احتجاج ابن أذينہ
-
- شائع
-
- مؤلف:
- السيد محمد سعيد الحكيم-ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
- ذرائع:
- ماخوذ از کتاب: أصول العقيدة
احتجاج ابن أذينہ
ایک واقعہ عمر بن محمد بن عبدالرحمن بن اذینہ سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں:
"ایک دن میں [کوفہ میں] محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے پاس آیا، وہ اس وقت قاضی تھے۔
میں نے کہا: ـ أصلحك الله ـ اللہ آپ کو صلاح دے، میں آپ سے کچھ مسائل پوچھنا چاہتا ہوں...
انہوں نے کہا: پوچھو بھتیجے۔
میں نے کہا: آپ ہی مجھے بتائیں کہ آپ قاضیوں کی جماعت کے پاس کوئی مقدمہ آتا ہے مال، عصمت یا خون کے بارے میں، تو آپ اپنی رائے سے فیصلہ دیتے ہیں، پھر وہی مقدمہ مکہ کے قاضی کے پاس آتا ہے تو وہ آپ کے فیصلے کے خلاف فیصلہ دیتا ہے، اور وہی مقدمہ بصرہ، یمن اور مدینہ کے قاضیوں کے پاس آتا ہے تو وہ اس کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ پھر آپ سب اپنے خلیفہ کے پاس جمع ہوتے ہو جس نے تمہیں قاضی بنایا ہے، تو وہ آپ میں سے ہر ایک کی رائے کو درست ٹھہراتا ہے [حالانکہ] معبود سب کا ایک ہے، آپ کانبی ایک ہے اور دین بھی ایک ہے۔ کیا اللہ نےآپ لوگوں اختلاف کرنے کا حکم دیا تھا جسےآپ نے مان لیا، یا آپ لوگوں کو منع کیا تھا جس کی آپنے نافرمانی کی؟ یاآپ اللہ کے حکم میں شریک ہو کہ آپ جو چاہو کہو اور وہ راضی ہو جائے؟ یا اس نے ناقص دین نازل کیا پھرآپ لوگوں سے اسے مکمل کرنے میں مدد لی؟ یا اس نے دین مکمل نازل کیا تو رسول اللہ (ﷺ) اسے پہنچانے میں کوتاہی کر گئے؟آپ جناب عالی کیا کہتے ہو؟!
اس پر انہوں نے کہا: تم کہاں کے رہنے والے ہو؟
میں نے کہا: اہل بصرہ میں سے...
تو انہوں نے میرا استقبال کیا، قریب بٹھایا اور کہا: اے بھتیجے، تم نے بہت سخت سوال پوچھا ہے، الجھ گئے ہو اور مشکل میں پڑ گئے ہو۔ ان شاء اللہ میں تمہیں بتاتا ہوں۔
رہی تمہاری بات احکام میں اختلاف کی، تو جو مقدمات ہمارے پاس آتے ہیں، اگر ان کے بارے میں کتاب اللہ میں کوئی بات ہے یا سنت رسول اللہ (ﷺ) میں کوئی اصل ہے تو ہمارے لئے کتاب و سنت سے تجاوز جائز نہیں۔ اور جو ہمارے پاس ایسا معاملہ آئے جس کا ذکر کتاب اللہ میں نہ ہو اور نہ ہی سنت نبی (ﷺ) میں، تو ہم اس میں اپنی رائے سے کام لیتے ہیں۔
میں نے کہا: آپ نے کوئی کام نہیں کیا۔ اللہ عز وجل فرماتا ہے:
(مَا فَرَّطنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيءٍ)(سورۃ الانعام آیت: 38)
اور فرمایا:
(تِبيَاناً لِكُلِّ شَيءٍ) (سورة النحل آية:89)
بتائیے، اگر کوئی شخص وہی کرے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے، اور اس سے رک جائے جس سے اللہ نے منع کیا ہے، تو کیا کوئی ایسی چیز باقی رہ جاتی ہے کہ اگر اس نے اسے نہ کیا تو اللہ اسے عذاب دے، یا اگر کرے تو ثواب دے؟
انہوں نے کہا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ اسے اس چیز پر ثواب دے جس کا اس نے حکم نہیں دیا، یا اس چیز پر عذاب دے جس سے اس نے منع نہیں کیا۔
میں نے کہا: پھر وہ احکام آپ کے پاس کیسے آتے ہیں جن کا کتاب اللہ میں کوئی اثر نہیں اور نہ ہی سنت نبی (ﷺ) میں کوئی خبر؟
انہوں نے کہا: میں تمہیں بتاتا ہوں بھتیجے۔ ہمارے بعض اصحاب نے عمر بن خطاب تک مرفوعاً حدیث (یعنی:ایسی حدیث جس میں راویوں کے سلسلے میں ایک یا ایک سے زیادہ راویوں کا ذکر نہ ہو)بیان کی کہ انہوں نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ دیا، تو ان کے قریب بیٹھنے والے ایک شخص نے کہا: آپ نے ٹھیک فیصلہ دیا، اے امیر المؤمنین۔ تو عمر نے اسے کوڑے سے مارا اور کہا: تیری ماں تیرے غم میں مر جائے۔ اللہ کی قسم! عمر خود نہیں جانتا کہ اس نے ٹھیک فیصلہ دیا ہے یا غلط۔ یہ تو محض ایک رائے ہے جس میں میں نے اجتہاد کیا ہے۔ تم ہمارے سامنے خوشامد نہ کرو۔
میں نے کہا: کیا میں آپ سے ایک حدیث بیان نہ کروں؟
انہوں نے کہا: وہ کیا ہے؟
قُلْتُ: أَفَلَا أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا؟ قَالَ: وَمَا هُوَ؟ قُلْتُ: أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ أَبِي القَاسِمِ العَبْدِيِّ عَنْ أَبَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (عَلَيْهِ السَّلَامُ) أَنَّهُ قَالَ: القَضَاءُ ثَلَاثَةٌ: هَالِكٌ وَنَاجٍ. فَأَمَّا الهَالِكَانِ فَجَائِرٌ جَارٍ مُتَعَمِّدٌ، وَمُجْتَهِدٌ أَخْطَأَ. وَالنَّاجِي مَنْ عَمِلَ بِمَا أَمَرَهُ اللَّهُ بِهِ.
میں نے کہا: مجھے میرے والد نے ابوالقاسم عبدی سے، انہوں نے ابان سے، اور انہوں نے علی بن ابی طالب (علیہ السلام) سے روایت کی کہ آپ (علیہ السلام)نے فرمایا: قضاء (فیصلہ دینا) تین قسم کا ہے: دو ہلاک کرنے والے اور ایک نجات دینے والا۔ رہے ہلاک کرنے والے، تو وہ ظالم قاضی ہے جو جان بوجھ کر ظلم کرے، اور مجتہد ہے جو غلطی کرے۔ اور نجات پانے والا وہ ہے جو اس حکم پر عمل کرے جس کا اللہ نے اسے حکم دیا ہے۔
چنانچہ اے چچا! یہ آپ کی حدیث کی نفی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم! اے بھتیجے۔ پھر کہا: تو کیا تم یہ کہتے ہو کہ ہر چیز کتاب اللہ میں ہے؟
میں نے کہا: اللہ نے یہی فرمایا ہے۔ اور کوئی حلال و حرام، امر و نہی ایسی نہیں ہے مگر یہ کہ وہ کتاب اللہ عز وجل میں موجود ہے، جسے جس نے پہچان لیا اس نے جان لیا، اور جسے جو نہیں جانتا اس نے نہیں جانا۔
انہوں نے کہا: پھر اس کا علم کہاں موجود ہے؟
میں نے کہا: اس کے پاس جسے میں نے پہچان لیا ہے۔
انہوں نے کہا: میری تمنا ہے کہ میں اسے پہچان لوں تاکہ میں اس کے پاؤں دھوؤں، اس کی خدمت کروں اور اس سے علم سیکھوں۔
میں نے کہا: میں آپ سے پوچھتا ہوں، کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک شخص ایسا تھا کہ جب رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا جاتا تو آپ جواب دیتے، اور جب خاموشی ہوتے تو آپ خود ابتدا فرماتے؟
انہوں نے کہا: ہاں، وہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) تھے۔
میں نے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) نے رسول اللہ (ﷺ) کے بعد کسی سے حلال و حرام کے بارے میں پوچھا؟
انہوں نے کہا: نہیں۔
میں نے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ لوگوں کو ان کی ضرورت پڑتی تھی اور وہ ان سے لیتے تھے؟
انہوں نے کہا: ہاں۔
میں نے کہا: تو وہ علم انہیں کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا: وہ تو چلے گئے، پھر ہمیں وہ کہاں سے ملے گا؟
میں نے کہا: آپ ان کی اولاد سے پوچھیں، کیونکہ وہ علم انہی میں ہے اور انہیں کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا: میں ان تک کیسے پہنچ سکتا ہوں؟
میں نے کہا: بتائیے، اگر کوئی قوم زمین کے ایک بیابان میں ہو اور ان کے ساتھ رہنما ہوں، تو وہ ان پر ٹوٹ پڑیں، ان میں سے بعض کو قتل کر دیں اور بعض کو ڈرا دیں، تو جو باقی بچے وہ خوف کے مارے بھاگ کر چھپ جائیں، پھر وہ لوگ کوئی رہنما نہ پائیں اور اس بیابان میں بھٹکتے رہیں یہاں تک کہ ہلاک ہو جائیں: آپ ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟
انہوں نے کہا: جہنم میں۔ اور ان کا چہرہ زرد پڑ گیا، ان کے ہاتھ میں ایک سیب تھا، انہوں نے اسے زمین پر مارا تو وہ چکنا چور ہو گیا۔ اور کہنے لگے:
(إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ)
(بے شک ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں)۔"
(مستدرك الوسائل 17 باب:4 من أبواب صفات القاضي حديث:13 / دعائم الإسلام 1: 92، 93)
اہل بیت کے ائمہ (علیہم السلام) اور ان کے شیعوں کے پاس- اللہ تعالیٰ ان کی شان بلند فرمائے - اس قسم کے بہت سے احتجاجات اور اس جیسی دلیلیں ہیں جو سچے عقیدے کے معاملے سے متعلق ہیں، جن کا یہاں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔

