اتحاد و یکجہتی: اصول و اقدار
اتحاد و یکجہتی: اصول و اقدار
مذکور ہ بالا بنیادوں کی روشنی میں نیز اتحاد کے علمبردار علما اور اس تحریک کی طرف دعوت دینے والوں کے اعلان کردہ پیغام کی روشنی میں ہم سارے لوگوں کو درج ذیل اقدار اور اصولوں کی طرف دعوت دیتے ہیں کیونکہ ہم ان اصولوں کو ان پالیسیوں کا بنیادی خاکہ سمجھتے ہیں جن کی رعایت اتحادِ امت کی جد و جہد کو مطلوبہ اہداف سے ہمکنار کرنے کے لئے ضروری اور مناسب ہے۔
پہلا اصول: مشترکہ امور میں تعاون
زندگی کے مختلف میدانوں میں اشترکِ عمل کے بے تحاشامواقع پائے جاتےہیں۔ اعتقادی اصولوں یا تشریعی میدانوں میں اسلامی مذاہب کے درمیان بہت سے مشترکہ امور موجود ہیں۔اخلاقی میدانوں نیز اسلامی علوم و نظریات یہاں تک کہ تاریخی اور ثقافتی امور میں اسلامی مذاہب تقریبا مکمل طور پر توافق اور ہماہنگی رکھتے ہیں۔ قدرتی بات ہے کہ یہ یکجہتی مذکورہ میدانوں کے بنیادی قواعد اور اصولوں میں پائی جاتی ہے اگرچہ بعض خاص امور کی تشخیص میں بعض اختلافات مو جود ہیں۔
رہ گئی بات عملی پالیسیوں کی تو سارے مسلمان قانونی اربابِ حل و عقد کے اجتماعی فیصلوں کی یگانگت،باہمی تعاون اور نظم و ضبط کے ذریعے ان پالیسیوں میں یکسوئی پیدا کرنے پر متحد ہیں۔
یقینا فکری مشترکات میں باہمی تعاون سے مراد یہ ہے کہ اس فکر کو ذہنوں میں راسخ کرنے اور ان مشترکات کا خاتمہ کرنے والے تمام عوامل سے دوری اختیار کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے نیز اتحاد امت کی راہ میں اس تعاون کو گہرا کیا جا ئے ۔انفرادی ،اجتماعی اور ثقافتی طرزِ عمل سے مربوط امور میں باہمی تعاون واضح ہے جبکہ زندگی کے دیگر جوانب مثلا اسلامی شریعت کے نفاذ، شعائر الہی مثلا نماز جمعہ اور حج و غیرہ کی تعظیم اور امت ِمسلمہ کی خصوصیات مثلا ًاتحاد و غیرہ کو عملی شکل دینا و غیرہ اسی کے تحت داخل ہیں۔
یہاں ہم اشارہ کریں گے کہ اسلامی اتحاد کی خاطر زبردست کوشش کی ضرورت ہے تا کہ مشترکہ جہات کی پہچان ہو اور عوالم کو ان سے آگاہ کیا جائے۔گا ہے اس بات کی بھی ضرورت پیش آتی ہے کہ برگزیدہ لوگوں کو بھی ان کی خبر دی جائے۔ علاوہ ازیں اتحاد کے علمبرداروں کو چاہیے کہ ان مشترکہ جوانب کے دائرے کو وسیع کریں اور اس سلسلے میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مذاہب کے در میان نزاع اور اختلاف لفظی ہے حقیقی نہیں یا اختلاف کرنے والے فریقین کو ایک تیسرے راستے کی نشاندہی کی جائے جس میں ان کا اشتراک و اتفاق ہو۔
دوسرا اصول:اختلاف ایک قدرتی امر ہے
جب ہمارا یہ ایمان اور یقین ہے کہ اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے اور اجتہا د ایک فطری و طبیعی عمل ہے جس کا دروازہ بند کرنا کسی صورت ممکن نہیں نیز جب ہمارا ایمان ہے کہ اجتہادی نتائج میں اختلاف کے اسباب بجا اور فطری ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اجتہادی آراء اور فتاویٰ کے اختلاف کو تسلیم کرنا چاہئے۔
یادرہے کہ دینِ اسلام ہمیں آراء کے اختلاف سے نہیں رو کتا بلکہ عملی اختلاف،دین کے اندر گروہ بندی،افترق انگیز پارٹی بازی اور اس قسم کے اختلافات سے روکتا ہے جو مسلمانوں کی طاقت کو ختم کردے اور ہمیں آگے بڑھنے سے روک دے۔ یہ دینِ اسلام کی وہ حکمتِ عملی ہے جو عقل و منطق کے عین مطابق ہے۔
بنابریں دینِ اسلام کی ذمہ داری ہے کہ ہر عالم،طالب علم،مجتہد اور مقلّد مسلمان کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اختلافِ آراء کو تسلیم کرے نیز انہیں تشدد، دہشت گردی ،تخویف اور قتل و غیرہ کا راستہ اختیار کرنے سے روکے تاکہ ان کا اختلاف برادرانہ اور دوستانہ ہو۔
یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ قرآن و سنت نے بہت سے مقامات پر مومنوں کو صبر، مدارات اور فراخدلی کی دعوت دی ہے۔ ہم ان تعلیمات کو عصر ِحاضر کی زمینی حقیقتوں پر منطبق کر سکتے ہیں، چنانچہ امام صادق کے پاس ایک جماعت کا ذکر ہوا اور راوی نے کہا:ہم ان لوگوں سے بیزار ی کا اظہار کرتے ہیں۔یہ لوگ وہ بات نہیں کہتے جو ہم کہتے ہیں۔
تب امام نے فرمایا :ان لوگوں نے ہماری ولایت کو قبول کیا ہے۔تو کیا تم اس بنا پران سے بیزاری کا اظہار کرتے ہو کہ جو تم کہتے ہو وہ انہیں قبول نہیں؟میں نے کہا :جی ہاں۔
امام نے فرمایا :ہمارے پاس بھی وہ چیزیں ہیں جو تمھارے پاس نہیں۔ پس کیا ہمیں چاہئے کہ تم سے بیزاری اختیار کریں؟ آگے چل کر فرمایا:ان سے پیار محبت کرو۔ان سے بیزاری کا اظہار نہ کرو۔بعض مسلمانوں کا (ایمان میں)ایک حصہ ہے اور بعض کے دو حصے ہیں ۔پس یہ درست نہیں کہ جو شخص ایمان کے دو حصوں کا حامل ہے اس کی حالت کو ہم اس شخص پر زبردستی مسلط کریں جو ایمان کے ایک حصے کا حامل ہو۔ (۴۶)
اسلامی مذاہب کے پیشوا آپس میں جو رو یّہ رکھتے تھے وہ اسلامی اخوت و یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔اگر ہم اس سلسلے میں مذکور تاریخی واقعات کا ذکر کرنے بیٹھ جائیں تو گفتگو طویل ہوجائے گی۔(۴۷)
ان پیشواؤں نے دوسروں پر اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا بلکہ وہ تو اس بات کو بھی جائزنہیں سمجھتے کہ اگر ان کی رائے کے بر خلاف کوئی دلیل کسی کے پاس ہو تو ان کی رائے پر عمل کرے۔
یہاں ہم ان اقوال کے ذکر ِمکرّر پر اکتفا کریں گے جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں:
امام مالک بن انس سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: بے شک میں تو بس ایک بشر ہوں۔ میں کبھی درست کہتا ہوں اور کبھی اشتباہ کرتاہوں۔ پس میری باتوں کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھو۔
امام شافعی فرماتے ہیں: اگر میری رائے کے برخلاف کوئی صحیح حدیث مل جائے تو میری بات کو دیوارپر دے مارو۔
امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں: یہ میری رائے اور بہترین چیز ہے جو میں نے دیکھی ہے۔ پس جو شخص اس سے بہتر رائے لے آئے میں اس کی رائے قبول کروں گا۔ جو شخص میرے قول کی دلیل سے آگاہ نہ ہو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ میرے قول کی بنیاد پر فتوی دے۔
امام احمد بن حنبلفرماتے ہیں: لوگوں کی علمی بے بضاعتی کی ایک دلیل یہ ہے کہ وہ دوسروں کی تقلید کرے۔
یہ بالکل وہی حقیقت ہے جس کی تائید ائمۂ مذاہب کے علاوہ دیگر علماء اور دانشوروں نے بھی کی ہے۔
تیسرا اصول: دوسروں پر کفر، بدعت اور فسق کا الزام لگانے سے اجتناب
مسلمانوں کی تاریخ تکفیر کے جس عذاب میں پھنس گئی ہے اسے ہم سیہ بختی کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں۔ اگر چہ نصوصِ شریفہ میں ایک طرف سے مسلمان کی علامات واضح طور پر مذکور ہیں اور دوسری طرف سے مسلمانوں کو کسی مسلمان کی تکفیر سے منع کیا گیا ہے۔ (۴۸)
اس کے باجود ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر یہ خطرناک بیماری سرایت کرگئی ہے کہ وہ ہر قسم کی فکری مخالفت یا جدید عقلی دریافت کو ردّ کرتے ہیں یہاں تک کہ ہم کمال تعجب کے ساتھ مشاہدہ کرتے ہیں کہ بعض لوگ کتاب لکھتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس کتاب پر ذرہ برابر بھی اعتراض کرے تو وہ کفر کا مرتکب ہوگا۔ (۴۹)
یہ ایک حیرتناک امر ہے۔
اسی بنا پر ہم مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ "ایمان و کفر" کی بجائے"درست و غلط" کی بات کریں اور اس سلسلے میں اپنے آپ کو قرآنی روش سے آراستہ کریں۔ قرآن سب کو دوسروں کے ساتھ یہاں تک کہ حقیقت کے متلاشی کافروں کے ساتھ بھی بےلاگ اور غیر جانبدارانہ گفتگو کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن نے پیغمبراکرم ﷺکو اس اندازِ گفتگو کی تعلیم دی ہے:
وَ إِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلى هُدىً أَوْ فىِ ضَلالٍ مُّبِينٍ (۵۰)
چوتھا اصول: فکر و نظر اور اجتہادکے نتائج پر گرفت سے اجتناب
عقلی اور منطقی روش یہ ہے کہ کسی انسان کے افکار و نظریات کی بنیاد پر اس سے بازخواست کی جائے اور اس کے نظریات و افکار میں غور و فکر کی روشنی میں آرام کے ساتھ اس سے گفتگو کی جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم ایسی گفتگو کے خوگر ہوچکے ہیں جو فکر و نظر کے نتائج و آثار پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں تکفیر اور بدعت کا الزام لگانے کی نوبت آتی ہے جبکہ ایک دانشور اس قسم کے نتائج یا عواقب کو قبول نہیں کرتا۔ بطور نمونہ جو لوگ "حسن و قبحِ عقلی" کے معتقد ہیں ان میں سے بعض کا عقیدہ ہے کہ جو کوئی ان دونوں (حسن عقلی، قبح عقلی) کو نہیں مانتا وہ پیغمبرﷺ کی سچائی پر ایمان کا راستہ مسدود کرتا ہے۔ اس بات کے اثبات کے لئے وہ یوں دلیل دیتے ہیں:
وہ دلیل جو معجزہ دکھانے والے پیغمبرﷺ کی دروغگوئی کے احتمال کو برطرف کرتی ہے وہ حکمِ عقل ہے ۔ (عقل کہتی ہے کہ جو معجزہ لائے وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ مترجم) اس دلیل کی رو سے یہ بات عقلاً محال ہے کہ کوئی جھوٹا آدمی معجزہ دکھا سکے۔ پس اگر ہم یہ فرض کریں کہ عقل کسی چیز کو قبیح قرار نہیں دیتی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے نزدیک پیغمبر ﷺپر ایمان کا راستہ مسدود ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا مسئلہ بھی اسی نوعیت کا ہے کیونکہ جو چیز ہمیں اطاعتِ خداوندی پر آمادہ کرتی ہے وہ عقل ہی ہے اور بس۔
اسی بنا پر ہم کچھ دیگر لوگوں کو دیکھتے ہیں جو توسل، شفاعت اور غیرِ خدا کی قسم کھانے کا اعتقاد رکھنے والوں کو مشرک قرار دیتے ہیں۔
وہ شرک کو ان اعتقادات کا لازمہ قرار دیتےہیں۔ اس قسم کی اور بھی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
دوستانہ علمی اور تحقیقی گفتگو پسندیدہ امر ہے۔ ہم اعتقادی و نظریاتی گفتگو کا دروازہ بند کرنے کے ہرگز طرفدار نہیں ہیں۔ عقل و منطق کا تقاضا ہے کہ اس گفتگوکا دروازہ کھلا رہے۔ہم سب لوگوں کو منطقی ڈائیلاگ اور گفتگو کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم دوسروں پر ان چیزوں کا غلط الزام نہیں لگاتے جنہیں وہ خود نہیں مانتے۔ جب تک کوئی فرد اپنے نقطۂ نظر اور دیگر نقطہ ہائے نظر کے درمیان تلازم کا معتقد نہ ہو تب تک ہم اسے بے قصور سمجھیں گے۔ یوں ہم افتراق انگیز تہمتوں کا وسیع دروازہ بند کرسکیں گے۔
پانچواں اصول: احترام آمیز گفتگو
ہمیں معلوم ہے کہ گفتگو دوسروں تک افکار و نظریات منتقل کرنے کی درست روش ہے۔ قرآن کریم نے پسندیدہ گفتگو اور تفاہم کے لئے ایک خوبصورت روش دی ہے نیز ایک بے مثال انداز میں گفتگو کی تمہیدات ، شرائط، اہداف اور انداز بیان کا جائزہ لیا ہے۔ قرآن نے اس جائزے میں دوسروں کے نظریات و افکار کو سننے، ان میں سے بہترین نقطۂ نظر پر عمل کرکنے اور دوسروں کی حیثیت کو مخدوش نہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس آیت ِکریمہ:
قُل لَّا تُسْئَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَ لا نُسْئَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۵۱)
میں پیغمبر اکرمﷺ کو غیر مسلموں کے درمیان گفتگو کے آداب بتائے گئے ہیں۔ یہ آیت اس لئے اتری تاکہ غیر مسلموں کے ساتھ گفتگو کے وقت ان کی پرانی عداوتوں اور غصے کی آگ کو ہوا نہ دی جائے، ایک دوسرے پر الزامات نہ لگائے جائیں اور گفتگو کے منطقی ہونے کی طرف توجہ مبذول کی جائے۔
دوسرے فریق کے احترام کی خاطر آیت میں الفاظ کے استعمال کی کیفیت پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ چنانچہ آیت میں یہ نہیں کہا گیا:
وَ لا نُسْئَلُ عَمَّا تُجْرمُون(۵۲)
حالانکہ لفظی سیاق اسی کے ساتھ متناسب ہے۔
یہ تو تھے غیر مسلموں کے ساتھ گفتگو کے آداب۔ پھر ہم مسلمانوں کے درمیان گفتگو کیسی ہونی چاہئے؟
ہماری تو بنیادیں مشترک ہیں۔ پس گفتگو کے وقت ہمیں ان مشترکہ بنیادوں پر بات کرنی چائیے جو ہمیں قریب کریں۔ ایک حدیث میں مذکور ہے: انسان کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر خیال کرے۔ (۵۳)
چھٹا اصول : دوسروں کے مقدسات کی بے احترامی سے احتراز
در اصل یہ موضوع سابق الذکر اصول سے مربوط ہے بلکہ حقیقت میں اس پر تقدم رکھتا ہے کیونکہ یہ طرفین کے درمیان دوستانہ فضا کوجنم دیتا ہے اور گفتگو کو عمدہ توازن بخشتا ہے۔ قرآن نے دوسروں کے مقدسات کی بے احترامی سےمنع کیا ہے اور فرمایا ہے:
وَ لَا تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللَّهَ عَدْواً بِغَيرْ عِلْمٍ كَذَالِكَ زَيَّنَّا لِكلِّأُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبهِّم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (۵۴)
اللہ تعالیٰ مومنوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار میں اس اعلی انسانی خصلت کو اپنائیں۔ اس سے قبل دعوتِ حق کے معاملے میں ان کی ذمہ داریوں کو واضح فرماتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ ان کی دعوت میں جبر کا پہلو نہیں ہونا چاہئے اور انہیں چاہئے کہ اپنا نظریہ دوسروں پر زبردستی مسلط نہ کریں اگرچہ وہ مشرک ہوں۔
وَ لَوْ شَاءَ اللّهُ مَا اَشْرَكُواْ وَ مَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظاً وَ مَا اَنْتَ عَلَيهْم بِوَكِيلٍ(۵۵)
گالی گلوچ اور لعن طعن کے بارے میں اسلامی نصوص کا مدعا واضح ہے۔ اگر مشرکوں کے ساتھ مذکورہ سلوک کاحکم ہے تو ان دو مسلمان بھائیوں کے بارے میں کس قسم کا سلوک مطلوب ہوگا جو ایک ہی ہدف کی جانب گامزن ہیں اور جنہیں ایک دوسرے کی آرزؤوں اور دکھ درد کا احساس ہے؟
خلاصہ یہ کہ اہانت کی کوئی گنجائش نہیں، خاص کر ان امور میں جو دوسرے فریق کے عقائد سے مربوط ہوں اور اسی لئے وہ انہیں مقدس سمجھتا ہو۔
ساتواں اصول: مذہب کے انتخاب کی آزادی
اس آزادی کی بنیاد یہ ہے کہ ہم اسلامی مذاہب کو ان اجتہادات کا نتیجہ سمجھتے ہیں جن کی اسلام نے اجازت دی ہے۔ بنابریں ہمیں چاہئے کہ ان مذاہب کو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے مجاز راستے سمجھیں۔جب ان مذاہب میں اختلاف ہوجائے تو قدرتی بات ہے کہ ہر مسلمان کو ان معاملے میں تحقیق سے کام لینا چاہئے نیز ان معیاروں اور دلائل کی بنیاد پرجن پر اس کا ایمان ہواور جن کی روشنی میں یہ واضح ہو کہ وہ خدا کے ہاں بری الذمہ ہے نیز اس نے اپنی امانت اور اپنے عہد کو نبھایا ہے، بہترین مذہب کا انتخاب کرنا چاہیے۔
اس صورت میں اس کے اس حُسنِ انتخاب پر کوئی اس کی ملامت نہیں کرسکتا اگر چہ وہ خود اس انتخاب کو تسلیم نہ کرے۔ بنابریں کسی شخص کو کسی مذہب کے انتخاب پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ انتخاب ایمانی عقائد سے مربوط ہے۔ یہ وہ امر ہے جو دلیل و برہان کے علاوہ کسی چیز سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
ہم یہاں اس بات پر زور دیں گے کہ ہر مذہب کو اپنے نظریات کھلم کھلا بیان کرنے کا حق حاصل ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ دوسروں پر کوئی ظلم و ستم نہ کرے، دوسروں کے دلوں پر خوف طاری نہ کرے اور دیگر مذاہب پر کیچڑ نہ اچھالے۔ ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ عقائد، فقہ یا تاریخ کے بارے میں منطقی ڈائیلاگ کا راستہ بند کیا جائے ۔البتہ ہم ان ناشائستہ اور قبیح کوششوں کے مخالف ہیں جن کا مقصد لوگوں کو ناتوان بنانا، ان سے غلط فائدہ اٹھانا، بے نتیجہ مجادلات میں الجھنا اور دوسروں پر اپنے نظریات کو جبراً مسلط کرنا و غیرہ ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ ہماری طویل تاریخ میں مذاہب نے ایک دوسرے پر جو ظلم و ستم اور تجاوز روا رکھاہے وہ معقول گفتگو اور تفاہم کے اصولوں کی عدم رعایت اور اس حقیقت کو فراموش کرنے کا نتیجہ ہے کہ تمام مذاہب اسلامی نصوص کے بارے میں اپنی صوابدید کے مطابق، اسلامی تعلیمات کی سربلندی کے لئے کوشاں ہیں۔
اتحادِ امّت میں علماء اور دانشمندوں کا کردار
یقینا اتحاد کی جد وجہد کی زیادہ ذمہ داری اور فکر عالموں اور دانشوروں کے کندھوں پر عائد ہوتی ہیں کیونکہ وہ ایک طرف سے انبیاء کے وارث، اس دعوت کے علمبردار اور آئندہ نسلوں کے معمار ہیں جبکہ دوسری طرف سے وہ اتحا د کی بنیادوں کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ ہیں نیز مسلمانوں کی صفوں کو یکجا کرنے اور امت کی خصوصیات اور صلاحیتوں کو عملی شکل دینے میں زیادہ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اگر ہم علماء اور دانشوروں کے مطلوبہ کردار اور ان کی ذمہ داریوں کا ایک مختصر خاکہ پیش کرنا چاہیں تو وہ کچھ یوں ہے:
۱۔ علماء اور دانشوروں کو اس جد و جہدکی بنیادوں اور اس کی قدر و قیمت کے بارے میں عمیق فکر و نظر کا حامل ہونا چاہیے، اس فکر کی جڑوں کو اپنی من کی گہرائیوں میں راسخ کرنا چاہئے نیز اس فکر کو اپنی بحثوں ،تحقیقی کاموں اور تحریروں کی شکل میں منظر عام پر لانا چاہیے بلکہ انہیں چاہیے کہ اپنی فکری اور فقہی استنباطات میں اتحادِ امت کے موضوع کوسنجیدہ لیں اور اسے ایک رہنما اصول اور اہم مصلحتِ مرسلہ کی حیثیت دیں کیونکہ کم اہمیت کے حامل احکام کے ساتھ تعارض کی صورت میں اصول فقہ میں مذکور قواعدِتزاحم کی روشنی میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔ اسی لئے ہم نے بعض بین الاقوامی کا نفرنسوں میں دانشوروں کو دعوت دی ہے کہ وہ فقہی میدان میں ہماہنگی اور یکجہتی پیدا کرنے کی جد و جہد کی پشت پناہی کریں نیز فقہی آراء و نظریات کو قریب لانے پر زور دیں۔
بہت سے مواقع پر بعض فقہی اختلافات میں غور و فکر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف لفظی اختلافات ہیں جو اختلافِ آراء یا اصطلاحات میں اختلاف کا نتیجہ ہیں ۔بعض اصولی مباحث مثلا استحسان، انسدادِ ذرائع اور گاہے قیاس و غیرہ میں بھی اختلاف کی یہی نوعیت ہے۔علم ِاصول کی بعض کتابوں مثلاً مرحوم علامہ سیدمحمد تقی حکیم اور مرحوم علامہ شیخ محمد رضا مظفر کی کتاب اصول الفقہ میں اس نقطۂ نظر کا مشاہدہ ہوتا ہے۔(اللہ تعالی نے راقم کو ان دونوں شخصیات کی شاگر دی کا شرف عطا کیا ہے۔)
یہاں بعض کتابوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے جو اختلافات کی خلیج کو عمیق بنا نے میں مصروف رہی ہیں۔یہ کتابیں اختلاف کو خیالی بال و پر لگاتی ہیں تا کہ قارئین کو عندیہ دیں کہ مشترکہ نقاط تک رسائی محال ہے نیز اختلاف کی بنیادیں تمام میدانوں میں اس قدر سخت ہوگئی ہیں کہ اب اتحاد کی کوشش کا تصور ہی غلط ہے۔
یہاں ہمارا قطعی عقیدہ ہے کہ یہ تحریریں حقیقت پر ظلم ڈھارہی ہیں اور جان بوجھ کر مآخذ، اسالیب ،معیاروں اور اہداف کی یگانگت اور یکجہتی کو طاق نسیاں کی نذر کررہی ہیں۔
2۔اتحاد و یکجہتی کی ثقافت کو عام لوگوں کے درمیان رائج کرنے اور امتِ مسلمہ کو بیدار کرنے کےلئے مربوط کوشش تا کہ مذہبی اختلاف کے باوجود ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے بارے میں حقیقی اخوت اور تعاون کے علاوہ کچھ نہ سوچے۔
بنابریں مذہبی سرگرمیوں اور مذاہب کی کثرت کے معاملے میں وسیع القلبی کا مظاہرہ ہونا چاہئے ۔مسلمانوں کو چاہیے کہ جذباتی عداوتوں اور تاریخی و موروثی نفرتوں کو جو بلاوجہ سنگین مصیبتوں کا موجب بنی ہیں پسِ پشت ڈال دیں کیونکہ شرعی احکام میں اختلاف ،تاریخی حوادث اور پالیسوں کی جا نچ پر کھ میں ناسازگاری اور معاشرتی و اجتماعی طریقہ ہائے کار میں جدائی اس وقت تک قابل توجیہ ہیں اور انہیں اجتہادی اختلاف کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے جب تک وہ اسلام کے بنیادی دائرے کے اندر رہیں۔البتہ اگر کوئی عمل تمام مجتہدین کی نظر میں دائرہ اسلام سے خارج ہو تو وہ بطریق اولی مردود شمار ہوگا۔
3۔تمام تقدیر ساز امور کے بارے میں یکساں اور مثالی موقف اختیار کرنے کے لئے مشترکہ جد و جہد ۔
ان تقدیر ساز امور میں سے بعض یہ ہیں:
الف۔شریعت اسلامیہ کا نفاذ۔
ب۔دینی جمہوریت کا نفاذ۔
ج۔امت ِمسلمہ کے وجود اور تشخص کو مٹانے کے لئے دشمنوں کی طرف سے ہونے والی سازشوں اوران دشمنوں کا مقابلہ۔
د۔امت مسلمہ کے اتحاد کی حفاظت نیز افتراق اور جدائی سے پرہیز۔
ہ۔ذاتی مفادات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینا۔
4۔اتحاد آفرین اداروں کا قیام
یہ ادارے درج ذیل سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں:
الف ۔مختلف تقابلی مطالعات جو اتحاد و وحدت کو فروغ دیں۔
ب۔ مشترکہ اجتماعی تفریح گاہوں کا قیام۔
ج۔ مختلف کاموں کے لئے ایسے کیمپوں کا انعقادجو اتحاد ؛آفرین ہوں۔
د۔ مسلمانوں کے مختلف علاقوں میں اتحاد آفرین انجمنوں اور تنظیموں کا قیام۔
ادھر اسلامی مراکز اور ان سے بڑھ کر اسلامی حکومتیں اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
;4یہ کا م درج ذیل طریقوں انجام پا سکتا ہے:؛
اتحاد امت کے لئے ہونے والی کوششوں کی حوصلہ افزائی ۔
اتحاد آفرین کانفرنسوں کا انعقاد۔
وحدت آفرین منصوبوں پر عملدر آمد۔
ذمہ دار وں اور با اختیار افراد کا با ہمی اعتماد۔
افتراق انگیز امور سے اجتناب۔۔
مذہبی روا داری اور برداشت کے کلچر کی ترویج۔
-----
46. ۔ وسائل الشیعہ/۱۶/۱۶۰۔
47. ۔اس بارے میں ملاحظہ ہو استاد محمد واعظ زادہ کی کتاب:دراسات و بحوث :۱/۵۴۵
48. اس کتاب میں مختلف کتب مثلا آلوسی کی جلاء العینین ،ص ۱۰۷، ابن جوزی کی تلبیس الابلیس نیز جدید کتب مثلا الامام الصادق و المذاہب الا ربعۃ ۱/۱۷۵ و غیرہ سے بہت سے نکات نقل کیے گئے ہیں۔
49. ۔ اس بارے میں صحاح اور دیگر کتبِ حدیث مثلا ابن اثیر کی جامع الاصول ،ج اول میں مذکور کتاب الایمان کی طرف رجوع کریں۔
50. ہماے پاس اس امر کے دلائل موجود ہیں لیکن ہم ان کا ذکر کرنا نہیں چاہتے۔
51. ۔ سبا/ ۲۴۔ در حقیقت ہم یا تم یا تو ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں ہیں۔
52. ۔ سبا/۲۵:کہدے: تم سے ہمارے جرم کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کے بارے میں ہم سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔
53. ۔ تمہارے جرائم کے بارے میں ہم سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔
54. ۔ جناب مسلم نے اس بات کو ابوہریرہ سے ایک طویل حدیث میں نقل کیا ہے۔
55. ۔ انعام/ ۱۰۸: اور تم انہیں گالی نہ دو جنہیں یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں و گرنہ وہ عداو ت کی بنا پر نادانی میں اللہ کو دشنام دیں گے۔ یوں ہم نے ہر قوم کی نظر میں ان کے عمل کومزین کیا ہے۔ پھر ان کی بازگشت اللہ کی طرف ہوگی ۔پس وہ انہیں ان کے عمل سے آگاہ کرے گا۔
56. ۔ انعام/ ۱۰۷: اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ شرک کا مرتکب نہ ہوتے۔ ہم نے تجھے ان کے اوپر نگہبان مقرر نہیں کیا اور نہ ہی تو ان کا ذمہ دار ہے

