شادی
پیغمبر اسلام (ص) کا ارشاد ھے : ” اے جوانو ! اگر شادی کرنے کی قدرت رکھتے ھو تو شادی کرو کیونکہ شادی آنکھ کو نا محرموں سے زیادہ محفوظ رکھتی ھے اور پاکدامنی و پرھیز گاری عطا کرتی ھے “(۱)
جوانی اور جذبات کا ظھور
بلوغ کی بھار اور جوانی کے پھول کھلنے کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کے ذھن میں جنس مخالف کی طرف ایک پر اسرار کشش محسوس ھوتی ھے۔ جیسے جیسے قوتیں ظاھر ھوتی رھتی ھیں ویسے ویسے یہ کشش طاقتور ھوتی جاتی ھے اور آخر میں شدید تقاضے کی صورت اختیار کر لیتی ھے ۔ یہ وھی فطری تقاضا ھے جس کو جنسی کشش کے نام سے یاد کیا جاتا ھے ۔
جسم و روح پر جنسی کشش کا اثر یہ جاننا چاھئیے کہ :
(۱) یہ کشش صرف لذت کے لئے نھیں ھے بلکہ خدا وند عالم نے اپنی حکمت کی بنا پر اس کو بقائے نسل کا ذریعہ قرار دیا ھے۔ اگر یہ کشش انسان میں نہ ھوتی تو وہ ھرگز شادی کے لئے تیار نہ ھوتا جس کی بنا پر نسل انسانی نیست و نابود ھو جاتی ۔یھی کشش مرد و عورت کو اس بات پرآمادہ کرتی ھے کہ وہ شادی کی زحمتوں کو برداشت کریں اور ذمہ داریاں قبول کریں ۔
(۲) جنسی کشش ایک فطری تقاضا ھے اگر صحیح طور سے اس کا جواب نہ دیا جائے تو ھو سکتا ھے کہ جسم اور روح پر منفی اثرات مرتب ھوں اور انسان کو اعتدال کی حد سے خارج کر دیں ۔ خاص کر اس زمانے میں جبکہ ھر طرف سے ایسے وسائل مھیہ کئے جا رھے ھیں جن سے اس کشش کو بڑھا و امل رھا ھے اور روز بروز اس میں اضافہ ھوتا چلا جارھا ھے ۔
اس کشش کی اھمیت کو پیش نظر رکھتے ھوئے ضروری ھے کہ ھم صحیح راستے کا انتخاب کریں تاکہ انسان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارتقائی منزلیں طے کر سکے ۔یہ بات مسلم ھے کہ اس فطری تقاضے سے صرف نظر نھیں کیا جا سکتا اور نہ اس سلسلہ میں بے توجھی برتی جا سکتی ھے اور اسی کے ساتھ ساتھ اس کو مکمل آزادی بھی نھیں دی جا سکتی کیونکہ اس صورت میں فرد اور معاشرہ دونوں ھی راہ سے منحرف ھو جائیں گے اور اخلاقی لحاظ سے نھایت پست ھو جائیں گے ۔ اس فطری تقاضے کا صحیح جواب شادی ھے ۔
بعض لوگوں کا خیال غلط ھے کہ اس کشش کو بالکل دبا دیا جائے اور ھمیشہ کنوارا رھا جائے ان لوگوں کے نزدیک کنوارا رھنا فضیلت کی بات ھے ۔
اسلام نے اس خیال کو پسند نھیں کیا ھے بلکہ مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا ھے کہ وہ شادی کے سائے میں اس فطری تقاضے کو پورا کریں ۔ اولاد کی تربیت اور رونما ھونے والی مشکلات کو برداشت کرتے ھوئے اپنی روحانی اور معنوی منازل کی تکمیل کریں۔ اسی بنا پر اسلام نے شادی سے فرار اور کنوارارھنے کو اچھا نھیں سمجھا ھے بلکہ شادی کو لازم اور مستحب قرار دیا ھے ۔(۲)
اس بنا پر عیسائیت کا یہ نظریہ کہ شادی نہ کرنا فضیلت کی بات ھے قرآن اور اسلام کی نظر میں کوئی اھمیت نھیں رکھتا ۔
کیتھولک فرقے میں ایک ایسا ” دینی گروہ “ ھے جو بخیال خود تقویٰ اور پاکیزگی کی منزلوں تک پھونچنے کے لئے جنسی لذت سے کنارہ کش رھتا ھے ۔
مغربی گرجاگھروں میں پادری مرد و عورت کنوارے رھنے کی نذر کرتے ھیں۔ مغربی گر جا گھر وں میں تقریباً انھیں لوگوں کو پادری منتخب کیا جاتا ھے جو کنوارے ھوں اور اس منصب پر پھونچنے کے بعد انھیں یہ حق نھیںھے کہ وہ شادی کر لیں اور اگر پھلے سے شادی شدہ ھیں تو زوجہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی نھیں کر سکتے ۔یہ افراد کس حد تک کنوارے رھتے ھیں اور تقویٰ و پرھیزگاری کی کس منزل پر فائز ھیں اور اس گروہ نے کیا کیا تباھی اور گندگی پھیلائی ھے یہ وہ موضوع ھے جس کو بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے اور اس وقت ھماری بحث سے خارج بھی ھے ۔
ھم تو اتنا کھنا چاھتے ھیں کہ دین اسلام خدا ترسی اور تقویٰ و پرھیز گاری کی عظیم منزل پر فائز ھونے کے لئے با شرائط، شادی کو رکاوٹ نھیں تصور کرتا بلکہ اسلام یہ چاھتا ھے کہ مسلمان شادی کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے ھوئے روحانی اور معنوی فضیلتوں کو حاصل کرے ۔
تسکین خواھشات اور شدت پسند افراد
فرایڈ اور اس کے ھم فکروں نے اس سلسلے میں افراط کا راستہ اختیار کیا ھے اور اس سلسلے میں سماج کے لئے مکمل آزادی جس میں کوئی قید و شرط نہ ھو کو تجویز کیا ھے ۔ یہ لوگ یا تو اس حقیقت سے ناواقف ھیں کہ افراط کی صورت میں یہ جنسی کشش کیا کیا بر بادی اور تباھی پھیلاتی ھے یا یہ لوگ جان بوجہ کر قوموں کو زھردلوانے اور جوانوں کو تباہ و برباد کرنے کا منصوبہ بنا رھے ھیں ۔
صیھونی رھبروں نے عالمی یھودی سیاست کی تفصیل کے سلسلے میں یہ تصریح کی ھے :
” ھم پرلازم ھے کہ جھاں تک ھو سکے اخلاقیات کو برباد کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ قدرت حاصل کی جا سکے ۔ فرایڈھم میں سے ھے وہ برابر جنسی مطالب کی نشر و اشاعت کر رھا ھے تاکہ جوانوں کی نظر میں کسی چیز کا تقدس باقی نہ رہ جائے ان کو بس ایک ھی فکر ھو کہ کسی طرح اپنی جنسی خواھش کو پورا کیا جائے اور آخر کار اپنی انسانیت سے ھاتہ دھو بیٹھیں “ (۳)
جو لوگ فرایڈ کی پیروی کرتے ھیں ان کا یہ خیال درست نھیں ھے کہ جنسی کشش کو کھلی آزادی دینے سے اس کشش کو قابو میں رکھا جا سکتا ھے ۔ ان لوگوں نے صرف اتنا دیکھا ھے کہ اس کشش پر بے جا پابندیوں سے خراب نتائج بر آمد ھوتے ھیں لھذا اس سلسلے میں اس بات کے قائل ھیں کہ جنسی کشش کے سلسلے میں عورت اور مرد کو کھلی چھوٹ دے دینا چاھئے لیکن یہ لوگ اس حقیقت کی طرف متوجہ نھیں ھیں کہ جس طرح بے جا پابندیوں سے خراب نتائج بر آمد ھوتے ھیں اسی طرح کھلی چھوٹ خطرناک نتائج کا پیش خیمہ بن سکتی ھے اور یہ ایسی حقیقت ھے جس کو اس وقت کے مغربی و مشرقی ممالک کے معاشرہ میں باقاعدہ دیکھا جا سکتا ھے ۔
کبھی ایسا بھی ھوتا ھے کہ وہ افراد جو بے قید و شرط آزادی کے خواھاں ھیں جب ان کی ساری خواھشیں پوری نھیں ھوتی ھیں تو ان پر اس کا الٹا اثر ھوتا ھے اور ان کے دل کینہ و کدورت سے بھر جاتے ھیں اگر اس فطری تقاضے کو قابو میں رکھنا چاھتے ھیں اور اسے صحیح طور سے حاصل کرنا چاھتے ھیں تو ضروری ھے کہ اس کو کھلی آزادی نہ دی جائے اور اس کو افراط کی حدود سے محفوظ رکھا جائے ۔
تسکین خواھشات اور اسلام
دین اسلام نے واقعی ، فطری ، انفرادی ، اجتماعی ․․․․․․․تمام ضرورتوں اور مصلحتوں کو پیش نظر رکھتے ھوئے جنسی تسکین کے لئے راستہ معین کیا ھے جس میں بے جا پابندیوں کے نہ خراب اثرات ھیں اور نہ بے قید و شرط آزادی کے تباہ کن نتائج ۔
اسلام نے ایک طرف غیر شادی شدہ رھنے اور معاشرہ سے کنارہ کش رھنے سے منع کیا ھے اور دوسری طرف جنسی تسکین کے لئے شادی کی ترغیب دلائی ھے اور جھاں جنسی کشش کی سر کشی کا خطرہ ھو وھاں شادی کو واجب قرار دیا ھے ۔
غیر شادی شدہ رھنا
اسلام نے تنھا اور غیر شادی شدہ رھنے کو اچھا نھیں سمجھا ھے بلکہ اس کی سخت مذمت کی ھے حضرت رسول (ص) خدا کا ارشاد ھے :
” میری امت کے بھترین لوگ شادی شدہ ھیں اور وہ لوگ برے ھیں جو شادی شدہ نھیں ھیں “ (۴)
عبد اللہ ابن مسعود کا بیان ھے کہ ایک جنگ میں ھم لوگ حضرت رسول خدا(ص) کے ھمرکاب تھے چونکہ ھماری بیویاں ھمارے ساتھ نھیں تھیں ، ھم لوگ سختی سے دن گزار رھے تھے ۔ ھم لوگوں نے آنحضرت سے دریافت کیا ، کیا جائز ھے کہ ھم لوگ اپنی جنسی خواھشات کو بالکل نابود کردیں ؟ حضرت نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ۔(۵)
اسلام اور رھبانیت
رھبانیت ( دنیا اور اس کی لذتوں کو ترک کر دینا ) کی اسلام میں مذمت کی گئی ھے مسلمانوں کو اس سے دور رھنا چاھئے ۔ پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا :
” لیس فی امتی رهبانیة “ ” میری امت میں رھبانیت نھیں ھے “(۶)
آنحضرت کو جب یہ معلوم ھوا کہ آپ کے ایک صحابی ” عثمان بن مظعون “ نے دنیا سے منہ پھیر لیا ھے بیوی بچوں سے کنارہ کش ھو گئے ھیں ، دن روزے میں رات عبادت میں بسر کرتے ھیں ، آنحضرت کو ناگوار گزرا۔ناگواری کے عالم میں گھر سے باھر تشریف لائے اور عثمان بن مظعون کے پاس گئے اور فرمایا :
” خدا وند عالم نے مجھے رھبانیت کے لئے نھیں بھیجا ھے بلکہ مجھے ایسے دین کے ساتھ مبعوث کیا ھے جو معتدل ھے، آسان ھے جس میں دشواریاں نھیں ھیں ۔ میںبھی روزہ رکھتا ھوں ، نمازیں پڑھتا ھوں اور اپنی ازواج سے نزدیکی کرتا ھوں جو شخص میرے فطری دین کو دوست رکھتا ھے اس کو چاھئے کہ وہ میری سنت اور روش کی پیروی کرے اور شادی کرنا میری سنتوں میں سے ایک ھے “(۷)
اسلام اور شادی
اسلامی روایات میں شادی کی بھت ترغیب دلائی گئی ھے ۔
” خدا وند عالم کی منجملہ نشانیوں میں ایک نشانی یہ ھے کہ اس نے تم ھی سے تمھارا ھمسفر قرار دیا تاکہ تم اس کے ذریعہ سکون دل حاصل کرو اور تمھارے درمیان مھر ومحبت قرار دی “ (۸)
قرآن کریم کی نظر میں شادی کوئی کثافت اور آلودگی نھیں ھے بلکہ شادی سکون دل کا ذریعہ ھے مھر و محبت کا سبب ھے شادی کی تسکین کو وہ لوگ زیادہ محسوس کر سکتے ھیں جنھوں نے تنھائی کی سختیاں برداشت کی ھوں اور کنواری زندگی کے تلاطم کو محسوس کیا ھو ۔
پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا :
” اے جوانو ! اگر شادی کرنے کی صلاحیت رکھتے ھو تو ضرور شادی کرو کیونکہ شادی آنکہ کو نا محرموں سے زیادہ محفوظ رکھتی ھے اور پاکدامنی و پرھیز گاری عطا کرتی ھے“(۹)
آنحضرت نے یہ بھی ارشاد فرمایا :
” جس نے شادی کی اس نے اپنا نصف دین محفوظ کر لیا “(۱۰)
اگر شادی کے ذریعہ جنسی کشش کو رام کر لیا گیا تو متلاطم روح کو سکون مل جائے گا اور زندگی کے حقائق بھتر طریقے سے درک کئے جا سکیں گے ۔دین اور اپنی سعادت کی طرف قدم بڑہ سکیںگے ۔ اس مقصد کے حصول کےلئے ھرایک پر لازم ھے کہ وہ شادی کے شرائط اور وسائل فراھم کرے تاکہ جوانی کے طرب و نشاط سے لطف اندوز ھو کے کامیابیوں کی آغوش میں مھر و محبت کے پھول سونگہ سکے تاکہ جوانی کی بھاروں میں ابر رحمت ٹوٹ کر برسے اور اس کے دامن کردار کو گناہ کی کثافتیں آلودہ نہ کر سکیں اور اس کی زندگی رنج وغم کی تاریکیوں میں بھٹکنے نہ پائے ۔ آنکھیں آوارگی کی کثافتوں میں ملوث نہ ھونے پائیں ۔ اس کی پاکیزگی مجروح نہ ھو اور نیکیاں برائیوں میں تبدیل نہ ھوں ۔
شادی کی مشکلات اور ان کا حل
۱۹۶۳ءء میں صرف ایک سال میں امریکہ میں ڈھائی لاکہ غیر قانونی بچے پیدا ھوئے ۔(۱۱)
امریکہ میں اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۶۹ءء میں اسکول کی اکثر لڑکیاں عفت سے ھاتہ دھو چکی تھیں اور بے پناہ آزاد ھو گئی تھیں ۔(۱۲)
جرمنی میں پچاس لاکہ لڑکیوں نے صرف اس بنا پر خود کشی کی کوشش کی کہ ان کو کوئی شوھر نھیں مل سکا تھا ۔(۱۳)
اس طرح کے واقعات ( جس سے ھندوستان بھی محفوظ نھیں ھے اخبارات ھر روز اس طرح کی خبروں سے بھرے ھوتے ھیں ) اس بات کی سند ھیں کہ مغربی تھذیب و تمدن کس قدر پست ھے اور بے عفتی ، بے پناہ آزادی ، بے حیائی ، اخلاقی گراوٹ وغیرہ سب اسی تمدن کے نتائج ھیں ۔
یہ بات واضح ھے کہ شادی کی راہ میں جو رکاوٹیں ھیں اگر ان کو بر طرف کر دیا جائے اور لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کے وسائل جلد فراھم کر دیئے جائیں تو اس طرح کے شرم آورواقعات میں کافی حد تک کمی ھو جائے گی ۔ اس سلسلہ میں مغربی دانشور بھی متفکر نظر آتے ھیں ،انھوں نے یہ درک کر لیا ھے کہ اس سلسلہ میں صحیح راستہ وھی ھے جو اسلام نے پیش کیا ھے ۔
ویل ڈورانٹ کا کھنا ھے : ” اگر ایسی صورت نکل آئے کہ شادیاں فطری عمر میں ھو جائیں تو فحشاء ، خطرناک بیماریاں ، بے نتیجہ تنھائیاں ، انحرافات وغیرہ جنھوں نے زندگی کو داغدار کر دیا ھے نصف حد تک کم واقع ھو سکتے ھیں۔(۱۴)
شادی کی مشکلات
اقتصادی مشکل آج کی دنیا میں جنسی بلوغ اور اقتصادی بلوغ میں کافی فاصلہ ھے اسی بنا پر جوانوں کو شادی سے وحشت ھوتی ھے اور شادی ھوّا معلوم ھوتی ھے اقتصادی مشکلات جوانوں کو اس بات پر مجبو ر کرتی ھیں کہ وہ جلدی شادی نہ کریں جس کی بنا پر شھوت کے شعلے بھڑکنے لگتے ھیں اور فساد کا میدان ھموار ھونے لگتا ھے ۔
اس بنا پر جوانوں کو چاھئے کہ وہ زندگی میں اپنی توقعات ذرا کم کریں انھیں یہ سمجھنا چاھئے کہ ابتدائے جوانی میں کسی کی بھی ساری ضرورتیں پوری نھیں ھوتی ھیں ۔ زندگی کی حقیقت پر نظر رکھتے ھوئے بے جا تکلفات سے اپنے کو آزاد کرائیں اور دوسروں کی دیکھا دیکھی اندھی تقلید سے باز رھیں ۔ جب انھیں یہ احساس ھو جائے کہ زندگی کی بنیادی ضرورتیں اور شرائط موجود ھیں تو شادی کے لئے اقدام کردینا چاھئے ۔
قرآن کریم کا ارشاد ھے :
” غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کے وسائل فراھم کرو ۔ اگر وہ تنگ دست ھوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے ان کو غنی کر دے گا “(۱۵)
شادی کے اخراجات
دوسری مشکل یہ ھے کہ شادی کے اخراجات میں روز بروز اضافہ ھوتا جا رھا ھے ۔ والدین اور سر پرستوں کی توقعات بڑھتی جا رھی ھیں ۔ رسم و رواج اور تکلفات اتنے زیادہ مھنگے ھو گئے ھیں کہ جوان شادی سے گھبراتے ھیں۔ان غلط رسم و رواج اور بے جا تکلفات کا ذمہ دار کون ھے ؟
مناسب ھے کہ لڑکیاں اور ان کے والدین حضرت رسول خدا(ص) کا یہ پیغام غور سے سنیں ۔ اس کی پیروی کرتے ھوئے حقائق کو سمجھیں اور ھوا و ھوس سے دور رھیں ۔
آنحضرت کا ارشاد ھے :
” اگر کوئی ( خواستگار ی ) کے لئے تمھارے پاس آئے اور تم اس کے اخلاق اور دین سے راضی ھو( اس کو پسند کرتے ھو ) تو اس سے شادی کرلو ۔ اور اگر انکار کرو گے تو زمین میں عظیم فتنہ و فساد برپا ھو جائے گا “ (۱۶)
آنحضرت نے یہ بھی ارشاد فرمایا :
” میری امت کی بھترین عورتیں وہ ھیں جو خوبصورت ھوں اور جن کا مھر کم ھو “ (۱۷)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
” وہ عورت با برکت ھے جو کم خرچ ھو “ (۱۸)
کفو
بے جا توقعات کی ایک وجہ ” کفو “ کے صحیح مفھوم سے نا واقفیت ھے بھت سے لوگ بھت ساری چیزوں کو اپنی شان کی خصوصیت سمجھتے ھیں جن کی حیثیت تکلفات سے زیادہ نھیں ھے وہ کھتے ھیں کہ ھم اپنی لڑکی کی شادی کس طرح کریں ابھی تک ھمیں کوئی آئیڈیل لڑکا نھیں مل سکا یعنی مالدار ھو ، بڑا خاندان ھو ،زندگی کے جملہ وسائل فراھم ھوں ۔
بعض افراد اس طرح کے قیود سے عاجز آچکے ھیں اور معاشرہ کو قصور وار قرار دیتے ھیں اور وہ خود اس بات سے غافل ھیں کہ اس طرح کا سماج خود انھیں نے تشکیل دیا ھے ۔
اسلام میں کفو کا مطلب مال و دولت ، جاہ و منصب اور مادیت کی برابری نھیں ھے بلکہ اگر وہ افراد دینی اور اخلاقی اعتبار سے برابر ھیں تو وہ ایک دوسرے کے کفو ھیں ۔
” جویبر “ یمامہ کے رھنے والے تھے مدینہ میں رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ھوئے اور اسلام قبول کیا ۔ کوتاہ قد تھے ۔ محتاج و برھنہ تھے اور کسی قدر کریہ المنظر تھے ۔ پیغمبر اسلام آپ کو کافی تسلی دیتے تھے اور آنحضرت کے حکم کے مطابق جویبررات کو مسجد میں سوتے تھے ۔
اور اس طرح رفتہ رفتہ ان مھاجروں اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ ھو گیا جن کا ٹھکانہ بس مسجد تھی ۔
پیغمبر اسلام پر وحی نازل ھوئی کہ ان لوگوں کو مسجد کے باھر جگہ دی جائے ۔ رسول خدا (ص) نے خدا کے حکم پر عمل کرتے ھوئے حکم دیا کہ پناہ گزینوں کے لئے ایک الگ جگہ معین کی جائے بعد میں اس جگہ کا نام ” صفّہ “ قرار پایا ۔ جو لوگ وھاں رھتے تھے ان کو اسی مناسبت سے اصحاب صفہ کھا جاتا تھا ۔
ایک دن پیغمبر اسلام نے شفقت بھری نگاہ سے جویبر کو دیکھا اور شادی کرنے کی پیش کش کی ۔
جویبر نے کھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! کون لڑکی مجہ سے شادی کرنے پر تیار ھو گی خدا کی قسم میرا نہ کوئی حسب و نسب ھے نہ دولت ھے اور خوبصورت بھی تو نھیں ھوں ۔
پیغمبر اسلام نے فرمایا : اسلام نے جاھلیت کی رسموں کو ختم کر دیا ھے وہ لوگ جو اس زمانے میں پست تھے اسلام لانے کے بعد با عزت ھو گئے وہ لوگ جو جاھلیت میں( دولت ، ثروت ، جاہ و منصب کی بنا پر )اپنے کو با عزت سمجھتے تھے آج وہ ( احکام خدا کی نافرمانی کرنے کی بنا پر ) اسلام کی نگاہ میں ذلیل ھو گئے ھیں ۔
جویبر! تمام انسان، گورے کالے ،عرب عجم سب فرزند آدم ھیں اور خدا نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا ، قیامت میں وھی شخص سب سے بھتر ھے جو سب سے زیادہ احکام الٰھی کی پیروی کرنے والا اور پرھیز گار ھو ۔ اس بنا پر کسی بھی انسان کو تم پر فوقیت حاصل نھیں ھے مگر تقویٰ اور پرھیز گاری کی بنیاد پر ۔
اسکے بعد فرمایا : زیاد بن بشیر اپنے قبیلہ کی محترم شخصیت ھے اس کے پاس جاؤ اور کھو رسول خدا(ص) نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ھے تاکہ آپ سے آپ کی بیٹی ” ذلفا“ کی خواستگاری کروں ۔
پیغمبر اسلام کے حکم کے مطابق جویبر زیاد بن بشیر کے گھر گئے اجازت طلب کی ، داخل ھوئے اور پیغمبر کا پیغام پھونچایا ۔
زیاد نے تعجب سے پوچھا کیا پیغمبر اسلام نے تمھیںبس اسی کام سے بھیجا ھے ۔
جویبر نے کھا : ھاں میں رسول خدا (ص) کی طرف غلط نسبت نھیں دونگا ۔
زیاد نے کھا : ھم اپنی لڑکیوں کی شادی صرف انھیں سے کرتے ھیں جو ھمارے برابر ھوں اور انصار سے ھوں تم جاؤ۔ میں خود رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ھو کر معذرت کر لوں گا ۔
جویبر یہ کھتے ھوئے واپس چلے آئے کہ آپ کا یہ طریقہ قرآن اور حدیث پیغمبر کے مطابق نھیں ھے ۔
زیاد کی بیٹی ذلفا کنارے کھڑی جویبر کی گفتگو سن رھی تھی اس نے باپ کو بلایا اور دریافت کیا آپ نے جویبر کو کیا جواب دیا ؟
زیاد نے کھا : جویبر تمھاری خواستگاری کے لئے آیا تھا اور کھہ رھا تھاکہ پیغمبر اسلام کے حکم کے مطابق تمھاری شادی اس کے ساتھ کر دوں ۔
ذلفا نے کھا کہ اس کو جلدی واپس بلائیے خدا کی قسم وہ پیغمبر کی طرف غلط نسبت نھیں دے سکتا۔
زیاد نے جویبر کو واپس بلایا اور خود پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ھوئے اور کھا میرے والدین آپ پر قربان ۔ آپ کی جانب سے جویبر اس طرح کا پیغام لایا تھا آپ تو جانتے ھی ھیں کہ ھم اپنی لڑکیوں کی شادی اپنے برابر والوں کے علاوہ کسی اور سے نھیں کرتے ۔
پیغمبر اسلام نے فرمایا :
جویبرمومن ھے اور مرد مومن زن مومنہ کا کفو ھے اور مسلمان مرد مسلمان عورت کا کفو ھے :” المومن کفو للمومنة و المسلم کفو للمسلمة “ جویبر کو اپنا داماد بنا لو اور اس کو اپنے سے دور کرنے کے لئے بھانہ مت تلاش کرو ۔
زیاد واپس ھوئے جو باتیں رسول خدا (ص) سے ھوئی تھیں ذلفا سے بیان کر دی ۔
ذلفا نے نھایت ایمان و اطمینان سے اپنے والد سے کھا رسول خدا (ص) کے حکم پر عمل کیجئے اگر آپ نا فرمانی کریں گے تو کافر ھو جائیں گے ۔
زیاد نے دیکھا کہ اس کی بیٹی اس شادی پر راضی ھے ۔ جویبر کو اپنے رشتہ داروں کے درمیان بلایا اور ذلفا سے شادی کر دی ۔ چونکہ جویبر کے پاس گھر نھیں تھا لھذا ایک گھر بھی دیا تاکہ جویبر اور ذلفا آسانی کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کر سکیں “ (۱۹)
یہ بات بھی قابل توجہ ھے یہ لوگ جو تحصیل علوم کی طولانی مدت کو شادی کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتے ھیں وہ اشتباہ کرتے ھیں کیونکہ شادی صرف تحصیل علوم کو متاثر نھیں کرتی بلکہ شادی کے بعد وہ سکون ملتا ھے کہ جس کی بنا پر مزید ذوق و شوق سے بڑھائی کی جا سکتی ھے ۔ جو لوگ یہ کھتے ھیں کہ جب تک جوان ڈگری حاصل نہ کر لے ،اس کی مالی حیثیت درست نہ ھو جائے اس وقت تک شادی نھیں کرنا چاھئے یہ نظریہ بالکل بے بنیاد ھے ۔ کیونکہ یہ بات بیان کی جا چکی ھے کہ اقتصادی پریشانی زیادہ تر غلط رسم و رواج کی بنا پر ھے ۔ اگر گھرانے اسلامی قوانین پر عمل کرنے لگیں اور اپنی توقعات کم کر دیں، خرافات اور اندھی تقلید سے دست بردار ھو جائیں تو وہ شادی جو ایک ھیولیٰ بنی ھوئی ھے اور خطرناک نظر آتی ھے نھایت آسان ھو جائے گی ۔
دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ھے کہ اگر طالب علم اپنی توقعات کم کریں اور واقعی ضرورتوں کو خیالی ضرورتوں سے جدا کریں اور لڑکی کے والدین اسلامی احکام سے واقفیت کی بنا پر غلط رسم و رواج سے دست بردار ھو جائیں تو طالب علم کی شادی کے لئے راہ خود بخود ھموار ھو جائے گی اور آسانی سے شادی ھو سکے گی ۔
رسم و رواج سے پاک شادی
ایک راستہ یہ بھی ھے کہ دوران تعلیم عقد کر لیں اور تعلیم کی تکمیل کے بعد بقیہ مراسم انجام دیں تاکہ اس مدت میں جنسی کشش کی طغیانیوں سے محفوظ رھیں ۔
موقّت شادی
وہ لوگ جو مستقل طور سے شادی نھیں کر سکتے اور نہ صرف عقد پر اکتفا کر سکتے ھیں ان کے لئے اسلام نے وقتی شادی ( متعہ ) رکھا ھے ۔
جوانوں کی عفت کو باقی اور ان کی پرھیز گاری کو بر قرار رکھنے کے لئے اسلام نے ایک اور آسان شادی پیش کی ھے جس کو متعہ کھا جاتا ھے جس میں مدت معین کی جاتی ھے ۔ اس شادی سے انسان اخلاقی گراوٹ سے محفوظ رہ سکتا ھے ۔
حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے:
” اگر عمر متعہ کو حرام نہ کرتے تو نھایت درجہ بد بخت کے علاوہ کوئی اور بد کاری نہ کرتا “ (۲۰)
مغربی دنیا کے وہ دانشور حضرات جو اپنے سماج کی بربادی سے متاثر ھیں اور رنجیدہ و غمگین ھیںوہ بھی اسلام کے اس قانون کو تسلیم کر تے ھیں ۔
برٹرانڈرسل ، جوانی کے زمانے کی جنسی مشکلات کی تحقیق کرنے کے بعد لکھتا ھے :” اس مشکل کا صحیح حل یہ ھے کہ شھری قوانین میں عمر کے اس حساس حصہ کے لئے وقتی شادی کو جگہ دی جائے جس میں عائلی زندگی کی طرح اخراجات کا بار نہ ھو تاکہ جوانوں کو مختلف غیر قانونی اور نا جائز کاموں سے روکا جا سکے اور طرح طرح کی روحانی و جسمانی بیماریوں سے بچایا جا سکے “
جوان لڑکے ۔لڑکیوں کو چاھئے کہ شادی سے پھلے ھوشیار اور بیدار رھیں تاکہ یہ جنسی کشش ان کی آزادی اور اختیار کو سلب کر کے انھیں خواھشات کا غلام نہ بنا دے ۔
جوانوں کو پھلے اس بات کی کوشش کرنا چاھئے کہ خدا کی ذات سے مدد حاصل کرتے ھوئے تقویٰ اور پرھیز گاری کو مستحکم کریں کیونکہ پاکدامنی کے لئے باطنی تقویٰ نھایت ضروری ھے کیونکہ اگر جوان میں تقویٰ کی طاقت نہ ھو گی تو شادی کے بعد بھی شیطانی خواھشات اس کو منحرف کر دے گی اور اس کے دامن کردار کو داغدار کر دے گی ۔
مولائے کائنات حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ھے :
” قبل اس کے کہ نفسانی خواھشات قوی ھوں ان پر غالب آجاؤ کیونکہ اگر وہ طاقتور ھو گئیں تو تم پرحکومت کریں گی اور تم کو پستیوں تک کھینچ لے جائیں گی پھر تم میں ان کے مقابلہ کی طاقت باقی نھیں رہ جائے گی “(۲۱)
حضرتعلیہ السلام نے یہ بھی ارشاد فرمایا :
” جس پر شھوت غالب آجائے وہ غلام سے بدتر ھے “(۲۲)
امید ھے کہ ھمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ھوئے اور معارف اھلبیت (ع) کی پیروی کرتے ھوئے تمام غلط اور فرسودہ رسم و رواج سے شادی کو پاک و صاف قرار دے کر شادی کو آسان بنائے گا ۔ خدا کا لاکہ لاکہ شکر ھے کہ عصر جدید کے جوانوں کے دلوں میں نور اسلام کی کرنیں نظر آرھی ھیں ۔ امید ھے کہ اسلامی جوان بھت جلد غلط رسم و رواج اور بیھودہ شرائط کا لبادہ اتار پھینکے گا اور سامراج کی امیدوں کو خاک میں ملا دے گا نیز خالص اسلامی طرز پر اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کرے گا ۔
حوالے