غیبت امام عصر (عج) کے بارے میں علمائے اسلام کا کلی نظریہ
-
- شائع
-
- مؤلف:
- مولانا سید بہادر علی زیدی قمی
- ذرائع:
- کتاب: غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
غیبت امام عصر (عج) کے بارے میں علمائے اسلام کا کلی نظریہ
شیعت کا نقطۂ نظر
شیعہ نقطۂ نظر کے مطابق حضرت محمد بن حسن عسکری مہدی موعود پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے بارہویں جانشین ہیں جنکی ولادت نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری میں ہوچکی ہے۔ شہادت امام حسن عسکری ؑ کے بعد وہ غائب ہوگئے تھے اورآج تک پردۂ غیبت میں بحکم خدا زندگی بسر کر رہے ہیں۔
شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین خدا کبھی بھی حجت الٰہی سے خالی نہیں ہوسکتی؛ کیونکہ اگر زمین ایک لحظہ کے لئے بھی حجت خدا سے خالی ہوجائے تو اپنی تمام آبادیوںٰ کے ساتھ تباہ و برباد ہوجائے گی۔ اس سلسلہ میں صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
"لَو بَقِيت الارضُ بِغَيرِ حُجَّة ٍ لَساخَت بِاهلِها "(1) ۔
بنابریں شیعوں کا عقیدہ مہدویت ایک مسلم امر ہے کیونکہ تمام فرقِ اسلامی میں شیعوں کے اصول و امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ حضرت مہدی موعود پر نام و نشان کے ساتھ عقیدہ و معرفت رکھتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت اگرچہ اصل مہدویت پر اعتقاد و وایمان رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ عام طور پر حضرت مہدی ؑ کو امام حسن ؑ کا فرزند تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
شیعوں نے ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں ان سے ظہور کی کیفیت، زمانۂ قیام اور امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے بارے میں بہت سے سوالات کئے اور بے شمار احادیث و روایات نقل کی ہیں۔ انکے یہ سوال و جواب ، ائمہ معصومین ؑ کے دور میں انکے عقیدہ مہدویت پر بہترین دلیل ہیں۔
بیشک پیغمبر گرامی قدر اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے اس مہر تابان یعنی حضرت مہدی (عج) کے بارے میں فراوانی کے ساتھ صحیح السند روایات نقل کی گئی ہیں اور آنجناب کے بارے میں یہاں تک کہ آپ کی ولادت سے ماقبل بھی آپ کی ولادت کی کیفیت، غیبت اور قیام کے بارے میں بے شمار کتابی ں رشتہ تحریر سے منسلک کی گئیں اور علماء و افاضل نے نہایت محنت اور مشقت اور عرق ریزی کے بعد اس سلسلہ میں اپنے علمی شاہکار بطور یادگار چھوڑے ہیں، اور اسی اہتمام کے ذریعے شیعوں کے نزدیک اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم ایک روایت کے مطابق ارشاد فرماتے ہیں:
"تکون له غيبة و حيرة تضل فيها الامم (2) ؛
ان (قائم) کے لئے غیبت و حیرت ہے جس میں بہت سے لوگ گمراہ ہوجائیں گے۔"
اہل سنت کا نقطۂ نظر
اصل ظہور حضرت مہدی علیہ السلام اسلام میں ثابت اور تمام فرق اسلامی میں مشترک امر ہے۔ اہل سنت کے یہاں بھی آنجناب کے بارے میں کثرت سے متواتر احادیث و ارد ہوئی ہیں۔ ایسے موضوعات بہت کم ہیں جنکے بارے میں اتنی کثیر تعداد میں احادیث نبوی وارد ہوئی ہوں۔ طرق اہل سنت اور انکے منابع و مآخذ میں یہ حقیقت اتنی زیادہ واضح و چشم گیر ہے کہ جس کی بنا پر بہت سے علمائے حدیث مثلاً حافظ ابو عبد اللہ گنجی شافعی (ساتویں صدی ہجری) اپنی کتاب البیان میں، ابن حجر عسقلانی شافعی (نویں صدی ہجری) اپنی کتاب فتوح البلدان میں، ابن حجر ہیثمی کتاب الصواعق المحرقہ میں، شبلنجی کتاب نور الابصار میں، ابن صباغ کتاب الفصول المھمۃ، محمد الصبان کتاب اسعاف الراغبین میں، شیخ منصور علی کتابغایة المأمول میں انکے علاوہ دیگر علماء حضرت مہدی ؑ کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث کے متواتر ہونے کی تصریح کرتے ہیں یا انھوں نے دوسرے علماء سے انکےتواتر کو نقل کیا ہے۔
حضرت مہدی (عج) کی خصوصیات ، شمائل، نسب ، کیفیت ظہور اور انکے اقتدا میں حضرت عیسی بن مریم کے نماز پڑھنے کے بارے میں پیغمبر گرامی قدر اور صحابہ کرام مثلاً حذیفہ، عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، ابو سعید خدری، ابو امامہ باھلی، انس بن مالک اور ابو ہریرہ وغیرہ سے کثرت سے اخبار و روایات نقل کی گئی ہیں، اور حضور سرور کائنات ؐو صحابہ کرام ہمیشہ لوگوں کو انکے ظہور کا مژدہ سناتے رہتے تھے۔
شیعوں کی طرح بہت سے بزرگان اہل سنت نے بھی حضرت مہدی موعودؑ کی تمام خصوصیات کا اعتراف کیا ہے جن میں مندرجہ ذیل علماء کے اسماء سرفہرست بیان کئے جاسکتے ہیں: کمال الدین محمد بن طلحہ نے اپنی مشہور کتب مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول میں، سبط ابن جوزی نے کتاب تذکرۃ الائمہ میں اور شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے اپنی معروف کتاب ینابی ع المودۃ میں ان خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔
انکے علاوہ اور بہت سے علماء نے حضرت امام زمانہ (عج) کے بارے میں احادیث کو جمع کیا ہے اور اس سلسلہ میں مخصوص کتابی ں تالیف کی ہیں مثلاً محمد بن یوسف گنجی نے کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان تحریر کی ہے، حافظ ابو نعیم نے چہل حدیث ترتیب دی ہے۔ جبکہ ینابی ع المودۃ میں بہت سے بزرگان اہل سنت کے اعتراف کا ذکر کیا گیا ہے۔
رواجنی جو کہ مشہور علماء و محدثین اہل سنت مثلاً بخاری، ترمذی، ابن ماجہ، ابو حاتم اور بزاز وغیرہ کے مشائخ میں سے ہیں اور ان سب نے ان سے روایت نقل کی ہے اور انکی وثاقت و صداقت پر تاکید کی ہے۔ رواجنی کے حالات زندگی میں لکھتے ہیں:
وہ امام زمانہ ؑ سے اتنا والہانہ عشق رکھتے تھے کہ اپنے سرپر تلوار لٹکائے پھرتے تھے تاکہ جیسے ہی حضرت ظہور فرمائیں تو وہ فوراً انکی خدمت میں پہنچ کر انکی رکاب میں جنگ کریں اور انکی مدد کریں(3) ۔
اہل سنت کے بزرگ علماء خصوصاً ائمہ اربعہ نے بھی حضرت مہدی موعود (عج) کے بارے میں روایات کو قبول کیا ہے۔ متقی ہندی (متوفی ۹۷۵ ہجری) اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
"چاروں مذاہب کے علماء شافعی ، حنفی، مالکی اور حنبلی حضرت مہدی ؑ کے بارے میں منقول احادیث کی صورت پر ا تفاق نظر رکھتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ اس موضوع پر ایمان رکھنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔"(4)
اہل سنت کے مشہور و معروف مؤرخ قاضی بہلول بہجت افندی (متوفی ۱۳۵۰ ہجری ) بھی اس سلسلہ میں رقمطراز ہیں: "ظہور مہدی قائم آل محمد ؐ امت اسلامی کا متفق علیہ مسئلہ ہے جس میں کسی قسم کی تشریح و محاکمہ کی ضرورت نہیں؛ کیونکہ حدیث
"من مات ولم يعرف إمام زمانه فقد مات ميتة الجاهلية "
علمائے عامہ و خاص کے نزدیک متفق علیہ ہے۔ بنابریں مسلمانوں کے درمیان کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو حضرت صاحب العصر و الزمان کا اقرار نہ کرتا ہو۔"(5)
بنابریں تمام فرق اسلامی حضرت مہدی (عج) کے وجود پر ایمان رکھتےہیں اور اس بات پر متفق ہیں یہ دنیا اور لوگوں پر تکلیف اس وقت تک اختتام پذیر نہیں ہوسکتی جب تک کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور نہ ہوجائے۔ ابن ابی الحدید معتزلی اس سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں:
"قد وقع إتّفاق الفرق من مسلمين علي أنّ الدنيا و التکليف لا ينقضی إلّا عليه ؛
تمام فرق اسلامی اس بات پر متفق ہیں کہ ظہور تک یہ دنیا اور تکلیف اختتام پذیر نہیں ہوسکتی۔"(6)
وہابی ت کا نقطۂ نظر
مسئلہ مہدویت اسلام کا اتنا واضح و روشن مسئلہ ہے کہ جسے یہاں تک کہ وہابی وں نے بھی قبول کیا ہے۔ اس مکتب فکر کی بنیاد رکھنے والے ابن تیمیہ (متوفی ۷۲۸ ہجری) اپنی کتاب منھاج السنۃ النبویہ میں رقمطراز ہیں: "احادیث حضرت مہدی مشہور ہیں اور انھیں امام احمد بن حنبل، ابو داؤد اور ترمذی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔"
سعودی عرب میں وہابی ت کے سب سے اہم مرکز مؤسسہ رابطۃ العالم الاسلامی کے ڈائریکٹر محمد علی کنانی نے ۱۹۷۶ عیسویمیں اس مرکز وہابی ت سے امام زمانہ کے بارے میں کینیا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص محمد صالح القزاز کے پیش کردہ سوالات کے جواب میں نہایت اہم مطالب بیان کئے تھے، مثلاً انھوں نے جواب میں لکھا: جب دنیا ظلم و فساد سے بھر جائے گی تو خداوند عالم حضرت مہدی کے وسیلہ سے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ اور یہی پیغمبر اسلام کے آخری خلیفہ و جانشین ہیں جن کے بارے میں خود رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے خبر دی تھی اور صحابہ کرام سے روایت کردہ بہت سی احادیث و روایات ا س کی تصدیق کر رہی ہیں۔
پھر وہ بطور دلیل بیس اصحاب کے نام تحریر کرتے ہیں اور بالآخر اپنے کلام کو اس جملہ کے ذریعہ ختم کرتے ہیں:
"إنّ الإعتقاد بخروج المهدی واجب و إنّه من عقائد السنة والجماعة ولا ينکره إلّا جاهل بالسنة ومبتدع فی العقيدة والله يهدی إلی الحقّ ويهدی السبيل (7) ؛
ہمارے عقیدے کے مطابق قیام مہدی پر ایمان رکھنا (ہر مسلمان پر) واجب ہے اور یہ اہل سنت و الجماعت کے عقائد کا جزء ہے، سوائے نادان (جاہل) و بدعت گزار کے کوئی اس کا انکار نہیں کرتا، خداوند سب کی حق اور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کرے۔"
۱۳۸۸ ہجری میں سعودی عرب میں دانشگاہ مدینہ میں ہونے والی کنفرانس میں وہابی وں کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز (متوفی ۱۴۲۰ ہجری) نے انکے قول کی تائید کرتے ہوئے مزید کہا تھا: "مسئلہ مہدویت آشکار و روشن ہے اور اس کے بارے میں فراوان احادیث ہیں بلکہ یہ احادیث متواتر و مستحکم ہیں اور بہت سے اہل علم حضرات نے انکے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے، یہ امام جو کہ اس امت پر الطاف الٰہی ہے آخری زمانے میں ظہور کرے گا، حق و عدالت برپا کرے گا، ظلم و جور کا خاتمہ کردے گا اور خداوند عالم عدالت و ہدایت اور لوگوں کی راہنمائی کے لئے لوائے حق اس امت پر سایہ فگن کردے گا۔(8) "
۔۔۔۔۔۔۔
1۔ المہدی المنتظر فی الاحادیث الصحیحۃ۔
2۔ مستدرک حاکم، ج ۱، ص ۲۔
3۔ زاد المعاد۔
4۔ صحیح مسلم، ج ۱، ص ۲۴۔
5۔ صحیح بخاری، ج ۴، ص ۱۴۳۔
6۔ صحیح مسلم، باب نزول عیسیٰ۔
7۔ صحیح مسلم، ج ۸، ص ۱۸۵۔
8۔ ابن ابی شیبہ، المصنف، ج ۸، ص ۶۷۸

