فاطمہ زہرا (علیہما السلام)کے گھر پر ہونے والے حملے
فاطمہ زہرا (علیہما السلام)کے گھر پر ہونے والے حملے
ترجمہ : ابو یعسوب الدین العاقلی
سوال: برائے مہربانی امیرالمؤمنین اور فاطمہ زہرا (علیہما السلام) کے گھر پر ہونے والے حملے اور فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے بارے میں حوالہ جات فراہم کریں۔
جواب گروہ:
"سایت حضرت ولی عصر (عج)" کےتحقیقی اور گروہ علمی کے حضرات جو اشکالات، اعتراضات اور شبہات کے جوابات دیتے ہیں انہوں نے میں اہل عامہ(سنیوں) کے معتبر روایات کو جمع کیا گیا ہے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
۱ـ امام جوینی، جو ذہبی کے استاد ہیں اور جن کا انتقال ۷۳۰ ہجری میں ہوا، رسول خدا (ﷺ)سے یوں نقل کرتے ہیں: ایک دن رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) تشریف فرما تھے کہ حسن بن علی (علیہ السلام) اندر آئے۔ جب پیامبر (ﷺ) کی نظر ان پر پڑی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ پھر حسین بن علی (علیہ السلام) اندر آئے اور پیامبر اکرم (ﷺ) نے پھر گریہ فرمایا۔ ان دونوں کے بعد فاطمہ اور علی (علیہما السلام) تشریف لائے تو رسول اسلام (ﷺ) نے انہیں دیکھ کر پھر گریہ فرمایا۔
جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے فاطمہ (علیہا السلام) پر کیوں گریہ فرمایا؟
تو آپ نے فرمایا:
«وَ أَنِّی لَمَّا رَأَیْتُهَا ذَکَرْتُ مَا یُصْنَعُ بِهَا بَعْدِی»
(جب میں نے فاطمہ (علیہا السلام) کو دیکھا تو وہ منظر یاد آگیا جو میرے بعد اس پر بیتنے والا ہے)
«کَأَنِّی بِهَا وَ قَدْ دَخَلَ الذُّلُّ فِی بَیْتِهَا وَ انْتُهِکَتْ حُرْمَتُهَا وَ غُصِبَتْ حَقُّهَا وَ مُنِعَتْ إِرْثَهَا وَ کُسِرَ جَنْبُهَا [وَ کُسِرَتْ جَنْبَتُهَا] وَ أَسْقَطَتْ جَنِینَهَا»
(گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں کہ اس کے گھر میں ذلت داخل ہو چکی ہے، اس کی حرمت پامال ہو چکی ہے، اس کا حق غصب کر لیا گیا ہے، اسے اس کے ورثے سے محروم کر دیا گیا ہے، اس کا پہلو توڑ دیا گیا ہے اور اس کا حمل سقط کر دیا گیا ہے)
«وَ هِیَ تُنَادِی یَا مُحَمَّدَاهْ فَلَا تُجَابُ وَ تَسْتَغِیثُ فَلَا تُغَاثُ …»
(اور وہ پکار رہی ہیں: اے (میرے) محمد (ﷺ)! لیکن انہیں جواب نہیں دیا جاتا، وہ فریاد رسی چاہتی ہیں لیکن ان کی مدد نہیں کی جاتی...)
«فَتَکُونُ أَوَّلَ مَنْ یَلْحَقُنِی مِنْ أَهْلِ بَیْتِی فَتَقْدَمُ عَلَیَّ مَحْزُونَةً مَکْرُوبَةً مَغْمُومَةً مَغْصُوبَةً مَقْتُولَةً»
(پس وہ میرے اہل بیت میں سے پہلی شخص ہوں گی جو مجھ سے جا ملے گی، اور وہ میرے پاس غمگین، مصیبت زدہ، مغموم، حق تلفی کا شکار اور مقتولہ حالت میں آئے گی)۔
اور میں (امام جوینی) یہاں کہتا ہوں: خدایا!
ہر اس شخص پر لعنت کر جو اس پر ظلم کرے، ہر اس شخص کو سزا دے جس نے اس کا حق غصب کیا، ہر اس شخص کو ذلیل کر جس نے اسے ذلیل کیا، اور ہر اس شخص کو جہنم میں ہمیشہ رکھ جس نے اس کے پہلو پر ضرب لگا کر اس کے بچے کو سقط کیا، اور فرشتے آمین کہیں۔
(فرائد السمطین، ج۲، ص ۳۴ و ۳۵)
ذہبی نے امام جوینی کے حالات زندگی میں اور ان کی توثیق میں کہا ہے:
«وَ کَانَ شَدِیدَ الْاعْتِنَاءِ بِالرِّوَایَةِ وَ تَحْصِیلِ الْأَجْزَاءِ حَسَنَ الْقِرَاءَةِ مَلِیحَ الشَّکْلِ مَهِیبًا دِینًا صَالِحًا»
(اور وہ روایات اور حدیث کے اجزاء کو حاصل کرنے کی بہت زیادہ پرواہ کرتے تھے، خوش الحان، خوش شکل، باوقار، دیندار اور صالح انسان تھے)۔
(تذکرۃ الحفاظ، ج ۴، ص ۱۵۰۵- ۱۵۰۶، رقم ۲۴)
۲- ابن ابی شیبہ جو امام بخاری کے استاد ہیں اور ۲۳۹ ہجری میں وفات پائے ہیں، نقل کرتے ہیں:
«أَنَّهُ حِینَ بُویِعَ لِأَبِي بَکْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ(ﷺ)کَانَ عَلِيٌّ وَ الزُّبَیْرُ یَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنتِ رَسُولِ اللَّهِ(ﷺ)فَیُشَاوِرُونَهَا وَ یَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ»
(جب رسول خدا (ﷺ) کے بعد ابوبکر سے بیعت لی گئی، تو علی اور زبیر حضرت فاطمہ (س) کے گھر آتے تھے اور اپنے معاملے میں ان سے مشورہ کرتے تھے)
«فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ»
(جب یہ بات عمر بن خطاب کو پہنچی تو وہ حضرت فاطمہ (س) کے گھر پہنچ گئے)
«فَقَالَ : یَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ (صلی الله علیه و آله) ! وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبُّ إِلَیْنَا مِنْ أَبِیکِ ، وَ مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبُّ إِلَیْنَا بَعْدَ أَبِیکِ مِنْکِ،»
(انہوں نے کہا: اے رسول خدا (ﷺ) کی بیٹی! خدا کی قسم ہمارے نزدیک آپ کے والد سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ہے، اور آپ کے والد کے بعد ہمارے نزدیک آپ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ہے!)
«وَأَیْمُ اللَّهِ مَا ذَاکَ بِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَکِ ، إِنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْ یُحْرَقَ عَلَیْهِمُ الْبَیْتُ»
(اور خدا کی قسم! یہ محبت مجھے اس سے نہیں روک سکتی کہ اگر یہ گروہ آپ کے پاس جمع ہوا تو میں انہیں حکم دوں کہ اس گھر کو ان پر آگ لگا دیں!)
«قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا»
(جب عمر گھر سے نکل گئے تو علی اور زبیر واپس آئے)
«فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَ قَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَیُحْرِقُنَّ عَلَیْکُمُ الْبَیْتَ وَ أَیْمُ اللَّهِ لَیَمْضِیَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَیْهِ … .
(حضرت فاطمہ (س) نے علی (ع) اور زبیر سے فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ عمر میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے خدا کی قسم کھائی ہے کہ اگر تم دوبارہ جمع ہوئے تو وہ تم پر گھر کو آگ لگا دیں گے۔ خدا کی قسم! وہ اپنی قسم ضرور پوری کریں گے)
(المصنف، ج۸، ص۵۷۲)
۳- علامہ بلاذری (متوفی ۲۷۰ ہجری) نقل کرتے ہیں:
«إِنَّ أَبَا بَکْرٍ أَرْسَلَ إِلَى عَلِيٍّ یُرِیدُ الْبَیْعَةَ، فَلَمْ یُبَایِعْ»،
(ابوبکر نے علی (ع) کے پاس بیعت کا پیغام بھیجا، لیکن انہوں نے بیعت سے انکار کر دیا)
«فَجَاءَ عُمَرٌ وَ مَعَهُ فَتِیلَةٌ. فَتَلَقَّتَهُ فَاطِمَةُ عَلَى الْبَابِ»
(عمر، علی (ع) کے پاس آگ کا انگارہ لے کر فاطمہ (س) کے گھر آیا، تو فاطمہ (س) کا دروازے پر ان سے سامنا ہوا)
«فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! أَتَرَاکَ مُحَرِّقًا عَلَیَّ بَابِي؟!»
(حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: اے ابن خطاب! کیا تم میرے گھر کو مجھ پر آگ لگانے والے ہو؟!)
«قَالَ: نَعَمْ، وَ ذَلِكَ أَقْوَى فِیمَا جَاءَ بِهِ أَبُوکِ»
(عمر نے کہا: ہاں، اور یہ کام اس چیز سے کہیں زیادہ مضبوط ہے جو تمہارے والد لے کر آئے تھے!)
(انساب الاشراف، بلاذری، ج۱، ص۵۸۶)
یہ روایت اہل سنت کے نزدیک سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہے۔
۴- ابن قتیبہ دینوری (متوفی ۲۷۰ ہجری قمری) کہتے ہیں:
«وَ إِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ تَفَقَّدَ قَوْمًا تَخَلَّفُوا عَنْ بَیْعَتِهِ عِنْدَ عَلِیٍّ کَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ، فَبَعَثَ إِلَیْهِمْ عُمَرَ، فَجَاءَ فَنَادَاهُمْ وَهُمْ فِی دَارِ عَلِیٍّ، فَأَبَوْا أَنْ یَخْرُجُوا فَدَعَا بِالْحَطَبِ وَقَالَ: وَالَّذِی نَفْسُ عُمَرَ بِیَدِهِ، لَتَخْرُجُنَّ أَوْ لَأُحْرِقَنَّهَا عَلَى مَنْ فِیهَا، فَقِیلَ لَهُ: یَا أَبَا حَفْصٍ، إِنَّ فِیهَا فَاطِمَةَ؟ فَقَالَ: وَ إِنْ»
(بے شک ابوبکر نے ان لوگوں کی طرف توجہ دی جو ان کی بیعت سے پیچھے رہ گئے تھے اور علی (کرم اللہ وجہہ) کے پاس جمع تھے۔ پس انہوں نے عمر کو ان کی طرف بھیجا۔ عمر آئے اور انہیں پکارا درآنحالیکہ وہ علی کے گھر میں تھے۔ انہوں نے باہر نکلنے سے انکار کر دیا۔ تو عمر نے لکڑی منگائی اور کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے، تم ضرور باہر نکل آؤ گے ورنہ میں اس گھر کو اس کے اندر والوں سمیت جلاؤں گا۔ ان سے کہا گیا: اے اباحفص! اس گھر میں فاطمہ (ہیں)! تو انہوں نے کہا: چاہے فاطمہ ہی کیوں نہ ہوں!!!)
«فِی رِوَایَةٍ أَنَّ عُمَرَ جَاءَ إِلَى بَیْتِ فَاطِمَةَ فِی رِجَالٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَ نَفَرٍ قَلِیلٍ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ»
(ایک روایت میں ہے کہ عمر انصار کے کئی آدمیوں اور مہاجرین کے تھوڑے سے گروہ کے ساتھ فاطمہ کے گھر آیا تھا۔)
(الامامة والسیاسة – ابن قتیبہ الدینوری، تحقیق الشیری – ج ۱ – ص ۳۰)
۵- "ابن قتیبہ" اضافہ کرتے ہیں: ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے ان کی آواز سنی تو بلند آواز سے فرمایا:
«یَا أَبَتِ یَا رَسُولَ اللَّهِ(ﷺ)مَاذَا لَقِینَا بَعْدَکَ مِنِ ابْنِ الْخَطَّابِ وَ ابْنِ أَبِی قُحَافَةَ …»
(اے میرے پیارے باپ! اے اللہ کے رسول (صلى الله علیه و آله و سلم)! آپ کے بعد ہم نے عمر بن خطاب اور ابوبکر بن ابی قحافہ سے کیا کیا مصیبتیں نہیں اٹھائیں!!!)
(الامامة و السیاسة، ابن قتیبہ، ج۱، ص ۳۰)
۶- مسعودی شافعی (متوفی ۳۴۵ ہجری) کہتے ہیں:
«فَهَجَمُوا عَلَیْهِ وَ أَحْرَقُوا بَابَهُ، وَ اسْتَخْرَجُوهُ مِنْهُ کُرْهًا، وَ ضَغَطُوا سَیِّدَةَ النِّسَاءِ بِالْبَابِ حَتَّى أَسْقَطَتْ مُحْسِنًا»
(تو وہ اس (علی) پر ٹوٹ پڑے، اس کے دروازے کو جلا دیا، اور اسے زبردستی گھر سے نکال لائے، اور انہوں نے سیدۃ النساء (فاطمہ) کو دروازے سے اس قدر دبایا کہ انہوں نے محسن کو سقط کر دیا۔)
(اثبات الوصیة، ص۱۴۳)
توجہ:
وہابی علماء جو اس صریح بیان کے سامنے کہنے کے لیے کوئی بات نہیں رکھتے، مسعودی کو شیعہ بتاتے ہیں، حالانکہ نقی الدین سبکی نے اپنی کتاب "الطبقات الشافعیة" میں اس کا نام شافعی علماء کی صف میں ذکر کیا ہے۔
(الطبقات الشافعیة ج۳، ص ۴۵۶ اور ۴۵۷، رقم ۲۲۵، دار احیاء الکتب العربیہ کی اشاعت)*
۷- ابن عبد ربہ (متوفی ۴۶۳ ہجری) کہتے ہیں:
«الَّذِینَ تَخَلَّفُوا عَنْ بَیْعَةِ أَبِی بَکْرٍ: عَلِیٌّ وَ الْعَبَّاسُ، وَ الزُّبَیْرُ، وَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ»
(جو لوگ ابوبکر سے بیعت کرنے سے پیچھے رہ گئے وہ تھے: علی، عباس، زبیر اور سعد بن عبادہ۔)
«فَأَمَّا عَلِیٌّ وَ الْعَبَّاسُ وَ الزُّبَیْرُ فَقَعَدُوا فِی بَیْتِ فَاطِمَةَ»
(رہے علی، عباس اور زبیر، تو وہ فاطمہ کے گھر میں بیٹھ گئے تھے۔)
«حَتَّى بَعَثَ إِلَیْهِمْ أَبُو بَکْرٍ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لِیُخْرِجَهُمْ مِنْ بَیْتِ فَاطِمَةَ وَ قَالَ لَهُ: إِنْ أَبَوْا فَقَاتِلْهُمْ»
(یہاں تک کہ ابوبکر نے عمر بن خطاب کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ انہیں فاطمہ کے گھر سے باہر نکال لائے، اور اس سے کہا: اگر وہ انکار کریں تو ان سے لڑائی کر۔)
«فَأَقْبَلَ عُمَرُ بِقَبَسٍ مِنْ نَارٍ عَلَى أَنْ یُضْرِمَ عَلَیْهِمُ الدَّارَ فَلَقِیَتْهُ»
(تو عمر آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تاکہ ان کا گھر ان پر آگ لگا دے، اسے (راستے میں) فاطمہ ملیں۔)
«فَاطِمَةَ فَقَالَتْ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! أَجِئْتَ لِتُحْرِقَ دَارَنَا؟»
(فاطمہ (علیہا السلام) نے کہا: اے ابن خطاب! کیا تم ہمارا گھر جلانے آئے ہو؟)
«قَالَ: نَعَمْ أَوْ تَدْخُلُوا فِیمَا دَخَلَتْ فِیهِ الْأُمَّةُ فَخَرَجَ عَلِیٌّ حَتَّى دَخَلَ عَلَى أَبِی بَکْرٍ»
(اس (عمر) نے کہا: ہاں، مگر یہ کہ تم اس (چیز) میں داخل ہو جاؤ جس میں امت داخل ہو چکی ہے (یعنی ابوبکر کی بیعت)۔
تو علی باہر نکلے یہاں تک کہ ابوبکر کے پاس پہنچ گئے۔)
۸- ابن عبدالبر قرطبی متوفی ۴۶۳ھ کہتے ہیں:
«فَقَالَتْ لَهُمْ: إِنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَ حَلَفَ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيَفْعَلَنَّ وَ إِيْمِ اللَّهِ لَيُفِينَّ بِهَا»
(پس فاطمہ (علیہا السلام) نے ان سے فرمایا: عمر میرے پاس آیا ہے اور قسم کھائی ہے کہ اگر تم (بارِ دیگر) لوٹے تو وہ ضرور (تم سے) ایسا کرے گا۔ اور خدا کی قسم! وہ ضرور اپنی قسم پوری کرے گا)
(الاستیعاب، ابن عبدالبر قرطبی، ج۳، ص۹۷۵؛ المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۵۷۲)
۹- مقاتل بن عطیہ (۵۰۵ھ):
«إِنَّ أَبَا بَكْرٍ بَعْدَ مَا أَخَذَ الْبَيْعَةَ لِنَفْسِهِ مِنَ النَّاسِ بِالرُّعْبِ وَ السَّيْفِ وَ الْقُوَّةِ أَرْسَلَ عُمَرَ، وَ قُنْفُذًا وَ جَمَاعَةً إِلَى دَارِ عَلِيٍّ وَ فَاطِمَةَ (عَلَيْهِمَا السَّلَامُ) وَ جَمَعَ عُمَرُ الْحَطَبَ عَلَى دَارِ فَاطِمَةَ (عَلَيْهَا السَّلَامُ) وَ أَحْرَقَ بَابَ الدَّارِ»
(جب ابوبکر نے لوگوں سے خوف و ہراس، تلوار اور زور کے ذریعے اپنی بیعت لی تو اس نے عمر، قنفذ اور ایک جماعت کو علی اور فاطمہ (علیہما السلام) کے گھر بھیجا، اور عمر نے فاطمہ (علیہا السلام) کے گھر پر لکڑیاں جمع کیں اور دروازہ آگ لگا دی)
(الامامۃ و الخلافۃ، مقاتل بن عطیہ، ص۱۶۰ و ۱۶۱، جو ڈاکٹر حامد داؤد، جامعہ عین الشمس قاہرہ کے مقدمے کے ساتھ شائع ہوئی، بیروت، مؤسسۃ البلاغ)
۱۰- ابی الفداء متوفی ۷۳۲ھ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:
«ثُمَّ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ بَعَثَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ إِلَى عَلِيٍّ وَ مَنْ مَعَهُ لِيُخْرِجَهُمْ مِنْ بَيْتِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا»
(پھر ابوبکر نے عمر بن خطاب کو علی اور ان کے ساتھیوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ انہیں فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے گھر سے باہر نکالیں)
«وَ قَالَ إِنْ أَبَوْا فَقَاتِلْهُمْ»
(اور کہا: اگر انہوں نے انکار کیا تو ان سے جنگ کرو)
«فَأَقْبَلَ عُمَرُ بِشَيْءٍ مِنْ نَارٍ عَلَى أَنْ يُضْرِمَ الدَّارَ»
(پس عمر کچھ آگ لے کر آیا تاکہ گھر کو آگ لگا دے)
«فَلَقِيَتْهُ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَ قَالَتْ إِلَى أَيْنَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ»
(پس فاطمہ (رضی اللہ عنہا) اس سے ملیں اور بولیں: کہاں جا رہے ہو اے خطاب کے بیٹے؟!) أَجِئْتَ لِتُحْرِقَ دَارَنَا (کیا تم ہمارا گھر جلانے آئے ہو؟)»
«قَالَ نَعَمْ أَوْ تَدْخُلُوا فِيمَا دَخَلَ فِيهِ الْأُمَّةُ»
(اس نے کہا: ہاں! یا پھر تم وہی کرو جس میں (دیگر) امت داخل ہو گئی ہے)
(تاریخ ابی الفداء، ج۱، ص۱۵۶، طبع مصر بالمطبعۃ الحسینیۃ)
۱۱- صفدی متوفی ۷۶۴ھ کہتے ہیں:
«إِنَّ عُمَرَ ضَرَبَ بَطْنَ فَاطِمَةَ يَوْمَ الْبَيْعَةِ حَتَّى أَلْقَتِ الْمُحَسِّنَ مِنْ بَطْنِهَا.»
(عمر نے بیعت کے دن فاطمہ (علیہا السلام) کے پیٹ پر ضرب لگائی یہاں تک کہ انہوں نے اپنے بطن سے محسن کو گرایا (یعنی اسقاط ہو گیا))
(الوافی بالوفیات، ج۵، ص۳۴۷)
۱۲- ابن حجر عسقلانی (۸۵۲ھ) اور شمس الدین ذہبی (۷۴۸ھ):
«إِنَّ عُمَرَ رَفَسَ فَاطِمَةَ حَتَّى أَسْقَطَتْ بِمُحَسِّنٍ.»
(عمر نے فاطمہ (علیہا السلام) کو لات ماری یہاں تک کہ ان کا محسن ساقط ہو گیا)
(لسان المیزان، ج۱، ص۲۶۸)
۱۳- ابو ولید محمد بن شحنہ حنفی (۸۱۷ھ):
«ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ جَاءَ إِلَى بَيْتِ عَلِيٍّ لِيُحْرِقَهُ عَلَى مَنْ فِيهِ فَلَقِيَتْهُ فَاطِمَةُ (عَلَيْهَا السَّلَامُ). فَقَالَ: ادْخُلُوا فِيمَا دَخَلَتْ فِيهِ الْأُمَّةُ»
(پھر عمر علی (علیہ السلام) کے گھر آیا تاکہ اسے اس میں موجود لوگوں سمیت جلا دے، پس فاطمہ (علیہا السلام) اس سے ملیں۔ عمر نے (ان سے) کہا: اس (معاملے) میں داخل ہو جاؤ جس میں (دیگر) امت داخل ہو گئی ہے)
(روضۃ المناظر فی اخبار الاولین والآخرین (حاشیہ الکامل لابن الاثیر)، ج۱۱، ص۱۱۳ (ط الحلبی، الافندی سنہ ۱۳۰۱))
۱۴- محمد حافظ ابراہیم (۱۲۸۷-۱۳۵۱ھ):
مصری شاعر جو شاعرِ نیل کے نام سے مشہور ہے، اس کا ایک دیوان ہے جو دس جلدوں میں چھپا ہے۔
اس نے اپنی مشہور قصیدہ "قصیدہ عُمَریَّہ" میں عمر بن خطاب کے اعمال میں سے ایک یہ بیان کیا ہے کہ وہ علی (علیہ السلام) کے گھر آیا اور کہا: اگر تم باہر نہ آئے اور ابوبکر کے ساتھ بیعت نہ کی تو میں گھر کو آگ لگا دوں گا، چاہے پیغمبر کی بیٹی اس میں موجود ہی کیوں نہ ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے اپنا یہ قصیدہ ایک بڑے اجتماع میں پڑھا اور حاضرین نے نہ صرف اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ اس کی تعریف کی اور اسے تمغہٴ افتخار بھی دیا!!!
وہ اس قصیدے میں کہتا ہے:
"وَقَوْلَةً لِعَلِيٍّ قَالَهَا عُمَرُ
أَكْرَمْ بِسَامِعِهَا أَعْظَمْ بِمُلْقِيهَا
حَرَّقْتُ دَارَكَ لَا أُبْقِي عَلَيْكِ بِهَا
إِنْ لَمْ تُبَايِعْ وَبِنْتَ الْمُصْطَفَى فِيهَا
مَا كَانَ غَيْرُ أَبِي حَفْصٍ بِقَائِلِهَا
أَمَامَ فَارِسِ عَدْنَانَ وَحَامِيهَا"
اور وہ بات جو عمر نے حضرت علی سے کہی، کیسےکریم سننے والے (علی) اور کیسےعظیم کہنے والے (عمر) کے لیے ہے؟!
اس نے کہا: اگر تم بیعت نہ کرو گے تو میں تمہارے گھر کو آگ لگا دوں گا اور اس میں کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا، چاہے پیغمبر مصطفیٰ ﷺ کی بیٹی اس میں موجود ہو۔
ابو حفص (عمر) کے سوا کسی میں یہ جرأت نہ تھی کہ عدنان کے شہسوار (حضرت علی علیہ السلام) اور ان کے محافظ کے سامنے ایسا کلمہ کہہ سکے۔
(دیوان محمد حافظ ابراہیم، ج۱، ص۸۲)
شیعہ اور عامہ کے تاریخی متون سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول مکرم اسلام ﷺ کی رحلت کے کچھ ہی عرصہ بعد، عمر بن خطاب اہل بیت عصمت و طہارت کے دشمنوں کے ایک گروہ کے ساتھ وحی کے گھر پر ٹوٹ پڑے اور اسے آگ لگا دی۔
وہ بخوبی جانتے تھے کہ دو عالم کی سردار خاتون حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اس گھر میں موجود ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ یہ اہل جنت کے جوانوں، امام حسن اور امام حسین (علیہم السلام) کا گھر ہے۔ وہ جانتے تھے کہ پیغمبر اکرم ﷺ چھ ماہ تک مسجد میں نماز صبح کے لیے جاتے ہوئے ہر روز اس گھر کے پاس کھڑے ہوتے تھے اور نماز کی تلقین کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے اہل بیت کے طور پر خطاب فرماتے تھے۔ اور وہ بخوبی جانتے تھے کہ اہل بیت سے مراد وہی ہیں جنہیں خداوند متعال نے قرآن کریم میں پاکیزگی اور معصومیت کی صفت سے نوازا ہے۔
انہوں نے نہ صرف ایسے گھر کو آگ لگائی، بلکہ رسول مکرم اسلام کی واحد بیٹی کی بے حرمتی کی اور ان پر ایسے ضربے لگائے جن کی وجہ سے ان کے چھ ماہ کے بیٹے محسن شہید ہو گئے۔ اور آخرکار، وہ عظیم خاتون بھی اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد، اس واقعہ سے ہونے والی چوٹوں کی وجہ سے شہید ہو گئیں۔
مرحوم کلینی کتاب شریف کافی میں فرماتے ہیں:
"إِنَّ فَاطِمَةَ (علیها السلام) صِدِّیقَةٌ شَهِیدَة"
بے شک فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) صدیقہ اور شہیدہ ہیں۔
(الکافی، جلد ۱، صفحہ ۴۵۸ (دار الکتب) / جلد ۲، صفحہ ۴۸۹ (دار الحدیث))

