عدل الہی
عقائد سے متعلق مضامین
(چوتھا حصہ) العدل الإلهي
ڈاکٹر السید خلیل الطباطبائی"
مترجم: یوسف حسین عاقلی
دین کے بنیادی اصولوں میں سے دوسرا اصل (العدل الالهي) یعنی الہی عدل پر ایمان ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ عادل ہے، وہ کسی کے بارے میں بھی اپنے حکم میں ظلم نہیں کرتا۔ اس کی ہر بات، ہر حکم جو اس نے دیا ہے یا جس سے منع کیا ہے، وہ عدل، بھلائی اور اپنے بندوں کی مصلحت کے عین مطابق ہے۔ ہر مخلوق یا فعل جو اس کی طرف سے صادر ہوتا ہے وہ خیر ہی ہے۔
الہی عدل پر ایمان کی تفصیلات کو جاننے ہم بحث کو مندرجہ ذیل موضوعات میں تقسیم کرتے ہیں:
تعریفِ عدل
الہی عدل کے بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ عدل کا کیا مطلب ہے، کیونکہ صحیح تعریف نہ جاننے کی وجہ سے مختلف فلسفیانہ اور کلامی آراء سامنے آئی ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے صفتِ عدل کا انکار کرتی ہیں۔
حکماء، فلاسفہ اور علماء نے عدل کی جامع تعریف میں اختلاف کیا ہے اور اس مختلف تعریفیں بیان کی ہیں جو سب ناقص ہیں۔ عدل کی بہترین اور جامع ترین تعریف وہ ہے جو حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام) سے منقول ہے، آپ نے فرمایا:
"رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (ع) حَيْثُ قَالَ "الْعَدْلُ يَضَعُ الْأُمُورَ مَوَاضِعَهَا"
(عدل ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھتا ہے)۔
اسی تعریف سے عدل کی مشہور تعریف اخذ کی گئی ہے اور وہ یہ کہ
"وَضَعَ الشَّيْءَ فِي مَحَلِّهِ" أو "إِعْطَاءُ كُلِّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ"
"کسی چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا" یا "(ہر حق دار کو اس کا حق دینا)"۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عدل یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اپنے صحیح سماجی یا تکوینی مقام پر ہو جو اس مقرر ہے یا جس کی وہ مستحق ہے۔ اگر ہم اسے اس کے مقام سے ہٹا کر رکھیں تو یہ ظلم ہوگا۔ مثال کے طور پر، ڈاکٹر کا آرام دہ کلینک میں ہونا اور انجینئر کا گرم دھوپ میں تعمیراتی سائٹ پر ہونا، دونوں صورتوں میں عدل ہے، کیونکہ یہ ان کے پیشہ ورانہ مقام ہیں۔
اگر ہم ان کے مقامات کو تبدیل کرنا چاہیں تو یہ ظلم ہوگا۔ اسی طرح، محسن کے ساتھ احسان کرنا اور مجرم کو سزا دینا، دونوں عدل ہیں۔ اگر ہم ان کے ساتھ برعکس سلوک کریں یعنی مجرم کے ساتھ احسان کریں اور محسن کو سزا دیں تو یہ ظلم ہوگا۔
یہاں سے ہم جانتے ہیں کہ عدل کے موارد مختلف ہیں اور وہ مندرجہ ذیل ہیں:
أقسامِ عدل
1- عدل تکوینی:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر موجود چیز کو اس کے مستحق اور لائق بقدرِ اس کی صلاحیت و طاقت، وجود کی نعمت سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی صلاحیت یا استعداد کو محروم نہیں رکھا بلکہ اسے اپنے لطف و نعمت سے بہرہ ور کیا ہے۔
قالَ تعالى: ﴿الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ﴾ سورة السجدة: 7
جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا
قالَ تعالى: ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى ﴿٢﴾ وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى﴾ سورة الأعلى: 1-3
(اے نبی) اپنے رب اعلیٰ کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور توازن قائم کیا، اور جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔
قالَ تعالى: ﴿وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا﴾ سورة الفرقان: 2
اور جس نے ہر چیز کو خلق فرمایا پھر ہر ایک کو اپنے اندازے میں مقدر فرمایا۔
اس بنیاد پر یہ درست نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق پر اعتراض کریں کہ اس کا فائدہ کیا ہے یا وجود کے عالم میں اس کا کردار کیا ہے، کیونکہ اللہ عادل اور حکیم ہے اور وہ اپنی مخلوق میں حکمت اور مصلحت کو کسی دوسری مخلوق سے بہتر جانتا ہے(۱)۔
2- عدل تشریعی:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو کامل اسلامی شریعت کے ساتھ بھیجا ہے جس کی پیروی میں انسان کی دنیا و آخرت میں کمال اور سعادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کوئی ایسا حکم (تکلیف) جو اس لطف و خیر کا باعث ہو، چھوڑا نہیں بلکہ اسے نازل فرمایا اور واضح کیا۔ نیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت و وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
احکام کا نفاذ ہر انسان ہر زمان و مکان میں ممکن ہے۔ اگر کوئی خاص حالات ایسے ہوں جو انسان کو شرعی احکام پر عمل کرنے سے روکیں تو الہی حکم معافی اور ان خاص حالات میں تکلیف کے ساقط ہونے کا ہے۔
فقہ میں اسے یوں بیان کیا جاتا ہے کہ "القدرة شرط التكليف" (طاقت تکلیف کی شرط ہے) اور "الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ المَحْظُورَاتِ" (ضرورتیں ممنوعات کو جائز کر دیتی ہیں)۔
تشریع میں عدل، اللہ کے ہر حکم میں اس کے عدل و حکمت کو شامل ہے، خواہ وہ حلال و حرام کے احکام ہوں، انفرادی سطح پر ہوں یا اجتماعی، اقتصادی، سیاسی یا زندگی کے دیگر شعبوں سے متعلق ہوں جن کی لوگوں کو دنیوی زندگی میں ضرورت ہے۔
مثلاً انفرادی فرائض جیسے نماز و روزہ انسان عدل و خیر ہیں۔
اسی طرح اقتصادی احکام جیسے خمس و زکاتہ انسانی معاشرے کی مصلحت ہیں۔ حدود، دیات اور تعزیرات معاشرے کی مصلحت، اسے فساد، بحرانوں اور انتشار سے بچانے عدل و خیر ہیں۔
اس طرح، ہر وہ چیز جس کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے یا جس سے منع کیا ہے، وہ انسان اس دنیا اور آخرت میں عدل و خیر ہے۔
3- عدل جزائی:
یہ ظلم کے مقابل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مؤمن کو اس کے وعدے کے مطابق ثواب دیتا ہے اور اسے فاسق یا کافر کے برابر نہیں ٹھہراتا۔
نیز اس کے عدل کا تقاضا ہے کہ وہ نافرمانوں اور کافروں کو ان عذابوں سے سزا دے جن سے اس نے انہیں ڈرایا تھا اور ان کا ذکر کیا تھا۔ اس کی ہر سزا دنیا ہو یا آخرت، عدل، حکمت اور حسن پر مبنی ہے۔
نیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خطاکاروں کو معاف کر دے۔ وہ چاہے تو اپنے وعید (عذاب کے وعدے) کو گنہگاروں پر نافذ نہ کرے، بلکہ دنیا میں انہیں مغفرت سے نوازے، یا آخرت میں معاف فرما دے، یا انہیں انبیاء و اولیاء کی شفاعت کے دائرے میں شامل کر لے، جو اس کے بندوں پر الہی رحمت کے مظاہر میں سے ہے۔
یہ کہنا درست نہیں کہ اللہ چاہے تو اپنے وعدے کو پورا نہ کرے اور مومن کو دوزخ میں اور کافر کو جنت میں داخل کر دے، کیونکہ یہ عدل میں سے کچھ بھی نہیں۔ جیسا کہ ہم نے عدل کی تعریف میں ذکر کیا، عدل "کسی چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا" ہے نہ کہ اسے اس کے مقام سے ہٹا کر رکھنا۔
قالَ تعالى: ﴿وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾ سورة المؤمنون: 62
اور ہم کسی شخص پر اس کی قوت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے اور ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو حقیقت بیان کرتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔
قالَ تعالى: ﴿وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا﴾ سورة الأنبياء: 47
اور ہم قیامت کے دن عدل کا ترازو قائم کریں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا
قرآن مجید میں عدل
ذِکْرِ حَکِیم (قرآن مجید) نے بہت سی آیات میں "اللہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی" کو عادل بتایا ہے اور ہر قسم کے ظلم سے پاک قرار دیا ہے۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ﴾ سورہ آلِ عِمْرَان: آیت ۱۸
اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہی شہادت دی،وہ عدل قائم کرنے والا ہے
تشریح: یہاں "قَائِمًا" یا تو "اللہ" کی حال ہے (تاکید کے طور پر) یا "ھُوَ" کی حال ہے "لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ" میں۔ اس کے قیام بالقسط کا مطلب یا تو مطلق ہے جو قسط کے تمام درجات (تکوین، تشریع اور جزاء) کو شامل ہے، یا بعض مفسرین کے نزدیک صرف تکوینی قسط کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس رائے کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں عدل کے ساتھ حکمران ہے، اس نے دنیا کے نظام کو بہترین تدبیر کے ساتھ مرتب کیا ہے، اسے اسباب و مسببات پر مبنی بنایا ہے اور معلول کو علت پر موقوف کیا ہے۔ اس نے انسان ایسی نعمتیں رکھی ہیں کہ اگر وہ محنت اور کوشش کرے تو اس سے دنیا و آخرت دونوں میں فائدہ اٹھائے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ﴾ سورہ المُؤْمِنُون: آیت ۶۲
اور ہم کسی شخص پر اس کی قوت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے
تشریح: یہ آیت تشریع و تکلیف میں عدل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ انسان کو جو حکم دیا جاتا ہے وہ اس کی طاقت اور استطاعت کے دائرے میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کوئی ایسی عبادت یا احکام کا بوجھ نہیں ڈالا جسے وہ پورا کرنے یا نفاذ کرنے سے عاجز ہو۔
۳۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ سورہ الحَدِید: آیت ۲۵
بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں
تشریح: یہ آیت تشریع میں عدل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس میں ذکر ہے کہ رسولوں کے بھیجنے اور لوگوں الٰہی قوانین کے تشریع کا مقصد انسانی معاشرے میں قسط و عدل قائم کرنا ہے۔
۴۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنْطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾ سورہ المُؤْمِنُون: آیت ۶۲
اور ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو حقیقت بیان کرتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔
اور ارشاد ہے:
﴿ وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا﴾ سورہ الْأَنْبِيَاء: آیت ۴۷
اور ہم قیامت کے دن عدل کا ترازو قائم کریں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا
تشریح: ان دونوں آیات میں روز جزا یعنی قیامت کے حساب میں قسط و عدل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اس موضوع پر بہت سی آیات ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔
اہلِ بیت (علیہم السلام) کی احادیث میں عدل
توحید اور عدل الٰہی کا قول حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) اور ان کے اہلِ بیتِ طاہرین (علیہم السلام) سے مشہور ہے۔ رہا تشبیہ، جبر وغیرہ کا قول، تو وہ بنی امیہ اور ان کے موافق علماء و فقہا سے مشہور ہوا، یہاں تک کہ اس سلسلے میں کہا گیا:
"التَّوْحِيدُ وَالْعَدْلُ عَلَوِيَّانِ، وَالتَّشْبِيهُ وَالْجَبْرُ أُمَوِيَّانِ"
(توحید و عدل علوی ہیں، اور تشبیہ و جبر اموی)۔
ذیل میں ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے عدل الٰہی کی تشریح میں چند اقوال پیش ہیں:
۱۔ امام علی (علیہ السلام) سے توحید و عدل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
"التَّوْحِيدُ أَنْ لَا تَتَوَهَّمَهُ، وَالْعَدْلُ أَنْ لَا تَتَّهِمَهُ" (نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۳۷۰)
توحید یہ ہے کہ تم اس (اللہ) کا وہم نہ کرو، اور عدل یہ ہے کہ تم اس پر الزام نہ لگاؤ۔
تشریح: اس کا مطلب یہ ہے کہ خالص توحید یہ ہے کہ اللہ کو کسی صفت یا شکل میں متصور نہ کیا جائے، کیونکہ اللہ وصف، وہم اور خیال سے بلند ہے۔ جو کچھ ہم وہم کرتے یا تصور کرتے ہیں وہ ہمارے اپنے ذہن کی تخلیق ہے اور اللہ اس سے پاک ہے۔ اور عدل یہ ہے کہ ہم اس پر کسی قبیح فعل، ظلم یا اس کے کسی حکم پر اعتراض کا الزام نہ لگائیں، کیونکہ انسان محدود العلم اور کمزور ہے۔ اگر اس پر کوئی مصیبت آئے تو ممکن ہے وہ اپنی نادانی سے اس میں پوشیدہ مصلحت کو نہ سمجھتے ہوئے اللہ کی حکمت و عدل پر اعتراض کر بیٹھے، جیسے فقر، بیماری یا دنیا میں مشقت۔ حالانکہ یہ سب اللہ کے علم میں آنے والی انسان کی تکمیل اور مادی فطرت کی ضروریات کے تحت، اس کے عادلانہ اور حکیمانہ نظام کے مطابق ہوتا ہے، جو کامل ترین ہے۔
۲۔ کتاب التوحید للصدوق میں امام صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
" الإمامُ الصّادقُ عليه السلام ـ و قد سُئلَ عَن أساسِ الدِّينِ ـ : التَّوحيدُ و العَدلُ . . . أمّا التَّوحيدُ فأن لا تُجَوِّزَ عَلى رَبِّكَ ما جازَ عَلَيكَ ، و أمّا العَدلُ فأن لا تَنسِبَ إلى خالِقِكَ ما لامَكَ عَلَيهِ "(التوحيد : 96/1)
توحید یہ ہے کہ تم اپنے رب پر وہ چیز جائز نہ ٹھہراؤ جو تم پر جائز ہے، اور عدل یہ ہے کہ تم اپنے خالق کی طرف اس چیز کی نسبت نہ دو جس پر وہ تمہیں ملامت کرتا ہے۔
تشریح: اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان مادی صفات کو، جو انسان کی صفات ہیں (جیسے جسمیت، قابلِ دید ہونا)، اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کریں۔ اور نہ ہی اللہ کی طرف وہ ذمیمہ اور قبیح صفات منسوب کریں جن کے ارتکاب پر وہ ہمیں ملامت کرتا ہے۔
۳۔ امام علی (علیہ السلام) کا ارشاد ہےکہ:
"الَّذِي صَدَقَ فِي مِيعَادِهِ، وَارْتَفَعَ عَنْ ظُلْمِ عِبَادِهِ، وَقَامَ بِالْقِسْطِ فِي خَلْقِهِ، وَعَدَلَ عَلَيْهِمْ فِي حُكْمِهِ" (نهج البلاغه خطبه ۱۸۵)
وہ (اللہ) جو اپنے وعدے میں سچا ہے، اپنے بندوں پر ظلم سے بلند ہے، اپنی مخلوق میں قسط قائم کرنے والا ہے اور ان پر اپنے حکم میں عادل ہے۔
تشریح: ہم دیکھتے ہیں کہ آپ (علیہ السلام) کے کلام میں، جو بیان کے سردار اور کلام کے بادشاہ ہیں، ان تینوں اقسامِ عدل کی طرف مختصر اور موجز طور پر اشارہ کیا گیا ہے جو ہم نے ذکر کی ہیں۔
آپ کا قول "ارْتَفَعَ عَنْ ظُلْمِ عِبَادِهِ" جزاء اور تشریع کے مقام میں عدل کی طرف اشارہ ہے۔
آپ کا قول "وَعَدَلَ عَلَيْهِمْ فِي حُكْمِهِ" انسان تشریع اور آخرت میں جزاء کے عدل کی طرف اشارہ ہے۔
اور آپ کا قول "وَقَامَ بِالْقِسْطِ فِي خَلْقِهِ" تمام مخلوقات، انسان، حیوان، نباتات اور جمادات کی تخلیق میں عدل کی طرف اشارہ ہے۔
عدلِ الٰہی کے دلائل
عدلِ الٰہی کے اثبات دلیل کی ضرورت پر بات کرنا عجیب محسوس ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ واضح اور بدیہی امور میں سے ہے۔ لیکن محقق بہت سے فلسفیانہ آراء پاتا ہے جو غلط استدلالات کے ذریعے عدلِ الٰہی کا انکار کرتی ہیں۔ اس لئے عدلِ الٰہی کے اثبات، اس پر استدلال اور اس مسئلہ میں صحیح عقیدے کی وضاحت کی ضرورت ہے۔
۱۔ بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ حکیم ہے۔ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا فعل خلق، ایجاد اور تشریع میں کامل ترین نظام کے موافق ہو۔ اگر وہ حکمت کے خلاف کرے (اللہ اس سے پاک ہے) تو وہ حکیم نہ رہے۔
۲۔ عدل کی صفت، جس میں بھی پائی جائے، کمال کی صفت ہے۔ لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی (ثبوتی) کمالی صفات میں سے ہے، کیونکہ اس کی ذات ہر کمال کو شامل ہے اور ہر نقص سے پاک ہے (جیسا کہ ہم نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات کے بحث میں بیان کیا)۔
اور اگر ہم عدل کو
"أَعْطَاءَ كُلُّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ"
"ہر حق دار کو اس کا حق دینے"
کے معنی میں دیکھیں، یعنی ظلم کے ضد میں، تو اس معنی میں یہ فعل کی صفات میں سے ہے، کیونکہ یہ خالقِ جل وعلا کو ہر قبیح فعل سے پاک ثابت کرتا ہے، اور قبیح فعل حکیم کی حکمت کے خلاف ہے۔ بہر حال، یہ کمال ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہر صفتِ جمال و کمال کا مالک ہے اور ہر اس نقص سے پاک ہے جو صفاتِ جلال میں سے ہے۔
۳۔ اگر ہم فرض کریں (محض بحثاً) کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ظلم کر سکتا ہے، تو جو سبب اسے ظلم کرنے پر مجبور کرے گا،
وہ چار صورتیں ہی سکتی ہیں:
۱۔ یہ فرض کریں کہ وہ (جل وعلا) نادان تھا، اسے علم نہ تھا کہ یہ فعل قبیح ہے، اس لئے اس نے جہالت میں (عمداً نہیں) ارتکاب کیا۔ حالانکہ اللہ ہر جہالت سے پاک ہے، وہ اپنے بندوں اور ان پر آنے والے امور کا علم ان کی تخلیق سے پہلے رکھتا ہے۔
۲۔ یہ کہ وہ قبیح فعل سے واقف تھا لیکن مجبور ہو کر اس کا ارتکاب کیا، اور اسے ترک کرنے پر عاجز تھا۔ یہ صحیح نہیں، کیونکہ اللہ علیم و قدیر ہے، کائنات میں کوئی طاقت اس کی طاقت پر غالب نہیں آ سکتی، کوئی چیز اسے مجبور نہیں کر سکتی۔ تمام مخلوقات اس کے حکم سے اور اس کی مرضی کے تابع ہیں۔
۳۔ یہ کہ وہ قبیح سے واقف تھا، مجبور نہیں تھا، لیکن اسے اس فعل کی ضرورت تھی۔ یہ بھی صحیح نہیں، کیونکہ اللہ سارے جہانوں سے بے نیاز ہے، اسے کسی کی ضرورت نہیں۔
۴۔ یہ کہ وہ قبیح سے واقف تھا، نہ مجبور تھا، نہ محتاج تھا، لیکن قبیح فعل (اللہ پاک ہے) شوق، عبث یا کھیل کے طور پر کیا۔ یہ سب باتیں صحیح نہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر جائز نہیں، کیونکہ کوئی چیز اسے مشغول نہیں کرتی، اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں، وہ کھیل نہیں کھیلتا، وہ حوادث کا محل نہیں، اور نہ مزاج کے بدلنے سے بدلتا ہے۔ یہ سب صفات مخلوقین، صفات حادث ہیں، صفات واجب الوجود قدیم میں سے نہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تمام احتمالات اللہ جل وعلا صحیح نہیں، اس لئے اس کے حق میں ظلم، قبیح فعل، خطا، بھول یا حکمت و مصلحت کے خلاف کام کا تصور بھی ممکن نہیں۔
۴۔ فلاسفہ نے ایک اور دلیل بیان کی ہے کہ اللہ جل وعلا سے کوئی ظلم یا قبیح عمل صادر ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ دلیل
"قَاعِدَةُ السَّنْخِيَّةِ بَيْنَ العِلَّةِ وَالمَعْلُولِ"
پر مبنی ہے۔ اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ علت اور معلول کے درمیان ایک سنخی ربط ہوتا ہے، کوئی معلول ایسا نہیں ہو سکتا جو ایسی علت سے صادر ہو جس کے ساتھ اس کا کوئی وجودی ربط نہ ہو۔ اس قاعدے کی بنیاد پر، ذاتِ الٰہیہ جو ہر نقص، عیب اور حاجت سے پاک کامل ہے، اس سے صرف خیر، حسن اور جمیل ہی صادر ہو سکتا ہے۔
عدلِ الٰہی کے مباحث
عدلِ الٰہی کے حوالے سے متعدد ایسے مباحث ہیں جن کی شرح و وضاحت کی ضرورت ہے، کیونکہ بعض سے عدل کے نہ ہونے کا گمان ہو سکتا ہے یا اس پر متعدد اشکالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس لئے علماء نے ان مباحث کو مختلف عنوانات میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ حسن و قبح عقلی
۲۔ قضا و قدر
۳۔ جبر و تفویض و امر بین الامرین
۴۔ کائنات میں خیر و شر
۵۔ بداء
۶۔ تکلیف کا حسن اور لطف کا وجوب
۷۔ قاصرین کا حساب اور آخرت میں ان کے احکام
ان شاء اللہ مستقبل میں ان کی شرح کی توفیق ہو۔
وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
-----
(۱)- از مترجم: اللہ تعالیٰ کے دو اہم اسماء "قَدَّرَ" اور "فَہَدٰی" کا گہرا مفہوم درج ذیل ہے:
۱۔ لفظ "قَدَّرَ":یہ محض "تخلیق" نہیں، بلکہ ہر مخلوق کی باریک بینی سے منصوبہ بندی ہے۔ اس میں ہر چیز کی حدود، اس کی صفات اور افعال کا ناقابلِ تغیر قانون مقرر کرنا شامل ہے۔
۲۔ لفظ "فَہَدٰی":یہ صرف "وجود بخشنا" نہیں، بلکہ ہر مخلوق کو اس کی بقا اور زندگی کیلئے ضروری اصول و راہنمائی عطا کرنا ہے۔ جیسے بچے کا ماں کی چھاتی پہچاننا یا ہر جاندار کا اپنی روزی کی طرف خودبخود چل پڑنا۔ یہ فطری ہدایت تخلیق کے ساتھ ہی ودیعت کی جاتی ہے۔
بنیادی نکات کا خلاصہ:
۱. اللہ کی کامل بادشاہت: آسمانوں اور زمین کی حکمرانی صرف اسی کی ہے۔
۲. مشرکین کی غلطی: وہ سمجھتے تھے کہ تخلیق تو اللہ کی ہے، لیکن تدبیر (نظام چلانا) دوسرے معبودوں کے پاس ہے۔
۳. تخلیق، تقدیر اور تدبیر کا باہمی تعلق: یہ تینوں ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ اللہ نے ہر چیز کو تخلیق کیا، اس کا پیمانہ (قانون) مقرر کیا، اور اسی کے قانون کے تحت نظام چلا رہا ہے۔
۴. تقدیر کی وضاحت: یہ ہر مخلوق میں ودیعت کردہ طے شدہ قوانین و ہدایات ہیں، جن کے تحت وہ چلتی ہے۔
پس:تخلیق، تقدیر اور تدبیر- یہ تینوں اختیارات صرف اللہ کے پاس ہیں۔ ان میں سے کسی میں بھی کسی کو شریک ٹھہرانا شرک ہے۔
(۲)- عدل تکوینی اور عدل تشریعی میں فرق اور کچھ مثالیں
عدل تکوینی: تعریف: کائنات کی تخلیق و تدبیر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھا گیا فطری توازن اور نظام۔ میدان: تخلیقی نظام (کائنات، فطرت، حیات) مثالیں: موسموں کا توازن، زمین و آسمان کا نظام، ہر مخلوق کیلئے مناسب رزق کی فراہمی یا فطری قوانین (جاذبیت، حیاتیاتی نظام)
خصوصیت: یہ الزامی ہے، کوئی اس سے انحراف نہیں کرسکتا۔ سورج، چاند، ہوا سب اسی قانون کے پابند ہیں۔
عدل تشریعی: تعریف: انسانی زندگی کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ شرعی قوانین اور احکام۔میدان: انسانی اعمال و معاملات (عبادات، معاشرت، اخلاق) مثالیں:نماز، روزہ، زکوٰۃ کے احکام، معاشرتی انصاف کے قوانین، حقوق العباد کے ضوابط، حلال و حرام کی حد بندی
خصوصیت: یہ اختیاری ہے، انسان کو چننے کی آزادی ہے (اور اس کی بنیاد پر جزا و سزا ہوگی)۔
پس یو ں کہا جاسکتا ہے: کہ اللہ تعالیٰ تکوینی عدل میں ہر مخلوق کیلئے یکساں نظام قائم فرماتا ہے (سورج سب پر یکساں چمکتا ہے)، جبکہ تشریعی عدل میں انسانوں کو احکام دیتا ہے جن پر عمل کرنے کا اختیار انہیں دیا گیا ہے، اور اسی کی بنیاد پر ان کا حساب ہوگا۔ دونوں اللہ کی کامل حکمت اور عدل کے مظہر ہیں۔

