امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اصول اسلام سے کیا ہیں؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

اصول اسلام سے کیا ہیں؟
    سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم "اصل" کی تعریف اور اس کے مفہوم پر روشنی ڈالیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی باقاعدہ اور صریح نص موجود نہیں ہے جو دین کے اصول و فروع کے  مفہوم اور ان کی تعداد کو اس طرح بیان کرے جس طرح مسلمانوں کی اصطلاح میں مرسوم اور رائج ہیں۔ 
مسلمانوں کے ہاں جو امور اسلام کے اصول و فروع کے نام سے پہچانے جاتے ہیں انہیں مسلمان علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ  کہ ارکان اسلام کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: وہ ارکان جو کسی انسان کے مسلمان ہونے کی بنیادی شرط ہیں اور جن میں سے کسی ایک کا بھی انکار بجائے خود کفر کا موجب بنتا ہے خواہ اس انکار کی وجہ لجاجت اور ہٹ دھرمی ہو یا غفلت اور جہالت جس کا سرچشمہ یا تقصیر ہے یا قصور۔( محمد علی توحیدی، تبریزی ،مصباح الفقاہۃ، ج۱، ص۲۴۶)
دوسری قسم:  وہ ارکان جن پر ایمان اور عمل واجب ہیں لیکن ان کا انکار بذات خود کفر کا موجب نہیں جب تک اس انکار کی برگشت رسول یا رسالت کے انکار کی طرف نہ ہو۔
سوال:پہلی قسم کے ارکان کون سے ہیں اور دوسری قسم کے ارکان کیا کیا ہیں؟ ان دو اقسام کے کون سے ارکان اصول دین میں شامل ہیں؟
جواب:اصول دین وہ ارکان ہیں جو پہلی قسم میں شامل ہیں۔ یہ ارکان خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان اور آخرت پر ایمان سے عبارت ہیں۔ اسی لیے ان تین ارکان یا اصولوں پر اعتقاد یا ایمان انسان کو اسلام کے دائرے میں داخل کرتا ہے نیز ان سب کا یا ان میں سے بعض کا انکار اسے اسلام کے دائرے سے خارج کرتا ہے (اگرچہ یہ انکار غفلت یا اشتباہ کے باعث ہو)۔
    رہے دوسری قسم کے ارکان تو وہ اصولِ مذہب کے نام سے پہچانےنے جاتے ہیں (اصول دین کے نام سے نہیں) مثلاً امامت اور عدل کا عقیدہ کیونکہ ان دونوں پر ایمان بعض مذاہب کی نظر میں واجب اور ضروری ہے لیکن ان دونوں کا یا ان میں سے ایک کا انکار انسان کو اسلام کے دائرے سے خارج نہیں کرتا مگر یہ کہ انکار کرنے والے کو ان دونوں کی حقانیت کا یقین ہو یا اس کے سامنے دلیل قائم ہو کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کے وجوب کی تصریح فرمائی ہے لیکن اس کے باوجود وہ آنحضرت کے فرمان کا انکار کرے۔ اس صورت میں اس کا انکار درحقیقت پیغمبر کا انکار اور موجب کفر ہے۔

وہ امور جنہیں اصطلاح میں "ضروریات دین" کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق دوسری قسم سے ہے،بطور مثال نماز، روزے اور حج کا وجوب نیز شراب، سود اور قتل وغیرہ کی حرمت۔ ضروریات ِدین (یعنی مسلماتِ دین) کا انکار بذاتِ خود کفر کا موجب نہیں (جیسا کہ بعد میں ذکر ہوگا) مگر یہ کہ اس انکار کی برگشت انکارِ رسالت یا تکذیب ِرسول کی طرف ہو۔
اسلام شہادتین سے عبارت ہے
    جن اصولوں پر اسلام کی بنیادیں استوار ہیں اور جن پر ایمان انسان کو اسلام کے دائرے میں لانے میں مکمل طور پر دخیل ہیں ان پر ایک نگاہِ مکرر کی روشنی میں ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ :

دو شہادوں یعنی خدا کی وحدانیت کی گواہی اور حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی پر دین اسلام کی عمارت کا استوار ہونا  دینی ضروریات یعنی مسلمات اور بدیہیات کا حصہ ہے۔ کتاب و سنت کے اندر موجود بہت سے دلائل و شواہد سے اس دعوے کی تائید ہوتی ہے۔
    قرآن کی دسیوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان بنیادی شرط ہے۔ اسی طرح قرآن کی دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان بھی مسلمان ہونے کی شرط ہے جیسا کہ ارشاد الہی ہے:
 وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۔ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ۔( سورہ بقرہ(۲)۲۳۔۲۴)
اگر تم لوگوں کو اس چیز میں شک ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے تو تم اس جیسی ایک سورت لے آؤ اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے تمام گواہوں کو بھی بھلاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اگر تم ایسا نہ کر سکو اور یقیناً  تم ہرگز ایسا نہ کر سکو گے تو تم اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اور جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
    اسی طرح سنت کے اندر بھی بہت ساری احادیث نظر آتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی بنیاد ان دو شہادتوں پر استوار ہے اور جو کوئی شہادتین کا اقرار کرے وہ مسلمان ہے اور اس پر اسلام کے احکام جاری ہوتے ہیں اگرچہ وہ واجبات کو ترک کرے اور محرمات کا ارتکاب کرے۔ جی ہاں اگر کوئی شخص شرعی احکام یعنی واجبات اورمحرمات کی رعایت نہ کرے تو وہ ایمان کے دائرے سے خارج ہوتا ہے لیکن اسلام کے دائرے سے نہیں۔

کیونکہ ایمان کا دائرہ اسلام کے دائرے سے چھوٹا ہے جیسا کہ اس آیت شریفہ سے ظاہر ہے: 
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ(سورہ حجرات(۴۹)۱۴)
عرب بادیہ نشینوں نے کہا: ہم ایمان لائے ہیں۔ کہدے: تم ایمان نہیں لائے ہو۔ ہاں تم یہ کہو:ہم اسلام لائے ہیں کیونکہ ہنوز ایمان تمہارے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوا ہے۔
    جن دلائل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کا دارومدار شہادتین پر ہے ان میں سے ایک صحیح مسلم میں ابوہریرہ سے مروی یہ روایت ہے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خبیر میں فرمایا:

’’میں یہ پرچم اس شخص کو دوں گا جو خدا اور پیغمبر سے محبت کرتا ہے اور خداوند اس کے ہاتھوں فتح عطا کرے گا۔‘‘

عمر  بن خطاب نے کہا: مجھے سپہ سالاری کا شوق نہیں تھا لیکن اس دن اس کا شوق ہوا۔ اسی لئے میں نے اس امید میں اپنا قد بلند کر کے اس پرچم کا رخ کیا تاکہ اس کے لیے بلایا جاؤں۔ لیکن رسول خدا نے علی ابن ابی طالب کو بلایا اور وہ پرچم انہیں دے کر فرمایا: جاؤ اور مڑ کر نہ دیکھو یہاں تک کہ خدا تمہیں فتح عطا کرے۔ جناب عمر کا بیان ہے: پس علی تھوڑا چلے پھر رک گئے اور پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر چلا کر بولے: اے اللہ کے رسول! میں کس بات پر ان کے ساتھ جنگ کروں؟
فرمایا: "ان کےساتھ جنگ کرو یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اللہ کا رسول ہے۔ جب وہ ایسا کریں تو پھر ان کا خون اور مال تیرے اوپر حرام ہیں مگر حق کی رو سے اور ان کا حساب خدا لے گا۔"( مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۷، ص۱۲۱)
اہل بیتؑ سے مروی روایات بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں۔ بطور مثال سماعہ سے مروی ہے کہ امام صادقؑ نے فرمایا:’’ اسلام یہ ہے کہ خدا کی وحدانیت کی گواہی دی جائے اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی تصدیق کی جائے۔ اس اسلام کے باعث خون کو تحفظ ملتا ہے اور اسی کی بنیاد پر شادی اور وراثت کے احکام جاری ہوتے ہیں۔ مسلمان عوام بھی اس کے ظاہر پر عمل کرتے ہیں۔‘‘( کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۲۶)
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ اہل بیتؑ کی روایات میں اسلام اور ایمان کو دو الگ چیزیں قرار دیا گیا ہے۔ عبدالرحیم قصیر نے امام صادق کو خط لکھا اور آپؑ سے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ امام ؑ نے اسے یوں جواب دیا:
"خدا تجھ پر رحمت نازل کرے !تو نے ایمان کے بارے میں پوچھا ہے۔ ایمان زبان سے اقرارکرنے، دل سے یقین کرنے اور اعضائے بدن کے ذریعے عمل کرنے سے عبارت ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص مومن ہونے سے پہلے مسلمان ہو لیکن یہ ممکن نہیں کہ وہ مسلمان ہونے سے پہلے مومن ہو۔ اسی لئے اسلام ایمان سے پہلے بھی ہوتا ہےاور ایمان کے ساتھ بھی۔ جب کوئی شخص کسی کبیرہ یا صغیرہ گناہ کا ارتکاب کرے جس سے خدائے قادر متعال نے منع کیا ہے تو وہ ایمان کے دائرے سے نکل جاتا ہے اور مومن نہیں کہلا سکتا لیکن پھر بھی وہ مسلمان رہتا ہے۔ اسی لئے اگر وہ توبہ کرے اور بخشش کا طلبگار ہو تو وہ ایمان کے دائرےدوبارہ داخل ہوتا ہے۔ کوئی چیز اسے کافر نہیں بناتی مگر انکار اور یہ کہ وہ حلال کو حرام کہے یا حرام کو حلال کہے اور اسی بات پر اس کا عقیدہ بھی ہو۔‘‘( کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۲۸)
ان روایات و احادیث نیز اس  مسئلے کے بارے میں مذکور قرآنی آیات سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اصول اسلام دو ہیں:
    الف: خدا کی وحدانیت پر ایمان جو اس کے وجود پر ایمان کو بھی شامل ہے۔
    ب: محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان۔
پس جو شخص ان دونوں کا یا ان میں سے ایک کا  انکار کرے وہ نہ مسلمان ہے نہ مومن۔
کیا معاد (آخرت) پر ایمان بھی اصول دین میں شامل ہے؟
    یہ سوال اس معاد کے بارے میں ہے جو لوگوں کے درمیان اصول دین میں سے ایک کے طور پر معروف ہے اور مسلمانانِ عالم اپنے مذہبی اختلافات کے باوجود اس پر متفق ہیں۔ اس کے باوجود بعض اربابِ نظر نے اس مسئلے میں تامل کیا ہے۔ امام خمینیؒ بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں۔ آپ کے خیال میں بعید نہیں ہے کہ اسلام درحقیقت خدا کے وجود اور اس کی وحدانیت نیز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان سے عبارت ہو۔
(خمینی، روح اللہ، تحریر الوسیلہ، ج۱، ص۴۲۸۔۴۴۵)
  اسی طرح شہید مطہری نے بھی اس نقطۂ نظر کو حقیقت کے قریب شمار کیا ہے کہ اصول دین دو چیزوں یعنی توحید اور نبوت سے عبارت ہیں اور ان دو اصولوں میں سے ایک کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ 
البتہ معاد کا منکر اس لحاظ سے کافرشمارہوتا ہے کہ معاد کے انکارکا  لازمہ نبوت کا انکار ہے۔( مطہری، مرتضیٰ، النبوۃ، ص۷۶)
رہی یہ بات کہ پھر دینداروں کے ہاں معاد کو اصول ِدین میں شمار کرنے کا عقیدہ کیوں رائج ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ معاد کے انکار سے نبوت کا انکار لازم آتا ہے اور روز ِروشن کی طرح واضح ہے کہ نبوت پر ایمان اور معاد کاانکار باہم جمع نہیں ہو سکتے۔ 
(خمینی، روح اللہ، تحریر الوسیلہ، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص۴۴۵ نیز قمی، سید تقی، عمدۃ الطالب، ج۱، ص۱۸۸۔ اس کتاب میں مذکور ہے کہ معاد کے اصول دین میں شامل ہونے پر کوئی قرآنی دلیل موجود نہیں ہے۔ اسی طرح ترحینی کی کتاب "الامام فی علم الکلام" کے صفحہ۹ میں مرقوم ہے:

امامیہ کے ہاں معروف ہے کہ توحید، نبوت اور معاد کا نظریہ اصول دین میں شامل ہے جبکہ امامت اصول مذہب کا حصہ ہے اصول دین کا نہیں۔ لیکن تحقیق سے ظاہرہوتا ہے کہ اصول دین دو ہیں یعنی توحید اور نبوت خاصہ۔ اس کی دلیل رسول کی سیرت ہے کیونکہ آپ شہادتین کو زبان پرجاری کرنے والے کو مسلمان قرار دیتے تھے۔ اس بارے میں احادیث کثرت سے موجود ہیں اور اس کتاب کے مولف نے ان میں سے بعض کا ذکر کیا ہے)
    ان بزرگوں کی نظر میں معاد دین کے ارکان اور مسلمات میں سے ایک ہے اور معاد کا منکر ضروریات دین (یعنی دین کے مسلمات) کے منکر کی طرح ہے۔ درست نقطہ نظر یہ ہے کہ ضروریات دین (مسلمات دین) کے منکر کو اس وقت تک کافر قرارنہیں دیاجا سکتا جب تک اس کے اس انکار  کا لازمہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا رسالت کا انکار نہ ہو اور اس تلازم کی طرف اس کی توجہ بھی نہ ہو۔

اگر اس شخص انکار کسی خاص دلیل کے باعث ہو تو بھی اسے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک فقیہ اس بارے میں فرماتے ہیں: "کافر سے مراد وہ شخص ہے جو الوہیت یا توحید یا رسالت یا ضروریاتِ دین (مسلمات ِدین) میں سے ایک کا منکر ہو اور اسے اس بات کا بھی علم ہو کہ وہ جس چیز کا انکارکر رہا ہے وہ دین کے مسلمات میں شامل ہے اور اس انکار کی بازگشت انکارِ نبوت کی طرف ہوتی ہے۔"
    اس فقیہ کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معاد (موصوف کی نظر میں) اصول دین میں شامل نہیں ہے۔ اسی لئے بعض فقہاء نے موصوف کے بیان پرحاشیہ لکھتے ہوئے بطور احتیاط اصول دین میں معاد کا اضافہ کیا ہے؟ 
(محمد کاظم یزدی ،العروۃ الوثقیٰ، ج۱، ص۴۱، مطبوعہ جامعہ مدرسین قم)
اس بحث کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ "اصل" کے مذکورہ بالا مفہوم کی روشنی میں معاد کے اصول دین کا حصہ ہونے کے بارے میں اتفاقِ نظر موجود نہیں ہے یہاں تک کہ آیت اللہ العظمی سید خوئی قدس سرہ اعتراف فرماتے ہیں کہ فقہاء نے معاد کو اصول دین میں شمار کرنے سے چشم پوشی کی ہے۔
اگرچہ (ان کی نظر میں) اس چشم پوشی کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کئی آیتوں میں معاد پر ایمان کو اپنے اوپر ایمان کے ساتھ مربوط کیا ہے۔ بطورمثال یہ آیات ملاحظہ ہوں:
 إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ(نساء(۴)۵۹)
 اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو،
إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ(بقرہ(۲)۲۲۸)
اگر وہ عورتیں اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہوں
مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ(بقرہ(۲)۲۳۲)
تم میں سے جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔
ان کے علاوہ دیگر آیات میں موجود ہیں۔
اس نقطہ نظر پر یہ تنقید کی جا سکتی ہے کہ معاد پر ایمان کو خدا پر ایمان کے ساتھ مربوط کرنا بجائے خود اس بات کی دلیل نہیں کہ معاد اصول دین کا حصہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں عمل صالح کو خدا پر ایمان کے ساتھ مربوط کیا ہے۔
(خوئی، ابوا القاسم ،التنقیح فی شرح العروۃ،ج۲،ص۵۹)
اس کے باوجود کسی نے یہ تصور بھی نہیں کیا ہے کہ عملِ صالح اصول دین کا حصہ ہو۔ اسی طرح اللہ نے کئی آیات میں والدین کے ساتھ نیکی کو خدا کی عبادت کرنے اور شرک نہ برتنے کے ساتھ ذکر کیا ہے
(بقرہ(۲) ۸۳،نساء(۴)۳۶،انعام(۶)۱۵،اسراء(۱۷)۲۳)
  جبکہ ماں باپ کی قدر دانی کو خداوند تعالیٰ کی شکرگزاری کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
    اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم نے معاد کے مسئلے کو بے مثال اہمیت دی ہے چنانچہ بعض علماء نے معاد سے مربوط آیات کو شمار کیا ہے اور ان کی تعداد چودہ سو تک بتائی ہے۔
    عظیم مفسرِ قرآن علامہ طباطبائی کے بارےمیں منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں؛ جن آیات میں بطور صریح یا بطور اشارہ معاد کا تذکرہ  ہوا ہے ان کی تعداد دو ہزار  سے زیادہ ہے۔ (سبحانی، جعفر، الالہیات،ج۲،ص۶۶۴)
اس بیان کی روشنی میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کسی  موضوع کی اہمیت کے باعث اس کے بارے میں قرآن کا ایک تہائی حصہ نازل ہو لیکن پھر بھی وہ اصول دین کا حصہ نہ ہو؟
علاوہ ازیں معاد پر ایمان ان امور میں سے ایک ہے جن پر تمام آسمانی اور غیر آسمانی ادیان کا اتفاق ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
 إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (بقرہ(۲)۶۲)
بےشک مسلمانوں ، یہودیوں، عیسائیوں اور لامذہبوں میں سے جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لے آئے اور عمل صالح بجا لائے ان لوگوں کے لئے ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس موجود ہے۔ ان لوگوں کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غم کھائیں گے۔
    علاوہ ازیں دینی طرزِ فکر کی رو سے معاد خلقت کا ہدف ،ابدی فلاح و سکون کا گہوارہ  اورحقیقی زندگی ہے جبکہ دنیا ایک عارضی گزرگاہ ہے چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
 وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (عنکبوت(۲۹)۶۴)
بے شک  حقیقی زندگی (کی جگہ) تو بس آخرت کا گھر ہے بشرطیکہ یہ لوگ سمجھیں بوجھیں۔
    ان سب کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اوپر جو کچھ کہا گیا ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ معاد کا مذکورہ مفہوم اصول دین میں شامل ہو جس پر ایمان نہ رکھنے والا کافر قرار پائے اگرچہ اس عدم ِایمان کی وجہ غفلت یا کوئی غلط دلیل ہو۔
بدیہیات کا انکار
سوال: کیا مذکورہ بالا تین اصولوں یعنی توحید، نبوت اور معاد کے علاوہ کوئی اورعقیدہ بھی ہے جس پر ایمان مسلمان ہونے کے لیے بذات خود شرط اور ضروری ہو؟
    جواب:بعض مسلمان فقہاء نے مذکورہ اصولوں میں ایک چوتھے اصل کا بھی اضافہ کیا ہے جو ضروریات دین یعنی دین کی بدیہی اور مسلمہ باتوں پر اعتقاد سے عبارت ہے۔ ان فقہا کا کہنا ہے کہ ضروریات دین(مسلماتِ دین یا بدیہیاتِ دین) کا انکار بذات ِخود کفر کا ایک الگ سبب ہے۔ بنابریں اگر کوئی شخص نماز یا روزے یا حج یا زکات کا منکر ہو یا شراب، زنا اور جوئے وغیرہ کی حرمت جو شرعی یا اعتقادی لحاظ سے اسلام کی بدیہی تعلیمات کا حصہ ہیں  کا منکر ہو تو وہ کافر ہے  اور دین کے دائرے سے خارج ۔
 محقق علماء کے ایک اور گروہ
(علامہ حلی حسن بن یوسف، مجمع الفائدہ والبرہان ،ج۳،ص۱۹۹۔ موصوف کہتے ہیں : ضروریاتِ دین(مسلماتِ دین) کا منکر اس وجہ سے کافر ہے کہ وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی اور آپ کے دین کا منکر ہے)
کا عقیدہ ہے کہ ضروریات یا بدیہیاتِ دین کا انکار صرف اس صورت میں کفر یا ارتداد کا موجب ہے جب اس انکار سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا آپ کی  رسالت کا انکار لازم آئے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بطور ِیقین یہ جانتا ہو کہ دین اسلام نے نماز کو واجب قرار دیا ہے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یقیناً اس کا حکم دیا ہے اس کے باوجود وہ نماز کے وجوب کا انکار کرے تو دراصل یہ شخص رسول کی تکذیب کرنے والا اور آپ کی رسالت کا منکر ہے۔ اسی لیے وہ دین کے دائرے سے خارج قرار پائے گا۔ لیکن اگر اس کے انکار سے رسول کی تکذیب لازم نہ آئے تو وہ کافر نہیں ہو گا۔ بنابریں اگر کوئی شخص مسلمان ہونے کے بعد ابتدا میں سود کی حرمت کا نکار کرے اور یہ گمان کرے کہ سودی کاروبار بھی کاروبار کی دیگر صورتوں کی طرح  جائز ہے تو یہ انکار اس کے کفر و ارتداد کا موجب نہیں بنے گا (اگرچہ سود کی حرمت اسلام کے مقدس دستور کا مسلّمہ حکم ہے) کیونکہ اس کا انکار پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب یا انکارِ رسالت پر منتہی نہیں ہوتا۔ (غروی، میرزا علی، التنقیح فی شرح عروۃ الوثقی، کتاب الطہارۃ، ج۲، ص۶۰، تقریرات تقریر آیت اللہ خویی)
اسی طرح اگر کوئی مسلمان اسلامی شریعت میں حجاب کے وجوب کا انکار کرے لیکن اس انکار کی وجہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا قرآن کریم کا انکار نہ ہو بلکہ نص کی قرائت یا اس کے مضمون کو سمجھے میں غلط فہمی یا ابہام کا نتیجہ ہو تو اس کے کفر و ارتداد کا حکم صادر نہیں کیا جا سکتا۔
یہ نقطۂ نظر مذکورہ بالا قرآنی آیات اور احادیث کے مضمون سے نزدیک ترین اور درست ترین نقطۂ نظر ہے۔ اسلام کی عمارت معادکےعلاوہ شہادتین کے اقرار کی بنیاد پر استوار ہے۔ خاص کر یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن و سنت میں اس عنوان:"ضروریاتِ دین کے منکرکا کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔ یہ تو ایک فقہی عنوان ہے جو بعض احادیث سے اخذ کیا گیا ہے۔

وہ روایات جن سے فقہا نے اس عنوان کو اخذ کیا ہے نیز  بہت سارے حالات و مصادیق جن کے بارے میں ارتداد اور خونریزی کا حکم دیا گیا ہے انہیں فقہاء نے اسی عنوان کے تحت جگہ دی ہے۔ بعض فقہا 
((شہید ثانی، زین الدین، شرح اللمعہ، ج۹، ص۳۳۴)
نے کہا ہے: جن احکام پر اجماع قائم ہو ان کا انکار ضروریات ِدین کے انکار کی طرح ہے حالانکہ ان نقطہ ہائے نظر میں سے کسی نقطہ ٔنظر کے اثبات پر کوئی دلیل قائم نہیں ہے۔ اول الذکر نقطۂ نظر کے اثبات میں جو دلائل دیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ ثابت شدہ ہیں لیکن کامل نہیں ہیں۔( خویی، ابوالقاسم، التنقیح، ج۲، ص۶۱)
مذکورہ عرائض کی روشنی میں یعنی اس نظرئے کی روشنی میں کہ ضروریات ومسلّماتِ  دین کے منکر کے کافر ہونے کی وجہ نبوت کا انکار یا اس کی تکذیب ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس چیز کا انکار کیا جائے اس کا بدیہی ہونا (اثبات ِکفر کے لیے) لازمی نہیں بلکہ انکار کے کفر پر منتج ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ جس چیز کا انکار کیا جائے وہ انکار کنے والے کی نظر میں معتبر دلیل کے ذریعے ثابت شدہ ہو۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک