امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

غیبت کبری میں امام زمانہ عج کے وجود کے فوائد

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


امام زمانہ عج کی غیبت کے بارے میں علماء نے بہت سی بحثیں کی ہیں کہ ان میں سے ایک یہ ہےکہ غیبت میں امام عج کے وجود کے فوائد کیا ہیں ؟لہذا ہم یہاں دواصلی محورپر تبصرہ کریں گے :
الف:غیبت امام عصرعج پر ایمان وعقیدہ رکھنے کا فائدہ کیاہے ؟
ب:امام غائب کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟


الف:غیبت امام عصرعج پر ایمان وعقیدہ کا فائدہ

یہاں ہم ایک سوال کرتے ہیں کہ کسی غائب کا موجودہونا جس کے وجود کا کوئی فائدہ ونفع نہ ہو اس کا ہونا اورنہ ہونا مساوی ہوتاہے ،پس ایسے امام پر ایمان واعتقاد رکھنے کا کیا فائدہ ہے جو غائب ہو ؟
اس سوال کا جواب پیش کرنے کے لیے ہم چند مطالب بطورمقدمہ پیش کررہے ہیں :
(۱)امام پر اعتقاد ،ایمان کے اہم ارکان میں شمار ہوتا ہے پیغمبر گرامی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ ؛جو شخص اپنے امام وقت کی معرفت کیے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔
یہی حدیث فریقین کی کتب احادیث میں مختلف عبارات کے ساتھ نقل ہوئی ہے ۔
(۲)غیبت پر ایمان اللہ تعالی کے نزدیک اہم امور میں سے ہے اورایمان واخلاص نہایت تاثیرگذارہے ارشاد رب العزت ہے :الذین یومنون بالغیب )
(۳)ثواب وعقاب ،جنت وجہنم ،سوال قبراورجوکچھ قیامت کے بارے میں ہے ان سب چیزوں پر اعتقاد ایمان بالغیب ہی سے وابستہ ہے اوریہی ایمان بالغیب انسان کے ثبات قدم ،استقامت ،حدود سے خارج نہ ہونے اورحکم خداوندی سے سرپیچی نہ کرنے میں بہت اثرانداز ہوتاہے
پس ان مقدمات کی روشنی میں وجود امام عصر عج پر اعتقاد کے چند فوائد بیان کررہے ہیں
۱: جس مسلمان کو یہ علم ہو کہ اس کا امام حاضر ہے اور اس کے اعمال دیکھ رہاہے تو اس کی رفتار وعمل میں اور جس کا یہ عقیدہ نہیں ہے اس کے عمل میں بہت فرق پایا جاتا ہے جیسا کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ جو لوگ وجود امام غائب کے معتقد ہیں اور انہیں اپنے کردار پر ناظر سمجھتے ہیں وہ لوگ ساکت ،منکسراور متواضع ہوتے ہیں کسی کو اذیت نہیں دیتے اور گناہ سے دورہوتے ہیں
۲:حضرت کے حاضر وناظر ہونے کا اعتقاد لوگوں میں مصائب وآلام اورآزمایشات وحوادث کے مقابلے میں ان کی ہمت وحوصلہ افزائی کاسببب بنتا ہے جیسا کہ جب حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کو معلوم ہوا کہ ان کا نبی زندہ ہے تو انہیں ان کے وجود سے ہمت وحوصلہ ملا ان کے دلوں کو تسکین ملی ۔
۳:ان کے ظہورکے انتظار سے بھی لوگوں کو اطمینان وحوصلہ ملتا ہے کیونکہ جب مسلمان ظلم وستم کو دیکھتےہیں اور عدل وانصاف کو پامال ہوتادیکھتےہیں تو ان کے ظہور کےلیے دعائیں کرتے ہیں اورپریشانیوں میں ان سے توسل کرتےہیں
۴:برسوں کی غیبت اور چشم انتظار کے بعد ان کا ظہوربیشتر لوگوں کی رغبت کاسبب قرارپائے گا نتیجا باسانی ان پرایمان لے آئیں گے اور ان کی نصرت پر آمادہ اورباقی رہیں گے


امام غائب کے وجود کافائدہ

ممکن ہے کسی کے دل میں یہ شبھہ یا سوال سراٹھائے کہ امام غائب کے وجود کا فائدہ کیا ہے ؟
اگر امام لوگوں کا پیشوا اوررہبر ہوتا ہے تو اسے ظاہر ہونا چاہیے ایسا امام جو صدیوں سے غائب ہو نہ دین کی ترویج ،نہ معاشرے میں پیدا ہونے والی مشکلات کو حل کرے،نہ مخالفین کو کوئی جواب دے ،نہ امربہ معروف اورنہی از منکر کرے ،نہ مظلومین کی حمایت کرے ،نہ حدود واحکام اسلمای کو جاری کرے نہ لوگوں کے حلال وحرام کے مسائل کی وضاحت کرے بھلا ایسے امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے
ہم اس شبھہ یا سوال کے جواب میں اتنا کہنا چاہیں گے کہ زمانہ غیبت میں لوگ اگرچہ خود اپنی غلطیوں اوراپنے اعمال کی وجہ سے امام کے زمانہ حضور کے فوائد سے محروم ہوئےہیں
لیکن اس کے باوجود ان کے وجود کے فوائد صرف انہیں پر منحصر نہیں ہیں بلکہ کچھ ایسے فوائد بھی ہیں جو زمانہ غیبت میں بھی مترتب ہوتےہیں ان فوائد کو دوحصوں عمومی اورخصوصی میں تقسیم کیاجاسکتا ہے


فوائد عمومی

حجت خدا کا وجود ،واسطہ فیض الہی اور استقرار زمین کا سبب ہے فریقین کی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حجت خدا کا وجود زمین کے استقرار کا سبب ہے اگر امام حجت خدا زمین پر موجود نہ ہو زمین میں استقرار قائم نہیں رہ سکتا بنابرایں اگرچہ آنجناب لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں لیکن ان کا وجود اہل زمین کے لیے باعث امان ہے اس سلسلہ میں کثرت سے ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جو اس کی تصریح کررہی ہیں
حضورسرورکائنات نے فرمایا
النجوم امان لاهل السما ء اذاذهبت النجوم ذهب اهل السماء، واهل بیتی امان لاهل الارض فاذا ذهب اهل بیتی ذهب اهل الارض ؛ ستارے اہل آسمان کے لیے باعث آرام وامان ہیں پس اگرستارے ہٹ جائیں تو اہل آسمان مٹ جائیں اسی طرح میرے اہل بیت اہل زمین کے لیے امان ہیں اگر یہ درمیان سے ہٹ جائیں تو اہل زمین نابود ہوجائیں گے
شیخ طوسی کتاب تجرید الکلام میں امام زمانہ عج کے وجود کو لطف سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں : وجود ہ لطف وتصرفہ آخر وعدمہ منا ؛امام کا وجود لطف الہی ہے اور ان کا تصرف کرنا (یعنی وظائف امامت پرعمل کرنا )یہ ایک اورلطف الہی ہے جبکہ ان کی غیبت ہمارے اعمال بد کی وجہ سےہے ۔ یعنی امت اسلامی نے جو ان کے لیے فضابنائی ہے حضرت اسی وجہ سے غیبت پر مجبورہوئے ہیں
امامت کے سلسلہ میں وارد ہونے والی احادیث کے مطابق امام غائب کا وجود مقدس انسان کی کامل نوع اورعالم مادی وعالم ربوبی کے درمیان مکمل رابطہ ہے اگر زمین پر امام وحجت خدا نہ ہو تو نسل انسانی منقرض ہوجائے گی اوردنیا کابیڑا غرق ہوکر رہ جائے گا اگر امام نہ ہو تو خدا تو مکمل طورپر پہچانانہیں جاسکتا اس کی عبادت ممکن نہیں ہوسکتی انہی کے ذریعہ خداپہچانا جاتاہے اورلوگ اس کی عبادت کرتے ہیں اگر امام نہ ہو تو خالق ومخلوق کارابطہ منقطع ہوجائے گا
کیونکہ انسان میں فیاض علی الاطلاق سے فیضیاب ہونے کی توانائی نہیں ہے لہذا اشرافات وافاضات عالم غیب پہلے امام کے پاک وپاکیزہ آئینہ قلب پر نازل ہوتےہیں پھر ان کے ذریعے لوگوں تک منتقل ہوتےہیں
امام ،قلب عالم وجود اوررہبرانسان ہوتا ہے اسی کے ذریعے فیوضات الہی جہان آفرینش تک پہنچتے ہیں قانون لطف اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خداوند کریم کے کچھ لائق وفائق اورشائستہ افراد اس اہم ذمہ داری سے عہدہ برآ، ہونے چاہییں ،عظیم الشان پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اوران کے برحق جانشینوں نے اس اہم ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے وادی ضلالت میں بھٹکنے والوں کو شاہراہ سعادت پر گامزن کرنے کے لیے مشعل راہ بن گئےہیں لہذا ان آثار کے مترتب ہونے میں امام زمانہ کے حضور وغیبت میں کوئی فرق نہیں ہے آئمہ علیھم السلام چاہے حاضر ہوں یاغائب وہ ہر صورت میں واسطہ فیض الہی ہیں ان کی غیبت میں بھی وہی منافع موجود ہیں جو ان کے حضور میں پائے جاتے ہیں
اس اشکال کا منشا واساس کہ امام غائب سے کس طرح نفع حاصل کیا جاسکتا ہے ؟درحقیقت اس کی بنیاد امام کی عدم معرفت اورمعنای ولایت کی حقیقت کو نہ سمجھنا ہے امام قطب عالم امکان ہیں تمام موجودات چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے سب وجود امام کے محتاج ہیں امام ،منبع فیض الہیسے فیضیاب ہوتے ہیں امام معصوم کی امامت وولایت عالم تکوین وعالم تشریع اوراسی طرح ظاہر وباطن میں جاری وساری ہے
حضرت امام علی نقی علیہ السلام زیارت جامعہ کبیرہ میں ارشادفرماتے ہیں
بکم ینزل الغیث وبکم یمسک ان تقع علی الارض الاباذنه
تمہارے (آئمہ)ہی کے وجود کی وجہ سے بارش نازل ہوتی ہے اورتمہاری ہی وجہ سے آسمان زمین پر نہیں گررہا ہے
تکوینی اعتبار سے کائنات کا چھوٹے سے چھوٹا اوربڑے سے بڑا عنصر اپنی زندگی کے کارواں کو آگے بڑھانے میں امام کے وجود کا محتاج ہے چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتےہیں
ارادہ الہی اس امر پر مبتنی ہے کہ ہر سال ایک ایسی بات قراردے جس میں فرشتے تنظیم امور کے لیے زمین پر نازل ہوں اور خداوند اس سے بزرگ وبرتر ہے کہ روح وفرشتوں کو کافر یا فاسق کے پاس نازل کرے
نتیجتا تمام مخلوقات عالم کی حیات وزندگی امام کے وجود سے وابستہ ہے دعائے عدیلہ میں آیا ہے کہ
بیمنه رزق الوری وبوجوده ثبتت الارض والسماء
نیز اسی سلسلہ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ لوبقیت الارض یوما بلاامام منا لساخت الارض باھلھا
اگر ہم میں سے ایک دن کے لیے بھی روئے زمین پر امام موجود نہ ہو زمین اپنے تمام اھالی کے ساتھ تباہ ہوجائے گی
زمانہ غیبت میں وجود امام عصر کے فوائد کے بارے میں دینی پیشواوں اورہادیان برحق کی جانب سے کثرت سے روایات وارد ہوئی ہیں مثلا ختمی مرتبت حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادپاک ہے
والذی بعثنی بالحق نبیا انهم یستضیئون بنوره وینتفعون یوما بولایته فی غیبته کانتفاع بالشمس اذاسترها سحاب یا جابر ! هذا من مکنون سرالله ومخزون علمه فاکتمه الاعن اهله
اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے یہ لوگ ان کی غیبت کے زمانے میں ان کے نور ولایت سے اسی طرح فیضیاب ہوں گے جس طرح لوگ بادلوں کے پیچھے سورج کے چھپ جانے کے بعد اس سے بہرہ مند ہوتے رہتے ہیں اے جابر !یہ اللہ کے پوشیدہ اسرار اورپنھان علوم میں سے ہے اورتم بھی اسے نااھل لوگوں سے مخفی رکھنا ۔
نیز آئمہ معصومین علیھم السلام سے مزید کئی ایسی احادیث وارد ہوئیں ہیں جن کا مضمون ایک ہی ہے اوران تمام احادیث میں امام زمانہ عج کے زمانہ غیبت میں وجود کو پس ابر سورج سے تشبیہ دی گئی ہے حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے جد بزرگوار حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
ہم مسلمانون کے پیشوا ، اہل عالم پر حجت ،سادات مومنین ،نیکوکاروں کے رہبراور امورمسلمین کے صاحب اختیار ہیں جس طرح کہ ستارے اہل آسمان کے لیے امان ہیں اسی طرح ہم اہل زمین کے لیے امان ہیں ہماری ہی وجہ سے نازل ہوتی ہے اورزمین سے برکات نکلتی ہیں
اگر روئے زمین پر ہمارا وجود نہ ہوتا تو زمین اپنے ساکنان کو اپنے اندر سمیٹ لیتی پھرفرمایا :خدا وندعالم نے جب سے آدم کو خلق فرمایا ہے اس سے آج تک کبھی بھی زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہی لیکن وہ حجت خدا کبھی ظاہر ومشھود اور کبھی غائب ومستورہوتی ہے اوراسی طرح تاقیام قیامت زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہ رہے گی اگر امام نہ ہوتو خدا کی پرستش نہیں ہوسکتی سلیمان کہتے ہیں میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا لوگ کس طرح امام غائب کے وجود غائب سے بہرہ مند ہوں گے فرمایا :جس طرح پس ابر سورج کے وجود سے فیضیاب ہوتے ہیں
معصومین علیھم السلام حجج خدا ہیں اوراگر زمین پرحجت خدا نہ ہوتو زمین تباہ ہوجائے گی
فرمایا :لولاالحجة لساخت الارض باهلها ؛اگر ایک لحظہ بھی روئے زمین پرحجت خدا نہ ہوتو زمین اپنے اھالی کے ساتھ برباد ہوجائے گی
یہ حقیقت رسول اکرم اورآئمہ معصومین علیھم السلام اجمعین سے نقل ہونے والی ان کثیر روایات میں بیان کی گئی ہے جن میں انہوں نے نظام ہستی کی بقا میں حجج الہی کردار بیان کیا ہے
رسول گرامی اسلام نے حضرت علی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
ان واحدعشرمن ولدی وانت یاعلی !زرالارض اعنی اوتادها وجبالها،بنا اوتدالله ان تسیخ باهلها فاذا ذهب الاثناعشر من ولدی ساخت الارض باهلها ولم ینظروا ۔
اے علی میں ،میرےگیارہ بیٹے اورتم زمین کے لنگر ہیں خداوندعالم نے ہمارے ہی سبب زمین کو استوار کیاہے کہ اپنے ساکنان کو نگل نہ جائے جب میرے بارہ جانشین زمین سے رخصت ہوجائیں گے توزمین اپنے ساکنان کو سمیٹ لے گی اورپھر انہیں مہلت نہ دی جائے گی


امام غائب کے وجود کے خصوصی فوائد

پس جس طرح کہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ امام غائب کے وجود کے کچھ ایسے عمومی فوائد ہیں کہ جن سے کل ہستی بہرہ مند ہورہی ہے اسی طرح ہم آنجناب کے وجود کے کچھ ایسے خصوصی فوائد بھی بیان کریں گے جو صرف بعض افراد کے شامل حال ہوتے ہیں اوران کے ان فوائد سے ہرکس وناکس بہرہ مند نہیں ہوسکتا فوائد خصوصی کی دوقسمیں ہیں
ایک قسم وہ ہے کہ جن سے لوگوں کی ایک خاص نوع مستفید ہوتی ہے اوردوسری قسم وہ ہے جن سے صرف مخصوص لوگ ہی فیضیاب ہوتے ہیں
امام غائب کے حضورووجود کانوعی فائدہ یہ ہے کہ شیعوں پر آپ کی مکمل نظررہتی ہے امام غائب مخفیانہ طورپران کی حمایت کرتے ہیں انہیں شراشرار اورکیدکفاروفجار سے محفوظ رکھتے ہیں سری وغیرمستقیم طورپر ظالموں کی منصوبہ بندی وپلاننگ کو ناکام اور خائنین کی مکاریوں کو درھم برھم کردیتے ہیں
شیخ مفید کےلیے صادرکردہ توقیع شریف میں خود آنجناب نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے
اگرچہ ہم اپنے اوراپنے شیعوں کے بارے میں اللہ تعالی کی صلاح دید کی پابندی کی وجہ سے اس وقت تک ایسے مقام پر رہنے پرمجبور ہیں جوظالمین کی دسترسی سے دورہے جب تک کوئی بات ہم سے پوشیدہ نہیں ہے ۔۔ ۔ ہم نہ تم سے غافل ہیں اورنہ تمہیں فراموش کرتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو مصائب و آلام کے پہاڑ تم پر ٹوٹ پڑتے اوردشمن تمہیں تارتار کرکے نابود کردیتے پس تقوی اختیار کرو اور اپنی نجات کےلیے ہماری مدد کرو
جبکہ وہ فوائد خصوصی جو صرف بعض افراد کے حاصل ہوتے ہیں یا کوئی شخص توسل کے ذریعے ان سے بہرہ مند ہوجاتا ہے یا کسی شخص پر آنجناب علیہ السلام کی خاص عنایت کی وجہ سے وہ ان فوائد سے بہرہ مند ہو جائے جسیے بینوا لوگوں کی فریاد رسی ،بھٹکے ہوئے کی راہنمائی ،غرق ہونے والوں کو نجات ،اذن خدا سے بیماروں کو شفادینا مقروض کے قرض کی ادائیگی ،اسیروں کی زندان سے رہائی اوردشمنوں کے شر سے نجات دلانا۔۔۔۔۔۔
یہ ایسے امور ہیں کہ جنہیں کبھی امام خود بنفس نفیس انجام دیتے ہیں اورکبھی اپنے اعوان وانصار کے ذریعے انجام دیتے ہیں جن موارد میں آپ خود وظیفہ انجام دیتے ہیں وہاں غالبا مخفی طورپرانجام دیتے ہیں اوراگرعیاں وظاہرہوتے ہیں تو ناشناس صورت میں انجام دیتے ہیں وہ شخص بعد میں متوجہ ہوتا ہے کہ اس کی مدد کرنے والے آپ امام تھے ۔


:شرح مقاصد ،ج۵،ص۲۳۹؛تشریح ومحاکمہ در تاریخ آل محمد ،ص۱۶۶؛ینابیع المودۃ ،ص۴۸۳؛المسند الامام احمد،ج۱۳،ص۸۸وغیرہ
:سورہ بقرہ آیت ۳
:ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل ،فضائل الصحابہ ،ج۲،ص۴۷۱؛فرائد السمطین ،ھ۲،ص۲۵۲ ،طبری ،ذخائر العقبی ،ص۴۹
:مفاتیح الجنان ، زیارت جامعہ
:مفاتیح الجنان ،دعائے عدیلہ
: کمال الدین ،ج۱ ح۱۳
:ینابیع المودۃ ،ص۴۲۲؛ کمال الدین ،ج۱،ص۳۵۳
:شیخ طوسی ، الغیبۃ ،ص۱۳۹

 


 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک