کیوں شیعہ لوگ سنت صحابہ حجت نہیں مانتے
کیوں شیعہ لوگ سنت صحابہ کو مصدر و منبع شریف کے عنوان سے حجت نہیں مانتے اور اس کو منبع تشریع نہ ما ننے کی ان کے پاس کیا دلیل ہے ؟
سنت صحابہ کے سلسلے میں علماء کے اقوال اہل سنت کے بزرگ علماء، سنت صحابہ کے اخذ کرنے میں اتفاق نظر نہیں رکھتے۔
1) ابن قیم جوزیہ کا کہنا ہے: ابو حنیفہ، آثار صحابہ کو قیاس اور رائے پر مقدم کرتے تھے، 1
2) شاطبی کہتے ہیں: امام مالک، قول صحابی کو سنت سے ملحق کرتے تھے، بلکہ نقل ہوا ہے کہ، امام مالک، خبر واحد کو صحابہ میں سے ایک صحابی کے قول کی مخالف سے رد کر دیا کرتے تھے، 2
3) امام شافعی نے قول صحابی کو نص اور اجماع کے بعدکی منزل دی ہے اور اسے قیاس پر مقدم کیا ہے ۔3
4) احمد ابن حنبل نے صحابی کے فتوے کو نص کے بعد قرار دیا ہے اور منابع تشریع میں صحابی کے فتوے کو دوسری اصل قرار دیا ہے، ابن قیم کہتے ہیں: احمد ابن حنبل کے فتوے دو اصل پر استوار تھے، الف، نصوص، ب، فتاوائے صحابہ پر بشرطیکہ کوئی مخالف اس کا موجود نہ ہو ۔ 4
5) ابن تیمیہ کہتے ہیں: احمد ابن حنبل اور بہت سے علمائے اہل سنت نے حضرت علی علیہ السلام کی اسی طرح پیروی کی ہے جس طرح انھوںنے سنت عمر وعثمان کی متابعت کی ہے، لیکن ودسرے بعض علماء جیسے کہ مام مالک نے سنت علی علیہ السلام کی پیروی نہیں کی ہے اور اس میں اتفاق ہے کہ: سنت عمر وعثمان حجت ہے- 5
حجت سے کیا مراد ہے سنت صحابہ کی حجیت کے سلسلے میں دو احتمال ہیں:
الف: یا حجیت مو ضوعی مراد ہے یعنی جس طرح سنت پیغمبرمو ضوعیت رکھتی ہے سنت صحابہ بھی مو ضوعیت رکھتی ہے، حجت مو ضوعی یعنی جوذاتی طور پر حجت ہے اور حکم وجوب متابعت اور فرمان تعبد کے لئے جسے موضوع قراردیاجائے۔نہ یہ کہ حجت تک پہنچنے کی راہ یا کاشف حجت ہو۔
ب: دوسرا احتمال سنت صحابہ کی حجیت کے سلسلے میں یہ ہے کہ: مراد حجیت طریقی ہو یعنی سنت صحابہ چونکہ حجت ذاتی ”سنت نبوی، ، تک پہنچنے کی راہ ہے اس لئے حجت ہے پھر ایسی صورت میں خبر صحابی، خبر واحد کی تمام شرطوں کی حامل ہو نا چاہیے مثلا ثقہ ہونا، عادل ہونا وغیرہ، لہٰذا اگر صحابی کا قول حجت ہے تو مخبر کے ثقہ ہونے کی وجہ سے ہے بشرطیکہ اس کا عادل یا ثقہ ہونا ثابت ہوجائے۔
اہل سنت کے اصولی علماء کے کلام سے ظاھر ہوتاہے کہ وہ سنت صحابہ کے سلسلے میں حجیت موضوعی کے قائل ہیں نہ کہ حجیت طریقی کے، در حقیقت علمائے اہل سنت میں سے جولوگ سنت صحابہ کی حجیت کے قائل ہیں وہ سنت صحابہ کے لئے قرآن وسنت رسول کی سی شانیت کے قائل ہیں، ،
1۔ ابن قیم جو زیہ کہتے ہیں: اگر کو ئی اقوال صحابہ کی پیروی کرے بغیر اس کے کہ اس کی صحت و سقم کے بارے میں تحقیق کرے ۔ قابل مدح و ستائش ہے ۔ 6
2۔ شاطبی کہتے ہیں: روایات سے استفادہ ہو تا ہے کہ جو شخص سنت صحابہ کی پیروی کرے وہ سنت رسول کی پیروی کرنے والے شخص کے ما نند ہے۔ 7
بعض کا خیال ہے کہ: سنت صحابہ کی حجیت سے اہلسنت کی مراد حجیت طریقی ہے نہ مو ضو عی اور اس کا معتبر ہو نا اس صورت میں ثابت ہو گا کہ یاتوسارے اصحاب نے انجام دیا ہو یا بعض نے انجام دیا ہو لیکن ان کاعمل مشہور ہو اور دوسرے اصحاب نے یا سکو ت اختیارکیا ہو اور یا تو کم از کم اس کی تردید نہ کی ہو یہ مسئلہ در حقیقت، اجماع حقیقی، تقدیری اور سکو تی کی طرف پلٹ جاتا ہے جو سنت نبوی کا یقین آور راستہ ہے لیکن یہ تو جیہ اہل سنت کے مقصود ومراد کے خلاف ہے کیو نکہ بعض علماء اہل سنت کے کلام سے ظاہر ہو تا ہے کہ سنت صحابہ کی اس طرح حجیت تسلیم نہیں کرتے ۔
ابن قیم جوزیہ کہتے ہیں: صحابہ کا قول دو حال سے خالی نہیں ہے یا دوسرے صحابہ نے اس کی مخالفت کی ہے یا نہیں کی ہے پہلی صورت میں اس کا قول حجت نہیں ہے ۔اور دوسری صورت میں یاتو اس کا قول اصحاب کے درمیان مشہور ہو جائے اور کوئی اس کی مخالفت نہ کرے یا ایسا نہ ہو پہلی صورت میں فقہاء کی اکثریت آراء کے مطا بق صحابہ کا قول اجماع کا حکم رکھتا ہے اور حجت ہے ۔ لیکن بعض فقہاء نہ اسے حجت جا نتے ہیں اور نہ ہی اسے اجما ع ساز ما نتے ہیں اور اگر صحا بی کا قول مشہو ر نہ ہو اہو یا اس کے مشہور ہونے یا نہ ہو نے کے بارے میں اطلاع نہ ہو اس صورت میں اصولیین نے اس کی حجیت کے بارے میں اختلاف کیا ہے جمہو راہل سنت کا کہنا ہے کہ اس صورت میں بھی صحابی کا قول حجت ہے ۔ 8
ابن قیم کی آخری عبارت سے بخوبی استفادہ ہو تا ہے کہ وہ قول صحابی کی حجیت، سنت نبوی کی کا شفیت کے لحاظ سے تسلیم نہیں کرتے بلکہ قول صحابی کو سنت نبوی کے ما نند حجت مو ضوعی کا درجہ دیتے ہیں۔
مقابل میں شیعہ امامیہ صحابہ کو اس جہت سے بقیہ افراد کے ما نند سمجھتے ہیں کہ ان کی سنت کی حجیت، ہر ایک صحابی کی و ثاقت و عدالت کے اثبات پر مو قوف ہے ۔ اس لئے کہ تمام صحابہ کلی طور سے عادل نہیں ہیں اور اس پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے بلکہ اس کے بر خلاف دلیلیں مو جود ہیں۔
صحابہ کے سلسلے میں غزالی کا نظریہ شیعہ امامیہ کے مو قف کے مطابق ہے وہ کہتے ہیں: جس شخص سے غلطی اور سہو کا امکان ہے وہ معصوم نہیں ہے لہذا اس کا قول حجت بھی نہیں ہے ایسی صورت میں اس کے قول سے کس طرح استناد و احتجاج کیا جا سکتا ہے ؟ کس طرح کچھ لو گوں کے لئے عصمت کا تصور کیا جا سکتا ہے جبکہ ان کے درمیان بہت سے اختلافات مو جود تھے؟ بھلا عصمت کا احتمال کیو نکر دیا جا سکتا ہے جبکہ خود ہی صحابہ اس بات پر متفق ہیں کہ، صحابی کے اقوال و رفتار کی مخالفت کی جا سکتی ہے ۔ 9
سنت صحابی کی عدم حجیت پر دلیلیں آیا ت و روایات اور تاریخ کی طرف مرا جعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ سنت صحابی کی حجیت مو ضو عی یا طریقی پر بطور مطلق کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ عدم حجیت پر بے شمار دلیلیں مو جود ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
الف) آیات آیات قرآنیہ سے استفادہ ہو تا ہے کہ صحابہ شریعت اسلامی کی مخالفت کیا کرتے تھے۔
1۔: < وَلَقَدْ صَدَقَكُمْ اللهُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَهمْ بِإِذْنِه حَتَّی إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاٴَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا اٴَرَاكُمْ مَا تُحِبُّونَ مِنْكُمْ مَنْ یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنْكُمْ مَنْ یُرِیدُ الْآخِرَةَ۔۔۔>بتحقیق کہ خدا نے اپنا وہ و عدہ جو اس نے تم سے کیا تھا اس و قت پورا کردیا جس و قت تم نے یہ احساس کر لیا کہ ہم غالب آگئے اور حکم خدا سے تم نے کا فروں کو خاک و خون میں غلطاں کردیا اور تم ہمیشہ دشمن پر غالب رہے یہاں تک کہ تم نے جنگ میں سستی دکھائی ۔اختلاف کیا اور حکم رسول کی نا فرمانی کی جبکہ اپنی آرزو ں کو تم پہنچ چکے تھے لیکن کچھ دنیا کے لئے اور کچھ آخرت کے لئے کو شش میں لگے تھے۔ 10
2۔: < إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهمْ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا۔۔۔> یقینا جن لو گوں نے جنگ احد میں پشت دکھائی اور واپس بھاگ لئے انھیں شیطان نے ان بد کا ریوں اور نا فرمانیوں کی وجہ سے گمراہ کردیا ہے ۔ 11
3۔: اے ایمان لا نے والو کیوں ایسی باتیں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے ؟یہ عمل کے خلا ف کہنے کے خلاف عمل کرو خدا کو بہت سخت غیض و غضب میں لا تا ہے ۔ 12
4۔: < وَإِذَا رَاٴَوْا تِجَارَةً اٴَوْ لَهوًا انفَضُّوا إِلَیْها وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۔۔۔ >اور جس وقت تجارت یا کھیل تما شہ دیکھ لیتے ہیں اسی کی طرف لوٹ پڑتے ہیں اور آپ کو اکیلا کھڑا چھوڑکر چلے جاتے ہیں۔ 13
ب) روایات اسی طرح روایات سے بھی آشکا ر ہو تا ہے کہ صحابہ صاحب عصمت اور گنا ہوں سے پاک نہیں تھے ۔امام بخاری اپنے سلسلہٴ سند سے ابو حازم سے نقل کرتے ہیں میں نے سہل ابن سعد سے سنا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا: میں حو ض کو ثر پر تمہاری راہ دیکھوں گا جو وہاں پہنچ جائے گا آب کو ثر سے سیراب ہو گا اور جو اس سے سیراب ہو جائے گا وہ کبھی تشنہ نہ ہو گا کچھ لوگ میرے پاس آئینگے جن کو میں پہچا نتا ہونگا وہ بھی مجھے پہچا نتے ہو نگے اس کے بعد میرے اور ان کے درمیان حائل آ جائے گا۔میں کہو نگا یہ لو گ میرے ہیں جواب ملے گا اے پیغمبر آ پ نہیں جا نتے کہ کس طرح آپ کے بعد ان لو گوں نے دین کو بد ل ڈالا میں بھی کہو نگا: وائے ہو اس شخص پر جس نے میرے بعد دین کو بدل ڈالا ۔ 14
علامہ تفتازانی فرماتے ہیں کہ: بعض صحابہ حق سے منحرف ہو گئے اور ظلم و فسق میں گرفتار ہو گئے تھے اور اسی کی وجہ ایک دوسرے بغض و حسد و کینہ، لج بازی، ریاست طلبی، شہوات و لذات کی طرف میلان تھا کیو نکہ تمام صحابہ معصوم نہیں تھے نیز جو شخص بھی رسول سے ملا قات کرلے وہ خیرونیکی والا نہیں ہو جاتا مگر علماء اصحاب رسول پر حسن ظن کی وجہ سے صحابہ کے اقوال و اعمال کی تو جیہ و تاویل کرتے آئے ہیں۔ 15
ج) سیرت صحابہ سیرت صحابہ کی طرف مراجعہ کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ نہ صرف یہ کہ وہ معصوم ازخطا اور گناہوں سے پاک و پا کیزہ نہیں تھے بلکہ وہ خود بھی صحابہ رسول کی خطا و غلطی کے معترف تھے اسی لئے اہلسنت حضرات بعض صحابہ کے باطل و خلاف شرع اعمال کی حد سے زیادہ جو تو جیہ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ لو گ مجتہد تھے اور مجتہد اپنے اجتہاد میں کبھی غلطی بھی کرتا ہے ۔
علا وہ سید محمد تقی حکیم فرماتے ہیں: آپ کے لئے سنت صحابہ کی عدم حجیت پراتنی ہی دلیل کا فی ہے کہ شوریٰ کے دن حضرت علی علیہ السلام کے سامنے سیرت ابو بکر و عمر پیش کی گئی اور امام علی علیہ السلام نے قبول نہیں کیا اور اسی لئے خلافت کو بھی چھوڑ دیا لیکن عثمان نے اسے قبول کرکے خلافت پر قبضہ جمالیا جس وقت امام علی علیہ السلام منصب خلا فت پر پہنچے تو آپ نے بھر پور کو شش کی کہ سابق خلفاء کے تمام غیر شرعی کا موں کو جو لو گوں کے درمیان سنت و سیرت بن چکے تھے ختم کردیں اگر چہ ان میں سے بعض میں آپ کامیاب نہ ہو سکے کیو نکہ سابق خلفاء کی سنت نے لو گوں میں بڑا گہرا اثر ڈال دیا تھا۔
سنت صحابہ کی حجیت نہ ماننے کے اسباب و علل 1۔ صحابہ کا وہ مخالف گروہ جس کا صرف ریاست حکو مت اور سلطنت اسلا می پر پہنچنا تھا پیغمبر رحلت کے بعد پہلے سے تیار نقشہ کے تحت اپنے برے اہداف تک پہنچ گیا اور چو نکہ وہ لو گ دینی مرجعیت کو کو ئی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے اہلبیت علیہم السلام کے حوالے کردیا لیکن تھوڑی ہی مدت کے بعد انہوں نے احساس کر لیا کہ لو گوں کا اپنے مسائل میں اہلبیت علیہم السلام کی طرف رجو ع کرنا بھی ان کی حکو مت وسلطنت کے ضرر میں ہے کیو نکہ لوگ کہتے ہیں کہ: اگر سنت پیغمبر اور دینی معارف اہل بیت علیہم السلام کے پاس ہے تو آپ لوگ کس کا م کے ہیں؟سیاست و مقام حاکمیت و حکو مت اس کے اہل کے حوالے کیوں نہیں کردیتے ؟ اس لئے ان لوگوں نے سنت صحابہ کی حجیت کا مسئلہ چھیڑا تاکہ صحابہ کی مر جعیت کی تثبیت کے سا تھ اہل بیت علیہم السلام سے لوگوں کو دور کردیں۔
2۔گزرتے زمان کے ساتھ جہاں ایک طرف اسلامی فتو حات کے پھیلاؤ اور جگہ جگہ سے سیکڑوں سوالات کا سلسلہ شروع ہوااور دوسری طرف کتاب وسنت رسول میں محدود منابع استنباط کی وجہ سے انھیں یہ فکر لا حق ہو ئی کہ کسی طرح اس خلاء کو پر کیا جائے اسی لئے سنت و سیرت اہل بیت علیہم السلام کے مقابلہ میں مجبور ہو کر انھوں نے صحابہ کی سنت کو دینی و فقہی معاشرہ کے سا منے ایک منبع ومصدراجتہاد کے طورپر پیش کیا ۔
ادلہٴ اہل سنت کی تحقیق اہل سنت نے سنت صحابہ کی حجیت پرکچھ دلیلیں پیش کی ہیں جنھیں نقل کرنے کے بعد ہم ہر ایک کو نقدو باطل کریںگے۔
الف) آیات 1) اللہ کا ارشاد ہے: مہا جرین و انصار میں سے وہ لوگ جنہوں نے اسلام لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنھوں نے ان کا نیکی کے ساتھ اتباع کیا ہے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ بھی اللہ سے راضی ہیں اور اللہ نے ان کے لئے باغات آمادہ کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہر یں جاری ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہی تو عظیم کا میابی ہے۔ 16
ابن قیم جوزیہ کہتے ہیں: اللہ سبحانہ تعالیٰ نے صحابہ کی پیروی کرنے والوں کی مدح کی ہے پس جو کوئی صحابی کے کلام کی صحت و کمزور ی کی پرواہ کئے بغیر اسے قبول کرے اور اسی کی پیروی کرے خدا وند متعال کے نزدیک قابل مد ح و ستا ئش ہے ۔ 17
جواب:
نمبر۱: آیت شریفہ بطور مطلق سبقت کرنے والے صحابہ کی پیروی کو لازم قراردیتی ہے بلکہ خصوصی طور پر ایمان بہ پیغمبر میں سبقت لینے والوں کی پیروی کرنے کے لزوم پر دلالت کرتی ہے در حقیقت لو گوں سے خطاب کیا گیا ہے کہ صحابہ میں سے صرف انھیں لو گوں کے ما نند ہو جائیں جنھوں نے پیغمبر پر ایمان لا نے میں ایک دوسرے پر سبقت لی ہے۔
نمبر ۲: آیت شریفہ کا ذیل، آیت کے صدر کو قید لگا تا ہے کیو نکہ انھیں صحابہ کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے جس نے بھی خدا و رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی ہو ئی گمراہی میں مبتلا ہے ۔ 18
اس آیت سے استفادہ ہو تا ہے کہ صحابہ کی اطاعت و پیروی اسی حد تک ہے کہ جب تک انھوں نے خدا ورسول کی نا فرمانی نہ کی ہو ورنہ ان کی اطاعت لازم نہیں ہے اور یہ مطلب سنت صحابہ کی مطلق حجیت سے منا فات رکھتا ہے۔
نمبر ۳: آیت شریفہ مد عا سے اخص اور محدود تر ہے کیو نکہ صرف صحابہ میں سے سابقین کے متعلق ہے عموم صحابہ سے آیت کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
2) ارشاد رب العزت ہو تا ہے ان لوگوں کی پیروی کر جو تم سے اجرت طلب نہیں کرتے درحالا نکہ وہ ہدایت یافتہ بھی ہیں۔ 19
ابن قیم کا کہنا ہے ۔لا زم ہے کہ صحابہ میں سے جو بھی اجرت کا طالب نہ ہو اور ہدایت یافتہ بھی ہواس کی پیروی کی جائے 20
جواب:
نمبر ۱: سے مراد انبیا ء و مرسلین ہیں دلیل اسی آیات کا صدر ہے جس میں ارشاد ہو تا ہے اور اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے ہی نہیں کہ ہدایت انبیاء عصمت کے سا تھ ہو تی ہے ۔ 21
نمبر ۲: یہ آیت مد عاسے اخص اور محدود ہے اس لئے کہ صرف انھیں صحابہ سے متعلق ہو سکتی ہے جو اجرت بھی طلب نہ کریں اور خود بھی ہدایت یافتہ ہوں۔
نمبر ۳: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہدو کہ حمد وستائش اللہ سے مخصوص ہے اور درود و سلام ہے ان کے نبیوں پر جنھیں اللہ نے منتخب کر لیا ہے ۔ 22
3) ابن عباس کہتے ہیں کہ: آیت کا مقصود اصحاب پیغمبر ہیں کیو نکہ وہی وہ لو گ ہیں جنھیں اللہ نے ہر قسم کے رجس و کدو رت سے پاک صاف ہو بنایا ہے۔ 23
جواب:
نمبر ۱: جناب ابن عباس کی حدیث ثابت نہیں ہے کیو نکہ صحاح ستہ اور دیگر معتبر کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی نقل نہیں ہوئی ہے اور اہل حدیث میں سے کسی نے بھی اس حدیث سے تمسک نہیں کیا ہے۔
نمبر ۲: ایک صحابی کے قول سے دوسرے صحابی کے قول کی حجیت ثابت نہیں ہو سکتی کیو نکہ اس سے دور لازم آتا ہے جو باطل ہے۔
نمبر ۳: صحابہ میں اختلاف خود خطا و غلطی سے معصو م و منزہ نہ ہو نے کی دلیل ہے ۔
4) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے تم بہترین امت ہو کہ جنھوں نے لو گوں کو نیکو کاری کا حکم دیااور بد کاریوں سے باز رکھا ہے ۔ 24
شاطبی کہتے ہیں: آیت شریفہ اس امت کی ساری امتوں پر برتری او رفضیلت ثابت کرتی ہے اور اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اصحاب پیغمبر بہر حال دین میں استقامت و پا ئدار ی رکھتے تھے۔ 25
جواب:
نمبر ۱: آیت شریفہ میں جس نسبی استقامت کا تذکرہ ہے وہ امت اسلامی کے کچھ افراد سے متعلق ہے جو سابقہ امتوں کی بہ نسبت رکھتے ہیں نہ یہ کہ امت اسلامی کے تمام افراد ہر حال میں استقامت و پائداری رکھتے ہیں۔
نمبر ۲: آیت شریفہ برتری بیان کرنے کے مقام میں ہے سنت صحابہ کی حجیت ثابت کرنے کے درپئے نہیں ہے۔
5) اللہ کاا رشاد ہے کہاے ایمان لانے والوخدا سے ڈرو اور سچو ں کے ساتھ ہو جاؤ ۔ 26
ابن قیم کہتے ہیں: سلف کی ایک بڑی جماعت اس بات کی معتقد ہے کہ: صادقین سے مراد کہ جن کی پیروی کرنا لازمی ہے وہی اصحاب پیغمبر ہیں۔ 27
جواب:
صحیح روایات اور متعدد تفاسیر کے مطابق صادقین سے مراد معصو مین ہیں کہ جن کا مصداق سوائے اہلبیت پیغمبر کے اور کوئی نہیں ہے۔ 28
6) ارشاد خداوند متعال ہو تا ہے کہ اور اس طرح ہم نے تمہیں امت و سط قرار دیا تاکہ تم لو گوں کے گواہ اور رسول خدا تمہارے گواہ رہیں۔
علامہ شاطبی کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مطلق طور پر اس آیت شریفہ میں صحابہ کی عدالت کو ثابت کردیا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اصحاب ہر حال میں استقامت و پائداری کے حامل تھے۔ 29
ابو حاتم رازی کا کہنا ہے کہ: اللہ تعالیٰ صحابہ کی ”امت عدل“ کے عنوان تو صیف کی ہے لہٰذا وہ سب کے سب امت کے عدول افراد، ائمہ ہدایت، دین کی حجت اور ناقلین کتاب و سنت ہیں 30
جواب:
نمبر ۱: صرف عدالت ہی عصمت کا باعث نہیں ہے ورنہ لازم آئے گا کہ ہر عادل شخص کی سیرت حجت بن جائے چاہے وہ صحابی نہ بھی ہو اور ظاہر ہے کو ئی بھی اس لزوم کا قائل نہیں ہے ۔
نمبر ۲: اس آیت کا خطاب تمام امت اسلامی سے ہے اور اگر یہ آیت حجیت کی دلیل بن سکتی ہے تو یہ حکم تمام امت پر سرایت کرے گا اور ساری امت کے اقوال و کردار حجت ہو جائیں گے اور کو ئی بھی اس لزوم کو قبول نہیں کرسکتا ہے ۔
7) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کردو کہ اس نے تمہیں اپنے دین کے لئے منتخب کیا ہے ۔ 31
ابن قیم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبردی ہے کہ صحابہ اس کے خاص بر گزیدہ ہیں اور ایسے افراد کی سنت و سیرت حجت ہے۔ 32
جواب:
آیت کی مراد تمام امت یاتمام صحابہ نہیں ہیں بلکہ مجموع امت یا مجمو ع صحابہ ہیں اس واسطے کہ ان کے درمیان لائق اور مطیع خدا و رسول افراد بھی مو جود ہیں نہ کہ وہ لو گ جو کہ روایات اور صریحی آیات کے مطابق معصیت کے مرتکب اور احکام الٰہی کی نا فرمانی کرنے والے تھے۔
ب) روایات 1) ابن قیم جوزیہ کہتے ہیں: صحیح روایت میں پیغمبر خدا سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: بہترین صدی وہ صدی ہے کہ جس میں میں مبعوث ہواہوں ۔ اس کے بعد وہ لوگ ہیں جو کہ اس صدی کے بعد آئیں گے اور تیسرے مرتبہ میں وہ لو گ ہیں جو اس کے بعد آئیں گے۔
اس کے بعد اس حدیث کی تو جیہ کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ مطلق خیر کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ تمام امور خیر میں آگے ہوں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی سنت حجت ہے۔ 33
جواب:
نمبر ۱: عمو م خیریت پر حمل کرنا روایت کے متبادر معنی کے خلاف ہے کیو نکہ اگر کوئی یہ کہے کہ زید عمر سے اعلم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو تا کہ زید تمام مسائل میں عمر سے اعلم ہے ۔
نمبر ۲: خیریت، حجیت کی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ جس حجیت کی ہم بحث کررہے ہیں یعنی حجیت مو ضوعی صرف عصمت سے سازگار ہے بغیر عصمت کے حجیت بے معنی ہے۔
نمبر ۳: پہلی صدی کی خیریت و بہتری دوسری صدیوں کے مقابلہ میں نسبی ہے نہ مطلق ایسی صورت میں جو لوگ پیغمبر کے زمانے میں تھے وہ دوسری صدیوں کے مقابل نسبتاً بہتر ہو نگے نہ یہ کہ وہ بطور مطلق بہتر ہو نگے۔
2) امام مسلم اپنی صحیح میں اپنے سلسلہ سند سے سعید بن ابی بردہ سے اور وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے نماز مغرب کو رسول خدا (ص)کے ساتھ جماعت میں ادا کیا پھر اس کے بعد سو چنے لگا کہ بہتر ہے میں مسجد ہی میں رہوں تا کہ نماز عشاء کو بھی رسول خدا (ص)کے سا تھ بجالاؤں اسی دوران رسول خدا ہمارے پاس تشریف لا ئے اور فرمایا ابھی تک یہاں بیٹھے ہو ہم نے کہا کہ نماز مغرب آپ کے ہمراہ ادا کرلی ہے ہم چاہتے ہیں کہ نماز عشاء کو بھی آپ کے ساتھ بجا لائیں آنحضرت نے ہماری تعریف کی اور سر آسمان کی طرف بلند کرکے فرمایا: ستارے آسمان والوں کے لئے امن ہیں اگر وہ ختم ہو جائیں تو آسمان کا نظام بگڑجائے گا میں بھی اپنے اصحاب کے لئے امان ہوں اگر میں ان کے درمیان سے اٹھ جاؤں تو جو ان سے وعدہ دیا جا چکا ہے ان پر طاری ہو جائے گا اور میرے اصحاب میری امت کے لئے امن ہیں اگر وہ امت کے درمیان سے چلے جائیں تو جو امت کو وعدہ دیا گیا ہے ان پر نازل ہو جائے گا۔ 34
جواب:
نمبر ۱: مذکورہ حدیث کے سلسلہ سند میں ابی بردہ کا وجود حدیث کے ضعیف ہو نے کا باعث ہے کیو نکہ وہ سنگین جرائم کا مرتکب ہو چکا ہے یہی وہ شخص ہے جو بزرگ صحابی جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے قتل میں ملو ث تھا اسی نے ان کے خلاف جھو ٹی گواہی دی تھی۔ 35
علامہ ابن ابی الحدید نے ابو بردہ پسر ابو مو سیٰ اشعری کو حضرت علی علیہ السلام سے منحرف لو گوں کے طور پر معرفی کرایا ہے ۔یہی ابو بردہ ہے جس نے ابو غادیہ کا ہاتھ چو ما اور اس کے حق میں دعا کی تھی کہ اس نے عمار یاسر کو قتل کردیا تھا۔ 36
نمبر ۲: مذکورہ بالا حدیث میں یہ آیاہے کہ جب رسول خدا (ص)اصحاب کے درمیان سے رحلت کر جائیں گے تو اصحاب پر عذاب الٰہی آجائے گا اور یہ بات اصحاب کی سنت کی حجت ہو نے سے سازگار نہیں ہے۔
نمبر ۳: پیغمبر کا فرمان اصحاب کی عصمت پر دلالت نہیں کرتا اس لئے کہ اس طرح کے بیان تو بچوں عورتوں اوربو ڑھوں کے سلسلہ میں بھی آن حضرت سے صادر ہو ئے ہیں کہ اگر یہ لو گ” بچے عورتیں اور بوڑھے “نہ ہو تے تو روئے زمین پر عذاب الٰہی آجاتا اور لو گ عذاب سے دو چار ہو جاتے۔
نمبر ۴: پیغمبر کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ میرے اصحاب کے درمیان ایسے لو گ مو جود ہیں کہ جو میری سنت نقل کرکے لو گوں پر حجت تمام کردیں گے اور یہ بات اصحاب کی روایت کے سلسلہ میں حجت طریقی ثابت کرتی ہے نہ موضوعی۔
3) بعض نے حدیث ”اہتدا“سے تمسک کیا ہے ابن عباس سے نقل ہو ا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا میرے اصحاب ستاروں کے ما نند ہےں جس سے بھی تمسک کرو گے (جس کسی کی بھی پیروی کروگے )ہدایت پا جاؤگے۔
جواب:
نمبر ۱: یہ حدیث سند کے اعتبارسے ضعیف ہے اور اس کے ضعف کی تصریح کرنے والوں میں امام احمد ابن حنبل (۴۵)شافعی کے شاگرد مزنی 37 ابو بکر بزاز 38 ابن قطان 39 دارقطنی40 ابن حزم 41 حافظ بہیقی42 ابن عبد البر43 ابن عساکر 44 ابن جوزی 45 ابو حیان اندلسی46 ابن تیمیہ47 البانی48 شمس الدین ذہبی49 ابن قیم جوزیہ50 ابن حجر عسقلانی 51 جلال الدین سیو طی52 متقی ہندی 53 قاضی شو کانی 54 اور دیگر علماء شامل ہیں ۔
نمبر ۲: یہ حدیث تاریخی بداہت و ضرورت کے اعتبار سے بھی مخالف ہے اس لئے کہ بطور مسلم و قطعی بہت سے صحابہ چاہے زمانہ پیغمبر میں اور چاہے ان کی حیات کے بعد دین میں پائدارنہ تھے اس لئے دوسروںکے لئے منشاٴ ہدایت نہیں بن سکتے۔
نمبر ۳: اس حدیث کے اندر ایسا قرینہ مو جود ہے جو اس کے تما م صحابہ کے اندر ظہور پزیرہونے سے ما نع ہے کیو نکہ صحابہ کو ستاروں سے تشبیہ دی گئی ہے اور ہم جا نتے ہیں کہ سارے ستارے ہدایت کا باعث نہیں ہیں بلکہ کچھ خاص ستارے وہ بھی خاص مو قع و محل کے اوپر لو گوں کی ہدایت کرسکتے ہیں۔
نمبر ۴: صحابہ بعد آیتوں کے سمجھنے میں غلطی پر تھے ۔لہذا لو گوں کے مر جع دینی نہیں بن سکتے ۔امام غزالی کہتے ہیں: جو شخص جائز الخطا ء ہو جس سے غلطی ہو تی ہو اور جس کی عصمت ثابت نہ ہو تی ہو اس کے اقوال حجت نہیں ہیں بھلاکس طرح بغیر کسی دلیل و مدرک کے ان کے حق میں عصمت کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے ۔
ابو بکر سے ”کلا لہ“ کے متعلق سوال ہو اتو جواب میں انھوں نے کہا کہ اپنی رائے بتلاتاہوں اگر صحیح ٹھہری تو خدا کی طرف سے ہے اور اگر غلط ٹھہری تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور خدا و رسول اس سے بیزار ہیں۔۔ 55
قبیلہ جہنیہ کی ایک عورت نے چھٹے مہینہ ایک بچہ جنا ۔اسے عثمان کے پاس لا یا گیا شو ہر نے اس کے خلاف شکایت درج کی کہ عورت نے زنا کیا ہے اور عثمان نے بھی اسے سنگسار کرنے کا حکم دے دیا مو لا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو جب خبر ہوئی تو حضرت نے فرمایا: یہ حکم باطل ہے کیو نکہ آیت 56 اور کے جمع سے یہ حکم اخذ نہیں ہو تا کیو نکہ حمل کی کمترین مدت چھ مہینہ ہے۔
عثمان نے کہا: خدا کی قسم میں نہیں جا نتا تھا پھر حکم دیا کہ عورت کو واپس کردو ۔ لیکن کام تمام جو چکا تھا اور بے چاری مظلوم عورت بے جرم و خطا صرف ایک جاہل خلیفہ کی جہالت و نادانی کی وجہ سے سنگسارکردی گئی۔ 57
حدیث کی تطبیق اہل بیت علیہم السلام پر جناب شیخ صدوق ۺنے حدیث” اھتداء “اپنے سلسلہٴ سند سے حضرت امام محمد باقر علیہ اسلام سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول خدا (ص)نے فرمایا: میرے اصحاب تمہارے درمیان ستاروں کے مانند ہیں ان میں سے جسں کسی کی اقتداء کر لو ھدایت پاجاؤ گے جس کسی کی بھی گفتار کو اپنا لو ھدایت یافتہ ہو جاؤ گے میرے اصحاب کا اختلاف تمہارے حق میں رحمت ہے، سوال کیا گیا کہ آپ کے اصحاب کون ہیں، آنحضرت نے فرمایا: میرے اہل بیت (ع) ۔ 58
جناب شیخ صدوق اس حدیث پر اپنے تعلیقہ میں فرماتے ہیں "اہلبیت" ہرگز اختلاف نہیں کرتے اور اپنے شیعوں کے لئے حقیقی حکم صادر کرتے ہیں مگر تقیہ کے باعث ان کے حکم میں اختلاف ہو سکتا ہے اور تقیہ شیعوں کے لئے رحمت ہے ۔ 59
4) ابن قیم جوزیہ، انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں کہ ر سول خدا (ص)نے فرمایا میرے اصحاب میری امت کے درمیان کھانے میں نمک کے مانند ہیں اور کھانا بغیر نمک کے بے فائدہ ہے ۔ 60
جواب:
نمبر ۱: یہ حدیث بھی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
نمبر ۲: صحابہ کی جانب سے امت کی مصلحت واصلاح پایا جانے کا مطلب ہرگز ان کی عصمت اور اطاعت کے وجوب کے معنی میں نہیں ہے کہ آپ ان کی سنت و سیرت کو حجت قرار دے دیں بلکہ رسول خدا کے تذ کرات ہی کا فی ہیں کہ اتنا تذ کر اصحاب کے حجت طریقی سے ساز گار ہے بس۔
5) ابن مسعود فرماتے ہیں: اصحاب رسول خدا کی پیروی کرو کیو نکہ وہ پاک ترین قلب اور سب سے زیادہ اعمال و ہدایت کے مالک ہیں ۔ 61
جواب:
نمبر ۱: یہ حدیث مصادرہ بہ مطلوب کی حیثیت رکھتی ہے کیو نکہ صحابی کے قول کے ذریعہ قول صحابی کی حجیت ثابت کرنا باطل ہے۔
نمبر ۲: اگر پیروی کرنے سے مراد ہر ہر فرد کی پیروی کرنا ہو تو واقعات خارجی سے ساز گار نہیں ہے اور اگر مراد عام مجموع ہو کہ جن میں اہلبیت رسول بھی شامل ہوں تو اس صورت میں کو ئی اشکال نہیں ہے۔
6) ابن مسعود فرماتے ہیں: اللہ نے تمام انسانوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو جناب رسول خدا(ص)کے قلب مبارک کوسب سے بہتر دل پایا پھر حضرت کے بعد دوسرے بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو اصحاب پیغمبر کے دلوں کو بہتر پایا اس لئے انھیں پیغمبر کی نصرت و یاری کے لئے پیغمبر کا صحابی انتخاب کر لیا لہٰذا جسے مسلمان حسن سمجھے وہ حسن اور جسے قبیح جانیں وہ قبیح ہے ۔ 62
جواب:
نمبر ۱: اس حدیث سے استدلال بھی اس سے پہلے والی حدیث کی طرح مصادر بہ مطلوب ہے۔ 63
نمبر ۲: حدیث زیادہ سے زیادہ صحابہ کے خوش نفس ہو نے پر دلالت کرتی ہے نہ یہ کہ وہ ہر قسم کی خطا و غلطی سے معصوم ہوں۔تاکہ ان کی سیرت حجت بن جائے ۔ 64
نمبر ۳: قرآن مجید سے اس حدیث کا ذیل میل نہیں کھاتا کیو نکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو نا پسندکرواور وہی تمہارے لئے بہتر ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم کچھ چیزوں کو پسند کرو درحالیکہ وہی چیزتمہارے لئے بُری ہو اللہ جا نتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ 65
1. اعلام الموقعین، ج۱، ص۷۷.
2. الموافقات، ج۴، ص۴۲.
3. مناہج الاجتہاد فی الاسلام، ص۶۳۶.
4. اعلام الموقعین، ج۱، ص۲۹. ۳۲.
5. منہاج السنة، ج۳، ص۲۰۵.
6. اعلام موقعین، ج۴، ص۱۲۴.
7. الموافقات، ج۴، ص۷۶.
8. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۱۹ و ۱۲۰.
9. المستضعفی، ج۱، ص۲۶۱.
10. آل عمران (۳) آیہ ۱۵۲.
11. ہمان، آیہ ۱۵۵.
12. صف (۱۶۱) آیات ۲ و ۳ .
13. جمعہ (۶۲) آیہ ۱۱.
14. صحیح بخاری، کتاب الفتن .
15. شرح مقاصد، ج۲، ص ۳۰۶. ۳۰۷، مبحث امامت .
16. توبہ (۹) آیہ ۱۰۰.
17. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۲۴.
18. احزاب (۳۳) آیہ ۳۶.
19. یس (۳۶) آیہ ۲۱.
20. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۰.
21. یس (۳۶) آیہ ۱۳.
22. نمل (۲۷) آیہ ۵۹.
23. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۱.
24. آل عمران (۳) آیہ۱۱۰.
25. الموافقات، ج۴، ص۷۴.
26. توبہ (۹)آیہ ۱۱۹.
27. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۲.
28. ر.ک: الغدیر، ج۲، ص۳۰۶.
29. الموافقات، ج۴، ص۷۴.
30. رازی، مقدمہٴ کتاب الجرح و التعدیل .
31. حج (۲۲) آیہ ۷۸.
32. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۴.
33. ہمان، ص۱۳۶.
34. صحیح مسلم، ج۲، ص۲۷۰، اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۷.
35. تاریخ طبری، ج۴، ص۲۰۰.
36. شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص ۹۹.
37. التقریر و التحبیر فی شرح التحریر، ج۳، ص۹۹ .
38. جامع بیان العلم، ج۲، ص۸۹.
39. ہمان، ج۲، ص۹۰.
40. الکامل.
41. لسان المیزان، ج۲، ص۱۳۷.
42. البحر المحیط، ج۲، ص۵۲۸.
43. تخریج احادیث الکشاف در حاشیہٴ کشاف، ج۲، ص۶۲۸.
44. جامع بیان العلم، ج۲، ص۹۰.
45. فیض القدیر، ج۴، ص۷۶.
46. ہمان .
47. بحر المحیط، ج۵، ص۵۲۷.
48. المنتقی، ص۵۵۱.
49. سلسلة الاحادیث الضعیفة، ج۱، ص۷۸.
50. میزان الاعتدال .
51. اعلام الموقعین، ج۲، ص۲۲۳.
52. تخریج احدیث الکشاف، ج۲، ص۶۲۸.
53. جامع الصغیر، ج۴، ص۷۶.
54. کنز العمال، ج۶، ص۱۳۳.
55. ارشاد الفحول، ص۸۳.
56. سنن دارمی ج۲، ص۳۶۵، تفسیر طبری، ج۶، ص۳۰، تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص۲۶.
57. احقاف (۴۶) آیہ ۱۵.
58. موطا مالک، ج۲، ص۷۶، سنن الکبری، ج۷، ص۴۴۲، تفسیر ابن کثیر، ج۴، ص۱۵۷، عمدة القاری، ج۹، ص۶۴۲و در المنثور، ج۶، ص۴۰.
59. معانی الاخبار، ص۱۵۶- ۱۵۷.
60. ہمان، ص۱۵۷.
61. الاصول الستۃ عشر، ص۱۶، لسان المیزان، ج۱، ص۱۳۶.
62. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۷.
63. ہمان، ص۱۳۹.
64. ہمان، ص۱۳۸.
65. بقرہ (۲) آیہ ۲۱۶.