امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

انتخاب شہادت

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


واقعہ کربلا رزم وبزم ، سوزوگدازکے تاثرات کامجموعہ نہیں ، بلکہ انسانی کمالات کے جتنے پہلو ہو سکتے ہیں اور نفسانی امتیازات کے جو بھی اسرار ممکن ہیں ان سب کا خزینہ دار ہے ، سانحہ کربلا تاریخ کا ایک دلخراش واقعہ ہی نہیں ، ظلم وبربریت اور زندگی کی ایک خونچکاں داستان ہی نہیں ، فرمان شاہی میں درج ننگی خواہشوں کی رودادوفتنہ وسر ہی نہیں بلکہ حریت فکر ، نفاذعدل اور انسان کے بنیادی حقوق کی بحالی کی ایک عظیم الشان تحریک بھی ہے ۔
واقعہ کربلاباقی تاریخی وقائع میں ایک ممتاز مقام اور جداگانہ حیثیت رکھتا ہے چنانچہ وہ اپنے منفرد وسائل وذرائع اور بلند و واضح اہداف ومقاصد لے کر تاریخ کی پیشانی پر چمکتے ہوئے ستارے کی مانند نمایاں ہوا ، اور ظلم وجبر، لاقانونیت ، جاہلیت کے افکار ونظریات، ملوکیت کے تاریک اور اسلام دشمن عناصر کے بنائے ظلمت کدوں میں روشن چراغ بن کر ظہورپذیر ہوا ۔
جب اسلام کا چراغ خاموش کیا جا رہا تھا اور بنام اسلام خلاف دین وشریعت عمل انجام دیئے جا رہے تھے ، ضلالت کی تاریکی نے جہان کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا تھا انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی آمرانہ سوچ کو جنم دے چکی تھی آمرمطلق کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ اختیار کر چکا تھا اور گلشن ہستی سے سر اٹھا کر چلنے کا موسم دل نوازرخصت ہو چکا تھا ، صرف اسلام کا نام باقی تھا ، وہ بھی ایسا اسلام کہ جس کا رہبر یزید پلید تھا، لوگ کفر کو ایمان ، ظلم کو عدل ، جھوٹ کو صداقت ، مے نوشی وزناکاری کو تقویٰ وفضیلت، فریب کاری کو افتخارسمجھتے تھے اور حق کو اس کے ہمراہ جانتے تھے کہ جو قدرت کے ساتھ شمشیر بکف ہو ، اپنے اور بیگانے یہی تصور کرتے تھے کہ یزید، خلیفہ پیغمبرؐ، حاکم اسلام اور مجری احکام قرآن ہے چونکہ اس کے قبضہ قدرت میں حکومت اورطاقت ہے اور ہمیشہ ایسے ہی رہے گی کیونکہ یہ حکومت اسلامی ہے جس کا شعار یہ ہے کہ :
’’ولاخبرجاء ولاوحی نزل ‘‘
گویا نقش اسلام ہمیشہ کے لیے صفحۂہستی سے مٹنے والا تھا اور انسانیت کے لیے کوئی امید باقی نہ رہ گئی تھی ہر طرف تاریکی اپنے گیسوپھلائے ہوئے تھی ۔
ایسے وقت میں خورشید شہادت نے طلوع ہوکر شہادت کی شاہراہ پر عزم وجرات کے ایسے بہتر چراغ روشن کئے کہ جو محکوم اقوام ، مظلوم طبقات اوراستعمارکے خلاف اپنی آزادی کی جنگ لڑ نے والے حریت پسندوں کے لئے مینارئہ نور بن گئے حسین(ع) نے اپنی شہادت کے ذریعہ اعلان کر دیاتاریکی نہیں ہے ، اسلام صرف طاقت کا نام نہیں ہے ، حق وحقیت آشکارہوگئی اور حجت خلق پر تمام ہوگئی ۔
جب امام حسین نے یہ دیکھا کہ اسلام کے پاکیزہ واعلیٰ ترین نظام کی حفاظت کی ضمانت فراہم کرنے کاصرف ایک ہی راستہ ہے تو آپ نے دل وجان سے شہادت کو قبول فرمایا کیونکہ اصول وعقائد تمام چیزوں سے برترہیں ہر شے ان پر قربان کی جا سکتی ہے مگرانھیں کسی شے پر قربان نہیں کیاجا سکتا
امام حسین نے شہادت کو اس لیے اختیارکیاکیونکہ شہادت میں وہ رازمضمرتھے کہ جوظاہری فتحیابی میں نہیں تھے ، فتح کے اندردرخشندگی شہادت نہیں تھی ، فتح، گوہرکو سنگ سے جدانہیں کرسکتی تھی ، شہادت دل میں جگہ بناتی ہے جب کہ فتح دل پر اثرکرتی بھی ہے اورکبھی نہیں بھی ، شہادت دلوں کو تسخیرکرتی ہے فتح یابی پیکرکو، شہادت ایمان کودل میں ڈالتی ہے ، شہادت ہمت وجرات لاتی ہے ۔
شہادت مقدس ترین شے ہے اس کو آشکارا ہونا چاہئے ، اگر شہادت علنی وآشکارانہ ہوتوہلاکت سے نزدیک ہوتی ہے ۔
امام حسین شہادت کے راستہ کو اختیاروانتخاب کرنے میں آزادتھے ، دلیل آپ کا مکتوب ہے :
حسین بن علی کی جانب سے محمدبن حنفیہ اورتمام بنی ہاشم کے نام :تم میں سے جو ہم سے آملے گا وہ شہید ہو جائے گا اور جو ہمارے ساتھ نہیں آملے گا وہ فتح وکامیابی وکامرانی سے ہمکنارنہیں ہو گا۔
(کامل الزیارات ص۷۵بحار ج۴۴ ص۲۳۰)
اگر امام حسین ظاہری فتح کو انتخاب کرتے تو دنیا میں شاید پہچانے نہیں جاتے اورحسین بن علی کا وہ کردارکہ جوکلیدسعادت تھابشریت پرآشکارنہ ہو پاتا ۔حسین چاہتے تھے کہ نبی ا کرم کادین مٹنے نہ پائے اور انسانیت تکامل کی را ہوں کو طے کرجائے لہذافتح ظاہری کو چھوڑ کر شہادت عظمیٰ کو اختیارکیاکہ جس نے فکر بشرکی رہنمائی اوراخلاق وکردارکوبلندوبالا کر کے جنبش فکری وجنبش عاطفی کو دنیا میں ایجادکر دیا، عزاداری امام حسین جنبش عاطفی کا ایک جاویدان نمونہ ہے ۔
شہادت حسینی کے اثرات میں مشہورہے کہ عاشورکے دن سورج کو ایسا گہن لگا کہ اس دن دوپہرکو ستارے نکل آئے (نفس المہموم ص۶۸۴)
خون حسین آب حیات تھا کہ جس نے اسلام کو جاویدکر کے معرفت کے گراں بہا در کو بشریت کے سامنے پیش کرتے ہوئے صحیح راہ دکھا کر انسانیت کو ہمیشہ کے لئے اپنا مر ہون منت کر دیا ۔(پیشوای شہیدان ص۹۷)
 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک