قرآن اور عقل
لوگوں کا خیال ہے کہ دین میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہے، ہم عقل کے ذریعہ دین کو نہیں سمجھ سکتے ، یا دین کا عقلانی دفاع نہیں ہوسکتا ، دین کچھ کہتا ہے تو عقل کچھ کہتی ہے، دین کو سمجھنا ہے تو قرآن اور حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے عقل سے نہیں!
نصوص (1)اور عقل میں مطابقت ضروری نہیں ہے. اگر عقل سے دین سمجھ لیا جاتا تو انبیاء و مرسلین، قرآن و احادیث کی کیا ضرورت تھی ؟ لہذا دین کے ہوتے ہوئے کم سے کم دینی مسائل میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہے عقل کی نارسا کمند ڈال کر دین کے اعلی و ارفع معارف تک رسائی حاصل نہیں کی جاسکتی. عقل اور دین (میں کیا نسبت؟ کیا تقابل؟! کہاں عقل ، کہاں دین(٢ !!
چہ نسبت خاک را با عالم لولاک اے ناداں
کجا موسی، کجا نیوٹن، کجا بطحی ،کجا ٹیکسس
لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ کیا واقعی دین اور عقل میں کوئی رابطہ نہیں پایا جاتا؟ کیا واقعی دین عقل کے ،اور عقل دین کے خلاف ہے؟ مختلف مذاہب کے علمائ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟ قرآن کریم کا کیا فرمان ہے؟.....؟
سلفیہ اور اہل حدیث (٣)اس طرح ظواہر نصوص(٤ ) کے پابند اور ہر قسم کے تعقل کے خلاف ہیں کہ تجسیم و تشبیہ(٥) کو بھی تسلیم کر بیٹھے ہیں... البتہ بعض حنابلہ تجسیم سے بچنے کے لئے توقف ٦ کا سہارا لیتے ہیں ... لیکن بہر حال عقلی کاوشوں کو معتبر نہیں مانتے.
ان کے مقابلے میں امامیہ (٧ )اور معتزلہ (٨ ) ہیں جو عقل کو معتبر جانتے ہیں ان کے نزدیک ظواہر نصوص اور عقل میں مطابقت ضروری ہے... دین کا کوئی دستور عقل کے خلاف نہیں ہوسکتا ۔
حقیقت یہ ہے کہ’’ عقل کا معتبر ہونا ‘‘ ایک ایسا مسئلہ ہے جو انسان کی فطرت میں شامل ہے، چاہے وہ عقل کی مخالفت ہی کیوں نہ کرے! کوئی انسان یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ اس کے نظریات عقل کے سراسربرخلاف ہیں!ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ لوگ عقل کی مخالفت، عقل کے ہی ذریعہ کرتے ہیں اور خود نہیں سمجھ پاتے کہ عقل کی مخالفت کرتے ہوئے بھی ’ اعتبار عقل ‘ ہی کو ثابت کرتے ہیں ۔!!
مالکم کیف تحکمون!
د یکھا گیا ہے وہی لوگ جو عقل کی مخالفت کرتے ہیں اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لئے عقلی دلائل سے خوب استفادہ کرتے ہیں ،اوراگر کہیں عقل کی مخالفت کرتے ہیں تو اس لئے کہ ایک طرف سے وہ ایک عقیدہ کو مان چکے ہوتے ہیں ، دوسری طرف سے اس کو عقلی طور پر ثابت نہیں کرپاتے تو دینی اور عقیدتی لگاؤ یا تعصب کی بنا پر عقل کی مخالفت کرنے لگتے ہیں، ورنہ جہاں عقلی دلائل سے دفاع کرسکتے ہوںخوب کرتے ہیں.... یا دوسرے ادیان و مذاہب کے عقاید میں سے عقلی تناقضات ٩ کو پیش کرکے اسے باطل قرار دیتے ہیں... ظاہر سی بات ہے عقلی تناقضات کی بنا پر کسی عقیدہ کا باطل ہونا، اسی وقت ممکن ہے جب ’عقل‘ معتبر ہو!!
اگر مان لیا جائے کہ عقلی تناقضات کی وجہ سے کوئی عقیدہ باطل قرار پا سکتا ہے، تو اگر کوئی پ کے عقیدوں میں عقلی تناقضات کی نشاندہی کرے تو ظاہر سی بات ہے کہ پ کے بھی عقائد باطل ہونے چاہئے. یہ تو نہیں ہوسکتا کہ دوسروں کو باطل قرار دینے کے لئے ایک ’معیار ‘ معتبر ہو، اور اپنے لئے وہی معیار غیر معبتر !! اپنے پ کو بچانے کے لئے عقل کی مخالفت عاجزی کی دلیل ہے .
اعتبارعقل قرآن کی نگاہ میں ئے قرآن کریم کی رو سے دیکھتے ہیں کہ آیا عقل معتبر ہے یا نہیں؟ واضح رہے ہماری مراد ’’ دین‘‘ کے سلسلے میں ہے ورنہ غیر دینی معاملے میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو عقل کو معتبر نہ جانتا ہو.قرآن کریم میں جگہ جگہ صاف طور سے عقل کو حجت قرار دیاگیا ہے،اور تمام انسانیت کو عقلی کاوشوں پر ترغیب دلاتے ہوئے دعوت فکر دی گئی ہے .’’ انّ فی ذالک لیات لقوم یتفکّرون ‘‘(١٠) ... . ’’...لقوم یعقلون‘‘ (١١..لاولی الالباب‘‘ (١٢ ’’لاولی النّهی‘‘١٣ ’’انّما یتذکر اولو الالباب‘‘١٤ ’’...لذکری لاولی الالباب‘‘١٥ .... اور جو لوگ اپنی عقل پر ِپتھر ڈال کر کچھ غور و فکر و تآمل سے کام نہیں لیتے قرن کریم ان کی شدّت سے مذمت کرتا ہے. ’’ذالک بانّهم قوم لا یقعلون‘‘ ١٦ ’’و اکثرهم لا یعقلون ‘‘١٧ ’’ افلا یعقلون ‘‘ ١٨.....قرآن کا لہجہ ا ان کی مذمت میں اور شدید ہوتاہے’’ افلا یتدبّرون القرن ام علی قلوبهم اقفالها‘‘ ١٩ .... یہاں تک کہ انہیں حیوانوں کے زمرہ میں بھی سب سے بدتر شمار کرتا ہے.’’ انّ شرّ الدّوابّ عند الله الصّم البکم الّذین لا یعقلون ‘‘ ٢٠ .
قرآن کریم ایک مقام پر توحید کا ایک دقیق مسئلہ سمجھاتے ہوئے گاہ کرتا ہے کہ جو لوگ تعقل نہیں کرتے ’’رجس‘‘ اور پلید کا شکار ہوجاتے ہیں. ’’ و ما کان لنفس انّ تومن الّا باذن الله و یجعل الرّجس علی الّذین لا یعقلون‘‘٢١ .
بنیادی طور سے قرن کی روش ’’ دلیل ‘‘اور ’’ برہان ‘‘ کی ہے . قرآن ہر صاحبان عقیدت سے اپنے عقیدہ کے اثبات کے لئے برہان و دلیل طلب کرتا ہے. ’’هاتو برهانکم‘‘ ٢٢ ’’هاتوا برهانکم ان کنتم صادقین ‘‘ ٢٣ اور خود بھی اپنے مدعے کے لئے متقن دلائل پیش کرتا ہے، یونہی ماننے کے لئے نہیں کہتا... ’’ لو کان فیهما الهة الّا الله لفسدتا‘‘٢٤
قرآن کریم عقل کو صرف حکمت نظری ٢٥ کی حد تک ہی نہیں ، بلکہ حکمت عملی٢٦ میں بھی عقل کو معتبر جانتے ہوئے افعال کے حسن و قبح عقلی کی طرف اشارہ کرتا ہے چنانچہ متعدد مقامات پر انبیائ کی بعثت کو ’’موعظہ ‘‘و ’’ تذکر‘‘ (یاددہانی) قرار دیتا ہے یا ’’امر بالمعروف اور نھی از منکر ‘‘سے یاد کرتا ہے ...انّ الله یآمر بالعدل و الاحسان و ایتاء ذی القربی و ینهی عن الفحشائ و البغی یعظکم لعلکم تذّکرون ٢٧ ... یآمر هم بالمعروف و ینهاهم عن المنکر٢٨ ....
واضح سی بات ہے ’’یادہانی‘‘ اسی وقت ممکن ہے جب پہلے سے کوئی بات پتہ ہو اور کچھ وجوہات کی بناپر بھول یا غفلت کا شکار ہو گئی ہو.... اور ’’معروف‘‘ یعنی جانی پہچانی ہوئی چیز، اور ’’منکر‘‘ یعنی وہ چیز جس سے انسانی فطرت ناساگار ہے ، اور انسان اس سے نفرت کرتا ہے.
قرآن میں کہاں کہاں عقل کے سلسلے میں کیا کہا ہے یہ پوری ایک ضخیم کتاب کا موضوع ہوسکتا ہے. مختصر یہ کہ قرن میں لفظ’’عقل‘‘ ٤٨ مرتبہ اور اس سے ملتے جلتے الفاظ بھی متعدد بار استعمال ہوئے ہیں؛ جس سے قرآن کی نظر میں عقل و فکر و تآمل کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے.
: قرن کریم میں یہ الفاظ کتنی بار استعمال ہوئے ہیں درج ذیل ارقام ملاحظہ ہوں
عقل ................................... ........٤٨ مرتبہ
اولو الالباب(صاحبان فہم)...................١٦ مرتبہ
تفکر.............................................١٨ مرتبہ
فقہ و تفقہ( باریک بینی اور دقت)..............١٩ مرتبہ
یقین(اور مشتقات)..........................٢٨ مرتبہ
حکمت(اور مشتقات).......................٢٠٤ مرتبہ
حق(اور مشتقات)..........................٢٦١ مرتبہ
علم(اور مشتقات) ...........................٩٠٢ مرتبہ
مغرب میں علوم تجربی اور حسی روش کی زبردست کامیابی سے متآثر ہوکر بعض معاصر دانشمندوں کا خیال ہے کہ دین میں عقلی کاوشیں ہوسکتی ہیں لیکن صرف طبیعیات اور مخلوقات میں تجربی اور حسی مطالعات کے ذریعہ ممکن ہے، یہ زمین ،سمان، چاند، سورج،ستارے... یہ سب خدا کی یات ہیں. ان کے مطالعہ سے خدا کی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے. قرن کریم انہیں یات الٰہی میں تعقل و تفکر کی دعوت دیتا ہے. ابو الحسن ندوی، محمد قطب اور تحریک اخوان المسلمین کے مفکرین اسی نظریہ کے حامل ہیں.
’ندوی‘ اپنی کتاب ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ میں رقم طراز ہیںکہ ا نبیائ کی تعلیمات کے مقابلے میں ذات و صفات خداوند...، غاز و انجام جہان...،اور انسان کے مبدئ و معاد... یا ان جیسے مسائل کے بارے میں عقلی و فلسفی بحث کرنا ایک طرح کی ناشکری ہے. انبیائ نے اس بارے میں بہترین اور اعلی تعلیمات سے بشریت کو مفت میں نوازا ہے.اب ان مسائل میںعقلی بحث کرنا جن کے مقدمات اور بنیادی مسائل ہماری محسوسات کے دائرے سے پرے ہیںایک ایسے اندھیرے اور غیر معلوم راستہ پر قدم رکھنے کے مترادف ہوگا، جس کا نتیجہ سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں !
ظاہر سی بات ہے یہ نظریہ سلفیہ اور اہل حدیث جیسوں کے نظریہ سے کہیں بہتر ہے، اس لئے کہ یہ لوگ ایک گونہ تعقل کو ماتنے ہیں، اور اس کی حجیت کو قبول بھی کرتے ہیں، لیکن ظاہراً ان کا بھی’’ آسمان سے گرے اور کھجور پہ اٹکے‘‘و لا حال ہے...
ان کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ بے شک قرآن کریم نے مطاہر قدرت میں مطالعہ حسی کرنے کی بہت دعوت دی ہے، زمین و آسمان، چاند ، ستارے، چرند و پرند یہاں تک چیونٹی، مکھی،مکڑی جیسے حشرات کی خلقت کے بارے میں غور و خوض ، فکر و تآمل کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے ایک طرف سے ایسے معارف بھی بیان کئے ہیں جو مطالعہ حسی سے کبھی سمجھ میں نہیں آسکتے، ان کو سمجھنے کے لئے ماورائ طبیعی مفاہیم کی ضرورت ہے۔ اور دوسری طرف قرآن کریم نے بہت سے معارف اور عقاید کے اثبات کے لئے فلسفی برھان کی روش سے استفادہ کیا ہے۔ جیسے
’’ لو کان فیهما آلهة الا الله لفسدتا ‘‘.
: اب دو ہی صورت ہے
(الف) یا تو ان مفاہیم کو غیر قابل حل مجہولات کی صورت میں مان لیا جائے،اور یہ کہیں کہ قرآن نے انسانوں پر رعب ڈالنے کے لئے، اور انہیں قرآن کا جواب لانے سے عاجز کرنے کے لئے، کچھ ایسے معمہ پیش کئے ہیں جو کسی سے حل نہیں ہو سکتے! لہذا ہمارا وظیفہ یہ نہیں کہ ہم انہیں سمجھنے کی کوشش کریں بلکہ ہمیں یونہی بس مان لینا چاہیئے!!
(ب) یایہ مانیں کہ خداوند حکیم نے قرآن مجید میں ان معارف کو ہماری ہدایت کے لئے بیان کیا ہے تو قابل فہم بھی ہوگا، لہذا ہمارا فریضہ یہ ہے کہ اسے سمجھیں.... معرفت حاصل کریں... اس پر عمل کریں اور ہدایت و سعادت کی منزل کو پالیں۔
پہلا فرضیہ محال ہے اس لئے کہ خود قرآن نے ہمیں تعقل و تدبر و تفکر کی دعوت دی ہے۔ اور یہ نہیں کہا ہے کہ اس میں تفکرکرو اور اس میں نہ کرو۔(یعنی مطلق بیان کیا ہے اور تفصیل کا قائل نہیں ہوا)
معرفت خدا کے لئے مظاہر قدرت میں مطالعہ حسی کی روش سے استفادہ کرنے کو علم کلام میں ’’برہان نظم‘‘ سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ روش نہایت آسان، سادہ، روشن اور عام فہم ہے،اس کو سمجھنے کے لئے کوئی ایسی عقل کی ضرورت نہیں ہے جو اصول برہانی اور منطقی سے آشنا ہو۔ اسی لئے اس روش کو کافی مقبولیت حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود برہان نظم کافی نہیں ہے۔ برہان نظم کے سہارے رہررو راہ مستقیم کی صرف پہلی منزل سے آشنا ہو سکتا ہے۔ اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے، ہمیں بہر حال برہانی اور عقلی روش کا سہارا لینا پڑے گا۔ اس لئے کہ وہ محسوسات سے پرے ہے اور اس کو درک کرنے کے لئے ماورائ طبیعی مفاہیم کی بہر حال ضرورت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ روش کافی نہیں ہے تو قرآن نے ا س قدر تاکید کیوں کی ہے، تو جواب یہ ہے کہ چونکہ یہ روش نہایت آسان اور عام فہم ہے اور زیادہ تر لوگ ماورائ طبیعی اور فلسفی مفاہیم سے آشنا نہیں ہیں لہذا یہ روش نہایت مناسب ہے کیونکہ خداشناسی تو ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے بس اس فطرت کو ذراسا اشارہ چاہیے پھر فطرت انسان خود صدا دی گی کہ اے انسان! اپنے خدا کو پہچان....
بہر حال
روش برہانی اور عقلی سخت اور دشوار ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ عام نہیں ہے، عوام اسے آسانی سے نہیں سمجھ پاتے ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی کے نہ سمجھنے سے کوئی چیز باطل نہیں ہوتی، عوام نہیں سمجھتے ، عوام میں مقبول نہیں ہے لیکن سماج کے پڑھے لکھے افراد عقلی اور فلسفی براہین کو نہ صرف سمجھتے اور پسند کرتے ہیں بلکہ ان کی ضرورت بھی ہے کیونکہ یہ لوگ دوسرے مکاتب فکر سے آشنا ہوتے ہیں اورہرمکتب کا تصور کا ئنات جدا ہوتا ہے، لہذا تمام مکاتب فکر کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے لئے بہت سے ایسے سوالات ابھر تے ہیں جن کا جواب سوائے عقلی اور فلسفی استدلال کے ذریعہ نہیں دیا جاسکتا۔