امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اسلام میں شادی بیاہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

شادی بیاہ اور اس کی شرائط کے بارے میں لوگ بہت زیادہ پوچھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم اس کی شرائط اور خصوصیات وضاحت سے بیان کریں ۔
اس موضوع سے متعلق سوالات کے جواب ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
جنسی خواہش ایک بڑی طاقت ور خواہش ہے جس کی جڑیں انسانی فطرت میں بہت گہری اتری ہوئی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ خواہش اور جذبہ صرف لذت اندوزی کے لئے نہیں ہے ۔ اللہ تعالی کے حکیمانہ نظام نے تولید نسل اور نوع انسانی کی بقا کے لئے ایک جذبے کو انسان کے اندر رکھا ہے ۔
ہر لڑکی اور لڑکا جو سن رشد اور بلوغ کو پہنچ جاتا ہے جنس مخالف کے لئے اپنے اندر ایک کشش محسوس کرتا ہے ۔ یہ غیر مرئی کشش اور جذبہ بے زمانے کے گزرنے اور جوانی کی قوتوں کے پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ شدید ہوتا چلا جاتا ہے اور " بڑی ضروری و بنیادی " حیثیت اختیار کرلیتا ہے ۔
اس جذبے کے طاقتور ہونے کے بارے میں کوئی کلام نہیں ۔ اس جذبے کی اسی وقت کو دیکھ کر آسٹریا کا ماہر نفسیات " فرائیڈ " سخت غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا اور اس حد تک کہ اس کے خیال میں تمام خواہشات کے جڑ جنسی خواہش قرار پائی ۔ حتی کہ بچے کے ماں کے سینے سے دودھ پینے کو بھی وہ اسی جذبے سے منسوب کرتا ہے ۔
اس بارے میں کسی بحث کی حاجت نہیں کہ اس فطری خواہش کو پورا کرنا زندگی کے ضروری اور لازمی تقاضوں میں سے ایک ہے ۔
البتہ بحث اس بارے میں ہے کہ انسان کی خواہش کو کس طرح پورا کرنا چاہیئے ؟
اس کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیئے کہ یہ خواہش بھی اعتدال پر آجائے اور اس فطری جذبے کا اصل ہدف پورا ہو اور وہ بھی اس طرح کہ انسانی شرافت اور شخصیت کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔
وہ واحد طریقہ جو تمام جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ قرار پاسکتا ہے شرعی اور قانونی نکاح کے ذریعہ رفیق حیات کو حاصل کرنا ہے ۔
بلاشبہ شادی ، عمر کے انتہائی بحرانی دور میں آرام و سکون کی زندگی مہیا کرنے کی ضامن ہوتی ہے ۔ اسی لئے اسلام میں شادی کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے ۔
قرآن کریم نے چند چیزوں کو آرام و سکون کا ذریعہ قراردیا ہے ۔ اور انھیں اللہ کی بڑی اور قیمتی نعمتوں میں شمار کیا ہے ۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
1) سب سے پہلی نعمت گھر ہے۔جو انسان کے لئے آرام ، امن اور سکون کی جگہ ہے ۔ اس نعمت کی قدر ان لوگوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا جو گرمی کے موسم میں کڑی دھوپ اور سروں پر چمکنے والے سورج کی حدت سے سخت پریشان پرتے ہیں یا پھر کڑاکے کی سردیوں میں شاخ بید کی طرح کپکپاتے ہیں اور انھیں کوئی پناہ گاہ نظر نہیں آتی ۔ 1
2) دوسری نعمت رات کا قیمتی وجود ہے جو اپنے سیاہ خیمے میں انسان کے تھکے ہوئے اعصاب کو آرام و سکون مہیا کرتا ہے ۔ اور زندگی کے پژمردہ جذبے کو پھر سے ایک نئی روح عطا کرکے اس کی ساری خستگی اور فرسودگی کو دور کردیتا ہے ۔ 2
3) تیسری وہ زندگی کا ساتھی ہے جو تمام جنسی خواہشات کی آسودگی کا ذریعہ بنتا ہے ۔ 3
یہ واضح رہے کہ اس آرام و آسودگی کا تعلق اس انس و محبت سے ہے جس کی توقع ہر شخص جنس مخالف یعنی اپنے رفیق حیات سے رکھتا ہے ۔
اس سکون و آرام کو وہ شخص بخوبی محسوس کرسکتا ہے جس نے تنہائی اور مجرد رہنے کی مشکلات کا مزا چکھا ہو ۔ یا پھر وہ اس اضطراب اور پریشان حالی سے واقف ہو جس سے ایک مجرد جوان دوچار رہتا ہے ۔
ہمارے اس انسانی معاشرے میں کتنے جوان ہیں جو جنسی سکون سے محروم ہونے کی بنا پر اپنی بہترین قوتوں اور صلاحیتوں کو ضائع کررہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی عمر کے شرین ترین ایام زندگی کے تلخ ترین لحمات بن گئے ہیں ۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ازدواجی زندگی مرد اور عورت دونوں کے لئے سکون اور آرام کا سبب بنتی ہے ۔
"ومن آیاته ان خلق لکم من انفسکم ازواجاً لتسکنوا الیها" (سورہ روم )
اللہ تعالی کے اس ارشاد کی حکمت اس وقت پوری طرح واضح ہو کر سامنے آتی ہے ۔ جب ہم دور جدید کی نئی نسل اور اس کے مجرد نوجوانوں کو ہیجان اور انار کی کے طوفان میں گھر ہوا دیکھتے ہیں ۔ وہ آج کیسی ناکامیوں اور بے چینیوں کا شکار ہیں ، آج وہ اس آرام وسکون کے کس قدر ضرورت مند ہیں جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
" اے جوانو ! تم میں سے جو بھی اپنے اندر توانائی اور استطاعت پاتا ہے وہ شادی کرلے تا کہ تمہاری نگاہیں عورتوں کا تعاقب کرنے سے محفوظ رہیں اور تمہارا دامن پاک رہے گا " 4
ایک اور موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
" تم میں سے جو شخص بھی شادی کرے گا وہ نصف دین اور سعادت سے بہرہ مند ہوگا ۔" 5
جب کوئی جوان شخص اپنی منہ زور جنسی قوتوں کو شادی کی مہار سے قابو میں لیتا ہے تو عروج شباب کے اس مرحلے میں اس کی طوفان خیز متلاطم روح سکون و اعتدال حاصل کرلیتی ہے اور پھر وہ زندگی کے سفر کو بہتر طریقے پر ، وقار و سکون اور زیادہ آسانی کے ساتھ طے کرنے لگتا ہے ۔
" ویل ڈورانٹ " کہتا ہے:
" اگر لوگ اپنی زندگی کے بہترین اور موزوں سالوں میں شادیاں کرنا شروع کردیں تو بے حیائیاں ، خطرناک بیماریاں ، بے نتیجہ تنہائیاں اور ناگوار گوشہ نشینیاں اور وہ بغاویتں اور سرکشیاں جو آج کے دور کو داغدار بنا چکی ہیں ، گھٹ کر نصف رہ جائیں ۔" 6
آج ماضی کے برعکس بہت سی رکاوٹیں شادی کی راہ میں حائل نظر آتی ہیں ۔ ان میں سے ایک ناکافی آمدنی ہے ۔ آج کی دنیا میں جوانوں کے جنسی بلوغ اور اقتصادی بلوغ کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہوگیا ہے اور یہ چیز شادی دیر سے ہونے کا سبب بنتی ہے ۔
جو نوجوان علمی اور صنعتی شعبوں میں اپنی تکمیل چاہتے ہیں انھیں طویل برسوں تک تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے تا کہ وہ کچھ کمائی کرسکیں اور اپنے خاندان تک تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے تا کہ وہ کچھ کمائی کرسکیں اور اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرسکیں ۔ لیکن تعلیم کے اس درمیانے عرصے میں ان پر جنسی خواہشات غالب آنے لگتی ہیں اور انھیں فساد اور بگاڑ کے تنگ راستے پر ڈال دیتی ہیں ۔
" ویل ڈورانٹ " لکھتا ہے:
" ماضی کی طرح اس دور میں بھی جنسی بلوغ کی منزل جلد آتی ہے جب کہ اقتصادی بلوغ کی منزل دیر میں آتی ہے ۔ ایک دیہاتی زندگی میں ، شہوتوں کو قابو میں رکھنا ، معقول اور عملی دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن ایک صنعتی معاشرے میں شادی کو تیس سال کی عمر تک ٹالنا ایک مشکل اور غیر فطری کام معلوم ہوتا ہے۔ شہوت اپنا سر اٹھاتی ہے اور اسے قابو میں رکھنا دشوار ہوجاتا ہے ۔ " 7
پھر بعض لوگ شادی کے مختلف رسوم اور رواج کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ تھوڑی مدت کے اندر شادی کے انتظامات کرنا ان کے لئے مشکل ہوتا ہے اور وہ اس کے لئے زیادہ وقت لینا چاہتے ہیں ۔ یہ چیز بھی نوجوان نسل کو اکثر گناہوں میں آلودہ کردیتی ہے ۔

اس مسئلے کا حل

اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ جو نوجوان شادی کی راہ میں رکاوٹوں سے دوچار ہیں اور انھیں یہ اندیشہ بھی ہے کہ جنسی جذبے کو دباؤ کی بنا پر کہیں ان کا قدم دائرہ عفت سے باہر نہ نکل جائے تو ایسے نوجوانوں کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنی پسند کی کسی لڑکی کو اپنے عقد میں لے آئیں ۔ اس سلسلے کے شرعی اور قانونی مراسم انجام دے لیں ۔ البتہ شادی ، رخصتی اور خاندان کی تشکیل کے مرحلے کو چند سالوں کے لئے یعنی تعلیم کی تکمیل تک موخر کردیں ۔ اس طریقے سے بھی وہ اپنی جنسی بے راہ روی کا سدباب کرسکتے ہیں اور اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھ سکتے ہیں ۔
اسی طرح شادی کے اخراجات ، مہر کی مقدار اور جہیز وغیرہ کے سلسلے میں بھی دکھاوے اور دوسروں کے مقابلے سے پرہیز کریں اور شادی کو سادہ اور آسان بنائیں اور اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں ۔ ہر شخص کو اپنی استعطاعت کے مطابق زندگی کے وسائل فراہم کرنے چاہئیں اور خاندانی زندگی کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
" بیوی کی برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کم خرچ ہو اور اس کی برائیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے اخراجات بہت زیادہ ہوں ۔" 8
قرآن کریم کا ارشاد ہے:
" اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی کے وسائل فراہم کرو ۔ جو لوگ مالی اعتبار سے تہی دست ہوں گے اللہ تعالی اپنے فضل سے انھیں غنی بنادے گا ۔" 9

آپ کی رفقیہ حیات کیسی ہو ؟

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
" وہ عورت تمہاری رفقیہ حیات بننے کے لئے سب سے بہترین ہے جو تمہیں اولاد سے بہرہ مند کرنے والی ، مہربان اور پاک دامن ہو ۔ خاندان میں معزز اور باوقار ہو ، شوہر کے سامنے عاجزی و انکساری کرنے والی ہو، شوہر کے لئےبناؤ سنگھار میں کوئی کوتاہی نہ کرتی ہو ، البتہ دوسروں کے سامنے وہ اس قدر وقار کے ساتھ رہتی ہو کہ وہ اپنے لئے اس کی بے اعتنائی کو محسوس کریں خصوصاً ازدواجی تعلقات میں اپنے شوہر کی خواہشات کا لحاظ کرے اور اس کے جائز اور شرعی مطالبات کے آگے سرتسلیم خم کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی عزت اور وقار کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے ۔ " 10

ہم مرتبہ ہونا

شادی کی شرائط میں سے ایک شرط " ہم مرتبہ " ہونا ہےلڑکے اور لڑکی کا ہم مرتبہ ہونا دولت اور مادی حالات کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد دونوں کا پاکدامنی ہونا اور لڑکے کا اس قابل ہونا ہے کہ وہ زندگی کے اخراجات کو پورا کرسکے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
" المومن کفوالمومنة "
" مومن مرد مومن عورت کا کفو ہے " 11
امام صادق (ع) نے فرمایا:
" کفو " سے مراد یہ ہے کہ مرد پاکدامن ہو اور وہ زندگی کے اخراجات پورے کرسکتا ہو ۔" 12

کیا باپ لڑکی کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کرسکتا ہے ؟

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے کہ اسلام کی روسے کوئی باپ اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ وہ مادی اسباب اور اپنی مصلحتوں کی بنا پر اپنی بیٹی کی شادی کے لئے اقدام کرے ۔ اگر لڑکی کی کسی خاص شخص کے اچھے کردار کی بنا پر اس کی جانب مائل ہو تو باپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے اس شادی سے باز رکھے اور اس کی شادی کسی ایسے شخص سے کرنا چاہے جس کو وہ پسند نہ کرتی ہو ، کیونکہ شادی کے معاملے میں خود لڑکی کی مرضی کو بنیادی شرط کی حیثیت حاصل ہے ۔ اور اس حد تک کہ اگر باپ لڑکی کی کسی سے شادی کردے اور لڑکی اس شادی سے راضی نہ ہو تو وہ نکاح باطل قرار پائے گا ۔

اس روایت پر غور کیجے
ایک لڑکی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے باپ کی شکایت کی ۔
حضرت ۖ نے دریافت فرمایا کہ:
" تیرے باپ نے تیرے ساتھ کیاکیا ہے ؟"
اس نے کہا کہ:
" میرے باپ نے میری مرضی کے بغیر مجھے اپنے بھتیجے کے عقد میں دے دیا ۔"
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
" اب کہ تیرے باپ نے یہ کام انجام دے دیا ہے تو اسے قبول کرلے اور اس کی مخالفت نہ کر ۔"
لڑکی نے عرض کی:
" میرے باپ نے جہاں میرا رشتہ کیا ہے اس سے مجھے کوئی رغبت نہیں ہے ۔"
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
" جب تجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے تو تجھے اختیار ہے کہ جس شخص کو بھی تو پسند کرتی ہے اسے اپنے لئے منتخب کرلے ۔"
اس لڑکی نے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کو سنا تو اس نے عرض کی:
" حضور ۖ میں اپنے اسی چچا زاد بھائی کو پسند کرتی ہوں لیکن محض اس لئے کہ باپ اپنی لڑکیوں کی شادی ان کی مرضی کے خلاف نہ کیا کریں ، اس لئے میں ان آپ ۖ کی خدمت میں حاضری دی اور آپ سے اس طرح کے سوال جواب کیے تاکہ میں تمام مسلمان عورتوں کے سامنے یہ اعلان کرسکوں اور لڑکیوں کے پاپ یہ جان لیں کہ انھیں یہ اخیتار حاصل نہیں ہے کہ وہ لڑکیوں کی مرضی کے بغیر ایسے اشخاص سے ان کا عقد کردیں جو کو وہ پسند نہ کرتی ہوں ۔" 13

کیا لڑکی کی شادی کے لئے باپ کی مرضی شرط ہے ؟

روایات میں آیا ہے کہ کنواری لڑکی کی شادی کے لئے باپ کی رضا مندی لازمی ہے ۔ البتہ یہ شرط خود لڑکی کے مفاد میں ہے ، کیونکہ بصورت دیگر عین ممکن ہے کہ لڑکی جسے ابھی زندگی کا کوئی تجربہ نہیں ہے دھوکہ کھاجائے اور اس شخص کے دام میں آجائے جو اس سے اظہار محبت کرتا ہے اور بعد میں یہ چیز اس کے لئے پشیمانی اور حسرت کا سبب بن جائے ۔
باپ کے مرتبے اور احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی بعض روایات میں باپ کی اجازت و مرضی کو ایک شرط قرار دیا گیا ہے ۔
-------------
1. والله جعل لکم من بیوتکم سکناً " سورہ نحل آیہ 80۔
2. ھوالذی لکهم الیل لتسکنوا فیه " سورہ یونس آیت 67 ۔
3. ومن ایاته ان خلق لکم من انفسکم آزوجاً لتسکنوا الیها " سورہ روم ۔
4. مستدرک الوسائل ۔
5. وسائل جلد 14 ص 5 ۔
6. لذات فلسفہ ص 184 ۔
7. لذات فلسفہ ۔
8. وسائل الشیعہ جلد 14 ۔ ص 78 ۔
9. سورہ نور آیت 32 ۔
10. وسائل الشیعہ جلد 14 ۔ ص 14 ۔
11. وسائل الشیعہ جلد 14 ۔ ص 43 ۔
12. وسائل الشیعہ جلد 14 ۔ ص 52 ۔
13. مسالک ، ج 1 ۔ ص 16 ۔ از کتاب نکاح ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

shaukat awan:sune rashid ki shadian
2018-02-12 20:40:21

سن رشد کی شادیاں تحریر علامہ محمد یوسف جبریلؒ عام خیال ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی چھوٹی عمر میں نہیں کرنی چاہیئے اور یہ خیال اس لئے ہے کہ یورپ کے ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کا فتوی ہے اور جو لفظ ان کے منہ سے نکلتا ہے یا ان کے قلم سے نکلتا ہے وہ گویا صحیفہء آسمانی ہے کہ جس میں شبہ کی گنجائش نہیں۔ اگر تو چھوٹی عمر سے مقصد سن رشد کو پہنچنے سے پہلے کی عمر سے ہے مثلاً جس طرح ہندئووں میں رسم تھی کہ بعض دفعہ بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا تو اس کی شادی کسی دوسرے ہونے والے بچے سے کر دیتے بشرطیکہ ایک ان میں سے لڑکی ہو اور دوسرا لڑکا تو ہم بھی کہیں گے کہ یہ رسم اچھی نہیں

*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک