علامہ شیخ غلام محمد ایک ہمہ گیر شخصیت
علامہ شیخ غلام محمد ایک ہمہ گیر شخصیت
تحریر: پروفیسر غلام حسین سلیم
علامہ شیخ غلام محمد کی برسی اسلام کی نشأة ثانیہ کی ایک تحریک ہے جس میں سب سے پہلے علامہ صاحب کے مد مقابل قوتوں کا تعارف ضروری ہے.وہ کون لوگ تھے جس کے مقابلے میں علامہ صاحب مرحوم کو سخت جدوجہد کرنا پڑی اوراپنی جدوجہد کے تمام مراحل کو کامیابی سے گزارنے کا دعوی اس لئےکرتا ہوں کہ حقیقت ایسا ہی ہے.
ان کے مقابلے میں جتنے فریق تھے ان تمام فریقوں کو جلد یا بدیر شکست فاش ہو گئی اورمختلف آمروں کے پردوں میں لپٹی ہوئی سازشوں کا جال بہت جلد ٹوٹ گیا.ایک عوامی تحریک کے طور پر یہ تحریک چلی اور عوام کی ہی تائید اور حمایت سے یہ تحریک کامیاب ہوئی.
ابتدا میں ایسا لگتا تہا کہ یہ تحریک کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیںہوگی،کیونکہ ایک طرف مرحوم تن تنہا مصمم ارادے کےساتھ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے تھےاور دوسری طرف استبدادی جبر کے اندر پلنے والی وہ تمام سازشیں ان کے مد مقابل کہڑی تھیں جس میں سب سے خطرناک روپ ان علماء سوء کا تھا جو مختلف استبدادی درباروں کے ساختہ پرداختہ تھے اور نہایت تزک و احتشام سے اپنے ان حق پرستانہ مگر باطن میں باطل پروری کی تمام شکلیں موجود تھیں.یہی علامہ شیخ غلام محمد کےراستے کی سب سے بڑی مشکل تھی جسے گندم نما جو فروش علما نے پیدا کی تھی.
مگر ایسے تمام چہروں سے پردہ ہٹانا بہت انقلابی کام تھا.جو شیخ غلام محمد جیسی انقلابی شخصیت ہی کرسکتی تھی اور انھوں نے کر دکھایا.
اورایسا کردکھایا کہ روح شریعت کا نفاذ اور شیخ غلام محمد دو مفاھيم کےایک رکن کے طور پر سامنے آگئے .اور ان کا وہ دفتر جو ہر وقت عوام کے لئے کھلا تھا اس دفتر کے سامنے تمام دفاتر بند ہو گئےاور ان کی شخصیت کے جادو کو جس قدر مٹا دیا گیا اس کی بس یہی مثال ہے.
یہیں سے علماءحق اور باطل کے پرستار علماء کی پہچان ہو گئی جبکہ اس سے قبل جبہ و دستار کی فضیلت عوام کو دھوکہ دینے کے لئے کافی سمجھی جاتی تھي.
علامہ شیخ غلام محمد کا کوئی باضابطہ دفتر یا سیکریٹریٹنہیں تھا جہاںسے ان تمام امور کو انجام دیا جاتا بلکہ وہ جہاں سے گزرتےوہی ان کا دفتر ہوتا تھا.جہاں و مجمع لگاتےتھے وہی سیکریٹریٹ ہوتا تھا لیکن کوئی ایک کیس ریکارڈ اور کاروائی کےبغیر نہیں ہوتا تھا جس کے حوالہ جات خود فیصلہ کنندہ کو اور فریقین کو نہ مل پاتا ہو.
لیکن شاید یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے ان کا یہ متحرک دفتر جو ہر طرح کے ریکارڈ سے پر ہوتا تھا وہ ایک جگہ منحصر نہیں تھا بلکہ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر ایسے متحرک دفاتر کی نشاندہی کرسکتا ہوں جس میں کام وہی ہوتا رہا جو ان کی مرضی سے ہوتا تھا لیکن جگہ بدلتی رہی .اس جگہ بدلنے کے عمل میں کئی بار تو اسیا ہوا کہ ان کی عمر بھر کی محنت یعنی ریکارڈ کا جو حصہ تھا وہ ضایع ہو گیا.لیکن پورے ریکارڈ کے ضیاع کو علماء نے نہیں بلکہ عوام کے کچھنمایپدوں نے زبردستی روکا اور سارے ریکارڈ کو تلف ہونے سے بچایا.یہ سب تاریخ کا حصہ ہے جو وقت بدلنے کے ساتھ سامنے آتا جائيگا.
شریعت کا نفاذ یا شرعی احکام کی پیروی علامہ شیخ غلام محمد کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھا لیکن اس ایک مقصد کے حصول کے خاطر ان کے دیگر مقاصد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور جس مقصد کے انہوں نےپورے بلتستان میں ہر سطح پر محکمہ شرعیہ کی بنیادیں رکھ دی تھی اور باقاعدگی سے محکمہ شرعیہ کے اجلاس بھی ہوتے تھےاور علاقے میں کوئی قوت ایسی نہيں تھی جو مرحوم شیخ غلام محمد کے مقابلے میں کوئي اپنی تنظیم بنا سکتے.کیونکہ ان تمام تنظیموں کی پشت پر عوامی قوت ہوتی تھی جو شیخ صاحب کے مقصد سمجھتے تھےاور تقویت دیتے تھے اس کے ساتھہی شیخ صاحب کی ایسی مفاہمانہ تنظیمیں بھی کام کرتی تھیں جن کا مقصد شیخ صاحب کے نفاذ شریعت کی روح سے متصادم نہ ہوں.یوں ایک وقت ایسا آیا کہ شیخ غلام محمد صاحب کا وجود ہر مکتبہ فکر کا ترجمان بن گیا اور ان کی ذات پورے خطہ شمال کے لئے ایک مرکز وحدت و اطمینان ٹھہرا اس میں چلاس کے علما ہوں یا نگر کےعلما ،سب علامہ شیخ غلام محمد کی ذات پر اتفاق کرتے تھےاور یونین کونسل سے شمالی علاقہ جات کی کونسل تک سب اسی ایک ذات کی رہنمائی میںمتفق نظر آتے تھےاور یہ خواب دوبارہ مشکل سے ہی آتا محسوس ہوتا ہے.
ان کی ذات میں پہلے بھی عوام متفق تھےاور آج بھی عوام میں کوئی اختلاف نہیں ہے.اس وقت بھی ان کی ذات محوراتفاق و اتحاد تھی، آج بھی ان کے حوالے سے عوام میں اختلاف نہیں ہے.اب یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ ان کی ذات کو محور اتحاد و اتفاق قرار دے کر رکھتا ہے یا کچھ اور.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے بعد کوئی عوامی رائے قائم نہیں ہوسکتی ،لیکن اتنا ضرور ہے کہ نفاذ شریعت کے لئےجو سانچہ انھوں نےفراہم کیا ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں.یہی علامہ شیخ غلام محمد کی سب سے بڑی فتح ہے جو انہیں حاصل رہے گی.