حضرت فاطمہ (علیہاالسلام) کا امام علی (علیہ السلام) نے دفاع کیا یا نہیں؟
حضرت فاطمہ (علیہاالسلام) کا امام علی (علیہ السلام) نے دفاع کیا یا نہیں؟
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ کے گھر پر عمر بن خطاب کے حملے کی تردید کے لیے جو وہابیوں کی طرف سے شبہات پیدا کئے جاتے ہیں، ان میں سے ایک اہم ترین شبہ یہ ہے کہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام جب ان کی زوجہ پر اتنا ظلم ہو رہا تو ان کا کا دفاع کیوں نہیں کیا؟ خاموش کیوں بیٹھے رہے؟
جبکے وہ بہادر ترین انسان تھے، اور شیر خدا تھے، پھر بھی آخر خاموش کیوں رہے؟
شیعہ علماء نے اس شبہ کے مختلف جوابات دئے ہیں جن کو ہم یہاں بیان کرتے ہیں.
حضرت فاطمہ
جناب عمر کے خلاف امام علی کا شدید رد عمل
پہلے مرحلے میں جب ان لوگوں نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ کیا تو امیر المومنین علیہ السلام نے شدید رد عمل دکھایا، جب وہ لوگ گھر میں داخل ہوے تو مولا علی علیہ السلام عمر کے سامنے آئے اور انہیں زمین پر پٹخ دیا، اور اسے چہرے اور ناک پر گھونسے مارے، مگر مولا نے جھگڑے کو جاری رکھنے سے گریز کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق صبر کیا، اور مولا علی علیہ السلام نے عمر کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اگر میں صبر سے کام نہ لیتا، اور خدا نے مجھے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا تو کسی کو میرے گھر میں داخل ہونے کی جرأت نہ ہوتی، مگر وہ امام جو ہمیشہ خدا تعالیٰ کے حکم کے تابع رہے، اس وقت بھی صبر کا دامن نہ چھوڑا اور عمر کو چھوڑ دیا.
سلیم بن قیس ہلالی کی روایت:
سلیم بن قیس ہلالی جو امیر المومنین علیہ السلام کے مخلص صحابیوں میں سے تھے نقل کرتے ہیں:
وَدَعَا عُمَرُ بِالنَّارِ فَأَضْرَمَهَا فِي الْبَابِ، ثُمَّ دَفَعَهُ فَدَخَلَ، فَاسْتَقْبَلَتْهُ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَامُ وَصَاحَتْ: يَا أَبَتَاهْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَرَفَعَ عُمَرُ السَّيْفَ وَهُوَ فِي غِمْدِهِ فَوَجَأَ بِهِ جَنْبَهَا، فَصَرَخَتْ: يَا أَبَتَاهْ! فَرَفَعَ السَّوْطَ فَضَرَبَ بِهِ ذِرَاعَهَا، فَنَادَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَبِئْسَ مَا خَلَّفَكَ أَبُوبَكْرٍ وَعُمَرُ! فَوَثَبَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَأَخَذَ بِتَلَابِيبِهِ ثُمَّ نَتَرَهُ فَصَرَعَهُ وَوَجَأَ أَنْفَهُ وَرَقَبَتَهُ، وَهَمَّ بِقَتْلِهِ، فَذَكَرَ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَمَا أَوْصَاهُ بِهِ، فَقَالَ: وَالَّذِي كَرَّمَ مُحَمَّدًا بِالنُّبُوَّةِ يَا ابْنَ صُهَاكَ! لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ وَعَهْدٌ عَهِدَهُ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لَعَلِمْتَ أَنَّكَ لَا تَدْخُلُ بَيْتِي.(۱)
عمر نے آگ منگوائی اور گھر کے دروازے پر بھڑکائی، اور پھر دروازے کو دھکیل کر زور سے کھولا اور اندر داخل ہو گیا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا حضرت عمر کے پاس آئیں اور فریاد کی: یا ابتاہ یا رسول اللہ! عمر نے اپنے نیام سے تلوار نکالی، اور حضرت فاطمہ کے پہلو میں ماری، بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے آہ و بکا کرتے ہوے فرمایا: یا ابتاہ! پھر عمر نے تازیانہ اٹھایا اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بازو پر مارا پھر آپ نے فریاد کی: یا رسول اللہ اے میرے بابا، ابوبکر و عمر نے آپ کے پسماندگان کے ساتھ کتنا برا سلوک کیا ہے!
امام علی علیہ السلام فورًا اٹھے اور عمر کی گردن کو پکڑ کر زور سے کھینچ کر زمین پر دے مارا، اور ناک اور گردن پر گھونسے مارے، اور عمر کو قتل کرنا چاہا، لیکن انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت یاد آئی اور فرمایا: اے صہاک کے بیٹے!
مجھے اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا، اگر تقدیر الٰہی اور وہ عہد نہ ہوتا جو نبی نے مجھ سے لیا تھا، تو تمھیں جرأت نہ ہوتی میرے گھر میں داخل ہونے کی.
اہل سنت کے بزرگ عالم آلوسی کی روایت:
إِنَّهُ لَمَّا وَجَبَ عَلَىَّ غَضَبُ عُمَرَ، وَأَضْرِمَ النَّارَ بِبَابِ عَلِيٍّ وَأَحْرَقَهُ، وَدَخَلَ، فَاسْتَقْبَلَتْهُ فَاطِمَةُ وَصَاحَتْ: يَا أَبَتَاهُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَرَفَعَ عُمَرُ السَّيْفَ وَهُوَ فِي غِمْدِهِ، فَوَجَأَ بِهِ جَنْبَهَا الْمُبَارَكَ، وَرَفَعَ السَّوْطَ فَضَرَبَ بِهِ ضَرْعَهَا، فَصَاحَتْ: يَا أَبَتَاهُ! فَأَخَذَ عَلِيٌّ بِتَبَابِيبَ عُمَرَ، وَهُزَّهُ، وَوَجَأَ أَنْفَهُ وَرَقَبَتَهُ.(۲)
حضرت عمر نے غصے میں آکر علی کے گھر کے دروازے کو آگ لگا دی، اور گھر میں داخل ہوئے، فاطمہ سلام اللہ علیہا عمر کے پاس آئیں، اور فریاد کی: یا ابتاہ، یا رسول اللہ! عمر نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور فاطمہ کے پہلو پر ماری، اور تازیانہ اٹھایا اور فاطمہ کے بازو پر مارا جناب فاطمہ نے فریاد کی: یا ابتاہ (یہ واقعہ دیکھ کر) علی علیہ السلام فورًاکھڑے ہوئے، اور عمر کی گردن پکڑ لی، اسے زور سے کھینچا اور زمین پر دے مارا، اور اس کی ناک اور گردن پر گھونسے مارے.
سلیم بن قیس ہلالی کی دوسری روایت:
حضرت ابوبکر کے حکم سے قنفذ ملعون اپنے ساتھیوں سمیت بغیر اجازت کے حضرت فاطمہ کے گھر میں گھس گیا، امام علی علیہ السلام اپنی تلوار کی طرف بڑھے، تو قنفذ ساتھیوں کے ہمراہ امام سے پہلے تلوار تک پہنچ گیا، ان کی تعداد زیادہ تھی، لہذا ان لوگوں نے امام پر غلبہ پایا، بعض نے اپنی تلواریں اٹھالی اور غلبہ پاکر امام کو پکڑ لیا، پھر ان کے گلے میں رسی ڈال کر لیکر جانے لگے، حضرت فاطمہ دروازے پر ان لوگوں کے درمیان رکاوٹ بنی، تو قنفذ ملعون نے ان کو تازیانہ مارا، جس کی وجہ سے حضرت فاطمہ بیہوش ہوگئی، اور پھر یہ ملعون امام کو قید کرکے لیکر گئے(۳)
امیر المومنین علیہ السلام کا تقدیر الہٰی کے سامنے تسلیم ہونا:
امیر المومنین علیہ السلام پوری زندگی خدا کے احکام کے پابند رہے، انہوں نے جب بھی کسی چیز پر رد عمل دکھایا تو وہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے احکام کی بناپر دکھایا، انہوں نے کبھی بھی اپنی ذاتی دشمنی، اور غصے کی وجہ سے رد عمل ظاہر نہیں کیا،
خدا اور اس کے رسول کی طرف سے امام علی علیہ السلام کو اِن بڑی مصیبتوں کے مقابلہ میں صبر کا حکم دیا گیا تھا، اس لئے آپ نے تلوار کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا
امام علی علیہ السلام کا وصیت رسول اللہ پر عمل کرنا:
سید مرحوم سید رضیالدین موسوی اپنی کتاب خصائص الائمہ علیهمالسّلام میں لکھتے ہیں:
أَبُو الْحَسَنِ فَقُلْتُ لِأَبِي فَمَا كَانَ بَعْدَ إِفَاقَتِهِ قَالَ دَخَلَ عَلَيْهِ النِّسَاءُ يَبْكِينَ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَضَجَّ النَّاسُ بِالْبَابِ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نُودِيَ أَيْنَ عَلِيٌّ فَأَقْبَلَ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَانْكَبَبْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا أَخِي إِنَّ الْقَوْمَ سَيَشْغَلُهُمْ عَنِّي مَا يَشْغَلُهُمْ فَإِنَّمَا مَثَلُكَ فِي الْأُمَّةِ مَثَلُ الْكَعْبَةِ نَصَبَهَا اللَّهُ لِلنَّاسِ عَلَماً وَإِنَّمَا تُؤْتَى مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَنَأْيٍ سَحِيقٍ وَلَا تَأْتِي وَإِنَّمَا أَنْتَ عَلَمُ الْهُدَى وَنُورُ الدِّينِ وَهُوَ نُورُ اللَّهِ يَا أَخِي وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ لَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْهِمْ بِالْوَعِيدِ بَعْدَ أَنْ أَخْبَرْتُهُمْ رَجُلًا رَجُلًا مَا افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّكَ وَأَلْزَمَهُمْ مِنْ طَاعَتِكَ وَكُلٌّ أَجَابَ وَسَلَّمَ إِلَيْكَ الْأَمْرَ وَإِنِّي لَأَعْلَمُ خِلَافَ قَوْلِهِمْ فَإِذَا قُبِضْتُ وَفَرَغْتَ مِنْ جَمِيعِ مَا أُوصِيكَ بِهِ وَغَيَّبْتَنِي فِي قَبْرِي فَالْزَمْ بَيْتَكَ وَاجْمَعِ الْقُرْآنَ عَلَى تَأْلِيفِهِ وَالْفَرَائِضَ وَالْأَحْكَامَ عَلَى تَنْزِيلِهِ ثُمَّ امْضِ ذَلِكَ عَلَى غَيْرِ لَائِمَةٍ عَلَى مَا أَمَرْتُكَ بِهِ وَعَلَيْكَ بِالصَّبْرِ عَلَى مَا يَنْزِلُ بِكَ وَبِهَا يَعْنِي بِفَاطِمَةَ حَتَّى تَقْدَمُوا عَلَيَّ.(۴)
امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد امام صادق علیہ السلام سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہوش میں آنے کے بعد کیا ہوا؟ انہوں نے فرمایا: عورتوں کے داخل ہونے کے بعد رونے کی آوازیں بلند ہوئی، مہاجرین اور انصار وہاں جمع ہوئے، اور اپنے غم کا اظہار کیا، امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اچانک رسول اللہ نے مجھے بلایا، میں اندر داخل ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گلے سے لگا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے میرے بھائی! یہ لوگ مجھے چھوڑ کر اپنی دنیا میں مصروف ہو جائیں گے، پس اس امت میں تمہاری مثال کعبہ جیسی ہے، جسے خدا تعالیٰ نے اپنا نشان بنایا ہے، تاکے دور دراز کے لوگ اس کے پاس آئیں… چنانچہ جب میں اس دنیا سے چلا جائوں، اور جو میں نے تمھیں وصیت کی ہے اس سے فارغ ہو جائو، اور جب مجھے قبر میں دفنا دو تو اپنے گھر بیٹھ کر قرآن مجید کو جیسے میں نے حکم دیا ہے، واجبات و احکام اور نزول کی ترتیب کے مطابق جمع کرنا، میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ یہ گروہ جو کچھ بھی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ کرے گا اس پر صبر کرنا، یہاں تک کہ مجھ سے آکر ملو.
حوالاجات:
۱: سلیم بن قیس ہلالي کتاب سلیم بن
قیس الهلالی، ص۱۵۰، ناشر: انتشارات
ہادی قم، الطبعۃ الاولی، ۱۴۰۵ھ
۲: آلوسی بغدادی، العلامۃ ابی الفضل
شہاب الدین سید محمود متوفای۱۲۷۰ه
روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم
والسبع المثانی، ج۲، ص۱۲۰، ناشر:دار
احیاء التراث العربی بیروت
۳:کتاب سلیم بن قیسم ہلالی، ص ۳۸۷
۴: الشریف الرضی، ابی الحسن محمد بن
الحسین بن موسی الموسوی البغدادی
متوفي۴۰۶ھ خصائص الائمۃ علیہمالسّلام،
ص۷۲، تحقیق وتعلیق: الدکتور محمدہادی
الامینی، ناشر:مجمع البحوث الاسلامیۃ
الآستانة الرضویۃ المقدسۃ مشہد ایران،
۱۴۰۶۶ھ
بحار الانوار، ج۲۲، ص۴۸۳، تحقیق:محمد
الباقر البہبودی، ناشر: مؤسسة الوفاء
بیروت لبنان، الطبعۃ:الثانیۃ المصححۃ،
۱۴۰۳ - ۱۹۸۳م

