خوارج کون تھے؟
- شائع
-
- مؤلف:
- آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
- ذرائع:
- اقتباس از شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام-- بشکریہ شیعہ اسٹیڈیز ڈاٹ کام
میں خوارج کے سلسلہ سے بہت زیادہ حساس ہوں،ماضی میں ان کے بارے میں کافی مطالعہ بھی کیا ہے انھیں خشک مقدس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لیکن تعبیر غلط ہے خوارج اس قسم کے لوگ نہیں ہیں اس لئے کہ جو خشک و مقدس مآب ہو گا وہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرے گا اسے کسی سے کیا لینا دینا، کہاں یہ اور کہاں خوارج؟ خوارج تو فسادی تھے، قتل و غارت کرتے تھے، شکم پارہ پارہ کرتے تھے اور چوری چکاری بھی ان کا ایک معمول کاکام تھا، آخر ان کے بارے میں یہ کیسے مشہور کر دیا ہے کہ خشک مقدس مآب تھے۔اگر وہ گوشہ نشین بھی ہوتے تو پھر امیرالمومنین علیہ السلام کو ان سے کیا مطلب ہوتا وہ تو انھیں ہاتھ بھی نہ لگاتے؟خوارج سے جنگ کے دوران میں عبداللہ بن مسعود کے ساتھیوں نے امیرالمومنین علیہ السلام سے کہا ’’لا لک ولا علیک‘‘ نہ تو اس جنگ میں آپکے ساتھ ہیں نہ آپکے خلاف،اب خدا جانے کہ خود عبداللہ بن مسعود بھی انہیں کہنے والوں میں سے ہیں یا نہیں مجھے کچھ ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ خود بھی اس قول میں شریک تھے اور امیرالمومنین علیہ السلام سے کہا اگر آپ کفار و اھل روم وغیرہ سے جنگ کرنے جائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ ہیں لیکن اگر آپ مسلمانوں ’’اھل بصرہ و اھل شام‘‘ سے لڑنے کے لیے جائیں گے تو پھر نہ ہم آپ کے ساتھ لڑیںگے نہ آپ کے خلاف جنگ کریں گے۔اب ذرا بتائیں امیرالمومنین علیہ السلام ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک انجام دیں؟
کیا امیرالمومنین علیہ السلام نے ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا؟ ھر گزنہیں، حتيٰ آپ ان کے ساتھ بد اخلاقی سے بھی پیش نہیں آئے۔ خود ان لوگوں نے آپ کے سامنے پیشکش کی کہ ہمیں سرحدوں کی پاسبانی کے لیے بھیج دیں،امیرالمومنین علیہ السلام نے قبول کر لیا اور ان کو سرحدوں کی نگہبانی پر لگا دیا، بعض کو خراسان کی طرف بھیج دیا یہی ربیع بن خثیم ،جو مشہد میں خواجہ ربیع سے شہرت رکھتے ہیں ،جیسا کہ نقل کرتے ہیں انھیں افراد میں سے ایک ہیں ۔امیرالمومنین علیہ السلام نے ان مقدس مآب لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ۔ یہ دراصل جھل مرکب کا شکار تھے یعنی ایک غلط دید کی بنائ پر دائرہ دین کو نہایت تنگ سمجھتے تھے اور پھر اس تنگ نظری کے ساتھ عمل بھی کرتے تھے اس راہ میں چوری بھی کرتے تھے قتل و غارت سے بھی انھیں دریغ نہیں تھا اور جنگ و جدال بھی کرتے تھے: البتہ جو ان کے سردار اور رئیس تھے وہ اپنے آپ کو پیچھے رکھتے تھے، اشعث بن قیس اور محمد بن اشعث جیسے لوگ ہمیشہ مورچے کے پیچھے پیچھے دکھائی دیتے تھے اور ان کے آگے آگے کچھ جاھل نادان ، ظاھر بین تھے جن کے ذہن غلط باتوں سے پرُ ہیں اور ان کے ہاتھ میں تلوار بھی تھی انھیں آگے آگے بڑھا دیا گیااور یہ لوگ آگے بڑھ بھی گئے وہ تلوار چلاتے تھے ، قتل کرتے تھے مارے بھی جاتے تھے ابن ملجم کے بارے میں کوئی خیال نہ کرے کہ یہ کوئی عقلمند آدمی تھا بلکہ یہ ایک احمق آدمی تھا جس کا ذہن امیرالمومنین علیہ السلام کے خلاف بھر دیا گیا تھا وہ کافر ہو گیا تھا اسے علی علیہ السلام کے قتل کے لیے کوفہ بھیجا گیا، اتفاقاً اس ماموریت کے ساتھ ایک عشقیہ حادثہ بھی پیش آگیا اور وہ اپنے اس ناپاک ارادے میں اور مصمّم ہو گیا یہاں تک کہ وہ خیانت انجام دی ۔ تو خوارج اس قسم کے لوگ تھے جو بعد میں بھی اسی طرح سے رہے۔
خوارج کے ایک فرد سے حجاج بن یوسف کا مناظرہ:
آپ جانتے ہیں کہ حجاج بن یوسف ایک نہایت سفاک، اور قسی القلب خونخوار حاکم تھا جس کے ظلم اور بربریت کی مثال نہیں ملتی شاید صدام حاکم عراق(جو اب معزول کر دیا گیا ہے) کی طرح تھا اتفاقاً وہ بھی عراق پر حکومت کر رہا تھا ! البتہ صدام کی ظالمانہ روش ترقی یافتہ ہے! اس کے پاس قتل و شکنجے کے جدید اسباب وسائل ہیں اور اس کے پاس نیزہ ، شمشیر تیغ و تیر جیسی چیزیں نہیں ،حجاج بن یوسف کے اندر کچھ خصوصیتیں بھی تھیں مثلاً اس کا شمارفصحائ و بلغائ میں ہوتا تھا کہ الحمداللہ موجودہ حکّام ان کمالات سے بھی عاری ہیں!۔
اُس نے منبر سے جو خطبے پڑھے ہیں جاحظ نے ’’البیان والتبین‘‘ میں اسے نقل کیا ہے، وہ حافظ قرآن تھا مگر ایک خبیث النفس انسان بھی تھا عدل و انصاف اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اھل بیت علیھم السلام کا دشمن بھی تھا ایک عجیب آدمی! انھی خوارج میں سے کسی ایک کو حجاج کے پاس لیکر آئے حجاج اس کے بارے میں پہلے سے جانتا تھا کہ وہ حافظ قرآن ہے لہذا اس سے سوال کیا:’’آجمعت القرآن‘‘ قرآن کو جمع کر رکھا ہے؟ اس کی مراد تھی کہ کیا قرآن کو اپنے ذھن میں یونہی جمع کر رکھا ہے، اگر آپ اس کے تیز و تند جوابات پر توجہ کریں تو آپ لوگوں کو اس کی طبیعت اور مزاج کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اس نے جواب دیا؛ ’’آصفرقاً کان فاجمعہ‘‘مگر قرآن پھیلاتھاکہ میں اسے جمع کرتا؟ جب کہ وہ (خارجی) اس کے مقصد سے واقف تھا مگر اسے جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔
حجاج اپنی تمام شدّت و قساوت کے باوجود اسے برداشت کر رہا تھا اور پھر کہا’’ آفتحفظہ‘‘ کیا قرآن حفظ کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا ’’آخثیتُ فرارہ کا حفظہ‘‘ کیا اس بات کا خوف تھا کہ وہ کہیں فرار نہ کر جائے جو اسے محفوظ کر لیتا؟ ایک اورجواب اسنے سنا! اسنے پوچھا’’ما تقول فی امیرالمومنین عبدالمالک‘‘ عبدالمالک بن مروان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے عبدالمالک بن مروان خبیث جو اموی خلیفہ تھا، اس خارجی نے کہا ’’لعنہ اللہ ولعنک معہ‘‘ خدا اس کے ساتھ تم پر بھی لعنت کرے! ذرا دیکھیں یہ وہ لوگ تھے جو بغیر کسی تکلف، بالکل صراحت کے ساتھ،شدت پسندی سے گفتگو کرتے تھے، حجاج غصہ دباکرکہتا ہے تو مارا جاے گا لہذا یہ بتاو کہ تم خدا سے کس حالت میں ملاقات کرو گے؟اس نے جواب دیا’’ القيٰ اللہ بعملی و تلقاہ انت بدمن‘‘ میں خدا سے اپنے اعمال کے ساتھ ملوںگا اور تو میرے خون کے ساتھ خدا سے ملاقات کرے گا ! آپ ذرا ملاحظہ تو کریں ، اس جیسے افراد کا مقابلہ کوئی آسان کام نہیں ہے اگر ایک عام آدمی انھیں دیکھے گا تو ان کا گرویدہ ہو جائیگا، ایک بے بصیرت اگر ان کے اعمال و افعال کو دیکھے تو پھر انھی کا ہو جائے گا، جیسا کہ خود حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں بھی ایسے اتفاقات ہوئے۔
جنگ نہروان:
ایک روایت کے مطابق، جنگ نہروان کے زمانے میں ایک دن امیرالمومنین علیہ السلام اپنے ایک صحابی کے ساتھ چہل قدمی کر رہے تھے، وہیں کہیں نہروان کے قریب، نیمہ شب میں تلاوت قرآن کی آواز سنائی دی، کوئی ایک درد ناک، آواز میں خوبصورت انداز سے قرآن پڑھ رہا تھا، جوصحابی امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ تھا کہنے لگا کاش میں اس کے بدن کا ایک بال ہوتا، کیونکہ سوائے بہشت کے اس شخص کا کوئی ٹھکانا ہو ہی نہیں سکتا، حضرت نے تقریباً اس جیسا جملہ ارشاد فرمایا تھوڑا صبر کرو اس قدر جلدی فیصلہ نہ کرو،اور یہ واقعہ گزر گیا یہاں تک کہ نہروان کی جنگ چھڑ گئی۔اس جنگ میں یہی، شدت پسند، بد زبان ،متعصب غصہ ور خارجی، ہاتھ میں تلوار لیے مسلح ہو کر امیرالمومنین علیہ السلام کے مقابلے میں آگیا،حضرت علیہ السلام نے فرمایا جو میدان سے چلا جائے یا اس علم کے نیچے پناہ لے لے گا میں اس سے جنگ نہیں کروںگا اور آپ کے اس اعلان پر کچھ آئے بھی لیکن تقریباً چار ہزار ٤٠٠٠ لوگ رہ گئے پھر آپ علیہ السلام نے اس جنگ میں ان تمام لوگوں کو تہہ تیغ کر دیا اور لشکرکے دس ١٠ لوگ ہی زندہ بچے بقیہ سب کے سب قتل ہو گئے، اس جنگ میں امیرالمومنین علیہ السلام فاتح قرار پائے جب کہ اس میں بہت سے مقتولین اہل کوفہ تھے یا کوفہ کے قرب وجوار کے رہنے والے تھے۔ وہی لوگ جو صفین و جمل میں حضرت کے ساتھ ہم رزم رہ چکے تھے اور اس کے بعد ان کے ذہن بھٹک گئے تھے زمین پر ان کے لاشے یونہی بکھرے ہوئے تھے اور حضرت ایک خاص کیفیت کے ساتھ ان کے درمیان میں قدم زنی فرما رہے تھے ، اس کے باوجودکہ وہ سب مر چکے تھے مگر حضرت ان سے،حکمت کی ایک تہہ اپنے اندر سموئے ہوئے گفتگو فرمارہے تھے اس کے بعد ایک مقتول کے قریب پہنچے اور فرمایا اسے ذرا پلٹو: آپ نے اسپر ایک نگاہ ڈالی اور اس صحابی سے کہ جو ایک شب ان کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا خطاب کر کے فرمایا! کیا تم اس مقتول کو پہچانتے ہو؟ اسنے کہا نہیں یا امیرالمومنین علیہ السلام !فرمایا! یہ وہی شخص ہے اس رات کو اسطرح دردناک انداز میں تلاوت قرآن کر رہا تھا اور تم تمنّا کر رہے تھے کہ کاش تم اس کے جسم کا ایک بال ہوتے ! وہ اس طرح سوزو گداز سے تلاوت قرآن کر رہاتھا مگر قرآن مجسم( علی علیہ السلام ) سے لڑنے کیلئے آیا تھا علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ایسے لوگوں سے جنگ کی اور انہیں قلع قمع کیا،البتہ خوارج مکمل طور پر قلع قمع نہیں ہوئے ۔اور ہمیشہ ایک محکوم اقلیت کی حیثیت سے باقی رہے۔وہ معاشرہ پر تو مسلط نہیں ہو سکے مگر ان کا مقصد اس سے کہیں زیادہ وسیع اور آگے کا تھا جو پورا نہیں ہو سکا۔
استقامت کے لیے بصیرت لازمی ہے:
میںہمیشہ سے تکرار کرتا رہا ہوں کہ اگر کوئی قوم حالات کا تجزئیہ و تحلیل کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تو وہ شکست کھا جائیگی، اصحاب امام حسن علیہ السلام تجزئیے کی صلاحیت سے محروم تھے وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ ماجرا کیا ہے اور ان کے ساتھ کیا چال چلی جا رہی ہے، (اسی طرح) اصحاب امیرالمومنین علیہ السلام بھی حالات کو نہیں سمجھتے تھے کہ جنہوں نے آپ کو خون دل پینے پر مجبور کیا ،وہ سب کے سب آپ کے دشمن نہیں تھے، لیکن اس میں سے بہت سے ایسے تھے جیسے خوارج، جو پوری طرح واقعات کو سمجھنے سے قاصر تھے ان کے اندر تجزیہ و تحلیل کی قوت مفقودتھی ایک بد جنس ایک ناکارہ شخص ادھر ادھر نکل آتا تھا اور لوگوں کو ایک طرف کھیچ لیتا تھا، سنگ میل کو کھو بیٹھتے تھے اور راستے سے بھٹک جاتے تھے، راستہ چلتے وقت ہمیشہ سنگ میل پر نظر رکھنی چاہیے اگر سنگ میل نظروں سے اوجھل ہو گیا تو یاد رکھیئے بہت جلد راستے سے بھی بھٹک جائیں گے۔
امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے ’’ولا یحمل هذا العلم الا اهل البصر و الصبرہ‘‘(١) سب سے پہلے بصیرت، ہوشمندی، ہوشیاری ، تجزئیہ وتحلیل اور فھم و درک کی صلاحیت حاصل کرنا پھر اس کے بعد صبرو استقامت سے کام لینا چاہیے جو واقعات پیش آرہے ہیں اس سے بہت جلد دل برداشتہ نہ ہو، حق کا راستہ بہت دشوار گذار راستہ ہے۔
دنیا کے سارے ظالمین اور طاقتور آئے اور کچھ نہ کچھ باطل کے لشکر میں انہوں نے اور اضافہ ہی کیا طول تاریخ اور ہمارے زمانے میں بھی سارے شیطان صفت انسان آئے اور اس باطل کے بند کو (جو امیرالمومنین علیہ السلام اور بندگان خدا کے راستہ میں حائل تھا)کواور قوت بخشی جب کہ حق انسانوں کے راستے میں حائل اس بند اور اس ٹیلے کو ہٹا دینا چاہتا ہے جو خود اپنی جگہ کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ ایک مشکل امر ہے جو صبر و تحمل کے ساتھ ساتھ سعہ صدر اور اپنی روحانی قوت کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ اپنے اندرونی چشمے کے ابلنے کا مطالبہ کرتا ہے، تاکہ انسان حق کی ڈگر پر چل سکے،البتہ راہ حق پر چلنے کی کوشش زندگی کو لذیذ بنا دیتی ہے، ایک ایسی زندگی جس میں ظلم و زیادتی، زور و زبردستی نہ ہو، کوئی چیز الگ سے اس پر تھوپی نہ جائے ایک ایسی زندگی جس میں انسان کے اعمال پر شیطان کا بسیرا نہ ہو، بلکہ اس کی زندگی روحانیت اورمعنویت سے لبریز ہو۔
-------------
١۔ نہج البلاغہ،خطبہ ١٧٣