وہ عقائد جن پراہل سنت شیعوں کو الزام دیتے ہیں
وہ عقائد جن پراہل سنت شیعوں کو الزام دیتے ہیں
شیعوں کے کچھ عقائد ایسے ہیں جن پر اہل سنت محض اس تعصب کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں جو امویوں اور عباسیوں نے اس لیے پھیلایا تھا کیونکہ وہ امام علی ع سے بغض اور کینہ رکھتے تھے یہاں تک کہ امویوں نے علی الاعلان ۸۰ برس تک منبروں سے افتخار ہر نبی وہر ولی حضرت علی ع پر لعنت کی(تفصیلات کے لیے دیکھیے تاریخ عاشورا ،مطبوعہ تعلیمات اسلامی ۔کراچی پاکستان) اس لیے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ لوگ ہر اس شخص کو گالیاں دیتے تھے اور اس پر ہر طرح کے بہتان باندھتے تھے جس کا ذرا بھی علی ع کی جماعت سے تعلق ہو ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی مگر کسی کو یہ کہا جاتا تھا کہ تو یہودی ہے تو وہ اس کا اتنا برا نہیں مانتا تھا جتنا اگر اس کو یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ تو شیعہ ہے ۔ ان کے حامیوں اور پیروکاروں کا بھی ہر زمانے میں اور ہرملک میں یہی طریقہ رہا۔یہاں تک کہ اہل سنت کے لیے لفظ شیعہ ایک گالی بن گیا ۔ کیونکہ شیعوں کے عقائد مختلف تھے اور سنیوں کی جماعت سے باہر تھے ، اس لیے سنی ان پر جو چاہتے الزام لگادیتے تھے ، جس طرح چاہتے نام دھرتے تھے اور ہر بات میں ان کے طریقے کے خلاف کرتے تھے ۔
(آج بھی بعض اتنہا پسند حلقے یہ پروپیگنڈے کرتےہیں کہ " شیعہ کافر ہیں ، سبائی ہیں اور ان کی جان اور ان کا مال محترم نہیں ہے ، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے "۔اس طرح انھوں نے نفرت اور افتراق کا پنڈورا بکس کھول دیا ہے ۔ لیکن ہمارے علماء ہمیشہ ملت کی وحدت ویگانگت کے داعی رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کوئی " لا الہ الا اللہ محمد رسو ل اللہ "کہہ دے وہ مسلمان ہے اور اس کی جان اور املاک محترم ہیں ۔
تاریخ گواہ ہے کہ جمال الدین افغانی سے لے کر آیت اللہ خمینی تک ہمارے علماء نے اتحاد اسلامی کیلئے بھر پور کوشش کی ہیں ۔ہمارے ان ہی علماء میں سے ایک آیت اللہ کاشف الغطاء ہیں جنھوں نے قابل قدر سیاسی وسماجی خدمات انجام دی نہیں ۔ سنہ ۱۳۵۰ ھ میں جب آیت اللہ کاشف الغطاء موتمر اسلامی میں شرکت کے لیے القدس الشریف پہنچے تو موتمر کے بیشتر مندوبین نے آپ ہی کی اقتدا میں مسجد اقصی میں نماز پڑھی تھی ۔(ناشر))
آپ کو شاید علم ہو کہ علمائے اہل سنت میں سے ایک مشہور عالم
(یہ الھدایہ کے مولف شیخ الاسلام براہانن الدین علی بن ابی بکر المرغینانی (۵۹۳ھ)ہیں ۔
زمخشری نے اپنی کتاب ربیع الابراء میں لکھا ہے کہ
" معاویہ بن ابی سفیان نے سب سے پہلے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا شروع کی جو خلاف سنت ہے "۔
لہذا ہم معاویہ کے طرفدار سے اتنا ہی عرض کریں گے کہ
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بند قبادیکھ)
کا کہنا ہے تھا کہ "اگر چہ دائیں ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا سنت رسول ہے ، لیکن چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے اس لیے اس کا تر ک واجب ہے"۔
اور سنئے حجۃ الاسلام ابو حامد غزالی کہتے ہیں کہ " قبر کی سطح کو ہموار کرنا اسلام میں مشروع ہے مگر رافضیوں نے اسے اپنا شعار بنالیا ہے ،اس لیے ہم اسے چھوڑ کے قبروں کو اونٹ کے کوہان کی شکل دے دی "۔
اور ابن تیمیہ کہتے ہیں :
(کہا جاتا ہے کہ برطانوی سامراج نے جب سرزمین حجاز میں "وہابی تحریک "کا آغاز کیا تو انھوں نے ۔مستشرقین کی تجویز کے بموجب جو اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس تحریک کے ذریعہ ابو العباس تقی الدین احمد بن عبدالحلیم المعروف بہ اب تیمیہ حرّانی کے افکار ونظریات کو فروغ دیا کہ کیونکہ وہ اپنے افکار ونظریات کی بنا پر مطعون تھالیکن بیسویں صدی کے لوگوں نے اسے "مجدد "اور" مصلح" کاخطاب دے دیا ۔(ناشر))
بعض فقہاء کیا خیال یہ ہے کہ اگر کوئی مستحب شیعوں کا شعار بن جائے تو اس مستحب کو ترک کردینا بہتر ہے گو ترک کرنا واجب نہیں ۔کیونکہ اس مستحب پر عمل میں بہ ظاہر شیعوں سے مشابہت ہے ۔ سنیوں اور رافضیوں میں فرق کی مصلحت مستحب پر عمل کی مصلحت سے زیادہ قوی ہے ۔( منہاج السنۃ النبویہ ، ابن تیمیہ)
حافظ عراقی سے جب یہ پوچھ گیا کہ تحت الحنک کس طرف کیاجائے ؟ تو انھوں نے کہا کہ
مجھے کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس سے داہنی طرف کی تعیین ہوتی ہو ، سوائے اس کے طبرانی کے یہاں ایک ضعیف حدیث ضرور ہے ، لیکن اگر یہ ثابت بھی ہو تو شاید آپ داہنی طرف لٹکا کر بائیں طرف لپیٹ لیتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں مگر چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے ، اس لیے تشبہ سے بچنے کے لیے اس سے احتراز ہی مناسب ہے(شرح المواہب ،زرقانی ۔)
سبحان اللہ ! یہ اندھا تعصب ملاحظہ ہو ۔یہ علماء کیسے سنت رسول ص کی مخالفت کی اجازت صرف اس بنا پر دیتے ہیں کہ اس پر شیعوں نے پابندی سے عمل کرنا شروع کردیا ہے اور وہ ان کا شعار بن گئی ہے ۔ پھر دیدہ دلیری دیکھیے
کہ اس بات کا علانیہ اعتراف کرتے ہوئے بھی ذرا نہیں شرماتے ،میں تو کہتاہوں کہ شکر خدا کہ ہر صاحب بصیرت اور جویائے حقیقت پر حق واضح ہوگیا ۔ سنت کا نام لینے والو ! دیکھ سنت کا دامن کسے نے تھاما ہوا ہے ۔
الحمداللہ کہ ظاہر ہوگیا کہ یہ شیعہ ہی ہیں جو سنت رسول ص کااتباع کرتے ہیں جس کی گواہی تم خود دے رہے ہو ۔ اور تم خود ہی اس کے بھی اقراری مجرم ہو کہ تم نے سنت رسول ص کو عمدا اور دیدہ ودانستہ محض اس لیے چھوڑدیا تاکہ تم اہل بیت ع اور ان کے شیعیان با اخلاص کی روش کی مخالفت کرسکو ۔ تم نے معاویہ بن ابی سفیان کی سنت اختیار کرلی جن کے شاہد عادل امام زمخشری ہیں جو کہتے ہیں کہ سنت رسول ص کے برخلاف سب سے پہلے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی معاویہ ابن ابی سفیان نے پہنی تھی ۔ تم نے باجماعت تراویح کی بدعت میں سنت عمر کی پیروی کی ۔حالانکہ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے مسلمانوں کو نافلہ نمازیں گھر میں فرادی پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا۔( صحیح بخاری جلد ۷ صفحہ ۹۹ باب مایجوز من الغضب والشدۃ لامراللہ عزوجل ۔)
حضرت عمر نے خود اعتراف کیا تھا کہ یہ نماز بدعت ہے :
بخاری میں عبدالرحمان بن عبدالقاری سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان میں ایک دن رات کے وقت ،میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف گیا تو وہاں دیکھا کہ لوگ متفرق طور پر نماز پڑھ رہے ہیں ۔ کہیں کوئی اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں چند لوگ مل کر ۔ عمر نے کہا کہ میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ میں ایسا انتظام کردوں کہ یہ سب ایک قاری کے پیچھے نماز پڑھیں ۔چنانچہ عمر نے ایسا ہی کیا اور ابی بن کعب کوامام مقرر کردیا ایک رات پھر مین عمر کے ساتھ گیا ۔ اس وقت سب لوگ جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے ۔ انھیں دیکھ کر عمر نے کہا : کتنی اچھی بدعت ہے یہ۔
(صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۲۵۲ کتاب صلاۃ التراویح)
عمر ، جب آپ نے یہ بدعت شروع کی تھی تو آپ خود کیوں اس میں شریک نہیں ہوئے ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب آپ ان کے امیر تھے تو آپ بھی ان کے ساتھ نماز پڑھتے ۔ یہ کیا کہ آپ ان کا تماشا دیکھنے نکل کھڑے ہوئے ؟ آپ کہتے ہیں کہ یہ اچھی بدعت ہے ۔یہ اچھی کیسے ہوسکتی ہے جب رسول اللہ ص نے اس سے اس وقت منع کردیا تھا جب لوگوں نے آپ کے دروازے پر جمع ہوکر شور مچایا تھا کہ آپ آکر نافلہ رمضان پڑھادیں ۔ اس پر رسول اللہ ص غصّے میں بھرے ہوئے نکلے اورآپ نے فرمایا ۔
"مجھے اندیشہ تھا کہ یہ نماز تم پر فرض ہوجائے گی ۔ جاؤ اپنے گھروں میں جاکر نماز پڑھو۔ فرض نمازوں کے علاوہ ہر نماز آدمی کے لیے گھر میں پڑھنا ہی بہتر ہے "۔ تم نے سفر کی حالت میں پوری نماز پرھنے کی بدعت میں عثمان بن عفان کی سنت کی پیروی کی ہے ۔ تمھارا یہ عمل سنت رسول کے خلاف ہے ۔کیونکہ رسول اللہ ص تو سفر میں قصر نماز پڑھا کرتے تھے۔
(صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۳۵ "وکذالک تاوّلت عائشۃ فصلّت اربعا صفحہ ۳۶)
اگر میں وہ سب مثالیں گنانے لگوں جہاں تم نے سنت رسول کے خلاف طریقہ اختیار کیا ہے تو اس کے لیے ایک پوری کتاب کی ضرورت ہوگی ۔ لیکن تمھارے خلاف تو تمھاری اپنی شہادت ہی کافی ہے جو تمھارے اپنے اقرار پر مبنی ہے ۔تم نے یہ بھی اقرارکیا ہے کہ یہ شیعہ رافضی ہیں جو سنت رسول کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں !
کیا اس کے بعد بھی ان جاہلوں کی تردید کرے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شیعہ علی بن ابی طالب ع کا اتباع کرتے ہیں اور اہل سنت رسول اکرم ص کا ؟ کیا یہ لوگ یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ علی ع رسول اللہ ص کے مخالف تھے اور انھوں نے کوئی نیا دین ایجاد کیا تھا ؟ کیسی سخت بات ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ علی ع تو سرتاپا سنت رسول ص تھے ۔ وہ سنت رسول ص کے شارح تھے اور سنت پر سختی سے قائم تھے ۔ ان کےمتعلق رسول اللہ ص نے فرمایا تھا کہ
"عليٌّ مّنّي بمنزلتي من رّبي."
(ابن حجر عسقلانی ، لسان المیزان جلد ۵ صفحہ ۱۶۱ ۔ محب طبری ،ذخائر العقبی صفحہ ۶۴ نور اللہ حسینی مرعشی ۔ احقاق الحق جلد ۷ صفحہ ۲۱۷)
"علی ص کا مجھ سے وہی تعلق ہے جو میرا میرے پروردگار سے ہے " یمنی جس طرح کہ تنہا محمد ص ہی وہ شخص تھے جو اللہ تعالی کا پیغام پہنچاتے تھے ایسے ہی تنہا علی ص وہ شخص تھے جو رسول اللہ ص کا پیغام پہنچاتے تھے ۔ علی ع کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنے سے سابق خلفاء کی خلافت تسلیم نہیں کی اور شیعوں کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے میں علی ع کی پیروی کی اور ابوبکر ، عمر اور عثمان کے جھنڈے تلے جمع ہونے سے انکار کردیا ۔ اسی لیے اہل سنت انھیں "رافضی م"یعنی منکر کہنے لگے ۔
اگر اہل سنت شیعہ عقائد اور شیعہ اقوال کا انکار کرتے ہیں تو اس کے دو سبب ہیں :
پہلا سبب تو وہ دشمنی ہےجس کی آگ اموی حکمرانوں نے جھوٹے پروپیگنڈے اور منگھڑت روایات کے ذریعے سے بھڑکائی تھی ۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ اہل سنت جو خلفاء کی تائید کرتے ہیں اور ان کی غلطیوں اور ان کے اجتھادات کو صحیح ٹھہراتے ہیں ، خصوصا اموی حکمرانوں کی غلطیوں کو جن میں معاویہ کا نام سر فہرست ہے ۔شیعہ عقائد ان کے اس طرز عمل کے منافی ہیں ۔جو شخص واقعات کا متتبع کرے گا ۔ اس پر واضح ہوجائے گا کہ شیعہ ،سنی اختلافات کی داغ بیل تو سقیفہ کے دن ہی پڑگئی تھی ۔ اس کے بعد اختلافات کی خلیج برابر وسیع ہوتی چلی گئی ۔ بعد میں جو بھی اختلاف پیدا ہوا اس کی اصل سقیفہ کا واقعہ ہی تھا ۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ کہ شیعوں کے وہ سب عقائد جن پر اہل سنت اعتراض کرتے ہیں ، ان کا خلافت کے معاملے سے گہرا تعلق ہے اور ان سب کی جڑ خلافت ہے ۔مثلا ۔ ائمہ کی تعداد ، امام کا منصوص ہونا ، ائمہ کی عصمت ، ا ن کا علم ،بدا ، تقیہ ، مہدی منتظر وغیرہ ۔
اگر ہم طرفین کے اقوال پر غیر جذباتی ہو کر غور کریں تو ہمیں طرفین کے عقائد میں بہت زیادہ بعدنظر نہیں آئے گا اور نہ ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کا کوئی جواز ملیگا کیونکہ جب آپ اہل سنت کی وہ کتابیں پڑھتے ہیں جن میں شیعوں کو گالیاں دی گئی ہیں تو آپ کو ذرا دیر کے لیے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شیعہ اسلامی اصولوں اور اسلامی احکام کے مخالف ہیں اور انھوں نے کوئی نیا دین گھڑا ہوا ہے ۔ حالانکہ جو بھی منصف مزاج شخص شیعہ عقائد پر غور کرےگا وہ ان کی اصل قرآن وسنت میں پائیگا حتی کہ جو مخالفین ان عقائد پر اعتراض کرتے ہیں خود ان کی کتابوں سے بھی ان ہی عقائد کی تایید ہوتی ہے ۔ پھر ان عقائد میں کوئی بات خلاف عقل ونقل اورمنافی اخلاق نہیں ہے!
آیئے ان عقائد پر ایک نظر ڈالیں تاکہ میرے دعوے کی صحت ظاہر ہوجاتے اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ مخالفین کے اعتراضات دھوکے کی ٹٹی کے سواکچھ نہیں !