حضرت ابراہیم(ع) اور مرد عابد
حضرت ابراہیم(ع) اور مرد عابد
۱۱ـ امام صادق(ع) نے فرمایا ایک مرتبہ ابراہیم خلیل اﷲ(ع) اپنی بکریوں کو چرانے کوہ بیت المقدس کے پیچھے لے گئے۔ اسی دوران آپ(ع) نے اچانک ایک آواز سنی اور ایک شخص کو دیکھا جو نماز پڑھ رہا تھا اس کا قد بارہ گز تھا جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو پھر ابراہیم(ع) نے کہا اے بندہ خدا تم کس لیے نماز پڑھ رہے ہو اس نے جواب دیا خدائے آسمان کے لیے، ابراہیم(ع) نے پوچھا کیا تم اپنی قوم سے بچھڑ گئے ہو۔ اس نے کہا نہیں پوچھا کھانا کہاں سے کھاتے ہو اس نے جواب دیا میں گرمیوں میں پھل جمع کرتا ہوں اور انہیں سردیوں میں کھاتا ہوں ابراہیم(ع) نے پوچھا تیرا گھر کہاں ہے اس نے ہاتھ سے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا۔ ابراہیم(ع) نے کہا مجھے تم اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤ میں تمہارے ساتھ آج رات گزارنا چاہتا ہوں اس نے کہا میرے گھر کے راستے میں ایک دریا ہے جسے آپ(ع) عبور نہیں کرسکتے پوچھا تم وہ دریا کیسے عبور کرتے ہو۔ اس نے بتایا کہ میں اس کے پانی پر چل کر اسے عبور کرتا ہوں۔ ابراہیم(ع) نے فرمایا میں تیرے ساتھ اس لیے جانا چاہتا ہوں کہ خدا نے جو کچھ رزق تیرے مقدر میں لکھا ہے شاید اس میں سے مجھے بھی کچھ عطا کرے، کہتے ہیں اس عابد نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے ہمراہ لے کر چل پڑا جب دریا پر پہنچے تو ان دونوں نے دریا کے پانی پر چلنا شروع کردیا ۔ اور اسے عبور کر کے اس کے گھر تک جا پہنچے۔
ابراہیم(ع) نے اس عابد سے پوچھا کہ کونسا دن بزرگ تر ہے، عابد نے کہا روزِ جزا کہ اس دن لوگوں سے باز پرس ہوگی ابراہیم(ع) نے فرمایا ہاتھ اٹھا کر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ ہمیں اس دن کے شر سے امن میں رکھے اس عابد نے کہا میں کس لیے دعا کروں کہ میں گزشتہ تیس سال سے خدا کی درگاہ میں دعا کرتا ہوں جو قبول نہیں ہوتی ابراہیم(ع) نے کہا میں تجھے بتاؤں کہ کیوں تیری دعا قبول نہیں ہوتی، کہنے لگا کیوں نہیں، آپ(ع) نے فرمایا جب خدا اپنے بندے کو دوست رکھتا ہے تو اس کی دعا محفوظ کر لیتا ہے تاکہ اس کا بندہ اس سے اپنا راز کہتا رہے اس سے خواہش رکھے اور طلب کرتا رہے اور جب خدا کسی بندے سے دشمنی رکھتا ہے تو اس کی دعا جلد مستجاب کرتا ہے یا اس کے دل میں ناامیدی پیدا کردیتا ہے پھر آپ(ع) نے اس عابد سے کہا تو نے کیا دعا کی تھی، اس عابد نے بتایا کہ ایک مرتبہ بکریوں کا ایک ریوڑ میرے پاس سے گزرا اس ریوڑ کے ساتھ ایک بچہ تھا جس کی زلفیں اس کی پشت پر لٹک رہی تھیں میں نے اس سے پوچھا اے فرزند یہ ریوڑ گوسفند کس کا ہے تو اس بچے نے جواب دیا، ابراہیم(ع) خلیل اﷲ(ع) کا، میں نے خدا سے دعا کی کہ اگر اس زمین میں تیرا کوئی خلیل ہے تو اس سے میری ملاقات کروادے۔ ابراہیم(ع) نے فرمایا خدا نے تیری دعا مستجاب کی ہے میں ابراہیم(ع) خلیل اﷲ ہوں یہ سن کر وہ عابد آپ(ع) کے گلے لگ گیا جب خدا نے محمد(ص) کو مبعوث کیا تو ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا مقرر فرمایا۔
۱۲ـ رسول خدا(ص) نے فرمایا میں تمام پیغمبران و مرسلین کا سردار ہوں اور ملائکہ مقربین سے بہتر ہوں میرے اوصیاء سیدالوصیین ہیں۔ میری ذریت(ع) تمام انبیاء و مرسلین کی ذریت سے بہتر ہے میری بیٹی فاطمہ(س) عالمین کی عورتوں کی سردار ہے میری ازواج مطہرات مومنین کی مائیں ہیں میری امت بہترین امت ہے کہ قیام کرتی ہے میں روز قیامت تمام انبیاء(ع) سے زیادہ پیروکار رکھتا ہوں گا میں حوض رکھتا ہوں جو نہایت وسیع و عریض اور تا حدِ نگاہ پھیلا ہوا ہے اور جس کے جام ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں اس حوض پر میرا خلیفہ وہ ہوگا جو اس دنیا میں بھی میرا خلیفہ ہے عرض کیا گیا کہ وہ کون ہے تو فرمایا وہ علی ابن ابی طالب(ع) ہے جو میرے بعد مسلمانوں کا امام ان کا امیرالمومنین و سردار ہے وہ اپنے دوستوں کو اس حوض سے سیراب کرے گا اور اپنے دشمنوں کو وہاں سے اس طرھ دور کردے گا جس طرح کوئی کسی بیگانے اونٹ کو اپنے پانی سے دور کردیتا ہے۔
پھر آپ(ع) نے فرمایا اس دنیا میں جوکوئی علی(ع) کو دوست رکھتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے وہ کل میرے حوضِ کوثر پر وارد ہوگا اور بہشت میں میرے ساتھ میرے درجے کے برابر ہوگا لیکن جو کوئی علی(ع) کو دشمن رکھتا ہے اور اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ روزِ قیامت نہ تو مجھے ہی دیکھ سکے گا اور نہ میں اسے دیکھوں گا وہ علیحدہ کھڑا کانپ رہا ہوگا اور اسے خاموشی والی سمت سے دوزخ میں کھینچ کر لے جایا جائے گا۔
۱۳ـ حضرت علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا جو کوئی کھانا تناول کرنے کے وقت اﷲ کا نام لے تو خدا اس بندے سے حق نعمت کا سوال نہیں پوچھے گا۔
۱۴ـ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا جو شخص کسی گرئی ہوئی روٹی یا کجھور یا کسی اور خوراک کو اٹھا کر کھالے ( احترام نعمت کی وجہ سے) تو وہ خوراک ابھی اس کے شکم سے باہر نہیں آئے گی مگر وہ بخشش دیا جائے گا۔
۱۵ـ جنابِ رسول خدا(ص) نے جنابِ علی(ع) سے فرمایا اے علی(ع) تو مسلمانوں کا امام ان کا امیرالمومنین(ع) اور اندھیری راتوں میں روشن چاند کی طرح ان کا قائد ہے تو تمام خلق پر میرے بعد حجتِ خدا ہے تو سیدِ اوصیاء اور وصی الانبیاء(ع) ہے اے علی(ع) جب مجھے آسمان ہفتم اور اس جگہ سے سدرة المنتہی اور وہاں سے حجاب ہائے قدس ( حجاب نور) تک لے جایا گیا تو خداوند عالمین نے اپنی مناجات سے میری عزت افزائی فرمائی۔ اور بہت سے پوشیدہ راز مجھ سے بیان فرمائے اور اسی دوران فرمایا اے محمد(ص) تو میں نے کہا ” لبیک و سعدیک“ تو ہی برکت والا اور بلند مرتبہ ہے تو خدا نے فرمایا جان لو کہ علی(ع) میرے اولیاء(ع) کا امام ہے اور پیشوا ہے اور جو میری اطاعت کرے اس کے لیے وہ ایک نور ہے اور وہی وہ کلمہ ہے جس کو میں نے متقین کے لیے لازم قرار دیا ہے جس نے اس کی اطاعت کی اس نےمیری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی تم یہ خوشخبری علی(ع) کو پہنچا دو۔
جب حضرت محمد(ص) زمین پر تشریف لائے تو انہوں نے حضرت علی(ع) کو وہ خوش خبری دی جو خدا نے ان کے حق میں فرمائی تھی، جنابِ امیر(ع) نے کہا یا رسول اﷲ(ص) کیا میری عزت اس درجے پر پہنچی ہوئی ہے کہ ایسے مقام بلند پر میرا ذکر ہوا؟ حضرت(ص) نے فرمایا ہاں اے علی(ع) اپنے پروردگار کا شکر ادا کرو۔ یہ سن کر جنابِ امیر(ع) پروردگار کی اس نعمت کے لیے سجدہ شکر میں گر گئے آخر آںحضرت(ص) نے فرمایا اے علی(ع) سر اٹھاؤ کہ حق تعالی تم پر اپنے ملائکہ سے فخر و مباہات کرتا ہے۔
۱۶ـ طاؤس یمانی سے روایت ہے کہ امام زین العابدین(ع) دعا کے وقت فرماتے
اے خدا ۔ اے میرے معبود مجھے تیری عزت و جلال کی قسم اگر میں تیری ظاہر کردہ اول فطرت سے لےکر تیری قبولیت کے دوام تک عبادت کروں اور ہر جھپکنے والی آنکھ پر موجود بالوں کی تعداد کے برابر تیری مخلوق کے ادا کردہ شکر ( تیری خاطر) اور حمد کے برابر تیرا شکر ادا کروں تب بھی میں قاصر ہوں کہ تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کرسکوں جو ابھی مجھ پر پوشیدہ ہیں اگر میں تمام زمین میں دفن لوہے کے خزائن کو اپنے دانتوں سے کھینچ کر باہر لے آؤں اور اپنے اشکوں سے تمام روئے ارض کو سیراب کردوں اور تیرے خوف کی وجہ سے جاری شدہ میرے اشکوں سے تمام زمین و آسمان کے سمندر خون سے پڑ اور آلودہ ہوجائیں تو تب بھی میں تیرا حق واجب ادا نہیں کرسکتا اور اگر اس کے بعد بھی اگر تو مجھے عذاب دینا چاہے تو تمام مخلوق کا عذاب مجھے دے سکتا ہے اور جہنم میں میرے جسم کو اتنا بڑا کرسکتا ہے کہ جہنم کے تمام طبقات میرے جسم کے حجم سے پڑ ہوجائیں اور کسی دوسرے کے لیے بڑا جگہ نہ رہے اور جہنم کا ایندھن صرف میرا بدن ہی قرار پائے تو تب بھی یہ تیرے عدل کے تقاضے کے مطابق کم ہوگا جب کہ میں اس سے زیادہ کا سزاوار ہوں گا۔

