امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امامت سے مراد کیا ہے؟ اور امامت اصول دین میں ہے یا فروع دین میں ؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

امامت سے مراد کیا ہے؟

اور امامت اصول دین میں ہے یا فروع دین میں ؟
امامت کی تعریف کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، اور اختلاف ہونا بھی چاہئے کیونکہ شیعہ نظریہ (جو کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار ہیں) کے مطابق امامت اصول دین میں سے ہے ، جبکہ اہل سنت کے یہاں امامت کو فروع دین اور عملی احکام میں شمار کیا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے فریقین امامت کو ایک نگاہ سے نہیں دیکھتے لہٰذا اس کی تعریف الگ الگ کرتے ہیں
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک سنی عالم دین ،امامت کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
”اٴلإمَامَةُ ریاسةٌ عَامةٌ فِی اٴمورِ الدِّینِ وَالدُّنیا، خلافةٌ عَنِ النَّبِي “(۱)
” پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کے عنوان سے دین و دنیا کے امور میں عام سرپرستی کا نام ”امامت “ہے۔
اس تعریف کے لحاظ سے امامت، حکومت کی حد تک ایک ظاہری ذمہ داری ہے، لیکن دینی
اور اسلامی حکومت کی شکل میںپیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کا عنوان (آنحضرت کی جانشینی یقینی حکومتی امور میں ) رکھتی ہے، اور یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے امام کو لوگوں کی طرف سے منتخب کیا جاسکتا ہے۔
لیکن بعض حضرات نے امامت کی تعریف اس طرح کی ہے: ”امامت یعنی پیغمبر اکرم کی طرف سے دینی احکام و قوانین نافذکرنے اور دین کی محافظت کرنے میں جانشین ہونا، اس طرح کہ تمام امت پر اس کی اطاعت واجب ہو“۔(۲)
چنانچہ یہ تعریف بھی پہلی تعریف سے الگ نہیں ہے بلکہ مفہوم و معنی کے لحاظ سے تقریباً ایک ہی ہے۔
ابن خلدون نے بھی اپنی تاریخ (ابن خلدون) کے مشہور و معروف مقدمہ میں امامت کی تعریف اسی طرح کی ہے۔(۳)
شیخ مفید (رحمة اللہ علیہ) کتاب ”اوائل المقالات“ میں عصمت کی بحث کرتے ہو ئے فرماتے ہیں: ”وہ ائمہ جو دینی احکام کے نافذ کرنے، حدود الٰہی کو قائم کرنے، شریعت کی حفاظت کرنے اور لوگوں کی تربیت کرنے میں پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین ہیں، ان کو (ہر گناہ اور خطا سے) معصوم ہونا چاہئے، جس طرح انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں۔(۴)
چنانچہ اس تعریف کے لحاظ سے امامت، حکومت و ریاست سے بالاتر ہے بلکہ انبیاء علیہم السلام کی طرح تمام ذمہ داریاں امام کی بھی ہوتی ہیں سوائے وحی کے،اسی وجہ سے جس طرح نبی کا معصوم ہونا ضروری ہوتا ہے اسی طرح امام کا بھی معصوم ہوناضروری ہے۔
اسی وجہ سے شرح احقاق الحق میں شیعہ نقطہ نظر سے امامت کی تعریف یوں کی گئی ہے:
”هِيَ مَنصَبٌ إلٰهيّ حَائزٌ لِجَمیعِ الشوونِ الکریمةِ وَالفَضَائلِ إلاَّ النَّبوة و مایلازم تلک المرتبة السّامیة“ (۵)
”امامت ایک الٰہی منصب اور خدا کی طرف سے ایک ذمہ داری کا نام ہے جونبوت اور اس سے متعلق دوسرے امور کے علاوہ تمام بلند امور اور فضائل کو شامل ہے“۔
چنانچہ اس تعریف کے مطابق ”امام“ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ معین ہوتاہے اور (مقام نبوت کے علاوہ) پیغمبر اکرم (ص) کے تمام امتیازات و خصوصیات رکھتا ہے، اور اس کا کام دینی حکومت کی ریاست میں منحصر نہیں ہے، اسی دلیل کی بنا پر امامت اصول دین میں شمار ہوتی ہے نہ کہ فروع دین اور عملی فرائض میں۔
امامت اصول دین میں سے ہے یا فروع دین میں سے؟
مذکورہ بحث سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے ، کیونکہ امامت کے سلسلہ میں نظریات مختلف ہیں،متعصب سنی عالم ”فضل بن روزبہان“”نہج الحق“ (جس کا جواب ”احقاق الحق“ ہے ) اس طرح کہتاہے: اشاعرہ کے نزدیک امامت اصول دین میں سے نہیں ہے بلکہ فروع دین میں سے ہے اور اس کا تعلق مسلمانوں کے افعال او راعمال سے ہے۔(۶)
اس لحاظ سے اہل سنت کے دوسرے فرقوں میں بھی کو ئی فر ق نہیں ہے کیو نکہ ان سب کے یہاں امامت عملی فرائض میں شمارہوتی ہے، اور یہ لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ امام یا خلیفہ کا انتخاب کرلیں، صرف مکتب اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے اور اہل سنت کے بہت کم افراد جیسے قاضی بیضاوی، اور ان کا اتباع کرنے والے، امامت کو اصول میں شمار کرتے ہیں۔(۷)
ان کی دلیل بھی واضح اور روشن ہے ، کیونکہ ان کے نزدیک امامت ایک الٰہی منصب ہے، یعنی امام خدا کی طرف سے منصوب ہوتا ہے، جس کی ایک شرط معصوم ہونا ہے اور خدا کے علاوہ کوئی اس (کے معصوم ہونے ) کو نہیں جانتا، اور ائمہ علیہم السلام پر ایمان رکھنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح پیغمبر اکرم (ص) پر ایمان رکھنا ضروری ہے کیونکہ امامت ،نبوت کی طرح شریعت کا اصلی ستون ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شیعہ ، امامت کے سلسلہ میں اپنے مخالفوں کو کافر شمار کرتے ہوں، بلکہ شیعہ تمام اسلامی فرقوں کو مسلمان شمار کرتے ہیں، اورانھیں اسلامی برادر سمجھتے ہیں، اگرچہ امامت کے سلسلے میں ان کے ہم عقیدہ نہیں ہیں ،اسی وجہ سے کبھی پنجگانہ اصول دین کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: پہلے تین اصول یعنی خدا، پیغمبر اسلام (ص) اور قیامت کو اصول دین شمار کرتے ہیں اور ائمہ علیہم السلام کی امامت اور عدل الٰہی کو اصول مذہب شمار کرتے ہیں۔
ہم اپنی اس گفتگو کو حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام کی حدیث پر ختم کرتے ہیں جو امامت کے مسئلہ میں ہمارے لئے الہام بخش ہے، ”امامت یعنی زمام دین ،نظام مسلمین، دنیا کی صلاح اور مومنین کی عزت ہے، امامت ، اسلام کی بنیاد اور بلند شاخیں ہیں، امام کے ذریعہ نماز روزہ، حج ،زکوٰة اور جہاد کامل ہوتے ہیں،بیت المال میں اضافہ ہوتا ہے اور ضرورتمندوں کے لئے خرچ کیا جاتا ہے، احکام اور حدود الٰہی نافذ ہوتے ہیں امام ہی کے ذریعہ اسلامی ملک کے سرحدی علاقوں کی حفاظت ہوتی ہے۔
امام، حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام شمار کرتا ہے (اور ان کو نا فذکرتا ہے) حدود الٰہی کو قائم کرتا ہے، دین خدا کا دفاع کرتا ہے، اور اپنے علم و دانش اوروعظ و نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو راہ خدا کی دعوت دیتا ہے۔(۸)(۹)
____________________
(۱) شرح تجرید قوشنچی ، صفحہ ۴۷۲
(۲) شرح قدیم تجرید، شمس الدین اصفہانی اشعری( توضیح المراد تعلیق بر شرح تجرید عقائد، تالیف سید ہاشم حسینی تہرانی صفحہ ۲۷۲ کی نقل کے مطابق)
(۳) مقدمہ ابن خلدون، صفحہ ۱۹۱
(۴) اوائل المقالات ، صفحہ ۷۴، طبع مکتبة الداوری
(۵) احقاق الحق ،، جلد ۲، صفحہ ۳۰۰، (حاشیہ نمبر ایک) (۶) احقاق الحق ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۴۔ دلائل الصدق ،جلد ۲، صفحہ ۴
(۷) دلائل الصدق ،جلد ۲، صفحہ ۸
(۸) اصول کافی ، جلد اول، صفحہ ۲۰۰ (۹) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۸

 

امامت کی بحث کب سے شروع ہوئی؟
واضح رہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے فوراً بعد ہی آپ کی خلافت کے سلسلہ میں گفتگو شروع ہوگئی تھی ، چنا نچہ ایک گروہ کا کہنا تھا کہ آنحضرت (ص) نے اپنے بعد کے لئے کسی کو خلیفہ یا جانشین نہیں بنایا ہے، بلکہ اس چیز کو امت پر چھوڑ دیا ہے لہٰذا امت خود اپنے لئے کسی رہبر اور خلیفہ کا انتخاب کرے گی ، جو اسلامی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے اور لوگوں کی نمائندگی میں ان پر حکومت کرے، لیکن وفات رسول کے بعد نمائندگی کی صورت پیدا ہی نہیں ہوئی بلکہ چند اصحاب نے بیٹھ کر پہلے مرحلہ میں خلیفہ معین کرلیا اوردوسرے مرحلہ میں خلافت انتصابی ہو گئی، اور تیسرے مرحلہ میں انتخاب کا مسئلہ چھ لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے سپر د کیا گیاتاکہ وہ آئندہ خلافت کے مسئلہ کو حل کریں۔
چنانچہ اس طرز فکر رکھنے والوں کو ”اہل سنت“ کہا جاتا ہے۔
لیکن اس کے مقابل دوسرے گروہ کا کہنا تھا کہ پیغمبر (ص) کے جانشین کو خدا کی طرف سے معین ہونا چاہئے، اور وہ خود پیغمبر اکرم (ص) کی طرح ہر خطا اور گناہ سے معصوم اور غیر معمولی علم کا مالک ہونا چاہئے، تاکہ مادی اور معنوی رہبری کی ذمہ داری کو نبھاسکے، اسلامی اصول کی حفاظت کرے، احکام کی مشکلات کو برطرف کرے ، قرآن مجید کے دقیق مطالب کی تشریح فرمائے اور اسلام کو داوم بخشے۔
اس گروہ کو ”امامیہ“ یا ”شیعہ“ کہتے ہیں اور یہ لفظ پیغمبر اکرم (ص) کی مشہور و معروف حدیث سے اقتباس کیا گیا ہے۔
تفسیر الدر المنثور (جس کا شمار اہل سنت کے مشہور منابع میں ہوتا ہے) میں آیہ شریفہ
( ِاٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) 
کے ذیل میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے اس طرح نقل کیا ہے:
”ہم پیغمبر اکرم (ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے، اس وقت آنحضرت (ص) نے فرمایا: یہ اور ان کے شیعہ روز قیامت کامیاب ہیں، اور اس موقع پر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی:
( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) (۱) (۲)
حاکم نیشاپوری (یہ چوتھی صدی کے مشہور و معروف سنی عالم ہیں)بھی اسی مضمون کو اپنی مشہور کتاب ”شواہد التنزیل“ میں پیغمبر اکرم (ص) سے مختلف طریقوں سے نقل کرتے ہیں جس کے راویوں کی تعداد ۲۰ / سے بھی زیادہ ہے۔
منجملہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ جس وقت یہ آیہ شریفہ
( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) (۳)
 نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ”ہُوَ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ“ ( اس آیت سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ہیں۔)(۴)
ایک دوسری حدیث میں ابوبرزہ سے منقول ہے کہ جس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے اس
آیت کی تلاوت فرمائی تو فرمایا:
”هُوَ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ یَاعَلِیّ “
 (وہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں)(۵)
اس کے علاوہ بھی اہل سنت کے دیگرعلمااور دانشوروں نے بھی اس حدیث کو ذکر کیا ہے جیسے صواعق محرقہ میں ابن حجراور نور الابصار میں محمد شبلنجی نے۔(۶)
لہٰذا ان تمام روایات کے پیش نظر خود پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے پیرووں کا نام ”شیعہ“ رکھا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی بعض لوگ اس نام سے خفا ہوتے ہیں اور اس کو بُرا سمجھتے ہیں نیز اس فرقہ کو رافضی کے نام سے یاد کرتے ہیں، کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ پیغمبر اکرم تو حضرت علی علیہ السلام کے فرمانبرداروں کو ”شیعہ“ کہیں اور دوسرے لو گ اس فرقہ کو برے برے ناموں سے یاد کریں!!۔
بہر حال یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لفظ شیعہ کا و جود پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد نہیں ہوابلکہ خود آنحضرت (ص)کی زندگی میں ہی ہو چکا تھا، اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے دوستوں اور پیرووں پر اس نام کا اطلاق کیا ہے، جو لوگ پیغمبر اکرم (ص) کو ”خدا کا رسول“ مانتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنی مرضی سے کلام نہیں کرتے بلکہ وہی کہتے ہیں جو وحی ہوتی ہے،
( وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَویٰ إنْ هُوَ إلاَّ وَحیٌ یُوحیٰ ) (۷)
 لہٰذا اگر آنحضرت (ص) فرمائیں کہ اے علی آپ اور آپ کے شیعہ روز قیامت ،کامیاب ہیں تو یہ ایک حقیقت ہے۔(۸)
____________________
(۱) سورہ بینہ ، آیت ۷
(۲) الدر المنثور ، جلد ۶، صفحہ ۳۷۹ (ذیل آیہ ۷ سورہ بینہ)
(۳)سورہ بینہ، آیت ۷ (۴) شواھد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۳۵۷
(۵) شواھد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۳۵۹
(۶) صواعق محر قہ، صفحہ ۹۶،نور الابصار، صفحہ ۷۰ و۱۰۱، اس حدیث کے راویوں کی تعداد اور جن کتابوں میں یہ حدیث بیان ہوئی ہے، اس سلسلہ میں مزید معلوما ت کے لئے احقاق الحق ،جلد سوم، صفحہ ۲۸۷، اور جلد۱۴، صفحہ ۲۵۸ کی طرف رجوع فرمائیں
(۷)سورہ نجم آیت ۶، و ۷
(۸) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۲۲

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=171

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک