اسی کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ محمد نے جھوٹے دین کی تبلیغ کرتے ہوۓ ناشايستہ رویہ بھی اپنایا ہے لیکن ان کی نیک صفات پر ان کی تعریف و تمجید سے روگردانی نہیں کرنی چاہیے ۔وہ لکھتے ہیں کہ مشرک عربوں کو خداے حقیقی کی طرف دعوت دینے کا ان کا (محمد)اقدام بلاشک ایک قابل تعریف اور نیک اقدام تھا ۔جارج سیل کا خیال ہے کہ محمد (ص) نے عربوں کو بت پرستی سے نجات دلانے کے لۓ خداے واحد کی طرف دعوت دی اور توحید کو دوسروں کی جانب سے ایجاد شدہ تحریفات سے منزہ کرنے کی کوشش کی۔
اگر ہم اس بات پر توجہ کریں کے جارج سیل نے یورپ کے کس ماحول میں ان نظریات کا اظہارکیا ہے تو ہمیں ان کے اس کام کی اھمیت کا اندازہ ہوجاے گا ۔
ایک رسالہ بادلیان کتب خانے کے دوسرے لائبریرین ہنری اسٹاپ نے سترھويں صدی کے اواخر میں لکھا ہے اس کا عنوان ہے "محوماتیزم کی پیدائيش اور پھیلاوکی تفصیلات اور عیسائیوں کے الزامات و افترآت و تہمتوں کے مقابل محومت اوراس کے دین کی حقانیت کا اثبات "ہنری اسٹاپ نے اپنی اس کتاب میں محمد (ص) کو عظیم ترین اور ذھین ترین قانون ساز قراردیا ہے جو اس زمانے تک پیدا نہیں ہواتھا انہوں نے عیسائیوں کے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ قرآن میں جنت کا تصور شہوت کے ساتھ ہے ان کا کہنا ہےکہ اگر عیسائیوں کی مقدس کتاب میں جنت کو مکعب شکل کے شہر کی صورت میں بیان کیا گيا ہےتو مسلمانوں کو بھی حق ہے کہ وہ جس صورت میں چاہیں جنت کی توصیف کریں۔وہ تعدد زوجات پر بھی کسی طرح کے اعتراض کو روا نہیں سمجھتے کیونکہ خود تورات میں تعدد زوجات کی بات کئي مرتبہ کی گئي ہے ۔اسٹاپ نے یہ باتیں خاص طور سے پریدو کی رد میں لکھی ہیں جس کا ذکر ہم نے اسی مقالے میں کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ پریدو نے محمد (ص) کی شخصیت کو بری طرح مسخ کرکے پیش کیا ہے اور ان کی شخصیت کی تصویر کشی کے سلسلےمیں تحریفات کا شکار ہوئے ہیں ۔ہنری اسٹاپ کا کہنا ہے کہ اسلام کے قوانین کسی بھی طرح شہوانی خواہشات کے حوالے سے افراط پر منتج نہیں ہوتے اور اسلام میں شادی بیاہ پر کڑی نگرانی کی جاتی ہے ۔
ایک اور مقالہ جس کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہوسکا ہے جارج سیل کی کتاب "محومت ازم پر ایک نظر اور محمد کا رفتار وسلوک کے ٹھیک ایک سال بعد شایع ہوا انہوں نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ وہ محمد (ص) اور اس کے دین پر عائد الزامات کا جواب دینا چاھتے ہیں جارج سیل لکھتے ہیں کہ "برطانوی پادریوں نے محمد اور ان کے دین پر بے پناہ بے بنیاد اور غیر منطقی الزامات لگاے ہیں "۔
اس مقالے کی اھمیت اس لحاظ سے ہے کہ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ سنگدلی اور تصادم رہا ہے بس فرق اتنا ہے کہ مسلمانوں نے دین مسیح کے پیغمبر کی ھمیشہ تعریف وتمجید کی ہے اور عیسائیوں نے اس کے بالکل برعکس مسلمانوں اور ان کے پیغمبر کی بھرپور توہین کی ہے اور مذموم رویہ اختیار کیا ہے ۔اس مقالے میں آیا ہےکہ "مشرقی کلیساوں کو مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے اور انہیں اپنے دینی آداب بجالانے کی ا جازت بھی ہے لیکن یورپ میں کیتھولک اور شاید بعض پروٹسٹینٹ عیسائيوں کو بھی جوبڑے ذوق شوق سے گمراہی کے راستے پر لگ گئے ہیں موت کو مسلمانوں کی حمایت اور انہیں دینی آداب بجالانے کی اجازت دینے پر ترجیح دیتے ہیں ۔
یورپ میں کچھ ایسے مصنفین بھی مل جائيں گے جنھوں نے تعصبات سے بالا ترہوکر محمد (ص) اور ان کے دین کو اعتدال پسند نگاہ سے دیکھا ہے ان مصنفین میں ایک ہنری بولینگ بورک ہیں جنہوں نے سترہ سو پینتیس میں ایک رسالہ لکھا انہوں نے اسلام پر لگاے گئے الزامات کا ذکر کرتے ہوۓ لکھا ہےکہ "بت پرستی یا خرافات پرستی کا وہ کونسا الزام نہیں ہے جو محمومتیوں پر عائد نہیں کیا گيا وہ کہتے ہیں کہ صلیبی جنگوں سے واپس آنے والے لوگوں نے محمد اوران کے دین پر زیادہ ترالزامات لگآے ہیں ۔
ایڈرین رولینڈ نے اپنی کتاب "محومتیوں کی تعلیمات اصول، عقائد،اور عبادات کے بارے میں چاررسالوں "میں لکھا ہے کہ حقیقت یہ ہےکہ محومتی جیسا کہ ہماراتصور ہے دیوانے نہیں ہيں ۔
جرمن ڈرامہ نویس لسینگ نے اومانیزم کے زیر اثر "عاقل ناتان "نامی ڈرامہ لکھا اور اس ڈرامے میں انسانیت کی قدر مشترک کو اصل بنیاد قراردیا ۔ان کا کہنا ہےکہ اسلام عیسائيت یہودیت سمیت دیگر مذاھب کی طرف رجحان ثانوی حیثیت کا حامل ہے۔
اس ڈرامے کا مرکزی کردار ناتان یہودی ہے اس میں ایک عیسائي لارڈ اور یورشلیم کا حاکم صلاح الدین ایوبی بھی مرکزی کردار ہیں ۔لسینگ کا خیال ہےکہ خير و نیکی انسان کے اعمال سے متجلی ہوتی ہے دین کے ذریعے نہیں جو صرف اس کے تشخص اور شناخت کا ذریعہ ہے ۔
ان منصف مصنفین کی کاوشوں کےباوجود اسلام مخالف عیسائي ذھن بدستور اسلام کے خلاف کتابیں لکھتا رہا اور پروپگينڈا کرتا رہا "نرتر"نے سترہ سو تین میں ایک کتاب لکھی جسمیں محمد (ص) کو ریاکار شہوت پرست اور پست فرد قراردیا ہے انہوں نے یہ باتیں قرآن کے اپنے جرمن ترجمے کے مقدمے میں لکھی ہیں۔
یورپ پر حاکم سیاسی اور مذھبی فضا کی بناپر اسلام و محمد (ص) قرآن کے خلاف حملے جاری رہے اس میں زمانے میں ہرکوئي محمد (ص) کوسپر بناکردراصل لوئي چھاردھم اور پانزدھم کے دور حکومت میں فرانس کے حالات یا دیگر ملکوں کے حالات پرتنقید کیا کرتا تھا ۔مجموعی طور سے اس زمانے میں محمد اوراسلام کو بنیادی خطرہ نہیں سمجھا جاتا تھا کیونکہ ترکوں کا زوال شروع ہوچکا تھا اور یورپ کو بھی دیگر قوموں کی طرح ترکوں سے کوئي لاحق نہیں تھا ۔
اٹھارویں صدی کے اواخر سترہ سو نواسی میں فرانس میں انقلات آیا جس سے یورپ کی صورتحال پوری طرح بدل گئی ۔


آٹھویں فصل : محمد (ص)ہیرو پرستی کے دور میں ۔

اٹھارویں صدی نپیولین کے نام سے شروع ہوتی ہے اس بناپراس زمانے کو ہیروپرستی کا دور کہا جاتا ہے ۔اس زمانے میں نپولین کی جنگوں فتوحات اور شکستوں سے پورپ کی راے عامہ پر گہرے اثرات پڑے ۔واٹر لو میں نپولین کی شکست کےسات سال بعد ھگل کا فلسفہ تاریخ سامنے آیا، ھگل کے یہی نظریات بعد میں مارکس کی تاریخی مادیت پرستی کی بنیاد بنے ۔ھگل کی نظر میں عالم متناہی میں حرکت تاریخ کلیۃ عالم نامتناھی کے زیر سایہ اور کمال عقلی کی طرف گامزن ہے اس راہ میں تاریخ آزادی کی طرف بڑھ رہی ہے اوریہ آزادی اسی آخری منزل کا عینی تجسم ہے ۔اس دریمان اھم شخصیتیں اور ہیرو اہم کردار اداکرتے ہیں اسکندر اور نپولین ان ہی ہیروزمیں شامل ہیں جنھوں نے تاریخ کو آگے بڑھایا ہے گرچہ انہیں بعد میں ملک بدر کردیا گيا یا سولی پرچڑھادیا گيا ۔یہاں پر ھگل کے ذھن میں محمد (ص) کا تصور بھی آتا ہے وہ محمد جنہوں نے اپنے نبوغ وصلاحیتوں سے براعظم ایشیا اور افریقہ کو بدل کررکھ دیا تھا اس کےباوجود ھگل عیسائیت کی برتری پر تاکید کرتے ہیں اور ان کا یہ نظریہ یورپ کی خود بزرگ بینی کے عین مطابق ہے اور یہی نظریہ خود بزرگ بینی جھان متناھی سے جھان نامتناھی کی طرف بڑھنے کا سبب بنا۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک