امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

عقل و جہل کے انسانی زندگی میں اثرات

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

عقل و جہل کے انسانی زندگی میں اثرات
فردی زندگی میں کامیابی و ناکامی یا عروج و زوال کی بنیاد محض بیرونی اسباب، اتفاقات یا مادی وسائل پر نہیں بلکہ سب سے پہلے انسان کے باطنی نظام، اس کے افکار، رجحانات اور اخلاقی صفات پر ہوتی ہے۔ جب ہم عقل و جہل کے لشکروں کی روشنی میں فردی زندگی کو دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ہر انسان کی داخلی کیفیت، یعنی اس کی عقل کے غلبے یا جہالت کے تسلط سے اس کی زندگی کا سفر طے ہوتا ہے۔
عقل کے لشکر، جیسا کہ ایمان، یقین، صبر، شکر، علم، فہم، تواضع، پاکدامنی، سخاوت، دقت، سکون، حق سے انس، دعا، اور خوش دلی، ایسے عناصر ہیں جو انسان کی شخصیت کو داخلی طور پر مستحکم کرتے ہیں۔ ان صفات کے حامل فرد کی سوچ متوازن، فیصلے دور اندیش، تعلقات باہمی اعتماد پر مبنی، اور عمل میں سنجیدگی ہوتی ہے۔ جب انسان صبر اختیار کرتا ہے تو وہ آزمائش کے موقع پر پست ہمتی کا شکار نہیں ہوتا۔ جب شکر گزار ہوتا ہے تو اپنی نعمتوں کو پہچان کر ان میں برکت پیدا کرتا ہے۔ علم و فہم اسے جذباتی ردعمل سے محفوظ رکھتے ہیں اور تواضع اسے دوسروں کے قریب کر دیتی ہے، جو کہ فردی زندگی میں مددگار معاشرتی سرمایہ بن جاتی ہے۔ یہ تمام صفات دراصل عقل کی قوت کو بڑھاتی ہیں اور انسان کو حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتی ہیں، جو صرف مادی ترقی نہیں بلکہ روحانی و اخلاقی بلندی بھی ہے۔
دوسری جانب، جہل کے لشکر یعنی کفر، ناامیدی، حرص، ناشکری، بے صبری، سخت دلی، تعصب، حماقت، خودپسندی، سستی، جھوٹ، خیانت، بخل، حسد، اور انتقام جیسے عناصر انسان کی داخلی دنیا کو ویران کر دیتے ہیں۔ ایسا فرد کسی صورت میں پائیدار کامیابی حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کے ہر عمل کی جڑ کمزوری، فساد یا خودغرضی میں پیوست ہوتی ہے۔ حرص اور بے صبری اسے جلد بازی میں نادان فیصلوں پر لے جاتی ہے، جس سے وہ بار بار نقصان اٹھاتا ہے۔ حسد اور کینہ اس کے دل کو جلاتے ہیں اور اسے دوسروں کی ترقی برداشت نہیں ہوتی، جس سے وہ اپنے لیے خود اذیت پیدا کرتا ہے۔ جھوٹ، خیانت، اور ریاکاری ایسے جال ہیں جن میں وہ خود پھنس جاتا ہے اور معاشرے سے اعتماد کھو بیٹھتا ہے۔
جب عقل کے لشکر انسان کے باطن میں غالب آتے ہیں تو وہ شخصیت نکھرتی ہے، انسان اپنی ذات میں سکون محسوس کرتا ہے، لوگ اس پر بھروسہ کرتے ہیں، اس کے فیصلے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں، اور وہ اپنی زندگی کے ہر موڑ پر حکمت و بصیرت سے کام لیتا ہے۔ یہ اسے صرف فردی کامیابی نہیں دیتے بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی نافع بن جاتا ہے۔ اس کی بات میں وزن ہوتا ہے، اس کی سوچ میں وسعت ہوتی ہے، اور اس کے کردار میں اثر ہوتا ہے۔ یوں وہ نہ صرف معاشی یا سماجی ترقی پاتا ہے بلکہ روحانی کمالات کی طرف بھی گامزن ہوتا ہے۔
لیکن اگر جہالت کے لشکر اس کی ذات پر حاوی ہو جائیں تو انسان کی اندرونی ساخت ٹوٹنے لگتی ہے۔ وہ بظاہر کامیاب دکھائی دے سکتا ہے، مگر اندر سے خالی، بے سکون اور مسلسل شکست خوردہ رہتا ہے۔ اس کی شخصیت میں استقامت کی بجائے بکھراؤ، حرص، اور مایوسی در آتی ہے، جو اس کے ہر رشتے، ہر فیصلے، اور ہر منزل کو کمزور کر دیتی ہے۔ ایسے انسان کو اگر وقتی فائدہ بھی حاصل ہو تو وہ پائیدار نہیں ہوتا، کیونکہ اس کی بنیاد سچائی، فہم یا قربانی پر نہیں، بلکہ دھوکہ، خواہش پرستی اور جلد بازی پر رکھی گئی ہوتی ہے۔
لہٰذا فردی زندگی کی اصل کامیابی اسی میں ہے کہ انسان اپنی عقل کو زندہ رکھے، اسے جہالت کے اندھیروں سے محفوظ رکھے، اور ان صفات کو پروان چڑھائے جو عقل کو طاقتور بناتی ہیں۔ ایسا فرد ہر حال میں خدا سے جڑا رہتا ہے، اپنے باطن کو صاف رکھتا ہے، اور دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب رہتا ہے۔ یہی عقل و جہل کے لشکروں کا فردی زندگی میں اصل اثر ہے۔ عقل سے وابستگی انسان کو بلند کرتی ہے، اور جہل سے رشتہ اسے پست کر دیتا ہے۔
حدیث کا تعارف:
یہ حدیث امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے اور کتاب "اصول کافی" سے لی گئی ہے، جس میں عقل اور جہل (علم و نادانی) کو دو باقاعدہ لشکروں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ امامؑ بیان فرماتے ہیں کہ خدا نے عقل کو اپنے نور سے پیدا کیا اور اسے شرافت و فضیلت عطا کی، جبکہ جہل کو اُس کے برعکس حالت میں خلق کیا گیا، جو عقل کا دشمن ہے۔
حدیث میں:
•    عقل اور جہل کے ہر ایک کو 75 صفات یا "لشکر" دیے گئے ہیں۔
•    یہ صفات انسان کی اخلاقی، عملی، روحانی اور سماجی زندگی کی مختلف جہات کی نمائندگی کرتی ہیں۔
•    عقل کے لشکر میں صدق، امید، عدل، صبر، تواضع، نرمی، سکون، ایمان، یقین، قناعت، تقویٰ، عفت، حیاء، شکر، حسن خلق، توبہ وغیرہ شامل ہیں۔
•    جہل کے لشکر میں کفر، ناامیدی، ظلم، حسد، تکبر، بے صبری، حرص، جھوٹ، بخل، ریاکاری، نفرت، عناد، بدزبانی، غصہ، انتقام، سستی، بے حیائی وغیرہ شامل ہیں۔
یہ حدیث انسانی شخصیت کی تشکیل کے لیے ایک انتہائی جامع اور عمیق اخلاقی و فکری نقشہ فراہم کرتی ہے، جو فلسفہ، نفسیات اور اخلاقیات کے اسلامی تصور کو گہرائی سے بیان کرتی ہے۔ اس میں انسان کی دائمی جنگ کو عقل و جہل کے مابین کشمکش کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ نجات اور کامیابی صرف عقل کے لشکر سے وابستہ ہے۔
حدیث کا متن از اصول کافی:
سماعہ کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا تھا اور دیگر اصحاب بھی تشریف فرما تھے کہ عقل و جہل کا ذکر ہمارے درمیان آگیا حضرتؑ نے فرمایا: عقل و جہل کے لشکروں کو پہچانتے ہو، سماعہ نے کہا : آپ پر قربان جاؤں ، جو کچھ آپ نے سکھایا ہے صرف وہی جانتا ہوں۔ حضرتؑ نے فرمایا: خدائے عزو جل نے عقل کو اپنے نور سے عرش کی دائیں جانب خلق کیا ہے اور یہ پہلی روحانی مخلوق ہے پس اُس سے فرمایا آگے آ وہ آگے آئی پھر فرمایا : پیچھے ہوجا، وہ پیچھے ہوگئی، تب خداتبارک و تعالیٰ نے فرمایا:تجھ کو میں نے عظمت کے ساتھ خلق کیا ہے اور تم کو تمام خلقت پر فوقیت دی ہے اُس کے بعد جہل کو تاریک اور نمکین پانی سے خلق کیا اور فرمایا : پیچھے ہو وہ پیچھا ہوا، پھر فرمایاآگے آ، مگر وہ آگے نہ آیا، پھر فرمایا: حکم عدولی کی تم نے؟ اور اُس کو اپنی رحمت سے دور کردیا پھر عقل کو لشکر عطا فرمائے۔ جہل نے جب خدا کا یہ کرم دیکھا تو عقل سے دشمنی کرنے لگا  اور دل گرفتگی سے خدا سے عرض کی پروردگار یہ میری طرح کی مخلوق ہے اُس کو تو نے خلق کیا اور اتنا عظیم مقام دیا میں اس کی ضد ہوں اور اس کے مقابلے کی توانائی نہیں رکھتا جس طرح تو نے اُسے لشکر دیے ہیں مجھے عطافرما۔ خدا نے فرمایا : ہاں میں دونگا لیکن اگر اس کے بعد تم نےنا فرمانی کی تو تجھ کو اور تیرے لشکروں کو اپنی رحمت سے دور کردوں گا۔ پس اس کے بعد جہل کو بھی لشکرعطا ہوئے۔
 ان لشکروں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
عقل کے لشکر/ جہل و نادانی کے لشکر
1۔  نیکی جو عقل کی وزیر ہے/ بدی جو کہ جہل کی وزیر ہے
2۔  ایمان،یقین/ کفر،جھٹلانا
3۔حق کی تصدیق/ انکارِ حق
4۔ امیدواری/ ناامیدی
5۔ عدل و انصاف/ ظلم و ستم
6۔ خوشنودی حاصل کرنا/ غصہ و قہر دکھانا
7۔شکرگذار ی/ ناشکری
8۔رحمت خدا کا انتظار کرنا/ رحمت خدا سے مایوس ہونا
9۔ خدا پر توکل و اعتماد کرنا/ حرص و بے صبری  دکھانا
10۔نرم دلی/ سخت دلی
11۔مہربانی کرنا/ کینہ و تعصب دکھانا
12۔دانش و فہم/ نادانی
13۔شعور/ حماقت
14۔ پاکدامنی/ بے باکی اور رسوائی
15۔ نیک کرداری/ بدکرداری
16۔ پارسائی/ دنیا پرستی
17۔مروت کرنا/ گستاخی
18۔ تواضع و فروتنی/ خودپسندی
19۔ آرام و سکون/ جلد بازی
20۔دانشمندی/ بے عقلی
21۔ خاموشی/ بے تکا بولنا
22۔ رام ہونا/ لڑائی جھگڑا کرنا
23۔ حق تسلیم کرنا/ سچائی کو جھٹلانا
24۔صبر و ضبط/ بیتابی
25۔ بے نیازی/ نیاز مندی
26۔ چشم پوشی-درگذر/ انتقام لینا
27۔ یاد رکھنا/ بے خبر رہنا
28۔ دوسروں کی نیکیوں کو یاد رکھنا/ فراموشی
29۔ محبت و عطوفت رکھنا/ دور رہنا/کنارہ کرنا
30۔ قناعت/ حرص
31۔ کوششوںمیں شریک کرنا/  خودسری
32۔ دوستی/  دشمنی
33۔ وعدہ وفا کرنا/ وعدہ خلافی
34۔ فرماں برداری/ نافرمانی
35۔ سر جھکانا/ بلندی کی طرف بھاگنا
36۔ سلامتی/ بیماری
37۔دوستی/ نفرت /و دوری
38۔ سچ بولنا/ جھوٹ بولنا
39۔ حق،دُرستگی/ باطل،نادُرستگی
40۔ امانت/ خیانت
41۔ پاکدلی/ ناپاک دل
42۔ ہُشیاری/ سستی
43۔ زیرکی/ بے وقوفی
44۔ شناسائی/ ناآشنائی
45۔ رازداری/ راز فاش کردینا
46۔ )حاضر و غائب میں )ایک راستہ پر رہنا/ راستے بدلتے رہنا
47۔ پردہ پوشی/ افشاء کردینا
48۔ نماز قائم کرنا/ نماز کو ضائع کرنا
49۔ روزہ رکھنا/ روزہ خوری کرنا
50۔ جہاد کرنا/ جدوجہد سے فرار کرنا
51۔ حج کرنا/ حج کا وعدہ پورا نہ کرنا
52۔ بات کو سمجھنا/ سخن چینی کرنا-الفاظ پکڑنا
53۔ والدین کے ساتھ نیکی کرنا/ والدین کے ساتھ برائی کرنا
54۔ حق و حقیقت کے ساتھ رہنا/ ریا کاری کرنا
55۔ نیکی و شائستہ روش اپنانا/ برائی اور ناشائستہ رہنا
56۔ خود کو چھپانا/ خود کو ظاہر کرنا
57۔ تقیہ کرنا/ لاپروائی دکھانا
58۔ انصاف/ باطل کی طرفداری
59۔ خود کو ہمسر  کیلئے آراستہ کرنا/ خود کو زنا کیلئے آمادہ کرنا
60۔ پاکیزگی/ پلیدی
61۔ حیاء/ بے حیائی
62۔ میانہ روی/ حد سے تجاوز کرنا
63۔ آسودگی/ خود کو زحمت میں مبتلا کرنا
64۔ آسانی/ سخت گیری
65۔ برکت/ بے برکتی
66۔ تندرستی/ بیماری
67۔ اعتدال/ حد سے زیادہ طلب کرنا
68۔ حق کا ساتھ دینا/ ہوس پرست ہونا
69۔ اہمیت دینا اور متانت اپنانا/ بے عزتی
70۔ سعادت مندی/ شقاوت
71۔ توبہ میں جلدی کرنا/ گناہ پر اصرار
72۔ معافی طلب کرنا/ بلاوجہ کا لالچ کرنا
73۔ دقت و ہوشیاری/ سہل انگاری
74۔ دعا کرنا/ سر جھٹک دینا
75۔ خوشی و شادابی/ سستی و کاہلی
76۔ خوش دلی/ غمگین رہنا
77۔ حق سے مانوس ہونا/ حق سے کنارہ کشی کرنا
78۔ سخاوت/ بخل و کنجوسی کرنا
بس یہ صفات جس میں عقل کے لشکر سوائے پیغمبر اور اُن کے جانشین یا ایسے مومن جس کو خدا نے آزما لیا ہے جمع نہیں ہوسکتے لیکن دوسرے افراد کوشش کرکے جہل کے لشکروں سے نکل سکتے ہیں اُس وقت یہ لوگ پیغمبروں اور اُن کے اوصیا کے ساتھ ہونگے یہ سعادت سوائے عقل کے لشکر کی شناخت اور جہل کے لشکروں سے دوری اختیار کیے بغیر نہیں ہوسکتی۔ خدا ہم سب کو اپنی فرمانبرداری اور ثواب حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حدیث کی مختصر توضیح
جہل سے مراد یہاں شیطان ہے یا وہ قوت ہے جو انسان کو برائی اور گناہ کی طرف لیجاتی ہے اور وسوسہ پیدا کرتی ہے اور یہ صفات فرشتوں میں نہیں ہوتی اسی وجہ سے اس حدیث میں بیان کیے گئے لشکر وں کو پہچان کر انسان فرشتوں سے افضل ہوسکتا ہے  عقل سے مراد وہ قوت ہے جو انسان کو برائیوں سے بچاتی ہے اور نیکیوں کے راستے کی ترغیب دیتی ہے ان دونوں لشکروں کے درمیان تمام زندگی معرکہ آرائی رہتی ہے اور اس میں فتح یابی انسان کی آخرت کی سعادت کو متعین کرتی ہے کہ کون غالب رہا۔
______________
حوالہ: كلينى، محمد بن يعقوب - مصطفوى، سيد جواد، أصول الكافي / ترجمه مصطفوى، 4جلد، كتاب فروشى علميه اسلاميه - تهران، چاپ: اول، 1369 ش

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک