بہلول تائب کا قصہ
بہلول تائب کا قصہ
۳ـ عبدالرحمن بن غنم دوسی کہتے ہیں کہ ایک دن معاذ بن جبل روتے ہوئے رسول اﷲ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کو جواب دیا اور پوچھا کہ کس وجہ سے روے ہو معاذ عرض کرنےلگے میں نے ایک جوان جو نہایت خوبصورت ہے کو دیکھا جو دروازے پر کھڑا اپنی جوانی پر رو رہا ہے جیسے وہ ماں روتی ہے جس کا جوان بیٹا مرگیا ہو وہ آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے معاذ اس جوان کو میرے پاس لے آؤ۔ وہ اس کو لے کر داخل ہوئے اس نے سلام کیا آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا
اور پھر فرمایا اے جوان تو کس وجہ سے روتا ہے اس نے کہا میں ایسے گناہوں کا مرتکب ہوا ہوں کہ اگر خدا مجھے ان سے چند ایک پر بھی سزا دے تو یقینا مجھے جہنم میں ڈال دے گا اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ عنقریب خدا اس پر میرا مواخذہ کرے گا اور مجھے ہرگز معاف نہیں کرے گا رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا کسی کو خدا کا شریک قرار دیا ہے اس نے کہا میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دوں آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا کسی ایسے شخص کو قتل کیا ہے جس کا قتل خدا نے حرام قرار دیا ہے کہا نہیں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تیرے گناہ اس زمین پر گڑے بلند پہاڑوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں خدا معاف کردے گا اس جوان نےکہا میرے گناہ ان بلند پہاڑوں سے بھی بڑے ہیں رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تیرے گناہ سات زمینوں، دریاؤں ریگستانوں اور درختوں اور جو کچھ ان میں مخلوقات ہیں کے برابر ہوں تو بھی خدا معاف کردے گا، اس نے کہا میرے گناہ ان تمام چیزوں سے بڑے ہیں رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر سات آسمانوں ستاروں اور عرش و کرسی کے برابر بھی تیرے گناہ ہوں تو تو خدا وہ بھی معاف کردے گا اس نےکہا میرے گناہ اس سے بھی بڑے ہیں رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غصے کی نظر سے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا اے جوان وائے ہو تم پر تیرے گناہ بڑے ہیں یا تیرا پروردگار وہ جوان سجدے میں گر گیا اور کہنے لگا میرا مالک اس بات سے منزہ و مبرا ہے کہ کوئی چیز اس سے بڑی ہو یقینا میرا پروردگار ہی بڑا ہے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بڑے گناہوں کو خدا کے علاوہ کوئی معاف کرسکتا ہے؟ جوان نےکہا نہیں خدا کی قسم یا رسول اﷲ(ص)، رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا واے ہو تجھ پر اے جوان کیا تو کوئی ایک گناہ اپنے گناہوں سے مجھے بتا نہیں سکتا؟ کہا کیوں نہیں میں عرض کرتا ہوں، میں سات سال سے قبروں کو اکھاڑتا اور مردوں کو باہر نکال کے ان کےکفن اتار لیتا تھا ایک مرتبہ انصار کی ایک لڑکی نے وفات پائی اور جب وہ اسے دفن کرچکے اور واپس چلے گئے اور رات ہوگئی تو میں نے اس کی قبر کھو دی اس کو باہر نکالا اس کا کفن اتارا اور اسے برہنہ قبر کے کنارے چھوڑدیا جب واپس لوٹا تو شیطان نے مجھے وسوسہ ڈالا اور اس لڑکی کو میرے تخیلات میں مزین کیا اور کہا کہ کیا تم اس کے سفید جسم کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح حسین ہے میں واپس ہوا۔ اس کے ساتھ زنا کیا اور اسے وہیں چھوڑ کر چلا تو اچانک پیچھے سے یہ آواز سنائی دی” اے جوان وائے ہو تجھ پر قیامت کے دن جزا دینے والے کی طرف سے ان مردوں کے لشکر کے درمیان تو مجھے برہنہ چھوڑے جارہا ہے اور مجھے قبر سے باہر نکال کر میرا کفن لیے جارہا ہے اور مجھے اس حالت میں چھوڑے جارہا ہے کہ قیامت کے دن میں جنابت کے ساتھ اٹھوں گی وائے ہو تیری جوانی پر جہنم کی آگ سے“ یا رسول اﷲ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ میں کبھی بھی جنت کی بو نہیں سونگھوں گا یا رسول اﷲ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے بارے میں آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کیا رائے ہے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بد کردار مجھ سے دور ہو جا میں ڈرتا ہوں کہیں تیری آگ میں میں نہ جل جاؤں کیونکہ تو جہنم کی آگ کے بہت قریب ہوچکا ہے کہ ابھی گرتا ہے آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرماتے جا تے اور ہاتھ سے دور ہونے کا اشارہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کےسامنے سے دور ہوگیا پھر اس نےکچھ توشہ لیا اور مدینہ کے پہاڑ کی طرف چلا گیا جہاں وہ عبادت کرتا تھا اور ٹاٹپ ہنے رہتا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ باندھے رہتا تھا اور کہتا تھا اے مالک اے میرے رب یہ تیرا بندہ بہلول ہے جس نے تیرے سامنے اپنے ہاتھ گردن سے باندھ رکھے ہیں۔ اے میرے رب تو مجھے پہچانتا ہے اور میرے گناہوں کو جانتا ہے اے میرے مالک میں پشیمان ہوں اور توبہ کرنے کے لیے تیرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا انہوں نے مجھے اپنے دروازے سے دور کر دیا ہے۔ اورمیرے خوف کو بڑھا دیا ہے میں تجھے تیرے انام اورجلال و عظمت و سلطنت کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اپنی رحمت سے ناامید نہ کر اےمیرے رب میری دعا کو باطل قرار نہ دے اور مجھے اپنی شفقت سے مایوس نہ کر یہاں تک کہ چالیس شب و روز وہ یہی دعا کرتا رہا یہان تک کہ روتا رہا دررندے اور وحشی جانور بھی اس کے گریہ میں شامل ہوگئے جب چالیس شب و روز پورے ہوئے تو اس نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور کہنے لگا خدایا میرے معاملے میں تو نے کیا حکم صادر فرمایا ہے اگر میری دعا قبول کر لی ہے اور میری خطا معاف کردی ہے توپھر اپنے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی نازل فرما کہ مجھے معلوم ہو اور اگر میری دعا قبول نہیں ہوئی اورمجھے معاف نہیں کرتا اور مجھے عذاب کرنا چاہتا ہے تو ایک آگ بھیج جو مجھے جلادے یا دنیا میں کسی عذاب میں مجھے مبتلا کردے جو روز قیامت کی رسوائی سے مجھے بچالے پس خدا نے یہ آیت نازل فرمائی ” اور وہ لوگ جو کوئی برا فعل کرتے ہیں یعنی زنا یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں زنا سے بڑے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں جو کہ قبر کھود کر کفن چرانا ہے اور خدا کو یاد کرتے ہیں پس اپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں گناہوں کو اﷲ کے علاوہ کون بخش سکتا ہے۔“ (آل عمران، ۱۳۵)
پھر خدا نے فرمایا ۔ اے میرےحبیب(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا یہ بندہ تیرے پاس آیا تھا اور تونے اس کو اپنے دروازے سے لوٹا دیا۔ اگر یہ تیرے پاس نہ آتا تو کہاں جاتا۔ تب آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ اے خداوندا جو کچھ میں گزرا اس کا مجھے علم ہے خداوندا تو مجھے اس کی بازپرس سے محفوظ رکھ۔ تیرے اس بندے نے جو عمل کیا ( قبر کھود کرکفن چرانا) اسکی مغفرت تیری ہی ذات سے وابسطہ ہے۔ اور بہشت میں جاری نہریں تیرے ہی حکم سے بطور انعام دی جاتی ہیں اور کیا خوب جزا ہے ان لوگوں کےلیے جو عملِ صالح کرتے ہیں لہذا جب آیت مذکورہ نازل ہوئی تو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوئے اور مسکراتے ہوئے باہر نکلے اور اپنے صحابہ سے کہا تم میں سے کون ہے جو مجھے اس جوان کی طرف راہنمائی کرے ایک شخص جس کا نام معاذ تھا کہنے لگا کہ یا رسول اﷲ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے خبر ملی ہے کہ وہ فلاں جگہ ہے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے یہاں تک کہ اس پہاڑ کے نزدیک پہنچے اور اس کی تلاش میں پہاڑ کے اوپر گئے پھر اس جوان کو وہاں دیکھا کہ دو پتھروں کے درمیان کھڑا ہے اور اس نے اپنے ہاتھوں کو گردن کے ساتھ باندھ رکھا ہے اور اس کا چہرہ سورج کی گرمی کی وجہ سے سیاہ ہوگیا ہے اس کی آنکھوں کی پلکیں رو رو کر جھڑ چکی ہیں اور اسکے باوجود کہہ رہا ہے اے میرے آقا تو نے مجھے کتنا اچھا خلق کیا میرا چہرہ خوبصورت بنایا کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میرے بارے میں تیرا کیا ارادہ ہے کیا تو مجھے آگ میں جلائے گا یا اپنی رحمت سے معاف کردے گا خدایا تو نے مجھ پر احسان کیا اور نعمت فراواں مجھے دی کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میرا انجام کیا ہے بہشت یا دوزخ خدا یا میرا گناہ آسمانوں اور زمین سے بڑا ہےکرسی وعرشِ عظیم سے بڑا ہے اے کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تو میرے گناہوں کو معاف کردے گا یا انکی وجہ سے روز قیامت مجھے رسوا وذلیل کرے گا۔ وہ اس طرح مغفرت کرتا اور روتا تھا اور اپنے سر پر خاک ڈالتا تھا درندے اس کے پاس جمع تھے پرندے اس کے سر کے اوپر صف بستہ تھے اور اس کے رونے کی وجہ سے وہ سب روتے تھے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے قریب گئے اور اس کے ہاتھ اس کی گردن سےکھولے اس کے سر سے خاک صاف کی اور ساتھ ساتھ فرماتے جاتے تھے اے بہلول تجھےبشارت ہوکہ تم جہنم سے خدا کے آزاد کردہ ہو پھر اپنے اصحاب سے فرمایا تم اپنے گناہوں کو تدارک اس طرح کیا کرو کہ جس طرح بہلول نے کیا ہے پھر جو کچھ خدا نے نازل کیا تھا اس کی تلاوت کی اور بہلول کو بہشت میں داخل ہونے کی بشارت دی۔
۴ـ امام صادق(ع) نے اپنے والد(ع) سے انہوں نے اپنے آباء(ع) سے نقل کیا کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنابِ علی ابن ابی طالب(ع) سے فرمایا اے علی(ع) تیری منزلت میرے ساتھ ایسی ہے جیسے بیتہ اﷲ کی آدم(ع) سے تھی جیسے سام(ع) کی نوح(ع) کے ساتھ تھی جس طرح اسحق(ع) کی منزلت ابراہیم(ع) کےساتھ اور ہارون(ع) کی منزلت موسی(ع) کے ساتھ تھی اور جیسی منزلتشمعون(ع) کی عیسی(ع) کے ساتھ تھی سواے اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے اے علی(ع) تم میرے وصی و خلیفہ ہو جو کوئی تمہاری وصایت و خلافت کا منکر ہوگا وہ مجھ نہیں ہے اور میں اس سے نہیں ہوں میں روز قیامت اس کا دشمن ہوں گا اے علی(ع) تم فضل میںمیری تمام امت سے افضل ہو اور اسلام میںسب سے پہلے ہو سب سے زیادہ حلیم سب سے زیادہ بہاردر اور سب سے زیادہ سخی ہو اے علی(ع) میرے بعد تم امام ہو امیر ہو صاحب امر، ہو اور سردار ہو، میرے وزیر ہو اور میری امت میں تیرے مثل کوئینہیںاے علی(ع) تم جنت اور دوزخ کے تقسیم کرنے والے ہو۔ تمہاری محبت نیک و فاجر کی پہچان کرواتی ہے۔ اچھوں اور بروں میں تمیز سکھاتی ہے۔نیک اور بد کی شناخت کرواتی ہے اسی سے مومن اور کافر جدا ہوتے ہیں۔ ( پہچانے جاتے ہیں)

