بحر بیکراں سے نکلے دو موتی
بحر بیکراں سے نکلے دو موتی
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ(۱)
مقدمه
کسی بھی معاشرے میں دو مختلف افکار اور نظریات کے حامل افراد یا گروہ پائےجاتےجن میں سے ایک گروہ اپنے ذاتی مفادات کو معاشرے کی فلاح اور ترقی کے لئے قربان کردیتا ہےاور دن رات کی کوششوں سے معاشرے کی اصلاح کرتاہے، دشمن کی سازشوں اور ناپاک عزائم کو ناکام بناتے ہوئے معاشرہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔جبکہ دوسرا گروہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے معاشرہ اور اجتماعی مفادات کو قربان کر دیتاہے۔جس سے افراد تو ترقی کر جاتےلیکن اجتماعی طور پر معاشرہ تنزلی کا شکار ہوجاتاہے۔گلگت بلتستان کے معاشرے میں بھی ایسے ہی دو گروہ پائے جاتے ہیں۔معاشرہ کی ترقی کے لئے جہاں دوسرے طبقات کے دلسوز افراد کوشاںوہاں علماءکاکردار سب سے نمایاں اور واضح ہے۔یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی مفاد پرست شخص علماءسے کبھی بھی خوش نظر نہیں آتا لیکن اس کے باوجود علماءاپنےفرائض کی انجام دہی میں نہ کسی سے مرعوب ہوتےہیں اور نہ ہی کسی سے ان کو خوف ہے.بلکہ اگر ان کو کسی سے خوف ہےتو وہ صرف خداوند عالم کی ذات ہے. قرآن کی صریح آیت ہے
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ(۲)
یعنی اگر بندگان خدا میں سےکسی کو خدا کا خوف ہےتو وہ صرف علماءہے
یعنی علماء صرف اور صرف خدا سےہی ڈرتے ہیں یہاں مفسرین اس کلام الہی کی تفسیر یوں بیان فرماتے ہیں!
جب کوئی عالم معرفت کے اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ جہاں سے سارے پردے ہٹ جاتےہیں اور حقایق کےچہرے نمایاں ہو جاتے ہیں.(۳)
جب کسی کے لیے حقیقت واضح ہوجائے تواس کو عقلی طور پر خدا سے ہی ڈرنا چاہیےنہ کسی اور سے.
امام صادق علیہ السلام عالم کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:یعنی
الإمامُ الصّادقُ عليه السلام ـ في قولِ اللّه ِ عَزَّوجلَّ: «إنَّما يَخْشَى اللّه َ مِن عِبادِهِ العُلَماءُ»: يَعني بِالعُلَماءِ مَن صَدَّقَ فِعلُه قَولَهُ ، و مَن لَم يُصَدِّقْ فِعلُهُ قَولَهُ فلَيسَ بِعالِمٍ (۴)
عالم وہ ہوتا ہے کہ جس کا قول اس کے فعل کی تصدیق کرے.اگر اس کا قول اس کے فعل کی تصدیق نہ کرے تو عالم نہیں ہے.
اس مختصر تحریر میں دو ایسے ہی شخصیات کے کچھ مشترکہ اوصاف کا ذکر کیا جائے گا جنھوں نے اپنی زندگی تبلیغ اور معاشرے کی اصلاح کے لئے وقف کر رکھی تھیں۔
گلگت بلتستان میں علماء کا کردار
گلگت بلتستان کی ترقی اور معاشرہ کی اصلاح میں علماءکے کردار کی سنت قدیم علماءسے چلی آرہی ہے کہ جب کشمیر کے راستہ سے ایران کےعلماءتبلیغ کے سلسلہ میں تشریف لائے اور اس علاقہ کو محبین اہل بیت علیہم السلام کا قلعہ بنادیا۔یہاں سے علماءکے کردار کا آغاز ہوتا ہے اور مقامی افراد بھی اپنے بچوں کو علمی مراکز کے حوالے کرکے معاشرہ کی خدمت اور اسلام کی تبلیغ کے لئے وقف کرنا شروع کردیتے ہیں۔(۵)
کچھ عرصے میں شمالی علاقہ کے علماءکا پورے پاکستان میں چرچا ہوتاہے کیونکہ یہاں کے علماءصرف اسی علاقہ کی حد تک محدود نہیں رہتے بلکہ پاکستان کے مختلف اور دور دراز علاقوں میں اپنی خدمات انجام دیناشروع کرتےاور ان کی بے لوث خدمات،صداقت اور دیانتداری کے باعث پورے پاکستان میں شمالی علاقہ جات کا نام روشن ہوجاتاہے۔
انہی بےلوث خدمات انجام دینے والے علماءمیں سے دو چمکتے ستارے علامہ شیخ غلام محمد الغروی اور شہید سید ضیاءالدین رضویجنہوں نےگلگت بلتستان میں نہ فقط تبلیغ کے فرائض انجام دیئے بلکہ وہاں کی عوام کے حقوق کے حصول سمیت دیگر مسائل کے حل میں اپنی جان کی بازی لگائی.
گلگت بلتستان آمد
گیارہ سال باب مدینہ العلم کے در پر علم و حکمت سے مزین ہو کرجب شیخ غلام محمد الغروی بلتستان پہنچے تو ان کی خدا داد صلاحیتوں کا چرچا ہوا اور اپنے آبائی گاؤں سے ان کو سکردو شہر لایا گیا جہاں سے انہوں نے تبلیغ کے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ مختلف جہات سے خدمات انجام دیتے رہے (۶)اور مفتی جعفر اعلی اللہ مقامہ کی قیادت کے دوران پورے شمالی علاقہ جات کی قیادت ان کے سپردکیا. شہید رضوی بھی مرکز علم و فقاہت قم المقدس میں علم کی تشنگی بجھا کر تبلیغ کے سلسلہ میں گلگت تشریف لائے.
جب دبارہ قم المقدس کا ارادہ کیاتو مؤمنین نے ان سے التماس کرتے ہوئے جانے سے روکا اور ان کے معنویت سے بھری تقاریر اور دعاؤں سے معنوی کیف حاصل کرتے رہے.(۷)
دشمن عناصر کاعذاب
تقریبا نصف صدی تک علامہ شیخ غلام محمد سماج دشمن عناصر کے آنکھوںمیں کانٹا بن کر چبھتے رہے اور آخرکار ملت کو انہی دشمن عناصر سے درپیش مسائل کو حل کرنے میں دن رات کوششوں کے باعث ذیادہ ذہنی فشار کے باعث بستر بیمار پر پڑ جاتےاور کافی علاج ومعالجہ کے باوجود داغ فراغت چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کے بعد شہید سید ضیاءالدین دشمن عناصر کے لئے عذاب اور ملت تشیع سمیت تمام امن پسند افراد کے لئے رحمت کے طور پر میدان عمل میں اترتے ہیں۔لیکن دشمنوں نے ان کے مشن کو روکنے اور اپنے مفادات کے حصول کے لئے ان کوان کے ساتھیوں سمیت شہید کر ڈالا۔
شجاعت و بہادری اورحکمرانوں سے ٹکر
علامہ الغروی اور شہید رضوی دونوں اگرچہ جسمانی لحاظ سے کمزور اور قد میں چھوٹے تھے لیکن ان کی جرات اور شجاعت کوہ ہمالیہ و قراقرم سے بہی بلند اور مضبوط تہی۔دونوں ہستیاں کبھی بھی کسی ظالم حکمرانوں کے دھوکہ میں نہیں آئے۔بیوروکریسی کے سامنے کبھی نہیں جھکے بلکہ ان کے سامنے جرات کے ساتھ کھڑے ہوتےاور ان کو اپنی بات ماننے پر مجبور کرتےتھے۔
علامہ الغروی نے ضیاءالحق جیسے فسادی ،متعصب اور ظالم جنرل کے دور میں قوم وملت کی قیادت کی اور ان کے سامنے بھی حق کی بات کرنے سے نہیں کتراتےتھے۔ان کے مظالم کے خلاف ان کے سامنے احتجاج کرتے ۔
ان کے فسادی سازشوں کو ان کے سامنے تنقید کا نشانہ بناتے۔تھے.بڑےبڑے افسران اورشخصیات ان کی جرات و بہادری پر حیران رہ جاتیں تھیں کہ جسمانی لحاظ سے اتنے نحیف اور کمزور لیکن ضیاءالحق جیسے ظالم ڈکٹیٹر کے سامنے ڈٹ جاتےہیں۔جبکہ اس کے برعکس بڑی بڑی شخصیات ضیاءالحق کے سامنے جھک جاتےاور ان کے سامنے بولنے کی ہمت نہ کرتی تھیں۔
شہید رضوی نے بھی ایک ڈکٹیٹر مشرف کی حکومت کا مقابلہ کیا جہاں بعض افراد ان کی جماعت اور حکومت میں شامل ہونے کی کوششیں کررہے تھے وہاں آپ ان کی سازشوں کو بے نقاب کرنے اور نصاب میں تبدیلی کے ذریعہ نئی نسل کو اپنے عقائد سے بے بہرہ کرنے کی کوشش کو پورے پاکستان میں تنقید کانشانہ بنایا۔
لیکن پاکستان کے دوسرے علاقوں کے علماءاور شخصیات کی خاطرخواہ حمایت حاصل نہ ہونے کے سبب دشمن کو یہ موقع ملا (۸) اور وہ یہ جانتا تھا کہ شہید نہ بکنے والےنہ ڈرنے والے،ان کا عزم وحوصلہ بہت بلند وقوی ہے .دشمن نے یہ سوچا کہ ان کو شہید کرکے ہی اس مشن کو ناکام بنایاجاسکتاہے۔
لہذا ان کو ان کے ساتھیوں سمیت شہید کرڈالا۔لیکن ان کا مشن جاری ہے شہید کےخون نے ملت کو نئی جان عطا کی ہے اور دشمن کے کسی بھی سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے آج ہر طبقہ فکر کے افراد تیار ہیں۔
اتحاد بین المسلمین
علامہ الغروی اور شہید رضوی دونوں درویش صفت رہنما تھے۔ زہد و تقوی،خلوص،خدمت خلق کا جذبہ اور بلند حوصلہ کے مالک تھے۔اتحاد بین المسلمین کے لئے دونوں کے کردار مثالی ہیں۔گلگت جیسے حساس علاقہ میں شہید رضوی کےمدبرانہ قیادت نے شیعہ سنی بھائی بھائی کے نعرے کو بلند ہونے پر مجبور کیا(۹)
ضیاءالحق کے دور میں جب انہوں نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا تو علامہ الغروی کے پاس افراد بھیجے اور مطالبات پیش کرنے کا کہاگیاتو کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا صرف ایک مطالبہ کیا کہ اہل سنت برادران کے لئے مسجد کی جگہ نہیں ہے لہذا سرکاری خرچہ پر چلنے والے سینما حال کو ختم کرکے وہ جگہ اہل سنت کو دی جائے اور اطراف میں دکانیں بنانے کے اخراجات بھی دئیے جائیں تاکہ انہی دکانوں کی آمدنی سے مسجد کے اخراجات پورے کیے جاسکے۔اس مطالبہ کو قبول کیا گیا(۱۰)
اورآج بھی اہل سنت اس مسجد میں عبادت کرتے ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے علماءو عوام انکی قیادت اور قائدانہ صلاحیت کے معتقد و معترف تھے اور آج بھی ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔
تحریک جعفریہ پاکستان میں کردار
علامہ شیخ غلام محمد ؛سید محمد دہلوی کی قیادت میںبننے والی تحریک کےحامی اور اس تحریک کے ذریعہ کئے گئےاصلاحات پر بھی اعتقاد رکھتےتھے.جب پہلی بار قائد محبوب مفتی جعفر حسین نے پہلی بار شمالی علاقہ جات کا دورہ کیا تو وہاںتنظیم سازی عمل میںآئی اور شمالی علاقہ جات کی قیادت کی ذمہ داری علامہ شیخ غلام محمد کےکندھےپر ڈال دی جسےآپ نےملت کی خدمت کےجذبہ سےسرشار ہو کر قبول کیا آخر دم تک مرکزی قیادت سےمنسلک رہے.اور کوئی بھی قدم علاقہ کےزمینی حقائق کو مدنظر رکھ کراٹھاتےرہے.شہید قائد کی قیادت میںبھی آپ ان کےلئےایک انتہائي مخلص مددگار ثابت ہوئے.
شہید قائد کی شہادت کےبعد جب ملت تشیع پاکستان کا یہ کاروان علامہ سید ساجد علی نقوی کی قیادت میںرواںدواں تھےاسی دوران جب شمالی علاقہ جات میںالیکشن کےایام میںاس دور کےوزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات نےایک حلقہ کو تبدیل کر کےمذہبی منافرت پھیلانے کی ناپاک کوشش کی تو علامہ شیخ غلام محمد نے الیکشن کا بائیکاٹ کرنےکا اعلان کیا جس کا عوام کی طرف سے انتہائی مثبت انداز میںجواب آیا اورکل چھ سو سیٹوںمیںسے چار سو سیٹوںپر الیکشن نہیںہوئےجو علامہ شیخ غلام محمد کی عوام میںمحبوبیت اور ان کی قیادت پر اعتماد کا منہ بولتاثبوت ہے.اسی بائیکاٹ کا نتیجہ تحریک جعفریہ نے اگلےالیکشن میںواضح اکثریت میںجیت کر حاصل کیا لیکن جس کی بصیرت اور خلوص کی وجہ سےیہ کامیابی حاصل ہوئي تھی وہ اس کامیابی کو نہ دیکھپائے کیونکہ اس وقت شمالی علاقہ کی عوام اپنےمحبوب اور مخلص قائد سےمحروم ہو چکی تھی (۱۱)
شہید سید ضیاءالدین رضوی بھی مرکزی قیادت سے انتہائی مخلص تھے.شہید قائد کو اپنے لئےالگو قرار دے رکھا تھا.ان کی شہادت ملت تشیع کے لئےبہت بڑا نقصان تصور کرتےتھے.شہید عارف حسین الحسینی کی المناک شہادت کےبعدشہید ضیاءالدین؛علامہ سید ساجد علی نقوی کے خط کو اپناتے ہوئے ہمیشہ ان کی قیادت سے مخلص رہے.علامہ سید ساجد علی نقوی پر لگائے گئے الزامات کی بھرپور انداز میں مخالفت کرتےہوئے ان کی حمایت جاری رکھی اور ان کی حمایت کا کوئی بھی موقع ہاتھ سےجانےنہیںدیا.جب علامہ سید ساجد نقوی مدظلہ العالی کو پابند سلاسل کیاگیا تو اس واقعہ کےخلاف احتجاج کرتے ہوئےآپ نےفرمایا کہ قائد محترم کو ہر طریقہ سےمرعوب اور دبانےکی کوشش کی جارہی ہے.شہید کی نظر میںقائد محترم پر لگائےگئے قتل کا الزام صرف ایک ڈرامہ تھا اصل مقصد یہ تھا کہ حکومت دشمن کے ہمنوا بن کر دشمن کے جو مطالبات تھےوہ ان سےمنوالیا جائے(۱۲)
علامہ شیخ غلام محمد اور شہید سید ضیاءالدین دونوںکامرکزیت کے حوالہ سے ایک ہی نظریہ تھا.علامہ شیخ غلام محمد کا تاریخی فرمان ہےکہ:مرکزیت قوم کی اہم ضرورت ہے.
اسی طرح شہید سید ضیاءالدین فرماتےہیں:مرکز سےجدا ہو کر کوئی بھی کامیابی حاصل نہیںکر سکتا۔(۱۳)
ہماری ذمہ داری
آج ان دو عظیم شخصیات کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔کیونکہ ملت تشیع سے تعلق رکھنے کی حیثیت سے اپنے محسنین کو یاد رکہنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ان دو شخصیات کے علاوہ بھی ایسے علماءتاریخ میں ملتےجنہوں نےقوم و ملت کے لئے اپنی عمریں وقف کردیان سب کو یاد رکھنا اور ان کی خدمات کا تذکرہ ہونا چاہیئے۔جہاں ان گزشتہ قائدین ومحسنین کو یاد رکھنا ضروری ہے وہان آج ان علماءکی قدر کرنا بھی ضروری ہے جو مختلف پلیٹ فارم پر تشیع کا دفاع کر رہے ہیں۔آپس کےتمام نظریاتی اختلافات سمیت علاقائی و لسانی اختلافات کو کچل کر ایک قوم بن کر ملت کا دفاع کرنے والے افراد کے لئے قوت و طاقت کا باعث بننا ہوگا۔۔
حوالہ جات
.۱سورہ توبہ آیة۱۲۲
.۲سورہ فاطرآیة۲۸
.۳بلاغ القرآن؛شیخ محسن علی نجفی
.۴اصول کافی
26 .k2. جون 1999تحریر حسن حسرت
.۶علامہ شیخ غلام محمد ایک بے داغ قیادت
.۷مقالہ؛تحریر عین الحیات؛المصباح ہوم نیٹ
.۸ایضا
.۹ایضا
.۱۰علامہ شیخ غلام محمد ایک بے داغ قیادت
۱۱. jrbpk.comعلماء ومراجع (قائد شمالی علاقہ جات علامہ شیخ غلام محمد غروی.تحریر محمد حسین حیدری)
balti.blogfa.com/postعلامہ شیخ غلام محمد الغروی نجفی مرحوم.تحریر محمد نزیر عرفانی
۱۲.۱۳. almisbah14.com/2013-10-15-15-38-22/23-2013-11-30-18-07-33.html