ثقلین
"ثقلین" یعنی دو بھاری اور قیمتی چیزیں ۔ یہ دونوں سرچشمے ہدایت درحقیقت ایک دوسرے کے لیے تکمیل کا درجہ رکھتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
"قَالَ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ إِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ"
(بے شک میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم ان دونوں کو تھامے رہو گے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت۔ اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچیں)۔
یہ حدیث ثقلین انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے امت کو قرآن کریم اور اپنے اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کی تلقین فرمائی ہے۔ ان دونوں کو آپ ﷺ نے "ثقلین" یعنی دو بھاری اور قیمتی چیزیں قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں دونوں کے درمیان جدائی نہ ہونے کی ضمانت دی گئی ہے، جو ان کے ہم آہنگ ہونے اور دونوں کی اتباع کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
اس روشنی میں اصولی مسائل کا جائزہ لینا درحقیقت ان پائدار بنیادوں کی دریافت ہے جو ہمارے عقائد، عبادات اور معاملات کی تشکیل کرتی ہیں۔ قرآن کریم ہمیں کلیات اور ابدی اصول عطا کرتا ہے، جبکہ اہلِ بیت علیہم السلام کی تعلیمات ان کلیات کی عملی تفسیر اور ان کے تطبیقی پہلوؤں کو واضح کرتی ہیں۔
ان دو نورانی مآخذ کی رہنمائی میں ہم مندرجہ ذیل اصولی مسائل پر غور کر سکتے ہیں:
توحید اور معرفت الٰہی: خالق و مخلوق کے رشتے کی حقیقت اور انسان کی ذمہ داریوں کا تعین۔
نبوت و امامت: ہدایت کے تسلسل اور اس کے تحفظ کے نظام کا ادراک۔
معاد و آخرت: انسانی زندگی کے مقصد اور اخروی حساب و کتاب کی حقیقت۔
عدل الٰہی: نظامِ کائنات میں عدل اور انسانی اختیار کی نوعیت۔
اخلاق و احکام: فرد اور معاشرے کی تعمیر و تربیت کے لازمی اصول۔
یہ علمی سفر نہ صرف ہماری عقلوں کو منور کرتا ہے بلکہ ہمارے دلوں کو بھی روشن کرتا ہے، اور ہمیں حقیقی کامیابی کی راہ پر گامزن ہونے کا سامان مہیا کرتا ہے۔

