علامہ شیخ غلام محمد
علامہ شیخ غلام محمد کی تیسویں برسی اور چند حقائق
قوموں کو دنیا میں عزت و وقار دلوانے میں قیادت کا بڑا کردار ہوتا ہے اور با بصیرت قیادت ہی قوموں کو باوقار طریقے سے جینے کا طریقہ اور سلیقہ سکھاتی ہے۔ قائد گلگت بلتستان علامہ شیخ غلام محمد الغروی کا شمار بھی ایسی صلاحیتوں کی حامل شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے 1942 ء سے 1992ء تک یعنی زندگی کے پچاس سال ملک و قوم اور ملت کی عملی طور پر خدمت میں صرف کی۔
اس نصف صدی کے دورانیے میں مرحوم شیخ غلام محمد الغروی نے انتہائی کٹھن سفر طے کیا مگر خلق خدا کی خدمت کو عین عبادت گردانتے ہوئے آگے بڑھے۔
شیخ مرحوم نے حدیث مبارکہ کہ “علماء انبیاء کے وارثین” کی عملی تصویر پیش کی۔ نجف اشرف سے اعلی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد چاہتے تو دولت کی ریل پیل میں ڈوب کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے اور حکومت کی گود میں بیٹھ کر نہ صرف بچوں بلکہ خاندان اور دوست احباب کو بھی حکومتی و انتظامی عہدوں، منصبوں اور دیگر طرح کی نوازشات سے نواز سکتے تھے مگر ان کا تقویٰ اور پرہیز گاری اس راہ میں حائل آگیا یوں انہوں نے دین مبین کی اشاعت و ترویج اور خلق خدا کی خدمت جیسے خارزار کار انبیاء کا ہی انتخاب کیا اور کبھی بھی قوم و ملت کا سودا نہیں کیا۔
علامہ صاحب اپنے دور کے خطیب بے بدل، عالم با عمل اور منجھے ہوئے سیاست مدار تھے گویا ہر میدان میں وہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔کم گو تھے مگر جب ضرورت کے مطابق بولتے تھے تو انتہائی مدلل اور ٹھوس مؤقف کے ساتھ بولتے تھے کہ بڑے سے بڑے حکمران اور بیورو کریٹ کو قائل کرالیتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو سمیت کئی اہم حکمرانوں کی نظر میں بلند مقام رکھتے تھے ۔
تحریر و تقریر بھی اس قدر فصاحت و بلاغت پر مبنی ہوتی تھی کہ معاشرے پر اس کے نتیجہ خیز اثرات مرتب ہوتے تھے یوں قارئین و سامعین کے اذہان بہت جلد بدل جاتے تھے۔
گلگت بلتستان کی تاریخ میں بہت اہمیت کے حامل شرعی فیصلے کئے اور محکمہ شرعیہ کی بنیا بھی رکھی۔ تحریک آزادی گلگت بلتستان ہو یا سنہ 1988ء کی لشکر کشی آئینی حقوق کا معاملہ ہو یا گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی سازش ہر معاملے میں ہر طرح کی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر انتہائی زیرک مدبر بابصیرت اور باشعور قائد کے طور پر پورے گلگت بلتستان کے عوام کی بلاتفریق قیادت کرتے ہوئے قائد گلگت بلتستان کا خطاب اپنے نام کیا۔
علامہ شیخ غلام محمد الغروی گلگت بلتستان میں اتحاد بین المسلمین کے عملی طور پر علمبردار تھے یہی وجہ تھی کہ گلگت بلتستان کے تمام مسالک کے لوگ ان کی بلاتفریق عزت کرتے تھے۔
مرحوم کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر بغور جائزہ لینے کے بعد ان کی زندگی اور قائد اعظم محمد علی جناح اور مفتی جعفر حسین کی زندگی میں بہت حد تک مماثلت پایا جاتا ہے تینوں قائدین ساری زندگی ملک و قوم اور ملت کی رہنمائی اور خدمت میں دن رات اس قدر مگن رہے کہ گھر بار تو دور کی بات اپنی صحت پر بھی توجہ نہ دے پائے اور قوم و ملت کے دکھ درد اور غم کو اپنے سینوں میں لئے اس جہان فائی سے کوچ کرگئے
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
قائد گلگت بلتستان علامہ شیخ غلام محمد الغروی کو ہم سے بچھڑے آج پورے تیس سال ہو چکے ہیں کس قدر ستم ظریفی ہے کہ اس مختصر سے عرصے میں ہی قوم نے اپنے محسن قائد کو اس بیدردی سے فراموش کر دیا کہ جیسے ان کی کوئی خدمات تھیں ہی نہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قوم و ملت شیخ غلام محمد الغروی کے احسانات کے تلے دبی ہوئی ہے۔
یاد رکھیں!
جو قومیں اپنے مشاہیر کو فراموش کرتی ہیں تاریخ کے اوراق میں ایسی قوموں کا اول تو ذکر ہی نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو کچھ اچھے الفاظ میں نہیں ہوتا ہے۔
بھلا ہو بزم علم و فن سکردو کے میر کارواں میر سید اسلم حسین سحر کا جو ہر اہم ایام کو مناتے ہیں اور آج قائد گلگت بلتستان علامہ شیخ غلام محمد الغروی کی تیسویں برسی کو بھی ایوان اقبال میں مناکر احسان فراموش اور محسن فراموش قوم پر احسان کر دیا۔
آخر میں سید اسلم حسین سحر کے مرحوم قائد پر لکھے گئے ان اشعار کے ساتھ ہی قائد مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ۔
ملت کو راہ راست دکھا کر چلے گئے
سوئی ہوئی تھی قوم جگا کر چلے گئے
سب بھائی بھائی بن کے گزاریں گے زندگی
ماحول اس طرح کا بنا کر چلے گئے
محفل میں ہر طرف ہے تیرا ذکر آج بھی
سب کے دلوں میں خود کو بسا کر چلے گئے
عاشق تھا وہ علی کا محمد کا تھا غلام
حق بات کہہ کے سب کو ہلا کر چلے گئے
سارے امن پسند کے سالار آپ تھے
جھنڈا محبتوں کا اٹھا کر چلے گئے
نسلی ہو، مذہبی ہو، علاقائی ہو سحر
ہر سو تعصبات مٹا کر چلے گئے