تمہارا دین کامل کر دیا
تمہارا دین کامل کر دیا
(اليَومَ أكمَلتُ لَكُم دِينَكُم وَأتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتِي وَرَضِيتُ لَكُم الإسلاَمَ دِين) (سورة المائدة آية: 3 ۔
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا،
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
تم پر حرام کیا گیا ہے مردار، خون، سور کا گوشت اور (وہ جانور) جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹ کر اور چوٹ کھا کر اور بلندی سے گر کر اور سینگ لگ کر مر گیا ہو اور جسے درندے نے کھایا ہو سوائے اس کے جسے تم (مرنے سے پہلے)ذبح کر لو اور جسے تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور جوئے کے تیروں کے ذریعے تمہارا تقسیم کرنا (بھی حرام ہے)، یہ سب فسق ہیں، آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا، پس جو شخص گناہ کی طرف مائل ہوئے بغیر بھوک کی وجہ سے (ان حرام چیزوں سے پرہیز نہ کرنے پر) مجبور ہو جائے تو اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
کچھ حضرات نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان احکام کے بیان سے اسلامی احکام کا بیان مکمل ہوا اور اس کے بعد کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ یہ مؤقف بھی اس لیے درست نہیں کیونکہ بخاری کی روایت کے مطابق آخری حکم آیہ ربا ہے اور بعض کے نزدیک آیہ کلالہ ہے اور دیگر بعض احکام اس آیت کے نزول کے بعد نازل ہوئے ہیں۔
حقیقت امر یہ ہے کہ کفار نے دین اسلام کی دعوت کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن انہیں ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ان کی آخری امید یہ تھی یہ دین اس کے بانی کے جانے سے ختم ہو جائے گا اور یہ دعوت اس کے داعی کی موت سے مٹ جائے گی کیونکہ اس کی کوئی اولاد نرینہ بھی نہیں ہے اور بہت سے سلاطین اور شان و شوکت والے بادشاہان کے موت کے منہ میں جانے کے بعد ان کے نام و نشان مٹ گئے اور ان کے قبر میں جاتے ہی ان کی حکومتوں کو زوال آیا اور جب رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بحکم خدا اپنے بعد اس دین کے محافظ کا تعارف کرایا تو اس دین کے لیے بقا کی ضمانت فراہم ہو گئی اور بقول صاحب المیزان
”یہ دین مرحلہ وجود سے مرحلہ بقا میں داخل ہو گیا۔“
یہاں سے کافر مایوس ہو گئے کہ یہ رسالت ایک فرد کے ساتھ منحصر نہ رہی، اب یہ دعوت ایک شخص کے مرنے سے نہیں مرتی۔
امامیہ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ :
(اليَومَ أكمَلتُ لَكُم دِينَكُم وَأتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتِي وَرَضِيتُ لَكُم الإسلاَمَ دِين) (سورة المائدة آية: 3 ۔
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا،
غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے موقع پر نازل ہوئی۔ چنانچہ اصحاب رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم میں سے اس کے راوی درج ذیل ہیں:
1۔ زید بن ارقم (طبری: الولایۃ) 2۔ ابوسعید خدری (حافظ ابن مردویہ تفسیر ابن کثیر 2: 14) 3۔ابوہریرہ (تفسیر ابن کثیر 2:14) 4۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (نطنزی۔ الخصائص)
جبکہ تفسیر الکوثر میں فرماتے ہیں:
تفسیر آیات
۱۔ لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللّٰہِ:
شعائر سے مراد ہر وہ چیز جو کسی مسلک و مذہب کی عظمت اور تاریخ سے وابستہ ہو یا اس چیز میں اس نظریے اور نظام کی پہچان ہو۔ جیسے ہر حکومت کا جھنڈا اس کی پہچان کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس جگہ حج میں بجا لائے جانے والے اعمال مراد ہو سکتے ہیں۔ جیسے وقوف عرفات و مشعر، طواف، سعی اور رمی جمرات وغیرہ۔ ان اعمال کو اعتنا میں نہ لانا اور ترک کرنا ان کی بے احترامی ہے۔
۲۔ وَ لَا الشَّہۡرَ الۡحَرَامَ:
حرمت والے مہینے وہ ہیں، جن میں ہر قسم کی جنگ کرنا حرام ہے۔ یہ محرم، رجب، ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے مہینے ہیں۔ ان کی بے احترامی سے مراد ان میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ حرام مہینے میں قتل و قتال کو سورہ بقرہ آیت ۲۱۷ میں
قُلۡ قِتَالٌ فِیۡہِ کَبِیۡرٌ
سنگین جرم قرار دیا ہے۔
۳۔ وَ لَا الۡہَدۡیَ:
قربانی کے لیے جو جانور پیش کیا جاتا ہے، اس کی بے احترامی اس سے متعلق احکام کی خلاف ورزی ہے۔ اس قربانی کو قربان گاہ تک پہنچنے میں رکاوٹ ڈالنا خلاف ورزی ہے۔
۴۔ وَ لَا الۡقَلَآئِدَ:
قلائد وہ قربانی ہے جس پر قربانی کی نشانی لگائی جاتی ہے تاکہ کوئی اس کو گزند نہ پہنچائے۔
۵۔ وَ لَاۤ آٰمِّیۡنَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ:
بیت اللہ کے زائرین کی بے احترامی، ان کا راستہ روکنا ہے۔ بیت اللہ کے زائرین میں کسب حلال کے لیے جانے والے بھی شامل ہو جاتے ہیں، اگر
فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّہِمۡ
سے مراد کسب حلال لیا جائے۔
۶۔ وَ اِذَا حَلَلۡتُمۡ فَاصۡطَادُوۡا:
جب احرام ختم ہو جائے تو شکار جائز ہو جاتا ہے۔
۷۔ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ:
کفار کی طرف سے مسجد الحرام کا راستہ بند کرنے کا غصہ کہیں اس بات کا محرک نہ بنے کہ تم بھی ان کے ساتھ زیادتی کرو اور ان پر تم بھی راستہ بند کرو۔ کافروں نے مسلمانوں کو حج کرنے سے روک دیا تھا۔ اس پر مسلمان مشتعل تھے اور چاہتے تھے کہ حج کے موسم میں جو کفار مسلمانوں کے علاقوں سے گزریں، ان پر چھاپے مارے جائیں اور ان کو حج کرنے سے روک دیا جائے۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ ان کی زیادتی تم کو مشتعل نہ کرے کہ تم بھی ان کے ساتھ زیادتی کرو۔ یہ ایک الٰہی اخلاق اور ضبط نفس کا ایک اعلی ترین درس ہے اور اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک نمونہ ہے۔
۸۔ وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی:
نیکی اور تقویٰ جہاں ایک انفرادی عمل ہے، وہاں یہ دونوں ایک اجتماعی عمل بھی ہے کہ خود نیکی اور تقویٰ پر عمل کرے اور اس کام میں دوسروں کی مدد کرے۔ دوسروں کو نیکی کی ترغیب دے اور نیک کاموں کی رہنمائی کرے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی رکاوٹ یا غلط فہمی ہے تو اسے دور کرے۔ اس آیت میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس میں اجتماعی نیکی اور اجتماعی تقویٰ کا حکم ہے، جو انفرادی نیکی اور انفرادی تقویٰ سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح انفرادی گناہ کے ارتکاب سے اجتماعی گناہ کا ارتکاب کہیں زیادہ قابل نفرت ہے۔ لہٰذا گناہ اور زیادتی میں مدد دینے سے منع فرمایا۔ ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے تعاون علی البر و التقویٰ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کے اہم ترین اصلاحی دستور ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ایک اعلیٰ انسانی مثالی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے اور مسلمانوں میں جو فکری، اخلاقی، اقتصادی اور سیاسی انحطاط آیا ہے، وہ اس اسلامی انسان ساز دستور پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔
اہم نکات
۱۔اسلامی شعائر کی بے حرمتی اسلام کی بے حرمتی ہے۔
۲۔زیادتی کرنے والوں کے ساتھ زیادتی نہ کرنا، اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیم ہے۔
۳۔نیکی اور تقویٰ میں باہمی تعاون اور گناہ اور زیادتی میں عدم تعاون، ایک اہم معاشرہ ساز دستور ہے۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 465

