امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

شیعوں کے مختلف فرقے

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

ھر مذھب میں کم وبیش ایسے مسائل موجود ھوتے ھیں جواس مذھب کے بنیادی اصول سمجھے اور شمارکئے جاتے ھیں اور اسی طرح ھر مذھب میں بعض دوسرے درجے کے مسائل بھی موجود ھوتے ھیں ۔لھذااصلی مسائل کی کیفیت او ر حقیقت میں اھل مذھب کااختلاف فرقوں کے اشتراک کی اصلیت او ر اصولوں کی بنیاد پر شمار کیاجاتا ھے ۔

دنیا کے تمام ادیان و مذاھب میں بھت سے فرقے پائے جاتے ھیں خصوصا ً چاروں آسمانی مذاھب یعنی یھودیت،عیسائیت ، مجوسیت اوراسلام میں ، بلکہ تمام دیگر مذاھب کے فرقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے فرقے موجود ھیں ۔ مذھب شیعہ میں پھلے تین اماموں (یعنی حضرت امیرا لمومنین علی ابن ابیطالب ،حضرت اما م حسن بن علی اور حضرت امام حسین بن علی علیھم السلام )کے زمانے میں کوئی فرقہ موجود نہ تھا لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد شیعوں کی اکثریت حضرت زین العابدین علیہ السلام کی پیروکار او ر قائل ھوگئی جبکہ اقلیت نے جس کو ” کیسانیھ“ کھا جاتا ھے حضرت علی(ع) کے تیسرے بیٹے محمد بن حنفیہ کو اپنا امام بنا لیا تھا ۔ ان کے خیال کے مطابق محمد بن حنفیہ چھوتھے امام تھے اورو ھی اما م مھدی تھے جوکوہ رضوی میں غائب ھوگئے تھے اور آخری زمانے مین امام مھدی کے نام سے ظاھر ھوں گے ۔
امام سجاد علیہ السلام کی رحلت کے بعد شیعوں کی اکثریت نے آپ کے فرزند ارجمند حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی بیعت کرلی لیکن ایک اقلیت نے امام سجاد علیہ السلام کے دوسرے بیٹے زید شھید کو اپنا ھادی ، رھنما اور امام بنالیا لھذا ان کو اس وجہ سے " زیدیہ " کہا جاتا ھے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام کی رحلت کے بعد شیعوں کی اکثریت نے آپ کے فرزند ارجمند حضرت امام جعفر صادق(ع) کی بیعت کرلی اور ان کی امامت پر ایمان لائے ، آپ کی وفات کے بعد اکثریت شیعہ نے حضرت امام موسی کاظم(ع) کو اپنا امام تسلیم کرلیا لیکن ایک تعدا د نے حضرت اسماعیل کوجو کہ چھٹے امام کے بڑے بیٹے تھے اور حضرت امام موسی کاظم(ع) کی زندگی میں ھی وفات پاگئے تھے ، اپنا امام سمجھا اوراس جماعت کوجو اکثریت سے الگ ھوگئی تھی ” اسماعیلیہ “ کھا گیا ۔ اس کے علاوہ بعض افراد نے امام ھفتم کے دوسرے بیٹے حضرت عبداللہ افطح کی پیروی اختیار کرلی اور بعض لوگ ساتویں امام کے فرزند حضرت امام رضا علیہ السلام کے پیروکار ھوگئے ۔
حضرت امام موسی کاظم(ع) کی شھادت کے بعد اکثریت شیعہ نے حضرت امام رضا(ع) کو آٹھواں امام مانالیکن بعض نے ساتویں امام کوھی آخری امام سمجھا ، لھذا ان کو ”واقفیہ “ کھاجاتاھے۔
اس کے بعد آٹھویں امام سے لے کر بارھویں امام تک جو اکثریت شیعہ کے ایمان و اعتقاد کے مطابق مھدی موعود اور امام آخرالزمان ھیں ،کوئی قابل توجہ فرقہ پیدانہ ھوا اور اگر فرقوں کی صورت میں بعض واقعات و حالات پیداھوئے بھی تو وہ صرف چند روز ھی قائم رہ سکے اور خود بخود ختم ھوگئے ۔ مثلا ً دسویں اما م کے بیٹے حضرت جعفر نے اپنے بھائی یعنی گیارھویں امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد امامت کا دعوی ٰ کیا تھا اورایک جماعت نے ان کو اپنا امام بھی تسلیم کر لیا تھا لیکن یہ گروہ تھوڑے ھی عرصہ میںمنتشر ھوگیاتھا اور حضرت جعفر نے بھی اپنے دعوے سے ھاتہ اٹھا لیا تھالھذا وہ فرقہ جاری نہ رہ سکا ۔ اسی طرح شیعہ علماء کے درمیان بعض دوسرے اختلافات بھی موجود ھیں لیکن ان اختلافات کو مذھبی فرقوں کے طور پر شمار نھیں کیا جاسکتا ۔
مذکورہ بالا فرقے اکثریت شیعہ کے مقابلے میں پیدا ھوتے رھے لیکن تھوڑے تھوڑے عرصے میں ھی خود بخود ختم اور معطل ھوتے گئے سوائے دوفرقوں ”زیدیہ اور اسماعیلیہ “ کے جوابھی تک موجود ھیں اور ان کے ماننے والے اب بھی مختلف ملکوں مثلا ً یمن ، پاکستان ، ھندوستا ن، لبنان اور دوسری جگھوں پر زندگی گزاررھے ھیں ۔ اسی لئے بارہ امامی شیعوںکی اکثریت کے ساتھ ساتھ صرف انھی دوفرقوں کے ذکر پراکتفا کیا جاتا ھے کیوںکہ یھی دوفرقے دوسرے شیعہ فرقوں کے درمیان اھم ترین فرقے ھیں ۔



شیعہٴ زید یہ

زیدیہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزند زید شھید کے پیروکار ھیں ۔ زید نے ۱۲۱ ھ اموی خلیفہ ھشام بن عبدالملک کے خلاف تحریک چلائی تھی اور ایک بڑی جماعت نے ان کی بیعت کرلی تھی لیکن شھر کوفہ میں ان کے مرید وں اور پیروکاروں اور اموی خلیفہ کی فوج کے درمیان جنگ ھوئی اورحضرت زیدبھی اس جنگ میں شھید ھوگئے ۔
زید شھید اپنے ماننے والوںاور پیروکاروں کے لئے اھلبیت(ع) کے پانچویں امام شمار کئے جاتے ھیں اور ان کے بعد ان کے بیٹے یحییٰ بن زید جنھوں نے اموی خلیفہ ولید بن یزید کے خلاف تحریک چلائی تھی اورشھید ھوگئے تھے ، آپ کے جانشین مقرر ھوئے ۔ ان کے بعد محمد بن عبدا للہ اور ابراھیم بن عبداللہ جنھوں نے عباسی خلیفہ منصور دوانقی کے خلاف مھم شروع کی تھی اوریکے بعد دیگرے دونوں شھید ھوگئے تھے ، فرقہ زیدیہ کے امام سمجھے جاتے ھیں ۔
اسکے بعد کچھ مدت کے لئے زیدیہ فرقہ غیر منظم رھا ۔یھاں تک کہ ناصر اطروش نے جو حضرت زید کے بھائی کی اولاد میں تھا ، خراسان میں اپنی امامت کا اعلان کردیا ۔ وھاں حکومت نے اس کو گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھاگ کر مازندران پھنچ گیا جھاں کے لوگوں نے ابھی اسلام قبول نھیں کیاتھا۔وھاں اس نے تیر ہ سال اسلام کی تبلیغ کی اوربھت سے افراد کومسلمان بنا کر زیدیہ مذھب کاگرویدہ بنا لیا تھا اس کے بعد انھی افراد کی مدد سے طبرستان پرقبضہ کرنے میں کامیاب ھوگیا اور اپنی امامت کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد اس کی اولاد میں سے بعض افراد نے کافی عرصے تک اس علاقے میں اپنی حکومت اور امامت جاری رکھی ۔
زیدیہ فرقے کے عقیدے کے مطابق ھروہ شخص جوفاطمی نسل سے ھواور اس کے ساتھ ساتھ عالم فاضل ، زاھد ، پارسا اورسخی بھی ھواور حق کی خاطر ظلم وستم کے خلاف اٹھے اورظلم و ستم کو ختم کرنے کی تحریک چلائے ، امام ھوسکتاھے ۔
شروع شروع میں زیدی لوگ خود حضرت زید کی طر ح پھلے دوخلفاء (ابوبکر و عمر )کو اپنے آئمہ میں شمار کیا کرتے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد لوگوں نے ان خلفاء کے نام اپنے اماموں کی فھرست سے نکال دیے اور اپنی امامت کو حضرت علی(ع) سے شمار کرنا شروع کر دیا۔
تاریخی شواھد کے مطابق فرقۂ زیدیہ اصول اسلام میں معتزلہ کا ذوق رکھتا ھے او ر تقریبا ً اسی مذھب کاپیروکار ھے ، فروعی اورفقھی عقائد میں امام ابوحنیفہ کی پیروی کرتا ھے جواھلسنت کے چار اماموں میں سے ایک ھیں ۔ ان کے درمیان بعض فقھی مسائل کے بارے میں تھوڑا بھت اختلاف موجودھے ۔(۱)


اسماعیلیہ شیعہ اوران کے مختلف فرقے

امام ششم حضرت جعفر صادق علیہ السلام کے ایک بیٹے جن کا نام اسماعیل تھا اوروہ امام جعفر صادق(ع) کی اولاد میں سب سے بڑے تھے (۲)،نے اپنے والد کی زندگی میں ھی وفات پائی تھی ۔خود حضرت امام جعفر صادق(ع) نے اسماعیل کی وفات کی گواھی دی تھی اور حتیٰ کہ حاکم مدینہ نے بھی اس گواھی کی تصدیق کی تھی کہ اسماعیل فوت ھوچکے ھیں مگر بعض لوگوں کا ایمان او راعتقاد تھا کہ وہ فوت نھیں ھوئے بلکہ غائب اور روپوش ھوگئے ھیں اور اسی لئے دوبارہ ظاھر ھوں گے اور وھی مھدی موعود بھی ھوں گے ۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ اسماعیل کی وفات کے بارے میں امام ششم(ع) کی گواھی ایک قسم کی پردہ پوشی ھے جو جان بوجھ کرعباسی خلیفہ منصور کے خوف سے دی گئی ھے ۔ اسی طرح بعض لوگوں کا خیال یہ تھا کہ اگرچہ اسماعیل اپنے والد کی زندگی میں ھی فوت ھوگئے ھیں لیکن امامت پھر بھی انھی کا حق ھے اور اسماعیل کی وفات کے بعد یہ امامت خود بخود ان کے بیٹے محمد اور پھر ان کی اولاد میں منتقل ھوگئی ھے ۔
مجموعی طور پر اسماعیلیوں کافلسفہ ایک ایسا فلسفہ ھے جو ستارہ پرستوں کے فلسفے سے مشابھت رکھتا ھے اور یہ فلسفہ در حقیقت ھندی عرفان اور تصوف کے ساتھ گھل مل گیا ھے۔ اسی طرح قرآنی معارف اور اسلامی احکام کے بارے میں بھی ان کا ایمان ھے کہ ھرظاھر کے لئے ایک باطن اور ھرباطن کے لئے ایک ظاھر موجود ھے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ تنزیل کے لئے ایک تاویل پر بھی ایمان رکھتے ھیں ۔
اسماعیلیوں کا ایمان اور اعتقاد یہ ھے کہ یہ دنیا ھرگز حجت خدا سے خالی نھیں ھوتی او ر خدا کی حجت دوطرح کی ھوتی ھے ۔ ایک ناطق اور دوسری صامت ، حجت ناطق تو خود پیغمبر ھوتے ھیں او ر حجت صامت (خاموش )ولی یا امام ھوتے ھیں جو پیغمبر کے جانشین او روصی ھیں ۔ بھر حال حجت ، خدائے تعالی کی ربوبیت اور خدائی کامظھر ھے ۔
حجت کی بنیاد ھمیشہ سات کے عدد کے ارد گرد گھومتی ھے اس طرح کہ ایک نبی یا رسول آتا ھے جس کوخدا کی طرف سے نبوت (شریعت)اورولایت ملی ھوتی ھے اوراس کے بعد اس پیغمبر کے سات جانشین ھوتے ھیں جن کو ولایت ملتی ھے ۔ ان سب جانشینوں کاایک ھی درجہ یا مقام ھوتا ھے ، سوائے اس کے کہ ساتواں جانشین نبی بھی ھوتاھے ۔ اس کے تین درجے ھیں یعنی نبوت ، جانشینی او رولایت۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جانشینی کاسلسلہ شروع ھوجاتا ھے اور پھلے کی طرح سات جانشین ھوتے ھیں۔ ساتواں جانشین ان تینوں مقامات او ر درجات کا حامل ھوتا ھے او ر یہ سلسلہ اسی نھج اور طریقے پر چلتا رھتا ھے اور کبھی ختم نھیں ھوتا ۔ اسماعیلی کھتے ھیں کہ حضرت آدم(ع) نبوت اور ولایت کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے تھے اوران کے سات جانشین تھے جن میں سے ساتویں حضرت نوخ(ع) تھے اور حضرت ابراھیم(ع)کے ساتویں جانشین حضرت موسیٰ (ع) تھے ۔ حضرت موسیٰ (ع)کے ساتویں جانشین حضرت عیسیٰ(ع) تھے اور حضرت عیسیٰ(ع) کے ساتویں جانشین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔ اور اسی طرح حضرت محمد کے ساتویں جانشین محمد بن اسماعیل تھے ۔ حضرت محمد کے جانشین بالترتیب حضرت علی(ع) ، حضرت امام حسین(ع) ، حضرت علی بن حسین(ع) (زین العابدین )، حضرت امام محمد باقر (ع)، حضرت امام جعفر صادق (ع) ، حضرت اسماعیل اور حضرت محمد بن اسماعیل ھوتے ھیں (یہ لوگ دوسرے امام یعنی حضرت امام حسن(ع)بن علی(ع) کواپنا امام نھیں مانتے )۔ محمد بن اسماعیل کے بعد ان کی اولاد سے سات افراد جانشین ھیں جن کا نام پوشیدہ ھے ۔ اس کے بعد فاطمی بادشاھوں میں سے پھلے سات افراد جن میں سب سے پھلے عبد اللہ مھدی تھے جو فاطمی سلطنت کے بانی ھوئے ،جانشین تھے ۔
اسماعیلیوں کا اعتقاد اور ایمان ھے کہ خداوندتعالیٰ کی طرف سے ھمیشہ روئے زمین پر بارہ افراد موجود رھتے ھیں جن کو ” حواری یا خواص یاحجت “ کھا جاتا ھے لیکن اسماعیلیوں کے بعض فرقے (دروزیہ یا باطنیہ )ان کی تعداد چھ بتاتے ھیں اور باقی چھ افراد کو اماموں میں سے لیتے ھیں ۔
۲۷۸ ھ میں(افریقہ میں عبیداللہ مھدی کے ظھور سے چند سال پھلے )خوزستان کے صوبے میں ایک شخص جس نے اپنا کبھی نام اور پتہ نھیں بتایا تھا ، کوفہ کے گرد و نواح میں ظاھر ھوا ۔ یہ شخص دن کو روزہ رکھا کرتا تھا اوررات کو عبادت میں گزار دیا کرتا تھا ۔ اپنے ھاتہ سے روزی کماکر کھاتا تھا ۔ساتھ ھی ساتھ عوام کو مذھب اسماعیلیہ کی دعوت دیا کرتا تھا ۔ اس کی تبلیغ کے ذریعے بھت سے لوگ اسکے گرد جمع ھوگئے تھے ۔ اس نے اپنے پیروکاروں میں سے بارہ افراد کو اپنے ” نقیب “ یعنی مبلغ کے طور پر منتخب کرلیا تھا اور خود کوفہ سے شام کی طرف چلا گیاتھا اس کے بعد اس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نھیں چلا ۔
اس ناشناختہ شدہ شخص کے بعد ایک شخص بنام احمد جو قرمط کے نام سے مشھور ھوا ، عراق میں اس کا جانشین بنا۔ اس نے باطنیہ مذھب کی تبلیغ شروع کی او رجیسا کہ مورخین نے لکھا ھے کہ اس نے پنجگانہ نماز کے مقابلے میں ایک نئی نماز شروع کی تھی۔ اس نے غسل جنابت کو باطل اور منسوخ کردیا تھا اورشراب کو حلال اور جائز قرار دیا تھا۔ اسی دوران باطنیہ فرقے کے بعض دوسرے افرادنے بھی اس مذھب کی تبلیغ جاری رکھی اور ایک جماعت کو اپنا گرویدہ اور پیروکار بنالیاتھا ۔
یہ لوگ ان افراد اور اشخاص کے جان و مال کا کچھ احترام نہ کرتے تھے جو باطنیہ فرقے کو نھیں مانتے یا اس کے قائل نھیں تھے ۔ اسی طرح انھوں نے مختلف شھروں یا ملکوں مثلا ً عراق ، بحرین ، یمن اور شام (آج کل کے شام ، لبنان ، فلسطین ، اسرائیل اور اردن وغیرہ سارے علاقے کو شام کھا جاتا تھا )میں اپنی اس تحریک کو مضبوط اور جاری رکھ کر بے اندازہ لوگوں کا قتل عام کیا تھا۔ وہ ان کے مال و متاع کو لوٹ لیا کرتے تھے ، انھوں نے بارھا حاجیوں کے قافلوں پر حملے کئے اور ھزاروں انسانوں کوموت کے گھاٹ اتار کے ان کے مال اور سامان سفر کو لوٹاتھا ۔
باطنیہ فرقے کے سرداروں اور سرکردہ لوگوں میں سے ایک شخص ابوطاھر قرمطی تھا ، جس نے ۳۱۱ ھ میں بصرہ پر قبضہ کرلیا اور لوگوں کے مال کو لوٹنے اور ان کو قتل کرنے میں ذرہ برابربھی دریغ نہ کیا تھا ۔ وہ شخص ۳۱۷ھ میں باطنیہ فرقے کی ایک بھت بڑی فوج لے کر حج کے زمانے میں مکہ معظمہ گیا اور وھاں کی حکومت کی طرف سے مختصر سی رکاوٹ کو ختم کرکے مکہ شھر میں داخل ھوگیا وھاںاس نے مکہ معظمہ کے عوام اور تازہ وارد حاجیوں کا قتل عام شروع کردیا حتیٰ کہ مسجد الحرام اور خانۂ کعبہ میں خون کی ندیاں بھادیں ۔ اس نے خانۂ کعبہ کے پردے کو پھاڑ کر اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرکے خانۂ کعبہ کو ڈھا دیا اور حجراسود کو خانۂ کعبہ کی دیوار سے نکال کر اپنے ساتھ یمن لے گیا جوبائیس سال تک قرمطیوں کے قبضے میں رھا ۔
انھی واقعات اور حوادث کی وجہ سے مسلمانوں نے باطنیہ فرقے سے منہ موڑلیااور ان کو دین اسلام سے خارج یعنی کافر سمجھنے لگے یھاں تک کہ عبیداللہ مھدی فاطمی جومصرمیں ظاھر ھوا اوراپنے آپ کو مھدی موعود اور اسماعیلیوں کاامام کھا کرتا تھا ، نے بھی قرمطیوں سے بیزاری کا اعلان کردیا تھا ۔
مورخین کے بیانات کے مطابق باطنیہ فرقے کا مذھبی تشخص یہ ھے کہ اس فرقے کے افراد ظاھری قوانین اور دینی احکام کی تفسیر، باطنی اور روحانی طریقے سے نیزعرفانی تاویل کرتے ھیں اور ظاھری شریعت کو صرف انھی لوگوں سے مختص جانتے ھیں جو کم عقل اورمعنوی کمال سے بے بھرہ ھوتے ھیں اور یہ حکم بعض اوقات ان کے اماموں سے صادر ھوا کرتا ھے ۔


نزاریہ ، مستعلیہ ، دروزیہ او رمقنعہ فرقے

عبید اللہ مھدی ۳۹۶ ھ میں افریقہ میں ظاھر ھوا۔اس نے اسماعیلیہ مذھب کے مطابق اپنی امامت کا دعویٰ کیا اور اسی مذھب کی تبلیغ بھی کیا کرتا تھا۔ اسی شخص نے فاطمی سلطنت کی داغ بیل ڈالی تھی ۔ اس کے بعد اس کی اولاد نے مصر کو اپنا دارالخلافہ بنایا اور سات پشتوں تک کسی دوسرے فرقے کے وجود کے بغیر سلطنت اور اسماعیلیہ مذھب کی امامت کی تھی۔ اس خاندان کاساتواں بادشاہ اور امام جس کا نام مستنصر بالله سعد بن علی تھا ، اس کے دوبیٹے نزار اور مستعلی تھے ، ان دونوں کے درمیان خلافت کے لئے جھگڑا شروع ھوگیا تھا۔ بھت زیادہ کشمکش او رخونی جنگوں کے بعد مستعلی کوفتح ھوئی اور اس نے اپنے بھائی نزارکو پکڑ کرقید کردیا ۔یھاں تک کہ اس نے قید میں ھی وفات پائی۔ ان کشمکشوں او ر جنگوں کی وجہ سے فاطمیوں کے پیرو کار دوفرقوں یا گروھوں میں بٹ گئے : ”نزاریہ “ اور ”مستعلیہ “ ۔
نزاریہ فرقہ بعد میں حسن بن صباح کا پیروکار بن گیا جو مستنصر بالله کانزدیکی اور مقرب تھا ۔ چونکہ حسن بن صباح ، مستنصر بالله کے بعد نزار کا جانبدار تھا اس لئے مستعلی کے حکم سے اس کو مصرسے نکال دیا گیا تھا۔ وہ ایرا ن چلا گیا اور تھوڑی مدت کے بعد قزوین کے علاقے میں واقع قلعہ ”الموت “ میں چلا گیا ۔
اس نے ایک فوج تیار کرکے قلعہ الموت اور گردونواح کے قلعوں پر قبضہ کرلیا اور اپنی سلطنت کا اعلان کردیا ۔ ساتھ ھی نزار کے حق میں تبلیغ بھی جاری رکھی ۔ حسن بن صباح کے مرنے کے یعنی۵۱۸ ھ کے بعد بزرگ امیدرود باری “ اور اس کے بعد اس کے بیٹے ” کیا محمد “ نے حسن بن صباح کے طریقے اور آئین پرھی حکومت کی تھی ۔ پھر اس کا بیٹا ” حسن علی ذکرہ اسلام “ جوالموت کا چوتھا حکمران اور والی تھا ، نے حسن بن صباح کے نزاری آئین او رطریقے کو منسوخ کر کے باطنیہ فرقے کی پیروی شروع کردی تھی ۔یھاں تک کہ ھلاکوخان تاتارنے ایران پر حملہ کردیا اور اسماعیلیہ قلعوں کو فتح کرکے تمام اسماعیلیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ اس نے قلعوں کی بڑی بڑی فلک بوس عمارتوں کو بھی مٹی میں ملادیاتھا۔ اس کے بعد ۱۲۵۵ھ میں آغاخان محلاتی نے جو نزار فرقے سے تعلق رکھتا تھا ایران میں محمد شاہ قاچار سے بغاوت کی۔ اس نے کرمان کے علاقے میں تحریک شروع کی تھی اس میں اسے شکست ھوئی اور وہ بمبئی کی طرف بھاگ گیا ۔ وھاں باطنیہ نزاری فرقے کی تبلیغ کاکا م جاری رکھا او راپنی امامت کا اعلان کردیا ۔ اس فرقے کی تبلیغ ابھی تک باقی اور جاری ھے ۔ نزاریہ فرقہ کو اب ” آغا خانیہ “ کھا جاتا ھے ۔


مستعلیہ :

اس فرقے کے لوگ فاطمی بادشاہ مستعلی کے مریداور پیروکار تھے ان کی امامت مصر کے فاطمی خلفاء میں ھی باقی رھی جو ۵۵۷ ھ میں ختم ھوگئی لیکن کچھ عرصہ بعد ھندوستان اور پاکستان میں ” بوھرہ فرقہ “ کی بنیاد اسی مذھب پر دوبارہ قائم ھوئی جواب بھی باقی اور جاری ھے ۔
دروزیہ : دروزیہ قبیلہ جودروز (شام )کے پھاڑوں میں سکونت پذیر ھے ، کے لوگ ابتدامیں فاطمی خلفا ء کے پیروکار تھے لیکن چھٹے فاطمی خلیفہ کے زمانے میں نشتگین دروزی کی تبلیغات کے زیر اثر باطنیہ فرقے سے ملحق ھوگئے ۔ دروزیہ فرقے کی امامت الحاکم بالله (فاطمی بادشاہ )پر آکر رک گئی جو دوسروں کے اعتقادات کے مطابق قتل ھوگیا تھا لیکن دروزیہ فرقے کاعقیدہ یاخیال ھے کہ وہ غائب ھوگیا ھے اور آسما نوں میںچلا گیاھے اورپھر دوبارہ لوگوں کے درمیان آئے گا (یعنی وھی اما م مھدی کی شکل میں ظھور کرے گا )۔


مقنعہ:

اس فرقے کے لوگ ” عطا مروی المعروف بہ مقنع “ کے پیروکار تھے جو مورخین کے قول کے مطابق ابومسلم خراسانی کے مریدوں اور پیروکاروں میں سے تھا ۔ اس نے ابو مسلم کی وفات کے بعد دعویٰ کیا کہ ابومسلم کی روح اس کے اندر حلول کرگئی ھے ۔ تھوڑے ھی عرصے بعد اس نے پیغمبر ی کا دعویٰ بھی کردیا۔ اس نے اسی پر قناعت نھیں کی خدائی کادعویٰ بھی کردیا مگر آخرکار ۱۶۲ ھ میں عباسی خلیفہ مھدی (۱۵۸ تا ۱۶۹ھ )نے ماوراء النھر کے علاقے میں قلعہ کیش کا محاصرہ کرلیا۔ جب مقنع کو اپنی گرفتاری اور موت کا یقین ھوگیا تواس نے آگ جلائی اور اپنے چند پیروکاروں کے ساتھ اس میں کود گیا او رجل کر خاکستر ھوگیا ۔عطا مروی (مقنع )کے پیروکاروں نے کچھ عرصے کے بعد اسماعیلیہ مذھب اختیار کرلیا اور پھر باطنیہ فرقہ کے ساتھ ملحق ھوگئے ۔


دوازدہ امامی شیعہ اور ان کا زیدیہ و اسماعیلیہ کے ساتھ فرق

شیعوں کی اکثریت جس سے تمام مذکورہ فرقے ، گروہ اوراقلیتیں نکلی اور جداھوئی ھیں ،کو بارہ امامی یا اثناء عشری یا شیعۂ امامیہ کھتے ھیں اورجیسا کہ پھلے ذکر کیا گیا ھے اس مذھب کی پیدائش کی وجہ شروع میں ھی اسلامی مسائل میں سے دو بنیادی اصولوں اور مسئلوں کے بارے میں اختلاف نظر تھا۔ یہ مذھب انھی دواصولوں میں اعتراض کے طور پر پیدا ھوا تھا لیکن اس فرقے میں حضرت رسول اکرم کی تعلیمات کے بارے میں کسی قسم کا اختلاف نھیں تھا اورنہ ھی ان کو اسلامی قانون کے متعلق کوئی اعتراض تھا۔ وہ دومسئلے یہ ھیںپھلا اسلامی حکومت اوردوسرا علمی رھبری (قیادت )کہ شیعہ ان کو اھلبیت(ع) کا خصوصی حق سمجھتے ھیں ۔
شیعہ کھتے ھیں کہ اسلامی خلافت کہ معنوی اور باطنی ولایت یا دینی رھبری اس کا جزو لاینفک ھے ، حضرت علی(ع) اور آپ کی اولاد کا حق ھے جو پیغمبر اکرم کے واضح اعلان کے مطابق اھلبیت(ع)میں سے معین شدہ امام ھیں ۔ جن کی تعداد بارہ ھے اور پھر کھتے ھیں کہ قرآن کی ظاھری تعلیمات جن کو احکام ، قوانین اور شریعت کھا جاتا ھے، مکمل ضابطہ ٴحیات بھی ھے اور اپنی معنوی اصلیت کے اعتبار سے مکمل بھی۔ یہ ایک ضابطہ ٴ حیات ھے جو قیامت تک باطل اور منسوخ نھیں ھوسکتا ان اسلامی قوانین و احکام کو صرف اھلبیت(ع) ھی سے حاصل کیا جاسکتا ھے اور بس۔ لھذا یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ :
بارہ امامی شیعہ او رزیدیہ فرقہ کے درمیان کلی طور پر فرق یہ ھے کہ زیدی شیعہ غالبا امامت کو اھلبیت(ع) سے مخصوص نھیں جانتے ساتھ ھی اماموں کی تعداد کو بارہ کے عددمیں منحصر ومحدودبھی نھیں کرتے نیز اھلبیت(ع) کی فقہ کی پیروی بھی نھیں کرتے ۔ اسی طرح بارہ امامی شیعہ اور اسماعیلی شیعہ کے درمیان مجموعی طور پر فرق یہ ھے کہ اسماعیلیہ فرقے کا اعتقاد یہ ھے کہ امامت سات کے عدد کے اردگرد گھومتی ھے اور نبوت حضرت محمد پر ختم نھیں ھوئی ھے ۔ احکام شریعت میں تغیر و تبدل بلکہ اصل فرائض کو ختم کردینا یا چھوڑ دینا ، خصوصا ًباطنیہ فرقہ کے قول کے مطابق کوئی گناہ نھیں ھے لیکن اس کے برعکس شیعہ اثنا ء عشری یا بارہ امامی حضرت محمد کو خاتم الانبیاء جانتے ھیں اور آپ کے بعد بارہ جانشینوں اوراماموں پر ایمان رکھتے ھیں اسی طرح ظاھری شریعت کومعتبر اورناقابل منسوخ اور نا قابل تبدیل سمجھتے ھیں نیزقرآن کے ظاھری اور باطنی معنی پر مکمل یقین اور ایمان رکھتے ھیں ۔


خاتمۂ باب

آخری دو صدیوں کے دوران بارہ امامی شیعوں میں سے دو دوسرے فرقے بنام ” شیخیہ اور کریم خانیہ “ پیدا ھوگئے ھیں ۔ اگرچہ بعض مسائل میں دوسرے فرقوں کے ساتھ ان کا اختلاف ھے لیکن یہ اختلاف صرف فقھی مسائل میں ھے نہ کہ نفی و اثبات کے اصلی مسائل میں لھذا ھم ان کو اصل فرقے نھیں سمجھتے ۔
اسی طرح ایک فرقہ ”علی اللٰھی “ کے نام سے بھی موجود ھے جو بارہ امامی شیعوں سے جدا اورالگ ھوا ھے۔ اس فرقے کو غلاة (غلو کرنے والا ، مبالغہ کرنے والا )کھا جاتاھے اور باطنیہ اور اسماعیلیہ کی طرح یہ فرقہ بھی صرف باطن پر ایمان رکھتا ھے اور چونکہ اس فرقے کے پاس کوئی منظم اورمرتب نظام موجود نھیں ھے اس لئے ھم اس فرقے کوشیعہ فرقوں میں شمار ھی نھیں کرتے ۔


حوالے

۱۔ یہ مطالب کتاب ” الملل و النحل “ شہرستانی اور کتاب کامل ، ابن اثیر سے اخذ کئے گئے ہیں
۲۔ یہ مطالب ، کتب کامل ابن اثیر ، روضة الصفا ، حبیب السیر ، تاریخ ابی الفداء ، ملل و النحل شہرستانی اور اس کے بعض اجزاء یعنی تاریخ آغا خانیہ سے نقل اور ماخوذ ہیں ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک