رسول خدا اور امام جعفرصادق (علیہما السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد
-
- شائع
-
- مؤلف:
- فرانسوی دانشوروں کی ایک جماعت
- ذرائع:
- کتاب: مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق
امام جعفرصادق (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت
ماہ ربیع الاول کی سترہ تاریخ ۸۲ ھ ق ‘ امام زین العابدین کے گھر میں امام محمد باقر کے صلب مقدس سے مدینہ منورہ میں ایک فرزند ارجمند کی ولادت ہوئی جنکا نام نامی جعفر الصادق ہے ۔جس وقت یہ مولود متولد ہوئے تو دائی نے جو بچے کی پیدائش میں مدد کرنے کے لیے آئی تھی نے دیکھا کہ بچہ چھوٹا اور کمزور ہے اس نے خیال کیا کہ بچہ بچ نہیں سکے گا باوجودیکہ اسے بچے کے زندہ بچے جانے کے بارے میں تردد تھا اس نے اس خوشخبری کے عوض میں تحفہ حاصل کرنے کو فراموش نہ کیا اور بچے کو ماں کے پہلو میں لٹا کر اس کے والد سے اس خبر کے بدلے میں تحفہ وصول کرنے کیلئے کمرے سے باہر چلی گئی ۔
اگر یہ نو مولود لڑکی ہوتا تو دائی ہر گز اس کے والد کو خوشخبری نہ سناتی اور نہ ہی تحفہ طلب کرتی کیونکہ اسے علم تھا کہ کوئی عرب باپ بیٹی کی پیدائش پر تحفہ نہیں دیتا ۔
لیکن ہر باپ اگرچہ وہ کتنا ہی مفلس کیوں نہ ہو بیٹے کی پیدائش پر دائی کو تحفہ ضرور دیتا تھا اور ہجرت کے تراسی ( ۸۳) سال بعد بھی عربوں نے دور جاہلیت کے اس رواج کو ترک نہیں کیا تھا وہ بیٹی کی پیدائش پر خوش نہیں ہوتے تھے جبکہ بیٹے کی پیدائش پر خوش ہوتے تھے ۔
دائی نے نو مولود کے والد کو تلاش بسیار کے باوجود گھر میں نہ پایا ۔ کیونکہ پیدائش کے موقع پر امام محمد باقر گھر میں نہیں تھے پھر دائی کو کسی نے بتایا کہ بچے کے دادا گھر میں موجود ہیں اور وہ انہیں مل سکتی ہے لہذا وہ دائی امام زین العابدین سے اجازت لے کر ان کے قریب گئی اور کہا خداوند تعالی نے آپ کو ایک پوتا عطا کیا ہے زین العابدین نے فرمایا امید ہے کہ اس کے قدم اس گھر کیلئے برکت کا باعث ہوں گے اور اس کے بعد پوچھا کہ یہ خوشخبری اس کے باپ کو دی ہے ؟
دائی نے کہا وہ گھر پر نہیں ہیں ورنہ یہ خوش خبری ان ہی کو دیتی زین العابدین نے فرمایا دل چاہتا ہے اپنے پوتے کو دیکھ لوں لیکن میں نہیں چاہتا کہ اسے اس کی ماں کے کمرے سے باہر لاؤں کیونکہ باہر موسم قدرے ٹھنڈا ہے اور زکام لگنے کا اندیشہ ہے ۔
اس وقت امام زین العابدین نے دائی سے پوچھا کیا میرا پوتا خوبصورت ہے ؟
دائی میں یہ کہنے کی ہمت نہ ہوئی کہ ان کا پوتا کمزور اور ناتواں ہے اس نے کہا اس کی نیلی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ۔
زین العابدین نے فرمایا پس اس طرح تو اس کی آنکھیں میری ماں رحمة اللہ علیھا کی آنکھوں کی مانند ہیں یزد گرد سوم کی صاحبزادی شہر بانو جو امام زین العابدین کی والدہ تھیں ان کی آنکھیں نیلی تھیں ۔ اس طرح جعفر صادق نے مندل کے قانون کے مطابق نیلی آنکھیں اپنی دادی سے ورثہ میں حاصل کیں ۔
ایک مشہور روایت کے مطابق یزد گرد سوم کی دوسری بیٹی کیہان بانو جو اپنی بہن کے ساتھ اسیر کرکے مدائن سے مدینہ لائی گئیں تھیں کی آنکھیں بھی نیلی تھیں اس طرح امام جعفر صادق نے دو ایرانی شہزادیوں سے نیلی آنکھیں ورثہ میں پائی تھیں ۔ کیونکہ کیہان بانو ان کی نانی تھیں ۔ امام علی ابن ابی طالب نے جو مدینہ میں ایرانی حکومت کے خاندان کے قیدیوں کے بہی خواہ تھے شہربانوکو اپنے فرزند حسین کے عقد میں دیا اور کیہان بانو کی حضرت ابوبکر کے بیٹے محمد بن ابو بکر کے ساتھ شادی کی کیونکہ جناب امیر حضرت محمد بن ابوبکر کو اپنے بیٹوں کی مانند چاہتے تھے اور مسند نشیں ہونے کے بعد محمد بن ابوبکر کا رتبہ اتنا بلند کیا کہ انہیں مصر کا گورنر مقرر فرمایا جو بعد میں معاویہ کے حکم پر اسی ملک میں قتل ہوئے ۔
محمد بن ابوبکر اور کیہان بانو کے ہاں ایک بیٹا قاسم پیدا ہوا اور قاسم کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ام فروہ تھا ان کا نکاح محمد باقر کے ساتھ ہوا ۔ اس طرح مان کی طرف سے بھی امام جعفر صادق کا رستہ نیلی آنکھوں والی ایک ایرانی شہزادی سے جا ملتا ہے ابھی تک مہاجرین مکہ میں نو مولودی کو دودھ پلانے کیلئے اجرت پر رکھنے کا رواج موجود تھا جعفر صادق کی پیدائش کے وقت ہجرت کو تراسی ( ۸۳) سال ہو گئے تھے اور اب مہاجرین مکہ کو مہاجرین کے نام سے نہیں پکارا جاتا تھا اور اسی طرح مدینہ کے قدیم باشندوں کو انصار کے نام سے نہ پکارا جاتا تھا ۔
لیکن دوسرے مہاجر خاندانوں کی طرح امام زین العابدین کے خاندان میں بھی نو مولود کو دائی کے سپرد کرنے کا رواج ابھی تک باقی تھا جعفر صادق کی ولادت پر ان کے والد گرامی بے حد خوش ہوئے اور انہیں دودھ پلانے کیلئے ایک دائی کے بارے میں سوچنے لگے لیکن ام فروہ نے کہا میں اپنے بیٹے کو خود دودھ پلاؤں گی ۔
شاید نومولود کی کمزوری اور ناتوانی کو دیکھ کر ماں کو ایسا خیال آیا ہو اور پریشان ہو گئی ہو کیونکہ دائی جتنی بھی رحمد ل ہو ماں کی طرح نگہداشت نہیں کر سکتی ۔ جعفر صادق کے بچپن کے بارے میں شیعوں کے ہاں کئی روایات پائی جاتی ہیں ان میں سے کچھ روایات بغیر راوی کے مشہور ہیں اور کچھ روایات کے راوی موجود ہیں ۔
بغیر راوی کے روایات میں آیا ہے کہ جعفر صادق ختنہ شدہ اور دانتوں کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے ۔ ختنہ شدہ کی روایت کو قبول کیا جا سکتا ہے کیونکہ بعض لڑکے دنیا میں ختنہ شدہ آئے ہیں ۔
لیکن اس روایت کی صحت میں تامل ہے کہ وہ دانتوں کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے ۔ کیونکہ ایک تو علم حیاتیات کی رو سے صحیح نہیں اور دوسرا یہ کہ اگر ان کے دانت تھے تو ان کی ماں انہیں دودھ نہیں پلا سکتی تھیں اور تجربہ شاہد ہے کہ جب بچہ دانت نکالتا ہے ماں دودھ دینے میں تکلیف محسوس کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب دانت نکالنا شروع کرتا ہے تو اس کا دودھ چھڑا لیا جاتا ہے ۔
امام جعفر صادق کی ولادت کے متعلق ایک اور روایت یہ ہے کہ جب آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو باتیں کرنا شروع کر دیں اسی طرح کی ایک روایت ابو ہریرہ صحابی کے زریعے پیغمبر اکرم سے نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا میں پیغمبر اسلام سے سنا ہے کہ ان کی نسل میں ایک ایسا فرزند پیدا ہو گا جس کا نام صادق ہو گا اور کسی دوسرے کا یہ نام نہ ہو گا اور جہاں کہیں بھی صادق کا نام لیں گے سب سمجھ جائیں گے کہ کہنے والوں کا مطلوب وہی ہے ابوہریرہ سے نقل کی گئی کچھ روایات جھوٹ پر مبنی بھی ہیں دن کا کچھ حصہ آپ کے ہمراہ گزارتا تھا بعض جعلی حدیثیں گھڑنے والوں نے بہتری اس میں دیکھی کہ وہ حدیثوں کو ابوہریرہ سے منسوب کریں تاکہ پڑھنے والا اور سننے والا دونوں قبول کریں ۔ اور بعض جعلی حدیثیں گھڑنے والوں نے شاید پشیمانی یا ندامت ضمیر کی وجہ سے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے جعلی حدیثیں گھڑی ہیں ۔
یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کی روایات تاریخی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہیں اور یہ روایات شعیوں کے اپنے امام کے علم اور قدرت مطلق کے بارے میں اعتقاد کا نتیجہ ہیں چونکہ ان کے ہاں امام منصوص من اللہ اور علم لدنی کا مالک ہوتا ہے کہتے ہیں کہ امام بچپن میں بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا جوانی اور بڑھاپے میں ‘ لیکن ایک تاریخی محقق جعفر صادق کو پہچاننے کیلئے اہم ترین مسائل کی طرف توجہ دیتا ہے اور ایسی روایات کو خاطر میں نہیں لاتا ۔
بچپن
جعفر صادق کے بچپن کے دوران چار چیزیں ہمیں ایسی ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قدرت ان کے موافق رہی ہے ۔
پہلی روایت یہ کہ جعفر صادق لاغر اور مریض امراض الاطفال ہونے کے باوجود زندہ رہے اور جو نہی ان کی عمر دو سال ہوئی صحت مند ہو گئے دوسری یہ کہ جعفر صادق نے ایک خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی اور ان کے والد و دادا مدینے کے کھاتے پیتے لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے ۔
تیسری یہ کہ ان کی والدہ محترمہ ام فروہ خاندان ابوبکر کی اکثر عورتوں کی مانند پڑھی لکھی تھیں اور ان کے والد گرامی امام محمد باقر دانشمند انسان تھے ۔
چوتھی یہ کہ ماں اور باپ نے جعفر صادق کو دو سال سے ہی تعلیم دینا شروع کر دی تھی اور موجودہ زمانے کی تعلیم و تربیت یہ کہتی ہے کہ ایک بچے میں حافظے کی قوت کا بہترین زمانہ دو سال اور پانچ سال یا چھ سال کے درمیان ہوتا ہے دور حاضر کے ماہرین تعلیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو سال سے چھ سال کی عمر تک کے عرصے میں مادری زبان کے علاوہ دو اور غیر ملکی زبانیں بھی بچے کو تعلیم دی جا سکتی ہیں ۔
عموما وہ خاندان جن کے آباؤ اجداد دانشمند ہوتے ہیں ان میں دانشمند بچے پیدا ہونے کے مواقع عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں ۔
جعفر صادق کے والد گرامی ایک دانش مند انسان تھے اور ان کے دادا امام زین العابدین کا شمار بھی فاضل لوگوں میں ہوتا تھا انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں جن کا ذکر ابن الندیم صحاف نے اپنی کتاب " الفہرست " میں کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ اب یہ کتابیں نا پید ہیں ۔
جعفر صادق والدین کی اکلوتی اولاد نہ تھے بلکہ آپ کے چند بھائی تھے امام محمد باقر اور ان کے والد گرامی امام زین العابدین کو دوسری اولاد کو پڑھانے میں اتنی دلچسپی نہیں تھی جتنی جعفر صادق کو پڑھانے میں تھی کیونکہ جعفر صادق کو دو سال کی عمر میں ہی پڑھانا شروع کر دیا تھا کبھی آپ کے دادا امام زین العابدین آپ کو پڑھاتے تھے ۔
ماں ‘ باپ اور دادا کی طرف سے خصوصی توجہ اس لئے تھی کہ امام جعفر صادق غیر معمولی طور پر ذہین تھے ۔ شیعہ اس ذہانت و فطانت کو امام کی خوبیوں میں سے جانتے ہیں لیکن مشرق و مغرب میں ایسے بچے ہو گزرے ہیں جو غیر معمولی زہین و فطین تھے جبکہ وہ امام نہیں تھے ۔
ابن سینا اور ابوالعلا مصر ‘ مشرق میں اور تاسیت مغرب میں ایسے افراد تھے جنہیں بچپن میں جو کچھ صرف ایک مرتبہ پڑھا دیا جاتا تھا وہ اسے کبھی نہیں بھولتے تھے یہ تین نام نمونے کے طور پر ذکر کئے ہیں ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ایسے ہو گزرے ہیں جو غیر معمولی طور پر زہین اور فطین شمار کئے جاتے ہیں ۔
مدینہ کی دائی جو پیدائش میں زچہ کی مدد کرتی تھی ایک طرح کی سرجن ہوتی تھی کیونکہ وہی بچے کا ختنہ بھی کرتا تھی ۔ اسی دائی نے جس نے امام صادق کی پیدائش کی خبر ان کے دادا زین العابدین تک پہنچائی ان کے بھائی کا ختنہ بھی کیا اور تین دینار معاوضہ لیا جس دن اس نے جعفر صادق کی پیدائش کی خوش خبر ان کے دادا کو دی اسے پانچ دینار عطا کئے گئے کیونکہ ایک معزز عرب گھرانے میں بچے کی پیدائش ایک غیر معمولی اور پر مسرت واقعہ ہوتا تھا ۔
کہتے ہیں کہ جب جعفر صادق دو سال کے ہوئے ام فروہ نے ان کیلئے یہ اشعار پڑھے اور وہ ایک چھوٹی سی تلوار اور لکڑی لے کر
ایک کھیل جسے تلوار کا رقص کہا جاتا ہے دوسرے بچوں کے ہمراہ کھیلتے اور ان اشعار کو پڑھتے تھے ۔
(البشر و احباحبا ۔ قدہ طال نما ۔ وجہہ بدر السماء ) یعنی تمہیں مبارک ہو کہ اس کا قد بلند ہو رہا ہے ۔
وہ بڑا ہو رہا ہے اور اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند ہے ۔
جعفر صادق کا گھر جس میں ان کے پر دادا حسین بن علی پیدا ہوئے تھے مسجد نبوی کے پہلو میں واقع تھا مسجد کی توسیع کی غرض سے اسے گرا دیا گیا اور جو رقم اس کے بدلے میں بیت المال سے ملی ۔ اس سے انہوں نے ایک جدید روڈ کے کنارے (جس کا نام مسقی تھا ) کچھ زمین خرید کر وہاں ایک گھر بنایا یہ گھر بھی بہت سے دوسرے مدینہ اور مکہ کے گھروں کی مانند ایرانی معماروں نے بنایا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس گھر کا صحن حضرت علی نے بنوایا تھا ۔ جو کافی وسیع تھا اور بچوں کے کھیل کود کیلئے بہترین جگہ تھی جعفر صادق جب بھی سبق سے فارغ ہوتے دوسرے لڑکوں کے ساتھ اس صحن میں کھیل کود میں مشغول ہو جاتے ۔
ان کے والد گرامی امام محمد باقر کے حلقہ درس میں حاضری کے متعلق چند روایات ہیں بعض کہتے ہیں وہ والد کے مدرسہ میں پانچ سال کی عمر میں داخل ہوئے ۔
مغرب کے ایک مسلمان مورخ ابن ابی رندقہ جس کا نام محمد ‘ اور کنیت ابوبکر تھی ۔ ۴۵۱ ھ قمری میں پیدا ہوا اور ۵۲۰ ھ میں فوت ہوا اپنی کتاب میں مختصر نام کے ساتھ کہتا ہے کہ جعفر صادق دس سال کی عمر میں اپنے والد کے درس میں جانے لگے اور یہ روایت عقلی نظر آتی ہے ۔
اس سے پہلے بھی امام محمد باقر اپنے بیٹے کو گھر پر درس دیتے تھے لیکن وہ اس درس میں جس میں چند طلباء ہوتے تھے شریک نہیں ہوتے تھے ۔

