امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

شادی اور عائلی نظام کی اہمیت اسلام کی نظر میں

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

شادی اور عائلی نظام کی اہمیت اسلام کی نظر میں
اسلام کنبے کو ایک مقدس ادارہ سمجھتا ہے اور کنبہ بسانے کی خاص تاکید کرتا ہے۔ اللہ تعالی رشتہ داری اور شادی کو ایک فطری اصول قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے:
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
 خدا ہی ہے جس نے بشر کو پانی سے خلق فرمایا اور انسانوں کے درمیان خویشاوندی اور شادی کا رشتہ قائم کیا۔تیرا رب ہر چیز پر قادر ہے۔(فرقان/54)
 فرمان نبوی ہے
مَا بُنِيَ بِنَاءٌ فِي اَلْإِسْلاَمِ أَحَبُّ إِلَى اَللَّهِ تَعَالَى مِنَ اَلتَّزْوِيجِ
 اسلام کے اندر کسی ایسی چیز کی بنیاد نہیں رکھی گئی جو اللہ کے نزدیک شادی سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہو۔(صدوق، 1413، ص 283)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں:
النکاحُ سُنَّتِی فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی‏
 شادی میری سنت اور روش ہے۔ جو کوئی اس سے روگردانی کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔(مجلسی، 1404 ق، ج 104، ص 220)
 اس حدیث کی رو سے شادی رسول اللہ کی سیرت ہے اور اسے ترک کرنا سنت نبوی سے روگردانی محسوب ہوتا ہے ۔
اسلام کی نظر میں شادی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور گھر بار بسانا ایک مقدس عمل ہے ۔امام رضا علیہ السلام کا فرمان ہے: اگر شادی کے بارے میں(قرآن کی ) کوئی روشن آیت اور ایسی سنت جس کی پیروی کی گئی ہو اور بہت سی روایات نہ ہوتیں  تب بھی یقیناً  رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنا، دور کے لوگوں کو (ایک دوسرے کے )قریب کرنا ،دلوں میں باہمی الفت پیدا کرنا اور  آبادی میں اضافہ کرنا نیز  زمانے کی سختیوں اور حوادثِ روزگار کا مقابلہ کرنے کے لئے اولاد کا ذخیرہ کرنا اس بات کے لیے کافی ہے کہ عاقل اور دانا انسان اس(شادی) کی طرف رغبت کرے نیز ہدایت یافتہ اور ہوشیار انسان اس کی طرف سبقت کرے۔(مجلسی، 1403 ق، ج 103، ص 264)
اس حدیث میں شادی کے آثار و فوائد اور نتیجے کا ذکر ہوا ہے۔ اس روایت کی رو سے شادی کے نتائج اس قدر مفید ہیں جنہیں دیکھ کر عقل و خرد حکم دیتی ہے کہ لوگ ان فوائد کے حصول کے لیے شادی کا اہتمام کریں۔
استاد مطہری معاشرے میں شادی کے گرانقدر کردار کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:(انسان کو) ایک قسم کی پختگی اور ایک طرح کے تحرک کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ چیز شادی کے بغیر اور گھر بسائے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔ یہ وہ چیز ہے جو مدرسے میں، نفس کے ساتھ جہاد میں اور نماز تہجد میں ہاتھ نہیں آتی۔ ان کمالات کو صرف شادی کرنے اور گھر بسانے کے ذریعے حاصل کرنا ہوگا۔(مطہری 1371، ص 398)

اس زاویہ نگاہ سے شادی صرف ایک مادی ضرورت  ہی نہیں بلکہ ترقی سرافرازی اور تکامل کا زینہ ہے۔
شادی اس لیے مقدس شمار ہوتی ہے کیونکہ اس کے اندر نفسیاتی ،اخلاقی، معاشرتی اور دینی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ بنا بریں نہ صرف اسلام بلکہ تقریبا تمام آسمانی ادیان نے اس پر زور دیا ہے ۔اسلام اور یہودیت نے بطور عام شادی کو ایک مقدس امر قرار دیتے ہوئے اس پر بہت   زور دیا ہے اور اس بارے میں خاص احکام  و اصول وضع کیے ہیں۔ 
ادھر  مسیحیت میں اگرچہ شادی کے بشمول دیگر دنیاوی امور سے دوری پر زور دیا گیا ہے اور رہبانیت(ترک دنیا) کو پسندیدہ شمار کیا گیا ہے 
(بعض ارباب ِ تحقیق سورہ حدید کی آیت 27 سے استدلال کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات میں رہبانیت موجود نہیں تھی بلکہ کچھ لوگوں نے بزعم خویش رضائے الہی  کے حصول کی خاطر اپنی طرف سے اسے تراشا ہے۔(اعرافی، 1393، ص 100)
اس کے باوجود گناہ اور حرام روابط سے بچنے کے لیے شادی کی اجازت دی گئی ہے اور بعض موارد میں اسے ضروری قرار دیا گیا ہے۔  اس بنا پر مسیحیت میں بھی شادی ایک مقدس امر ہے۔ کلیسا اور مذہبی شخصیات اس بارے میں رہنمائی کرتے ہیں ۔اس دین نے درست شادی کے اصولوں اور معیاروں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ عیسائیت میں شادی میاں بیوی کے مابین ایک معاہدہ ہے جسے حضرت مسیح علیہ السلام نے سر بلند کیا ہے۔(الاوسط، 1997، ص 56-57) پادری پولس کا عقیدہ ہے کہ رہبانیت(ترک دنیا) عالم ِملکوت تک رسائی کا نزدیک ترین راستہ ہے لیکن اگر کوئی اپنے آپ کو گناہ سے نہ بچا سکےتو شادی ایک ایسا راستہ ہے جو اسے بدکاری سے روک  سکتا ہے۔(المعدللی، 2002، ص 114)
چونکہ شادی ایک مقدس عمل ہے اس لیے تمام آسمانی ادیان میں مخصوص شرائط کے ساتھ شادی کو  گھر بسانے کا واحد طریقہ قرار دیا گیا ہے۔  بالفاظ دیگر شادی مخصوص دینی شرائط اور مقررہ آداب کی رعایت کے ساتھ رچائی جاسکتی ہے۔جو رشتے  دینی احکام و شرائط کے مطابق قائم نہ ہوں  ان کے ذریعے نہ گھرانہ تشکیل پا سکتا ہے اور نہ ان پر زوجیت کے احکام جاری ہوں گے۔
جدید  معاشرے  اور سیکولرازم نے شادی میں بھی تصرف کیا ہے ،اس کے تقدس کا لباس تار تار کیا ہے اور اسے صرف ایک معاہدے کی حیثیت دی ہے۔سترویں صدی اور اٹھارویں صدی کے دوران شادی کی ماہیت دگرگوں ہوگئی ہے چنانچہ آج کل شادی ایک مقدس عمل کم اور ایک معاہدہ زیادہ لگتا ہے۔(سگالن، 1388، ص 128)
آج کی سیکولر دنیا شادی کو صرف ایک عمرانی معاہدہ سمجھتی ہے۔ سیکولر لوگوں نے شادی کی دینی حیثیت کو بہت کمزور یا بالکل حذف کر دیا ہے ۔جدید دنیا نے شادی کے تقدس کو ختم کرکے کنبےیا  فیملی کے نام کے ساتھ قسم قسم کی پیوندکاری کی ہے مثلا‘‘ ہم جنس پرستوں کا کنبہ’’ یا‘‘ جوڑوں کا گھر’’(couple's Home) وغیرہ۔  والٹیئر (Voltaire) نے تقدس اور معاہدے کو دو الگ چیزیں قرار دیتے ہوئے کہا ہے :شادی ایک معاہدہ ہے جو انسانوں کے درمیان منعقد ہوتا ہے۔ کیتھولک کلیسا نے اسے متبرک عمل قرار دیا ہے لیکن معاہدے اور تبرک و قداست کے درمیان واضح فرق موجود ہے ۔معاہدہ ایک ایسا عمل ہے جو سماجی اثرات کا حامل ہوتا ہے جبکہ تقدس کی حیثیت ایک برکت کی سی ہے جو کلیسا لوگوں کو عطا کرتا ہے ۔(سگالن 1388،ص 128) اس نظرئے کی رو سے کلیسا کے تقدس اور معاشرتی و عمرانی معاہدے کے درمیان ہم آہنگی اور یکسانیت موجود نہیں ۔مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شادی اس لحاظ سے دیگر انسانی روابط سے مختلف ہے کہ شادی زندگی ،جذبات و عواطف ،معیشت اور معاشرے سے مربوط مختلف پہلوؤں کو محیط ہے۔ شادی ایک مشترکہ زندگی کا آغاز ہے جو انفرادی زندگی سے مختلف ہوتی ہے۔ شادی میاں بیوی کے مابین بہت سی ذمہ داریوں کا موجب بنتی ہے۔ان فرائض اور ذمہ داریوں کی رعایت طرفین کو نفسیاتی، روحانی اور عاطفی سکون و قرار سے ہمکنار کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زندگی میں واقع ہونے والی اس تبدیلی کا آغاز مختلف اقوام اور گروہوں کے ہاں مخصوص   دینی اصولوں اور معاشرتی آداب و رسوم مثلاً جشن اور خوشی  و  شادمانی کے ساتھ ہوتا ہے ۔اسلامی ثقافت میں شادی خاص اصول و ضوابط مثلا صیغۂ نکاح (دیکھئے : ظابطہ دیوانی  ایران، دفعہ 1062)وغیرہ کی بنیاد پر واقع ہوتی ہے۔ شادی کے دوران دعوت ِولیمہ اور خوشی منانا مستحب ہے۔ عالم مسیحیت میں آج بھی بہت سے موارد میں شادی کلیسا کے اندر دعائیہ  تقریب،شادی کے اعلان اور جشن و سرور کے ہمراہ برپا ہوتی ہے۔ گزشتہ عرائض کی  روشنی میں کنبہ معاشرے کا سب سے اساسی اور اولین ادارہ ہے اور معاشرتی زندگی کی بنیادی اکائی ہے۔ مرد اور عورت کی شادی کے نتیجے میں کنبہ وجود میں آتا ہے اور اولاد کی پیدائش سے اس کے  دائرے  میں وسعت آتی ہے ۔ اونیل  (Oneyel)  کا بہت سے شواہد و دلائل کی روشنی میں یہ نظریہ ہے کہ ماں اور باپ کی شادی کی بنیاد پر تشکیل پانے والا روایتی کنبہ بچوں کے لیے بہترین ماحول جبکہ ایک عظیم معاشرے کے لیے محفوظ ترین بنیاد فراہم کرتا ہے۔ (پور شجاعی 1392، ص182) کنبہ انسان کے مادی و معنوی احتیاجات کی برآوری کے لیے مناسب ترین پلیٹ فارم ہے نیز روحانی، ذہنی اور نفسیاتی آرام و سکون کا بہترین ذریعہ ہے ۔یہ بنیادی ادارہ معاشرے کے عظیم پیکر کے لیے بنیادی سیل(stem cell) کی حیثیت رکھتا ہے۔ واضح اور بدیہی بات ہے کہ اس پیکر کی سلامتی، ترقی اور سربلندی اس بنیادی سیل کی سلامتی ،نشو ونما ،ترقی اور تکامل پر موقوف ہیں۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک