امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

نماز میں آمین کہنے کے مسئلے میں علمائے امامیہ کا موقف

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

نماز میں  آمین کہنے کے مسئلے میں علمائے امامیہ کا موقف 
’’ آمین ‘‘کے بارے میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام   کے موقف کاذکر  سابق الذکر  روایات میں ہوچکا ۔ ان ائمہ کی پیروی  کرتے ہوئے  ان کے پیروکار علماء نے بھی یہی موقف  اپنا لیا ہے ۔ ذیل میں ہم بڑے بڑے  شیعہ علماء کی آراء پر روشنی ڈالیں گے ۔ یہ آراء  رسول اللہﷺ  کی سنتِ  شریفہ سے  ہماہنگ  ہیں ۔ 
۱۔ شیخ مفید 
شیخ مفید علیہ  الرحمہ  نماز کی سنتوں کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : اس کے بعدنمازی "سورہ  حمد "اور "قل ھو اللہ احد "پڑھے گا اور ان کے آغاز میں" بسم اللہ الرحمن الرحیم"  پڑھے گا ۔ پھر کہتے  ہیں : اسے چاہیے  کہ" سورہ حمد" پڑھنے کے بعد آمین نہ پڑھے ۔
(دیکھئے  شیخ مفید  کی المقنعہ ۱۴/۱۰۴۔)
۲۔سید مرتضی علم الہدیٰ
فرماتے ہیں:مکتب امامیہ کا  خاص طریقہ یہ ہے کہ وہ سورہ  حمد کے بعد  آمین نہیں پڑھتے  جبکہ باقی ( مذاہب کے ) فقہاء اسے سنت قرار دیتے ہیں ۔
(المحلی ،ج۳،ص ۲۶۴،اللباب ،ج۱،ص ۶۹،الام،ج۱،ص ۱۰۹،المجموع ،ج۳،ص ۳۶۸، الفتاوی الہندیہ ،ج۱،ص ۷۴، ابن قدامہ کی المغنی ،ج۱،ص ۵۲۸، شرح فتح القدیر ،ج۱،ص ۲۵۶، مغنی المحتاج،ج۱ ،ص ۱۶۱، اختلاف العلماء ،ص۴۱ اور سنن  ترمذی ،ج۲،ص ۲۸۔)
ہمارے موقف کی دلیل ہمارے فرقے کا   اجماع  ہے کہ نمازمیں یہ لفظ بدعت ہے اور اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے نیز اسے نہ پڑھنا احتیاط کا بھی تقاضا  ہے
 کیو نکہ  اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو شخص اسے نہ پڑھے  وہ نہ گنہگار ہے اور نہ اس کی نماز ٹوٹتی ہے ۔ 

ص ۲۳
اس کے بر خلاف اس کے پڑھنے کے بارے  میں اختلاف واقع ہوا ہے۔  چنانچہ  امامیہ مکتب فکر  کا موقف  ہے کہ اس سے نماز ٹوٹتی  ہے ۔ پس احتیاط یہ ہے کہ اسے  ترک کیا جائے ۔ 
علاوہ ازیں اس بات میں بھی کوئی اختلاف  نہیں کہ یہ لفظ قرآٓن میں مذکور نہیں اور نہ ہی کوئی الگ دعا  ااور تسبیح ہے ۔ بنابریں  اسے زبان  پر لانا قرآن  اور تسبیح کے دائرے  سے خارج ( زائد )  باتوں کو زبان پر  لا نے کے مترادف  ہے جس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔ 
ممکن  ہے کوئی یہ دعویٰ  کرے کہ یہ اس سے سابق  دعا ء یعنی 
"اهدنا الصراط المستقیم"
( اے اللہ ہمیں سیدھے رستے پر چلا ) کی قبولیت کی دعا ہے ۔ 
 اس کا جواب یہ ہے کہ  دعا وہ ہوتی ہے جو دعا کی نیت سے  پڑھی جائے  جبکہ نماز ی دعا کی نیت سے نہیں  بلکہ تلاوت قرآن کی نیت سے  سورہ الحمد  پڑھتا ہے ۔ اسے دعا کی نیت کے بغیر  پڑھنا جائز ہے جبکہ مخالف نظریہ  یہ کہتا ہے کہ ہر نمازی کے لئے آمین پڑھنا  مسنون  ہے خواہ وہ  دعا کی نیت نہ رکھتا ہو ۔ پس جب یہ ثابت ہے کہ دعا کی نیت کے بغیر  اسے پڑھنا  باطل ہے تو ہر جگہ یہی بات  ثابت ہوگی کیونکہ  کوئی شخص ان دونوں  کے درمیان فرق  کا  قائل  نہیں ہے ۔
(دیکھئے سید  مرتضی علم الہدی کی الانتصار ،ص ۱۴۴۔)
۳۔شیخ طوسی 
طوسی فرماتے ہیں : آمین کہنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے خواہ کوئی اسے آہستہ پڑھے  یا بلند آواز  سے نیز  حمد  کے آخر میں  پڑھے  یا  آغاز میں  پڑھے  نیز اسے پڑھنے  والا امام  ہو یا ماموم۔  بہر حال اس سے نماز ٹوٹتی  ہے ۔ 
وہ مزید کہتے ہیں : ہماری دلیل فرقہ امامیہ  کا اجماع ہے ۔ ان کے  درمیان اس بات میں  کوئی اختلاف نہیں  کہ اس سے نماز ٹوٹ  جاتی ہے ۔ علاوہ ازیں اس بات میں بھی ( مسلمانوں کے درمیان ) کوئی اختلاف نہیں کہ جو کوئی اسے  نہ پڑھے اس کی نماز صحیح  اور درست  ہے۔ 
(دیکھئے شیخ محمد حسن طوسی کی الخلاف ،ج۱،ص ۳۳۲،۳۳۴۔)
وہ المبسوط  میں فرماتے ہیں : نماز میں جن چیزوں کو ترک کرنا چاہیے  وہ دو طرح کی ہیں ۔ ایک وہ  جنہیں ترک کرنا واجب ہے  اور دوسری وہ  جنہیں ترک کرنا  مسنون ہے ۔ چودہ چیزوں کو ترک کرنا  واجب ہے ۔ ہاتھوں کو باندھنا ممنوع ہے اور آمین کہنا بھی ممنوع ہے خواہ حمد کے درمیان ہو یا اس کے آخر میں ۔ 
(دیکھئے : شیخ طوسی کی  المبسوط ، ج۱،ص ۱۱۷۔)

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک