ولایت اور ہجرت
ہجرت کا شمار اُن مسائل میں ہوتا ہے جو ولایت کے بارے میں ہمارے پیش کردہ وسیع مفہوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔پچھلی تقاریر میں ہم نے عرض کیاتھا کہ ولایت کے معنی ہیںمومنین کی صف میںموجود عناصر کے مابین مضبوط اور مستحکم باہمی رابطے کا قیام‘مومن اور غیر مومن صفوںکے درمیان ہر قسم کی وابستگی کا خاتمہ‘اور بعد کے مراحل میں مومنین کی صف کے تمام افراد کا اُس مرکزی نقطے اور متحرک قوت یعنی ولی‘حاکم اور امام سے انتہائی مضبوط اور قوی ارتباط جس کے ذمے اسلامی معاشرے کی تنظیم و تشکیل ہے ۔
ہم نے اِس بارے میں بھی گفتگو کی تھی کہ کون اشخاص اسلامی معاشرے کے ولی اور حاکم ہو سکتے ہیں اور اِس کا جواب قرنِ کریم سے حاصل کیاتھا ‘جو کہتا ہے کہ :
’’اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ ٰامَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ يُْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ همْ رَاکِعُوْنَ۔‘‘(١)
اوراس یت کے حوالے سے ہم نے امیر المومنین صلوات ا علیہ کے قصّے کی جانب
١۔تمہارا ولی امر صرف خدا ‘ اُس کا رسول اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت ِ رکوع میں زکات دیتے ہیں ۔(سورہ مائدہ ٥۔یت ٥٥)
اشارہ کیا تھا ۔
اگر ہم ولایت کو اس وسعت کے ساتھ سمجھیںاور اسے فروعی اور دوسرے درجے کا مسئلہ قرار دے کر چھوڑ نہ دیں‘ تو ولایت قبول کرنے کے بعد جن چیزوں کا سامنا ہوسکتا ہے اُن میں سے ایک چیزہجرت بھی ہے۔کیونکہ اگر ہم نے خدا کی ولایت کو قبول کیا‘اور اس بات کو مان لیا کہ انسان کی تمام جسمانی‘فکر ی اورروحانی قوتوں اور صلاحیتوں کو ولی الٰہی کی مرضی اور منشا کے مطابق استعمال ہونا چاہئے‘
مختصر یہ کہ انسان کو اپنے وجود کے تمام عناصر کے ساتھ بندہ خدا ہونا چاہئے ‘ نہ کہ بندہ طاغوت‘تو لامحالہ ہمیں یہ بات بھی قبول کرنی پڑے گی کہ اگر کسی جگہ ہمارا وجود‘ہماری ہستی اور ہماری تمام صلاحیتیں ولایت ِ الٰہی کے تابع فرمان نہ ہوں‘ بلکہ طاغوت اور شیطان کی ولایت کے زیرِ فرمان ہوں‘تو خدا سے ہماری وابستگی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے پ کو طاغوت کی قید و بند سے زاد کرائیں اور ولایت ِ الٰہی کے پُر برکت اور مبارک سائے تلے چلے جائیں۔ظالم حاکم کی ولایت سے نکل کر امامِ عادل کی ولایت میں داخل ہوجانے کا نام ہجرت ہے۔
پ نے دیکھا کہ ہجرت ولایت سے منسلک مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔ یہ وہ چوتھا نکتہ ہے جس پر ولایت کے بارے میںکی جانے والی اِن تقاریر کے سلسلے میں ہم گفتگو کریں گے۔
انفرادی ہجرت ایک انسان کو طاغوت اور شیطان کی ولایت کے تحت نے سے کیوں بچنا چاہئے ؟
اس سوال کا جواب ایک دوسرے سوال کے جواب سے وابستہ ہے ‘ اورہم پ سے چاہتے ہیں کہ پ فوراً اپنے ذہن میں اس سوال کا اِس انداز سے تجزیہ و تحلیل کیجئے گا کہ پ خوداپنے پاس موجود اسلامی اور مذہبی تعلیمات اور معلومات کے مطابق اِس کا جواب دے سکیں ۔اسکے بعد اگر پ کا جواب اُس جواب جیسا نہ ہوا جو ہمارے ذہن میں ہے اورہمارے جواب سے مختلف ہوا‘تب اس موضوع پر گفتگو کی گنجائش رہے گی۔
سوال یہ ہے کہ :کیا طاغوت کی حکومت میں رہتے ہوئے مسلمان نہیں رہا جاسکتا ؟
کیا یہ ممکن نہیںہے کہ ایک مسلمان شیطان کی ولایت کے تحت زندگی بسر کرے ‘ لیکن رحمان کا بندہ ہو ؟
ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں ؟
کیا یہ ممکن ہے کہ: انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں اور اسکی حیات کے تمام گوشوں پر ایک غیر الٰہی عامل کی حکمرانی ہو‘ انسانوں کے جسموں اور اُن کی فکروں کی تنظیم و تشکیل اور اُن کا انتظام وانصرام ایک غیر الٰہی عامل کے ہاتھ میں ہو‘یہی غیر الٰہی عامل افراد ِ معاشرہ کے جذبات و احساسات کو بھی کبھی اِس رُخ پر اور کبھی اُس رُخ پر دھکیل رہا ہو اورانسان اِس قسم کے طاغوتی اور شیطانی عوامل کے قبضہ قدرت میںزندگی بسر کرنے کے باوجود خدا کا بندہ اور مسلمان بھی ہو۔
کیا یہ چیزممکن ہے ‘یا ممکن نہیں ہے ؟
پ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کیجئے اور اپنے ذہن میں اِس کا جواب تیار کیجئے ‘دیکھئے یہ ہوسکتا ہے یا نہیں ہوسکتا ؟
اِس سوال کا جواب دینے کے لئے خود اِس سوال کاکچھ تجزیہ وتحلیل کرناضروری ہے ‘تاکہ جواب واضح ہوجائے ۔
ہم نے پوچھاہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی انسان شیطان کی ولایت کے تحت ہو‘ اِسکے باوجود مسلمان بھی ہو ؟
اِس سوال کے دو اجزا ہیںاور ہمیں چاہئے کہ ہم اِن دو اجزا کا درست تجزیہ و تحلیل کریں ‘ اور دیکھیں کہ اِن کے کیا معنی ہیں ؟
پہلا جز یہ ہے کہ کوئی شخص شیطان کی ولایت کے تحت ہو۔
شیطان کی ولایت کے تحت ہونے کے کیا معنی ہیں ؟
اگر ولایت کے اُن معنی کو جو ہم نے یات ِقرنی سے اخذ کئے ہیں ‘ ’’ولایت ِشیطان ‘‘ کی عبارت کے پہلومیں رکھیں ‘ تو معلوم ہوجائے گا کہ ولایت ِ شیطان سے کیا مراد ہے ۔
ولایت ِ شیطان سے مرادیہ ہے کہ شیطان (شیطان کے اُنہی مجموعی معنی کے مطابق جنہیں ہم نے بارہا بیان کیا ہے ) انسان کے وجود میںپائی جانے والی تمام توانائیوں ‘ صلاحیتوں ‘ تخلیقی قوتوں اور اعمال پر مسلط ہو اور انسان جو کچھ انجام دے وہ شیطان کے معین کردہ دستور کے مطابق ہو‘انسان جو کچھ سوچے وہ اس سمت میں ہو جس کا تعین شیطان نے کیا ہے‘ اُس انسان کی طرح جو کوہساروں سے نیچے بہنے والے سیلاب کی لپیٹ میں ہو۔ اس انسان کو یہ بات پسند نہیں ہوتی کہ وہ سخت اور کھردری چٹانوں سے ٹکرائے اوراُس کا سر پاش پاش ہوجائے ‘اُسے یہ بات پسند نہیں ہوتی کہ وہ اس پانی میں بہتے ہوئے گہرے گڑھے میں جاپڑے ‘اُسے یہ بات پسند نہیںہوتی کہ پانی کی ان موجوں کے درمیان اُس کا دم گھٹ کے رہ جائے۔باوجود یہ کہ اُسے پسند نہیں ہوتا لیکن پانی کا یہ تیز و تند ریلا بغیر اُسکی مرضی کے اُسے بہائے لئے جاتا ہے ‘وہ ہاتھ پاؤںبھی مارتا ہے‘وہ کبھی اِس طرف اور کبھی اُس طرف سہارا بھی لیتا ہے ‘راستے میں نے والے پودوں اور درختوںکو پکڑنے کی کوشش بھی کرتا ہے ‘لیکن پانی کا تیز بہاؤ اُسے بے اختیار بہائے لئے جاتا ہے ۔
ولایت ِ طاغوت اور ولایت ِ شیطان اسی قسم کی چیز ہے ۔
لہٰذا یت ِ قرن کہتی ہے:
’’وَجَعَلْنهمْاٰا اَئِمَّة يَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ۔‘‘
’’ایسے رہنمااور قائدین بھی ہیں جو اپنے پیروکاروں اور زیرِ فرمان افراد کو دوزخ کی گ اور بد بختی کی طرف کھینچے لئے جاتے ہیں۔‘‘
(سورہ قصص ٢٨۔ یت ٤١)
قرنِ مجید کی ایک دوسری یت فرماتی ہے :
’’اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اِ کُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهمْ دَارَ الْبَوَارِ جَهنَّمَ يَصْلَوْنَها وَ بِئْسَ الْقَرَارُ ۔‘‘(١)
کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمت کا کفران کیا ؟
وہ نعمت جس کا اُن لوگوں نے کفران کیا ‘کیا تھی؟
نعمت ِ قدرت ‘جو پروردگار کی قدرت کا مظہر ہے‘دنیوی طاقتیں‘انسان کے معاملات کے نظم ونسق کی نعمت‘انسانوں کی بکثرت صلاحیتوں ‘ افکاراور قوتوںکو ہاتھ میں رکھنے کی نعمت ‘ یہ سب کی سب چیزیں نعمت ہیں اور ایسے سرمائے ہیں جو انسان کے لئے خیر کا سرچشمہ ہوسکتے ہیں ۔
اِ س یت میں جن افراد کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اُن کی فرمانروائی میںزندگی گزارنے والاہر انسان ایک عظیم اور بزرگ انسان بن سکتاتھا‘اور کما ل کے بلند ترین درجات تک رسائی پاسکتاتھا۔لیکن ان لوگوں نے نعمات کا کفران کیااور جس مقصد کے لئے اُن سے استفادہ کرنا چاہئے تھا اُس مقصد کے لئے اُنہیںاستعمال نہیںکیا ۔
اسکے بعد فرماتا ہے :
وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهمْ دَارَ الْبَوَارِ(اوروہ خودجانتے بوجھتے ‘ اپنی قوم اور اپنے زیرِ فرما ن لوگوں کو نیستی و نابودی اور ہلاکت کے گڑھے کی طرف لے گئے)
جَهنَّمَ يَصْلَوْنَها وَ بِئْسَ الْقَرَارُ( اُنہیں جہنم کی طرف لے گئے ‘ جس میں الٹے منھ پھینکے جائیں گے اور یہ کیسی بُری جگہ اور ٹھکانہ ہے)
یہ یت امام موسيٰ ابن جعفر علیہما السلام نے ہارون کے سامنے پڑھی اور ہارون کو یہ بات باور کرائی کہ تو وہی شخص ہے جو اپنی قوم کو اور اپنے پ کو بد ترین منزل اورمہلک ترین ٹھکانے سے ہمکنار کرے گا ۔
ہارون نے (امام سے) سوال کیا تھا کہ کیا ہم کافر ہیں ؟ اُسکی مراد یہ تھی کہ کیا ہم خدا ‘ پیغمبر اور دین پر عقیدہ نہیں رکھتے ہیں ۔
لہٰذاامام ٴنے اُسکے جواب میں اِس یت کی تلاوت فرمائی ‘تاکہ اسے یہ بات ذہن نشین کرادیں کہ کافر فقط وہی شخص نہیں ہوتا جو صاف اور صریح الفاظ میں خدا کاانکار کرے‘ یا قرن کوجھٹلائے ‘ یا پیغمبر کو مثلاً افسانہ کہے۔ٹھیک ہے کہ اِس قسم کا شخص کافر ہے اور کافر کی بہترین قسم سے ہے جو صریحاً اپنی بات کہتا ہے اور انسان اسے پہچانتا ہے اور اسکے بارے میںاپنے موقف کا اچھی طرح تعین کرتا ہے ۔
کافر سے بدتر شخص وہ ہے جو ان عظیم نعمتوں کا کفران کرے جو اسے میسّر ہیںاور اُنہیں غلط راستے میں استعمال کرے ۔ایسا شخص نہ صرف اپنے پ کو بلکہ اپنے ماتحت تمام انسانوں کو جہنم میںجھونک دیتا ہے ۔
طاغوت کی ولایت ایسی ہی چیز ہے ۔وہ شخص جو طاغوت کی ولایت میںزندگی بسر کرتا ہے‘ اُسے گویااپنے اوپر کوئی اختیارحاصل نہیں ہوتا ۔ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ با لکل ہی بے اختیار ہوتا ہے ۔بعد میں جب ہم یہ قرن کے معنی بیان کریں گے‘ تو اس نکتے کی تفسیر واضح ہوجائے گی۔ البتہ وہ شخص سیلابی ریلے کی زد پرہوتا ہے اوراُس میں بہا چلا جاتا ہے ۔وہ ہاتھ پاؤں مارنا چاہتا ہے ‘ لیکن نہیں مار پاتا ‘ وہ دیکھتا ہے کہ تمام لوگ جہنم کی طرف جارہے ہیں اور اُسے بھی اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔لہٰذاوہ جہنم کے راستے سے پلٹنا چاہتا ہے ۔}لیکن بے بس ہوتا ہے{
کیا پ کبھی کسی مجمع میں پھنسے ہیں ؟ اِس موقع پر پ کا دل چاہتا ہے کہ ایک طرف ہوجائیں ‘ لیکن مجمع پ کو ایک تنکے کی طرح اٹھا کر دوسری طرف پھینک دیتا ہے ۔
ایسا شخص جو طاغوت کے زیرِ ولایت ہو ‘
وہ چاہتا ہے کہ نیک بن جائے ‘ صالح زندگی بسر کرے ‘ ایک انسان کی طرح زندگی گزارے ‘ مسلمان رہے اور مسلمان مرے ‘
لیکن ایسانہیں کر سکتا ۔
یعنی معاشرے کا ریلا اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لئے جاتا ہے ‘اور اِس طرح لئے جاتا ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں بھی نہیں مار سکتا ۔وہ اگر ہاتھ پاؤں مارتا بھی ہے‘ توسوائے اپنی قوت کے زیاں کے اسے کچھ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا ۔وہ نہ صرف ہاتھ پاؤں نہیں مارپاتا ‘بلکہ اِس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کبھی کبھی وہ اپنی حالت کو بھی نہیں سمجھ پاتا ۔
مجھے نہیں معلوم پ نے سمندر سے شکار ہوتی مچھلیوں کو دیکھا ہے یا نہیں ۔کبھی کبھی ایک جال میں ہزاروں مچھلیاں پھنس جاتی ہیں ‘ جنہیں سمندر کے وسط سے ساحل کی طرف کھینچ کر لاتے ہیں ‘لیکن اُن میں سے کوئی مچھلی یہ نہیں جانتی کہ اُسے کہیں لے جایا جارہا ہے ‘ ہر ایک یہ تصور کرتی ہے کہ وہ خود اپنے اختیار سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ۔لیکن درحقیقت وہ بے اختیار ہوتی ہے ‘اُسکی منزل وہی ہوتی ہے جس کی جانب جال کا مالک وہ شکاری اسے لے جا رہا ہوتا ہے۔
جاہلی نظام کا غیر مرئی جال انسان کو اس سمت کھینچتا ہے جس سمت اس جال کی رہنمائی کرنے والے چاہتے ہیں۔اس نظام میں زندگی گزارنے والا انسان بالکل نہیں سمجھ پاتا کہ وہ کہاں جارہا ہے ۔کبھی کبھی تو وہ اپنی دانست میں یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ سعادت اور کامیابی کی منزل کی طرف گامزن ہے ‘جبکہ اُسے نہیں معلوم ہوتاکہ وہ جہنم کی طرف جارہا ہے: جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ۔
یہ ولایت ِ طاغوت اور ولایت ِ شیطان ہے ۔
یہ پہلی عبارت اُن دو عبارتوں میں سے ایک تھی جن سے مل کر (مذکورہ بالا ) سوال بنا تھا۔ اور سوال یہ تھا کہ کیا طاغوت اور شیطان کی ولایت اورحکومت میں رہتے ہوئے مسلمان نہیں رہا جاسکتا؟
اجمالاً ہم نے طاغوت کی ولایت اور حکومت میں زندگی گزارنے کو سمجھ لیا ہے۔ یعنی یہ جان لیا ہے کہ اِس سے کیا مراد ہے۔اگر ہم اِسکی تفسیر کرنا چاہیں ‘تو ایک مرتبہ پھر تاریخ کی طرف پلٹ سکتے ہیں ۔
پ دیکھئے بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں عالمِ اسلام کس جوش و خروش سے محو ِ سفر تھا ۔ دیکھئے اُس دور کے اسلامی معاشرے میں علم ودانش کی کیسی عظیم لہر اُٹھی تھی‘کیسے کیسے عظیم اطبّاپیدا ہوئے تھے ‘ زبان دانی اور عموی علمی افلاس کے اُس دور میں عالمِ اسلام میں کیسے عظیم مترجمین پیدا ہوئے تھے‘ جنہوں نے قدیم تہذیبوں کے عظیم ثار کو عربی زبان میں ترجمہ کیااور اُن کی نشر و اشاعت کی ۔مسلمان تاریخ‘حدیث ‘ علومِ طبیعی ‘ طب اورنجوم کے شعبوں ‘حتيٰ فنونِ لطیفہ میںبھی انتہائی ممتازمقام کے مالک تھے ۔ یہاں تک کہ ج بھی جب فرانس سے تعلق رکھنے والے گسٹاف لوبون کی مانند ایک شخص‘ یاکوئی اور مصنف اورمستشرق ان ظاہری باتوں کو دیکھتاہے ‘تو اسلام کی دوسری‘ تیسری اور چوتھی صدیوںکو اسلام کے عروج کی صدیاں قرار دیتا ہے ۔
گسٹاف لو بون نے ’’چوتھی صدی ہجری میںتاریخِ تمدنِ اسلام ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ۔ایک ایسا تمدن جسے وہ ایک عظیم تمدن سمجھتا ہے اور چوتھی صدی ہجری کواس عظیم تمدن کی صدی بیان کرتا ہے۔ مجموعی طور پر جب کوئی یورپی مستشرق دوسری ‘ تیسری اور چوتھی صدی ہجری پر نگاہ ڈالتا ہے ‘ تووہ دنگ رہ جاتا ہے۔ اِسکی وجہ یہ ہے کہ اُس وقت کے اسلامی معاشرے میںحیرت انگیزگرمیاں‘ صلاحیتیں اورلیاقتیں ظاہر ہوئی تھیں۔
لیکن ہم پ سے سوال کرتے ہیں کہ یہ تمام سرگرمیاں اور صلاحیتیں‘جو اس دورمیں ظاہر ہوئیں ‘ کیا ان کا نتیجہ اسلامی معاشرے اور انسانیت کے مفاد میں برمد ہوا ؟
ج اُس زمانے کو دس صدیاں گزر چکی ہیں‘اور ہم اس زمانے کے بارے میں کسی تعصب کا شکار نہیں ہیں اور غیر مسلم دنیا کے با لمقابل ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ عالمِ اسلام تھا جس نے جامعات کی بنیاد رکھی ‘یہ عالمِ اسلام تھا جس نے فلسفے کی تشکیل کی ‘یہ عالمِ اسلام تھا جس نے طبابت اور طبیعیات کے میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ لیکن کیا خود اپنے حلقوں میں ہم حق و انصاف کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُن تمام قوتوں اور صلاحیتوں کا نتیجہ ٹھیک ٹھیک ‘ برمحل اور انسانیت اور اسلامی معاشرے کے مفاد میں برمد ہوا ؟
ج دس صدیاں گزرنے کے بعداسلامی معاشرے کے پاس اُس میراث میں سے کیا باقی ہے ؟ اور کیوں باقی نہیں ہے ؟
خر وہ علمی اورتہذیبی دولت ہمارے لئے کیوںباقی نہ بچ سکی ؟
ہم دس صدی پہلے کے اُس تابناک معاشرے کی طرح ج کیوںدنیا میںدرخشاں اور جلوہ نما نہیں ؟ کیا اسکی وجہ اسکے سوا کچھ اور ہے کہ وہ تمام سرگرمیاں اور جلوہ نمائیاں طاغوت کی حکمرانی میں رہتے ہوئے تھیں ۔
من ن نگین سلیمان بہ ہیچ نستانم
کہ گاہ گاہ بر اودست اھر من باشد
ان گمراہ کن قیادتوں نے اسلامی معاشرے کے ساتھ کھیل کھیلا ‘اوراپنانام اونچا کرنے اور یہ کہلوانے کے لئے کہ مثلاً فلاں عباسی خلیفہ کے دورِ اقتدار میں فلاں کام ہوا ‘ مختلف کام کئے۔
اگر یہ حکمراں طبیعیات ‘ ریاضی‘ نجوم‘ ادب اور فقہ کے میدانوں میں علمی ترقی کی بجائے ‘فقط اتنی اجازت دیتے کہ علوی حکومت برسرِ اقتدار جائے ‘امام جعفرصادقٴ کی حکومت قائم ہوجائے‘ اسلامی معاشرے کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں امام جعفر صادقٴ کے ہاتھ میں جائیں‘ پورے اسلامی معاشرے کی سرگرمیوں کاتعین امام جعفر صادقٴ کریں۔ اس صورت میں اگر مسلمان علمی اور ادبی لحاظ سے‘ ان باتوں کے اعتبار سے جن پر ج دنیا ئے اسلام فخروناز کرتی ہے سو سال پیچھے بھی رہتے ‘ تب بھی یہ انسانیت کے فائدے میں ہوتا۔ انسانیت ترقی کرتی‘ اسلام پھلتا پھولتا‘ اسلامی معاشرے کی صلاحیتیں اور قوتیں صحیح راہ میں استعمال ہوتیں۔ پھر یہ صورت نہ رہتی کہ کتابیں تو ترجمہ کرتے‘ طب اور سائنس کے میدانوں میںترقی کو بامِ عروج پر پہنچا دیتے‘ لیکن انفرادی اور اجتماعی اخلاق کے اعتبار سے اس قدر کمزور ہوتے‘ کہ اُس دور میںپایا جانے والا طبقاتی فرق ج بھی تاریخ میں بطور یادگار محفوظ ہے۔ بالکل ج کی دنیا کے غلیظ اور ذلت میز تمدن کی طرح‘ کہ ج کی بڑی حکومتیں عقلوں کو دنگ کر دینے والی اپنی ایجادات پر تو فخر کرتی ہیں‘ مثلاً کہتی ہیں کہ ہم نے فلاں دوا ایجاد کی ہے ‘ فلاں کام کیا ہے‘ علمی لحاظ سے فلاں شعبے میں ترقی کی ہے‘ لیکن یہ حکومتیں انسانی اقدار اور اخلاقی اعتبار سے اب بھی ہزار ہا سال پرانی تاریخ جیسے حالات میں زندگی بسر کر رہی ہیں ۔ ج بھی بے پناہ مال و دولت‘ بے انتہا فقر و افلاس کے پہلو بہ پہلو موجود ہے۔ ج بھی غریب ممالک کے لاکھوں‘ کروڑوں بھوکے انسانوں کے مقابل صرف ایک فی صد انسان دولت کی فراوانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اسکے باوجود یہ حکومتیں اپنی سائنسی ترقی پر نازاں ہیں۔
دوسری ‘ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا عظیم اسلامی تمدن اسی صورتحال سے دوچار تھا۔ اُس دور میںبہت زیادہ علمی ترقی ہوئی ‘لیکن امیر طبقے کا راج تھا‘ عیش وعشرت کا چلن تھا اور اسکے مقابل انسانیت اور انسانی فضیلتوںسے بے خبری اور طبقاتی اونچ نیچ انتہائی درجے پر موجود تھی۔ اُس زمانے میں بھی ایک طرف لوگ بھوک سے مرتے دکھائی دیتے تھے‘ تودوسری طرف بسیار خوری بہت سے لوگوں کی موت کا سبب بنتی تھی۔
خر کیا وجہ تھی کہ اُس دور کا اسلامی معاشرہ اپنی علمی سرگرمیوں اور نشاط کے باوجودانسانی فضائل وکمالات کاگلستاںنہیں بن سکا ؟
دوسری اور تیسری صدی ہجری سے تعلق رکھنے والی جن شخصیتوں کا تذکرہ فخر وناز کے ساتھ کیا جاسکتا ہے ‘اور جن کا نام ہم دنیا میں قابلِ افتخار ہستیوں کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں‘وہ لوگ ہیںجنہوں نے اس متمدن نظام کے خلاف شدت سے جنگ کی۔ مثال کے طور پر معلی بن خنیس کا نام لیا جاسکتا ہے‘جنہیں بیچ بازار میں سولی پر لٹکا یا گیا۔ یحیيٰ ابن امِ طویل کا نام لیا جاسکتا ہے‘ جن کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے گئے ‘جن کی زبان کھینچ لی گئی۔ محمدا بن ابی عمیر کا نام لیا جاسکتا ہے‘جنہیں چار سو تازیانے مارے گئے ۔یحیيٰ ابن زیدکا نام لیا جاسکتا ہے‘ جنہیںصرف اٹھارہ برس کے سن میں خراسان کی پہاڑیوں میںشہید کیا گیا ۔زید بن علی کا نام لیا جاسکتا ہے‘جن کے جسد کو چار سال سولی پر لٹکائے رکھا گیا ۔
یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے ناموں کو ہم ج دنیائے انسانیت کے قابلِ فخر افراد کی فہرست میںجگہ دے سکتے ہیں ۔اِن حضرات کااُس پر شکوہ تمدن سے کوئی تعلق نہ تھاجس کا ذکر گسٹاف لوبون نے کیا ہے‘بلکہ یہ اُس تمدن کے مخالفین میں سے تھے ۔
پس دیکھئے کہ جن معاشروں اور جن انسانوں پر طاغوت اور شیطان کی حکمرانی ہوتی ہے اور جن کے معاملات کی باگ ڈورطاغوتی اور شیطانی ہاتھوں میں ہوتی ہے‘اُن معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے افراد کی قوتیںاستعمال ہوتی ہیں‘ اُن کی صلاحیتیں بروئے کارتی ہیں‘ لیکن بالکل اُسی طرح جیسے ج کی متمدن دنیا میں کام تی ہیں‘اُسی طرح جیسے اب سے دس گیارہ سو سال پہلے عالمِ اسلام میں کام میں تی تھیں۔یہ ساری ترقیاں اُسی طرح بے قیمت ہیں جیسے اعليٰ اقدار اورانسانی فضیلتوںکی نظرمیں چوری سے کمایا ہوا مال بے حیثیت ہوتاہے۔ یہ ہوتی ہے طاغوت کی ولایت اورحکومت۔
ان خصوصیات کے ساتھ کیا طاغوت کی حکومت کے تحت ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کی جاسکتی ہے ؟
ذرا دیکھتے ہیںکہ دراصل مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کے معنی کیا ہیں ؟
مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کے معنی ہیں انسان کے تمام وسائل ‘ قوتوں اور صلاحیتوں کا مکمل طور پر خدا کے اختیار میں ہونا‘اُسکے مال و دولت اوراُسکی تمام چیزوں کا خدا کے اختیار میں ہونا‘اُسکی جان کا خدا کے اختیار میں ہونا ‘اُسکی فکر اور سوچ کا خدا کے اختیار میں ہونا ۔
اِس حوالے سے بھی ہمارے پاس معاشرے اورمدنیت کی صورت میںموجود اجتماعات اور طاغوتی نظاموں سے سرکشی اختیار کرکے باہر نکلنے والے اور خدا کی طرف ہجرت کرنے والے گروہوں کی مثالیں موجود ہیں۔
پہلی مثال پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ ولہ وسلم کے زمانے میں مدینہ کے معاشرے کی ہے۔ مدینہ ایک ’’بندہ خدا‘‘ معاشرہ تھا‘ایک مسلمان معاشرہ تھا‘وہاں جو قدم بھی اٹھتا راہِ خدا میں اٹھتا۔وہاں اگر یہودی اور عیسائی بھی اسلامی حکومت کے زیرِ سایہ زندگی بسر کرتے تھے‘ تو اُن کی زندگی بھی اسلامی زندگی تھی۔ اسلامی معاشرے میںعیسائی اور یہودی اہلِ ذمہ افراد بھی اسلام کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ایسے معاشرے میںاعمال کے لحاظ سے ایک شخص یہودی ہوتا ہے‘ لیکن معاشرے کے ایک رکن کے لحاظ سے اُس مسلمان سے کہیں زیادہ مسلمان ہوتاہے جوایک جاہلی نظام کے تحت زندگی بسر کرتا ہے ۔
زمانہ پیغمبر۰ میں مال و دولت ‘نیزہ وتلوار‘فکر اور سوچ‘تمام انسانی اعمال ‘حتيٰ جذبات واحساسات بھی راہِ خدا میںہوتے تھے ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں بھی کم و بیش یہی صورت تھی ۔اِس لئے کہ امیر المومنین ٴ حاکمِ الٰہی اور ولی خدا ہونے کے ناطے پیغمبراسلام ۰سے مختلف نہ تھے۔ لیکن وہ ایک بُرے معاشرے کے وارث تھے ‘ اُن پیچیدگیوں اورمسائل کے وارث تھے ‘ اوراگرامیرالمومنین ٴکی جگہ خود پیغمبر اسلا۰م بھی ہوتے اور پچیس سال بعدایک مرتبہ پھرمسند ِ حکومت پر جلوہ افروز ہوتے ‘ تو یقیناً انہی مشکلات کا سامنا کرتے جو امیر المومنین ٴ کو درپیش تھیں ۔
گروہی ہجرت
گروہی صورت میں ہجرت کی تاریخی مثال ‘ ائمہ اہلِ بیت ٴ کے ماننے والے شیعوں کی ہجرت ہے ۔افسوس کہ ماہِ رمضان ختم ہوگیا اور ہم تفصیل کے ساتھ امامت کی بحث تک نہیں پہنچ سکے‘ وگرنہ ولایت کے بعد امامت کی گفتگو کرتے اور پ کو بتاتے کہ ائمہ ٴ کے زمانے میں شیعہ کس قسم کاگروہ تھے ‘ اور یہ بات واضح کرتے کہ شیعوں کے ساتھ امام ٴکے روابط وتعلقات اورپھر شیعوںکے اپنے معاشرے کے ساتھ روابط وتعلقات کی نوعیت کیا ہوا کرتی تھی ۔لیکن اب ہم مجبورہیں کہ اسے اجمالی طور پر عرض کریں ۔
شیعہ بظاہر طاغوتی نظام میں زندگی بسر کرتے تھے ‘ لیکن باطن میں طاغوتی نظام کے یکسر برخلاف گامزن ہوتے تھے ۔اس سلسلے میں بطورِمثال اُس گروہ کا نام لیا جاسکتا ہے جو حسین ابن علی ٴ کے ہمراہ تھا۔ ان لوگوں نے اس سیلاب کامقابلہ کیا اور اس سیلابی ریلے کی مخالف سمت چلے جو انہیں اپنے ہمراہ بہاکرلیجانا چاہتا تھا۔یہ تاریخ میں گروہی ہجرت اور انقلاب کی مثالوں میں سے ایک مثال ہے ۔لیکن عام افراد ‘ اور کلی طور پر عرض کریں کہ ایک فرد کسی طاغوتی معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہوئے مسلمان باقی نہیں رہ سکتا اور اُس کا وجود ‘ اُس کے وسائل‘اُسکی قوتیں اور اُسکی تمام تر صلاحیتیں احکامِ الٰہی کے تابع نہیں رہ سکتیں ۔ایساہونامحال ہے ۔
اگر ایک مسلمان طاغوتی ماحول اور طاغوتی نظام میں زندگی بسر کرے‘ تو بہر حال اسکی اسلامیت کا ایک حصہ طاغوت کی راہ پر ہوگا‘ وہ خدا کا سو فیصدبندہ نہیں ہوسکتا ۔
اصولِ کافی جو شیعوں کی معتبر ترین اور قدیم ترین کتابوں میں سے ہے‘ اُس میں اِس }درجِ ذیل{ حدیث کو کئی طریقوں سے نقل کیا گیا ہے ‘ پ کتاب الحجہ کے باب’’ اس شخص کے بارے میں جس نے منصوص من اللہ امام کے بغیر خدا کی عبادت کی ‘‘ میںمطالعہ کیجئے‘اس روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’اِنَّ اَ لاٰ يَسْتَحِیی اَنْ يُعَذِّبَ اُمّہ دانَتْ بِاِمٰامٍ لَيْسَ مِنَ اِ وَاِنْ کٰانَتْ فِی اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً وَاِنَّ اَ لَيَسْتَحْيِی اَنْ يُعَذِّبَ اُمَّۃً دانَتْ بِاِمٰامٍ مِنَ اِ وَاِنْ کَانَتْ فی اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِیئَۃً۔‘‘(۲)
عجیب حدیث ہے ‘یہ حدیث کہتی ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے ولی کی حکومت کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں ‘ اہلِ نجات ہیں‘اگرچہ وہ اپنے انفرادی اور نجی افعال میں کبھی کبھار گناہوں میں بھی مبتلا ہوجاتے ہوں ۔ اور وہ لوگ جو شیطان اور طاغوت کی حکومت کے تحت زندگی بسر کرتے ہیںوہ بد بخت اور عذاب کا شکار ہونے والے لوگ ہیں ‘ اگرچہ وہ اپنے انفرادی اور شخصی کاموں میں نیکو کار اور عملِ صالح انجام دینے والے ہی کیوں نہ ہوں ۔یہ انتہائی عجیب بات ہے ۔اگرچہ حدیث کو کئی طریقوں سے بیان کیا گیا ہے‘ لیکن سب یہی ایک معنی دیتے ہیں ۔
ہم ہمیشہ اس حدیث کے مفہوم کی وضاحت میں ایک ایسی گاڑی کی مثال پیش کرتے ہیں جس میں پ مثلاً نیشاپور جانے کے لئے سوار ہوں۔اگر یہ گاڑی نیشاپور کی طرف چلے گی‘ تو پ لازماً اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے اور اگر مثلاً طبس یا قوچان کی طرف جائے گی‘ تو لازماً پ اپنی منزل (نیشا پور ) نہیں پہنچ سکیں گے ۔
اب اگر نیشاپور جا نے والی گاڑی میں سوار مسافر ایک دوسرے کے ساتھ انسانی داب کے ساتھ میل جول رکھیں گے ‘ تو کیا خوب ‘ اور اگر انسانی داب اور نیکی و احسان کے ساتھ باہم میل جول نہیںرکھیںگے ‘تب بھی خرکار نیشا پور تو پہنچ ہی جائیںگے ۔ وہ اپنی منزل پر جا پہنچیں گے‘چاہے انہوں نے راستے میں کچھ بُرے کام بھی کئے ہوں۔ ان برے کاموں کے بھی ثار و نتائج ظاہر ہوں گے ‘ جنہیں برداشت کرنے پر وہ مجبور ہوں گے ۔لیکن منزل پربہرحال پہنچ جائیں گے۔ اس کے برخلاف وہ گاڑی جسے پ کو نیشا پور لے جانا چاہئے‘ وہ پ کو نیشا پور کے بالکل برعکس سمت لے جائے ۔اگر اس گاڑی کے تمام ا فراد مودب ہوں‘ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی احترام میز سلوک کریں‘ایک دوسرے کے ساتھ خنداں پیشانی سے میل جول رکھیں اور یہ دیکھیں کہ یہ گاڑی نیشاپور کی بجائے قوچان کی طرف جارہی ہے ‘ لیکن یہ دیکھنے کے باوجود کسی ردِ عمل کا اظہار نہ کریں ‘ تو ٹھیک ہے کہ یہ لوگ بہت اچھے انسان ہیں‘ایک دوسرے کے لئے انتہائی مہربان ہیں ‘ لیکن کیا اپنے مقصد اور منزل پر پہنچ سکیں گے ؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔
پہلی مثال میں گاڑی کا ڈرائیور ایک امین شخص تھا ‘ ایک محترم ومکرم انسان تھا :اِمٰام مِنَ ا تھا‘ جس نے اُنہیں منزلِ مقصود پر پہنچادیا ‘ اگر چہ وہ لوگ بد اخلاق تھے:وَاِنْ کَانَتْ فی اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِیئَۃً ۔جبکہ دوسری مثال میں گاڑی کا ڈرائیور راستے ہی سے واقف نہ تھا ‘ امین نہیں تھا ‘ خواہشِ نفس کا پجاری تھا ‘مست تھا ‘راہ سے بھٹکا ہوا تھا ‘اُسے قوچان میں کوئی کام تھا اور اُس نے اپنے کام کو لوگوں کی خواہش پر مقدم رکھا ۔اس گاڑی میں سوار لوگ کسی صورت اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے ۔اگرچہ یہ لوگ گاڑی کے اندر باہم انتہائی مہربان اور خوش اخلاق ہوں :وَاِنْ کٰانَتْ فِی اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً۔ لیکن خر کار عذابِ خدا کا سامنا کریںگے ‘ اپنی منزل نہیںپا سکیں گے۔
لہٰذا‘ایک ایسا معاشرہ جس کا انتظام و انصرام طاغوت کے ہاتھ میں ہو‘وہ اُس گاڑی کی مانند ہے جسے ایک غیر امین ڈرائیور چلا رہا ہو‘ اُس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے انسان اپنے مقصد اوراپنی منزل تک نہیں پہنچ سکیںگے اور مسلمان نہیں رہ سکیں گے ۔
اب سوال یہ پیش تا ہے کہ اِن حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے ؟
اِس سوال کا جواب قرنِ کریم کی یت دیتی ہے ‘ اور کہتی ہے:
’’اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰهمُ الْمَلٰئِکَة ظٰلِمِيْ اَنْفُسِهمْ قَالُوْا فِيْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْها فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاهمْ جَهنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘(۳)
قرنِ کریم فرماتا ہے : وہ لوگ جنہوں نے اپنے پ پر ‘ اپنے مستقبل پر اور اپنی ہر چیز پر ظلم کیا ہے‘ جب اُن کی موت قریب تی ہے ‘ تو اُن کی روح قبض کرنے پر مامورخدا کے فرشتے اُن سے پوچھتے ہیں ! فِيْمَ کُنْتُمْ۔تمکس حال میں تھے ؟ کہاں تھے ؟
جب سمانی فرشتہ یہ دیکھتاہے کہ اس انسان کی حالت اسقدر خراب ہے ‘جب وہ اُس طبیب یا اُس جراح کی مانند جو ایک بیمار کے معالجے کے لئے تاہے ‘ یہ دیکھتا ہے کہ بیمار کی حالت بہت خراب ‘ افسوس ناک اور مایوس کن ہے ‘ تو کہتا ہے : تم کہاں پڑے ہوئے ہو؟ تمہاری یہ حالت کیسے ہو گئی ؟
ہمیں یہ محسو س ہوتا ہے کہ ملائکہ اس بیچارے کی بری حالت پر‘ اسکی روح کی خستگی پر ‘ اس بدبختی اور عذاب پر جو اس کا منتظر ہے ‘ تعجب کرتے ہیںاور اس سے کہتے ہیں : تم نے کہاں زندگی بسر کی ہے ؟ تم کہاں تھے جو تم نے اپنے پ پر اس قدر ظلم کیا اوراب اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہورہے ہو ؟
وہ جواب میں کہتے ہیں :
’’قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِی الْاَرْضِ۔‘‘
ہم زمین پر جن لوگوں کے درمیان زندگی بسر کررہے تھے ‘ ان میں لاچار تھے ‘ ہم بے اختیار عوام میں سے تھے ۔
مستضعفین معاشرے کا وہ گروہ ہوتے ہیں جن کے اختیار میں معاشرہ نہیں ہوتا ۔ یہ لوگ مجبور ولاچار ہوتے ہیں ۔یہ لوگ معاشرے کی پالیسیوں‘اسکی راہ وروش‘ اسکی سمت و جہت ‘اسکی حرکت ‘ اسکے سکون اور اسکی سر گرمیوں کے سلسلے میں کوئی اختیار نہیںرکھتے ۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا‘یہ لوگ اُس سمت چل پڑتے ہیںجہاں اُن کی رسی کھینچنے والا چاہتا ہے ‘منھ اُٹھائے اسکے پیچھے چلے جاتے ہیں‘ انہیں کہیں جانے اور کچھ کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا ۔
نرسری کلاس کے چند بچوں کو فرض کیجئے ۔اُن بچوں کو نہیں جن کی عمر سات برس ہوچکی ہے ‘ کیونکہ ج کل سات برس کے بچوں کی نکھیں اور کان بھی ان باتوں سے بہت اچھی طر ح شنا ہیں ۔چار پانچ سال کے بچوں کو پیشِ نظر رکھئے ‘ جنہیں گزشتہ زمانے کے مکتب خانوں کی مانند ج نرسری اسکولوں میں بٹھا دیتے ہیں ۔ہمیں وہ مکتب یاد تا ہے جس سے ہم چھٹی کے وقت اکٹھے باہر نکلتے تھے۔ اصلاً ہمیں سمجھ نہیں ہوتی تھی کہ ہم کہاں جارہے ہیں ‘ بچوں کو بھی پتا نہیں ہوتا تھا کہ کون سی چیز کہاں ہے ۔ایک مانیٹر‘ یا ایک ذرا بڑا لڑکا ہماری رہنمائی کرتا تھا کہ اِس طرف جاؤ ‘ اُس طرف نہ جاؤ ۔ ہمیں با لکل خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ ہم کہاں چلے جارہے ہیں‘اچانک پتا چلتا تھا کہ اپنے گھر کے دروازے پرکھڑے ہیں یا اپنے دوست کے گھر کے دروازے پرموجودہیں۔ اب اگرکبھی اُس مانیٹر کا دل چاہتا کہ ہمیں گلی کوچوں میں پھرائے‘ تویکبارگی ہم دیکھتے کہ مثلاً ہم فلاں جگہ ہیں۔
زمین پر مستضعف لوگ وہ ہیں جنہیں ایک معاشرے میں رہنے کے باوجوداس معاشرے کے حالات کی کوئی خبر نہیں ہوتی ۔نہیں جانتے کونسی چیز کہاں ہے ۔ نہیں جانتے کہ کہاں چلے جارہے ہیں اور یہاں سے چل کر کہا ں پہنچیں گے ‘ اور کون انہیں لئے جارہاہے ‘ اور کس طرح یہ ممکن ہے کہ وہ اسکے ساتھ نہ جائیں‘اور اگر نہ جائیں تو انہیں کیا کام کرنا چاہئے۔
انہیں بالکل پتا نہیں ہوتا ‘ با لکل بھی متوجہ نہیں ہوتے ‘ اور با لکل کولھو کے بیل کی طرح جس کی نکھیں بند ہوتی ہیں‘جومسلسل چل رہا ہوتا‘ جواسی طرح چلتا رہتا ہے اور گھومتا رہتا ہے۔ اگر یہ حیوان کچھ سمجھ پاتاتوخود سے تصور کرتااور کہتا کہ اِس وقت مجھے پیرس میں ہونا چاہئے۔ لیکن جب غروبِ فتاب کے قریب اُسکی نکھیں کھولتے ہیں‘ تو وہ دیکھتا ہے کہ وہ تووہیں کھڑا ہے جہاں صبح کھڑا تھا ۔اسے بالکل پتا نہیں ہوتا کہ کہاں چلا ہے ‘نہیں جانتا کہ کہاں جارہا ہے ۔
البتہ یہ بات اُن معاشروں سے متعلق ہے جو صحیح نظام پر نہیں چلائے جاتے‘ اور انسان کی کسی حیثیت اور قدر و قیمت کے قائل نہیں ہوتے‘ اُن معاشروں سے متعلق نہیں جو انسان اور انسان کی رائے کی عزت اور احترام کے قائل ہیں‘ اُس معاشرے سے تعلق نہیںرکھتی جس کے قائد پیغمبر۰ ہیں‘جن سے قرنِ کریم کہتا ہے کہ:وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْر۔(۴)باوجود یہ کہ پ خدا کے رسول ہیں ‘ باوجود یہ کہ پ کو لوگوں سے مشورے کی ضرورت نہیں‘پھر بھی پ کو حکم دیا جاتا ہے کہ لوگوں سے مشورت کریں اور اُنہیں عزت واحترام دیں ‘ اُنہیں حیثیت دیں۔ ایسے معاشروں کے عوام لاعلم اور بے شعور نہیں ہوتے۔
تاہم وہ معاشرے جو مرانہ ‘ ظالمانہ ‘ یا جاہلانہ نظام پر چلائے جاتے ہیں ‘ وہاں کے اکثر لوگ مستضعف ہوتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِی الْاَرْضِ(ہم زمین پرمستضعفین میں سے تھے )اُنہوں نے ہمیں اسی طرح کھینچا‘ اُٹھایااور پٹخ دیا ‘ہمیںقدموں تلے پامال کیا‘بے برو کیا۔لیکن ہمیں پتا ہی نہیںچلا۔ وہ یہ عذرپیش کرتے اوریہ جواب دیتے ہیں۔
ان کے جواب میںملائکہ کہتے ہیں :
’’ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَة فَتُهاجِرُوْا فِيْها۔‘‘
کیا پروردگار کی زمین یہیں تک محدود تھی ؟
کیا پوری دنیاصرف اسی معاشرے تک محدود تھی جس میں تم مستضعف بنے زندگی بسر کر رہے تھے؟
کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی ‘ کہ تم اس قید خانے سے نکل کر ایک زاد خطہ ارضی میں چلے جاتے ‘جہاں تم خدا کی عبادت کرسکتے‘ایک ایسی سرزمین پرجہاں تم اپنی صلاحیتوں کا استعمال صحیح راستے پر کر سکتے ۔
کیا دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں تھی ؟
اِس جواب سے پتا چلتا ہے کہ ملائکہ کی منطق اورعقلمند انسانوں کی منطق بالکل یکساں ہے۔ انسان کی عقل بھی یہی کہتی ہے :
’’اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَة فَتُهاجِرُوْا فِيْها۔‘‘
’’کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے۔‘‘
اب اُن کے پاس کوئی جواب نہیںہوتا‘وہ بیچارے کیا کہیں ‘پتا ہے اُن کے پاس اِس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔لہٰذا قرنِ کریم ان بیچاروں کے انجام کے بارے میں کہتا ہے :
’’فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاهمْ جَهنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘
وہ مستضعفین جن کی قوتیںاور صلاحیتیں طاغوتوں کے ہاتھ میں تھیں‘اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ اوریہ انسان کے لئے کیسابُرا ٹھکانہ اور انجام ہے ۔
البتہ یہاں بھی ایک استثنا پایا جاتا ہے ‘ کہ سب کے سب لوگ ہجرت نہیں کرسکتے‘ تمام لوگ اپنے پ کو جاہلی نظام کی اس قید سے نجات نہیں دلاسکتے ۔کچھ لوگ ناتواں ہیں‘کچھ بوڑھے ہیں ‘کچھ بچے ہیں ‘کچھ عورتیں ہیں ‘جن کے لئے ہجرت ممکن نہیں ہے ۔
لہٰذا یہ لوگ مستثنا کئے جاتے ہیں :
’’اِِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لااَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَة وَّ لااَا يَهتَدُوْنَ سَبِيْلا۔‘‘
’’سوائے اُن ضعیف و ناتواں مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کے جن کے پاس کوئی چارہ نہیں اور جن سے کچھ نہیں بن پڑتا ۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔یت ٩٨)
ان کے پاس خطہ نور ‘ خطہ اسلام اور خدا کی عبودیت کی سر زمین کی جانب نے کی کوئی راہ نہیں‘ اور جو کچھ نہیں کر سکتے۔
’’فَاُولٰئِکَ عَسَی اُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْهمْ۔‘‘
’’پس وہ لوگ جو کچھ نہیںکر سکتے‘ امید ہے خدا وند ِمتعال اُنہیں معاف کر دے ۔‘‘
’’وَکَانَ اُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۔‘‘
’’اورخدا درگزر اور مغفرت کرنے والا ہے۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔یت ٩٩)
اسکے بعدوہ لوگ جن کے لئے یہ خطاب حجت ہے‘یہ نہ سمجھیں اور اُن کے ذہن میں یہ خیال نہ ئے کہ ہجرت اُن کے لئے بدبختی‘ ضرراور نقصان کا باعث ہوگی‘اوروہ بار بار اپنے پ سے یہ نہ پوچھیں کہ مثلاً ہمارا کیا بنے گا؟کیا ہم کچھ کر بھی سکیں گے یا نہیں؟ کیا کچھ حاصل بھی ہو گا یا نہیں؟
ایسے لوگوں کے جواب میں قرنِ مجید فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ يُّهاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَة۔‘‘ ’’اور جو بھی راہِ خدا میں ہجرت اختیار کرتا ہے ‘ وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور وسعت پاتا ہے۔‘‘( سورہ نسا ٤۔یت ١٠٠ )
دنیا اسکے لئے پرواز کا ایک کھلاسمان ثابت ہوتی ہے‘ اور وہ زادی کے ساتھ اس میں پرواز کرتا ہے۔ نظامِ جاہلی میں ہم کتنا ہی اونچا اُڑ تے‘ پنجرے سے اونچا نہیں اُڑ سکتے تھے ‘ لیکن اب ایک حیرت انگیز وسیع و عریض افق ہمارے سامنے ہے ۔ اسلام کے ابتدائی دورکے بیچارے مسلمان مسجد میں بڑی مشکل سے نماز پڑھ پاتے تھے‘ اگر جذبہ ایمانی زیادہ ہی جوش مارتا تو مسجد الحرام میںدو رکعت نماز ادا کرپاتے ‘ اسکے بعد اُنہیںبُری طرح زدو کوب ہونا پڑتا ۔}اُس دور میں{یہی مسلمانی کی انتہا تھی ‘ اس سے زیادہ نہیں۔لیکن جب ان لوگوں نے ہجرت کی اور زاد
سر زمین میں ‘ اسلامی معاشرے اور ولایت ِالٰہی کے تحت زندگی بسر کرنے لگے ‘ تو دیکھا کہ یہ ایک عجیب جگہ ہے : يُسَارِعُوْنَ فِی الْخَيْرٰتِ۔(۵)
یہاں پر لوگوں کا مقام ومرتبہ یہ قرن اورتقويٰ اور عبادت کے ذریعے متعین اور معلوم ہوتا ہے۔ جو شخص راہِ خدا میں زیادہ جدو جہد اور زیادہ خدا کی عبادت انجام دے ‘ جہاد اورراہِ خدامیں خرچ کرے‘ وہ زیادہ بلند مرتبہ ہے۔ کل کے مکی معاشرے میں ‘ اگر کسی کو پتا چل جاتا کہ فلاں شخص نے راہِ خدا میں ایک درہم دیا ہے ‘ تو اسے گرم سلاخوں سے ایذا پہنچائی جاتی تھی ‘ شکنجوں میں کس کر اسے گ سے جلایا جاتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے راہِ خدا میں ہجرت کی‘ اور مدینۃ الرسول میں چلے ئے ‘ تو دیکھا کہ کیسی کھلی فضا اور پرواز کی جگہ ہے ‘ کس طرح انسان حسب ِ دل خواہ پرواز کر سکتا ہے:
وَ مَنْ يُّهاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَة(اورجو کوئی راہِ خدا میں اور الٰہی اور اسلامی معاشرے کی طرف ہجرت کرتاہے ‘ وہ بکثرت ٹھکانے پاتااور وسعتوں سے ہمکنار ہوتا ہے)
اب اگر تم نے راہِ خدا میں دار الکفر سے دار الھجرہ کی جانب حرکت کی ‘ اور درمیانِ راہ میں خدا نے تمہاری جان لے لی ‘ تب کیا ہوگا ؟
قرن کہتا ہے : اس وقت تمہارا اجر و پاداش خدا کے ذمے ہے ۔کیونکہ تم نے اپنا کام کر دیا‘ جو فریضہ تم پر واجب تھا اسے انجام دے دیا ‘اور تم نے حتيٰ الامکان کوشش اور جدوجہد کی ۔اسلام یہی چاہتا ہے ‘ اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان اپنی توانائی کے مطابق‘ جتنی وہ صلاحیت رکھتا ہے اتنی ‘ اور جتنی اسکی استطاعت ہے اتنی راہِ خدا میں جدوجہد کرے ۔
’’وَ مَنْ يَّخْرُجْ مِنْ بَيْتِه مُهاجِرًا اِلَی اِ وَرَسُوْلِہ ثُمَّ يُدْرِکْه الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُه عَلَی اِ وَ کَانَ اُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔‘‘ (۶)
توجہ رکھئے گا کہ کیونکہ یہ گفتگو ولایت کے موضوع پر خری گفتگو ہے ‘ یہ بحث تقریباً دھی باقی رہتی ہے ‘ لہٰذا ہم اِس نکتے کو عرض کرتے ہیں کہ ہجرت دار الکفر ‘ غیر خدا کی ولایت ‘ شیطان اور طاغوت کی ولایت سے دارالہجرہ ‘ دارالایمان ‘ولایت ِالٰہی کے زیرِ فرمان ‘ ولایت ِ امام کے زیرِ فرمان ‘ ولایت ِ پیغمبر اور ولایت ِ ولی الٰہی کے زیرِ فرمان سرزمین کی جانب ہوتی ہے ۔لیکن اگردنیا میں ایساکوئی خطہ ارضی موجود نہ ہو‘ تو کیا کیا جانا چاہئے ؟
کیا دارالکفرہی میں پڑے رہنا چاہئے؟
یا ایک دارالہجرہ ایجاد کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے ؟
خود پیغمبر اسلام ۰نے بھی ہجرت کی ۔لیکن پیغمبر ۰کے ہجرت کرنے سے پہلے ایک دارالہجرہ موجودنہیں تھا‘پ نے اپنی ہجرت کے ذریعے ایک دارالہجرہ ایجاد کیا ۔
کبھی کبھی یہ بات ضروری ہو جاتی ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنی ہجرت کے ذریعے دارالایمان کی بنیاد رکھے ‘ایک الٰہی اور اسلامی معاشرہ بنائے‘ اور پھر مومنین وہاں ہجرت کریں۔
حوالے ١۔ کیا تم نے ان لوگوں کاحال نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمت کو کفر انِ نعمت سے تبدیل کر دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے سپرد کر دیااور دوزخ جو بد ترین ٹھکانہ ہے ‘ اس میں جاپڑے ۔(سورہ ابراہیم ١٤۔یت٢٨‘٢٩)
۲۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے : خدا ایسی امت کو عذاب دینے میں شرم محسوس نہیں کرتا جو ایسے امام کی تابع ہو جو خدا کی طرف سے نہیں ‘اگرچہ وہ اپنے اعمال میں نیکو کار اور پرہیز گار ہو۔ بے شک خدا ایسی امت کو عذاب دینے میں شرم محسوس کرتا ہے جو خدا کی جانب سے مقرر کردہ امام کی تابع ہو‘ اگرچہ اپنے اعمال کے حوالے سے ظالم اور بدکردار ہو۔(اصول ِکافی ۔ ج٢۔ص٢٠٦)
۳۔وہ لوگ جو اپنے پ پر ظلم کررہے ہوتے ہیں ‘جب فرشتے اُن کی روح قبض کرتے ہیں‘ تو اُن سے پوچھتے ہیں: تم کس حال میںمبتلا تھے ؟وہ کہتے ہیں: ہم زمین میں لاچار بنا دیئے گئے تھے ۔فرشتے کہتے ہیں: کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میںہجرت کرجاتے ۔پس اِ ن لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترین منزل ہے۔(سورہ نسا ٤۔یت ٩٧)
۴۔اور معاملات وامورمیںان سے مشورہ کرو۔(سورہ لِ عمران٣۔یت١٥٩)
۵۔سورہ مومنون ٢٣۔یت٦١
۶۔اور جوکوئی خدا اور رسول کی جانب ہجرت کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اورراستے میں اسے موت جائے‘ تو اس کااجر اللہ کے ذمے ہے ۔اور اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔( سورہ نسا٤۔یت ١٠٠)