امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

محمد (ص)یورپ کی نظر میں (حصہ دوم )

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


بسم اللہ الرحمن الرحیم


پانچویں فصل :

ابھی اھل یورپ کے ذھن سے صلیبی جنگوں کی یادیں محو نہیں ہوپائي تھیں کہ ترک آپہنچے اور چودہ سو ترپن میں قسطنطینیہ فتح کرلیا۔روزروشن کی طرح واضح ہے کہ ایک ہزار چون عیسوی سے مشرق کے آرتھوڈوکس کلیسا اور کیتھولک کلیسا مکمل طرح سے الگ ہوگۓ گرچہ انہوں نے چودہ سوانتالیس میں اتحاد کا معاھدہ کیا لیکن اب اتحاد کا وقت گذر چکا تھا اورچار صدیوں کے بعد آرتھوڈوکس کلیسا کا مرکزسقوط کے دھانے پر تھا۔اس زمانے سے انیس سو اٹھارہ یعنی پہلی جنگ عظیم تک یعنی سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک ترک قوم پانچ صدیوں تک یورپ کے لۓ وبال جان بنی ہوئي تھی گرچہ چودہ سو بانوے میں اندلس پوری طرح سے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیاتھا اور یورپ میں مسلمانوں کی حکمرانی ختم ہوچکی تھی بنابریں سولھویں صدی عیسوی سے یورپ میں عربوں کا نام ونشان تک نہ تھا اور اسلام کو ترکوں کے نام سے پہنچانا جاتاتھا اسی بناپراس زمانے کی عیسائي دنیامیں محمد (ص) کوترک اہریمن کی حیثیت سے جانا جاتاتھا۔ یہ بات قابل توجہ ہےکہ قسطنطنیہ پر مسلمانوں کے قبضے کے نتیجے میں مشرقی روم کے مفکرین نے مغربی روم میں پناہ لی جسکے سبب یونان کے کلاسیکل افکار کا احیاء ہوااور تدریجا"اومانیسم "کے نظریات سامنے آنے لگے اسی تبدیلی کو رنسینس کا آغازقراردیا جاتاہے اس کے بعد صنعت طباعت کی ایجاد کے نتیجے میں یورپ میں عظیم تبدیلیاں آئيں ۔لیکن نہ رینیسینس سے نہ اومانیسم سے نہ صنعتی ترقی سے اورنہ ہی مشرق وسطی اور ایران کا سفرکرنے والے سیاحوں کی معلومات سے محمد(ص)کی نسبت یورپ کے نظریات میں کوئي تبدیلی آئي اس زمانے میں بھی محمد (ص) کو اساطیری خدا،مکار ساحر، طالع بین اور دھوکہ بازشخص کے طورپرجانا جاتاتھا یہ ایسے عالم میں تھا کہ یورپی سیاحوں کے سفرنامے اسلامی عقائد منجملہ توحید اور عبادات کی معلومات سے اٹے پڑے تھے ۔
محمد (ص ) کی نبوت کے بارے میں یورپیوں کے نزدیک ایک مشہور داستان بحیرہ راھب کی ہے یہ داستان اکثر عیسائي کتابوں میں مل جاے گی ۔سرجان مانڈویل لکھتے ہیں کہ محمد ہمیشہ اس راھب کے کمرے میں جایا کرتےتھے وہ لکھتے ہیں کہ محمد (ص) نے راہبوں سے ضروری معلومات حاصل کی تھیں اور اپنے ساتھیوں سے انہیں مروادیا کرتے تھے سرجان مانڈویل کا سفر نامہ اس طرح کی باتوں سے بھرا پڑا ہے یہ سفرنامہ دراصل فرانسیسی زبان میں ہے اور یورپ کی مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے ۔
بنڈیکٹی راھب ھیگڈن کی کتاب تاریخ عالم کا، تیرہ سو ستاسی،چودہ سوپچانوے اور پندرہ سوستائيس میں تین مرتبہ انگریزی میں ترجمہ ہوا ہے۔ھیگڈن اپنی اس کتاب میں اس کبوترکی داستان لکھتا ہے جسے محمد (ص) نے سدھایا تھا تاکہ وہ دانے کے لۓ ان کے سرپرپروازکرے اسے وہ روح القدس کہتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ ان پر وحی لاتاہے ۔ھیگڈن ایک اور داستان لکھتا ہےکہ محمد (ص) کا ایک اونٹ تھا انہوں نے اسے سکھا رکھاتھا کہ صرف ان ہی کے ہاتھ سے چارا کھاے محمد نے اس کی گردن میں قرآن لٹکا رکھا تھا جب وہ اس اونٹ کے پاس آتے تو اونٹ زانو موڑکربیٹھ جاتا اورمحمد قرآن کو تھام کرکہتے کہ یہ آسمانی پیغام ہے ۔ھیگڈن کی نظرمیں جنسی ھوس بھی ایک طریقہ تھا جس کے ذریعے محمد (ص) نے عیسائيت کو کمزور بنانے اور اسلام کو استحکام پہنچانے کا کام کیا۔
جان لیڈ گيٹ نے چودہ سو تیس سے چودہ سو اڑتیس کے عرصے میں اپنی نظم لکھی اس نظم کا عنوان ہے "شہزادوں کا زوال" اس نظم میں ماحومت جھوٹے پیغمبر کے زیر عنوان محمد (ص) کو ایسا جادوگر بتایا گيا ہے جس نے اپنے اھداف تک پہنچنے کے لۓ مال دارعورت سے شادی کی اور اس کے پیسے کے بل پر بیزانس کے بادشاہ ھراکلیو‎س سے جنگ کی اور اسکندریہ کی سرحد تک اس کی سرزمینوں پر قبضہ کرلیا۔جان لیڈ گیٹ نے محمد (ص) کے صرع یا مرگي کی بیماری میں مبتلا ہونے کی بھی بات کی ہے جس کے بعد قرون وسطی میں یہ بات عام ہوگئي تھی۔اس نظم میں ایک اور قدیمی داستان کا ذکر کیا گياہے یہ داستان رحلت محمد (ص) کے بارے میں ہے کہ مستی کے نتیجے میں مرگي کے دورے کے زیر اثر محمد(ص) کی موت ہوئي اور کچھ ۔۔۔۔نے انہیں کھالیا اسی بنا پر شراب اور سور کا گوشت حرام قراردیا گيا ہے ۔
یہ بات غورطلب ہےکہ یہ افسانے قرون وسطی میں گھڑے گۓ ہیں اور بعض عیسائي ادیبوں نے بھی اس طرح کے افسانے لکھے ہیں ان سے پتہ چلتاہےکہ اس زمانے میں عیسائي دنیا کو قرآن کی ذرا سی شناخت نہیں تھی اور جیسا کہ معلوم ہے سولہ سو اننچاس سے قبل یورپ میں قرآن کا ترجمہ نہیں ہواتھا ہرچند بارہویں صدی عیسوی میں لاطینی زبان میں قرآن کا ترجمہ ہوچکا تھا۔
رینیسینس کے بعد ایک دوصدیوں میں بعض توھمات کو دورکرنے کی غرض سے عیسائي دنیا میں فکری سرگرمیاں شروع ہوتی دکھائ دیتی ہیں۔اسپین کے ایک پادری جان سگوویائي کا خیال تھا کہ جنگ سے اسلام و عیسائيت کے مابین مسائل حل نہیں ہوسکتے انہوں نے دونوں دینوں کے مابین تنازعات کو حل کرنے کی غرض سے ایک ہسپانوی مسلمان کی مدد سے قرآن کا ترجمہ کروایا جو چودہ سو پینتالیس میں ان کی موت کے بعد ناپید ہوگيا دراصل ان کے پادری ساتھیوں نے اسےکہیں چھپا دیا تھا۔جان سگوویائي نے ایک جرمن پادری نیکولس کولکھا تھا کہ اسلام اور عیسائيت میں عداوت و دشمنی کے خاتمے نیزان کے درمیان دوستی قائم کرنےکے لۓ ایک عالمی نشست کی ضرورت ہے۔اس زمانے میں ایسے بھی لوگ تھے جنہیں اسلام و عیسائیت کے اشتراکات کاعلم تھا مسلمانوں کے ہاتھوں قسطنطنیہ کی تسخیر کے وقت پوپ کے عھدے پر فائزآئناس سیلویوس نے ترک بادشاہ سلطان محمدفاتح کولکھا تھا "مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین بہت سے مشترکہ امور ہیں جن پر دونوں مذھب کے پیرووں کا اتفاق ہے ،خداے واحد، خلقت عالم، ایمان کی ضرورت، حیات اخروی، جزاوسزا کا نظام اور روح کا ابدی ہونا ایسے امور ہیں جن پر دونوں مذھبوں کا اتفاق ہے اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ صرف خدا کی ذات وماھیت کےبارے میں اسلام وعیسا‎ئیت میں اختلاف پایا جاتاہے اس کے باوجود پوپ سلطان محمد سے کہتے ہیں کہ وہ عیسائي ہوجائیں۔
ایک نکتہ جس پر عیسائي سخت حیران تھے یہ تھا کہ مسلمان حضرت مسیح کا بے حد احترام کرتے ہیں ہرچند ان کے صلیب پر لٹکاۓ جانے کو تسلیم نہیں کرتے،یہ امرعیسائيوں کے نزدیک صلیب کی اھیمت کے پیش نظر مسلمانوں کی جانب سے حضرت مسیح کے اکرام وتکریم کے اقدام کی اھمیت کو کم کر سکتا تھا۔
قسطنطنیہ پر مسلمانوں کے قبضےکے بعد جوچیزیں عیسائيوں کے درمیان رائج ہوئيں وہ ترکوں کی سنگ دلی اور ان کی جنگوں سے عبارت ہیں یورپیوں کی نظر میں ترکوں کے افعال واعمال اسلام کی تعلیمات قرار پاے۔ترکوں سے شدید دشمنی اس بات کا باعث بنی کہ پندرہ سو اٹھاسی میں کرسٹوفر مارلونے اپنے اشعار میں ترکوں پر حملہ کرنے کی بناپر تیمورکی تعریف کی ہے اور اپنے ان اشعار میں تیمورکی زبانی ماحومت کو سب وشتم کا نشانہ بنایا ہے وہ اپنے اشعار میں کہتاہےکہ تیمورنے قرآن کونذرآتش کرنے کا حکم دیا جس کی وجہ سے وہ ایک عیسائي کے روپ میں ظاہرہوا۔
قسطنطنیہ کا واقعہ ان واقعات میں سےہے جن کا زخم اب بھی ہرا ہے اسی بناپر یہ واقعہ عیسائي ڈراموں اور اشعار میں فراوانی سے دیکھا جاسکتاہے یہانتک کہ شیکسپئر کے ڈرامے ھنری پنجم میں فرانسیسی بادشاہ کی بیٹی کیٹرین سے بادشاہ یہ کہتاہوادکھائی دیتا ہےکہ "آؤہم ایسے بچے کی بنیاد رکھیں جو نیم فرانسیسی اور نیم برطانوی ہواور جو قسطنطنیہ جاکرترکوں کا مقابلہ کرے یہ ایسے عالم میں ہے کہ ہنری پنجم قسطنطنیہ کے سقوط سے تینتیس سال قبل یعنی چودہ سو بیس میں تھے تاہم شیکشپئر کی مذھبی حس اس قدرقوی ہے کہ وہ یا تو اس تاریخی غلطی کی طرف متوجہ نہیں تھے یا اس کو کوئي اھمیت نہیں دیتے تھے انہوں نے یہ ڈرامہ سولہ سو عیسوی میں لکھا تھا ۔


فصل ششم :محمد (ص)مسیح مخالف فرد کی حیثیت سے اور اصلاح کلیسا کے دوران محمد واسلام ۔

لوتھر نے سولھویں صدی کی دوسری دھائی سے کلیسا اور پوپ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جس کے نتیجے میں کلیسا نے انہیں کافر قراردیا اس زمانے سے یورپ میں ایک بنیادی تضاد پیدا ہوگيا۔ایراسموس جو ایک اومانسٹ تھے وہ حقیقت وجود کے بارے میں تمام تراختلافات کے باوجود رواداری اور تمام دینوں کے احترام اور خدا کی تقدیس وتکریم کے قائل تھے ۔عیسائيت میں اختلافات کے طول پکڑنےسے اکثریت لوتھر کی گرویدہ ہوگئي تھی اور پوپ کوعیسی مسیح کا مخالف اور دجال کہا جانے لگا تھا۔لوتھرجو پروٹسٹینیزم کے بانی شمار ہوتے تھےانہوں نے بھی محمد و اسلام کے بارے میں نہایت شدید نظریات پیش کۓ جو ان کے پیرووں میں رائج ہوگئے لیکن اس زمانے میں اہم بات یہ تھی کہ قرون وسطی میں محمد کو جو دجال کا لقب دیاگیا تھا اب یہ لقب پوپ کے لۓ استعمال ہونے لگا اور پروٹسٹینٹ عیسائيوں کی نظر میں پوپ تھے جو عیسی مسیح کے مخالف بن چکے تھے۔عیسائيت میں دجال کا تصور نہایت اھمیت کا حامل ہے کرامول اپنی کتاب "پوپ وہی دجال ہیں "میں لکھتے ہیں کہ خدا اور انسان کے نجات دھندہ عیسی مسیح کے بعد کسی چیزکی شناخت دجال کی شناخت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی "رنیسینس کے آغازمیں دجال کے مفہوم میں توسیع آگئي تھی۔دجال کون تھا؟پوپ پادری ترک یا پھر محمد (ص)۔لوتھر کی نظر میں دجال کا حقیقی تجسم پوپ تھا جبکہ برطانوی عیسائیوں کی نظر میں محمد و پوپ دونوں اہریمنی وجود کے حامل تھے تاہم پوپ کو زیادہ خطرناک سمجھتے تھے چونکہ وہ داخلی دشمن تھے۔پندرہ سو پچاس میں لکھے جانے وال ایک ڈرامے میں ترکوں اور کیتھولک عیسائیوں کا مقابلہ کرتے ہوۓ کہا گیا ہےکہ "جراءت سے یہ کہا جاسکتاہے کہ ترک ہزار گنا تم لوگوں (کیتھولکس ) سے اچھے ہیں "
تیرہ سو چوراسی میں جان وائيکلیف عیسائیت کی داخلی برائيوں کی نشاندھی کرنے کے لۓ محمد کے نام کواستعارے کے طورپر استعمال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں "ہم مغرب کے ماحومت "اس سے ان کی مراد کلیسا کے عھدیداروں کی حرص لالچ ناپسندیدہ اخلاق اور بدسلوکی ہے۔
سولھویں صدی میں عیسائيت میں ایسے عالم میں اختلافات عروج پرپہنچے جب ترکوں کا خطرہ بڑھ چکا تھا اور ترکوں نے ہنگری کی بادشاہت کا تختہ الٹ دیا تھا بنابریں اسلام کے خلاف جد وجھد کوبدستور اولیت حاصل تھی اور لوتھر نے اپنے بڑھاپے میں مونت کروچہ کی کتاب "رد قرآن"کا جرمنی میں ترجمہ کيا تھا۔اس زمانے میں یورپیوں کی نظر میں اسلام بہت زیادہ طاقتورہوچکاتھا اور یہ شبہ پیدا ہوگيا تھاکہ خداکا لطف وکرم ترکوں کے شامل حال ہوگيا ہے بنابریں لوتھر نے اس مسئلہ کا جائزہ لینے کوبھی ضروری سمجھا کہ آیا اسلام میں زیادہ سعادت ہے یاعیسائيت میں؟ لوتھر نے اپنے اعترافات میں لکھا ہے کہ ایک بار وہ بھی شک وتردید کا شکار ہوگۓتھے اور ایسے گمراہ ہوۓ کہ محمد کوتقریبا پیغمبر تسلیم کرلیا اور یہ خیال کرنےلگے کہ ترک اور یہودی حقیقی قدوسیت کی راہ میں قدم اٹھارہے ہیں،لیکن انہوں نے یکایک شیطان کو خود سے دورکرنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔
یورپ کے خلاف ترکوں کے تمام ترخطروں کے باوجود لوتھر کی نظر میں پوپ ہی دجال کا مصداق تھے لوتھر کا کہناتھاکہ دجال عیسائيوں کے درمیان ہے ۔لوتھر کی کتابوں میں بیرونی دشمن، ترک، یہودی اور محمد (ص) ہیں اور انہوں نے ان کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے ۔
ایسا لگتاہےکہ لوتھر نے پندرہ سو بیالیس میں پہلی مرتبہ قرآن کا ترجمہ حاصل کرکے اس کا مطالعہ کیا اس کے باوجود وہ محمد کی جانب سے خداے واحد پریقین اور ربانیت مسیح کے نظرےکو رد کرنے کی وجہ سے انہیں جھوٹے پیغمبر سمجھتے تھے جنہیں خداکی طرف سے نہیں بلکہ شیطان کی طرف سے قرآن ملاتھالھذا ان میں اور پوپ میں کوئي فرق نہيں تھا ۔لوتھر محمد کوبغیر معجزہ کا پیغمبر سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے ان کی مذمت کیا کرتےتھے اسی طرح ان کی کامیابیوں کو مکرو فریب وجھوٹ و ریا نیزمھارت و ذھانت کا نتیجہ قراردیتے تھے ۔
مسلمان اور یہودی توحید خداوند متعال اور ربانیت مسیح کے حوالے سے عیسائیوں پر اعتراضات کیاکرتے تھے لوتھر اس مسئلے کو سمجھتے تھے اسی وجہ سے نظریہ تثلیث کی حمایت میں یہودیوں اورمسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا کرتے تھے ۔لوتھر ہمیشہ عیسائیوں سے کہا کرتے تھے کہ محمد نے جوکچھ اپنی کتاب میں کہا ہے اس پر توجہ نہ دیں اور اپنے عقیدوں کے پابند رہیں لوتھر کہتے ہیں "تم مسیح میں مجسم خدا کے عقیدے پرمطمئن اور خوش رہو۔۔۔۔گرچہ محمد اورپوپ اپنے انکشافات کو جاری رکھے ہوے ہیں لیکن تم مسیح مصلوب کے عقیدے پرقائم رہو۔


فصل ہفتم :اومانسٹ یا متحجر(سترھویں صدی عیسوی میں محمد یورپیوں کے آثارمیں)

سولہ سو تراسی میں ویانا کے باہر ترکوں کی شکست یورپ کے لۓ ترکوں کے خطرے میں کمی اور درحقیقت ترک حکومت کی جانب سے لاحق تشویشوں کے کم ہونے کا آغازتھی دوسری طرف سے اٹھارویں صدی میں روشن خیالی اوراومانیزم کارواج شروع ہوچکاتھا ۔کانت کا زمانہ(سترہ سوچوبیس سے اٹھارہ سو چالیس ) عقلیت پسندی یا عقل و خرد کا زمانہ کہاجاتاہے اسی زمانے میں تدریجا آزادی فکر بھی معرض وجود میں آتی گئي اور کچھ لوگوں نے گرچہ پابندیوں اور سنسر کے سائے میں اپنے دل میں چھپی ہوئي باتوں کا اظہار کرنے کی کوشش کی ۔
اٹھارویں صدی میں بھی اسلام و محمد (ص) کے خلاف حملے جاری رہے اس زمانے میں فرق صرف اتناتھا کہ یورپیوں نے اپنی ساری توجہ اسلام سے ہٹاکر صرف محمد (ص) کی ذات پر مرکوزکردی تھی اسی کے ساتھ ساتھ اس زمانے میں ماضی کے مطالب کی بھی تکرار ہوتی تھی تو کبھی جدید مطالب بھی سامنے آتے تھے ۔
فرانسیسی باشندے "آب دوورتو"نے سترہ سوچوبیس میں "قرآن کے مولف کے بارے میں "کے عنوان سے ایک رسالہ تحریرکیا اس رسالے میں قرون وسطی کے الزامات کو ہی دوہرا یا گيا تھا جیسے محمد(ص) نے بزور شمشیر اسلام کو پھیلایا ہے یا یہ کہ محمد بے راہ روی کے حامی تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ محمد (ص) نے چھپ چھپاکر مقدس کتاب کےعھد عتیق اور عھد جدید کا مطالعہ کیا تھا اور ان سے اپنے نۓ دین کی بنیادیں مستحکم کرنے میں مددلی تھی ۔"آب دوورتو"نے قرون وسطی ہی کی طرح مالدار خاتوں سے شادی کومنفی رخ دیکر وحی کو مرگي کی بیماری سے تعبیر کیا ہے۔
اس فرانسیسی مولف کے برخلاف کونٹ دوبولنویلیہ (Cont de Boulainvilliers) نے سترہ سو بیاسی میں"زندگي ماحومت" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں دین اسلام کو عیسائيت کے برخلاف فطری سادہ اور منطقی دین قراردیا انہوں نے کلیسا کے اس الزام کوکہ دین محمد (ص) عیسائي عقل کی اساس پر ایک غیر معقول دین ہے رد کیا اور کہا کہ دین اسلام سے زیادہ منطقی معقول اور قابل قبول کوئی اور دین نہیں ہے انہوں نے یورپ کاقرون وسطی کا یہ الزام کہ محمد ایک غیر مہذب شخص تھے مستردکیا انہوں نے مسلمانوں کے آداب ورسوم کا بھی دفاع کیا۔انہوں نے لکھا ہےکہ ختنہ کرنا بدن کی سلامتی کے لۓ مفید ہے اورسور کا گوشت گرم علاقوں میں بیماریوں کا باعث بنتا ہے اور ہاتھ پیر دھونا نیزغسل ووضو بھی گرم علاقوں میں حفظان صحت کے لحاظ سے بہت مفید ہے افسوس کہ بولنویلیہ کی روش پائدار روش میں تبدیل نہ ہوسکی۔
اس زمانے میں یورپیوں نے اپنی فکری سطح کے مطابق اسلام و محمد (ص) کے خلاف کتابیں لکھیں مثال کے طورپر"ابہ دوسنت پیئر"نے اسلام کے خلاف اپنی کتاب میں لکھا ہےکہ گرم علاقے کے باشندوں کی پروازتخیل اور سوچنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے لھذا اسلام بھی اسی طاقت تخیل کا نتیجہ ہے ان کی نظر میں اسلام آخر کار تحجراور تعصب کا شکارہوکر رہے گا ان کا نظریہ تھا کہ یہ افکارسردعلاقوں کے باشندوں کو بھی متاثر کرسکتے ہیں البتہ اگر وہ نادانی کا مظاہرہ کریں ۔
"ژان آنتوان گوئر" نے سترہ سوسینتالیس میں ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے محمد (ص) کو جاہ طلب فرد کے طورپرپیش کیا ہےکہ جس نے دین کی تحریف کرکے اسے اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کاذریعہ بنایا۔وہ کہتے ہیں کہ جب بھی محمدمیدان فصاحت ہارنے لگتے تھے طاقت کا استعال کرتے تھے ۔ژان آنتوان گوئر کرامول سے محمد(ص) کا موازنہ کرکے ان دونوں میں مکرو رفریب اور منافقت کو وجہ اشتراک قراردیتا ہے ۔اس کی نظر میں ان دونوں کی بیویوں نےان کےحوصلےبڑھانے میں اہم کردارادا کیا ہے ۔وہ اپنی کتاب کی فصل دوم میں لکھتا ہےکہ اسلام کی نظرمیں عورتیں روح سے بے بہرہ ہیں لھذا جنت میں نہیں جاسکتیں ۔وہ محمد کے شدید جنسی رجحان پرمبنی قرون وسطی کے الزامات کی تکرار کرتاہے اسی الزام سے "دید رو"بھی متاثر دکھائی دیتا ہے اور کہتا ہےکہ محمد عورتوں کوسب سے زیادہ دوست رکھنے والے اور عقل وخرد کے دشمن تھے وہ عیسائيت پر بھی اعتقاد نہیں رکھتاتھا اور شک و عدم اعتقاد کو فلسفی نظریوں کے حصول کی اساس سمجھتا تھا بنابریں یہ نتیجہ حاصل ہوتاہے کہ "دیدرو"کی طرح سوچنے والے اصل دین ومذھب کے مخالف تھے اور فرانس میں جہان اب بھی پادریوں کو اقتدار حاصل تھا بغیر کسی طرح کی رکاوٹ کے اسلام پر حملے کیا کرتے تھے جبکہ ان کا اصل مقصد دین کی نفی کرناتھا۔ دیدرو اور ولادیمر کی نگرانی میں اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف دوم میں شایع ہونے والے دائراۃ المعارف میں محومت کے بارے میں ایک مقالہ شامل ہے جسمیں محمد(ص) کی تعریف کے ساتھ تنقیص بھی دیکھنے کو ملتی ہے اس مقالے میں محمد (ص) کو طاقتور اورجری بتایا گيا ہے لیکن تعدد زوجات ،جنسی رجحانات ،مکرو فریب کی سیاست اور نبوت کے جھوٹے دعوے جیسے قرون وسطی کے الزامات کو بھی دہرایا گیا ہے یہ مقالہ ایک طرح سے "پیئر میل "کی کتاب "تاریخی –تنقیدی فرھنگ "کے زیر اثر لکھا گيا ہے پیئر میل محمد(ص) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہیں ہوشیار عورتوں کا تعاون حاصل نہیں تھا اور نہ وہ عورتوں کو اپنے کاموں میں شریک کرتے تھے وہ کہتے ہیں کہ محمد (ص) نے اس وجہ سے ایران پرحملہ نہیں کیاکہ ایران کی عورتیں خوبصورت تھیں اور انہیں خوف تھاکہ وہ اپنے نفس پر قابونہیں رکھ پائيں گے ۔
اس زمانےمیں فرانس بلکہ یورپ کا مشہور ترین مصنف "والٹر"ہے وہ ہرشکل میں تحجر اورتعصب اور مذھب کا مخالف تھااس کا مشہور ترین تحریری کارنامہ جسے خود وہ بھی اپنا بہترین ڈرامہ کہتاہے "محومت یا تحجر ہے (Mahomet ou le Fanatisme)
یہ ڈرامہ سترہ سو اڑتیس میں لکھا گيا اور تین سال بعد اسٹیج کیا گيا پوپ بنڈیکٹ چھاردھم نے بھی اس ڈرامے پر نظرخاص کی اور عثمانی سفیر کے باضابط اعتراض کے بعد اس پر ایک بار پابندی بھی لگائي گئي ۔یہ خیالی ڈرامہ یورپ میں محمد(ص) کے تعلق سے موجود قدیمی ذہنیت کی اساس پر لکھا گيا ہے اس میں محمد (ص) کو خون آشام جنگجو ،اقتدار کابھوکا ،غارتگر فاتح اورسازشی ذھن کا مالک بتایا گیا ہے جو اپنی جاہ پسندی کی خاطر اپنے دوستوں کوبھی راستے سے ہٹادیتاہے۔ اس ڈرامے میں ابوسفیان ،عمر، زید بن حارثہ اور دیگر شخصیتوں کے کردارپیش کۓ گۓ ہیں اور محمد (ص) کو ایسے شخص کے روپ میں پیش کیا گيا ہے جو اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں میں ضمیر کی آواز کو ہرگزنہیں سنتا اور اپنے اھداف تک پہنچنے کے لۓ محارم سے زنا کو بھی جائز سمجھتا ہے ۔اس ڈرامے کا دوسرا حصہ پہلے حصے سے زیادہ گھناونا تھا کیونکہ اس میں قرون وسطی کی ذھنیت کے مطابق بھر پور طرح سے محمد(ص) کی شخصیت پر حملے کۓ گۓ تھے ۔ژوپیر یعنی ابوسفیان سے محومت کی گفتگو تفصیلی اور حیرت انگیز ہے اس گفتگو میں محومت یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک جاہ طلب انسان ہیں اور عرب قبائل کو متحد کرنے کا عظیم منصوبہ رکھتے ہیں اور موقع ملنےپر ایران وروم پر قبضہ کرنے کا اراردہ رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں آو اس دنیا کے کھنڈرات پر جزیرۃ العرب کو آباد کریں میں ایک ہزار سال بعد آيا ہوں تاکہ ان بدوی قوانین کو بدل دوں۔
یہ امکان پایاجاتاہےکہ والٹر نے اس ڈرامے کے پیراۓ میں محمد (ص) کی شخصیت کو غلط طرح سے استعمال کرتے ہوۓ ایک ٹراجڈی پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس طرح فرانسیسی دربارکا کرپشن اور بدعنوانیاں برملا کرنا چاہتے ہيں۔والٹر کا ھدف جوبھی رہاہو بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں جوکہ علمی تحریک اور بیداری کی صدی تھی والٹر نے بڑی بے رحمی سےیورپیوں کے سامنے محمد (ص) کی شخصیت بری طرح مسخ کرکے پیش کی ہے۔ یہاں پر اس بات کا ذکر بے جانہ ہوگا کہ مصر کے معروف ڈرامہ نگار توفیق الحکیم نے والٹر کے جواب میں انیس سو چھتیس میں محمد (ص) کی شخصیت کے بارےمیں ایک ڈرامہ لکھا یہ ڈرامہ سیرۃ ابن اسحاق کی اساس پر لکھا گیا اس لحاظ سے اس کی علمی وقعت قابل توجہ ہے البتہ یہ ڈرامہ کبھی اسٹیج نہیں کیا جاسکا (رجوع کریں آن ماری شیمل ص 402 )

والٹر نے سترہ سوچھپن میں اپنے مقالے "آداب و رسوم ملل "میں محمد (ص) کے گہرے اثرات کی بناپر ان کی تعریف کی ہے لیکن انہیں جھوٹا پیغمبر بھی قرارردیا ہے۔والٹرنے "دوبولنویلیہ کے نظریات کی مخالفت کرتے ہوۓ کہا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہےکہ ایک شخص نبوت کا دعویدار ہواور سیاست دان بھی ہواس سے پتہ چلتاہے کہ والٹر کس قدر عیسائی تعلیمات سے متاثر ہیں ۔یاد رہے دوبولنویلیہ ان نادر یورپی مصنفین میں سے ہیں جنہوں نے محمد (ص) کی حمایت کی ہے اور ان کی زندگي کے حالات لکھنے میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
سترھویں صدی کے اواخر میں "ھمفری پریدو"نے "مکاری کی حقیقی ماھیت اور محومت کی زندگي بھرپومکاری کے "عنوان سے ایک رسالہ لکھا جس میں وہ محومت کے جھوٹے دعوی نبوت کی خصوصیات اجاگر کرنےکی کوشش کرتاہے وہ کہتاہے کہ نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والا نفسانی خواہشات کو ہوادیتاہے اس کی باتیں جھوٹی ہوتی ہیں وہ مکروفریب سے اپنی باتیں پھیلاتاہے ۔۔۔۔وغیرہ ۔اس رسالے نے اٹھارويں صدی میں یورپیوں پرگہرے اثرات مرتب کۓ تھے وہ لکھتا ہےکہ "کس چیزنے محومت کو اس طرح کی مکاری پر مجبورکیا صرف جاہ طلبی اور شہوت " ۔
"جو‌زف پٹس "نے سترہ سو اکتیس میں سرزمیں حجاز کے اپنے سفرنامے میں وہی تعصب آمیزنظریات کی تکرارکی ہے اور محمد (ص) کو مکاراور عیاش فردقراردیا ہے ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک