اسلامی تربیت ایک تحقیقی مقالہ
مقدمہ
لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم یتلواعلیهم آیاته و یزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ۔آل عمران 164 ۔خدانے ایمان داروں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے لۓ ان ہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا جو انہیں خدا کی آيتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کی طبیعت کو پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں عقل کی باتیں سکھاتا ہے ۔
دین اسلام بھی دیگر آسمانی مذاھب کی طرح انسان کو آلودگیوں اور انحراف سے بچاکر اسے الھی راستے یعنی عالم خلقت کے فطری اصولوں پر چلانے کے سوا کوئی اور ھدف نہیں رکھتا بہ الفاظ دیگر اسلام کی ذمہ داری بھی انسان کی تعلیم و تربیت ہے
اسلام کی تعلیمی اور تربیتی روشیں دنیا کی روشوں سے الگ بلکہ بے نظیر ہیں ،مرحوم زرین کوب لکھتے ہیں کہ "عیسائیت کے برخلاف جو صرف دینی نقطہ نگاہ سےانسانوں کی تربیت و تعلیم کا قائل تھا جس کی بناپر ہی یورپ آخر کار بے دین ہوکر رہ گیا ،اسلام دنیوي امور پر بھی خاص توجہ کرتا ہے اور یہ امر باعث ہواہے اس بات کاکہ مسلمانوں کے درمیان دینی اور دنیوی امور سے ترکیب یافتہ متوازن صورتحال وجود میں آۓ (1)
اسلام میں تربیتی احکام انسانی فطرت کے تمام امور کو شامل ہیں ،اسلام ان تمام چیزوں پر جو فطرت انسان سے جنم لیتی ہیں خاص توجہ رکھتاہے ان امور کا انسان اور اس کی زندگي کے حقائق پر مثبت اثر پڑتاہے جس کی نظیر کسی اور مذھب میں نہیں دیکھی جاسکتی۔
اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک عدیم المثال نمونہ صدر اسلام کی مسلمان قوم ہے جو گمراہی وجھالت کی کھائیوں سے نکل کر کمال کی اعلی منازل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھی اسلام سے پہلے اس کا کام آپس میں جنگ و قتال کے علاوہ کچھہ بھی نہ تھا اسی قوم نے اسلامی تربیت کے زیر اثر ایسی عظیم تھذیب وتمدن کی بنیاد رکھی جو بہت کم مدت میں ساری دنیا پر چھا گئي اوراخلاق و انسانی اقدار کے لحاظ سےایسا نمونہ عمل بن گئي جو نہ اس سے پہلے دیکھا گيا تھا نہ اس کے بعد 2
اسلامی طریقہ تربیت انسانی خلقت و فطرت کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنےسے عبارت ہے اسلام انسان کی کسی بھی ضرورت سے غفلت نہیں کرتاہے اس کے جسم عقل نفسیات معنویات و مادیات یعنی حیات کے تمام شعبوں پر بھر پور توجہ رکھتاہے ،اسلامی تربیت کے بارے میں رسول اسلام صلی اللہ وعلیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہی کافی ہے کہ آپ فرماتے ہیں مجھے مکارم اخلاق کو کمال تک پہنچانے کے لۓ بھیجا گیا ہے 3
قرآن میں والدین کو مربی قراردیاگیا ہے اور ان کی قدر و منزلت کا اس سے اندازہ ہوجاتاہے کہ خدا نے بارہا جھان شرک سے نھی اوراپنی عبادت کا حکم دیا ہے اس کے بعد والدین کے حق میں احسان و نیکی کرنے کا امر فرمایا ہے اس سے اسلام میں تربیت کی اھمیت کا اندازہ ہوجاتاہے ۔
تربیت کے اصطلاحی معنی بیان کرنےمیں ماھرین و اصحاب نظر کے درمیان اتفاق و اشتراک پایا جاتاہے ،متقدم و متاخر علماو دانشوروں نے گرچہ مختلف تعبیریں استعمال کی ہیں تاہم ایک ہی بات کہی ہے یہاں پر ہم تربیت کی بعض تعریفیں پیش کررہے ہیں ۔
اخوان الصفا و خلان الوفا کی نظر میں تربیت ان امور کو کہتے ہیں جو انسان کی روحانی شخصیت کو پروان چڑھانے میں موثر واقع ہوتے ہیں ۔7
آیۃاللہ شھید مطہری کا خیال ہے کہ تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے، ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں (انسان حیوان و پیڑپودوں )میں موجود ہوں انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں بنابریں تربیت صرف جانداروں سے مختص ہوتی ہے ۔8
مرحوم ڈاکٹر شریعتی نے تربیت کے بارے میں خوبصورت اور دلچسپ تعبیر استعمال کی ہے وہ کہتے ہیں تربیت انسانی روح کو خاص اھداف کے لۓعمدا خاص شکل دینے کو کہتے ہیں ،کیونکہ اگر انسان کو آزاد چھوڑدیا جاے تو وہ اس طرح پلے بڑھے گا کہ اس کی شخصیت سے کوئي فائدہ نہیں پہنچے گا لھذا اس کی شخصیت کو ایسی شکل میں ڈھالنے کی ضرورت ہےکہ وہ مفید واقع ہو۔
بہ الفاط دیگراصطلاحا تربیت ایسا علم ہے جس کا ھدف ومقصد سلامت جسم ،پرورش عقل ،اور تجربوں نیز نیک صفات میں اضافہ کرنے کے لحاظ سے انسان کو کمال کے اعلی ترین ممکنہ درجے تک پہنچانا ہے 9 ۔
ویبسٹر انٹرنیشنل ڈکشنری میں education کے ذیل میں چار تعبیریں لائي گئی ہیں جو حسب ذیل ہیں ۔
الف :تعلیم یا تربیت کے عملی مرحلہ کوکہتے ہیں جیسے کسی بچے یا جانور کی تربیت ۔
ب:ایسے مختلف مراحل جن میں علم، مھارت ،لیاقت اور اخلاق حسنہ حاصل کۓ جائيں یہ مراحل باضابطہ دورہ تعلم مکمل کرنے پر اختتام پذیر ہوتے ہیں ۔
ج:ایسا مرحلہ جس میں تعلیم و تربیت مکمل ہوگئي ہو یا تعلیم و تربیت اس کا ھدف ہو۔
د:کلی طور پر اسلامی تعلمی و تربیتی نظام کو کہا جاتاہے 10
Encyclopedia of islamکی دسویں جلد میں Tarbiya کے ذیل میں آیا ہے کہ تربیۃ عام اصطلاح ہے جو جدید عربی میں تعلیم و تربیت (education) اور علم تعلیم (pedagogy)کے معنی میں استعمال ہوتی ہے ،تربیت ابتدائي سطح پر اسکول و مدرسہ اور اعلی سطح پر کالج اور یونیوسٹیوں میں انجام پاتی ہے اور یونیوسٹی و کالج کے لۓ عربی میں الجامعۃ و الکلیہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں 11 ۔
تربیت کے موضوع پر اس سے کہیں زیادہ مطالب لکھے جاسکتے ہیں لیکن اس مختصر مقالہ میں اس سے زیادہ کی گنجائیش نہیں ،مذکورہ بالا باتیں نمونے کے طور پر پیش کی گئي ہیں تاکہ تربیت کا مفھوم واضح ہوجاے دراصل اپنی اصلی بحث "اسلام کی روش تربیت "کے مقدمے کے طور پر ان امور کا ذکر کیا گیا ہے ۔
تربیت اسلامی کا فلسفہ ،روش ،اور خصوصیات۔
یہاں ہم اختصار سے تربیت اسلامی پر تین پہلووں سے روشنی ڈال رھے ہیں ۔
الف :تربیت اسلامی کا فلسفہ ۔
تمام متکلمین و فلاسفہ الھی کاماننا ہے کہ اس عالم ھستی کا ایک ھدف و مقصد ہے اور قرآن میں بھی اس ھدف و مقصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ اشارہ مختلف تعبیرات کے پیراے میں آیا ہے 12 یعنی قرآن کریم نے جسے ہم آج کی اصطلاح میں دین کا ترجمان و منشورکھہ سکتے ہیں کبھی بھی یہ نہیں کہا ہے کہ عالم ھستی اور اس کے مرکزی کردار، انسان کی خلقت، بغیر ھدف و حکمت کے ہوئي ہے بلکہ قرآن کی نظر میں انسان کو پیدا کرنے کا بنیادی ھدف قرب الھی اور کمالات کا حصول ہے 13 اب یہاں اس موضوع پر قرآن کی آیات کا ذکر کرنا ممکن نہیں کیونکہ قرآن میں جگہ جگہ انسان کو گناہوں ،غفلت ،اور دیگر آفات سے دور رھنے کو کہا گیا ہے جو اسے خدا سے دور کردیتی ہیں اسی کے ساتھ ساتھ انسان کو تقوی اختیار کرنے اور نیکیوں کی تلقین کی گئی ہے اور اس بات پر تاکید کی گئي ہے کہ انسان خدا سے قربت حاصل کرنے کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو ھٹادے لھذا انسان کو اس کے حال پر چھوڑا نہیں جاسکتا بلکہ اس کی ھدایت ضروری ہے اور اس کے لۓ ضروری ہے کہ وہ اپنی بعض خواہشوں سے دست بردار ہوجاے ،البتہ یہ کسی طرح کی پابندی نہیں ہے وجوب طاعات وترک معاصی کو پابندی نہیں کہاجاسکتابلکہ تزکیہ و تطہیر روح وپاکیزگئي سرشت وطبیعت کی بنیادی شرط ہے اور جب تک انسان ان سختیوں کامتحمل بلکہ ان پر جان و دل سے راضی نہیں ہوگا خدا کے منظور نظر اھداف کو نہیں پاسکتااور یہی تربیت اسلامی کافلسفہ ہے ۔
اسلامی تربیت کے فلسفے اور دیگر مکاتب فکر کے تربیتی اندازمیں مختلف جھات سے فرق ہے ،بعض فلسفی مکاتب میں تعلیم و تربیت سے بحث نہیں کی جاتی بلکہ فلاسفہ، تعلیم و تربیت کے بارے میں بعض نظریات اس مکتب فکر کی مناسبت سے حاصل کرلیتے ہیں لیکن اس کے مقابل اسلام جو فلسفی مکتب نہیں ہے جس طرح سے کہ قرآن، اصطلاحی معنی میں تاریخ یا سماجیات کی کتاب نہیں ہے لیکن اس کے باوجود قرآن و نہج البلاغہ اور رسول و آل رسول علیھم الصلوات و السلام کی احادیث و روایات میں تربیتی مفاھیم و مضامین کثرت سے مل جائيں گے 14 ۔
اسلام میں تربیت کی روش ۔
اسلام دیگر مسائل کی طرح تربیت میں بھی اپنی خاص روش وطریقہ کار رکھتاہے بقول شھید مطہری ایک مکتب جو واضح اھداف و مقاصد اور ھمہ گیر قوانین کا حامل ہے اور جدید قانونی اصطلاح کے مطابق اقتصادی و سیاسی نظام کا حامل ہے ایسانہیں ہوسکتا کہ اس کے پاس تعلیم و تربیت کا خاص نظام موجود نہ ہو15 ۔
تعلیم و تربیت کے مسئلےکو ہمشہ سے اسلامی تمدن میں مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے بلکہ یہ امر اسلامی تھذیب وتمدن کا رکن رہا ہے اور دین جو تمدن اسلامی کی بنیاد ہے اس سے تعلیم و تربیت کا کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم ہے 16 اور مسلمانوں نے ہمیشہ سے قرآن و سنت نبوی (ص)سے تعلیمی اورتربیتی روشیں اخذ کی ہیں ۔
دراصل تربیت اسلامی ایمان و عمل صالح ،شریعت و سنت کی نگرانی کی اساس پر مسلمانوں کے لے اخلاق حسنہ و معنوی اقدار کے حصول کا منبع رہی ہے 17 رسول اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے انسان کے لۓ ایسی تعلیمات اور اصول وضوابط پیش کۓ جو اس زمانے تک ادیان الھی کے سوا وہ بھی محدود سطح پر کہیں اور موجود نہیں تھے اور ان تعلیمات و اصول وضوابط کا سرچشمہ قرآن اور دیگر امور تھے جو وحی و الھام سے آپ (ص) کو حاصل ہوتے تھے اور یہی امور آپ (ص) کی سنت کے طور پر خلوہ گر ہوۓ ہیں 18 ۔
اسلامی تربیت کا نظام متوازن نظام ہے جس کا ھدف انسان کو ایسے اقدار سے آشنا کرانا ہے کہ انسان اپنی دنیوی زندگي کے لۓ یہ سمجھے کہ وہ ھمیشہ کے لۓ دنیا میں رھے گا اور دینی لحاظ سے یہ سوچے کہ وہ کسی بھی لمحے درگاہ حق میں پہنچ سکتاہے لھذا اسلام نے انسانی زندگي اور آخرت سے متعلق کسی بھی امر کو نظر انداز نہیں کیا ہے 19 ۔
اولاد کی تربیت کے بارے میں اسلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے اسی تاکید کی بناپر بہت سے علماو دانشوروں نے تعلیم و تربیت کے موضوع پر اپنی کتابوں میں اولاد کی تربیت پر قلم فرسائي کی ہے 20 ۔
اسلام نے تمام مکاتب فکر سے زیادہ عورت کی حمایت کی ہے یہ صرف دعوی نہیں ہے بلکہ قرآن و اسلامی کتب پر اجمالی نگاہ ڈالنے سے بھی ہمارا دعوی ثابت ہوجاتاہے /22/21 اس کے علاوہ مسلمانوں نے اھل کتاب کے ساتھ جو رواداری کا رویہ اختیار کررکھا تھاوہ مفاھمت آمیز زندگي کے اصول پر مبنی تھا جس سے قرون وسطی کا یورپ بالکل بے خبر تھا 23 شاید اسی رواداری کی بناپر بہت سے اھل کتاب اسلام کی طرف کھنچتے چلے آۓ اور انہوں نے اسلام کے دائرہ رحمت میں پناہ لے لی بقول مرحوم زرین کوب اس کامرکز عراق وشام نہیں بلکہ قرآن کریم تھا ۔
اسلامی تربیت کو جس کا سرچشمہ وحی الھی ،کتاب خدااور سنت رسول اکرم (ص) ہے اسے تین مختلف مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے 25 جو انسان کی سعادت حصول کمال اور مکمل تعلیم وتربیت کے لۓ ضروری ہیں ۔
الف:اعتقادی مرحلہ :اس مرحلہ میں مکلف کی فکر پر نظر رکھی جاتی ہے اور انسان کی عقل کو مخاطب کیا جاتاہے اس بارے میں سورہ بقرہ کی چوالیسویں آیۃ میں اشارہ کیا گيا ہے ارشاد ہوتاہے "اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون۔تم لوگ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو جبکہ قرآن کی تلاوت بھی کرتے ہو کی تم عقل سے کام نہیں لیتے ۔
ب:عملی مرحلہ :اس مرحلہ میں فعل مکلف پر نظر رکھی جاتی ہے اس میں اسلامی احکام شامل ہیں جو انسان کی دنیوی اور اخروی سعادت کے ضامن ہیں ،اس مرحلے میں فردی واجتماعی زندگی بلکہ حیات بشری کی ھمہ گیر سلامتی ملحوظ نظر ہے یا بالفاظ دیگر حقیقی معنی میں انسانیت کا احیاء مقصود ہے اس سلسلےمیں سورہ انفال کی چوبیسویں آیت دیکھی جاسکتی ہے 26
ج:آخری مرحلہ :اس مرحلہ میں مکلف کی صفات پر نظر رکھی جاتی ہے یعنی اس سے مراد اسلامی اخلاق کا حصول ہے اوریہ مرحلہ اسلامی تعلیم و تربیت کا مقصد و ھدف ہے اسی مرحلہ میں کا میابی سے انسان تقوی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتاہے سورہ بقرہ کی آیت ایک سو ستھتر میں تربیتی پرگراموں جیسے خداو قیامت ،ملائکہ ،انبیاء ،انفاق ،نماز ،زکات ،ایفاے عھد و صبر وغیرہ کو تقوی میں شامل کیاگيا ہے۔
البتہ مذکورہ امور کے علاوہ اسلام تعلیم و تربیب کے لۓ اپنی خاص روشیں رکھتا ہے جن میں بعض کی طرف اشارہ کیا جارھا ہے ۔
1 -عبادت:عبادت ھدف ہونے کے علاوہ تربیت کا طریقہ بھی ہے اس طرح کہ دعاکے مضامین انسان کو عظمت خداوند متعال ،اسکی رحمت اور نعمتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں اس کے علاوہ انسان کو یہ سکھاتے ہیں کہ وہ ایک نھایت حقیر وعاجز مخلوق ہے اسے اپنے اعمال کا حساب کرکے گناہوں کا اعتراف کرنا چاھیے اور ماضی کا تدارک کرنےکا عھد کرناچاھیے ،اسی کے ساتھ ساتھ اسے رحمت و مغفرت خداوندی سے ھرگزمایوس نہیں ہونا چاھیے اور تزکیہ نفس کی کوشش کرتے ہوۓ حصول کمال کی طرف متوجہ ہونا چاھیے ۔
2 –ایمان و عمل
3 –علم و عمل
4 –سیرہ رسول و آل رسول علیھم السلام کی پیروی کے ذریعے عملی تربیت ۔
5 –عقل کی پیروی
6 –امر بہ معروف و نھی ازمنکر
7 –جھاد در راہ حق
8 –جزاو سزا
9 –توبہ
10 –موعظہ ونصیحت
11 –ماضی کی قوموں کی سرگذشت و تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کے ذریعے تربیت ۔
اس باب کے اختتام پر عالم اسلام پر تربیت اسلامی کے اثرات کے زیر عنوان جزیرۃ العرب کے حالات –قبل و بعد از اسلام- کا ذکر کیا جاسکتاہے ۔
رسول اسلام صلی للہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے سے قبل کے زمانے کوزمانہ جاھلیت کہا جاتاہے اور اس دور کے عربوں کو جاھلی عرب سے موسوم کیا جاتاہے ،جاھلیت کا زمانہ تعلیم و تربیت کے نظام سے عاری تھا اور جاھلی عرب اپنے قومی تعصبات کے اظہار کے لۓ کسی حد کے قائل نہیں تھے قرآن نے جاھلی عربوں کی اس صفت کو حمیت جاھلی کا نام دیا ہے 28 ۔
جزیرۃ العرب میں تربیتی نظام کے نہ ہونے پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس زمانے میں کسی کو پڑھنا لکھنا نہیں آتاتھا اور شعر و شاعری میں بھی یہ لوگ عشق و شراب و شکار ایک دوسرے کی ھجو ،خرما کی صفت بیان کرنے نیزآپسی جنگ کے بیان سے آگے نہیں بڑھے تھے واضح ہے کہ یہ مضامین تربیتی مضامین نہیں ہیں لیکن ظہور اسلام کے بعد جزیرۃ العرب میں تعلیم و تربیت کا ایک نیا باب کھلا 29 اور اسلامی تھذیب وتمدن کے کارھاے نمایاں سے ساری دنیا متاثر ہونے لگی اور یہ سلسلہ تین یا چار صدیوں میں عالمگیر ہوگيا جو کسی معجزہ سے کم نہیں ہے 30 ۔
اسلامی تربیت کی خصوصیات
اسلامی تربیت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا منبع و سرچشمہ وحی الھی ہے لھذا اسے ہم دینی و روحانی تربیت بھی کھہ سکتے ہیں پیغمبر اسلام (ص)پر براہ راست وحی آتی تھی جس کی بنا پر آپکو تربیت یافتہ درگاہ احدیت کہا جاتاہے اور تمام مسلمانوں نے رسول اسلام (ص) اور اسلامی احکام وقوانین کے تحت تربیت پائي ہے۔ 31 ۔
اسلامی تربیت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں پرورش شخصیت کے لۓ عقل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے 32 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا نے انبیاءو رسل علیھم السلام اس وجہ سے بھیجے ہیں کہ وہ لوگوں کو عقل وتدبر کے ذریعے خدا کی معرفت حاصل کرنا سکھائیں اور جس کی معرفت زیادہ ہے وہ بارگاہ احدیت میں مقبول تر ہے اور جس کے حصے میں زیادہ عقل آئی ہے اسے معرفت بھی زیادہ نصیب ہوئي ہے اور جس کی عقل کامل تر ہے دنیاو آخرت میں اس کا درجہ بھی اعلی وارفع ہے 33 چنانچہ اسلام تربیت کے اپنے بنیادی ھدف کے علاوہ جس کی تفصیلات بیان ہوچکی ہیں دوسرے اھداف جیسے تقوی ،عدل و انصاف ،برادری و تعاون ،ديگر اقوام سے دوستی ،فکری صلاحیتوں کی پرورش ،معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس،اور مکمل اخلاقی شخصیت کو بھی مد نظر رکھتا ہے 34 ۔
انسان جب تعلیم و تربیت کے لۓ اسلامی پرگراموں کو دیکھتاہے تواسے حیرت ہونے لگتی ہے کہ اسلام نے انسان کی تربیت کے لۓ بے مثال پرگرام بناۓ ہیں 35 ۔
اسلامی تربیت کی یہی خصوصیت نہیں ہے کہ اس میں انسانی فطرت و خلقت کی پرورش کے لۓ ھمہ گیر اصول و ضوابط موجود ہیں بلکہ حقیقی خصوصیت یہ ہے کہ انسانی فطرت اور اس کے ابدی و ازلی قوانین کو ذات احدیت سے ملادیتے ہیں یعنی تربیت اسلامی کا بنیادی ھدف قرب الھی حاصل کرنا ہے 36 ۔
اسلام جسم و عقل و روح کے درمیان جدائي کا قائل نہیں ہے عملی زندگی میں بھی ان قوتوں کے اٹوٹ رشتے کا یقین رکھتا ہے اور فطرت کی تمام صلاحیتوں کو ھماھنگ کرتاہے اور اس غرض سے اس نے تمام ضرورتوں اور پہلووں کا خیال رکھا ہے تاکہ مناسب موقع پر ان سے فائدہ اٹھایا جاسکے37 اسی بناپر اسلام نے انسان کے اوقات کو تقسیم کردیا ہے ،عبادت وتفکر وتدبر کا خاص وقت ہے تو کام کاج و تلاش معاش کا مخصوص وقت ہے اسی طرح تفریح اور زندگي سے لطف اٹھانے کا بھی وقت معین ہے ،ان اوقات کو اس طرح منظم کیا گیا ہے کہ اس میں انسان کی ذمہ داریوں میں تداخل پیش نہیں آتا38 ۔
اسلامی تربیت کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نفس بشری اور عینی زندگی کو جسم و عقل و روح کی مکمل ھماھنگي کے ساتھ فطرت کے زیر سایہ دیکھا جاسکتاہے اور اسی باھمی ربط و ھماھنگي اور وابستگي کی وجہ سے انسان معین نتیجہ تک پہنچتا ہے جس کے دو فائدے ہیں ۔
الف:اسلامی تربیت انسانی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی خواھان ہے اس طرح سے کہ ان صلاحیتوں میں سے جو کہ زمین کو آباد کرنے اور خدا کی جانشینی حاصل کرنے کا موجب ہیں کوئی صلاحیت ضایع نہ ہو39۔
ب:دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انسانی صلاحیتوں سے یکسان طور پر استفادہ کرنے سے انسان کی روحانی و عینی زندگي میں تعادل و توازن پیدا ہوتاہے40 چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتاہے و کذلک جعلنا کم امۃ وسطا،بقرہ 143 ۔اس طرح ہم نے تمہیں میانہ رو امت قراردیا41 ۔
یہ امور بیان کرنے کے بعد ہم یہ کھہ سکتے ہیں کہ اسلامی تربیت کی واضح روشن اور اھم خصوصیت یہ ہے کہ وہ ھمہ گیر کمال پسند ھماھنگی کی خواھان اور حقیقی اقدار کی حامل ہے42 ۔
سیرت معصومین علیھم السلام میں تعلیم و تربیت
رسول اسلام (ص) نے اسلامی تربیت کی بنیاد رکھی آپ پر پہلی مرتبہ جو آیات نازل کی گئیں ان میں ارشاد ہوا کہ اقراء باسم ربک الذی خلق43 ،ان میں تعلیم و تربیت کے بنیادی عناصر یعنی
1 حصول علم و معرفت اور
2 کمال و ترقی پر تاکید کی گئي ۔
رسول اسلام (ص) تربیت کے عام ھدف یعنی انسانی کمال کی تبلیغ فرمارہے تھے تاکہ اپنے پیرووں کی کمال کی بلند و بالا چوٹیوں تک رھنمائی فرمائيں اسی وجہ سے قرآن نے آپ (ص) کو اسوہ حسنہ کا لقب عطا کیا ہے 44 ۔
اس کے ساتھ ساتھ رسول اسلام (ص)تعلیم و تربیت کی متعدد روشوں سے استفادہ فرماتے تھے جو حسب ذیل ہیں 45 ۔
الف:تلاوت آیات قرآن مجید اور خطبہ یا وعظ کی صورت میں ان کی وضاحت کرنا 46 ۔
ب:آس پاس کے علاقوں میں مبلغین و معلمیں روانہ کرنا ۔
ج:خط و کتابت کے ذریعے دعوت دینا ۔
د:عملی روش ۔
رسول اسلام (ص) کی نظر مبارک میں تعلیم و تربیت کی اس قدر اھمیت تھی کہ آپ (ص) نے غزوہ بدر کبری کے بعد اعلان فرمایا کہ قریش کے قیدیوں میں سے جو بھی انصار کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھاے گا اسے رھا کردیا جاے گا 47 اائمہ علیھم السلام نے بھی رسول اسلام (ص) کی تربیتی روشوں کو جاری رکھا ،امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی عملی زندگي کا ہر ہر پہلو عوام کے لۓ تربیت کا سبق تھا آپ (ع) کی حکومت کی اساس اسلامی تربیتی اصولوں یعنی تقوی و فداکاری و ایثار پر تھی لیکن آپ(ع) کی خاص روش خطبے اور وعظ ونصیحت تھی جس کے دسیوں نمونے ہمارے سامنے موجود ہیں 48 ۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام تعلیم و تربیت کی روشوں میں رسول اسلام (ص) کی پیروی کرتے تھے آپ (ع) کا تعلیمی ادارہ بھی مسجد ہی تھا 49 تاریخی شواھد سے معلوم ہوتاہے کہ آپ (ع) نے ہی عربی زبان کے قواعد وضع فرماے ہیں 50 اور جو قواعد عرب کی نسبت ابوالاسود دوئلی کی طرف دی جاتی ہے دراصل آپ(ع) نے ہی انہیں قواعد عرب کی تعلیم دی تھی51 ۔
حضرت علی علیہ السلام ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے فلسفہ الھی میں غور اور استدلال و برھان منطقی کی روش پر گفتگو کی52 ،آپ (ع) کے خطبوں اور ارشادات میں عرفان و فلسفہ کے اعلی معارف اور اخلاق و تربیت کے ظریف ترین نکات دیکھے جاسکتے ہیں53 ،آپ (ع) سے مختلف عقلی فنون و دینی و اجتماعی معارف کےبارے میں گیارہ ھزار سے زائد کلمات قصار نقل کۓ گۓ ہیں 54 ان اقوال کو آمدی نے غرر الحکم اور سید رضی نے نھج البلاغہ میں نقل کیا ہے 55 ۔
اس بحث کے آخر میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے خطبوں میں موجود تربیتی نکات کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔
امام حسن علیہ السلام کودرپیش سنگین مسائل کی بناپر آپ (ع) کو اپنے تربیتی پروگراموں کو آگے بڑھانے میں نھایت شدید مشکلات کا سامنا تھا ۔
امام حسین علیہ السلام نے وعظ و نصیحت کے ساتھ ساتھ مسلحانہ جھاد کی صورت میں بھی امربالمعروف و نھی عن المنکر کی تحریک شروع کی ،امام جعفرصادق علیہ السلام کا زمانہ اھل بیت کے لۓ تعلیم و تربیت کا بہترین زمانہ تھا امام صادق علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کے فراھم کردہ حالات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوے اپنے شاگردوں کی تعداد چار ھزار تک پہنچادی آپ کے حلقہ درس میں ان تمام مسائل پر جو فردی و اجتماعی زندگی پر مفید اثرات کے حامل تھے ان پر بحث ہوتی تھی ،امام صادق علیہ السلام کے بعد بھی ديگر ائمہ نے اپنے اجداد طاھرین علیھم السلام کی روش جاری رکھی اور ہر امام(ع) نے اپنے وقت کے تقاضوں کے مطابق امت کی رھنمائی کی ذمہ داری بنحو احسن انجام دی56 ۔
حضرت علی علیہ السلام کے خطبوں سے مستفاد تربیتی نکات کو اگر تفصیل سے بیان کریں تو کئي جلدیں تیار ہوجائیں گی لھذا ہم نھایت اختصار سے ان کی طرف اشارہ کررہے ہیں57 تاکہ آپ (ع) کی نظر میں تعلیم و تربیت کی اھمیت واضح ہوجاے ۔
1- امیرالمومنین علیہ السلام تعلیم کی اھمیت پر تاکید کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ "ما اخذالله تعالی علی اهل الجهل ان تعلموا حتی اخذ علی اهل العلم ان یعلموا58
2- تعلیم اور تمدن کی پیشرفت میں ربط باھمی
امیرالمومنین علیہ السلام نے نھایت لطیف طرز پر بیان فرمایا ہے کہ کن حالات میں یہ ھدف حاصل ہوسکتاہے آپ (ع) فرماتے ہیں عالم کو اپنے علم سے استفادہ کرنا چاھیے ،جاھل کو حصول علم سے جی نہیں چرانا چاھیے مالدار کو اپنے رزق و روزی میں بخل نہیں روا رکھنا چاھیے اور نادار کو اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے فروخت نہیں کرنا چاھیے ۔59 ۔
3،علم و عوام کی زندگی میں ربط ،اس موضوع کے تحت آپ (ع) نے تاکید کی ہے کہ علم کو نفع بخش ہونا چاھیے آپ (ع) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے کہ نعوذباللہ من علم لاینفع 60 ۔
4 امام علیہ السلام علم کی منفرد خاصیت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو کمیاب ہوتی ہے اس کی قیمت اور اھمیت میں اضافہ ہوجاتاہے لیکن علم جب فراوان ہوجاتاہے تو اس کی قیمت میں اضافہ ہوتاہے61 ۔
5 حکمت روح کی غذاہے مولاے کائنات کا فرمانا ہے کہ اگر نفس انسان حکمت سے عاری رہے تو غم و اندوہ میں گرفتار ہوجاتاہے آپ (ع) فرماتے ہیں کہ اجمعوالنفوس والتمسوا لھا طرف الحکمۃ فانھا تمل کما یمل الجسد 62 ۔
6 اخلاقی و ایمانی امور،امام فرماتے ہیں کہ یہ امور (دینی اقدار )انسانی کردار و گفتار کو مستحکم بناتے ہیں اور عدالت ودیگر اقدار کو رائج کرتے ہیں آپ(ع) فرماتے ہیں کہ ان اللہ لا یامرالا بالحسنی ولا ینھی الا عن القبیح 63 ۔
اسلامی تمدن میں تعلیم و تربیت کے مقامات
1 -گھر :
نزول وحی کے بعد رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لاے جس کے بعد حضرت خدیجہ ایمان لے آئيں اس طرح گھر کو سب سے پہلے تعلیم تربیت کی جگہ ہونے کاشرف ملا 64 ۔ اس کے علاوہ سب سے پہلے فقہی مدرسے کی بنیاد مکہ مکرمہ میں ارقم بن ابی الارقم کے گھر میں رکھی گئي 65 ۔
اسلام میں گھر کو ھمیشہ سے تعلیم و تربیت کے مرکز کی حیثیت سے اھمیت حاصل رھی ہے ۔
مسجد :ابتدائے تاسیس سے ہی مسجد دینی امور کے علاوہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا بھی مرکز رہی ہے66 دراصل مسجد اسلامی ثقافت کو پھیلانے کا مرکز رہی ہے اور صدر اسلام سے تیسری ھجری تک مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا اھم ترین مرکز تھی مسجدوں میں ہی مسلمانوں کے تمام علمی سیاسی اور اجتماعی مسائل حل ہواکرتے تھے 67۔
پیغمبر اسلام اکثر مسجد میں ہی خطبے ارشاد فرمایا کر مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا اھتمام فرمایا کرتے تھے خلفا اور صحابہ کے دور میں بھی یہی روش جاری رہی کیونکہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا یہ اھم ترین ذریعہ تھا اسلامی قلمرو میں بڑے بڑے شہروں میں عظیم مسجدیں تھیں جن میں بزرگ علماو مدرسین طلبا کو تعلیم و تربیت دیا کرتے تھے69 ۔
مکتب :بلاذری نے فتوح البلدان میں مکتب کا تذکرہ کیا ہے جھان ان پڑہ لوگوں کو پڑھنا لکھنا سکھا یا جاتا تھا 72 مکتب ہی میں بچوں کو بھی تعلیم دی جاتی تھی اور حروف تہجی کے بعد انہیں سب سے پہلے قرآن پڑھایا جاتا تھا 73 اس طرح کے مکتب اسلام سے پہلے بھی تھے ،اھل مکہ میں سب سے پہلے جس نے لکھنا سیکھا وہ سفیان تھا جس کا تعلق بنی امیہ سے تھا 74 ابن خلدون کا کہنا ہے کہ اس نے حیرہ میں اسلم بن سدرہ سے لکھنا سیکھا 75 ۔
اندلس اورمشرقی اسلامی ممالک میں مکتبی دروس کے علاوہ عربی نظم و نثر، قواعد عرب اور خط کی تعلیم بھی دی جاتی تھی 76 ۔
مکتب میں تعلیم حاصل کرنے کے لۓ کسی طرح کی شرط نہیں تھی معاشرے کے تمام طبقے مکتب میں ساتھ بیٹھ کر علم حاصل کیا کرتے تھے اس روش پر متوکل عباسی کے زمانے تک عمل کیا جاتارہا لیکن اس نے 235 ھجری قمری میں پابندی لگادی کہ اھل ذمہ کے بچے مکتب میں داخلہ نہیں لے سکتے 77 ۔
مدرسہ :مسجد مسلمانوں کے تمام اجتماعی و دینی کاموں کا مرکزتھی مسلمانوں میں حصول علم کا اشتیاق بڑھنے کی وجہ سے مسجد میں تشنگان علم کی تعداد بھی بڑھنے لگی جس سے لوگوں کی عبادت میں خلل آنے لگا تو مسجد کے کنارے ایک کمرہ بنایا گيا جسے مدرسہ کا نام دیا گيا 78 البتہ مسجد و مدرسہ میں فن تعمیر کے لحاظ سے کوئي فرق نہیں ہوتاتھا اور آج بھی عالم اسلام کے بعض عظیم علمی مراکز جیسے الازھر مدرسہ بھی ہیں اور مسجد بھی 79 شہر کے مرکزی مدرسہ اور مسجد میں جمعہ کے دن وعظ و نصیحت کے جلسے منعقد ہواکرتے تھے 80 ۔
459 ھجری قمری میں سلجوقی وزیرنظام الملک نے بغداد میں پہلا مدرسہ قائم کیا 81 ایرانیوں نے بھی چوتھی ھجری قمری کے بعد رائج علوم کی تعلیم کے لۓ مدارس قائم کۓ ان مدرسوں میں ابو حاتم بستی کے مدرسے کی طرف اشارہ کیا جاسکتاہے ،سلجوقیوں کے دور میں مدرسوں کی تعمیر کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ ان کے بعد آنے والے اتابک خاندان نے بھی یہ کام جاری رکھا ۔
نورالدین زنگی نے سب سے پہلے دمشق میں مدرسہ تعمیر کیا 82 ۔
ان مکانوں کے علاوہ کچھہ اور بھی مکان تھے جھان تعلیم و تربیت کا کام کیا جاتاتھا ان مقامات پر اسلامی سرزمینوں میں مدرسوں کے رواج سے قبل تعلیمی کام کیا جاتاتھا ۔
قرآن و دینی تعلیم کا مکتب خانہ :ڈاکٹر شلبی کا کہنا ہے کہ عالم اسلام میں دوطرح کے مکتب ہواکرتے تھے ،ایک مکتب وہ تھا جس میں بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتاتھا اور دوسرا مکتب وہ تھا جس میں قرآن اور دینی مسائل کی تعلیم دی جاتی تھی 83
GOLDZIHER نے بھی ان مکاتب کا ذکر کیا ہے 84 ۔
کتابوں کی دکانیں اور بازار : ،زمانہ جاھلیت کے بازاروں جیسے عکاظ ،مجنہ ،اور ذی المجازاور اسلامی زمانے کی کتابوں کی دکانوں میں کچھہ شباھتیں دیکھی جاتی سکتی ہیں تاھم جاھلی عرب اپنے بازاروں میں تجارت کی غرض سے جمع ہواکرتے تھے لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھاکرحماسی اشعار پڑھنےاور مناظرات کرنے کے علاوہ خطبے بھی دیا کرتے تھے ،ظہور اسلام کے بعد یہ بازار تدریجا تجارتی صورت سے خارج ہوکر علمی و ثقافتی گفتگو کے مرکز میں تبدیل ہوگۓ 85 ۔
ادبی مجالس :بظاہر بنی امیہ کے زمانے میں رائج ہوئیں اور بنی عباس کے زمانے میں عروج کو پہنچیں البتہ خلفاء راشدین کے زمانے میں ان کی داغ بیل ڈالی گئي تھی 86 ۔
علماء و دانشوروں کے گھر :عالم اسلام میں دانشوروں کا گھر ھمیشہ سے علمی بحث و مباحثہ کا مرکز رھا ہے اس کی ھزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں جوزجانی ابن سینا کے شاگرد کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں ہررات مجلس درس ومباحثہ سجتی تھی اور چونکہ ابن سینا دن کو شمس الدولہ کے پاس رھا کرتے تھے اس وجہ سے رات کو پڑھایا کرتے تھے 87/88 ۔
بادیہ :اسلامی فتوحات کے بعد عرب و عجم قوموں کا اختلاط وجود میں آیا جس کی بناپر عربی زبان میں کافی تبدیلیاں آئیں عجمی قوموں کے لۓ دینی فریضے انجام دینے کے لۓ عربی سیکھنا واجب تھا لیکن یہ لوگ صحیح طرح سے عربی بولنے پر قادر نہیں تھے لھذا عربی زبان گویا بگڑ گئي تھی 89اور بقول جاحظ کے ایک ایسی زبان وجود میں آئي جسے وہ مولدین یا بلدیین کی زبان کہتے ہیں 90 بنابريں لوگوں کو اگر خالص عربی سیکھنا ہوتی تھی تو وہ بادیہ نشینوں کے پاس جاکر عربی سیکھا کرتے تھے اور پہلی دوصدیوں میں بادیہ دور حاضر کے مدرسہ کا کردار ادا کرتاتھا 91
فلیپ ھٹی کہتے ہیں کہ شام کا صحرا بنی امیہ کے امرا کا مدرسہ تھا اور معاویہ اپنے بیٹے یزید کو اس صحرامیں بھیجا کرتاتھا92 ۔
کسائي نے جب خلیل ابن احمد سے سوال کیا کہ تم نے (زبان عرب کا ) علم کہاں حاصل کیاتو انہوں نے کہا کہ حجاز و نجد و تھامہ کے صحراوں میں 93 ۔
تعلیم و تربیت کے سلسلے میں مسلمانوں کی اھم ترین کتب
تعلیم و تربیت کا مسئلہ ہمیشہ سے انسان کے مد نطر رھا ہے اور انسان نے اس پر خاص توجہ کی ہے مسلمان علما و دانشوروں نے اس سلسلے میں ان گنت کتابیں تحریر کی ہیں مسلمانوں نے جس قدر تعلیم و تربیت پر کام کیا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو صدر اسلام سے لے کر اب تک علماو دانشوروں تعلیم و تربیت کے بارے میں گران قدر خدمات انجام دی ہیں یہان ہم اختصار سے بعض کتب کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔
"آداب المعلمین "یہ کتاب ابن سحنون نے لکھی ہے ابن سحنون متوفی 226 ھجری قمری انہوں نے اپنے والدسے نقل کرتے ہوے یہ کتاب لکھی ہے اس کا حجم نھایت کم ہے یہ کتاب تعلیم و تربیت اور بچون کو ادب سکھانے کے بارے میں ہے، نو فصلوں پر مشتمل ہے اور حسن حسنی عبدالوھاب نے اسے تونس میں شایع کروایا ہے 94 ۔
ابو نصر محمد بن اوزلغ ملقب بہ فارابی و معلم ثانی متوفی 331 ھجری قمری ،فارابی نے بچوں کو ادب سکھانے اور جوانوں کو اخلاق سے آراستہ کرنے کے بارےمیں کتاب لکھی ہے ،فارابی نے اپنی کتاب "آراء اھل المدینۃ الفاضلہ "اور خاص کر "السیاسۃ "میں بچوں کو تعلیم دینے اور ادب سکھانے کے بارے میں کافی مطالب نقل کۓ ہیں 95 ۔
کتاب قابسی :قابسی متوفی 403 ھجری قمری نے" الرسالة المفصلة لاحوال المعلمین والمتعلمین "تحریر کی ہے اس کتاب میں انہوں نے تربیت کے مسائل کا جائزہ لیا جا ہے اور ابن سحنون کے نظریات سے بھی استفادہ کیاہے 96 ۔
ابن مسکویہ کی کتب :احمد بن محمد بن یعقوب ،صاحب تھذیب الاخلاق و تطھیرالاعراق متوفی 421 ھجری قمری ،انہوں نے بھی تربیت و اخلاق پر کتابیں لکھی ہیں انہوں نے اپنی کتاب تھذیب الاخلاق میں یونان کےمنتخب اخلاقی و تربیتی اصولوں کو
اسلامی اصولوں کے ساتھ ملاکر پیش کیا ہے ،ایک فصل بچوں کو ادب سکھانے کے اصولوں سے مختص کی ہے ۔
ابن مسکویہ نے اپنی مشہورکتاب تجارب الامم و تعاقب الھمم میں تاریخ کا اخلاقی و تربیتی نقطہ نگاہ سے جائزہ لیا ہے ان کا مقصد تاریخ سے عبرت حاصل کرنا ہے ۔
رسائل اخوان الصفا وخلان الوفاء:اخوان کا خیال ہے کہ تعلیم و تربیت کا ھدف دین و شریعت کو سمجھنا ہے اور تعلیم میں محسوسات سے معقولات کی طرف سیر کرنی چاھیے 98 ۔
کتب ابن سینا ،متوفی 438 ھجری قمری ،شیخ الرئیس بو علی سینا نے اپنی کتاب "السیاسہ "میں تعلیم و تربیت کے بارے میں نھایت اھم معلومات فراھم کی ہیں اس باب میں وہ بچے کی دایہ کے انتخاب اسے قرآن کی تعلیم دینے ،مکتب میں تعلیم دلوانے نیز معلم کے انتخاب کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہیں 99 ۔
جامع بیان العلم و فضلہ یہ کتاب عبدالبر نے تحریر کی ہے ،ابو عمر یوسف بن عبدالبر نے اس کتاب میں علم کی ترغیب دلانے اور آداب علماء و متعلمین اور آداب مناظرہ و فتوی کے بارے میں اھم تفاصیل پیش کی ہیں اور آخر میں تقلید کے نقصانات کے سلسلے میں گفتگو کی ہے 100 ۔
احیاء علوم الدین :اس کتاب کے مولف ابو حامد بن محمد بن محمد المعروف بہ غزالی ہیں انہوں نے تعلیم وتربیت کے بارے میں کئی کتابیں اور رسائل تحریر کۓ ہیں فاتحۃ الکتاب ،میزان العمل ،اور الرسالۃ الدینیہ اس سلسلے میں ان کی اھم کتابیں ہیں غزالی کا نظریہ ہے کہ شریعت بچوں کی تعلیم و تربیت کی اساس ہے انہوں نےان کتابوں میں معلم و متعلم کے فرائض پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے 101 ۔
طراز الذھب فی آداب الطلب ،ادب الاملاء والاستملاء یہ کتابیں مرحوم سمعانی نے لکھی ہیں ان کی وفات 562 ھجری قمری میں ہوئي تھی ۔
آداب المتعلمین :یہ گرانقدر کتاب شیخ الطائفہ خواجہ نصیرالدین طوسی نے تحریر کی ہے (متوفی 675ھ ق)اس کتاب میں بارہ فصلیں ہیں جنمیں متعلمین کے آداب و فرائض بیان کۓ گۓ ہیں
خواجہ نصیرالدین طوسی نے ابن مسکویہ کی کتاب الطھارہ فی علم الاخلاق کا ترجمہ کیا ہے اور اس کا نام اخلاق ناصری رکھا ہے 103۔
تعلیم و تربیت کے بارے میں اسلامی علما کی آرا و نظریات
تاریخ اسلام میں تقریبا تمام علماء و دانشور مختلف علوم میں مھارت رکھنے کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت میں بھی صاحب نظر اور مھارت کے حامل ہوا کرتے تھے اس سے اسلام میں تعلیم وتربیت کی اھمیت کا پتہ چلتاہے لھذا ہم یہاں پر علمااسلام کی نظر میں تعلیم و تربیت کی اھمیت اجاگر کرنے کے لۓ ان کے بعض نظریات پیش کررہے ہیں ۔
ابن سینا :شیخ الرئيس تعلیم و تربیت کو بہت زیادہ اھمیت دیتے ہیں انہوں نے اپنی تین کتابوں رسالہ تدبیر المنازل قانون کی کتاب اول کے فن سوم اور کتاب شفا کے مقالہ اول میں تعلیم و تربیت کے بارے میں نظریات بیان کۓ ہیں 104 ابن سینا تعلیم و تربیت میں پانچ اصولوں کو نھایت اھمیت دیتے ہیں وہ اصول یہ ہیں ایمان ،اخلاق حسنہ ،تندرستی ،اور علم و ھنر ،ان کا خیال ہے کہ بچے کو چھٹے سال سے مکتب بھیجنا چاھیے اس کی تندرستی کے لۓ ورزش سے غفلت نہیں کرنی چاھیے اور کوئی نہ کوئي فن و حرفہ سکھانا چاھیے تاکہ وہ بڑا ہوکر اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے 105 ۔
ابن سینا کہتے ہیں کہ والدین پر لازم ہے کہ جب بچہ جوان ہوجاے اور صنعت وحرفت میں مھارت حاصل کرلے تو اس کی شادی کرديں اور اسے اپنے طرز پر زندگي گزارنے دیں ۔
ابن سینا کھتے ہیں کہ والدین کو خیال رکھنا چاھیے کہ ان کا بچہ اچھے لوگوں کے ساتھ معاشرت اختیار کرے تاکہ وہ بھی نیک اور قابل بنے 106 ۔
کیکاوس بن اسکندر ۔
کیکاوس بن اسکندر قابوس نامہ میں لکھتےہیں کہ والدین کو چاھیے کہ وہ بچون کا اچھا نام رکھیں اور انہیں عاقل و مھربان دایہ کے سپرد کریں ،قرآن و دین سکھانے کے بعد انہیں گھوڑسواری کے ساتھ ساتھ فن سپہ گری سے آراستہ کریں اور فنون بھی سکھائیں ۔
وہ لکھتے ہیں کہ بچے کے جوان ہونے کے بعد دیکھیں کہ اگر صالح ہوتو کسی کام میں لگاکر دوسرے خاندانوں سے اس کے لۓ رشتہ مانگیں تاکہ دوستی اور خویشاوندی میں اضافہ ہو لیکن اگر اس میں کسی طرح کی صلاحیت نہ ہو تو کسی مسلمان کی لڑکی کو مصیبت میں مبتلا نہ کریں کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے سے رنج وغم کے علاوہ کچھہ نہیں ملے گا، اسے چھوڑدیں تاکہ جیسے چاھے زندگی گزارے107 ۔
امام محمدغزالی
غزالی کھتے ہیں کہ بچہ ماں باپ کے ہاتھوں میں امانت ہے اس کا دل ودماغ پاک ہوتاہے وہ جوھر نفیس کی طرح تمام نقوش سے عاری بلکہ نقش پذیر ہوتاہے ،امام غزالی کہتے ہیں بچہ زمیں کی طرح پاک ہوتاہے اس میں جس چیزکا بیج ڈالاجاے وہ اگ آتاہے اسے کھانے پینے کے آداب سکھانے چاھیں تیز تیز نہ کھاے اور نہ زیادہ کھاے ،ھر بچہ جس کی تربیت نہ کی جاے وہ شریر دروغ گو اور چور و لجوج و بے باک ہوگا۔ امام غزالی کہتے ہیں بچے کو مکتب میں داخل کرانے کے بعد قرآن کی تعلیم دی جاے اور جب سات سال کا ہوجاے تو نمازو طھارت سکھائي جاے اسی طرح حلال و حرام کی تعلیم بھی شروع کی جاے 108 ۔
سعدی شیرازی
سعدی شیرازی نے آیات قرآنی اور روایات سے استفادہ کرتے ہوۓ انقطاع الی اللہ تربیت روح ،خود سازی ،قناعت و احسان و عدالت اور صلح و امن پسندی پر تاکید کی ہے اسی بناپر کہا جاسکتاہے کہ سعدی کی نظر مین دینی تربیت کی بہت زیادہ اھمیت ہے ۔
ابن خلدون ۔
ابن خلدون نے کتاب العبر میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لۓ نۓ نظریات پیش کۓ ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے "تعلیم انسانی زندگي کو تمام میدانوں میں منظم کرنے کے لۓ نھایت اھم ہے کیونکہ انسان قوہ فکریہ کی بناپر حیوانون سے ممتاز ہے اسی فکر کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے تعاون کرتاہے اور اپنا رزق تلاش کرتاہے ،یہی قوہ فکریہ اجتماعی زندگي میں ہرہر قدم پر اس کی رھنمائی کرتی ہے اور اسی کے سہارے انبیاء (ع) کی باتیں سمجھ میں آتی ہیں اور ان کی پیروی کی جاتی ہے ۔
ابن خلدون قرآن کو تعلیم کی اساس مانتے ہیں اور بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کو ضروری سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ حصول علم ایک تدریجی عمل ہے اور طالب علم کی صلاحیتوں کو مد نظر رکھنا چاھیے اور بے جاسختی نہیں کرنا چاھیے ۔
ابن خلدون کا خیال ہے کہ بعض معلمین طلبا کو نقصان پہنچاتے ہیں کیونکہ طلبا کی فھم و فراست کا خیال نہیں رکھتے ان کے خیال میں حصول علم کے لۓ سفر کرنا ضروری ہے اور وہ تحقیقی ،قابل عمل اور مفید روشوں کے ذریعے تعلیم دینے اور تربیت کرنے کے قائل ہیں ۔
نتیجہ ۔
تربیت کے معنی یہ ہیں کہ انسان ایسے مربی کے تحت کام کرے جس کا معین ھدف ہو وہ مھربان اور آکاہ ہو اور اس کے پروگرام کے مطابق تربیت حاصل کرکے کمال کی منزلوں کی طرف بڑھے اور درحقیقت اپناحقیقی مقام حاصل کرلے یعنی اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہوجاے ،البتہ اسلام دین تعلیم و تربیت ہے اور اس مقصد کے لۓ اسلام نے تمام وسائل و ذرایع مھیا کررکھے ہیں چنانچہ رسول اسلام (ص) معلم بھی ہیں اور مزکی بھی آپ (ص) اسوہ حسنہ اور حقیقی معنی میں انسان کامل ہیں ،اسلام کا فلسفہ تربیت انسان کو کمال پر پہنچانے کا قائل ہے اور یہ کمال قرب الھی کے سوا کچھہ بھی نہیں ہے اور اسلامی تربیتی روش بھی دینی اور اخلاقی اقدار کی نیز تقوی الھی کی پابندی ہے ۔
اسلامی تربیت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انسان کی تمام ضرورتوں خواہ وہ مادی ہوں یامعنوی جسمانی ہوں یا روحانی سب کا خیال رکھا گياہے اسی کے ساتھ نہ راہ افراط کو طے کرتاہے نہ راہ تفریط کو بلکہ میانہ روی اور متعادل روش پیش کرتاہے تاکہ انسان کی زندگی میں توازن قائم رہے اسی کے ساتھ ساتھ اسلام مناسب مقامات پر رواداری اور اغماض نظر کا بھی قائل ہے ،ان تعلیمات کے ساے میں مسلمانون نے صدر اسلام میں ایسی عظیم تھذیب وتمدن کی بنیاد رکھی تھی کہ جس نے تھوڑی سی مدت میں ساری دنیا کو مسخر کرلیا ،مسلمان اپنے دین کی پیروی کرکے ہر لحاظ سے دیگر قوموں سے آگے تھے بلکہ انہیں عالم انسانیت کامربی کہا جاے تو بے جانہ ہوگا یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ مسلمان قرآن و سنت کی پیروی کیاکرتے تھے دوسرے الفاظ میں ان کی اس کامیابی کا راز اسلامی تعلیم و تربیت تھی لیکن افسوس رفتہ رفتہ مسلمانون نے اپنے دین کو نظر انداز کرنا شروع کردیا اور اپنی عظیم ثقافت سے دور ہوتے گۓ جس کی وجہ سے دشمن ان پر غالب آگیا ،
آج کل مسلمانوں کے گھروں اور اسکولوں میں اسلامی تعلیم و تربیت کے اصول بھلادۓ گۓ ہیں ،مسجدوں میں تربیتی پہلو پھیکا پڑگیاہے اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں امتحانات میں پاس ہونے اور نمبروں کے لۓ پڑھائي ہوتی ہے اس سے کمال حاصل کرنا اب مقصود نہیں رھا ،ھم مسلمان یا تو اپنے دین کے تربیتی اصولوں سے واقف ہی نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو انہیں بروے کار نہیں لاتے درحقیقت مسلمان اسلام کے تربیتی اصولوں کو اب کوئی اھمیت ہی نہیں دیتا ۔
اگر عالم اسلام یہ چاھتا ہے کہ آج کی دنیا مین مغرب کی ھمہ گیر یلغار کے مقابلے اپنی ھویت کو محفوظ رکھے تو اسکے پاس اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔