علی علیہ السلام کی ابوبکر سے بیعت کا طریقہ
-
- شائع
-
- مؤلف:
- محمّد گوزل الْحَسَنِ الْآمِدِيُّ.ترجمہ: ابویعسوب الدین العاقلی
- ذرائع:
- رافد سائٹ
علی علیہ السلام کی ابوبکر سے بیعت کا طریقہ
تحریر:محمّد گوزل الْحَسَنِ الْآمِدِيُّ.
ترجمہ: ابویعسوب الدین العاقلی
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
قَالَ ابْنُ قُتَيْبَةَ: وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَفَقَّدَ قَوْمًا تَخَلَّفُوا عَنْ بَيْعَتِهِ عِنْدَ عَلِيٍّ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ عُمَرَ، فَجَاءَ فَنَادَاهُمْ وَهُمْ فِي دَارِ عَلِيٍّ، فَأَبَوْا أَنْ يَخْرُجُوا، فَدَعَا بِالْحَطَبِ
وَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرَ بِيَدِهِ لَتَخْرُجُنَّ أَوْ لَأُحْرِقَنَّهَا عَلَى مَنْ فِيهَا،
فَقِيلَ لَهُ: يَا أَبَا حَفْصٍ، إِنَّ فِيهَا فَاطِمَةَ؟ فَقَالَ: وَإِنْ!
ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ ابوبکر نے چند لوگوں کو تلاش کیا جو علی (کرّم اللہ وجہہ) کے پاس ہونے کی وجہ سے ان کی بیعت سے پیچھے رہ گئے تھے۔ پس انہوں نے عمر کو ان کے پاس بھیجا۔ وہ آیا اور انہیں پکارا، جبکہ وہ علی کے گھر میں تھے، تو انہوں نے باہر نکلنے سے انکار کر دیا۔ اس پر عمر نے لکڑی منگوائی اور کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے، تم ضرور باہر نکل آؤ گے ورنہ میں اس گھر کو اس کے اندر موجود لوگوں سمیت جلا دوں گا۔ ان سے کہا گیا: اے اباحفص، اس (گھر) میں فاطمہ (رضی اللہ عنہا) ہیں؟ تو انہوں نے کہا: چاہے وہ (فاطمہ) ہی کیوں نہ ہوں!
وَفِي الْعَقْدِ الْفَرِيدِ وَتَارِيخِ أَبِي الْفِدَاءِ: حَتَّى بَعَثَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، لِيُخْرِجُوهُمْ مِنْ بَيْتِ فَاطِمَةَ،
وَقَالَ لَهُ: إِنْ أَبَوْا فَقَاتِلْهُمْ، فَأَقْبَلَ بِقَبَسٍ مِنْ نَارٍ عَلَى أَنْ يُضْرِمَ عَلَيْهِمُ الدَّارَ،
فَلَقِيَتْهُ فَاطِمَةُ
فَقَالَتْ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَجِئْتَ لِتُحْرِقَ دَارَنَا؟
قَالَ: نَعَمْ، أَوْ تَدْخُلُوا فِيمَا دَخَلَتْ فِيهِ الْأُمَّةُ.
"العقد الفرید" اور "تاریخ ابی الفداء" میں ہے کہ یہاں تک کہ ابوبکر نے ان (تاخیر کرنے والوں) کے پاس عمر بن خطاب کو یہ کہہ کر بھیجا کہ وہ فاطمہ کے گھر سے نکل آئیں،
اور ان سے کہا: اگر وہ انکار کریں تو ان سے لڑائی کرو۔ پس وہ آگ کا ایک شعلہ لے کر اس نیت سے آیا کہ ان کا گھر آگ لگا دے گا۔ فاطمہ (علیہا السلام) اس سے جا ملیں
فاطمہ نے کہا: اے ابن خطاب، کیا تم ہمارا گھر جلانے آئے ہو؟
ابن خطاب نے کہا: ہاں، یا پھر تم وہ کام کرو جس میں (دوسری) امت داخل ہو چکی ہے (یعنی بیعت)۔
ثُمَّ قَالَ ابْنُ قُتَيْبَةَ: فَخَرَجُوا فَبَايَعُوا إِلَّا عَلِيًّا، فَإِنَّهُ زَعَمَ أَنَّهُ قَالَ: حَلَفْتُ أَنْ لَا أَخْرُجَ وَلَا أَضَعَ ثَوْبِي عَلَى عَاتِقِي حَتَّى أَجْمَعَ الْقُرْآنَ، فَوَقَفَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَلَى بَابِهَا، فَقَالَتْ: لَا عَهْدَ لِي بِقَوْمٍ حَضَرُوا أَسْوَأَ مُحْضَرًا مِنْكُمْ، تَرَكْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ جِنَازَةً بَيْنَ أَيْدِينَا وَقَطَعْتُمْ أَمْرَكُمْ بَيْنَكُمْ لَمْ تَسْتَأْمِرُونَا وَلَمْ تَرُدُّوا لَنَا حَقًّا.
پھر ابن قتیبہ کہتے ہیں: پس وہ (گھر سے) نکل آئے اور انہوں نے بیعت کر لی سوائے علی (ع) کے، کیونکہ ان کا (یعنی علی کا) کہنا تھا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں نہ تو باہر نکلوں گا اور نہ ہی اپنا کپڑا اپنے شانے پر ڈالوں گا یہاں تک کہ میں قرآن جمع کر لوں۔
اس پر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) اپنے دروازے پر کھڑی ہوئیں اور کہا: میرے علم میں کوئی ایسی قوم نہیں جو تم سے بدتر طریقے پر حاضر ہوئی ہو۔ تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمارے سامنے (تدفین کے لیے) چھوڑا اور تم نے اپنا معاملہ آپس میں طے کر لیا، نہ تم نے ہم سے مشورہ کیا اور نہ ہی ہمارا حق ہمیں واپس دیا۔
فَأَتَى عُمَرُ أَبَا بَكْرٍ،
فَقَالَ لَهُ: أَلَا تَأْخُذُ هَذَا الْمُتَخَلِّفَ عَنْكَ بِالْبَيْعَةِ؟
فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِقَنْفُذٍ وَهُوَ مَوْلَى لَهُ: اذْهَبْ فَادْعُ لِي عَلِيًّا، قَالَ: فَذَهَبَ إِلَى عَلِيٍّ،
فَقَالَ لَهُ: مَا حَاجَتُكَ؟
فَقَالَ: يَدْعُوكَ خَلِيفَةُ رَسُولِ اللَّهِ،
فَقَالَ عَلِيٌّ: لَسَرِيعٌ مَا كَذَبْتُمْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَرَجَعَ فَأَبْلَغَ الرِّسَالَةَ،
قَالَ: فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ طَوِيلًا،
فَقَالَ عُمَرُ الثَّانِيَةَ: لَا تُمْهِلْ هَذَا الْمُتَخَلِّفَ عَنْكَ بِالْبَيْعَةِ!
فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِقَنْفُذٍ: عُدْ إِلَيْهِ
فَقُلْ لَهُ: خَلِيفَةُ رَسُولِ اللَّهِ يَدْعُوكَ لِتُبَايِعَ، فَجَاءَهُ قَنْفُذٌ، فَأَدَّى مَا أُمِرَ بِهِ، فَرَفَعَ عَلِيٌّ صَوْتَهُ،
فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ لَقَدِ ادَّعَى مَا لَيْسَ لَهُ، فَرَجَعَ قَنْفُذٌ فَأَبْلَغَ الرِّسَالَةَ، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ طَوِيلًا، ثُمَّ قَامَ عُمَرُ فَمَشَى مَعَهُ جَمَاعَةٌ حَتَّى أَتَوْا بَابَ فَاطِمَةَ، فَدَقُّوا الْبَابَ، فَلَمَّا سَمِعَتْ أَصْوَاتَهُمْ نَادَتْ بِأَعْلَى صَوْتِهَا: يَا أَبَتِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَاذَا لَقِينَا بَعْدَكَ مِنِ ابْنِ الْخَطَّابِ وَابْنِ أَبِي قُحَافَةَ؟!
فَلَمَّا سَمِعَ الْقَوْمُ صَوْتَهَا وَبُكَاءَهَا انْصَرَفُوا بَاكِينَ وَكَادَتْ قُلُوبُهُمْ تَنْصَدِعُ وَأَكْبَادُهُمْ تَنْفَطِرُ، وَبَقِيَ عُمَرٌ مَعَهُ قَوْمٌ، فَأَخْرَجُوا عَلِيًّا فَمَضَوْا بِهِ إِلَى أَبِي بَكْرٍ،
فَقَالُوا لَهُ: بَايِعْ،
فَقَالَ: إِنْ أَنَا لَمْ أَفْعَلْ فَمَهْ؟
قَالُوا: إِذًا وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ نَضْرِبُ عُنُقَكَ،
فَقَالَ: إِذًا تَقْتُلُونَ عَبْدَ اللَّهِ وَأَخَا رَسُولِ اللَّهِ،
فَقَالَ عُمَرُ: أَمَّا عَبْدُ اللَّهِ فَنَعَمْ، وَأَمَّا أَخَا رَسُولِ اللَّهِ فَلَا، وَأَبُو بَكْرٍ سَاكِتٌ لَا يَتَكَلَّمُ،
فَقَالَ عُمَرُ: أَلَا تَأْمُرُ فِيهِ بِأَمْرِكَ؟
فَقَالَ: لَا أُكْرِهُهُ عَلَى شَيْءٍ مَا كَانَتْ فَاطِمَةُ إِلَى جَنْبِهِ، فَلَحِقَ عَلِيٌّ بِقَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَصِيحُ وَيَبْكِي وَيُنَادِي: يَا ابْنَ أُمِّ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي.
پھر عمر ابوبکر کے پاس آیا اور ان سے کہا: کیا تم اس شخص کو جو تمہاری بیعت سے پیچھے رہ گیا ہے، بیعت پر نہیں لیتے؟ تو ابوبکر نے قنفذ سے، جو ان کا آزاد کردہ غلام تھا، کہا: جاؤ اور علی کو میرے پاس بلاؤ۔
وہ کہتا ہے: پس وہ علی کے پاس گیا، علی (ع) نے اس سے پوچھا: تمہاری کیا حاجت ہے؟
اس نے کہا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ تمہیں بلاتے ہیں۔
علی (ع) نے فرمایا: تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ بہت جلد باندھ لیا۔ پس وہ واپس لوٹا اور پیغام پہنچایا۔ وہ کہتا ہے: تو ابوبکر بہت وقت تک روتا رہا ۔
پھر عمر نے دوسری بار کہا: اس بیعت سے پیچھے رہنے والے کو مہلت مت دو!
تو ابوبکر نے قنفذ سے کہا: ان کے پاس دوبارہ جاؤ اور کہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ تمہیں بیعت کے لیے بلاتے ہیں۔
قنفذ ان کے پاس آیا اور جو حکم دیا گیا تھا اسے پہنچایا۔
تو علی (ع) نے اپنی آواز بلند کی اور فرمایا: سبحان اللہ! اس نے تو وہ چیز مانگی جو اس کی نہیں ہے۔
قنفذ واپس لوٹا اور پیغام پہنچایا، تو ابوبکر نے بہت رویا۔
پھر عمر کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ ایک جماعت چل پڑی یہاں تک کہ وہ فاطمہ (علیہا السلام) کے دروازے پر پہنچے۔ انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
جب فاطمہ (علیہا السلام) نے ان کی آوازیں سنیں تو اونچی آواز سے پکارا: اے میرے ابا جان، اے رسول اللہ! ابن خطاب اور ابن ابی قحافة نے آپ کے بعد ہم پر کیا گزری! جب لوگوں نے ان کی آواز اور رونے کی آواز سنی تو وہ روتے ہوئے واپس ہو گئے، ان کے دل پھٹے جا رہے تھے اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے۔
عمر اور اس کے ساتھ چند لوگ رہ گئے۔ انہوں نے علی (ع) کو باہر نکالا اور انہیں ابوبکر کے پاس لے گئے۔
انہوں نے ان سے کہا: بیعت کرو۔
علی (ع)نے کہا: اگر میں نے نہیں کیا تو کیا ہوگا؟
انہوں نے کہا: اس صورت میں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم تمہاری گردن اڑا دیں گے۔
علی (ع)نے کہا: پھر تو تم اللہ کے بندے اور رسول اللہ کے بھائی کو قتل کرو گے۔
عمر نے کہا: اللہ کے بندے کے طور پر ہاں، لیکن رسول کے بھائی کے طور پر نہیں۔
اور ابوبکر خاموش تھے، کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔
اس وقت عمر نے کہا: کیا تم ان کے بارے میں کوئی حکم نہیں دو گے؟
ابوبکر نے کہا: میں انہیں کسی چیز پر مجبور نہیں کروں گا جب تک فاطمہ ان کے پاس ہیں۔
پھر علی (ع) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر پر گئے اور چلا تے ہوئے رو رہے تھے اور پکار رہے تھے: اے ابن ام (یعنی رسول اللہ)! بے شک ان لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر ڈالیں۔
وَمَا ذَكَرَهُ ابْنُ أَبِي الْحَدِيدِ الْمُعْتَزِلِيُّ فِي شَرْحِهِ فَبِهَذِهِ الصُّورَةِ: ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَقَالَ لِعَلِيٍّ: قُمْ فَبَايِعْ، فَتَلكَأَ وَاحْتَبَسَ، فَأَخَذَ بِيَدِهِ وَقَالَ: قُمْ، فَأَبَى أَنْ يَقُومَ، فَحَمَلَهُ وَدَفَعَهُ كَمَا دَفَعَ الزُّبَيْرَ، ثُمَّ أَمْسَكَهُمَا خَالِدٌ، وَسَاقَهُمَا عُمَرٌ وَمَنْ مَعَهُ سَوْقًا عَنِيفًا وَاجْتَمَعَ النَّاسُ يَنْظُرُونَ، وَامْتَلَأَتْ شَوَارِعُ الْمَدِينَةِ بِالرِّجَالِ، وَرَأَتْ فَاطِمَةُ مَا صَنَعَ عُمَرُ فَصَرَخَتْ وَوَلْوَلَتْ وَاجْتَمَعَ مَعَهَا نِسَاءٌ كَثِيرٌ مِنَ الْهَاشِمِيَّاتِ وَغَيْرِهِنَّ، فَخَرَجَتْ إِلَى بَابِ حُجْرَتِهَا، وَنَادَتْ: يَا أَبَا بَكْرٍ مَا أَسْرَعَ مَا أَغْرَمْتُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ؟! وَاللَّهِ لَا أُكَلِّمُ عُمَرَ حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ ... .
اور ابن ابی الحدید معتزلی نے اپنی شرح میں جو ذکر کیا ہے وہ اس طرح ہے:
پھر عمر اندر گیا اور علی (ع) سے کہا: اٹھو اور بیعت کرو۔
تو علی (ع) تامل کرنے لگے اور رک گئے۔
اس نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا: اٹھو۔
علی (ع) نے اٹھنے سے انکار کر دیا۔
تو اس نے انہیں اٹھا کر دھکیل دیا جیسے زبیر کو دھکیلا تھا۔ پھر خالد نے ان دونوں (علی اور زبیر) کو پکڑ لیا اور عمر اور اس کے ساتھیوں نے انہیں زبردستی سخت دھکے دیتے ہوئے لے چلے اور لوگ دیکھنے کے لیے جمع ہو گئے اور مدینہ کی گلیاں مردوں سے بھر گئیں۔ فاطمہ (علیہا السلام) نے دیکھا کہ عمر نے کیا کیا ہے
تو فاطمہ(س) چلائیں اور ماتم کرنے لگیں اور ان کے ساتھ ہاشمی خواتین اور دوسری عورتیں جمع ہو گئیں۔ وہ اپنے کمرے کے دروازے پر آئیں اور پکارا:
اے ابوبکر! تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت پر کتنی جلدی حملہ کر دیا؟!
اللہ کی قسم، میں عمر سے اس وقت تک بات نہیں کروں گی جب تک میں اللہ سے نہ مل لوں۔
ثُمَّ اسْتَمَرَّ ابْنُ قُتَيْبَةَ قَائِلًا: فَقَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى فَاطِمَةَ، فَإِنَّا قَدْ أَغْضَبْنَاهَا، فَانْطَلَقَا جَمِيعًا فَاسْتَأْذَنَا عَلَى فَاطِمَةَ فَلَمْ تَأْذَنْ لَهُمَا، فَأَتَيَا عَلِيًّا فَكَلَّمَاهُ، فَأَدْخَلَهُمَا عَلَيْهَا، فَلَمَّا قَعَدَا عِنْدَهَا حَوَّلَتْ وَجْهَهَا إِلَى الْحَائِطِ، فَسَلَّمَا عَلَيْهَا فَلَمْ تَرُدَّ عَلَيْهِمَا السَّلَامَ، فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا حَبِيبَةَ رَسُولِ اللَّهِ، وَاللَّهِ إِنْ قَرَابَةَ رَسُولِ اللَّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ قَرَابَتِي، وَإِنَّكِ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ عَائِشَةَ ابْنَتِي، وَلَوَدِدْتُ يَوْمَ مَاتَ أَبُوكِ أَنِّي مُتُّ وَلَا أَبْقَى بَعْدَهُ، أَفَتَرَانِي أَعْرِفُكِ وَأَعْرِفُ فَضْلَكِ وَشَرَفَكِ وَأَمْنَعُ حَقَّكِ وَمِيرَاثَكِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ، إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُ أَبَاكِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: « لَا نُورَّثُ، مَا تَرَكْنَاهُ فَهُوَ صَدَقَةٌ».
پھر ابن قتیبہ کہتے ہیں: عمر نے ابوبکر سے کہا: ہمارے ساتھ فاطمہ کے پاس چلو، کیونکہ ہم نے انہیں ناراض کر دیا ہے۔
پس وہ دونوں اکٹھے چلے اور انہوں نے فاطمہ (علیہا السلام) سے ملنے کی اجازت مانگی توفاطمہ(س) نے ان دونوں کو اجازت نہ دی۔
پھر وہ علی (ع) کے پاس آئے اور ان سے بات کی، تو انہوں نے ان دونوں کو فاطمہ (علیہا السلام) کے پاس داخل کر دیا۔ جب وہ دونوں ان کے پاس بیٹھے تو انہوں نے اپنا رخ دیوار کی طرف پھیر لیا۔ ان دونوں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے ان کے جواب میں سلام کا جواب نہ دیا۔ تو ابوبکر بولے، انہوں نے کہا: اے رسول اللہ کی حبیبہ! اللہ کی قسم، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار میرے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ محبوب ہیں، اور بے شک تم میری اپنی بیٹی عائشہ سے بھی زیادہ محبوب ہو۔ اور میں تمہارے والد کے انتقال کے دن یہ چاہتا تھا کہ میں مر جاتا اور ان کے بعد زندہ نہ رہتا۔ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں، تمہارے فضل و شرف کو جانتا ہوں اور پھر بھی تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تمہارا حق اور وراثت روکتا ہوں، سوائے اس کے کہ میں نے تمہارے والد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے: "ہم (انبیاء) وراثت نہیں چھوڑتے، جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔"
فَقَالَتْ: أَرَأَيْتُمَا إِنْ حَدَّثْتُكُمَا حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ تَعْرِفَانِهِ وَتَفْعَلَانِ بِهِ؟ قَالَا: نَعَمْ، فَقَالَتْ: نَشُدُّكُمَا اللَّهَ أَلَمْ تَسْمَعَا رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ: « رِضَا فَاطِمَةَ مِنْ رِضَايَ وَسَخَطُ فَاطِمَةَ مِنْ سَخَطِي، فَمَنْ أَحَبَّ فَاطِمَةَ ابْنَتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ أَرْضَى فَاطِمَةَ فَقَدْ أَرْضَانِي وَمَنْ أَسْخَطَ فَاطِمَةَ فَقَدْ أَسْخَطَنِي »؟ قَالَا: نَعَمْ سَمِعْنَاهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَإِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ أَنَّكُمَا أَسْخَطْتُمَانِي وَمَا أَرْضَيْتُمَانِي، وَلَئِنْ لَقِيتُ النَّبِيَّ لَأَشْكُوَنَّكُمَا إِلَيْهِ.
فاطمہ (علیہا السلام) نے فرمایا: تم دونوں کیا کہتے ہو اگر میں تم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک ایسا حدیث بیان کروں جسے تم پہچانتے ہو اور اس پر عمل کرو گے؟
ان دونوں نے کہا: ہاں۔
تو فاطمہ (علیہا السلام) نے فرمایا: میں تم دونوں کو اللہ کی قسم دیتے ہوئے پوچھتی ہوں، کیا تم دونوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے نہیں سنا:
« رِضَا فَاطِمَةَ مِنْ رِضَايَ وَسَخَطُ فَاطِمَةَ مِنْ سَخَطِي، فَمَنْ أَحَبَّ فَاطِمَةَ ابْنَتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ أَرْضَى فَاطِمَةَ فَقَدْ أَرْضَانِي وَمَنْ أَسْخَطَ فَاطِمَةَ فَقَدْ أَسْخَطَنِي »؟
"فاطمہ کی رضا میری رضا ہے اور فاطمہ کا غضب میرا غضب ہے۔ جس نے فاطمہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے فاطمہ کو راضی کیا اس نے مجھے راضی کیا، اور جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا"؟
ان دونوں نے کہا:
قَالَا: نَعَمْ سَمِعْنَاهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ،
ہاں، ہم نے یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے۔
تواس وقت فاطمہ (علیہا السلام) نے فرمایا: پس میں اللہ اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا ہے اور تم نے مجھے راضی نہیں کیا، اور اگر میں نبی سے ملوں گی تو میں تم دونوں کی ان کے سامنے شکایت کروں گی۔
فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا عَائِذٌ بِاللَّهِ مِنْ سَخَطِهِ وَسَخَطِكِ يَا فَاطِمَةُ، ثُمَّ انْتَحَبَ أَبُو بَكْرٍ يَبْكِي حَتَّى كَادَتْ نَفْسُهُ أَنْ تَزْهَقَ، وَهِيَ تَقُولُ: وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ اللَّهَ عَلَيْكَ فِي كُلِّ صَلَاةٍ أُصَلِّيهَا، ثُمَّ خَرَجَ بَاكِيًا فَاجْتَمَعَ إِلَيْهِ النَّاسُ، فَقَالَ لَهُمْ: يَبِيتُ كُلُّ رَجُلٍ مُعَانِقًا حَلِيلَتَهُ مَسْرُورًا بِأَهْلِهِ وَتَرَكْتُمُونِي وَمَا أَنَا فِيهِ، لَا حَاجَةَ لِي فِي بَيْعَتِكُمْ، أَقِيلُونِي بَيْعَتِي.
ابوبکر نے کہا: میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے غضب اور تمہارے غضب سے، اے فاطمہ۔
پھر ابوبکر سسکیاں بھر بھر کر رونے لگے یہاں تک کہ قریب تھا کہ ان کی جان نکل جائے،
اور فاطمہ (علیہا السلام) فرما رہی تھیں: اللہ کی قسم، میں ہر نماز میں جو پڑھوں گی تم پر دعا کرتی رہوں گی (یعنی بددعا)۔
پھر ابوبکر روتے ہوئے باہر نکلے اور لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے،
تو انہوں نے ان سے کہا: ہر آدمی اپنی بیوی کے ساتھ لپٹا ہوا، اپنے اہل و عیال میں خوش رات گزارتا ہے اور تم لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا ہے اس حال میں جو میں اس میں ہوں۔ مجھے تمہاری بیعت کی کوئی حاجت نہیں، تم میری بیعت مجھ سے واپس لے لو۔
ثُمَّ ذَكَرَ ابْنُ قُتَيْبَةَ كَيْفِيَّةَ بَيْعَتِهِ سَلَامُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَأَنَّهُ لَمْ يُبَايِعْ إِلَّا بَعْدَ وَفَاةِ الزَّهْرَاءِ عَلَيْهَا السَّلَامُ بِمَا يَقْرَبُ مِمَّا رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَغَيْرُهُمَا عَنْ عَائِشَةَ (1).
پھر ابن قتیبہ نے ان (علی علیہ السلام) کی بیعت کی کیفیت ذکر کی اور یہ کہ انہوں نے بیعت نہیں کی یہاں تک کہ زہراء (علیہا السلام) کی وفات کے بعد کی، اس کے قریب قریب جو بخاری و مسلم وغیرہ نے عائشہ سے روایت کیا ہے
وَمِنْ أَجْلِ أَنَّ ابْنَ قُتَيْبَةَ كَانَ مِنْ قُدَمَاءِ أَهْلِ السُّنَّةِ رَجَّحْنَا كَلَامَهُ عَلَى مَنْ سِوَاهُ فَأَوْرَدْنَاهُ بِطُولِهِ. وَإِنْ كَانَ ابْنُ قُتَيْبَةَ اسْتَحَقَّ بِسَبَبِ كِتَابِهِ هَذَا أَنْ يُوصَفَ مِنْ قِبَلِ ابْنِ الْعَرَبِيِّ بِالصَّدِيقِ الْجَاهِلِ. يَعْنِي أَنَّ صَدِيقَهُ الْعَاقِلَ هُوَ الَّذِي يَكْتُمُ الْحَقَائِقَ الْمُخَالِفَةَ لِمَذْهَبِهِ.
اور چونکہ ابن قتیبہ اہل سنت کے قدما میں سے تھے، اس لیے ہم نے ان کی بات کو دوسروں پر ترجیح دی ہے اور اسے پورے طور پر ذکر کیا ہے۔ اگرچہ ابن قتیبہ نے اپنی اس کتاب کی وجہ سے یہ حق دار بنے کہ ابن عربی کی طرف سے "الصدیق الجاہل" (جاہل دوست) کہلائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا عقلمند دوست وہ ہے جو اپنے مذہب کے خلاف حقائق کو چھپاتا ہے۔
حوالہ:
1. الامامة والسياسة لابن قتيبة : 1 / 30 ـ 32 ، العقد الفريد : 5 / 13 ، تاريخ أبي الفداء : 1 / 219 ، شرح نهج البلاغة : 6 / 48 ـ 49 ، وراجع رواية عائشة في صحيح البخاري ، كتاب المغازي : 3 / 142 ح : 4240 ـ 4241 ، صحيح مسلم كتاب الجهاد والسير باب قول النبي صلّى الله عليه وآله وسلّم : لا نورث ... : 12 / 320 ـ 325 ح : 1759 ، شرح نهج البلاغة : 6 / 11 ، تاريخ المدينة لابن شبة : 1 / 110.
كتاب : [ الهجرة إلى الثقلين ] / صفحہ : 45 ـ 48 سے اقتباس

