امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

ادیان کے درمیان گفتگو(اول)

0 ووٹ دیں 00.0 / 5



خلاصہ


وجوہ مشترکہ حاصل کرنے کے لۓ ادیان کے درمیان گفتگو کی بحث زمانہ قدیم سے جاری ہے زیر نظر مقالے میں اس بحث کو اسلام کی نقطہ نگاہ سے دیکھا گیا ہے سب سے پہلے اختصار سے گفتگوی ادیان کے معنی اور تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے بعد اسلام کی نظر میں گفتگو کی ضرورت پر توجہ کی گئي ہے اور قرآنی آیات کے مطابق اجمالا اس بحث کے فوائد کا ذکر کیا گیا ہے آخر میں چار شرطوں کا ذکر کیا گيا ہے جس کی پابندی کرنا گفتگو کے طرفداروں کے لۓ ضروری ہے ۔



مقدمہ :

گفتگو کی تاریخ کاآغاز انسانی تاریخ سے ہوتا ہے 1 زمانہ قدیم سے ادیان کے درمیان گفتگو کا مقصد اپنے عقائدکو صحیح ثابت کرنا اور مخالفین کو شکست دینا تھا لیکن نۓ نظریات اور مشترکہ اقدار کے حصول کے لۓ گفتگو اور بحث جسے ان دنوں کافی پذیرائي حاصل ہوئي ہے 2اور ادیان نے اس پر کافی توجہ دینی شروع کی ہے اس کے بارے میں نہیں معلوم یہ عمل کب سے شروع ہوا ہے بڑے ادیان جیسے عیسائيت اور یہودیت کی تاریخ کے مطالعے سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہےکہ یہ ادیان صرف خود کو حق اور دوسرے کو باطل قراردیتے تھے قرآن ان کی اس روش کو اس طرح بیان کرتا ہے "قالت الیهود لیست النصاری علی شیئ وقالت النصاری لیست الیهود علی شیئ 4 بقره 113 یہود کہتے ہیں کہ کہ نصاری کا مذھب کچھ ٹھیک نہیں اور نصاری کہتے ہیں کہ یہود کا مذھب کچھ ٹھیک نہیں ۔
ظہور اسلام اور اسکی تیز ترقی اور اس کے عالمی مذھب کے طور پر سامنے آنے کے بعداس طرح کے طرزتفکر اورغیر اصولی روش کوختم کرنے اور دینی فکر کو رائج کرنے میں مسلمانوں کو اہم کامیابیاں حاصل ہوئيں اور اسلام نے حصول مشترکات کے لۓ دوسرے مذاھب کے ساتھ گفتگو اور بحث و مباحثہ کی شروعات کی اور اس روش کو دینی فکر پیش کرنے کے لے مناسب اور آزاد و بلاجبر روش قراردیا ۔
اسلام نے گفتگو اور منطقی بحث پر بہت تاکید کی ہے جبکہ دیگر ادیان آسمانی میں یا ان کی مقدس کتب ،سیرت اور سنت علماء دین میں ایسی کوئي بات دیکھنے کو نہیں ملتی 5 گرچہ بعض ادیان جیسے عیسائيت کو تبلیغ اور نۓ پیرووں کو خود میں شامل کرنے کا دعوی تھا لیکن اس مذھب نے دوسرے مذاھب کو کبھی یہ حق نہیں دیا ۔


قرآن وگفتگو ۔

قرآن میں موافق و مخالف کے ساتھ گفتگو کرنے کو ایک پسندیدہ روش قراردیا گیا ہے اور اس کی بہت سی مثالیں بھی ذکر کی گئی ہیں ،قرآن کے مطابق سب سے پہلا گفتگو کرنے والا خود خداوند متعال ہے ،اللہ نے مسئلہ خلقت آدم ‏(ع) میں ملائکہ سے گفتگو کی ہے اور ملائکہ نے بھی اپنے نظریات بیان کۓ ہیں خدا نے اپنا مدعا پیش کرنے کے لۓ حضرت آدم کو ان کے سامنے پیش کیا تاکہ حضرت آدم ملائکہ کو اپنی صلاحیتوں سے آشنا کرسکیں اس طرح خدا نے خلقت آدم کے بارے میں ملائکہ کے اندیشوں کو غلط قراردیکر ان کی مکمل وضاحت فرمادی 6 ،خدا نے شیطان سے بھی گفتگو کی جس نے اس کے حکم سے سرپیچي اور بغاوت کی تھی اور اس کو قیامت تک مہلت دی 7 انبیاء نے بھی اپنے مخالفین سے گفتگو کی سب سے زیادہ حضرت نوح (ع) نے اپنی قوم سے گفتگو کی جن کی عمر ساڑھے نو سوسال بتائي جاتی ہے 8 اس بارے میں قرآن میں آیا ہےکہ یانوح قد جادلتنا فاکثرت جدالنا 9 اے نوح تم نے ہم سے بہت زیادہ بحث و گفتگو کی ہے ،حضرت نوح ع نے اپنے بیٹے کے بارے میں خداسے گفتگوکی 10 حضرت ابراھیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے بحث و گفتگو کرنے کے علاوہ قوم لوط کو عذاب سے معاف کرانے کےلۓ خداسے گفتگو کی 11 اسی طرح دیگر انبیاء الھی جیسے حضرت صالح ،لوط،موسی ،اور عیسی علیھم السلام ۔۔۔۔۔نے اپنی قوموں سے بحث وگفتگو کی ہے ۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام نے بھی مخالفین و موافقین سے بحث کی ہے ان بحثوں کا ایک اھم حصہ مرحوم شیخ طوسی نے اپنی کتاب "الاحتجاج" میں ذکر کیا ہے انہوں نے کتاب کے مقدمے میں جدال اور اسکی اقسام کی تفصیل بیان کی ہےاوررسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدال احسن کے کہ جن کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے نمونے ذکر کۓ ہیں اس کے علاوہ معصومین علیھم السلام کی بحثوں کوجو روایات میں وارد ہوئي ہیں بالترتیب ذکر کیا ہے ۔
بہرحال قرآن میں ایسی آیات ہیں جو بحث وگفتگو کو ضروری قراردیتی ہیں ان میں بعض آيات حسب ذیل ہیں ۔
ادع الی سبیل ربک بالحکمة و الموعظة الحسنه و جادلهم بالتی هی احسن ۔حکمت و پسندیدہ وعظ ونصیحت کے ذریعے اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دو اور اچھے اور بہتر انداز میں ان سے بحث کرو،اس آیۃ شریفہ میں صراحتا بیان کیا جارہا ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری ہےکہ دین خدا کی طرف دعوت دینے اور دین کا دفاع کرنے کے لۓ حکمت و موعظہ حسنہ سے کام لیں 13ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ "ولاتجادلوا اھل الکتاب الا بالتی ھی احسن یعنی اھل کتاب کے ساتھہ صرف بہتر طریقے سے گفتگو اور جدال کریں 14 ۔
اس آیت میں تمام مومنین سے خطاب کیا گیا ہے ۔
سورہ آل عمران کی آیت چونسٹھہ میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ اھل کتاب سے گفتگو کريں اور بحث کا اصلی محور بھی معین کردیاگیا ہے ارشاد ہوتا ہے قل یا اهل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بینا و بینکم الا نعبد الا الله ولانشرک به شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون"
اے رسول تم اھل کتاب سے کہہ دو کہ تم ایسی ٹھکانے کی بات پرتو آؤکہ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیزکو اس کا شریک قرارنہ دیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئي کسی کو اپنا پروردگارنہ بناے پھر اگر اس سے بھی منہ موڑیں تو کہہ دوکہ تم گواہ رہنا کہ ہم خداکے فرمانبردارہیں ۔
اس آيت میں مندرجہ ذیل نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے ۔


1 قل یا اهل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیناو بینکم آیت کے اس حصے میں خدا صریحا حکم دیے رہا ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اھل کتاب کے ساتھہ باب گفتگو کھولیں اور گفتگو کا اصل محور توحید ہو جوکہ تمام انبیاء کی تعلیمات میں سرفہرست ہے 15 ۔


2 خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی بحث سے گفتگو کا آغازنہ کریں بلکہ غیر خدا کی پرستش نہ کرنے سے بحث شروع کی جاۓ اس آيت میں نفی شریک خدا کی بات کی گئي ہے نہ کہ اثبات وجود خدا کی کیونکہ قرآن کریم کی نگاہ میں اثبات وجود خدا اور اس کاحق ہونا فطری امر ہے اور بنیادی طور سے قرآن کی نظر میں انسان(کچہ شرپسند معاندیں کے علاوہ ) خدا کی پرستش کے سلسلے میں شک وشبہ کا شکار نہیں ہوتے یہانتک کہ جب بت پرستوں کی بات ہوتی ہے انہیں بھی خدا شناس بتاتا ہے وما نعبدهم الا لیقربونا الی الله زلفی17 ( بت پرستوں کے حوالے سے بیان ہورہا ہےکہ )ہم بتوں کی عبادت نہیں کرتے مگریہ کہ وہ ہمیں خدا سے قریب کرتے ہیں ،ہمیشہ مشکل یہ رہی ہےکہ انسان شرک کوپہچانے میں ناکام رہا ہے انسان گرچہ شرک میں گرفتار ہوتارہا ہےلیکن اس سے غافل رہا ہے قرآن کے مطابق مایومن اکثرهم بالله الا وھم مشرکون 18۔ وہ خدا پر ایمان تو نہیں لاتے مگر شرک کۓ جاتے ہیں ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے اس بارے میں کہ بنوامیہ کس طرح اسلام کے نام پر عوام پر حکومت کرنے میں کامیاب رہے فرمایا ہےکہ " بنو امیہ نے عوام کے لۓ تعلیم ایمان پر پابندی نہیں لگائی تھی بلکہ تعلیم شرک پر پابندی لگادی تھی کیونکہ اگرعوام کو شرک پر مجبور کرتے تو وہ ہرگزاسے قبول نہ کرتے 19 ۔
علامہ مجلسی اس حدیث کے ذیل میں کہتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کی مراد یہ ہے کہ بنی امیہ ان چیزوں سے عوام کو آکاہ نہیں کرتے تھے جن سے انسان اسلام سے خارج ہوجاتا ہے کیونکہ عوام حقائق کوسمجھہ لیتے تو ان کی اور ان جیسوں کی ہرگز پیروی نہ کرتے 20 ۔


3 بحث نفی پرستش غیر خدا میں دو بنیادی نکتے پوشیدہ ہیں جن کے بارے میں گفتگو کرنا لازمی ہے ۔


الف:خداکا کوئي شریک قرارنہ دیا جاۓ (ایسا شرک جو تثیلث،یا خداکے لۓ بیٹا قراردینا ،وغیرہ )کیونکہ الوھیت ایسا مقام ہے کہ ہرشیئي ہرجہت سے اسی میں اپنی پناہ تلاش کرتی ہے ،اس کے بارے میں حیران ہے اورذات الوھیت ہی تمام موجودات کے کمالات کا باعث ہے لھذا لازم ہےکہ انسان خدا کی عبادت کرے اورچونکہ وہ واحد معبود ہے اس کا کوئي شریک نہیں ہوسکتا ۔


ب:ولایتخذبعضنا بعضا اربابا،آیت کایہ ٹکڑا اھل کتاب کی روش کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اتخذو احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم 21 ان لوگوں نے تو خداکو چھوڑکراپنے عالموں ،اپنے زاہدوں اور مریم کے بیٹے مسیح (ع) کواپنا پروردگار بناڈالا ہے،کیونکہ تمام انسان اپنے تمام ترامتیازات کے باوجود حقیقت واحدہ یعنی حقیقت انسانی سے تعلق رکھتے ہیں یہ ہرگزصحیح نہیں ہےکہ بعض انسان دوسروں پر اپنی ہواے نفسانی مسلط کریں اسی طرح بعض انسانوں کا کسی ایک انسان یا انسانوں کے گروہ کے سامنے سرجھکانا اس طرح سے کہ خاضع انسان برابری کے حقوق سے محروم ہوجاۓ اور فرد مطاع کے تسلط و تحکم کی وجہ سے اسے "رب"یا پروردگارمان لے اور تمام امور میں اس کی اطاعت کرے یہ سارے امور فطرت وانسانیت کی نفی کرنے والے ہیں ۔


4 جیسا کہ آپ نے دیکھا اس بحث میں اصول کلی اور امور فطری سے جو کہ تمام ادیان کے درمیان مشترک ہیں گفتگو کی جارہی ہے ان آیات میں اسلام کی طرف (دین خاص )نسبت نہیں دی جارہی ہے ۔ 5 فان تولوا فقولوا اشھدو بانا مسلمون آیت کا یہ حصہ اھل کتاب سے بحث کے اختتام کی روش بیان کررہا ہے کہ اگر وہ تمہاری بات نہ مانیں، صداے فطرت کو نہ سنیں کہ جس کو مسترد کرنے کی کوئي دلیل نہیں ہے، تمام انبیاء الھی کی د
عوت حق کو ٹھکرادیں تو تم یہ اعلان کردو کہ ہم نے حق کے اصول قبول کرلۓ ہیں اور ان پر کاربند ہیں اورتم اس پرگواہ رہنا (یعنی بغیر کسی جھڑپ اور نظریہ مسلط کۓ بغیر ان سے الگ ہوجاؤ) بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہےکہ اگر تم ان اصولوں کو قبول نہیں کرتے تو ایسا نہیں ہے کہ ہم انہیں نظر اندازکردیں اور ان پر توجہ نہ کریں بلکہ ہم انبیاء ماسلف کی راہ پر چلنے والے اور دعوت فطرت پر لبیک کہنے والے ہیں اور تم ان امورکو ہمارے اعمال و افعال میں مشاھدہ کروگے ۔
ان تمام امور سے ہمیں پتہ چلتا ہےکہ اسلام دین کامل و جامع ہونے کے باوجود اھل کتاب کے ساتھہ مفاھمت آمیز زندگی گذارنے کادرس دیتا ہے ۔


گفتگوکے فائدے

1 دشمنی کا خاتمہ کرنا:

انسانوں کے درمیان دشمنی و اختلافات کا ایک اہم سبب تسلط پسندی و استعمارہے ،اس صورت میں طاقت سے مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئي اورچارہ نہیں رہتا احکام جھاد جودراصل دفاع ہی ہے اسی غرض سے واجب قراردیا گیا ہے ۔
دشمنی کے دوسرے اوربھی اسباب ہیں جن میں مذھبی اعتقادی سیاسی اورسماجی اختلافات ہیں ان اختلافات کا سرچشمہ ذاتی نظریات و افکار ہيں ،ہر وہ نظریہ جو خود کوبرحق جانتا ہے اسے مخالف کے سامنے تعصب وتشدد کامظاہرہ کرنے کے بجاۓ منطق و استدلال سے کام لینا چاہیے کیونکہ عقیدہ امر قلبی ہے اور اسے طاقت کے ذریعے نہیں بدلاجاسکتا اور تجربہ سے بھی ثابت ہوچکا ہےکہ برحق امرکوبھی جب طاقت کے بل پر منوانے کی کوشش کی گئي ہے ناکامی ہوئي ہے اور اس کے خلاف رد عمل سامنے آیا ہے ،یقینا منطقی رویے سے دشمنیوں کو دوستی میں بدلاجاسکتا ہے قرآن کریم اس بارے میں ارشاد فرماتاہے کہ ولا تستوی الحسنۃ ولاالسیئۃ ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم 23 بھلائي اور برائی کبھی برابرنہیں ہوسکتی تو سخت کلامی کا ایسے طریقے سے جواب دو جو نہایت اچھا ہو تو تم دیکھو گے کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا دلسوزدوست تھا
آیت میں لفظ احسن استعمال کیا گیا ہے جس کی روسے مومنین پر واجب ہےکہ وہ اچھی تعبیریں استعمال کریں اورخندہ پیشانی سے مد مقابل سے پیش آئيں اسی طرح نازیبا اور اشتعال انگيز الفاظ سے پرہیزکريں تاکہ مدمقابل کو محبت کا احساس دلاسکیں یقینا یہ روش مد مقابل کو متاثر کرے گی ۔
اسلام نے گفتگو کا دروازہ کھول کرتاریخ میں پیداہونے والی دشمنیوں کو جو ایک دوسرے پر باطل عقائد کے الزامات لگانے کی وجہ سے وجود میں آئي تھیں اور جن کی وجہ سے خونریزاور تباہ کن جنگيں ہوئي تھیں ختم کرنے کاراستہ صاف کردیا ہے گرچہ حکومتوں نے عوام پر تسلط جمانے کے لۓ دینی نظریات سے غلط فائدہ اٹھایا ہے ۔
 


2 ھدایت کے اسباب فراہم کرنا

حق تک پنچنا ،کج فہمی اور انحرافات سے نجات ہرانسان کی آرزو ہے ان اھداف کے حصول کے لۓ بعض اصولوں کی پابندی ضروری ہے ان میں ایک اہم ترین اصول حق پسندی کا جذبہ پیداکرنا ہے انسان اسی وقت حق تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جب وہ بغیر کسی تعصب ،پہلے سے فیصلہ کۓ بغیر، دیگر افکار ونظریات کا مقابلہ کرے اور ان کی تمام دلیلوں کا غور سے جائزہ لے تاکہ ان میں سے سب سے اچھی اورمتقن دلیل کو قبول کرسکے ،اگر خاص ذھنیت اورفیصلے کے ساتھہ مخالف نظریے کا سامنا کریےگا تو اس کے درست یا نادرست ہونے کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کرپاۓ گا اورنہ حق تک پہنچنے کے اپنے مقصد ہی کو حاصل کرپاۓ گا قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے فبشرعبادالذین یستمعون القول فیتبعون احسنه اولئک الذین هداهم الله و اولئک هم اولوالالباب اور تم میرے بندوں کوخوش خبری دیدو جو بات کو جی لگاکرسنتے ہيں اور پھر اس میں سے اچھی بات پرعمل کرتے ہیں یہی لوگ وہ ہیں جن کی خدانے ھدایت کی ہے اور یہی عقل مند ہیں ۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایت ہےکہ خدانے اس آیت میں غوروفکرکرنے والوں کوبشارت دی ہے 25 اوریہ بشارت مومنین سے مخصوص نہیں ہے ۔
علامہ طباطبائي نے اس آیت سے دوطرح کی ھدایت کے معنی اخذ کۓ ہیں ایک ھدایت اجمالی ہے دوسری ھدایت تفصیلی ہے ،انہوں نے ھدایت اجمالی کو حق پسندی کے جذبہ سے تعبیر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ جذبہ ھدایت تفصیلی پر منتج ہوسکتاہے جوکہ تمام معارف الھی کو سمجھنا ہے 26 ۔


گفتگو کے لۓ ضروری شرطیں

گفتگو کے طرفداروں کو بعض اصولوں کو قبول کرنا ہوگا یہ اصول حسب ذیل ہیں ۔


الف :علم و آگہی ؛

حکماء و فلاسفہ کے نزدیک انسان کی صفت نطق اسے دیگر حیوانات سے ممتاز کرتی ہے ،ان کی مراد انسان کی غور و فکر کرنے کی صلاحیت ہے جس کا وہ اپنی زبان کے ذریعے اظہار کرتاہے تاہم انسانوں کے درمیان ایسے لوگ بھی پاۓ جاتے ہیں جو اس ذاتی صفت کے برخلاف تعقل و تدبر کو کوئي اھمیت نہیں دیتے قرآن نے اس گروہ کو جانوروں سے بدتر اور انسانوں کے زمرے سے خارج قراردیا ہے ارشاد ہوتاہے "ان شرالدواب عندالله الصم البکم الذین لا یعقلون 27 بے شک زمین پر چلنے والے تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو کچہ نہیں سمجھتے ۔
ظاہر ہے کہ ہم ان لوگوں سے مخاطب نہیں ہیں کیونکہ یہ بحث و گفتگو نہیں کرسکتے ۔
ہمارے دینی منابع میں مختلف جھات سے علم پر تاکید کی گئي ہے ان امور پر ذیل میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ علم حاصل کرنا دیگر واجبات کی طرح واجب ہے
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ ،ہرمسلمان فرد مرد یا عورت پر علم حاصل کرنا واجب ہے 28 ۔


2کسی خاص زمانے تک محدود نہیں ہے ۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہےکہ اطلبوا العلم من المھد الی اللحد ،یعنی زگہورہ تاگور دانش بجوئي ۔


3 کسی خاص مکان تک محدود نہیں ہے جہان بھی علم حاصل ہوسکتاہے اسے حاصل کرنا چاہیے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہےکہ اطلبواالعلم ولو بالصین ۔علم حاصل کرو گرچہ تمہں چین جانا پڑے ۔

حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ہے کہ "لو یعلم الناس مافی طلب العلم لطلبوه ولوبسفک المہج وخوض اللجج 30 یعنی اگر لوگ یہ جانتے کہ علم حاصل کرنے میں کتنے فائدے ہیں توحصول علم میں لگ جاتے گرچہ انہیں اس راہ میں خون بہانا پڑتا یا سمندروں میں سفر کرنا پڑتا۔


4کسی خاص شخص یا گروہ سے حاصل کرنے (سیکھنے) میں منحصر نہیں ہے ۔
حضرت امام باقرعلیہ اسلام فرماتے ہیں کہ الحکمة ضالة المومن فحیثما وجد احدکم ضالتہ فلیاخذها 31 حکمت مومن کی گمشدہ شیئي ہے جھان بھی اسے پاتا ہے حاصل کرلیتا ہے ۔
دیگر روایات میں ولوعندالمشرک یا ولو من اھل النفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی گرچہ وہ حکمت مشرک یا منافق کے پاس ہو مومن اسے حاصل کرلیتا ہے ،یہانتک کہ امام علیہ السلام سے یہ تعبیر بھی وارد ہوئي ہےکہ حق کو اھل باطل سے بھی قبول کرلیں لیکن باطل کو گرچہ اھل حق سے ہوقبول نہ کریں اس کے بعد حضرت ذیل حدیث میں فرماتے ہیں کہ خود سخن شناس بنیں 33 یعنی جس چیزکی اھمیت ہے وہ کلام ہے نہ متکلم ۔

ائمہ معصومین علیھم السلام نے جھل و نادانی کی مذمت میں نہایت اھم نکات بیان فرماے ہيں ۔


1 نادانی خواری و ذلت کی باعث ہے ۔


امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "اذاارذل اللہ عبدا حظر علیہ العلم" 33 اگر خدا کسی بندے کو ذلیل و خوارکرنا چاھتا ہےتو اسے نعمت علم سے محروم کردیتا ہے ۔
مولائ کائنات حضرت علی علیہ السلام بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی خصوصیات کا ذکرکرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ "واستخفتھم الجاھلیۃ الجھلاء،جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئي زمانہ جاھلیت کے لوگوں کوان کی جھالت نے ذلیل و خوارکررکھاتھا۔
یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہے کہ جب کسی قوم کی زندگي علمی اصولوں پر استوار ہوتی ہے اور اس کی زندگی کے تمام شعبوں میں علمی قوانین حکم فرماہوتے ہیں وہ ترقی کی منزلیں طے کرتی ہے لیکن جس قوم میں علم کا فقدان ہوتاہے وہ زندگي کی ہرضرورت کے لۓ دوسروں کی محتاج ہوتی ہے ۔


2 نادانی و جھل شرپسندوں کے تسلط کاباعث ہے ۔


امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام لوگوں کو تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔
1 وہ اھل علم و دانا لوگ جو خداشناس بھی ہیں۔
2 وہ معلم جو راہ سعادت میں کوشاں ہے ۔
3 اور ایسے پست لوگ جو ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں اور ہرآوازکے پیچھے دوڑپڑتے ہیں اور ہواکے ہرجھونکے کے ساتھہ بہنے لگتے ہیں، نہ انہیں علم و دانش کی روشنی سے کوئي فروغ حاصل ہواہے اورنہ ہی انہوں نے کسی مستحکم پناھگاہ کی راہ پکڑی ہے 35 ،یہ تیسرا گروہ نہ عالم ہے اور نہ حصول علم کی کوشش میں رہتا ہے بلکہ ہر منحرف وگمراہ کے پیچھے جاسکتا ہے ۔
بہر صورت خدا نے مومنین کو مکلف کیا ہے کہ وہ جس چیزکے بارے میں نہیں جانتے اس پر اصرار نہ کریں اور اس کی پیروی نہ کریں ،ارشاد ہوتاہے لاتقف مالیس لک بہ علم ان السمع و البصر والفوادکل اولائک کان عنہ مسؤلا36 اس چیز کی پیروی نہ کروجس کاتمہیں علم نہیں ہے کیونکہ کان آنکھوں اور دل کے بارے میں سوال کیا جاے گا ۔

اصول کافی میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہےکہ "لو ان العباد اذا جهلوا وقفوا ولم یجحدوا ،لم یکفروا"37 یعنی اگر عوام جہل و نادانی کی صورت میں عمل نہ کریں اور انکارنہ کريں تو کافر نہیں ہونگے

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک