اس حدیث کی وضاحت کیجئے
اس حدیث کی وضاحت کیجئے۔
سوال کا خلاصہ:
"الْغِنَى وَ الْفَقْرُ بَعْدَ الْعَرْضِ عَلَى اللَّه"
کے معنی ہیں کہ دولتمندی اور محتاجی خدا کے سامنے پیشی کے بعد معلوم ہوتی ہے۔ اس حدیث سے کیا مراد ہے؟ اور اس کی وضاحت کیجئے۔
جواب:
حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنے کلام کے ایک مختصر اور حکیمانہ حصے میں فرمایا:
«الْغِنَى وَ الْفَقْرُ بَعْدَ الْعَرْضِ عَلَى اللَّه»
دولتمندی اور محتاجی (حقیقی) خدا کے سامنے پیشی کے بعد (معلوم) ہوتی ہے۔ [1]
امام علیہ السلام نے اس مختصر مگر پر معنی کلام میں فقر و غنا کی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
یعنی انسان کی حقیقی دولتمندی اور محتاجی قیامت میں اس وقت واضح ہوگی جب اس کے اعمال کا ریکارڈ بارگاہ الٰہی میں پیش کیا جائے گا اور پھر اسے خود اس کے ہاتھ میں دیا جائے گا۔
جیسا کہ معلوم ہے، فقر و غنا کے دو پہلو ہیں:
ایک مادی پہلو
اور دوسرا معنوی پہلو۔
مال و دولت، منصب اور دیگر مادی نعمتیں مادی ثروت کی مثالیں ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسی ثروت فنا پزیر ہے، کیونکہ دنیا خود بھی عارضی اور فانی ہے۔
اسی لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص آج کروڑوں کا مالک ہوتا ہے لیکن کل صبح موت، بیماری یا کسی اور وجہ سے وہ سب کچھ کھو دیتا ہے۔
لیکن اس کے برعکس، معنوی سرمایہ جو کہ اخلاقی فضائل، توحیدی عقائد اور عبادتی اعمال پر مشتمل ہے، دنیا اور آخرت دونوں میں انسان کے ساتھ رہتا ہے۔
یہی معاملہ مادی اور معنوی فقر کا ہے۔ لہٰذا امام علیہ السلام نے اپنے کلام میں اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ حقیقی دولتمند اور حقیقی محتاج کون ہے، یہ صرف اس وقت واضح ہوگا جب سب لوگ بارگاہ عدل الٰہی میں حاضر ہوں گے۔ کیونکہ وہیں پر ہمیشہ کی اور نہ فنا ہونے والی زندگی ہے۔
جو لوگ اپنے اعمال کے ریکارڈ کو اللہ کی اطاعت اور نیکیوں سے بھر چکے ہوں گے، وہی حقیقی طور پر دولتمند ہوں گے۔ اور جن کے اعمال کے ریکارڈ گناہوں اور نافرمانیوں سے بھرے ہوں گے، وہی حقیقی محتاج ہوں گے۔
اسی نکتہ کی طرف رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح اشارہ فرمایا ہے:
«لَیْسَ الْغِنَى فِی کَثْرَةِ الْعَرَضِ وَ إِنَّمَا الْغِنَى غِنَى النَّفْس»
دولت (و ثروت) مال کی کثرت میں نہیں ہے، بلکہ حقیقی دولت نفس کی بے نیازی ہے۔ [2]
یعنی حقیقی ثروت وہ بے نیازی اور نفس کی بلندی ہے جو معنوی فضائل میں سے ایک ہے۔ جو شخص جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر راضی ہے، اور اسی کے ساتھ اپنے آپ کو دوسروں سے بے نیاز سمجھتا ہے اور اس میں اضافہ کی لالچ نہیں رکھتا، وہی لوگوں میں سب سے زیادہ دولتمند ہے۔
لہٰذا، حقیقی دولتمند وہ ہے جو خداوند متعال کا فرمانبردار ہو اور اس کے نتیجے میں ہمیشہ رہنے والا اور فنا نہ ہونے والا اجر و ثواب حاصل کرے۔ اور حقیقی محتاج وہ ہے جس کے پاس بارگاہ خداوندی میں نیکیوں کا کوئی ذخیرہ نہ ہو، اور یہی حقیقی محتاجی ہے۔
---
حوالہ جات:
[1]. سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، محقق: صبحی صالح، ص 555، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ق.
[2]. کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، محقق و مصحح: نعمہ، عبد اللہ، ج 2، ص 193، قم، دارالذخائر، چاپ اول، 1410ق.

