ادیان کے درمیان گفتگو (دوم)
ادیان کے درمیان گفتگو اس کی ضرورت ،اس کے آداب
ب:انسانوں کی برابری کااصول ۔ آج کل یہ سوال برابر ذھنوں میں خطور کررہا ہےکہ کیا انسان ایک دوسرے سے بیگانے ہیں ؟ مثال کے طور پر یہ سوال کبھی اس طرح بھی پیش کیا جاتاہے کہ کیا یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ کسی دن سارے انسانون کے درمیان مفاھمت اور یکجھتی پیدا ہوجاے گي ؟اگر انسان ذاتا ایک دوسرے سے بیگانے نہ ہوں تو یہ امید کی جاسکتی ہے ۔
اس سلسلے میں دو متباین نظریات ہیں ۔
1 انسان ایک دوسرے سے بیگانے ہیں ؛
کسی فلسفی نے" تھامس ھابز"(1679-1588 )کی طرح اس مسئلہ پر بحث نہیں کی ہے ان کے استدلال کے مطابق انسان ذاتا اپنے بنی نوع کا مخالف ہے اگر طاقتور مرکزی حکومت نہ رہے جو ڈنڈے کے زور پر حکومت نہ کرے توانسان مفاھمت آمیززندگی نہیں گذارے گا بلکہ شدید مسائل میں گرفتار نظرآے گا ۔
مجموعی طورسے ھابزکے فلسفے میں اس بیگانگی کے دوپہلو ہیں ایک پہلو نفسیات سے مربوط ہے ،انسان محض اپنی ذاتی خود غرضی اور خود محوری کی بناپر ایک دوسرے سے بیگانہ ہے ہر انسان پہلے مرحلے میں صرف اپنی زندگي کی فکر میں ہوتاہے اور بعد کے مراحل میں دولت منزلت و مقام ومنصب کی فکرکرتاہے، ھابز کا خیال ہے کہ "انسان کسی دوسرے کو اھمیت نہیں دیتا مگر یہ کہ اس کے ھدف میں ممدو معاون ثابت ہویا اس کی راہ میں رکاوٹ ہو بنابریں انسان کی زیادہ ترتوجہ اپنی زندگی اور مقام پر ہوتی ہے ۔
اس نفسیاتی پہلوکے تحت ایک امر ہے جسے ہم "بیگانہ ہستی شناسی کا پہلو "کہہ سکتے ہیں ،ہستی مجموعہ اشیاء متحرک سے عبارت ہے ۔
ہر حقیقت و واقعیت مشخص زمان و مکان سے تعلق رکھتی ہے اور تغیر ناپذیر قوانین طبیعیات اس پر حاکم ہوتے ہیں ہر انسانی فرد اس دنیا کا تعمیری اور مفید جزء ہے وہ نباتات و جمادات سے پیچیدہ تر ہے تاہم ان سے ماھیتا فرق رکھتاہے ،مادی اشیاء ایک دوسرے سے صوری فرق رکھتی ہیں ،انسان کو شفقت ،ھمدلی ،اور مشترکہ ھدف جیسے قیود متحد نہیں کرسکتے انسان صرف اس لحاظ سے یگانگت اور اتحاد کا حامل ہوسکتاہے کہ اسے ایک دیوار میں پتھروں کی طرح سے چن دیا جاۓ (38)یہیں سے اخلاقیات میں نسبیت پسندی کا نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ کسی بھی اخلاقی قدر کلی اعتبار کی حامل نہیں ہے بلکہ تمام اخلاقی اقدارکا اعتبار تہذیب و تمدن و فردی لحاظ پر منحصرہے ۔
برن یونیورسٹی کے استاد "جان لڈ"اخلاقي نسبیت پسندی کی اس طرح تعریف کرتے ہیں "اخلاقی نسبیت پسندی ایک ایسا امر ہے جس کے تحت اخلاقی لحاظ سے صحیح وغلط اعمال الگ الگ ہوتے ہیں اور کوئي بھی عام اور مطلق اخلاقی معیار جو تمام انسانوں کے لۓ ہرزمانے میں لازمی ہو موجود نہیں ہے(39) روث بندیکٹ دوسرے الفاظ میں یہ کہتے ہیں کہ "ہر تہذیب و تمدن انسانی محرکات و بالقوہ اھداف کے عظیم مجموعہ سے ترکیب پاتی ہے ،ہر تہذیب میں اس کے خاص مادی وسائل و ذرایع اور ثقافتی خصوصیات سے استفادہ کیا جاتاہے اوریہ مجموعہ جس میں انسان کا ہر ممکن عمل شامل ہوسکتاہے اس قدر عظیم اور متضاد ہوتا ہےکہ کوئي ایک تہذیب اس کا یا اس کے بیشتر عناصر کا احاطہ نہیں کرسکتی بنابریں انتخاب شرط اول ہے (40)
2 :دوسرا نظریہ ہے انسانوں کی يگانگت کا ،
بہت سے مفکرین کا کہنا ہےکہ انسان بنیادی طورسے ایک ہیں اس نظریے کے حامل مفکرین میں ارسطو سرفہرست ہیں ان کی نظر میں انسان اس پتے کی طرح ہے جو اپنی طبیعت کے لحاظ سے درخت کا حصہ ہے اور اپنے تمام وجود کے ساتھہ ناگزیر شہر کا حصہ بھی ہے ،ارسطو کہتے ہیں کہ وہ گوشہ نشین انسان جو معاشرے کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا یا وہ انسان جو خود کفیل ہونے کی وجہ سے اس مشارکت سے بے نیاز ہے وہ شہر کے کارآمد عناصر میں شامل نہیں ہے بلکہ حیوان ہے یا خدا ہے 41
اس نظریے کے طرفداروں کا کہنا ہےکہ نسبیت پسندوں نے یہ دیکہ کرکہ مختلف تہذیبوں کے قواعد الگ الگ ہیں یہ غلط نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کسی بھی تہذیب کے قواعد دوسری تہذیب سے اچھے نہيں ہیں بلکہ کسی تہذیب کے قواعد کا دوسری تہذیب کے قواعد سے بہتر ہونے کا انحصاراخلاقی نظام کے اھداف پر ہے اس نظریے کے حامل افراد کا کہنا ہےکہ اخلاقی قواعد کا ھدف معاشرے کی بقا،انسانوں کے رنج و غم برطرف کرنا ،انسانی رشد وشکوفائی اور ان کے مفادات کے تصادم کو منصفانہ طریقے سے حل کرنا ہے یہ اھداف مشترکہ اصولوں کو جنم دیتے ہیں جودرحقیقت ثقافتی اختلافات کا سبب بنتے ہیں ان ہی اصولوں کی تفصیلات انسان شناس ماہریں نے بیان کی ہیں ۔
اٹھارویں صدی کے فلسفی "ڈیوڈھیوم نے کہا ہے کہ انسانی سرشت تمام اعصارو امصار میں ایک ہی رہی ہے اورحال ہی میں اے او ولسن نے انسانی سرشت کی بیس خصوصیات شمارکی ہیں 42۔
3 :اسلام کا نظریہ ؛
اسلام انسان کی کلی خصوصیات کے بارے میں یگانگي کا نظریہ رکھتا ہے و اخلاقی اصول کوثابت اور تمام انسانوں کے درمیان اور تمام زمانوں میں مشترک سمجھتا ہے گرچہ ممکن ہے بعض فروعات میں تبدیلیاں آئيں بنابریں انسان میں تبدیلیاں جو ایک مادی حقیقت ہے اقدار کی تبدیلیوں سے الگ مسئلہ ہے اور اگر ہم انسانی اقدار کو قابل تغیر اور نسبی جانیں تو ہمیں ہر گروہ ،ہر طبقے اور ہر آئيڈیالوجی کے حامل فرد کے لۓ الگ الگ اخلاق و اقدار کا قائل ہونا پڑے گا اس کے معنی یہ ہونگے کہ اخلاق کاسرےسے انکار کرکے اخلاقی اقدارکو بے بنیاد قراردیں ۔
آیت فطرت میں خدا ارشاد فرماتاہے "فاقم وجهک للدین حنیفا فطرۃ الله التی فطرالناس علیها لاتبدیل لخلق الله ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لایعلمون اے رسول تم باطل سے کتراکر اپنا رخ دین کی طرف کۓ رہو یہی خدا کی بناوٹ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی درست کی ہوئي بناوٹ میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا یہی مضبوط اور بالکل سیدھادین ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے ۔
اس آيت میں صراحتا دین کو امرفطری قراردیا گیا ہے ۔
علامہ طباطبائي اس آيت کے ذیل میں اس بات کی تفصیل بیان کرتے ہوۓ کہ انسان کی سعادت ان کے اختلافات کی بناپر اگر مختلف ہوتی تو ایک صالح اور واحد معاشرہ جو انسان کی سعادت کا باعث ہوتا وجود میں نہ آتا، اسی طرح اگر انسان کی سعادت سرزمینوں کے الگ الگ ہونے کی بناپر جھان وہ زندگي گذارتے ہیں مختلف ہوتی اور اجتماعی اداب کے مطابق ہوتی تو انسان نوع واحد کے زمرے میں نہ آتے بلکہ علاقوں کے مطابق الگ الگ نوعیت کے ہوتے اسی طرح اگر انسانوں کی سعادت زمانے کے لحاظ سے مختلف ہوتی تو انسان مختلف قرون و اعصارمیں مختلف نوع کے ہوتے اور ہرعصر کا انسان دیگر زمانے کے انسان سے الگ ہوتا۔
اس طرح انسان کبھی کمال کی منزلیں طے نہ کرتا اور انسانیت ناقص رہ جاتی کیونکہ اس صورت میں کوئي نقص وکمال ہی نہ ہوتا کیونکہ اگر ماضی کا انسان آج کے انسان سے مختلف ہوتا تو اس کا نقص و کمال اسی سے مخصوص ہوتا نیز آج کے انسان کا نقص وکمال اس سے مخصوص ہوتا ،یہ بات یاد رکھنے کی ہےکہ انسان صرف اسی صورت میں کمال کی طرف بڑہ سکتا ہے جب جہت تمام زمانوں میں تمام انسانوں کے درمیان مشترک و ثابت ہو
البتہ ہماری اس بات کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ افراداور زمان و مکان میں اختلاف دینی سنن کی برقراری میں موثر نہیں ہے بلکہ فی الجملہ اور کسی حدتک موثر ہے 44 بنابریں علامہ طباطبائي کی نظر میں دودلیلوں کی بناپر 1 انسان کے اجتماعی ہونے 2 اور اس کی وحدت نوعی کی بناپرانسانیت حقیقت واحدہ ہے جو تمام افراد و اقوام کے درمیان مشترک ہے علامہ نے اس بحث کے اختتام پر تفصیلی دلائل ذکرکۓ ہیں اوران مسائل کی مکمل وضاحت کی ہے ۔
اس سلسلے میں دیگر آيات جیسے آیۃ ذر 45 اور آيۃ عھد 46 و47 کی طرف مراجعہ کیا جاسکتا ہے یہ آیات انسانی وحدت اور اس کی فطرت واحدہ پردلالت کرتی ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام نے فلسفہ بعثت انبیاء بیان کرتے ہوۓ فرمایا ہےکہ فبعث فیهم رسله و واتر الیهم انبیاءه لیستادوهم میثاق فطرته و یذکروهم منسی نعمته و یحتجوا علیهم بالتبلیغ و یثیروا لهم دفائن العقول 48 وقفے وقفے سے ان (انسانوں ) کے درمیان انبیاءو رسل بھیجتارہا اوران کے ذریعے انہیں انتباہ دیا کہ عھد الست (میثاق فطرت ) پر قائم رہیں اور فراموش شدہ نعمت کی یاددھانی کراتے رہیں اور تبلیغ سے ان پر حجت تمام کریں اور سوئي ہوئي عقلوں کو بیدار کریں (نہج البلاغہ خطبہ اول )
انبیاء الھی اس وجہ سے آے تھے کہ لوگوں کو یہ سمجھائيں کہ تمہاری روح ضمیراور باطن کی گہرائيوں میں عظیم خزانے دفن ہیں اور تم اس سے غافل ہو ،بنابریں حقیقت و دانائی ھنر وجمال خیر وفضیلت عشق و پرستش ان سارے امورکا سرچشمہ فطرت ہے یعنی انسان روح وبدن سے مرکب حقیقت ہے ۔
انسان کی روح الھی ہے
(ونفخت فیہ من روحی )49 اور اس کا جسم عناصر طبیعی سے مرکب ہے جس کی بناپر وہ نیچر یا طبیعت سے وابستہ ہے اور عناصر غیر طبیعی اسے ماوراء طبیعت کی طرف لے جاتے ہیں ۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو اپنے معروف جملے میں انسان کی تعریف سے آگاہ فرماتے ہیں کہ "اما اخ لک فی الدین اور نظیرلک فی الخلق " 50یعنی انسان یا تمہارے دینی برادر ہیں یا خلقت میں تمہاری طرح مساوی ہیں ،لھذا اس قدر غرور ناسازگاری اور اختلاف کس بناپر؟ کیا سب انسان ہمرہ و ہم قافلہ و ہمزاد نہیں ہیں ؟51 مجموعی طورسے یہ کہا جاسکتا ہےکہ انبیاء الھی کی تعلیمات فطرت بشری کے مطابق ہیں ۔
ج:انسانوں کے درمیان اختلافات مسلم حقیقت ؛
انسان ایک نوع ہونے کے ساتھہ ساتھہ اختلافات کا بھی حامل ہے ہر انسان کو ایک جیسا نہیں سمجھاجاسکتا افراد بشر میں ظاہری و مادی اور معنوی و باطنی امور میں اختلافات پاے جاتے ہیں ۔
1ظاہری اختلاف :
انسان جنسیت ،نسل رنگ و علاقے کے لحاظ سے ظاہری طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے البتہ یہ امور ایک دوسرےپر برتری اورامتیاز کے موجب نہیں ہوسکتے اور نہ ان سے انسان کی ماھیت میں کوئي فرق آتاہے ۔
قرآن نے ان اختلافات کو قبول کیا ہے اور تکوینی و طبیعی امور قراردیا ہے ارشاد ہوتاہے "یاایهاالناس انا خلقناکم من ذکرو انثی و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عندالله اتقیکم 52 اے لوگو ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیداکیاہے اور گروہوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکولیکن خدا کی نظر مین سب سے عزیز وہی ہے جوسب سے زیادہ متقی و پرہیزکار ہے ۔
2 معنوی و باطنی اختلاف
معنوی اختلاف میں متعدد امور دخیل ہوسکتے ہیں جیسے صلاحیتوں کا مختلف ہونا ،ایمانی درجات کا مختلف ہونا وغیرہ ۔
صلاحیتوں کے مختلف ہونے کاسبب ذاتی ہوسکتاہے یعنی بعض افراد کی صلاحیتیں دوسروں سے کہیں بہتر ہوسکتی ہیں یا ممکن ہے کوئي اور سبب ہو جیسے آج کی دنیا میں پیداہونا کیونکہ آج کی دنیا کی ترقی و پیشرفت ماضی کے انسان کے لۓ قابل درک نہیں تھی یہی مسئلہ بعض دینی معارف کے سمجھنے میں بھی صادق آتاہے ،معصومین علیھم السلام سے مروی ہے کہ آخری زمانے میں یہ ممکن ہوسکے گا کہ لوگ سورہ توحید اور سورہ حدید کی ابتدائي آیات کو بھرپور طرح سے سمجھہ لیں گے بہر صورت اس طرح کے اختلافات گرچہ موجود ہیں لیکن دین نے تعلیمات کا ایک کم سے کم نصاب سب کے لۓ معین کیا ہے جس کا فہم و ادراک سب کے لۓ لازمی ہے اور ان اختلافات کو آزمائيش و حصول کمالات کا ذریعہ قراردیا ہے ۔
سورہ مائدہ کی 48 وین آیت میں ارشاد ہوتاہے " ما وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیه من الکتاب ومهیمنا علیه فاحکم بینهم بما انزل الله ولا تتبع اهواءهم عماجاءک من الحق لکل جعلنا منکم شرعة و منھاجا ولوشاء الله لجعلکم امة واحدة ولکن لیبلوکم فی اتیکم فاستبقوا لخیرات "اے رسول ہم نے تم پر بھی برحق کتاب نازل کی کہ جو کتاب اسکے پہلے سے اس کے وقت میں موجود ہے اس کی تصدیق کرتی ہے اور اسکی نگہبان بھی ہے تو جو کچہ تم پر خدا نے نازل کیا ہے اسی کے مطابق تم بھی حکم کرو اور جو بات خداکی طرف سے آچکی ہے اس سے کتراکے ان لوگوں کی خواہش نفسانی کی پیروی نہ کرو اور ہم نے تم میں سے ہرایک کے واسطے (حسب مصلحت وقت ) ایک ایک شریعت اورخاص طریقہ مقررکردیا ہے اور اگرخدا چاھتا تم سب کے سب کو ایک ہی شریعت کی امت بنادیتا مگر (مختلف شریعتوں سے ) خداکا مقصود یہ تھا کہ جو کچہ تمہیں دیا ہے اس میں تمہارا امتحان لے بس تم نیکیوں میں لپک کرآگے بڑہ جاؤ۔
اس آيۃ مبارکہ میں چند نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے ۔
1 شریعت ودین کے معنی راہ کے ہیں تاہم ظاہرقرآن سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ شریعت کے معنی اخص اور دین سے کم ہیں کیونکہ انبیاء کوگرچہ اصحاب شرایع مانتا ہے لیکن تمام انبیاء کا دین ایک ہی ہے جو اسلام ہے 53 ان الدین عندالله الاسلام54 خدا کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے ،یا ماکان ابراهیم یهودیا و لانصرانیا ولکن کان حنیفامسلما 55ابراھیم نہ تو یہودی تھے اورنہ نصرانی بلکہ نرے کھرے حق پرست (مسلم، فرمانبرداربندے ) تھے ۔
2 خدانے اپنے بندوں کے لۓ صرف ایک دین یعنی دین اسلام معین فرمایا ہے اور اسی پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اس ھدف تک پہنچنے کے لۓ اسے مختلف راہیں دکھائي ہیں اور انسانون کی مختلف صلاحیتوں کے مطابق ان کے لۓ مختلف آداب وسنن مقررفرمائے جنہیں ہم مختلف انبیاء کرام علیھم السلام کی شریعتوں سے تعبیر کرتے ہیں چنانچہ خدا کسی شریعت میں کسی حکم کی مصلحت کے منقضی(ختم) ہونے اور نئي مصلحت کے وجود میں آنے سے بعض احکام کو منسوخ فرمادیتاہے ۔
3:شرایع میں اختلافات زمانے کے گذرنے ،انسان کی صلاحیتوں میں پیشرفت وترقی کی بناپربھی وجود میں آتےہیں اور خدا کی طرف سے معین کۓ گۓ فرائض و احکام شریعت انسان کے لۓ زندگی کے مختلف موقعوں پرامتحان کے علاوہ کچہ نہیں ہیں بعبارت دیگر خدانے ہرامت کے لۓ الگ شریعت و راستہ قراردیاہے اور اگر خدا چاھتا تو تمام قوموں کو ایک امت میں شامل کردیتا اور اس کے لۓ ایک شریعت اورایک طریقہ بنادیتا لیکن خدانے متعدد شرایع مقررفرماۓ تاکہ تمہیں گوناگون نعمتیں عطاکرکے تمہارا امتحان لے یہاں نعمتوں کا مختلف ہونا امتحان کے مختلف ہونے کا مستلزم ہے اور یہ امتحان فرائض و احکام شرعی سے عبارت ہیں ۔
روایات میں بھی صلاحیتوں اور درجات ایمان کے اختلاف پر توجہ کی گئي ہے ۔
مرحوم کلینی علیہ الرحمۃ کافی میں زرارہ سے نقل کرتے ہیں کہ زرارہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کیا ،کیا ہم خود کو میزان قراردیں امام علیہ السلام نے فرمایا میزان کیا ہے ؟انہوں نے کہا جو بھی ہم سے موافق ہو خواہ علوی ہو یا غیر علوی (اسے ہم مسلمان اوراھل نجات کے طورپر دوست رکھیں )اور جو ہمارا مخالف ہو خواہ علوی ہو یا غیر علوی اس سے بیزاری کا اظہارکريں (گمراہ و اھل ھلاکت کے طورپر )اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا کیا خداکا کلام تمہارے کلام سے زیادہ صحیح نہیں ہے ؟ان لوگوں کا کیا ہوگا جن کے بارے میں خدانے فرمایاہےکہ "مگر جو مرد اور عورتیں اور بچے اس قدر بے بس ہیں کہ نہ تو (دارلحرب سے نکلنے کی) کوئي تدبیر کرسکتے ہیں نہ انہیں اپنی رہائي کی کوئي راہ دکھائی دیتی ہے 56،اوران لوگوں کا کیا ہوگا جو خدا سے امید رکھتے ہیں 57 ،اور ان لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے نیک کاموں کے ساتھ برے کام بھی کۓ ہیں 58 اصحاب اعراف کا کیا ہوگا 59؟اور مولفۃ القلوب کا کیا بنے گا ؟
حماد اپنی روایت میں زرارہ سے نقل کرتے ہیں کہ زرارہ نے کہا اس موقع پر میرے اورامام علیہ السلام کے درمیان بحث ہونے لگی ہم دونوں کی آوازبلند ہوگئي یہانتک کہ گھر سے باہر بھی آوازسنی جاسکتی تھی 60 ۔
اس حدیث میں امام علیہ السلام کی مراد یہ ہےکہ اچھايی برائي اور اھل بہشت ودوزخ ہونے کا معیار صرف شیعوں سے ہم عقیدہ ہونا نہیں ہے بلکہ امام نے فرمایا کہ وہ لوگ جو شیعہ نہیں ہیں اور قاصرہیں اور عنادبھی نہیں رکھتے اور وہ لوگ جن کے اوصاف قرآن میں ذکر کۓ گۓ ہیں وہ جنت میں جائيں گے کیونکہ خدانے انہیں معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے اوران سے بیزاری کا اظہارنہیں کرنا چاہیۓ ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ "آپ لوگوں کو بیزاری سے کیا سروکارہے ایک دوسرےسے بیزاری کا اظہارکیوں کرتے ہیں ؟بعض مومنین کو بعض پر فضیلت حاصل ہے اور کچہ لوگ کچہ لوگوں سے زیادہ نمازیں پڑھتے ہيں اور کچہ لوگوں کی بصیرت دوسروںسے زیادہ ہے اور یہی ایمان کے درجات ہیں 61 جس کے بارے میں خدانے فرمایاہے "هم درجات عندالله 62 ۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا خدا کی قسم اگر ابوذرکو معلوم ہوتاکہ سلمان کے دل میں کیاہے تو انہیں قتل کردیتے جبکہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان عقد اخوت پڑھا تھا 63 ،بنابریں بحث و گفتگو میں ان تمام اختلافات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اور بےجا توقع بھی نہیں رکھنا چاھیۓ ۔
ھاشم بن البرید سے روایت ہےکہ میں ،محمد بن مسلم اورابوالخطاب ایک جگہ جمع تھے ،ابوالخطاب نے سوال کیا کہ جو شخص امر امامت سے واقف نہ ہواس کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے ،میں نے کہا میرے خیال میں وہ کافرہے ابوالخطاب نے کہا جب تک اس پر حجت تمام نہ ہوجاۓ وہ کافرنہیں ہے اگرحجت تمام ہوجاے اور اس کے بعد اس نے امام کونہیں پہچانا تو کافرہے ،محمد بن مسلم نے کہا سبحان اللہ اگر امام کو نہ پہچانتاہو اور انکاربھی نہ کرتاہو توکس طرح سے کافر کہلاۓ گا ہرگزنہیں غیرعارف اگر منکرنہ ہوتو کافرنہیں ہے ھاشم بن البرید کہتے ہیں اس طرح ہم تینوں تین الگ الگ نظریات کے حامل تھے ۔
وہ کہتے ہیں موسم حج آن پہونچا مکہ میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اپنی بحث کی تفصیل سے امام کو آگاہ کیا اور آپ سے جواب چاھا ،امام نے فرمایا کہ میں اس وقت تمہاراجواب دونگا جب تم تینوں ساتھ ہوگے اور آج کی رات منی میں جمرہ وسطی کے پاس میرے پاس آنا ،رات کو ہم تینوں امام کی خدمت میں حاضر ہوۓ ،امام علیہ السلام نے ایسے عالم میں کہ اپنے سینے سے تکیہ لگاۓ ہوۓ تھے سوال پوچھنا شروع کیا کہ تم لوگ اپنے ملازموں ،عورتوں اور اھل خانہ کے بارے میں کیاکہتے ہو؟کیا یہ لوگ وحدانیت خداکی گواہی دیتے ہیں ،میں نے کہا جی ہاں آپ نے فرمایا کیارسول کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں میں نے کہا جی ہاں ،آپ نے فرمایا کیا وہ لوگ تم لوگوں کی طرح امامت وولایت کی شناخت رکھتے ہیں ،میں نے کہا جی نہیں اس موقع پر امام علیہ السلام نے فرمایاکہ پس تم لوگوں کی نظر مین ان کا انجام کیا ہوگا ؟مین نےکہا جو شخص امام کو نہ پہچانے کافرہے امام نے فرمایا سبحان اللہ کیا تم نے کوچہ وبازار میں لوگوں کونہیں دیکھا سقاوں(بہشتیوں ) کو نہیں دیکھا ،میں نے کہا کیوں نہیں دیکھا ہے اور دیکھتےہیں آپ نے سوال فرمایا کیا یہ لوگ نمازنہیں پڑھتے روزہ نہیں رکھتے حج نہیں بجالاتے اورخدا کی وحدانیت و رسول خدا کی رسالت کی گواہی نہیں دیتے ؟میں نے کہا جی ہاں ،اس کے بعد امام نے فرمایا کیا یہ لوگ تمہاری طرح امام کو پہچانتےہیں ؟میں نے کہا جی نہیں ،تو امام نے فرمایا پس ان کا کیا ہوگا ؟میں نے کہا میرےخیال میں جو شخص امام کو نہ پہچانے وہ کافر ہے ،اس وقت امام نے فرمایا سبحان اللہ کیا تم کعبہ کے اطراف لوگوں کی بھیڑاور ان کے طواف کو نہیں دیکھہ رہے ہو؟کیا تم نہیں دیکھہ رہے ہوکہ اھل یمن کس طرح سے کعبہ کے پردوں سے چپکے ہوۓ ہیں ،میں نے کہا جی بے شک آپ نے فرمایا کیا یہ لوگ توحید و نبوت کا اقرارنہیں کرتے ؟نمازنہیں پڑھتے ؟روزہ نہیں رکھتے ،حج نہیں بجالاتے ؟میں نے کہا کیوں نہیں تو آپ نے فرمایا کیا یہ لوگ تمہاری طرح سے امام کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا جی نہیں ،امام نے فرمایا ان لوگوں کے بارے میں تمہارا کیاعقیدہ ہے میں نے کہا میرے خیال میں جو لوگ امام کو نہیں پہچانتے وہ کافرہیں امام نے فرمایا سبحان اللہ یہ تو خوارج کا عقیدہ ہے ۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا کیا چاہتے ہومیں تمہيں حقیقت سے آگاہ کروں ؟
ھاشم کہ جوجانتا تھا امام کافیصلہ اس کے عقیدہ کے برخلاف ہوگا
اس نےکہا نہیں ۔
اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایاکہ تم لوگوں کے لۓ کس قدر بری بات ہے کہ جو چیزیں ہم سے (اھل بیت ) سے نہیں سنی ہیں اپنی طرف سے کہو،ھاشم نے بعد میں دوسروں سے کہا کہ میں یہ سوچ رہا تھاکہ امام محمد بن مسلم کی نظر کی تائيد کرکے ہمیں اس کی پیروی کا حکم دیں گے 64 ۔
اسلامی فلاسفہ نے اس مسئلہ کو الگ صورت میں بیان کیا ہے تاہم جو نتیجہ اخذ کیا ہے پوری طرح وہی ہے جو ہم نے آيات و روایت سے استفادہ کیا ہے ۔
صدرالمتآلھیں اسفار میں خیروشر کی بحث میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوۓ کہتے ہیں کہ یہ اعتراض کہ کس طرح خیرشرپر غالب ہے ؟جبکہ انسان جوکہ اشرف کائنات ہے جب اسے دیکھتے ہیں کہ اکثر انسان عمل کے لحاظ سے برے اعمال کا شکار ہیں اور اعتقاد کے لحاظ سے عقائد باطل اور جھل مرکب میں گرفتار ہیں اوراس سے ان کی آخرت خراب ہوجاتی ہے اور مستحق شقاوت و عذاب ہوجاتے ہیں لھذا بنی نوع انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کا انجام شقاوت و جہنم ہے ۔
صدرالمتآلھین اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہيں کہ آخرت میں لوگ شقاوت و سعادت کے لحاظ سے اس دنیا میں صحت وسلامتی کے لحاظ سے ہیں کیونکہ اس دنیا میں مکمل صحت وسلامتی ،مکمل خوبصورتی،مکمل بیماری وغیرہ نہایت کم یا اقلیت میں ہے اور اکثریت متوسطین کی ہے جو نستبا ان صفات کے حامل ہیں اسی طرح آخرت میں "کملین "کہ جنہیں قرآن السابقون کے لقب سے یاد کرتاہے ان کی تعداد بھی اقلیت میں ہے اور اکثریت متوسطین کی ہے جنہیں قرآن "اصحاب الیمین "کہتاہے بنابریں دونوں صورتوں میں اکثریت رحمت خدامیں شامل ہے 65 بالفاظ دیگر اسلام اور فقہی لحاظ سے وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن حقیقت میں مسلم ہیں یعنی حقیقت کے سامنے تسلیم ہیں اور اس سے عناد نہیں رکھتے ہیں ۔
د:آزادی فکر،
آزادی انتخاب مذھب و طریقت :اس بارے میں ادیان الھی کا کہنا ہےکہ دنیوی زندگی کاھدف آخرت ہے ۔
انسانوں کو اس دنیا مین اس طرح زندگی گذرانا چاہیے کہ آخرت میں سعادت و کامرانی حاصل ہوسکے اور اس ھدف کوپانے کے لۓ دینی اعقتادات کاحامل ہونا ضروری ہے تاکہ اعمال درگآہ خداوندی میں قبول ہوں اور عفو بخشش کے سامان فراہم ہوسکیں ورنہ محض عقل و اخلاقی اصولوں کی پیروی انسان کو سعادت مند نہیں بناسکتی ۔
اب جبکہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ انسان کی سعادت کے لۓ خدا اورمعاد پر ایمان ضروری ہے تو انسان کو اس راہ پر گامزن کرنے کے لۓ کیا کرنا چاہيے ؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر انسانوں کو سعادت کے راستے پر لگانا چاہیۓ "اگوسٹین "اس نظریے پر استدلال کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ اگر یہ یقینی ہوکہ کوئي ایمان سے دستبردار ہونے کی صورت میں ابدی عذاب میں گرفتارہونے والا ہے تو بہتر یہی ہے کہ اسے طاقت کے بل بوتے پر مومن بنایا جاےتاکہ اسے ابدی سعادت حاصل ہوجاۓ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح سے طاقت کا استعمال پسندیدہ ہے کیونکہ اس سے انسان کو بہشت حاصل ہوجاتی ہے اور اگر انسان طاقت کے استعمال کے دوران مر بھی جاے تو یہ تکلیفیں آخرت کے عذاب کے مقابل کچہ بھی نہیں ہیں کیونکہ ان تکلیفوں کے ذریعے انسان کی آخرت سدھاری جاتی ہے ۔
اس نظریے کے مقابل دوسرا نظریہ، یہ ہےکہ دین پر اعتقاد،بلا جبر یعنی ازروی اختیار ہے ،طاقت کے استعمال اور جبرسے کبھی بھی قلبی اعتقاد وایمان حاصل نہیں ہوسکتا ۔
جان لاک کہتے ہیں کہ طاقت کا استعمال موثر واقع نہیں ہوتا کیونکہ طاقت سے بظاہر انسان کو اطاعت کرنے پرمجبور کیا جاسکتا ہے لیکن دل کی گہرائيوں سے اسے کسی عقیدے کے قبول کرنے پر ہرگزمجبور نہیں کیا جاسکتا،وہ کہتے ہیں کہ طاقت کے استعمال کا واحد نتیجہ نفاق تظاہراور ریاکاری کوفروغ دینا ہے بنابریں عقائد کے سلسلے میں طاقت کا استعمال اخلاقی لحاظ سے نقصان دہ ہے اور بدرجہ اولی راہ راست کی طرف ھدایت کا باعث نہیں بن سکتا اور نہ سعادت کا موجب ہے66 ۔
قرآن میں آزادی کے بارے میں کئي آیات ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ انسان اپنی آزادی کے سہارے اپنی راہ کے منتخب کرنے کاخود ذمہ دار ہے اور اسے اس بارے میں جواب دینا ہوگا ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے لااکراہ فی الدین قدتبین الرشد من الغی 67 دین مین کسی طرح کا جبرواکراہ نہیں ہے کیونکہ ھدایت کاراستہ گمراہی کے راستے سے الگ ہوچکاہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ دین سچا راستہ اورصراط مستقیم ہے ورنہ لااکراہ فی الدین کے کوئی معنی نہ ہوتے کیونکہ اکراہ و زبردستی کسی چیزکو اپنے قلبی لگاؤ کے برخلاف قبول کرنے وکوکہتے ہیں لیکن اگرکوئي فکر واضح اور سچائي پرمبنی ہوتو وہ انسان کو انتخاب واختیار کا موقع فراہم کرتی ہے اور ٹھوس دلیلوں اورمتقن گفتگوسے انسان کو ھدایت کی راہ دکھاتی ہے نیزاس نکتے پر بھی تاکید کرتی ہےکہ غلط راہ اور گمراہی کا انتخاب کرنے والااپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور اسے اپنے برے انجام کا منتظر رہنا ہوگا کیونکہ دین نے کسی طرح کی زبردستی نہیں کی ہے ارشاد ہوتاہے وقل الحق من ربکم فمن شاء فلیومن و من شاء فلیکفر 68 اے رسول تم کہہ دو کہ سچی بات تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوچکی ہے جس جو چاہے مانے اور جوچاہے نہ مانے ۔
اس آیت شریفہ سے یہ استفادہ ہوتاہےکہ ہرانسان اپنی راہ انتخاب کرنے کا خود ذمہ دار ہے ،ارشاد ہوتاہے ولوشاء ربک لآمن من فی الارض کلهم جمیعا ،افانت تکره الناس حتی یکونوامومنین 69 اگر تمہارا پروردگارچاھتا تو جتنے لوگ روے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے توکیا تم لوگوں پرزبردستی کرنا چاہتے ہوتاکہ سب کے سب ایماندار ہوجائیں ۔
ایک اور آيت میں ارشاد ہوتاکہ ولوشاء الله مااشرکوا وماجعلناک علیهم حفیظا وماانت علیهم بوکیل 70 اور اگر خداچاھتا تو یہ لوگ شرک ہی نہ کرتے اور ہم نے تمکو ان لوگوں کا نگہبان تو بنایا نہیں ہے اور نہ تم ان کے ذمہ دار ہو۔
ان آيات سے یہ واضح ہوتاہے کہ اے پیغمبر تم لوگوں کی فکروں پر دباؤنہیں ڈال سکتے بلکہ اپنی فکرپیش کرواور اپنی رسالت کو اس کے نتائج کی پرواہ کۓ بغیر انجام دو ۔
فذکرانماانت مذکر و لست علیهم بمسیطر 71 اے رسول تم بس نصیحت کرنے والے ہو تم لوگون پر داروغہ تو نہیں ہو۔
ان تمام آیات سے فکروتعقل کی اھمیت واضح ہوتی ہے اوریہ بھی پتہ چلتا ہےکہ فکروخرد پر دباؤنہیں ڈالاجاسکتا کیونکہ یہ کام منطق و فکر سالم کے منافی ہے ۔
بہر صورت خدا فرماتاہے کہ اگر ہم چاہتے تو سارے انسانوں کو ایک ملت میں شامل کردیتے لیکن ہم نے چاہا کہ ان کا امتحان لیں تاکہ وہ خود اپنی راہ پیدا کريں اور ولوشاء ربک لجعل الناس امة واحدةولایزالون مختلفین 72 اور اگر تمہاراپروردگارچاہتا تو بیشک تمام لوگوں کو ایک ہی قسم کی امت بنادیتا (مگراس نے نہ چاہا اسی وجہ سے )لوگ آپس میں پھوٹ ڈالاکریں گے ۔
ولوشاء لجعلکم امة واحدة ولکن لیبلوکم فی مااتیکم 73 خدااگرچاہتاتو تم کوایک ہی امت بنادیتا تاکہ اپنی عطاکی ہوئي نعمتوں کے بارے میں تمہارا امتحان لے ۔
ان تمام امور سے پتہ چلتاہےکہ اگردینداری جبراہوتو اسے دینداری نہیں کہ سکتے ،لوگوں کو مجبورکیا جاسکتاہے لیکن ان کی فکر کو بیڑی نہیں پہنائي جاسکتی اعتقاد کے لۓ ضروری ہےکہ دلیل و منطق پراستوار ہو البتہ امربالمعروف و نہی ازمنکرکا مسئلہ الگ ہے اس میں بھی ارشاد ہے اجبار نہیں ہے ۔
حاشیہ ۔