امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اہل بیت(علیہم السلام) کے رونے کے بارے میں:

2 ووٹ دیں 05.0 / 5

اہل بیت(علیہم السلام) کے رونے کے بارے میں:

1- حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت کے بعد ان پر، اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، کی مظلومانہ شہادت کے بعد ان پر «(1)»،اوراپنے بیٹےحسین علیہ السلام کی شہادت پر «(2)»، اور عمَّار بن ياسر پر «(3)»، اور محمد ابن ابی بکر پر«(4)»، اور مالک اَشتَرنَخَعی پر «(5)»، اورهاشِم بن عُتْبة ( بن اَبی‌ وَقَّاص، ملقب به هاشم مِرقال) پر«(6)» گریہ کیا۔
2- اسی طرح سيدہ زهراء عليها السلام کے اپنے والد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر«(7)»، شہدائے أُحُد پر «(8)»، اور اپنے چچا جعفر پر «(9)» رونے کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں۔
3- اور حسن اور اہل کوفہ نے اباالحسن امیرالمؤمنین علیہ السلام پر گریہ کیا جب وہ إبن مُلْجَم مُرادی (لعنۃ اللہ) کے ہاتھوں شہید ہوئے «(10)»، اور محمد بن حَنَفيَّہ نے اپنے بھائی حسن پر گریہ کیا «(11)»۔
4- اور حسین نے اپنے بھائی حسن اور اپنی والدہ فاطمہ اور اپنے والد امیرالمؤمنین(علیہم السلام) پر گریہ کیا؛ جیسا کہ تاریخ کی کتابوں میں ذکر ہے، اور اپنے بیٹے علی اکبرعلیہ السلام پر «(12)»، اور اپنے بھائی عباس علیہ السلام پر «(13)»، اور اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل علیہ السلام پر «(14)»، اور اپنے شیر خوار بچے پر «(15)»، اور قَیس بن مُسْهِر (مُسَهَّر) صَیداوی اَسدی پر «(16)» گریہ کیا۔۔۔
5- اور علی بن الحسین علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی اپنے والد حسین الشہید علیہ السلام پر گریہ کیا «(17)»؛ جب انہیں اس پر ملامت کی گئی تو انہوں نے فرمایا: مجھے ملامت نہ کرو، کیونکہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں میں سے ایک کو کھو دیا تو اتنا روئے کہ ان کی آنکھیں سفید ہو گئیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ مر گیا ہے، اور میں نے اپنے اہل بیت کے چودہ افراد کو ایک ہی صبح میں ذبح ہوتے دیکھا؛ تو کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کا غم میرے دل سے کبھی دور ہو جائے گا «(18)»۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صحابہ کرام کے رونے کے بارے میں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کو معلوم ہے کہ جس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روح نے دنیا سے کوچ کیا وہ مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا دن تھا، مدینہ رونے اور نوحہ کرنے سے گونج اٹھا تھا اور ان کے آنسو نہیں تھم رہے تھے.

ابن‌اَعثَم کوفی نے اپنی کتاب الفتوح میں سقیفہ بنی ساعدہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
"مسلمان جمع ہوئے اور رسول اللہ کے وصال پر روئے، تو ابوبکر نے ان سے کہا: اگر تم اسی حال پر رہے تو خدا کی قسم یہ ہلاکت اور بربادی ہے." "(19)".
اوراَبو ذُويبِ هُذَلي، خُوَيلدين خالد بن مُخرث نے کہا: "میں مدینہ آیا تو اس کے لوگوں کا رونے کا شور ایسا تھا جیسے حج کرنے والے احرام باندھتے وقت شور کرتے ہیں، تو میں نے پوچھا: کیا ہوا؟ انہوں نے کہا:
رسول اللہ کا وصال ہو گیا." "(20)".
اور اسی طرح ابوبکر کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر رونا روایت کیا گیا ہے جب انہیں آپ کی وفات کا علم ہوا تو وہ آئے اور آپ پر جھک گئے، آپ کو بوسہ دیا اور روئے... "(21)"،

اسی طرح عمر بن خطاب بھی آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر روئے اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! آپ کے لیے ایک تنا تھا جس پر آپ لوگوں کو خطبہ دیتے تھے، جب لوگ زیادہ ہو گئے اور آپ نے منبر بنا لیا تاکہ انہیں سنا سکیں تو وہ تنا آپ کی جدائی پر رویا یہاں تک کہ آپ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا تاکہ اس کو سکون آ جائے، تو آپ کی امت آپ پر زیادہ حق رکھتی ہے کہ وہ آپ کی جدائی پر روئے.. الخ "(22)"؛

اور اس خبر کی سچائی کا گواہ وہ ہے جو صحاح اور سنن کے مصنفین نے تنے کے رونے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسے گلے لگانے کے بارے میں روایت کیا ہے.
اور بِلال بن رَباح، (معروف به بلال حبشی) کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر پر رونا روایت کیا گیا ہے "(23)"، اور ام سلمہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر روئیں.
اور جہاں تک اصحاب کا ایک دوسرے پر رونا ہے:
تو اس کی مثالوں میں سے وہ ہے جوابوهُرَیره کا امام حسن علیہ السلام پر رونا (24)، اور عَمْرو بن سعید بن عاص کا ان پر رونا (25)۔ اور جہاں تک امام حسین علیہ السلام کا تعلق ہے تو ان پر رسول محمد صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی زندگی میں (26) رویا، تمام صحابہ نے، اور ہم ان میں سے ذکر کرتے ہیں: اَنَس بن مالک کا رونا جب انہوں نے حسین کا سر دیکھا جسے یزید چھڑی سے مار رہا تھا (27)، اور زید بن اَرقَم انصاری خزرجی کا ابن زیاد کی مجلس میں رونا (28)، اور حسن بصری کا یہ کہتے ہوئے رونا: اس امت کی ذلت جس نے اپنے نبی کی بیٹی کے بیٹے کو قتل کیا.. (29)،

اورأُمّ سَلَمہ کا یہ کہتے ہوئے رونا: "کیا انہوں نے ایسا کیا؟

اللہ ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے، پھر وہ روئیں یہاں تک کہ بے ہوش ہو گئیں" (30)،

اور ہاشمی خواتین نے رویا: سیدہ زینب اور سیدہ اُمّ‌کُلثوم اور سیدہ زینب بنت عقیل، اور فاطمه بنت حِزام مشهور به اُمّ‌الْبَنین نے رویا (31)۔
جیسا کہ بعض روایات اور آثار میں آیا ہے: عبد اللہ ابن مسعود کا عمر بن خطاب پر رونا (32)، اور عمر بن خطاب کا نعمان بن مُقَرِّن پر رونا (33)، اور عبدالله بن رَواحَه کا حمزہ پر رونا (34)، جیسا کہ شاعرحَسّان بن ثابِت نے خُبَیب بن عَدِی(@) کا مرثیہ پڑھا اور ان پر رویا (35)، اور بئر معونہ (مکہ مکرمہ میں ایک مقام ہے جہاں پرایک تاریخی واقعہ پیش آیا تھا جس میں سَتَّر(70) صحابہ کی ایک بڑی جماعت شہید ہوئی، جن کو ’’قُرَّاء‘‘ کہتے ہیں) کے مقتولین کا مرثیہ پڑھا (36)، اورنبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی صَفِیَّه دخترعبدالمطلب نے اپنے بھائی حمزہ پر شدید گریہ کیا یہاں تک کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وہ روتی تھیں تو روتے تھے اور جب وہ سسکتی تھیں تو سسکتے تھے (37)
رونے سے منع کرنے کا شبہ باقی رہا:
پہلا شبہ: جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا گیا ہے:

"میت کو زندہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے" یا: "میت کو اس کے اہل کے رونے سے عذاب ہوتا ہے"۔
جواب: یہ قبول کرنے کے بعد کہ یہ روایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صادر ہوئی ہے، تو یہ صرف ایک یہودی کی موت کے لیے تھی، اور یہ حدیث بخاری اور مسلم دونوں نے اپنی سند سے عائشہ سے روایت کی ہے: ہشام بن عروہ سے اپنے والد سے:
"عائشہ کے پاس ابن عمر کا قول ذکر کیا گیا کہ میت کو اس کے اہل کے رونے سے عذاب ہوتا ہے، تو انہوں نے کہا: اللہ ابو عبدالرحمن پر رحم کرے، انہوں نے کچھ سنا لیکن اسے یاد نہیں رکھا؛ درحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک یہودی کا جنازہ گزرا اور وہ اس پر رو رہے تھے تو آپ نے فرمایا: "تم رو رہے ہو اور اسے عذاب ہو رہا ہے (38)
لہذا، منع کا صدور متحقق نہیں ہے، اور اگر یہ متحقق بھی ہو تو یہ منع نہیں ہے بلکہ یہ یہودیوں یا ایک مخصوص یہودی کے خاص حال کی خبر ہے۔ پھر یہ کہ یہ منع کرنے والی روایات نبی کے بعض فوت شدہ افراد پر رونے کے فعل سے متصادم ہیں، اور ان کے رونے کے حکم سے اور.. اور...
دوسرا شبہ: عمر بن خطاب کی طرف سے نہی کا صدور؛ اور یہ صرف صہیب کی روایت میں صحیح ہے جب وہ ان کے پاس آئے جب وہ نزع کی حالت میں تھے اور عائشہ نے اسے واضح کیا جیسا کہ گزر چکا ہے، اور ایک اور روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جب عمر نے عورتوں کو رونے سے روکا تو رسول نے ان سے فرمایا: "انہیں چھوڑ دو کیونکہ نفس.." اور اس کا نقل پہلے گزر چکا ہے، اور اس میں جواز پر سب سے بڑی دلیل ہے نہ کہ منع پر۔
پھر یہ کہ یہ عمر کے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رونے کے منافی ہے جب انہیں ان کی موت کا یقین ہو گیا، اور ان کے بھائی زید بن خطاب پر، اور خالد بن ولید روئے جب وہ فوت ہوئے، اور نعمان بن مُقَرِّن روئے۔
تیسرا شبہ: یہ کہ رونے میں اللہ عزوجل کے انسان پر اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہےاس پراعتراض کا اظہارہے، اور اس کے بارے میں بدگمانی ہے۔
لیکن یہ شبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فعل اور ان کے اصحاب اوراہل بیت علیہم السلام کے فعل سے دور ہو جاتا ہے، یہ اس کے ساتھ کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب اپنے بیٹے جناب ابراہیم اور اپنے چچا جناب حمزہ (رضوان اللہ تعالی علیہما) پر رویا اور جب انہوں نے عورتوں کو روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:

"آنکھ آنسو بہاتی ہے اور نفس مصیبت زدہ ہے اور عہد قریب ہے"

اور ایک اور کلمہ میں: "آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل خشوع کرتا ہے اور ہم وہی کہتے ہیں جو رب کو راضی کرے"، اور اس میں رونے کے جواز پر واضح دلیل ہے بشرطیکہ اس سے کوئی حرام چیز لازم نہ آئے جو اللہ عزوجل کو ناراض کرنا ہے، لہذا رونے اور اللہ کی مرضی پر اعتراض کے درمیان کوئی لازمہ نہیں ہے، اور اس کے اور صبر کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے جس کا حکم دیا گیا ہے، ورنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صبر کی صفت ختم ہو جاتی جب ان سے رونا صادر ہوتا، اور یہ قطعی طور پر باطل ہے۔
اور آخر میں... رونا ہر انسان میں ایک فطری نفسیاتی مظہر ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو اسلام پر یقین رکھتے ہیں اور ایمان کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں، تو جو اپنے بیٹے یا باپ یا کسی عزیز کو کھو دیتا ہے اور اسے یاد کرتا ہے جبکہ اسے معلوم ہے کہ وہ زندہ ہے اور رزق پا رہا ہے، تو اس کے کھو جانے پررونا اور اس سے نہ ملنے پرافسوس کرنا ایک فطری امر ہے، تو پھر کیا ہو اگر یہ نقصان موت کی وجہ سے ہو جس میں کوئی واپسی نہیں...
رزقنا اللَّه الرحمة وجعل قلوبنا محلًا لرحمته عزَّ وجلَّ إنَّه جواد كريم، غفور رحيم. 
وصلَّى اللَّه على محمد وآله الطاهرين وصحبه التابعين له بإحسان

-----
حوالہ جات:

(@)از مترجم: خُبَیب بن عَدِی بن مالک بن عامر اَوْسی انصاری، رسول خدا (ص) کے اصحاب میں سےتھے اور صدر اسلام کے پہلے شہداء میں سے ہیں۔ وہ قبیلوں عَضَل اورقارَه کی درخواست پر دین اسلام کی تبلیغ کے لیے ان کی طرف گئے لیکن انہوں نے خیانت کی اور خُبَیب بن عَدِی کو قید کر کے شہید کر دیا۔


1- الفصول المهمة: 130
2- مسند أحمد: 1/ 58، استشهاد الإمام الحسين: 125، المعجم الكبير: 3/ 105، تهذيب التهذيب: 2/ 300، تاريخ دمشق: 238
3- الإمامة والسياسة: 1/ 110
4- أنساب الأشراف: 404، تاريخ الطبري: 6/ 62، تذكرة الخواص: 107
5- شرح نهج البلاغة: 6/ 77
6- تذكرة الخواص: 94
7- تذكرة الخواص: 318، مسند فاطمة للسيوطي: 30، الفصول المهمة: 130، كنز العمال: 7/ 261
8- شفاء الغرام: 2/ 350
9- أنساب الأشراف: 43، ذخائر العقبى: 218
10- الفصول المهمة: 142، شرح نهج البلاغة: 4/ 11
11- تاريخ دمشق: 234 ترجمة الإمام الحسن
12- ينابيع المودة: 415 بالإضافة لكتب المقاتل
13- المصدر نفسه: 409
14- الفتوح لابن أعثم: 5/ 124
15- تذكرة الخواص: 252
16- الفتوح: 5/ 145
17- حلية الأولياء: 3/ 138
18- تاريخ دمشق: 56
19- الفتوح: 1/ 2
20- كنز العمال: 7/ 265، حياة الصحابة: 2/ 371، والراوي ممن تكلم في صدق صحبته للنبي صلى الله عليه و آله، لأنَّه رآه بعد وفاته وقبل دفنه
21- المصنف لابن أبي شيبة: 8/ 565، سنن النسائي: 4/ 11، سنن البيهقي: 3/ 406
22- صدق الخبر في خوارج القرن الثاني عشر: 238
23- أسد الغابة: 1/ 208 ترجمة بلال، ولاحظ ترجمته من تاريخ ابن عساكر: 1/ 256
24- تاريخ دمشق« ترجمة الإمام الحسن»: 229، سير أعلام النبلاء: 3/ 277
25- المستدرك على الصحيحين: 3/ 173
26- روى ذلك أصحاب التواريخ والسنن فلاحظ: المستدرك 3/ 176، تاريخ الخميس 1/ 418، ابن عساكر في تاريخه، وذخائر العقبى للطبري، وجميع المقاتل التي ذكرت الواقعة
27- ينابيع المودة: 389 عن سنن الترمذي: 5/ 659، وينقله عن البخاري، لكنَّ صحيح البخاري الموجود بين أيدينا قد خذفت منه هذه الرواية فتأمل!
28- استشهاد الحسين لابن الأثير: 106، أسد الغابة: 2/ 21
29- تذكرة الخواص: 268
30- تهذيب التهذيب: 2/ 306
31- لاحظ: استشهاد الحسين: 111، ينابيع المودة: 425، كفاية الطالب: 441، مقاتل الطالبيين: 56
32- العقد الفريد: 3/ 195
33- المصنف لابن أبي شيبة: 3/ 175- 6/ 558- 7/ 17، سير أعلام النبلاء: 1/ 404
34- السيرة النبويَّة: 3/ 171
35- السيرة النبويَّة: 3/ 186
36- المصدر السابق: 3/ 198
37- الفصول المهمة: 92، المغازي: 1/ 290»
38- صحيح مسلم: 3/ 44، صحيح البخاري: 1/ 224- 225 كتاب الجنائز- باب يعذب الميت.../ حديث: 1288- 1289 مع اختلاف يسير)»

مؤلف: 

 آیت اللہ العظمی سيد محمد سعيد الحكيم (قدس سرہ)-

مترجم: یوسف حسین عاقلی

ذرائع: کتاب: في رحاب العقيدة

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک