"حدیث کی مفصل تشریح"
عقل و جہل کے لشکر
"حدیث کی مفصل تشریح"
پہلے ۳ لشکر
عقل کے لشکر:
• نیکی جو عقل کی وزیر ہے
• ایمان / یقین
• حق کی تصدیق
جہل کے لشکر:
• بدی جو کہ جہل کی وزیر ہے
• کفر / جھٹلانا
• انکارِ حق
سماجیات کے تناظر میں نیکی وہ خمیر ہے جو انسان کو اجتماعی خیر کا حامل بناتی ہے۔ نیکی صرف ذاتی عبادت یا فردی عمل نہیں بلکہ دوسروں کی بہتری، اصلاح، امانت، صدق و صفا اور ہمدردی جیسے اوصاف کو تحریک دیتی ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں نیکی کو مرکزی اخلاقی معیار مانا جائے، وہاں باہمی اعتماد، خدمت کا جذبہ، اور اجتماعی انصاف پیدا ہوتا ہے۔ ایمان یا یقین انسان کو باطنی سکون، اصول پسندی، اور امید کا مرکز عطا کرتا ہے، جو سماج میں مایوسی اور بے یقینی کے خلاف ڈھال بن جاتا ہے۔ حق کی تصدیق وہ شعور ہے جو معاشرتی اصولوں اور سچائی کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ جب فرد حق کو تسلیم کرتا ہے تو جھوٹ، فریب، اور استحصال کے دروازے خود بخود بند ہو جاتے ہیں۔
اس کے برخلاف، اگر معاشرے میں بدی غالب ہو جائے تو وہ نظام بگاڑ اور ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔ بدی ایک ایسی ذہنیت کو جنم دیتی ہے جو دوسروں کے حقوق پامال کرتی ہے، اور اجتماع کو جنگل کا قانون بنا دیتی ہے۔ کفر یا حق کے انکار کا مطلب صرف دینی انکار نہیں، بلکہ وہ ہر سچائی، عدل اور فطری اصول کا انکار ہے۔ ایسے افراد اور معاشرے سچ کو بے قیمت سمجھ کر ذاتی مفاد کو معیار بنا لیتے ہیں۔ انکارِ حق انسان کو خودفریبی، ہٹ دھرمی اور ضد کی طرف لے جاتا ہے، جس سے وہ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
سیاسیات میں نیکی کا اصول قیادت کو اصولی، شفاف، اور عوام دوست بناتا ہے۔ وہ سیاست جو نیکی پر مبنی ہو، وہ صرف طاقت کی سیاست نہیں بلکہ خدمت کی سیاست ہوتی ہے۔ ایمان قیادت کو مفاد پرستی سے نکال کر ذمہ داری کی طرف لے جاتا ہے، اور عوام میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ حق کی تصدیق قیادت کو ضمیر، قانون، اور مشورے کے تابع رکھتی ہے، جس سے نظام عدل قائم ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، اگر سیاست بدی کا آلہ بن جائے تو وہ کرپشن، استبداد، اور جھوٹ کی سیاست بن جاتی ہے۔ کفر اور انکارِ حق کی سیاست قانون شکنی، فریب کاری اور جبر کا راستہ کھول دیتی ہے۔ ایسی قیادت جھوٹے وعدے کرتی ہے، حق گوئی سے ڈرتی ہے، اور ہر سچ کو دبانے کی کوشش کرتی ہے، جس کا نتیجہ سیاسی تباہی اور عوامی بے چینی کی صورت میں نکلتا ہے۔
تعلیم و تربیت میں نیکی کا عنصر اساتذہ اور طلبہ دونوں میں اخلاقی مضبوطی، کردار کی پختگی، اور دوسروں کی بھلائی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ نیک فطرت استاد صرف مضمون نہیں سکھاتا، وہ کردار بناتا ہے۔ ایمان طلبہ کو خود اعتمادی، مقصد کی وضاحت، اور مسلسل ترقی کے شعور سے ہمکنار کرتا ہے۔ حق کی تصدیق علمی امانت داری، تحقیقی دیانت، اور سچ کے لیے جرات پیدا کرتی ہے۔
اس کے برعکس جب تعلیمی ادارے بدی کا شکار ہو جائیں تو وہاں چالاکی، مقابلہ بازی، اور صرف اسناد کا حصول باقی رہ جاتا ہے۔ کفر یا حق کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ طالبعلم نہ سچ کے لیے کھڑا ہوتا ہے نہ غلطی سے سیکھتا ہے، بلکہ صرف دنیاوی فائدے کی خاطر ہر اصول کو قربان کرتا ہے۔ ایسا طالبعلم علم رکھ کر بھی عقل سے خالی ہوتا ہے، کیونکہ اس کی بنیاد سچائی کے انکار پر ہے۔
یہ تینوں صفات — نیکی، ایمان، اور تصدیقِ حق — عقل کو روشن، پائیدار اور عملی بصیرت عطا کرتی ہیں۔ ان سے عقل کا معیار صرف سمجھنے کا نہیں بلکہ سچ پر عمل کرنے کا بن جاتا ہے۔ جبکہ بدی، کفر، اور انکارِ حق عقل کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ عقل نہ صرف اندھی ہو جاتی ہے بلکہ خود کو فریب دینے لگتی ہے۔ انسان ظاہری چالاکی میں ڈوبا ہوتا ہے مگر اس کی روح تاریکی میں گم ہو جاتی ہے۔ یہی عقل کی تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔
دوسرے ۳ لشکر
عقل کے لشکر:
• امیدواری
• عدل و انصاف
• خوشنودی حاصل کرنا
جہل کے لشکر:
• ناامیدی
• ظلم و ستم
• غصہ و قہر دکھانا
سماجیات کے تناظر میں امیدواری ایک ایسا اخلاقی و فطری محرک ہے جو انسان کو مایوسی، جمود اور محرومی سے نکال کر کوشش، بہتری اور ترقی کی طرف لے جاتا ہے۔ امید ایک ایسا اجتماعی جذبہ ہے جو قوموں کو بحران سے نکالتا، افراد کو اصلاح کی دعوت دیتا، اور سماجی روابط کو اعتماد کی فضا میں پروان چڑھاتا ہے۔ عدل و انصاف کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے؛ جب ہر فرد کو اس کا حق ملتا ہے تو حسد، بغض، اور دشمنی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں اور باہمی سکون، ترقی اور امن قائم ہوتا ہے۔ خوشنودی حاصل کرنا، یعنی دوسروں کو راضی رکھنا اور تعلقات میں نرمی و محبت اختیار کرنا، معاشرتی الفت، رواداری اور خدمت کی فضا قائم کرتا ہے۔
اس کے برعکس ناامیدی معاشرتی سرطان ہے جو افراد کو جیتے جی مردہ، مفعول، اور بے حس بنا دیتا ہے۔ ایسے افراد نہ خود کو بہتر بناتے ہیں، نہ معاشرے کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ ظلم و ستم، طاقت اور اختیار کے غلط استعمال سے کمزوروں کو کچلتا، معاشرتی توازن بگاڑتا اور اجتماعی نفرت و انتقام کو جنم دیتا ہے۔ غصہ و قہر اجتماعی گفتگو اور تعامل کو تباہ کر دیتا ہے؛ وہ دلوں میں دراڑ ڈالتا، خاندانوں کو توڑتا، اور طبقات میں دشمنی پیدا کرتا ہے۔
سیاسیات میں امیدواری کا مطلب یہ ہے کہ قیادت عوام کو بہتر مستقبل کا شعور دے، اور مایوسی کے بجائے حل اور عزم کا بیانیہ پیش کرے۔ ایسی قیادت عوامی جدوجہد کی رہنما بنتی ہے، نہ کہ انہیں شکست خوردہ بنانے والی۔ عدل و انصاف پر مبنی نظام حکومت عوام کے حقوق کی ضامن بنتی ہے اور اختلافات کو پُرامن طریقے سے سلجھاتی ہے۔ خوشنودی حاصل کرنا قیادت کو عوام کے دکھ درد، مطالبات اور جذبات سے جوڑتا ہے، اور سیاست کو ذاتی اقتدار کے بجائے خدمت کا ذریعہ بناتا ہے۔
جہالت کے لشکر کی صفات سیاسی نظام میں انتشار، جبر، اور تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ ناامیدی پھیلانے والی قیادت صرف شکایتوں، خوف، اور منفی بیانیے پر زندہ رہتی ہے۔ ظلم و ستم کا نظام ایک طرف استبداد کو مضبوط کرتا ہے، دوسری طرف عوام کو بغاوت پر آمادہ کرتا ہے۔ غصے اور قہر پر مبنی قیادت توازن کھو بیٹھتی ہے، فیصلے جزباتی اور خطرناک ہو جاتے ہیں، جس سے داخلی و خارجی نقصان یقینی ہو جاتا ہے۔
تعلیم و تربیت میں امید وہ بنیاد ہے جو طلبہ کو خود اعتمادی، محنت، اور صبر کی طرف راغب کرتی ہے۔ ایک پرامید طالبعلم نہ صرف خود بہتر بنتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی تحریک بن سکتا ہے۔ عدل و انصاف تعلیمی ادارے میں میرٹ، شفافیت، اور مساوات کو رواج دیتا ہے، جس سے ماحول مثبت اور خوشگوار ہوتا ہے۔ خوشنودی پیدا کرنے والا استاد یا طالبعلم دوسروں کی عزت، احساسات اور ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے، جس سے باہمی ربط اور تعلیمی کارکردگی دونوں بہتر ہوتے ہیں۔
جہل کی صفات تعلیمی اداروں میں مایوسی، بداعتمادی اور خوف پھیلاتی ہیں۔ ناامید طالبعلم نہ سیکھتا ہے، نہ سوال کرتا ہے، نہ آگے بڑھتا ہے۔ ظلم کی صورت میں استاد یا نظام اگر کسی کے ساتھ ناانصافی کرے تو ادارہ علمی نہیں بلکہ نفسیاتی جیل بن جاتا ہے۔ غصے والا رویہ تعلیم کو زہر آلود کر دیتا ہے؛ طلبہ خوفزدہ، استاد مغرور، اور سیکھنے کا ماحول غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔
یہ تینوں صفات عقل کو اس کے فطری وظائف کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ امید عقل کو متحرک، بیدار، اور جستجو سے بھر دیتی ہے۔ عدل عقل کو متوازن، منصف، اور معتدل بناتا ہے۔ خوشنودی کا جذبہ عقل کو ہمدرد، لطیف، اور اجتماعی شعور سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ ان کے برعکس ناامیدی عقل کو مفلوج کر دیتی ہے، ظلم عقل کو خودغرض اور تباہ کن بناتا ہے، اور غصہ عقل کو بے قابو، اندھا، اور محدود کر دیتا ہے۔ یوں جہالت کی صفات عقل کو ختم نہیں کرتیں، بلکہ بگاڑ دیتی ہیں؛ حتیٰ کہ انسان اپنی عقل سے خود اپنا دشمن بن جاتا ہے۔
تیسرے ۳ لشکر
عقل کے لشکر:
• شکرگزاری
• رحمتِ خدا کا انتظار کرنا
• خدا پر توکل و اعتماد کرنا
جہل کے لشکر:
• ناشکری
• رحمتِ خدا سے مایوس ہونا
• حرص و بے صبری دکھانا
سماجیات کے تناظر میں شکرگزاری ایک ایسا رویہ ہے جو معاشرے میں مثبت سوچ، اعترافِ نعمت، اور باہمی احترام کو فروغ دیتا ہے۔ جو فرد شکر گزار ہوتا ہے وہ نہ صرف رب کی نعمتوں کو پہچانتا ہے بلکہ انسانوں کی محنت و خدمت کی بھی قدر کرتا ہے، جس سے معاشرتی تعلقات میں اعتدال، عزت، اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ رحمتِ خدا کا انتظار ایک امید افزا رویہ ہے جو فرد کو مشکل حالات میں بھی نرم دلی، معافی اور صبر کی راہ پر قائم رکھتا ہے۔ خدا پر توکل اور اعتماد، انسان کو اندرونی سکون، استقلال اور معاشرتی استحکام عطا کرتا ہے، کیونکہ وہ دوسروں کی خوشنودی کے بجائے اصولوں پر جیتا ہے۔
اس کے برخلاف ناشکری ایک ایسا سماجی زہر ہے جو فرد کو ہمیشہ محرومی، مایوسی اور شکایت میں مبتلا رکھتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف انسان کو دوسروں سے بدگمان کرتا ہے بلکہ معاشرے میں احساسِ کمتری، حسد، اور جمود کو جنم دیتا ہے۔ خدا کی رحمت سے مایوسی معاشرتی بےحسی اور بداعتمادی کو بڑھاتی ہے، اور لوگ ایک دوسرے کو معاف کرنے یا سہارا دینے کے بجائے کٹ کر جینے لگتے ہیں۔ حرص اور بے صبری معاشرتی افراتفری، جھگڑے اور خود غرضی کو ہوا دیتی ہے، جو باہمی قربانی اور ایثار کے کلچر کو ختم کر دیتی ہے۔
سیاسیات میں شکرگزاری کا مطلب یہ ہے کہ قیادت نعمتِ اقتدار کو ذمہ داری سمجھے، اپنی حد پہچانے اور عوام کے اعتماد و قربانی کا اعتراف کرے۔ ایسی قیادت قومی وسائل کی قدر کرتی ہے اور عوام کو ناشکر نہیں، باخبر اور بامقصد بناتی ہے۔ خدا کی رحمت کا انتظار سیاسی تدبیر میں حکمت، استقامت، اور اصلاح پر یقین پیدا کرتا ہے۔ وہ رہنما جو توکل رکھتا ہے، فیصلوں میں اصول کو مقدم رکھتا ہے اور وقتی دباؤ یا مفاد پرستی سے بچتا ہے۔
جہالت کے سیاسی مظاہر میں ناشکری قیادت اپنے اقتدار کو دائمی حق سمجھتی ہے، عوام کو نظرانداز کرتی ہے، اور اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر جانتی ہے۔ مایوسی پھیلانے والی سیاست، عوام کو بے بس، خوف زدہ، اور مایوس کرتی ہے، جس سے جبر اور انارکی کو راہ ملتی ہے۔ حرص اور بے صبری کے ساتھ فیصلہ کرنے والی حکومتیں جلد بازی، شور، اور وقتی کامیابی کے فریب میں مبتلا رہتی ہیں اور قومی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔
تعلیم و تربیت کے میدان میں شکرگزار طالبعلم اور استاد ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جس میں علم کو نعمت، استاد کو محسن، اور سیکھنے کو سعادت سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ سیکھنے کے شوق، عاجزی، اور باہمی قدر کو فروغ دیتا ہے۔ خدا کی رحمت پر اعتماد رکھنے والا طالبعلم ناکامیوں سے گھبراتا نہیں، بلکہ اصلاح، دُعا اور محنت سے دوبارہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ توکل رکھنے والا سیکھنے کو اللہ کی رضا کے لیے عمل سمجھتا ہے، اس کا ہدف صرف دنیاوی کامیابی نہیں بلکہ رضا و فلاح بھی ہوتی ہے۔
اس کے برعکس ناشکر طالبعلم ہر چیز سے غیر مطمئن ہوتا ہے، وہ سیکھنے کے مواقع کو ضائع کرتا ہے اور دوسروں سے موازنہ میں جلتا رہتا ہے۔ رحمتِ خدا سے مایوس شخص نہ سیکھنے کی ہمت رکھتا ہے، نہ سدھار کی خواہش۔ حرص اور بے صبری اسے جلد نتائج کے لیے غلط ذرائع، نقل، اور شارٹ کٹس کی طرف مائل کرتی ہے، جو علم کی روح اور مقصد دونوں کو مسخ کر دیتے ہیں۔
یہ تین عقل کی صفات — شکر، رحمت کا یقین، اور توکل — عقل کو گہرائی، سکون، اور وقارعطا کرتی ہیں۔ یہ صفات عقل کو جذبات سے بلند کر کے اصولوں سے جوڑتی ہیں۔ عقل جب شکر گزار ہو، رب کی رحمت کی طالب ہو اور توکل سے مزین ہو، تو وہ نہ صرف دنیا بلکہ آخرت کو بھی بہتر سمجھ کرعمل کرتی ہے۔ اس کے برعکس جہالت کی یہ صفات عقل کو مایوسی، اضطراب اور مفاد پرستی میں جکڑ دیتی ہیں، جہاں وہ ہر اصول کو قربان کر کے صرف فوری خواہشات کے پیچھے بھاگتی ہے، اور یوں عقل خود اپنی روشنی کھو بیٹھتی ہے۔
چوتھے۳ لشکر
عقل کے لشکر:
• نرم دلی
• مہربانی کرنا
• دانش و فہم
جہل کے لشکر:
• سخت دلی
• کینہ و تعصب دکھانا
• نادانی
نرم دلی ایک ایسا وصف ہے جو معاشرتی تعاملات میں قربت، برداشت، اور اصلاح کے دروازے کھولتا ہے۔ یہ صفت فرد کو دوسرے کے دکھ، رنج اور محرومی کو محسوس کرنے کے قابل بناتی ہے، جس سے وہ سماج کے ہر فرد سے ربط و ہمدردی رکھتا ہے۔ نرم دل معاشرے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں، تعلقات کو ٹوٹنے سے بچاتے ہیں، اور رحم کو اجتماعی قدر بناتے ہیں۔ مہربانی کا عمل ان جذبات کا عملی اظہار ہے؛ یہ دوسروں پر وقت، محبت، اور مواقع نچھاور کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے، جو معاشرتی ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔ دانش و فہم وہ داخلی روشنی ہے جو جذبات، واقعات اور حالات کی تہہ تک دیکھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ یہ عقل کی چمک ہے جو انسان کو رائے، فیصلہ، اور عمل میں درست راہ دکھاتی ہے۔
اس کے برعکس سخت دلی معاشرے کو ٹکراؤ، بےحسی اور ظلم کی طرف دھکیلتی ہے۔ جب فرد یا قوم سخت دل ہو جائے تو معافی، ہمدردی، یا دوسروں کے حالات کو سمجھنے کی جگہ ختم ہو جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں ظلم کو طاقت، اور سختی کو اصول سمجھا جانے لگتا ہے۔ کینہ اور تعصب وہ ذہنی زہر ہے جو فرد کو انصاف اور حق سے کاٹ کر نفرت، انتقام اور جانب داری کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ یہ جذبات نہ صرف سماجی تفریق پیدا کرتے ہیں بلکہ معاشرتی ٹوٹ پھوٹ اور بداعتمادی کو جنم دیتے ہیں۔ نادانی عقل کی وہ صورت ہے جس میں انسان جاننے کی خواہش، سوال کرنے کی جرأت، اور سچ قبول کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ نادان معاشرے جلد افواہوں، سطحی جذبات اور غلط قیادت کے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں۔
سیاسی میدان میں نرم دلی حکمران کو رعایا کا خیر خواہ، شفیق اور اصلاح پسند بناتی ہے۔ ایسا رہنما اپنے اقتدار کو رعایا کی خدمت کے لیے استعمال کرتا ہے، اور عوام کی فلاح کو اپنی طاقت سمجھتا ہے۔ مہربانی سیاسی معاملات میں انسان دوستی، شفافیت اور وسعتِ قلبی کو فروغ دیتی ہے۔ دانش و فہم ایک قیادت کو جذبات سے بالاتر ہو کر حکمت سے فیصلے کرنے کی صلاحیت دیتا ہے، جس سے سیاست مقاصد سے جڑتی ہے، اور شخصی مفادات سے کٹتی ہے۔
اس کے برعکس سخت دلی والی حکومت عوام کے جذبات، ضروریات، اور مسائل کو نظر انداز کرتی ہے۔ وہ قانون کو ظلم میں بدل دیتی ہے، اور رعایا کو اپنے لیے بوجھ سمجھتی ہے۔ کینہ اور تعصب پر مبنی سیاست نفرت انگیزی، لسانی و فرقہ وارانہ تقسیم، اور ذاتی انتقام کی راہ ہموار کرتی ہے۔ نادان قیادت عوام کو فریب دیتی ہے، غیر ضروری جنگوں یا فضول پالیسیوں میں الجھاتی ہے، اور قوم کے سرمایے کو تباہ کر دیتی ہے۔
تعلیم و تربیت کے دائرے میں اگر استاد اور ادارے نرم دلی اور مہربانی سے طلبہ سے پیش آئیں تو طالبعلم اعتماد، محبت اور عزت کے ماحول میں پروان چڑھتا ہے۔ وہ صرف معلومات نہیں سیکھتا، بلکہ انسانیت، خدمت، اور کردار کو بھی جذب کر لیتا ہے۔ دانش و فہم وہ صفت ہے جو طالبعلم کو سطحیت سے نکال کر تفکر، تحقیق، اور نتیجہ اخذ کرنے کی قوت دیتی ہے۔
اس کے برعکس سخت دل استاد طالبعلم کو ذلت، خوف، اور احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ تعصب سے متاثرہ تعلیمی نظام ذہنوں کو آزاد نہیں بلکہ قید کرتا ہے، اور تحقیق کے بجائے تقلید پیدا کرتا ہے۔ نادانی تعلیم کو فقط رٹا، نقل، یا محض سند کا ذریعہ بنا دیتی ہے، جو انسان کو نہ خود شناس بناتی ہے نہ معاشرے کا مفید فرد۔
یہ تین عقل کی صفات — نرم دلی، مہربانی، اور دانش — عقل کو وسعت، اثر، اور عملی حکمت عطا کرتی ہیں۔ ان سے عقل فقط سوچنے والا دماغ نہیں بلکہ محسوس کرنے والا دل اور عمل کرنے والا ارادہ بن جاتی ہے۔ جبکہ جہل کی ضدی صفات عقل کی روشنی کو سرد کر دیتی ہیں، انسان کو تعصب، غصے اور ناپختگی میں جکڑ دیتی ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی عقل سے محروم تو نہیں ہوتا، لیکن اس کا غلط استعمال کر کے خود اور دوسروں کے لیے فتنہ بن جاتا ہے۔
پانچویں ۳ لشکر
عقل کے لشکر:
• شعور
• پاکدامنی
• نیک کرداری
جہل کے لشکر:
• حماقت
• بے باکی اور رسوائی
• بدکرداری
سماجیات کے تناظر میں شعور ایک ایسا وصف ہے جو فرد کو اپنے مقام، کردار، اور ذمہ داری سے آگاہ کرتا ہے۔ باشعور فرد اپنے وجود اور معاشرے دونوں کو سمجھتا ہے، اور ان کے درمیان تعلق کو محسوس کر کے اصلاح و فلاح کی کوشش کرتا ہے۔ پاکدامنی معاشرتی طہارت کی علامت ہے؛ یہ فرد کی عفت، عزتِ نفس، اور اخلاقی وقار کی حفاظت کرتی ہے۔ نیک کرداری سماج کو ایسے افراد مہیا کرتی ہے جو سچائی، امانت، دیانت اور عدل کے عملی پیکر ہوتے ہیں، اور جو اجتماعی بھروسے اور تعاون کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
اس کے برعکس حماقت وہ جہالت ہے جو انسان کو انجام سے غافل کر کے فوری خواہشات، رواجی جاہلیت اور جذباتی رویوں میں گرفتار رکھتی ہے۔ ایسا شخص فیصلے جذبات سے کرتا ہے اور نتائج کی پروا نہیں کرتا، جو معاشرتی نقصان اور فساد کا باعث بنتا ہے۔ بے باکی اور رسوائی وہ رویہ ہے جس میں انسان حیا، وقار، اور سماجی حدود کو توڑ دیتا ہے، جس سے معاشرتی نظامِ اخلاقیت درہم برہم ہو جاتا ہے۔ بدکرداری ایک ایسا اجتماعی زہر ہے جو باہمی اعتبار کو کھا جاتا ہے، رشتے ناپاک کرتا ہے، اور معاشرہ منافقت و فسق میں ڈوب جاتا ہے۔
سیاسیات میں شعور ایک ایسی قیادت کی بنیاد رکھتا ہے جو قوم کے ماضی، حال اور مستقبل کو سمجھتی ہو، اور فیصلے جذبات نہیں بلکہ حقیقت، تدبیر اور علم کی بنیاد پر کرتی ہو۔ پاکدامنی قیادت میں ذاتی کرپشن، فحاشی، یا بے حیائی سے بچاؤ پیدا کرتی ہے، اور اس کی مثال عوام کے لیے معیار بن جاتی ہے۔ نیک کردار حکمران عوام میں اعتماد، اخلاقی استحکام، اور شفافیت کی روح پھونکتا ہے، جس سے ایک پائیدار اور قابلِ فخر ریاست وجود میں آتی ہے۔
اس کے برخلاف حماقت سے بھرپور قیادت قوموں کو جذباتی نعروں، دشمنیوں، اور غیر دانشمندانہ فیصلوں کے سپرد کر دیتی ہے۔ ایسی قیادت عارضی شہرت اور پاپولزم کے پیچھے بھاگتی ہے، جس کا انجام قومی بحران ہوتا ہے۔ بے باکی اور رسوائی والی قیادت عوام میں بے حیائی، گستاخی، اور ننگِ انسانیت کو فروغ دیتی ہے۔ بدکردار قیادت کرپشن، جھوٹ، اور مکر کو اقتدار کی بنیاد بناتی ہے، جس سے ادارے برباد اور قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔
تعلیم و تربیت کے میدان میں شعور طلبہ کو سیکھنے کا مقصد، معاشرتی خدمت، اور ذاتی اصلاح کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ شعور مند طالبعلم صرف امتحان کے لیے نہیں، بلکہ زندگی کے لیے سیکھتا ہے۔ پاکدامنی تعلیمی ادارے میں احترام، حیا، اور تحفظ کا ماحول پیدا کرتی ہے، جہاں استاد اور طالبعلم دونوں باوقار اور محفوظ رہتے ہیں۔ نیک کرداری وہ صفت ہے جو تعلیم کو عمل میں ڈھالتی ہے، اور شخصیت کو مکمل بناتی ہے۔
جہالت کی ضدی صفات تعلیمی نظام کو کھوکھلا، فاسد، اور حیوانی جبلتوں کے تابع بنا دیتی ہیں۔ حماقت سے بھرپور طالبعلم بغیر فہم کے نقل، شارٹ کٹس اور صرف نمبرات کی دوڑ میں الجھا رہتا ہے۔ بے باکی کا مطلب یہ ہے کہ ادارے میں استاد کی عزت، جنسی تحفظ، اور اخلاقی حدود پامال ہو جائیں، جس سے علمی ماحول غیر محفوظ بن جاتا ہے۔ بدکرداری وہ زہر ہے جو علم کے اثر کو مٹا دیتا ہے، اور طالبعلم کو معاشرتی بوجھ بنا دیتا ہے۔
یہ تین صفات — شعور، پاکدامنی، اور نیک کرداری — عقل کو بصیرت، تحفظ، اور اخلاقی طاقت عطا کرتی ہیں۔ ان سے عقل محض معلوماتی ذہانت نہیں بلکہ اخلاقی رہنما بن جاتی ہے۔ جبکہ ان کے برعکس حماقت، بے باکی اور بدکرداری عقل کو یا تو لاعلمی میں ڈبو دیتی ہیں، یا اسے حیوانی خواہشات کا غلام بنا کر تباہ کر دیتی ہیں۔ عقل کا جوہر تبھی بچتا ہے جب وہ شعور، عفت اور عملِ صالح سے مزین ہو، ورنہ وہ عقل، فتنہ بن کر رہ جاتی ہے۔

