امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

عاشورہ حسینی(ع)

1 ووٹ دیں 05.0 / 5


عاشور کا واقعہ یعقوب کلینی اور مناقب میں ابن شہرآشوب کے، اور ارشاد میں شیخ مفید کے بقول بروزِ ہفتہ، شیخ طوسی، علامہ مجلسی، سید بن طاوس اور طبری کے مطابق بروز پیر اور ناسخ میں مرحوم سپہر اور قم قام میں فرہاد میرزا کے قول کے مطابق بروز جمعہ پیش آیا۔
بظاہر وہ دن اور وہ وقت گذر چکا ہے لیکن عاشورہ کی عظمت اور اس کے آثار آج بھی زمین اور زمان چھائے ہوئے ہیں اور دلوں کو فتح کر رہے ہیں اور روز بروز بیش از پیش زندہ اور پررونق ہوتے جا رہے ہیں۔ عاشورہ کی عظمت کے بارے میں (معصومین کے کلام سے پہلے) بعض دانشوروں کے اعترافات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
پروفیسر ایڈورڈ براون عاشورہ کے بارے میں کہتے ہیں: کیا کوئی قلب ایسا ہوگا جو کربلا کے اس اندوہناک حادثے کو سن کر حزن و ملال سے دوچار نہ ہو، حتی کہ غیر مسلم بھی۔ ہاں کوئی شخص بھی اس اسلامی جنگ کی روحانی پاکیزگی کا انکار نہیں کر سکتا جو اسلام کے پرچم تلے لڑی گئی۔
فرانس کا ڈاکٹر جوزف اسلام اور مسلمان نامی کتاب میں عاشورہ کے بارے میں لکھتا ہے: واقعہ کربلا کے بعد پیروانِ علیٴ غضبناک ہوگئے اور انہوں نے وقت کو غنیمت شمار کیا اور جنگوں میں مشغول ہوگئے۔۔۔ اور عزاداری برپا کرنے لگے۔ یہاں تک کہ شیعوں نے عزاداری حسینٴ بن علیٴ کو اپنے مذہب کا جزو قرار دے دیا اور اس وقت سے لے کر آج تک بزرگانِ دین کے مقاصد کے مطابق کہ جو نسلِ رسول۰ سے بارہ افراد ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی گفتار، کردار اور رفتار رسول۰ کی گفتار و کردار کے برابر اور ہم وزنِ قرآن ہے، عزاداری حسینٴ میں شریک ہوتے ہیںاور رفتہ رفتہ شیعہ مذہب کا یہ ایک رکن بن چکی ہے۔ تیز رفتار ترقی جو شیعوں نے مختصر مدت میں کی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگلی دو صدیوں میں وہ مسلمانوں کے تمام فرقوں سے تعداد میں بڑھ جائیں گے اور اس کا سبب عزاداری امام حسینٴ ہے۔
آج دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں نمونے کے طور پر دو یا تین آدمی شیعہ نہ ہوں اور امام حسینٴ کے لئے عزاداری برپا نہ کرتے ہوں۔ ۔۔ ہمیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ شیعوں نے اپنے مذہب اور عزاداری کی راہ میں جان و مال سے کبھی دریغ نہیں کیا۔
عاشورہ کے بارے میں نپولین بونا پارٹ کہتا ہے:
جب ہمیں کوئی اجتماعی یا سیاسی کام کرنا ہوتا ہے تو اس کے لئے کئی ہزار کارڈ چھاپنے ہوتے ہیں اور انہیں ہزارہا زحمتیں اٹھا کر لوگوں کو پہنچانا ہوتے ہیں، پھر بھی دس ہزار میں سے ایک ہزار افراد ہی آتے ہیں اور کام بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ لیکن یہ مسلمان اور شیعہ کسی گھر پر ایک سیاہ پرچم نصب کر کے یہ کہتے ہیں کہ امام حسینٴ کے لئے مجلس عزا برپا کر رہے ہیں، دسیوں ہزار افراد کسی دعوت نامے کے بغیر دو گھنٹوں میں حاضر ہوجاتے ہیں اور تمام اجتماعی، سیاسی اور مذہبی مسائل حل ہوجاتے ہیں۔
ان اعترافات کو دیکھتے ہوئے اور عاشورہ کے گہرے اثرات کے پیش نظر بہتر ہے کہ ایک نظر روایات پر ڈالی جائے اور عاشورہ کی عظمت کو معصومین کی نظر سے دیکھا جائے۔

 

١۔ امت محمد۰ کی برتری کا راز:

جس طرح سے خاتم الانبیائ۰ تمام ادیان پر برتری رکھتے ہیں، اسی طرح آخری نبی۰ کی امت بھی ’’امت وسط‘‘ اور ’’خیر الامم‘‘ ہے۔ اس برتری میں چند چیزوں کو اہم کردار حاصل ہے، ان میں سے ایک عاشورہ ہے جس کو درجِ ذیل روایت میں بیان کیا گیا ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام کی خدا سے مناجات میں آیا ہے کہ حضرت موسی نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا: اے پروردگار تو نے امتِ محمد۰ کو تمام امتوں پر برتری کیوں دی ہے؟ خدا نے فرمایا: دس خصوصیات کی وجہ سے۔ حضرت موسی نے عرض کیا: وہ دس خصلتیں کیا ہیں تاکہ میں بنی اسرائیل کو حکم دوں کہ اس پر عمل کریں!
خطاب ہوا: وہ دس خصلتیں یہ ہیں: نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، جہاد، جمعہ، جماعت، قرآن، علم و عاشورہ۔ جناب موسی نے سوال کیا: پروردگار عاشورہ کیا ہے؟ فرمایا: بکائ کرنا یا بکائ جیسا انداز اپنانا (تباکی کرنا) اور مرثیہ خوانی اور فرزندِ مصطفی کی مصیبت پر عزاداری کرنا۔ اے موسی! اس زمانے میں کوئی بندہ ایسا نہیں ہوگا جو فرزندِ رسول۰ (یعنی حسینٴ بن علیٴ) پر بکائ یا تباکی کرے مگر یہ کہ جنت اس کے لئے لازم ہے اور کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو اپنے مال کا کچھ حصہ فرزندِ رسول۰ کی محبت میں کھانا کھلا کر یا کسی اور طریقے سے خرچ کرے تو خدا ہر درہم کے بدلے میں دنیا میں اسے برکت عطا کرے گا اور آخرکار خدا کے فضل سے وہ داخلِ بہشت ہوگا اور اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
اپنی عزت و جلال کی قسم، عاشور کے دن کوئی مرد و عورت ایسا نہیں جو (حسینٴ کی خاطر) ایک قطرہ آنسو بہائے مگر یہ کہ اس کے لئے سو شہیدوں کا ثواب لکھا جائے گا۔

 

٢۔ عاشورہ اور نبی اکرم۰:

شیعہ اور سنی کتابوں میں پیغمبر اکرم۰ سے شہادتِ امام حسینٴ اور عاشورہ کے بارے میں متعدد اقوال نقل ہوئے ہیں۔ ہم ان میں سے ایک روایت پر اکتفائ کرتے ہیں جو اہلسنت کے طریق سے ہے۔ بی بی عائشہ کہتی ہیں: ایک دن جبرئیل رسول۰ خدا پر نازل ہوئے اور وحی کی۔ اس وقت حسینٴ حضور۰ کے پاس تشریف لائے اور ان کے شانوں پر سوار ہوگئے اور کھیلنے لگے ۔ جبرئیل نے کہا: اے محمد! آپ کے بعد جلد ہی تمہاری امت فتنہ میں گرفتار ہوگی اور آپ کے اس ننھے بیٹے کو شہید کردے گی۔ پھر جبرئیل نے ہاتھ بڑھا کر سفید مٹی :اٹھائی اور بولے: آپ کا بیٹا اس سرزمین پر کہ جس کا نام طف ہے، مارا جائے گا۔
جبرئیل کے جانے کے بعد حضور۰ نے مٹی کو ہاتھ میں لے کر گریہ کرنا شروع کیا اور اسی حالت میں اصحاب کے ایک گروہ کے پاس پہنچے جن میں حضرات ابوبکر، عمر، علیٴ، حذیفہ، عمار اور ابوذر شامل تھے۔ پھر فرمایا: جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میرا بیٹا حسینٴ میرے بعد طف نامی سرزمین پر مارا جائے گا اور اس نے یہ مٹی مجھے دکھائی ہے کہ اس کی شہادت کا مقام اور قبر یہیں پر ہوگی۔

 

٣۔ عاشورہ اور امیر المومنین علیٴ:

امیر المومنین علیٴ سے کربلا اور عاشورہ سے متعلق متعدد روایات منقول ہیں۔ اہلسنت کی کتابوں میں بھی عبد اللہ بن نجی اور اصبغ بن نباتہ وغیرہ سے اس حوالے سے روایات نقل ہوئی ہیں۔ ایک روایت میں ابن عباس کہتے ہیں: جنگ صفین میں میں علیٴ کے ہمراہ سرزمین نینوا سے گزر رہا تھا کہ امامٴ نے فرمایا: اے ابن عباس! کیا تم اس سرزمین کو پہچانتے ہو؟ عرض کیا: نہیں اے امیر المومنین! حضرتٴ نے فرمایا: اگر میری طرح تم بھی اس کو پہچانتے تو ہرگز یہاں سے عبور نہ کرتے مگر یہ کہ میری طرح گریہ کرتے۔ اس کے بعد گریہ کرنا شروع کیا یہاں تک کہ آپٴ کی ریشِ مبارک اشکوں سے بھیگ گئی اور آنسو سینہ پر بہنے لگے۔ ہم بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔ حضرت علیٴ نے فرمایا: آخر ہمارا ابوسفیان، آلِ حرب، حزبِ شیطان اور اور اولیائے کفر سے کیا واسطہ! اسی حالت میں فرمایا: صبراً یا اباعبداللّٰہ ۔۔۔! اے حسین صبر کرو۔ پھر بہت گریہ فرمایا اور ہم بھی ان کے ساتھ روتے رہے یہاں تک آپٴ منہ کے بل زمین پر گر پڑے اور بے ہوش ہوگئے۔
حمزہ کی شہادت کے بعد یہ رسم تھی کہ ہر عزاداری میں پہلے حمزہ کے لئے گریہ کیا جاتا تھا ۔ یہ رسم امام حسینٴ کی شہادت تک جاری رہی اور اس کے بعد لوگ امامٴ کے لئے گریہ کیا کرتے تھے۔

 

٤۔ عاشورہ اور امام حسنٴ:

امام حسن مجتبی علیہ السلام اپنے سخت ترین مصائب کے باوجود امام حسینٴ کی زندگی ہی میں آپ کے مصائب پر گریہ کرتے تھے۔ ابن نما کہتا ہے: امام حسن مجتبی علیہ السلام مریض تھے اور حسینٴ بن علیٴ ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ جب کمرے میں داخل ہوئے اور بھائی کی حالت کو دگرگوں پایا تو گریہ کرنے لگے۔ امام مجتبی نے فرمایا: گریہ کیوں کرتے ہو؟ جواب دیا: بھیا! گریہ کیوں نہ کروں کہ (دشمنوں نے) آپ کو مسموم اور مجھے بے برادر کردیا ہے۔
امام حسنٴ نے فرمایا: بھیا مجھے زہر سے قتل کرتے ہیں (جب کہ میرے لئے تمام چیزیں موجود ہیں) لیکن لایوم کیومک یاابا عبد اللّٰہ! کوئی دن تیرے دن جیسا نہیں اے حسین! کہ جس دن تیس ہزار ایسے لوگ جو اپنے آپ کو ہمارے جد کی امت میں سے سمجھتے ہوں گے، تمہارا محاصرہ کرلیں گے اور تمہیں قتل کرنا، تمہارا خون بہانا اور تمہارا مال و اسباب لوٹنا چاہیں گے۔ خدا کی لعنت ہو بنو امیہ پر ۔ تم پر آسمان و زمین اور سمندر کے جانور گریہ کریں گے۔

 

٥۔ عاشورہ امام زین العابدینٴ کی نظر میں :

امام زین العابدینٴ جو کہ خود نزدیک سے عاشورائ کے واقعات کا مشاہدہ کر چکے تھے، وہ کبھی اس کو بھلا نہ سکے اور آخری سانس تک ان واقعات پر آنسو بہاتے رہے اور دوسروں کو رونے کی ترغیب دیتے رہے۔ جب کبھی آپٴ کی نظر غذا اور پانی پر پڑتی آپٴ گریہ فرماتے۔ ایک دن آپٴ کے ایک خادم نے عرض کیا: کیا اب بھی آپ کے غم و اندوہ کے خاتمے کا وقت نہیں ہوا۔ فرمایا:
وائے ہو تم پر! یعقوبٴ کے بارہ بیٹے تھے، خدا نے ان میں سے ایک کو ان کی آنکھوں سے دور کردیا، غم و حزن کی وجہ سے حضرت یعقوبٴ کی آنکھیں سفید ہوگئیں حالانکہ یوسف اس وقت زندہ تھے۔ لیکن میری آنکھوں کے سامنے میرے بابا، بھائی، چچا اور میرے اہلبیت سے سترہ افراد اور بابا کے اصحاب کا ایک گروہ شہید کردیا گیا اور ان کے سروں کو تن سے جدا کردیا گیا، میرا غم کس طرح ختم ہوسکتا ہے؟!
اس کے علاوہ کربلا میں اہلبیت کے حرم کو اسیر کیا گیا کہ یہ داغ ہرگز بھلایا نہیں جاسکتا۔
ٍ اسی طرح یہ بھی نقل ہوا ہے کہ امام سجادٴ نے عبید اللہ بن عباسٴ بن علیٴ کو دیکھا اور آپٴ کے اشک جاری ہوگئے۔ پھر فرمایا: رسول اللہ کے لئے اُحد سے بڑھ کر سخت دن کوئی نہیں تھا کہ جس دن آپ۰ کے چچا اور خدا و رسول۰ کے شیر مارے گئے اور اس کے بعد موتہ سے بڑھ کر سخت دن کوئی نہ تھا جب آپ۰ کے چچازاد بھائی جعفر بن ابوطالب شہید ہوئے۔
پھر فرمایا: کوئی دن امام حسینٴ کے دن (عاشورہ) کی طرح نہیں ہے (کیونکہ) تیس ہزار افراد جو اپنے آپ کو نبی۰ کی امت سمجھتے تھے، جمع ہوئے ۔ وہ فرزندِ رسول۰ کو قربۃً الی اللہ قتل کرنے کے درپے تھے۔ حالانکہ آپٴ نے انہیں نصیحت بھی کی لیکن انہوں نے نصیحت قبول نہ کی یہاں تک کہ انہیں دشمنی میں قتل کردیا۔
ماہِ مبارک رمضان میں بھی امام سجادٴ افطار کے وقت عاشورہ کو یاد کرتے اور فرماتے: وا کربلا! وا کربلا! اور مسلسل اس جملے کو دہرایا کرتے کہ فرزندِ رسول۰ اس حالت میں مارا گیا کہ خائف تھا! فرزندِ رسول۰ اس حال میں مارا گیا کہ پیاسا تھا۔ اس قدر ان جملوں کو دہرایا کرتے اور گریہ کرتے کہ آپ کا لباس اشکوں سے تر ہوجاتا۔

 

٦۔ عاشورہ امام باقرٴ کی نظر میں:

بنوامیہ کے ظالم حکمرانوں کی وجہ سے امام باقرٴ کے دور میں عاشورہ کی زیادہ عظمت بیان نہ کی جاسکی بلکہ مجالس عزا کو خفیہ طور پر اور خاص افراد کی موجودگی میں برپا کیا جاتا۔ امام باقرٴ اس زمانے کے شعرائ جیسے کمیت بن زید اسدی (متوفی ١٢٦ ھ) کو دعوت دیتے کہ وہ مصائبِ اہلبیت میں اشعار پڑھیں۔ مالک جہنی کہتا ہے:
امام باقرٴ نے عاشورہ کے بارے میں فرمایا: روزِ عاشور امام حسینٴ کے لئے مجلسِ عزا برپا کرو اور اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کے مصائب پر گریہ کرو اور ان پر اپنے غم و اندوہ کا اظہار کرو اور ایک دوسرے سے ملاقات میں (اس طرح) تعزیت پیش کرو: اَعْظَمَ اللّٰه اُجورَنا بِمُصابِنا الْحُسَینِ وَ جَعَلَنَا وَ اِيَّاکُمْ مِنَ الطَّالِبِيْنَ بِثَارِه مَعَ وَلِيِّه الْاِمامِ الْمَہْدِی مِنْ آلِ محمد۰۔ جو شخص اس عمل کو انجام دے گا اس کے لئے خدا کے پاس دو ہزار حج و عمرہ اور رسولِ خدا اور ائمہ راشدین میں سے کسی ایک کے ساتھ جہاد کے ثواب کی میں ضمانت دیتا ہوں۔
ایک مجلس عزا میں امام باقرٴ کی موجودگی میں کمیت اشعار پڑھ رہے تھے کہ اس شعر پر پہنچے:

و قتیل بالطف غودر منه
بین غوغائ امة و طعاه

امام باقرٴ نے بہت گریہ کیا پھر فرمایا: اگر میرے پاس کچھ مال ہوتا تو اس شعر کے اجر میں وہ کمیت کو عطا کردیتا لیکن اس کی جزا وہی دعا ہے جو رسول اللہ ۰ نے اپنے دور کے مشہور شاعر حسان بن ثابت کے حق میں کی تھی کہ ہم اہلبیت کا دفاع کرنے کی وجہ سے روح القدس کی تائید تمہیں ہمیشہ حاصل رہے گی۔
ایک اور حدیث میں امام باقرٴ سے منقول ہے کہ جب کبھی ماہِ محرم شروع ہوتا تو میرے بابا امام زین العابدینٴ کو کوئی ہنستے ہوئے نہیں دیکھتا تھا۔ وہ روزِ عاشور تک مسلسل غم و اندوہ کی حالت میں رہتے۔ اور جب روزِ عاشور ہوتا تو وہ آپٴ کے غم و اندوہ، گریہ و زاری اور مصیبت کا دن ہوتا۔

امامٴ نے علقمہ سے فرمایا: جس حد تک ہوسکے اس دن (روزِ عاشور) اپنی ضروریات کی خاطر گھر سے باہر نہ نکلو، کیونکہ یہ ایک نحس دن ہے اور انسان کی حاجت پوری نہیں ہوگی، اور اگر پوری ہوگئی تو اس میں خیر و برکت نہ ہوگی۔ اور اس دن اپنے گھر کے لئے کھانے کا ذخیرہ بھی نہ کرو، کہ اگر تم نے ذخیرہ کیا تو اس میں خیر و برکت نہ ہوگی۔

 

٧۔ عاشورہ امام جعفر صادقٴ کی نظر میں:

عاشورہ کی اہمیت اور اس کی تبلیغ و ترویج اور عزاداری و گریہ و زاری پر امام جعفر صادقٴ نے متعدد جملے بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
عبد اللہ بن سنان کہتا ہے: عاشور کے دن میں امام جعفر صادقٴ کی خدمت میں پہنچا۔ میں نے آپٴ کو اس حالت میں دیکھا کہ چشمِ مبارک سے موتی کی مانند اشک جاری تھے ۔ میں نے عرض کیا: اے فرزندِ رسول۰! خدا آپ کی آنکھوں میں آنسو نہ لائے، کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟ فرمایا: کیا تم آج کے دن کی اہمیت سے غافل ہو؟ اور کیا نہیں جانتے کہ آج کے دن کیا گذرا؟ کہا: اے میرے مولا! آپ آج کے دن کے روزے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: آج کے دن بغیر نیت کے روزہ رکھو لیکن اسے آخر تک نہ پہنچانا یعنی غروب آفتاب سے ایک ساعت قبل پانی سے افطار کرلینا۔ کیونکہ اسی وقت آلِ رسول۰ پر سے جنگ ختم ہوئی تھی اور وہ عظیم فتنہ فرو ہوا تھا۔ راوی کہتا ہے: یہ باتیں بیان کرنے کے بعد امامٴ نے سخت گریہ کیا یہاں تک کہ آپ کی ریشِ مبارک تر ہوگئی۔
عبد اللہ بن فضل ہاشمی کہتا ہے: میں امام صادقٴ کے پاس پہنچا اور عرض کیا: اے فرزندِ رسول۰! روزِ عاشور کو غم و اندوہ اور گریہ و زاری کا دن کیوں کہا گیا ہے؟ اور عزاداری امام حسینٴ کی اس دن میں اہمیت بیان ہوئی ہے؟ اور جو اہمیت اس دن کی عزاداری کو حاصل ہے وہ رسول اکرم۰، علیٴ، فاطمہ زہراٴ اور امام حسنٴ کے ایام کو حاصل نہیں ہے؟ حضرتٴ نے فرمایا
امام حسینٴ کی شہادت کا دن تمام ایام سے عظیم تر مصیبت ہے ۔ اے عبداللہ! جان لو کہ آلِ عبا پانچ افراد تھے۔ جب نبی اکرم۰ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو لوگ اپنے آپ کو (باقی) چار افراد سے تسلی دے دیا کرتے تھے۔ اور جب بی بی فاطمہ زہراٴ شہید ہوئیں تو لوگ امیر المومنینٴ، حسنٴ اور حسینٴ سے دل کو تسلی دے لیتے تھے۔ پھر جب علیٴ شہید ہوئے تو لوگوں کو حسنٴ اور حسینٴ کی ذات سے ڈھارس تھی اور حسنٴ کے بعد لوگ امام حسینٴ کے وجود پر اکتفائ کرتے تھے۔ لیکن جب امام حسینٴ شہید ہوئے ، تو آلِ عبا اس دن یکدم شہید ہوگئے، کیونکہ امام حسینٴ ان سب کی یادگار تھے۔ اس لئے اس دن کا سوگ زیادہ سنگین ہے۔
بی بی زینبٴ نے بھی روزِ عاشور اسی بات کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: آج کے دن (امام حسینٴ کی شہادت سے) میرے نانا، بابا، ماں اور بھائی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اسی طرح زید شحام سے منقول ہے کہ میں اہلِ کوفہ کے ایک گروہ کے ہمراہ امام جعفر صادقٴ کی خدمت میں موجود تھا کہ مشہور عرب شاعر جعفر بن عفال وہاں آیا۔ آنحضرتٴ نے اس کا احترام کیا اور اپنے نزدیک جگہ عنایت کی۔ پھر فرمایا: اے جعفر! کہنے لگا: لبیک! میں آپ پر فدا ہوجاوں۔ فرمایا: مجھے بتایا گیا ہے کہ تم نے حسینٴ کے بارے میں خوبصورت اشعار کہے ہیں۔ بولا: جی! فرمایا: اپنے شعر سناو۔ اس نے چند اشعار سنائے تو امامٴ اور وہاں موجود لوگ اس طرح سے گریہ کر رہے تھے کہ آنسو امامٴ کی ریشِ مبارک پر جاری تھے۔ پھر فرمایا: اے جعفر ! خدا کے فرشتے حاضر ہیں اور انہوں نے تمہاری آواز سنی ہے۔ ہماری طرح انہوں نے بھی گریہ کیا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ خدا نے تمہارے لئے بہشت کو واجب کردیا اور تمہیں بخش دیا ہے۔

 

٨۔ عاشورہ اور امام موسی کاظمٴ:

امام کاظمٴ کا زمانہ گھٹن کا دور تھا اور بنو عباس کی کڑی نگرانی تھی اسی لئے آپٴ کی زندگی کا بڑا حصہ قیدخانے میں گذرا۔ اس زمانے میں عزاداری کی مجالس میں رونق نہیں ہوا کرتی تھی، اس کے باوجود عاشورہ کے آتے ہی آپٴ غمگین ہوجاتے اور اس دن کو غم و اندوہ کا دن شمار کرتے۔ امام رضاٴ فرماتے ہیں: ماہِ محرم کے شروع ہوتے ہی میرے بابا موسی بن جعفرٴ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا جاتا تھا اور وہ سرتاپا غم و اندوہ میں ڈوب جاتے تھے۔ عاشور کا دن آپٴ کی مصیبت کا اور آہ و بکائ کا دن ہوا کرتا تھا۔

 

٩۔ عاشورہ اور امام رضاٴ:

امام رضاٴ نے فرمایا: جو شخص روزِ عاشور اپنے کاموں اور حاجتوں کے لئے نہ جائے خدا اس کی دنیا و آخرت کی حاجات بر لاتا ہے اور اگر کوئی شخص عاشور کے دن کو غم و اندوہ کا دن قرار دے خدائے عز و جل قیامت کے دن کو اس کے لئے خوشی و سرور کا دن قرار دے گا اور جنت میں اس کی آنکھیں ہمارے دیدار سے روشن ہوں گی۔ لیکن اگر کوئی شخص روزِ عاشور کو برکت اور معاش کا دن بنائے اور اپنے گھرکے لئے کوئی چیز ذخیرہ کرے تو جس چیز کا وہ ذخیرہ کرے گا اس میں برکت نہیں ہوگی۔دعبل خزاعی اہلبیتِ رسول۰ سے عقیدت رکھنے والے ماہر شاعر ہیں۔ وہ ١٩٨ ھ میں شہر مرو میں امام رضاٴ کی خدمت میں پہنچے۔ وہ کہتے ہیں: میں مرو میں اپنے آقا علی بن موسی الرضاٴ کے پاس پہنچا۔ اس وقت آپٴ کے اصحاب حلقہ باندھے وہاں بیٹھے تھے اور امامٴ کے چہرے سے غم و اندوہ عیاں تھا۔ میرے وارد ہوتے ہی امامٴ نے فرمایا: تم کتنے خوش قسمت ہو کہ اپنے ہاتھ اور زبان کے ذریعے ہماری مدد کرتے ہو۔ پھر مجھے عزت دی اور اپنے نزدیک جگہ عنایت فرمائی۔ فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ میرے لئے مرثیہ پڑھو۔ یہ ایام ہم اہلبیت کے لئے غم و اندوہ کے ایام اور ہمارے دشمنوں خصوصاً بنو امیہ کے لئے خوشی کے ایام ہیں۔ اس کے بعد امام رضاٴ نے مجلس امام حسینٴ میں اپنے حرم کی شرکت کے لئے پردہ لگایا اور مجھ سے فرمایا: اے دعبل مرثیہ پڑھو۔ تم جب تک زندہ ہو، اہلبیت رسول۰ کے یاور اور ان کے مداح ہوگے۔ میری آنکھوں میں اس طرح آنسو آگئے کہ اشک میرے چہرے پر جاری ہوگئے، پھر میں نے یہ شعر کہا:

اقاطم لو خلت الحسین مجدلا
و قد مات مات عطشاناً بشط الفرات

امام رضاٴ، ان کے فرزند اور گھر کے افراد نے شدت سے گریہ فرمایا۔


١٠۔عاشورہ اور امام محمد تقیٴ، امام علی نقیٴ، امام حسن عسکریٴ اور امام زمانہٴ:

امام محمد تقیٴ کے زمانے میں امام حسینٴ کی عزاداری کی مجالس علویوں کے گھروں میں اعلانیہ طور پر برپا ہوتی تھیں لیکن معتصم عباسی کے بعد اس کے جانشینوں نے مجالس عزاداری کے انعقاد حتی کہ ائمہ معصومین اور شہدائ کی قبروں کی زیارت پر سخت پابندی لگا دی تھی۔
امام علی النقیٴ کی زندگی سخت گھٹن کے ماحول میں گزر رہی تھی اور حاکمِ وقت‘ متوکل عباسی‘ کو امامٴ اور ان کے شیعوں سے سخت دشمنی تھی۔ وہ اپنی بدنیتی اور بدعملی میں اس حد تک آگے بڑھا کہ اس نے قبرِ امام حسینٴ کو ویران اور اس کے آثار کو تباہ کردیا۔
ابوالفرج اصفہانی کہتا ہے: متوکل خاندانِ ابوطالب کی نسبت بہت سخت گیر تھا اور علویوں کے اعمال کی کڑی نگرانی کرتا تھا۔ اس کا دل علویوں کی نسبت سخت بغض و کینہ سے پُر تھا۔ اسی لئے وہ ان پر بے بنیاد الزامات لگاتا رہتا تھا۔ متوکل کی سخت گیری اس حد تک بڑھی کہ اس سے پہلے کے کسی خلیفہ نے اتنی جرآت نہیں کی تھی۔ اس کے حکم پر قبرِ امام حسینٴ کو اس طرح ویران کیا گیا کہ اس کا کوئی اثر باقی نہ رہا اور آپٴ کی قبر کے راستے میں ایسی چوکیاں بنائی گئیں جہاں پر زیارتیہ حالات امام حسن عسکریٴ کے دورِ امامت تک جاری رہے لیکنکے لئے جانے والوں کو گرفتار کیا جاتا اور ان کو سزا دی جاتی۔
شیعہ اور علوی خوفزدہ نہیں ہوئے اور تاریخ میں ہمیشہ اموی اور عباسی ظالم حکمرانوں کے ساتھ مثبت یا منفی مقابلہ کرتے رہے، کبھی زیارتِ قبور اور قاتلانِ ائمہ پر لعنت کے ذریعے تو کبھی شہیدوں اور خصوصاً شہدائے کربلا پر گریہ و زاری و عزاداری کے ذریعے سے۔
بے شک امام زمانہٴ بھی عاشورہ کی عظمت کے حوالے سے اپنے اجداد کی سیرت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور اپنے جد بزرگوار حسینٴ بن علیٴ پر دن رات گریہ کرتے ہیں، جیسا کہ زیارتِ ناحیہ مقدسہ میں آیا ہے:
لاندبنک صباحاً و مسائً و لابکین علیک بدل الدموع دما۔
ہر صبح شام (اے جد بزرگوار) آپ پر گریہ کرتا ہوں اور (اگر اشک ختم ہوگئے تو) آنسووں کے بدلے خون رووں گا۔

 

حوالہ جات


آشنائی با حسین
نہضتِ حسینی
الوقائع و الحوادث
شہید کربلا
دفاع از حسین
آشنائی با حسین
مستدرک الوسائل
معالی السبطین
مجمع الزوائد ۔ باب مناقب حسین بن علیٴ
کنز العمال
اعلام النبوۃ
الصواعق المحرقہ
مقتل خوارزمی
تذکرۃ الخواص
کتاب صفین از نصر بن مزاحم
مناقب ابن شہرآشوب
بحار الانوار
کامل الزیارات
مصباح المتہجد
تاریخ النیاحۃ علی الحسین
امالی شیخ صدوق
عیون اخبار الرضا
کامل ابن اثیر
زندگی تحلیلی پیشوایان
مقاتل الطالبیین
گلبرگِ عشق

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک