امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

محمد (ص)یورپ کی نظر میں(اول)

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


سرزمین مشرق و مغرب کے درمیان تنازعہ جو اسکندر مقدونی کے حملے سے شروع ہوا اسکے بعدایرانی سلطنت کے ساتھ مشرقی روم کی حکومت کی جنگوں اور مسلمان فاتحین کے خلاف اسی حکومت کی زورآزمائیوں کے طور پر جاری رہا آج بھی پورے شد


بسم اللہ الرحمن الرحیم
چشم مراتابہ خواب دید جمالش
خواب نمی گيرد ازخیال محمد

سعدی اگرعاشقی کنی و جوانی
عشق محمد بس است و آل محمد
و مد کےساتھ جاری ہے اور یہ تنازعہ کم وبیش تین ہزار سالہ تاریخ پر محیط ہے۔تین ہزار سال کی صف آرائي اور جنگ نے ان دونوں تہذیبوں کو"دشمنی" کے مفہوم سے آشنا کرنے میں نہایت اھم رول اداکیا ہے ۔
مسلمانوں نے اس زمانے میں جب وہ ہرطرح سے اپنے دین سے بیگانے ہوچکے تھے مغربی مصنفین کے رشحات قلم سے دین اسلام کی بنیادوں کو دوبارہ استوارکرنے کی کوشش کی چنانچہ ھندوستان میں سرسید احمد خان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات پر مشتمل اپنے مضامین میں رسول اللہ کی عظمت کے بارے میں بہت سے مغربی مصنفین کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے اور ان کے اقوال نقل کۓ ہیں۔آن ماری شیمل کے بقول اس زمانے میں (انیسویں صدی) ھندوستان کی جوان نسل کا محبوب مصنف تھامس کارلایل تھا جس کی کتاب" ہیرواور ہیروپرستی "سے رسول اللہ کی شان میں تمجیدی اقوال اس کثرت کے ساتھ نقل کۓ گۓ ہیں کہ مسلمانوں نے اس کے غلط نظریات کو یکسرنظراندازکردیا اور ان کی نفی کرنے تک کی زحمت گوارا نہ کی ۔ایران میں بھی ابو عبداللہ زنجانی نے اس کتاب کا فارسی میں ترجمہ کرکے شایع کرایا ۔یہ سلسلہ اس حدتک آگے بڑھا کہ محمد حمیداللہ نے "محمد لنین کی نگاہ میں "کے زیر عنوان مضمون لکھا اور اس میں لنین کی زبان سے رسول اللہ کی شان میں تمجیدی کلمات بیان کۓ۔
اسی کے ساتھ ساتھ مسلمان جب رسول اللہ کی شان میں تنقید یا گستاخی کا مشاھدہ کرتے ہیں تو اسلامی غیرت انہیں جھنجھوڑکررکھ دیتی تھی اور وہ توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کا جواب دینے لگتے ہیں ۔البتہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے اور ہیں جنہیں اپنے دین کے بارے میں مغرب کے نظریات جاننے سے دلچسپی ہے ۔
قابل ذکر ہے مسلمانوں نے دین اسلام بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی ذات اقدس اور قرآن کریم کے بارے میں مستشرقین کے نظریات پر بہت کم تحقیقی کام کیا ہے جبکہ یورپی محقیقن نے اس موضوع پر خاصہ کام کیا ہے مسلمانوں نے جس چیزپر توجہ کی ہے وہ مستشرقین کے تحلیلی اورتجزیاتی نظریات سے استفادہ کرنا ہے اس سلسلےمیں اڈوارڈسعید کے کاموں کو سب سے عمدہ قراردیا جاسکتاہے لیکن باقی کام مذھبی اور غیر محقق افراد کے ہیں جو مغربی اھل قلم کے اعتراضات کا جواب دینے کے لۓ کۓ گے ہیں یا ان کا مقصد اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لۓ مغربی اھل قلم کے مثبت نظریات نقل کرنا رہا ہے عام طورسے اس طرح کی کتابیں یا کتابچے مغربی متون کی ناقص نقل ہیں اور مقامی زبانوں میں ان کا ترجمہ کرکے شایع کیا گيا ہے
محترمہ مینو صمیمی نےاسلام و رسول اللہ کے بارے میں مغرب میں لکھی جانے والی بیشتر کتابوں سے استفادہ کیا ہے اور اپنی گرانقدر کتاب محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ )یورپ میں تالیف کی جو اپنی نوعیت کی نہایت اہم کتاب ہے ۔
یہ کتاب فارسی میں ترجمہ کی گئی ہے اور فارسی میں اس کا نام "مغرب میں ہزارسالہ افسانہ سازی اور دروغ پردازی" رکھا گیا ہے۔یہ کتاب ماخذ ومدارک اور روش نگارش کے لحاظ سے قابل توجہ ہے جس سے ایک ہزار برسوں سے زائد عرصہ پر محیط رسول اللہ کے بارے میں مغربی ممالک کی طرزفکر کی نشاندھی ہوتی ہے ۔محترمہ مینو صمیمی نے پانچ سال تک مسلسل تحقیق و تفحص کے بعد اس اہم موضوع پر قلم فرسائي کی ہے اور مغربی مصنفین کی ہزاروں کتب و نوشتہ جات سے اسلام وپیغمبر اسلام کے بارے میں ان کے نظریات کو منظرعام پر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے یہ کتاب انگریزی میں ہے اور جناب عباس مہرپور نے اس کا فارسی میں ماہرانہ ترجمہ کیا ہے فارسی کے ترجمہ میں ناشر اور مترجم نے اپنے اپنے حاشیے لگاے ہیں جس سے قاری کوکافی مدد ملتی ہے ۔
کتاب پر مصنفہ نے اپنے مقدمہ میں نسبتا تفصیل سے مختلف زمانوں میں رسول اللہ کے بارے میں مغربی باشندوں کی ذہنیت کی تصویر کشی کی ہے اور سلمان رشدی کی توہین آمیزکتاب نیزمغرب کے اسلام مخالف اقدامات کے سامنے آنے کے بعد اس موضوع پر بحث کۓ جانے کی ضرورت کو اجاگرکیا ہے ۔یہ مقدمہ سن دوہزارمیں کیمبریج یونیورسٹی میں لکھا گیا ہے اور اس کی اختتامی عبارتیں اس طرح ہیں "حضرت محمد کا پیغام دوستی و محبت کا پیغام تھا دشمنی و جنگ کا نہیں ۔۔۔۔اگر اہل مغرب بھی اسلام وحضرت محمد کا احترام کرنا سیکھ لیں تو یہ امید کی جاسکتی ہےکہ مسلمان بھی ان کا(اہل مغرب)کا احترام کرنے لگيں گے "۔
کتاب دیباچے سے شروع ہوتی ہے جس میں محترمہ صمیمی نے اپنی کتاب کامکمل نقشہ کھینچا ہے اور ان ماخذ کا ذکر بھی کیا ہے جن سے انہوں نے استفادہ کیا ہے ۔اس کتاب میں نقل کفرکفرنباشد کے مصداق مغربی مصنفین کی آراء نقل کی گئي ہیں جس پر مصنفہ اور ناشر نے قارئين سے معذرت خواہی کی ہے ۔
یہ کتاب گیارہ فصول پر مشتمل ہے پہلی فصل سے تیسری فصل تک مصنفہ نے قدیم کتابوں اور وہ کتابیں جوانہیں دستیاب تھیں ان کی اساس پر رسول اللہ کی سوانح حیات بیان کی ہے فصول کے عناوین اس طرح ہیں
پہلی فصل :محمد مکہ کے لۓ پیغام لانے والے ،دوسری فصل :حکومت محمد درمدینہ ۔تیسری فصل :محمد روحانیت کی جستجو میں۔مصنفہ نے ان فصول میں دستیاب مآخذسے اپنی فہم کے مطابق رسول اللہ کی زندگي کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے (فارسی ترجمے میں محققین نے کتاب کے بعض مطالب کے بارے میں ناشرین کی درخواست پر اظہار نظرکیا ہے جو حاشیے کے طورپر مندرج ہیں البتہ ان امورکا ہمارے تبصرے سے کوئي تعلق نہيں ہے)
مصنفہ نے چوتھی فصل سے گيارھویں فصل تک کتاب کے اصل موضوع یعنی قرون وسطی سے بیسویں صدی تک رسول اللہ کے بارے میں مغربی مصنفین کے نظریات پر تحقیقی نگاہ ڈالی ہے انہوں نے ہرحصے میں بحث کے تاریخی نشیب و فراز ،مصنف کی فکری پوزیشن اور مختلف ادوار کے خاص تاریخی حالات کا ذکر کیا ہے مثال کے طور پرعوام کی بیداری کی بحث میں وہ ناچار فرانس کے انقلاب کی تفصیلات بیان کرتی ہیں یہ ابحاث کہیں کہیں طول پکڑجاتی ہیں البتہ یہ تصورکیا جاسکتاہےکہ مصنفہ نے ان ابحاث کو ضروری سمجھا ہو۔
مصنفہ نے بنیادی طورپر جس امر پر توجہ کی ہے وہ رسول اللہ کے بارے میں یورپیوں کے نظریات ہیں،اسی کے ساتھ اسلام کے بارے میں پیش کۓ گۓ نظریات کا بھی ذکر کیا گيا ہے اور بعض اوقات ایک مسئلہ پر تفصیلی بحث کی گئي ہے ہم نے اس تبصرہ میں اس طرح کے مباحث کو مدنظر نہیں رکھا ہے۔
ہرفصل میں ایک خاص تاریخی دور کاانتخاب کیا گيا ہے اور اس میں اہم ترین تاریخی ادبی اور دینی نظریات کا احاطہ کیا گيا ہے گرچہ بعض اوقات برسوں کے لحاظ سے باریک بینی کا مظاہرہ نہیں کیا گيا ہے اور تقدم و تاخر دیکھا جاسکتاہے ۔
کتاب کی دسویں فصل کا عنوان "صلیبی جنگوں کی طرف بازگشت "ہے اس فصل میں ایک طرف مغرب و مشرق کی صف آرائي اور صلیبی جنگ کے نظرے کا احیاء تو دوسری طرف مشرق میں جھاد و دفاع مقدس پر بحث کی گئي ہے یہ فصل کتاب کے اصل موضوع سے تقریباغیر مربوط ہے ۔
بعض مصنفین کی کتابوں کا نہایت اختصار سے جائزہ لیا گیا ہے مثال کے طورپر واشنگٹن اروینگ کی کتاب سے بہت کم مطالب نقل کۓ گۓ ہیں جبکہ اس کتاب سے کافی مطالب نقل کۓ جاسکتے تھے ان تمام امورکے باوجود "محمد(ص) یورپ کی نگاہ میں "ایک بے مثال کتاب ہے گرچہ ہرموضوع پر مزید تحقیق کی گنجائش ہوتی ہے تاہم پہلا قدم نہایت اہم ہوتاہے یہ کتاب ہمیں ایک ہزار سال کے عرصہ میں اسلام کے تعلق سے مغرب کے احمقانہ طرزتفکر کی واضح تصویر دکھاتی ہے اسی طرح اسلامی اورمغربی تہذیب و تمدن کے درمیان تصادم کے اسباب کی بھی نشاندھی کرتی ہے ۔
ہم نے اشارہ کیا تھاکہ کتاب کی پہلی تین فصلیں رسول اللہ صلی اللہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ سے مختص ہیں لہذا ان کا کتاب کے اصل موضوع سے خاص ربط نہیں ہے اسی وجہ سے ہم نے چوتھی فصل سے اپنے تبصرے وتلخیص کا آغازکیا ہے ۔

رسول جعفریان


چوتھی فصل :محمد(ص)محوند کی حیثیت سےقرون وسطی کے آغازسے رنیسینس تک

اس دورمیں مشرق و مغرب میں دواہم واقعات رونما ہوتے ہیں۔
پہلا واقعہ روم میں مقدس سلطنت کی تشکیل ہے کہ جو قدیم روم کی تہذیب و تمدن کی نابودی ، یورپ کے مختلف علاقوں میں شمالی بربرقبائل و گروہوں کے معرض وجود میں آنے نیزعیسائيت کے سرکاری مذھب کی حیثیت سے منظرعام پر آنے کا باعث بنی۔اس مقدس سلطنت نے قدیم رومی سلطنت کی طرح یورپ کو متحدکرنے کی کوشش کی ۔
دوسرا واقعہ اسلام کاظہور اس کی ترقی و پیشرفت اور فتوحات ہیں اسلامی فتوحات کا ایک بڑاحصہ میڈیٹرینین ساحلوں پر آباد عیسائي سرزمینوں کی تسخیرسےمتعلق ہے اس طرح اسلام عیسائيت کا سب سے بڑارقیب بن جاتاہے اس کے علاوہ محمد (ص)یعنی اسلام کے بانی حضرت عیسی مسیح کی جانشینی کے دعویدار اور تثلیث کاانکار بھی کرتےہیں۔کلیسا کے لۓ یہ ناقابل برداشت ہے ۔
ان دوواقعات کا نتیجہ روم کی مقدس حکومت کی طرف سے اسلام کو سرکوب کرنے اور مقدس سرزمینوں کو اس کے قبضے سے نکالنے کے لۓ صلیبی جنگیں شروع کرنا ہے ۔صلیبی جنگیں 1095 میں شروع ہوئيں اور بارہ سو سترمیں ختم ہوئيں صلیبی جنگوں کے دوران ہی حکومت روم نے بیت المقدس اور شام کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کیا،گيارہ سو اڑتالیس میں صلاح الدین ایوبی نے عیسائيوں کو بیت المقدس اور دیگر علاقوں سے نکال باہر کیا اس کے بعد بھی حکومت روم نے صلیبی جنگيں جاری رکھیں جن میں عیسائيوں کو شکست ہوئي اور انہیں ہمیشہ کے لۓ بیت المقدس سے ہاتھ دھوناپڑا۔
ایسے ماحول میں رسول اللہ کے بارے میں یورپ کی ذھنیت وجود میں آتی ہے۔اس ذھنیت کی اساس وہ معلومات ہیں جو یورپیوں نے اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات کے نتیجے میں حاصل کی تھیں اور مسلمانوں سے دشمنی کے ساۓ میں ان کا تجزیہ اورتحلیل کی تھی۔ مینو صمیمی لکھتی ہیں کہ "ان ہی پرآشوب وخونبار صدیوں میں محمد (ص) کے بارے میں غیرحقیقی اور بے بنیاد تصورات قائم ہوتے ہیں جو سارے یورپ پر چھاجاتے ہیں "
یہ وہ زمانہ ہے کہ یورپ میں کم و بیش رسول اللہ کو پہچانا جاتاتھا گرچہ ان معلومات کا سرچشمہ اسلامی کتابیں تھیں لیکن یہ معلومات افسانوں داستانوں اور توھمات کے ساتھ گھل مل گئي تھیں اور ان کی اساس یہ تصور تھاکہ اسلام ظہور مسیح سے قبل آنے والا دجال ہے ۔
عیسائيت میں حضرت مسیح کو بے شمار مادی معجزات کا حامل قراردیا گيا ہے بنابریں محمد(ص)کے معجزہ کا حامل نہ ہونے کے بارے میں کسی روایت کا نہ ہونا ان کی نظر میں رسول اللہ کو جھوٹی اور فریب کا رشخصیت بنادیتاہے۔نبوت کے دعوے کو بھی مغربی اذھان نے مرگي کی بیماری سے تعبیرکیا ہے۔اسی زمانے میں اسلامی تہذیب وتمدن یورپ کے لۓ ایک چیلنج بن کر ابھری ایسی چیلینج جسےانہوں نے اسپین و سسلی سے پہچانااس امرسے یورپی حسد کی آگ میں جلنے لگے اور نہ صرف دین اختلافات کا سبب بنا بلکہ فوجی ترقی اورزندگي کے تمام شعبوں میں علمی اورتہذیبی ترقی بھی یورپ کے شدید حسد میں مبتلاہونے کا باعث بنی ۔
مغرب نے تین طریقوں سے محمد(ص)کے بارے میں معلومات حاصل کیں پہلے بیزانس دوسرے اسپین اور تیسرے ان اعیانی کمانڈروں کے ذریعے جنہوں نے صلیبی جنگوں میں شرکت کی تھی ۔
جان دمشقی ان پہلے مصنفین میں سے ہے جس نے اپنی کتاب De Haeresbus Liber| میں رسول اللہ کے بارے میں لکھا ہے۔ حضرت خدیجہ کے مال وثروت سے استفادہ کرنا جنگ سے شغف اور بے پناہ جنسی خواہش وہ امور ہیں جو انہیں رسول اللہ کی شخصیت کے بارے میں قرون وسطی سے ورثہ میں ملے ہیں۔جنسی خواہش کے بارے میں یہ یادرکھناچاہیے کہ قرون وسطی میں کلیسا کی رہبانیت کے پیش نظریہ امر کس قدر منفی تصورکیاجاتاہوگا۔جان دمشقی کا خیال ہےکہ محمد (ص) کومشکوک عیسائي بدعت پسند عناصرنے گمراہ کیاتھا اور انہوں نے بعد میں عربوں کو گمراہ کرنا شروع کردیا۔
بید معززقرون وسطی کا ایک اور مصنف ہے جس نے بدوعربوں کی جنگ پسندانہ خصلت پر کافی زوردیا ہے اور انہیں جسورجنگ طلب وجاھل قراردیا ہے۔مجموعی طورسے وہ لفظ ساراسن کے سہارے جو یورپ میں بدوعرب کے معنی میں ہے اسلام و محمد(ص)کو پہچنوانے کی کوشش کی ہے۔
اسپین نے کئي صدیوں سے مسلمانوں کےساتھ سمجھوتاکرلیا تھا اور یہاں کے عیسائي مسلمانوں کےساتھ گھل مل گۓ تھے اوراسلامی تہذیب وتمدن کے زیر اثر انہوں نے اپنی تہذیب و تمدن کوبھی سدھار لیاتھا یا کم ازکم اسے فلسفیانہ رنگ دے دیا تھا اسی زمانے میں یہودی تہذیب بھی اسپین میں مستحکم تھی اور یہ بھی اسلامی تہذیب ہی سے متاثر تھی بنابریں اس بات پر کوئي تعجب نہیں ہونا چاہیۓ اگر یہ کہا جاے کہ عیسائي اور یہودی اسلامی و عرب متون کا مطالعہ کرتے تھے اس صورتحال کو دیکھ کے صنادید عیسائيت کو یہ خدشہ لاحق ہوگياکہ کہیں ان کے پیرواسلامی ثقافت میں ضم نہ ہوجائيں اسی وجہ سے انہوں نے محمد (ص) اور اسلام کو بدنام کرنےکی مہم شروع کردی اسی زمانے سے رسول اللہ کی شخصیت کو مسخ کرنے کا آغازہوتاہے اور بے بنیاد تصورات وجود میں لاے جاتے ہیں اس زمانے میں بعض افراد نے اسلام کو آخرالزمان میں دجال کے ظہور کا پیش خیمہ قراردیا اور یہ پروپگینڈا کتاب مقدس (انجیل ) کی بعض عبارتوں کا سہارا لے کر کیاگیا۔"آلواروس "آٹھ سو پینتالیس عیسوی میں لکھتےہیں کہ "افسوس کہ ذھین عیسائي جوان شوق سے عربوں کی کتابوں کا مطالعہ کررہے ہیں اور عیسائي کتابوں کو بے اھمیت اورناقابل توجہ سمجھتےہیں"
محترمہ مینوصمیمی لکھتی ہیں کہ محوند،محون،اور فرانسیسی میں ماحون جرمنی میں ماخمت ایسے نام ہیں جن کے معنی دیو ،عفریت اور بت کے ہیں یہ وہ نام ہیں جوبارھویں صدی عیسوی میں یورپ کے عیسائي ڈرامہ نویسوں یا عاشقانہ اور رزمیہ داستانیں لکھنے والوں کی ایجاد ہیں ۔
اس زمانے میں ایسی بہت سی رزمیہ داستانیں لکھی گئيں جن میں یورپ کی تعریف و تمجید کی گئي ہے ان تمام داستانوں میں مسلمانوں کو مشترکہ دشمن بتایاگيا ہے۔بعض داستانوں میں ملتاہے کہ محون یعنی وہی محمد (ص)ایسا بت ہے جسے ساراسن (بدوعرب)پوجتے ہیں اور عیسائيوں کی طرح جو خدا(باپ)کو اور یہودی جو یہوہ کو مدد کے لۓ پکارتے ہیں وہ بھی محون کو پکارتے ہیں اس طرح قرون وسطی کے یورپ کی داستانوں اور ترانوں میں محمد(ص) کو ایک بت بنا کرپیش گيا تھا،تعجب تو اس بات پرہے کہ انگریزی کا لفظ Mammetry محومت سے اخذکیاگيا ہے جس کے معنی مجسموں یا تصویروں کی پرستش یا بت پرستی کےہیں۔
بعض داستانیں جو حضرت محمد(ص) کی توہین کی غرض سے لکھی گئي ہیں اس قدر افسانوی خلاف واقع اور آپ کی شخصیت کے برخلاف ہیں کہ انہیں نقل کرتے ہوۓ بھی انسان شرم سے پانی پانی ہوجاتاہے،یہ ترانے عام طورسے عوام کے درمیان رائج تھے ان ترانوں میں آنحضرت کو بت یا نعوذباللہ شیطان کے روپ میں پیش کرنا اس زمانے کے ادب میں رائج تھا اور یہ روش اگلی صدیوں میں بھی جاری رہی ۔
دوسری صلیبی جنگ: جب صلیبی سپاہ کو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست فاش ہوئي تو سارے مسائل کا ذمہ دار محمد(ص) کو ٹہرایا گیا جنہیں "شیطان"دجال اور جھوٹے پیغمبر سے تعبیر کیا جاتاتھا۔اسی زمانے میں راھب برنارڈ کلروکے مقابلے میں جنہوں نے دوسری صلیبی جنگ کےدوران مذھبی قیادت سنبھال رکھی تھی راھب کلونی کو دیکھتے ہیں جن کا خیال تھا کہ عیسائیوں کو صلح ودوستی کے راستے سے مسلمانوں کو صحیح طرح سے پہنچاننا چاہیے اور قرآن کی کمزوریوں کو سمجھ کرعام لوگوں کویہانتک کہ مسلمانوں کو ان سے آگاہ کرکے انہیں اسلام سے دستبردار ہونے کی ترغیب دلانی چاہیے اس راھب نے اپنی آمدنی سے لاطینی زبان میں قرآن کا ترجمہ آمادہ کرنےکی کوشش کی اور رابرکتن نامی ایک انگریزکو یہ ذمہ داری سونپی اس انگریزنے گیارہ سوتینتالیس میں لاطینی زبان میں قرآن کا ترجمہ مکمل کیا۔
صلیبی جنگوں کے مخالفین میں ایک نام راجربیکن کا ملتاہے ان کا خیال تھا کہ ان جنگوں میں عیسائیوں کی کامیابی کے باوجود بھی وہ مسلمانوں کو عیسائي نہیں بناسکتے ان کے خیال میں عیسائيت کی تبلیغ و ترویج ہی عیسائيت کو پھیلانے کا منطقی اور مفاہمت آمیزطریقہ تھا۔بیکن نے کندی فارابی ابن سینا اور ابن رشد کی کتابوں کے لاطینی ترجموں کا مطالعہ کیا تھا اور وہ جانتے تھے کہ اسلام ترقی و پیشرفت کرے گا۔
اس زمانے میں رسول اللہ کا نام دشنام و توہین کے ساتھ لیا جاتاتھا اور کوئي بھی آپ کا نام دشنام کے بغیر نہیں لیتاتھا برطانوی شاعرویلیم لنگلینڈ نے تیرہ سو باسٹھ میں Piers Plowman کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس میں وہ کہتاہے کہ "میں محمد (ص) کو دیکھ رہاہوں کہ وہ دوزخیوں کے ساتھ درک اسفل میں ہیں"اس نظم میں محمد (ص)کو بدعت گزار کارڈینال کہا گیا ہے جو حجازمیں مرتد ہوگيا ہے اور نیا دین بنالیا ہے اس شاعر کی نظرمیں محمد(ص)دجال کے گروہ کے سردار ہیں ۔
اس برطانوی شاعرکے ایک سو پچاس سال بعد اسکاٹلینڈ کے شاعر ویلیم دنبارنے محمد (ص) کو جہنم کے امور کا ذمہ دار قراردیا ہے۔
دانتے اور اسکی الھی کامیڈی کا بھی یہی حال ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے دانتے اس کامیڈی میں قاری کو ایک گائيڈ کے ہمراہ دوزخ اور برزخ کی سیر کراتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ عیسائیت کے دشمنوں کو کیسے کیسے خوفناک عذاب میں مبتلاکیا گيا ہے ،دانتے کی الھی کامیڈی کے بیس سال بعد صلیبویں کا آخری مرکزیعنی بیت المقدس بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گيا بنابریں دانتے بری طرح صلیبی جنگوں میں شکست کے منفی اثرات کے زیر اثر تھے،دانتے نے محمد (ص) کو ایسے گنہگار کے روپ میں پیش کیا ہے جو اپنا سینہ اپنے ہاتھوں سے چاک کررہا ہے دانتے کی نظرمیں محمد(ص) کا گناہ یہ تھاکہ انہوں نے جھوٹے دین کوپھیلایا،وحی نازل ہونے کا دعوی کیا جوکہ ایک طرح کا کفر آمیزمکروفریب ہے اور دنیامیں اختلافات کے بیج بوۓ۔
 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک